یادِ رفتگاں

مکرم دین محمد صاحب

ایک درویش صفت بزرگ

پیش لفظ

۱۹۳۵ء میں پیدا ہونے والے ٹوٹنگ جماعت کے ایک بزرگ مکرم دین محمد صاحب ہم سے رخصت ہو کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔یہی تو دستورِ حیات ہے۔کسی کو اس نظام سے مفر نہیں ہے۔ مرحوم کے شب وروز کومیں نے کئی سال بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔دنیا میں روزانہ ہم بیسیوں لوگوں سے ملتے ہیں۔ لیکن ہم اکثر کے چہرے فوراً بھول جاتے ہیں اور بعض کچھ تاخیر سے۔لیکن بعض چہرےاپنی کسی مخصوص اور امتیازی کردارکی وجہ سے ہمیشہ ہمارے دل ودماغ میں سما جاتے ہیں۔بھول جانے کی کوشش کے باوجود آپ انہیں بھول نہیں پاتے۔ مکرم دین محمدصاحب بھی کچھ ایسے لوگوں میں سے ہیںجو ہماری اس دنیا میں چلتے پھرتے ہوئے بھی کسی دوسری مخلوق کا وجود لگتے تھے۔ ان کےلباس کی سادگی،ان کی معصومانہ شکل وصورت،ان کا دست درکار دل بیار کا اسلوب، ان کا اوڑھنا بچھونا اور ان کی دنیا داری سے بے رغبتی کا وصف انہیںبہت نمایاں کردیتے ہیں۔

دو گز زمین چاہیے

کہتے ہیںایک بادشاہ اپنے کسی کارندے کے کسی کارنامے پر بہت خوش ہوا۔بادشاہ نے اس کارندے کو کہا کہ فلاں جگہ پر جاؤ۔صبح سے لے کے شام تک جتنے رقبہ کے گرد تم چکر لگا لووہ رقبہ تمہاری ملکیت بن جائے گا۔

وہ شخص چل پڑا۔ پہلے بڑے آرام سے چلتا رہا۔پھر سوچا اس طرح تو زمین کم ملے گئی،اس نے تیز چلنا شروع کردیا۔پھر سوچا مجھے دوڑنا چاہیے تاکہ مزید رقبہ مل سکے۔یہاں تک کہ وقت مقررہ قریب آگیا۔ سارے دن کے تھکا دینے والے سفرکی وجہ سے اس کا برا حال ہوگیا۔جب منزلِ مقصود پر پہنچا تو وہیں گرا اور ساتھ ہی اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی جہاں اس کی تدفین کردی گئی۔

لوگوں نے کہا دراصل اس شخص کو قبر کے لیے بس دو گز زمین ہی چاہیے تھی۔ باقی سب بھاگ دوڑ تو فضول تھی۔ ہم سب لوگ انجام سے باخبر ہوکر بھی کچھ ایسی ہی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔کاش ہمیں یہ بات سمجھ آجائے۔دراصل ہمیں بھی تو صرف دو گززمین ہی چاہیے۔

دین محمد صاحب اس راز سے آشنا تھے۔ ان کی داستانِ حیات اس کی ببانگ دہل گواہی دے رہی ہے۔سوچا اپنے اس دوست کا کچھ ذکر خیر ہوجائے۔ میرے لیےصدقہ جاریہ ہوجائے اور شاید کسی کے دل میں یہ بات اتر جائے۔کہتے ہیںدنیا ایک کھلی کتاب ہے،جسے پڑھ کر ہم اپنی راہیں متعین کرسکتے ہیں۔

دین محمد صاحب اپنے دوستوں کی نظر میں

ذیل میں چند دوستوں کے مکرم دین محمد صاحب کے بارے میں تأثرات پیش خدمت ہیں۔

٭…مکرم آصف احمد صاحب ناظم اعلیٰ انصاراللہ طاہر ریجن یوکے نے بتایا کہ دین محمد صاحب ان کے دادا جان کے چچا زاد بھائی تھے۔دین محمد صاحب کا تعلق مغل پورہ سے تھا۔مارچ ۱۹۳۵ءمیں مغل پورہ لاہور میں پیدا ہوئے،آپ کے والد محترم کانام مکرم جان محمد صاحب اور والدہ محترمہ کا نام حسن بی بی صاحبہ تھا۔آپ کے والد محترم اور دادا مکرم حاجی گلاب دین صاحب اور پڑدادا مکرم بوڑے خان صاحبؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔

پرندوں سے محبت

لندن کے مخصوص مقامات پر باقاعدگی کے ساتھ پرندوں کو دانہ وغیرہ ڈالا کرتے تھے۔

مغل پورہ لاہور میں مسجدکے لیے قربانی

مکرم آصف صاحب نے بتایا کہ وہ جماعت کی ہر مالی تحریک میں ہمیشہ ہی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ ہمارے آبائی شہر مغل پورہ لاہور کی مسجد میں کچھ کام کرنا تھا۔ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم سب خاندان والے مل کر اس کار خیر کو مکمل کرلیتے ہیں۔اس سلسلہ میں ہم نے دین صاحب سے بھی گزارش کی۔انہیں بتایا کہ خانہ خدا بھی آپ کے بزرگوں نے ہی تعمیر کیا تھا۔اب بھی آپ سے تعاون کی درخواست ہے۔اس پر آپ نے پانچ سو پاؤنڈز مسجد کے لیے بخوشی پیش کردیے۔

تعلیمی معیار

آپ نے ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم بھی لاہور ہی میں حاصل کی۔آپ نے ڈبل ایم اے اور ایل ایل بی کیا ہوا تھا۔

تعلیمی میدان کے شہسوار

میری مرحوم سے شناسائی ۲۰۰۱ءمیں ہوئی تھی۔مسجد میں ان سے ملاقات ہوتی رہتی۔انہیں دیکھ کر یہ احساس نہ ہوتا تھا کہ موصوف زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔۲۰۰۶ءمیں میری بیٹی کا نکاح ہونا تھا۔میں نے دین صاحب کا نام بطورگواہ لکھ لیا۔میں ان کے دستخطوں کے لیےان کےپاس حاضر ہوا۔انہوں نےجب نکاح فارمز پر اپنا نام اورایڈریس وغیرہ لکھا۔پھراپنے نام کے خانہ میں دین محمد ( ایم اے ایل ایل بی)بھی لکھا۔ان چند حروف نے اس درویش صفت کی علمیت کاراز بھی افشا کردیا۔یاد رہے۔یہ اعلیٰ تعلیمی ڈگری کوئی آجکل کی بات نہیں بلکہ ساٹھ سال پہلے کی بات ہےجب عام پاکستانی معیار تعلیم غالباًمیٹرک سے بھی کم ہواکرتا تھا۔

ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات

انہوں نے بتایا کہ مکرم دین صاحب بچپن سے ہی بہت نیک تھے۔نماز روزہ کا بہت اہتمام کرتے تھے۔

جھوٹ سے نفرت

آپ ہمیشہ سچ بولتے تھے۔جب آپ نے وکالت کا امتحان پاس کرلیاتووکالت کے شعبہ کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔کہتے تھے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اس پیشہ میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔اس لیے میں یہ کام نہیں کرسکتا۔

دونوں ٹکٹ پھاڑ دیے

٭…مکرم وسیم احمد صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ میں اور میرے بہنوئی ان کے ہاں مہمان ٹھہرے۔آپ نے دو بس پاس اپنے نام کے لے رکھے تھے۔ہم دونوں ان کے ٹریول پاس اپنے ساتھ لے گئے اور انہیں سفر کے لیے استعمال کرلیا۔جب اس بات کا دین صاحب کو علم ہوا تو آپ کو سخت دکھ ہوا۔انہیں ساری رات اس پریشانی میں نیند نہیں آئی۔اگلے روز علی الصبح ٹرانسپورٹ کے آفس گئے۔دوٹکٹ خریدے ادائیگی کی اور ٹکٹ پھاڑ دیے۔کہتے تھے کہ یہ بے ایمانی ہے۔

جج نے بری کردیا

ایک دفعہ آپ لندن میں کار ڈرائیو کررہے تھے۔اس دوران آپ کی کار کوحادثہ پیش آگیا۔جس کے لیے آپ کو عدالت میں طلب کیا گیا۔آپ نے جج کو بتایا کہ سچی بات یہ ہے کہ ڈرائیو کرتے ہوئے میری آنکھ لگ گئی تھی۔جج آپ کی حق گوئی سے اتنا متاثر ہوا کہ آپ کو باعزت بری کردیا۔

حج بیت اللہ کی سعادت

آپ نے اپنی زندگی میں شاذونادر ہی کوئی لمبا سفر کیا ہے۔ان میں سے ایک سفر حج بیت اللہ کے لیے تھا اور دوسرا سفر ۱۹۷۳ءمیں پاکستان کے لیے اختیار کیا۔اس کے علاوہ کبھی کہیں نہیں گئے۔

تلاش معاش

مکرم دین محمد صاحب بتایا کرتے تھے کہ وہ ۱۹۶۰ءکے قریب پاکستان سے لندن آگئےتھے۔یہاں آکر مختلف شعبہ جات میں کام کرتے رہے۔شعبہ ٹرانسپورٹ سے بھی کچھ عرصہ وابستہ رہے۔

٭…مکرم مظفراحمدمنصور صاحب (وکیل) سابق صدر جماعت ٹوٹنگ نے بتایا کہ جب میں انگلستان آیا تولندن کے علاقہ ٹوٹنگ میں رہائش اختیار کی۔اس دور میں بھی مکرم دین صاحب کا گھر نماز سنٹر کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔مکرم آفتاب احمد صاحب یوکے کےامیر تھے۔مقامی طور پر مکرم عبدالمالک انورصاحب ٹوٹنگ جماعت کے صدر تھے۔مکرم دین محمد صاحب بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق پارہے تھے۔اس دور میں ٹوٹنگ جماعت کی حدود ایک طرف Sutton تک تھیں جبکہ دوسری جانب Clapham تک ہوتی تھیں۔اب اسی جماعت کی بیس سے زائد جماعتیں بن چکی ہیں۔

مکرم دین محمد صاحب شروع سے ہی ایک درویش منش بزرگ تھے۔ان کا اوڑھنا بچھونا جماعت ہی تھی۔ہمہ وقت خدمت دین میں لگے رہتے تھے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ چونکہ احمدی احباب کے مکان بہت دور دورتھے۔ان تک پیدل پہنچنا خاصا مشکل کام ہوتا تھا۔مگر دین صاحب چندہ لینے کے لیے وہاں تک پہنچ جایا کرتے تھے۔

بسا اوقات ایک پاؤنڈ چندہ وصول کرنےکے لیے آمد و رفت پر تین تین پاؤنڈ بھی خرچ کردیتے تھے۔

اس وقت جماعت کے دو ہی مراکز ہوا کرتے تھے۔ایک تو مسجد فضل ہوتی تھی اور دوسری مسجدبیت السبحان ہوا کرتی تھی۔بعدازاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی اجازت سے بلال سنٹر میں نماز جمعہ اور نماز عید بھی شروع کردی گئی جو اس علاقہ کے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت بن گئی۔

بلال سنٹر کا نام اور اضافہ جات

یہ ۱۹۹۸ءکی بات ہےجب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ازراہ شفقت اس کو بلال سنٹر کا نام دیا۔

چونکہ یہ بلڈنگ رہائشی نقطہ نگاہ سے دیگر مکانوں کے مطابق بنی ہوئی تھی۔جب اسے نماز سنٹر بنادیا گیا تو پھر اس میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت تھی۔جس میں بہت سے احمدی بھائیوں کووقار عمل کرنے کی توفیق ملی۔لیکن بعض خاندانوں کو خصوصی خدمت کی سعادت نصیب ہوئی۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء

اس کارخیر میں حصہ لینے والے چند مخلصین کے اسماء کچھ یوں ہیں:

1.مکرم چودھری وسیم احمدصاحب

2.مکرم چودھری مبشر احمد صاحب

3.مکرم جمیل احمد صاحب

4.مکرم خلیل احمد صاحب

٭… چودھری پرویز احمد صاحب سابق صدر جماعت ٹوٹنگ نے بتایاکہ جب وہ پاکستان سے انگلستان منتقل ہوئےتوابتدائی طور پر وہ اپنی فیملی کے ہمراہ سکاٹ لینڈ چلے گئے۔بعدازاں چند سال وہاں قیام کے بعد ٹوٹنگ شفٹ ہوگئے۔

ان دنوں مکرم ڈاکٹر نسیم احمد صاحب یہاں صدرجماعت تھے۔ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ تحریک جدید کی وصولی کے سلسلہ میں مکرم دین صاحب کی معاونت کروں۔چنانچہ میں نے حامی بھر لی۔مکرم ڈاکٹر نسیم صاحب نے دین صاحب کو بتایا کہ میں تحریک جدید کی وصولی کے لیے ان کی مدد کیا کروں گا۔دین صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے رسید بک بھی دے دی اور کہا کہ کل صبح، فلاں وقت ہم چندہ کی وصولی کے لیے اکٹھے جائیں گے۔پرویز صاحب کہتے ہیں کہ مجھ سے سستی ہوگئی اور میں بروقت ان کے پاس نہ پہنچ سکا۔اگلے روز علی الصبح مکرم دین صاحب میرے گھر تشریف لے آئے۔ہم ابھی آرام کررہے تھے۔میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا باہر دین صاحب کھڑے تھے۔سخت ناراض لگ رہے تھے۔کہنے لگے آپ وعدہ کے مطابق کیوں نہیں آئے۔میں نے بہت معذرت کی مگر آپ نہیں مانے۔کہا کہ آپ رسید بک واپس کردیں۔میں آپ کی وجہ سے ساری رات نہیں سوسکا۔ہم سب نے بہت معذرت کی لیکن نہیں مانے۔الغرض رسید بک لے کر واپس چلے گئے۔لیکن اس کے بعد اللہ کے فضل سےمجھے بہت ساری ذمہ داریاں بطور جنرل سیکرٹری،،نائب صدر اور صدرسونپی گئیںجنہیں اللہ کے فضل سےمیں نے ہمیشہ ہی احسن رنگ میں نبھانے کی حتی الوسع کوشش کی جس کی وجہ سے مکرم دین صاحب خوش رہتے تھے۔اس پر میں یہی کہتا تھا کہ دین صاحب یہ آپ کی تربیت اور احساس ذمہ داری کو اجاگر کرنے کا ہی کمال ہے۔

٭… مکرم عبدالشکور صاحب کو کافی عرصہ مکرم دین صاحب کی صحبت میں وقت گزارنے کی توفیق ملی ہے۔کہتے ہیں دس بارہ سال مکرم دین صاحب کی رفاقت میں رہنے کا موقعہ ملا ہے مکرم دین صاحب کے بارے میں بہت ساری ایمان افروز یادیں ہیں۔

شکور صاحب نے بتایا کہ دین صاحب مرحوم بہت ہی نیک اور پارسا بزرگ تھے۔ میں نے اس نوع کا فانی فی اللہ بزرگ اپنی زندگی میں بہت ہی کم دیکھا ہے۔آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔مرحوم کا پورے علاقہ میں بسنے والے احباب جماعت کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں ایک رشتہ تھا۔کسی کے باپ،کسی کے دادا تو کسی کے نانا تھے۔مکرم دین محمد صاحب بہت دریا دل انسان تھے۔انہیں ہماری اس دنیا سے کوئی سروکار نہ تھا۔مکان خریدا پھر اسے خدا کی راہ میں وقف کردیا۔

عبادت و ریاضت

آپ کے شب وروز عبادت میں ہی گزرتے تھے۔میں نے انہیں اکثر نماز پڑھتے یاقرآن پاک کی تلاوت کرتے دیکھا ہے۔آپ کے پاس ایک چھوٹے سائز کا قرآن پاک ہوتا تھا۔اسے بڑے انہماک سے پڑھتے رہتے تھے۔کہتے ہیں ہر ماہ سات آٹھ بار دور مکمل کرلیا کرتے تھے۔ باوجود بڑی عمر کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی بڑے اہتمام سے رکھتے تھے۔

تعلیم القرآن

دین صاحب نے مجھے اور میرے بچوں کو بھی صحیح طور پر قرآن کریم پڑھنا سکھایا۔یہ بھی میرے سارے خاندان پر ان کا احسان ہے۔جب میں پاکستان سے آیا تو انگریزی سے نابلد تھا۔مکرم دین صاحب نے انگریزی سیکھنے میں بھی خاصی راہنمائی کی۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔آمین

نماز جمعہ بیت الفتوح میں

جمعہ کے روز بلال سنٹر میں نماز جمعہ ادا کرنے والوں کے لیے انتظامات کرکے خود بیت الفتوح تشریف لے جاتے۔اس کے بعد واپس بلال سنٹر تشریف لے آتے۔

آپ کو خدمت دین کا شوق تھا۔کسی عہدہ کے طلبگار نہ تھے۔ایک دفعہ انہیں کسی نمایاں خدمت کی وجہ سے ٹرافی کا حقدار قرار دیا گیا۔کہنے لگے میں تو اس قابل نہیں ہوں۔بلال سنٹر کی صفائی خود کرتے رہتے۔کئی کئی میل سفر کرکے لوگوں سے چندہ وصول کرتے۔بعض دفعہ کئی دوست کہہ دیتے،دین صاحب فلاں دن آجائیں۔آپ دوبارہ حسب وعدہ پہنچ جاتے۔بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے جب ان سے سیکرٹری مال کی ذمہ داری لے کر کسی اور کو دی گئی تو ہمیشہ کہتے کہ میں خدمت دین سے محروم ہو گیا ہوں۔افسوس ہوا خدمت کا موقع ختم ہوگیا ہے۔ ہومیو پیتھک کے ماہر تھے۔مریض کو دوا اور دعا بھی دیتے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں میں شفا رکھی ہوئی تھی۔دین صاحب ایک نادر وجود تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جنتوں کا وارث بنائے۔آمین

٭… مکرم عبدالباسط قیصر صاحب نائب صدر وجنرل سیکرٹری مچم جماعت بیان کرتے ہیںکہ میں ۱۹۹۸ءمیں پاکستان سے ہجرت کرکے اپنی فیملی کے ہمراہ لندن پہنچا۔میں نے ٹوٹنگ کے علاقہ میں رہائش اختیار کی۔احباب جماعت سے معلوم کرنے پر بلال سنٹر کا علم ہوا۔چنانچہ وہاں پہنچا۔جہاں پہلی بار مکرم دین صاحب سے ملاقات ہوئی۔علیک سلیک کے بعد تعارف ہوا۔بہت خوش ہوئے۔ان دنوں مکرم مظفر منصور صاحب صدر جماعت تھے۔ان سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے مجھے پاکستان میں جماعتی خدمات کے بارے میں پوچھا۔میں نے بتایا سیکرٹری مال نیز دیگر چند ایک تجربات کے بارے میں بتایا۔کہنے لگے آپ مکرم دین صاحب کے ساتھ مل کر ان کے شعبہ تجنید اور سیکرٹری مال کے امور میں معاونت کریں۔مکرم دین صاحب نے کمال شفقت سے مجھے سارے امور تجنید،وصولی چندہ جات،بینک اور سٹیٹمنٹ تیار کرنا سکھا دیا۔اللہ کے فضل سے اس وقت سے آج تک میں جس جماعت میں بھی گیا ہوں۔یہی خدمت بجا لانے کی توفیق ملی ہے ۔یہ سب مکرم دین صاحب نے سکھایا تھا۔

مشکل وقت میں مدد

جب میں پاکستان سے آیا تو میری رہائش گاہ بہت مختصر سی تھی۔میرے پاس سامان کافی تھا۔جس کی وجہ سے پریشانی تھی۔میں نے ایک روز دین صاحب سے اس بات کا ذکر کیا۔آپ نے فرمایا۔سامان میرے گھر لے آؤ۔میں سامان ان کے گھر لے گیا۔پھر یہ سامان چھ ماہ تک ان کے پاس بطور امانت رہا۔مجھے ان کا یہ احسان آج تک یاد ہے۔

ہمارے لیے مسیحا بن گئے

جب میں پاکستان سے آیا۔اس سے قبل میری اہلیہ کو کینسر کا مر ض تشخیص ہوا۔جس کی وجہ سے ہم لوگ سخت پریشان تھے۔مقامی علاج شروع کیا گیا۔اس کے علاوہ باقاعدگی کے ساتھ دین صاحب سے ہومیو پیتھک علاج کراتے رہے۔اللہ تعالیٰ نے معجزانہ شفادےدی۔میری فیملی میں جب بھی کوئی بیمار ہوتا ہم بلا جھجک جا کر دین صاحب سےدوائی لے آتے۔ہم سب اہل خانہ ان کی محبتوں کے لیے ہمیشہ ہی ان کے ممنون رہیں گے۔

الْمُؤمِنُ الْقَوِ یُّ خَیْرٌ …مِنَ المُؤمِنِ الضَّعِیْفِ

قیصر صاحب نے مزید بتایا کہ ایک مقامی اجتماع میں میوزیکل چیئر کا مقابلہ ہورہا تھا۔سب دوست باری باری باہر نکل گئے۔آخر میں صرف میں اور دین صاحب رہ گئے۔لیکن اس کے بعد میں ہار گیا۔اور دین صاحب باوجود مجھ سے کافی بڑا ہونے کے بھی کامیاب ہوگئے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر وہ بوڑھے اور کمزور لگتے تھے لیکن جسمانی لحاظ سے خاصے مضبوط تھے۔

مالی معاونت

جن دنوں میں پاکستان سے آیا تھا۔میری مالی حالت سب نئے آنے والے بھائیوں کی طرح قدرے کمزور ہی تھی۔چندہ کی وصولی کے لیے بہت دور دور تک سفر کرنا پڑتا تھا۔کیونکہ اس وقت اس جماعت کی حدود بہت دور تک تھیں۔اس لیےاس پر اخراجات بھی کافی ہوجاتے تھے۔مکرم دین صاحب کہتے تھےکہ اخراجات کے لیے پریشان نہیں ہونا۔وہ مجھ سے لے لیا کریں۔

٭… مکرم ناظم بٹ صاحب سابق صدر جماعت مچم نے بتایا کہ مکرم دین صاحب ایک بہت ہی بزرگ اور دعا گو انسان تھے۔وہ چلتے پھرتے ایک مشعل راہ تھے۔ جب میں پہلی بار ۲۰۰۰ء میں صدر جماعت منتخب ہواتو میں نئی ذمہ داری اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے خاصا پریشان تھا۔میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں دعا کے لیے بھی لکھا۔اور اپنی کمزوری اور ناتجربہ کاری کا اظہار بھی کیا۔حضوؒر نے حوصلہ افزائی فرمائی اور دعا ئیں بھی دیں۔الحمدللہ

چنانچہ میں نے ذمہ داری سنبھالی۔لیکن تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے خاصا پریشان رہا۔جس کی وجہ سے مرکز والے بھی کچھ نالاں ہوئے۔اس مسئلہ کے بارے میںمَیں نے مکرم دین صاحب کے پاس دعا اور راہنمائی کے لیے درخواست کی۔جس پر مکرم دین صاحب نے بہت ہی پیار اور محنت سے سارے مالی نظام،بینک کے معاملات اور رپورٹس کی تیاری کے بارے میں بتایا۔اس کے بعد میں نے ان کے بتائےہوئے طریق اور ان کی ہدایات کی روشنی میں عمل کرنا شروع کیا تو سارے مسائل خود بخود حل ہو گئے۔مکرم دین صاحب کو اس بات کی فکر تھی کہ بعض لوگ چندوں میں سستی دکھاتے ہیں۔ کسی کے گھر چندہ کے لیے تشریف لے جاتے اور اگر صاحب خانہ چندہ ادا نہ کرتے توآپ کو بہت تکلیف ہوتی۔

مکرم دین صاحب بہت ہی نیک انسان تھے۔قرآن پاک کے عاشق تھے۔حسب موقع فوری طور پر مطلوبہ آیت پیش فرمادیا کرتے تھے۔

قبولیت دعا

٭… مکرم محمداکرم صاحب نے دین صاحب کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ بیان کیا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا۔نومولود کے بارے میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس کا زندہ رہنا مشکل امر ہے۔ان کی اہلیہ ہسپتال میں تھیں۔سخت پریشانی کا عالم تھا۔جب یہ بات میری اہلیہ نے سنی تو انہوں نے کہا۔آپ فکر نہ کریں۔جاکر صدقہ دیں اور حضور انور کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھ دیں۔اللہ فضل کرے گا کیونکہ یہ بچہ وقف نو میں ہے ۔اللہ کے فضل سے اسے کچھ نہیں ہوگا۔ میں بلال سنٹر میں گیا،نماز ادا کی اور مکرم دین صاحب کی خدمت میں دعا اور دوا کی درخواست کی۔مکرم دین صاحب نے دوران نماز دعا کی پھر ایک دوائی بھی دی اور کہا کہ اللہ فضل کرے گا۔ہم نے بچے کو دوائی کھلا دی۔بچہ اللہ کے فضل سے بسرعت صحت مند ہو گیا۔الحمدللہ

بلال سنٹر چونکہ بہت ساری جماعتوں کا واحدمرکز تھا۔اس لیے آئے روز کئی ایک پروگرام جاری رہتے تھے۔علمی اور تربیتی پروگراموں میں ماؤں کے ساتھ بچے بھی آتے تھے جو چیخ و پکار کے علاوہ شرارتیں بھی کرتے تھے۔ بیرونی گیٹ کے قریب دین صاحب کی ڈاک ہوتی تھی۔ایک روز ایک بچی نے آپ کاایک خط پھاڑدیا۔جس پر فطری طورپر دین صاحب ناراض ہوئے۔پھر جلد ہی کہنے لگے کوئی بات نہیںاور اس سے درگزر کیا۔اس قسم کی باتیں روزمرہ کا معمول تھا۔

٭… مکرم محمد ظفراللہ احمدی صاحب نے بتایا کہ مکرم دین صاحب ہمیشہ ہی ہمارے گھر چندہ لینے کے لیے تشریف لاتے تھے۔میرے والد محترم مکرم دین صاحب کی اس بےلوث خدمت سے بہت متأثر ہوتے۔انہی دنوں میں،میں نے ڈرائیونگ سیکھی۔والد صاحب نے کہا کہ چندہ کے حصول کے لیے مکرم دین صاحب کو اپنی کار میں لے جایا کرو۔اس طرح مجھے کچھ عرصہ تک اس خدمت کی توفیق ملی۔میں نے ان کے ساتھ سفروں میں ہمیشہ انہیں ذکر الٰہی میں مصروف پایا۔میں نے انہیں بہت ہی نیک اور پارسا وجود پایا۔ اگر کوئی دوست کسی وجہ سے گھر پر نہ ملتے یا کوئی دوست وقت کی پابندی نہ کرتے تو اس وقت کے ضیاع پر انہیں سخت کوفت ہوتی اور اسے ناپسند کرتے تھے۔

تعویذ بنادیں

ایک روز میں ٹوٹنگ میں مکرم دین محمد صاحب کے ساتھ جارہاتھا۔رستہ میں ایک خاتون اپنی ایک بیٹی کے ہمراہ مل گئیں۔وہ جوان بچی مکرم دین صاحب کی شکل و صورت،لباس، شخصیت،ہیئت سے اس قدر متأثر ہوئی کہ اسے یہ محسوس ہوا کہ یہ کوئی بہت ہی خدا رسیدہ بزرگ ہیں۔وہ آپ کے پاس آئی اور بڑے ادب سے درخواست کی کہ مجھے کچھ مشکلات درپیش ہیںاس لیےکوئی تعویذ بنادیں۔ اس پر مکرم دین صاحب نے آسمان کی طرف اشارہ کرکے کہاجو مانگنا ہے اسی سے مانگو۔

٭… مکرم عبد الرزاق صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرم ومحترم دین محمد صاحب مرحوم سے میری شناسائی اس وقت سے تھی جب میں لندن آیا تھا مگر زیادہ قربت اس وقت شروع ہوئی جب ۲۰۰۵ء میں ٹوٹنگ میں رہائش اختیار کی۔ میں ٹوٹنگ براڈوے کے پاس ایک مکان میں رہائش پذیر تھا۔نماز کے لیے یہاں جایا کرتا تھا۔یہاں آپ نماز پڑھایا کرتے تھے۔آپ کی سادگی دیکھ کر ایک دن ان سے بات چیت شروع کی تو پتہ چلا کہ موصوف لاہور میں مغلپورہ جماعت سے ہیں اور لندن پڑھنے آئے تھے مگر پھر لندن نے اُن کو وطن واپس جانے نہ دیا۔ دین صاحب گلاسگو میں بھی رہے۔بس کنڈکٹری بھی کی۔بہت سے کام کیے۔بہت ہی سادہ اور فعال زندگی گزاری۔ایک لمبا عرصہ جماعت ٹوٹنگ کے سیکرٹری مال رہے۔ اور اس ذمہ داری کو اس قدر جانفشانی اور محبت سے نبھایا کہ لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئے۔سب لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ بلکہ ان کی محبت میں گرفتار تھے۔ان کے اخلاق اور ان کے پیار بھرے رویے پر اب بھی لوگ رطب اللسان ہیں۔میں ایک ماہانہ ادبی رسالہ اردو میں قندیل ادب ۲۰۱۳ءسے نکال رہا ہوں۔اس کی کاپی ہر ماہ مسجد دے کر آتا۔بہت ہی توجہ سے پڑھتے۔ اور بعض اوقات اچھی تجاویز سے بھی نوازتے۔ان کی انگریزی تو بہت ہی اچھی تھی۔ہر آدمی کو خلوص سے ملتے اور اس سے ہر قسم کا تعاون کرنے کی کوشش کرتے۔ہر جمعہ کو انڈر گرائونڈ ریل میں ہی مل جاتے۔دارالضیافت میں بھی جاتےوہاں بھی ملاقات ہوجاتی۔جمعہ کے بعد جلد واپس ہوجاتے۔آپ کے سر پر رومی ٹوپی اور لمبی داڑھی دور سے ہی آپ کو تلاش کرنے میں مدد دیا کرتی تھی۔چندہ جات کی وصولی میں جس قدر تند ہی، لگن اور محنت سے انہوں نے خدمت کی اس کی اور کوئی مثال نہیں۔نیک اور باکردار احمدی کا آپ ایک سمبل تھے۔مسجد کے لیے اپنی ساری عمر کی پونجی، مکان جماعت کے نام کروادینا یہ انہی کا حوصلہ تھا۔اور ایسی عظیم قربانی کرنے والے لوگ انگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں۔دین صاحب نہایت پارسا اور تقویٰ شعار تھے۔ بہت نرم طبیعت اور حلیم شخص تھے۔بہت دینی علم رکھتے تھے اور قرآن کا بہت سا حصہ زبانی یاد تھا۔جماعت اور خلفاء سے حددرجہ اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین

اپنی اولاد پر یا دیگر دنیاوی تکالیف پر صبروبرداشت کرنا بھی ان کا شیوہ تھا۔ آپ صبرو برداشت کے کوہِ فراز تھے۔ سچائی، بھلائی،اچھائی ان کا شیوہ تھا۔انہیں دور سے دیکھ کر کسی فرشتے کا گمان ہوتا تھا۔آپ سادگی اور بندگی کے مجسم تھے۔قریباً پچاسی سال کی زندگی فعال اور مستعد گزاری اور لوگوں کے لیے ایک مثال بنے۔اے اللہ تو ایسے لوگوں کو اپنے سائے میں رکھنا۔اور ہمیں بھی اچھے لوگوں کی طرح کامیاب رکھیو۔ آمین

٭… مکرم طاہر قادر صاحب سابق صدر بالہم جماعت بیان کرتے ہیں کہ مکرم ومحترم دین محمد صاحب مرحوم سے میری شناسائی اس وقت سے ہے جب میں ستر کی دہائی میں لندن آیا تھا مگر زیادہ قربت اس وقت شروع ہوئی جب ۱۹۸۱ءکے وسط میں،میں نے ٹوٹنگ میں اپنی رہائش اختیار کی۔میں خود ان سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر گیا کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ موصوف جماعت ٹوٹنگ کے سیکرٹری مال ہیں اور ساتھ تجنید کی ذمہ داری بھی ان کے پاس ہے۔ نہایت خندہ پیشانی سے مجھے ملے اور دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہے۔اس وقت سے ہی ہماری دوستی کا آغاز ہوا جوکہ ان کے مرتے دم تک رہا۔ اس زمانے میں ٹوٹنگ کی جماعت علاقائی طور پر کافی بڑی تھی اور بعد میں چار جماعتوں یعنی ٹوٹنگ، ٹوٹنگ براڈوے، ٹوٹنگ بیک اور بالہم میں تقسیم ہوگئی۔ دین صاحب بہت محنت اور لگن سے جماعتی کام کیا کرتے تھے، ہر احمدی کے گھر خود چل کر جاتے اور چندہ وصول کرتے تھے۔ اگر کسی نے کہہ دیا کے اس وقت میرے پاس نہیں ہے اور بعد میں آکر لے جائیں تو پوچھتے کہ کب آؤںاور پھر اگلی دفعہ اسی وقت اس کے پاس پہنچ جاتے۔ میں خود بھی جماعت ٹوٹنگ کا جماعتی عہدیدار رہا ہوں اور دین صاحب کے ساتھ مل کر جماعتی خدمات سر انجام دیتارہا۔ بعد میں جب ٹوٹنگ جماعت کی تقسیم ہوئی تو مجھے بطور صدر،جماعت بالہم کی خدمت کا سترہ سال تک بفضلہ تعالیٰ موقع ملتا رہا۔ الحمد للہ

دین صاحب کے ساتھ کافی دوستی تھی اور جب بھی مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو اکثر اپنی زندگی کے واقعات سنایا کرتے تھے۔ دین صاحب خاصے پڑھے لکھے انسان تھے اور پاکستان سے وکالت کرکے لندن میں مزید وکالت پڑھنے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنی اوائل عمر کی تصاویر بھی دکھلائیں جن میں وہ بہت سمارٹ نظر آتے تھے۔ ایک واقعہ انہوں نے مجھے سنایا کہ انہیں پرانے سکے اور بانڈز جمع کرنے کا بہت شوق تھا، وہ ہر وقت اسی لگن میں رہتے تھے۔ ان کے پاس بعض سکے تو بہت انمول تھے یعنی صدیوں پرانے جو کہ بہت گرانقدر تھے۔ اس کے علاوہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سکے اور ملکہ وکٹوریا کے عہد کے سکے اور بانڈز تھے۔ چونکہ فطرتاً بہت نیک سیرت تھے ایک دن بیٹھے بٹھائے خیال آ یا کہ اس دیوانہ شغل کی وجہ سے گمراہ کن خیالات پیدا ہو رہے ہیں جو مجھے اللہ سے دور لےجا رہے ہیں اور میں ہر گز ایسا نہیں چاہتا ہوں۔انہوں نے ان سب سکوں اور بانڈز کو ایک صندوقچیمیں ڈالااور پیدل ہی دریا ئے تھیمزکی طرف چل پڑے اورالبرٹ برج کے اوپر کھڑے ہو کر صندوقچی کودریا میں پھینک دیا اور سکون سے گھر آگئے اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔

غالباً۱۹۹۰ءکی بات ہے میں ٹیلیویژن کی ایک کمپنی سے منسلک تھا۔ دین صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں ہے اور میرے بچوں کی خواہش ہے کہ ہمارے گھر میں بھی ٹی وی ہونا چاہیے ۔ میراگھر دین صاحب کے گھر سے زیادہ دور نہ تھااور ان کے کہنے پر میں نے گھر میں موجود ایک بڑے سائز کے ٹی وی کو اپنی کار میں رکھا اور مغرب کی نماز سے قبل ان کے گھر پہنچا دیا۔ گھر کے اندر سے آ نے والی آوازوں سے اندازہ ہوا کہ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور میں اطمینان سے اپنے گھر کی طرف لوٹ آیا۔اگلی صبح فجر کے وقت دروازہ پر دستک ہوئی میں قدرے حیران ہوا کہ اس وقت کون ہو سکتا ہے، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دین صاحب نے وہی ٹی وی ایک wheel-barrow میں رکھا ہوا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اپنا یہ ٹی وی واپس لے لیں، میرے استفسار پر کہنے لگے کہ اس کے آنے سے بچے نمازوں سے غافل ہورہے تھے اس لیے میں نے سوچا کہ اس شیطانی شے کو واپس کردوں تاکہ ان کی توجہ اللہ کی یاد کی طرف رہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ اتنی صبح ٹی وی میری طرف لارہے تھے تو ٹوٹنگ براڈوے سٹیشن کے قریب پولیس نے انہیں روک لیا اور وجہ پوچھی۔ دین صاحب نے پولیس والوں کو ایک تبلیغی لیکچر دیا اور بتایا کہ کس طرح یہ ایک شیطانی چیز ہے جو اللہ سے دور رکھتی ہے۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ دین صاحب نے اپنا پورا مکان جماعت کے تصرف میں دے دیا اور اپنے رہنے کے لیے صرف ایک کمرہ رکھا۔یہ صرف اس لیے کیا کہ جماعت کا سنٹر بنے گا اور نمازیں ہوں گی تو اس سے ممبران کی اچھی تربیت ہوگی۔حتی الوسع خود ہی امامت کرواتے رہے۔ اس نماز سنٹر میں مختلف تنظیموں کے اجلاسات وغیرہ بھی منعقد ہوتے رہے اور یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

٭… مکرم امجد بٹ صاحب بیان کرتے ہیں۔ہم تاریخ اسلام میں صحابہ کرامؓ کی جاںنثاری کے واقعات پڑھا اور سنا کرتے تھے کہ کس طر ح صحابہ کرام خدا کی راہ میں مالی قربانی کرتے تھے۔خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نبی اکرمﷺ کی مالی تحریک پر گھر کا سب سازوسامان لے آئے تھے۔یہی مثال ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دین صاحب کی زندگی میں دیکھی ہے۔اپنا سب کچھ خدا کی خاطر پیش کردیا۔اور خود نمک مرچ کھا کر قوت لا یموت پر ہی گزارہ کرلیتے تھے۔

میں نے مکرم دین صاحب کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔وہ بڑے پیار اور حکمت سے احباب جماعت کی تربیت میں لگے رہتے۔ایک بار میں نماز کے لیے مسجد میں گیا۔مسجد میں صرف دین صاحب اور خاکسارہی تھا۔میں اپنی لاعلمی کی وجہ سے نماز باجماعت کے لیے امام کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔مجھے فرمانے لگے۔مقتدی کو امام کے دائیں طرف کھڑے ہونا چاہیے۔

نمک مرچ

کئی دوستوں نے یہ بات بتائی کہ وہ اکثر نمک مرچ سے ہی کھانا کھا لیا کرتے تھے۔یہ مالی کمزوری کی وجہ سے نہیں کرتے تھے۔کیونکہ کوئی بھی جماعتی مالی قربانی کی تحریک ہوتی تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ساری آمد خدا کی راہ میں صرف کرنے کی کوشش کرتے تھے۔دراصل اپنی ذات پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

مہدی کے ملنگ

مکرم دین محمد صاحب کی نوع کے ایک بزرگ گیمبیا میں مکرم علی بایو صاحب رہتے تھے۔بڑی علمی اورعملی شخصیت تھے۔عربی زبان میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔لیکن ان کی ظاہری حالت سے احساس ہوتا تھا کہ یہ کسی اور ہی دنیا کا باسی ہے۔ان کا گاؤں ڈانفا کنڈا، بصے نامی قصبہ سے دو میل دور ہوگا۔ہر جمعہ کے روز باقاعدگی کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لاتے۔میری عدم موجودگی میں نماز جمعہ بھی ادا فرماتے۔ان کی سادگی کا اندازہ آپ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ میں نے ان کو ہمیشہ ہی برہنہ پا دیکھا ہے۔اگر چہ ان کی مالی قربانی بفضل تعالیٰ خاصی نمایاں ہوتی تھی۔آج اللہ کے فضل سے ان کے بیٹے مکرم ابراہیم بایو صاحب مسرور سینئر سیکنڈری سکول کے پرنسپل ہیں۔

چندہ ہر چیز پر مقدم

٭… مکرم ماجد امتیاز احمد صاحب نے بتایا کہ جب کبھی چندہ کے لیے ہمارے گھر تشریف لاتے۔ہم ان کی خدمت میں کوئی چیز پیش کرتے۔ہمیشہ ان کااصرار ہوتاپہلے چندہ ادا کریں۔پھر کوئی اور بات ہوگی۔

بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین کی وصیت

٭… مکرم امجد بٹ صاحب سابق صدر جماعت اپر مچم،بتاتے ہیں کہ ایک روز مسجد میں گیا تو دین صاحب کہنے لگے،بٹ صاحب ،جب میں وفات پا جاؤں تو میری میت کو پاکستان لے جانے کے لیے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں۔کہتے ہیں میں نے درخواست کی میں تو اس جماعت کا صدر نہیں ہوںممکن ہے انتظامی مشکلات ہوں۔انہوں نے پھر یہی بات مکرم شکیل احمد صاحب ریجنل امیر کی موجودگی میں دوہرائی۔جس کی وجہ سے مکرم بٹ صاحب نے یہ ذمہ داری قبول کرلی۔

وصیت کا حق ادا کردیا

مکرم دین صاحب نے اپنی زندگی میں اپنے چندہ جات،وصیت کا حصہ آمد اور حصہ جائیداد ادا کرکے ساری رسیدات تیار کررکھی تھیں۔اور اپنی تجہیز وتکفین کے سارے اخراجات بھی تیار کررکھے تھے۔

بلال سنٹر

دین صاحب کی رہائش بھی اسی مکان کی اوپر والی منزل پر تھی۔یہاں کوئی خادم مسجد نہ تھا۔روزانہ ہی یہاں پنج وقتہ نماز کے علاوہ،مچم جماعت،اپر مچم جماعت،بالہم جماعت،ٹوٹنگ جماعت کے اجلاسات،بچوں کی گیمیں،لجنہ اماء اللہ کے اجلاسات اور قرآن کلاس۔الغرض ہر روز کئی پروگرام ہوتے تھے۔جس کے لیے بار بار آپ کو نیچے آکر دروازہ کھولنا پڑتا تھا۔باربار سیڑھیاں استعمال کرنی پڑتیں۔مجھے گیمبیا میں ایک طویل عرصہ خدمت دین کی سعادت ملی۔وہاں بہت سارے مبلغین کرام تشریف لائے ہر کسی نے اپنے اپنے رنگ میں خدمت کی توفیق پائی۔وہاں ایک دوست مکرم عبدالحمید چھینہ صاحب بھی تشریف لائے۔جو مستری تھے۔تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیںجماعت کی مسجد بیت السلام میں ایک ایسا مینار بنانے کی توفیق دی کہ جو کئی میل دور سے نظر آجاتا ہے۔اس طرح میں کئی دفعہ سوچتا تھاکہ جماعت احمدیہ کا اتنا پیغام شایدہم مربیان نہ پہنچا سکے ہوں جتنامکرم حمید صاحب کا تعمیر کردہ یہ مینار پہنچارہا ہے۔

مکرم دین محمد صاحب کی زندہ جاوید قربانی

کچھ ایسا ہی عظیم الشان کارنامہ مکرم دین محمد صاحب نے اپنے گھر کوخانہ خدا بنا کر سرانجام دیا ہے۔

مکرم دین صاحب نے ۱۹۶۶ء میں ٹوٹنگ ٹیوب سٹیشن کے قریب ہولی سٹریٹ میں ایک مکان خریداجس میں وہ اپنی فیملی کے ہمراہ رہتے تھےاور پھر اس مکان کے ایک حصہ کو نماز سنٹر بنادیا۔اس دور میں پورے لندن میں فضل مسجد اور کرائیڈن کی مسجد بیت السبحان کے علاوہ یہ بھی نماز سنٹر بن گیا۔بعدازاں مکرم دین صاحب نے ۲۴؍ستمبر۱۹۹۸ء کو باقاعدہ اس مکان کا بیشتر حصہ جماعت کے لیے وقف کردیاجس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اس کو بلال سنٹر کا نام دیا۔بعد ازاں ۲۵؍اگست ۲۰۲۰ء کو مکرم دین صاحب نے اس گھر کو مکمل طور پر جماعت کے نام منتقل کر دیا۔ اس سنٹر میں پنجوقتہ نمازیں ہوتی ہیں۔نماز جمعہ کا باقاعدگی سے اہتمام ہوتا ہے۔ماہ رمضان میں باقاعدہ درس اور تراویح کا انتظام ہوتا ہے۔سب قریبی جماعتوں کے خدام،انصار،اطفال اور لجنہ کے جملہ پروگرام یہاں منعقد ہوتے ہیں۔سب جماعتوں کے مقامی اجتماعات بھی یہیں ہوتے ہیں۔

نمازبا جماعت کا آغاز

ابتدا میں اس سارے علاقہ میں دور دور تک ایک ہی جماعت تھی۔مرکز کے قریب رہنے والے احباب یہاں نمازیں ادا کرلیا کرتے تھے۔مکان کو نماز سنٹر بنانے کے لیے،حسب ضرورت اس میں بہت سارا کام درکار تھا۔جس کے لیے چند احمدی دوستوں نے دن رات بہت محنت سے کام کیا۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے آمین

جماعتی میٹنگز

یہ مرکز علاقہ بھر کی جماعتوں کا واحد مرکز تھا۔اللہ کے فضل سے ابھی تک مندرجہ ذیل جماعتیں ادھر ہی پنجگانہ نمازیں،نماز جمعہ،نماز تراویح اوردیگر جماعتی پروگرام کرتے ہیں۔ان جماعتوں کے نام کچھ یوں ہیں۔ٹوٹنگ، ٹوٹنگ بیک ، ٹوٹنگ براڈوے،برنٹ ووڈبالہم اپر مچم۔

اجتماعات

ان سب مذکورہ بالا جماعتوں کے اطفال،خدام،انصار کے اجتماعات یہیں ہوتے تھے۔مزید برآں لجنہ اور ناصرات کے اجتماعات بھی باری باری ادھر ہی منعقد ہوتے تھے۔

مسجد کے ہال میں انصاراللہ کی ترجمہ قرآن کلاس ہوتی ہے۔اسی طرح لجنہ کی بھی ہفتہ وار کلاسز کا انتظام ہوتا تھا۔اجتماعات اور دیگر اوقات میں بھی خدام اور اطفال کے لیے ان ڈور گیمز کا انتظام ہوتا تھا۔جس میں اطفال اور خدام نمازوں کے بعد ان سے استفادہ کرلیتے تھے۔مختلف جماعتوں کے اجتماعات یہاں منعقد کیے جاتے ہیں۔جس میں علمی مقابلہ جات تلاوت قرآن پاک،نظم اور تقریربھی ہوتے تھے۔ان مقابلہ جات میں اکثر مکرم دین صاحب ہی جج ہوا کرتے تھے۔

بلال سنٹر کے چند شیریں ثمرات

اس روحانی مرکز کی آغوش میں پلنے والی خوش نصیب روحیں جنہیں اپنی زندگیاں وقف کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور آج بفضلہ تعالیٰ بطور مربیان سلسلہ خدمت دین کے جہاد میں سرگرم عمل ہیں۔

٭…مکرم عثمان شہزاد بٹ صاحب ابن مکرم امجد شہزاد بٹ صاحب

٭…مکرم محمد احمد خورشید صاحب ابن خاکسارمنوراحمد خورشید

٭…مکرم فرہاد احمد صاحب ابن مکرم چودھری پرویز احمد صاحب

٭…مکرم توقیر احمد صاحب ابن مکرم تنویر احمد صاحب

٭…مکرم زرتشت لطیف احمد صاحب ابن مکرم رانا عبداللطیف احمد صاحب مرحوم

٭…مکرم راحیل احمد صاحب ابن مکرم محمداکرم صاحب

٭…مکرم منان سلام صاحب ابن مکرم عبدالسلام صاحب

٭…مکرم عمران سلام صاحب ابن مکرم عبدالسلا م صاحب

بلال سنٹر کی آغوش میں پلنے والے طلبہ جامعہ احمدیہ یوکے

٭…مکرم ظافر احمد صاحب ابن مکرم ناصر احمدصاحب

٭…مکرم عامرشہزاد صاحب ابن مکرم رانا عبد اللطیف احمد صاحب مرحوم

٭…مکرم رضوان شہزاد صاحب ابن مکرم امجد شہزاد بٹ صاحب

مکرم دین صاحب کا سفر آخرت

بندگان خدا خدا نہ باشد

لیکن از خدا، جدا نباشد

مارچ ۲۰۲۲ءکا دن ہے۔آج ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بہت ہی پیارے،محسن،مخلص اور فانی فی اللہ بزرگ دوست کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی آغوش میں اتار دیا ہے۔ان کے اس طرح چلے جانے سے،ٹوٹنگ کے علاقہ سے عاشق احمدیت،صدق ووفا کا ایک دیوانہ دوسری دنیا میں جا بسا ہے۔جس نے جان و مال وآبرو حاضر ہیں تیری راہ میں کی تصویر میں حقیقی رنگ بھر دیے۔

کورونا کے پُرآشوب دور میں نمازیوں کا ہجوم

مکرم دین صاحب کے جنازہ میں تین سو کے قریب حاضرین شامل ہوئے۔جن میں خورد وکلاں شریک تھے۔یہاں تک کہ بعض معذور دوست وہیل چیئرز پربھی تشریف لائے ہوئے تھے۔جب سے کورونا کی وبا پھیلی ہے۔اس قدر بڑا جنازہ میں نے اس بیماری کے ایام میں نہیں دیکھا ۔

دکھاوا نہیں، جنازہ تھا

دین صاحب کے جنازہ میں مرحوم کے کسی بھی قابل ذکر عزیز کولوگ نہیں جانتے تھے۔یہ سب لوگ صرف اورصرف مرحوم سے عقیدت اور محبت کی وجہ سے ہی آئے ہوئے تھےاور جنازہ کے لیے شرکاء کا فی دور دور سے آئے ہوئے تھے۔ان سب شاملین نے مکرم دین صاحب کی ذات اور ان کے وقف شدہ بلال سنٹر سے کسی نہ کسی رنگ میں استفادہ کیا ہوا تھا۔جس کی وجہ سے ان کی زبانیں، چہرے دین صاحب کے بارے میں نیک جذبات کی غمازی کررہے تھے۔

آوازخلق کو نقارہ خدا سمجھو

ان سب شاملین کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔یہی سنا گیا۔یہ انسان ولی اللہ تھا۔ یہ ایک فرشتہ تھا۔کوئی کہہ رہا تھا کہ اس قدر نیک انسان میں نے شاید ہی دیکھا ہو۔

مکرم شکیل احمد صاحب ریجنل امیر نے جنازہ سے قبل چند جملوں میں ایسے خوبصور ت الفاظ میں مرحوم کو خراج تحسین پیش کیا۔جسے کہتے ہیںکہ دریا کو کوزہ میں بند کردیاہے۔ الغرض ہر کوئی دل کی عمیق گہرائیوں سے مرحوم کو خراج تحسین پیش کررہاتھا۔

اتفاق ہےیا حُسن اتفاق

میری بائیں ہاتھ کی ایک انگلی کو کچھ مرض لا حق ہے۔جس کی وجہ سے خاصی پریشانی بنی ہوئی ہے۔عرصہ تین ماہ کے بعد کوئین میری ہسپتال میں ڈاکٹر کے ساتھ وقت ملا۔ لیکن اسی روز دین صاحب کی نماز جنازہ تھی ۔میں بہت پریشان ہوا۔لیکن ہسپتال جانا بھی بہت ضروری تھا۔کیونکہ کافی عرصہ کے بعد بڑی مشکل سے اپائنٹمنٹ ملی تھی۔میں اپنے بیٹے عطاء القدیر اور اہلیہ کے ہمراہ ہسپتال پہنچا۔حسن اتفاق یہ ہوا کہ سیکرٹری نے بتایا کہ آپ کی اپائنٹمنٹ تو کینسل ہوچکی ہے۔میں نے وجہ پوچھی مگر جواب ندارد۔

میں نے بیٹے سے کہا۔چلو جنازہ کے لیے چلیں۔وہاں سے قبرستان خاصا دور تھا۔ہم لوگ سیدھے قبرستان پہنچ گئے۔لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھئے۔ سب لوگ صفیں باندھے تیار کھڑے ہیں۔مکرم نثار آرچرڈ صاحب نے ازراہ شفقت مجھے اور دیگر چند دوستوں کودین صاحب کا چہرہ دیکھنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔اس طرح چہرہ دیکھنے کے علاوہ نماز جنازہ پڑھنے اورتدفین کے جملہ مراحل میں شمولیت اور قبر پردعا کی سعاد ت مل گئی۔الحمد للہ

دین صاحب کا چہرہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ بالکل صحت مند ہیں۔ان کا چہرہ بہت کھلا کھلا اور اجلا اجلا لگ رہاتھا۔کئی دوستوں کی زبان سے یہ بھی سنا کہ ان کے سفر آخرت پر ان کے چہرہ پر بہت زیادہ نور تھا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

گر نہ بخشد خدائے بخشندہ

آخر میں دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت میں اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔آمین

٭…٭…٭

انتساب

خاکسار اپنی یہ ادنی سی کاوش، اپنے دادا حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام منسوب کرتا ہے۔جن کی قربانیوں کے طفیل ہمیں احمدیت کی نعمت عظمٰی نصیب ہوئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button