از افاضاتِ خلفائے احمدیت

نظامِ شوریٰ (قسط4)

(’م م محمود‘)

سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں

بحث برائے بحث نہ ہو

’’بعض دفعہ شوریٰ میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پرانے ممبران بھی جب بحث شروع ہوتی ہے تو بلا وجہ اپنی رائے دینے پر زور دیتے ہیں اور بحث برائے بحث شروع ہوجاتی ہے۔ حالانکہ وہی بات ان سے پہلے آئے ہوئے ایک شخص نے کر دی ہوتی ہے جس کو دوبارہ دہرایا جاتا ہے…….ہمارا شوریٰ کا جو نظام ہے وہ ایسا ہے اور ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ذہن میں رکھا جائے کہ ہم یہاں جو اکٹھے ہوئے ہیں اور ہمیں رائے دینے کے لئے بلایا گیا ہے ،خداتعالیٰ کے حکم سے بلایا گیا ہے اور خداتعالیٰ کی خاطر ہم اکٹھے ہوئے ہیں ۔ جماعت احمدیہ کا مقصد خداتعالیٰ کے پیغام کودنیا میں پہنچانا ہے اور اس کی خاطر ہم نے منصوبہ بندی کرنی ہے اور کرتے ہیں۔ تو جورائے دینی ہے وہ نہایت ایماندارانہ طور پر اور سوچ سمجھ کر دلائل کے ساتھ دی جائے اور اگر سمجھیں کہ یہ بات میرے سے پہلے کسی رائے دینے والے نے دے دی ہے تو پھر کھڑے ہوکر صاف کہہ دیں کہ ٹھیک ہے میں نے بحث کے لئے نام لکھوایا ہوا تھا لیکن چونکہ اس بارہ میں رائے کا اظہار ہو چکا ہے اس لئے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔اس طرح بلا وجہ شوریٰ کا وقت ضائع نہیں ہوتا اور وہی وقت کسی بہتر کام میں استعمال ہوسکتا ہے۔‘‘( خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ بھارت 29؍دسمبر2005ء، الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2006ءصفحہ16)

تقریر نہ ہو بلکہ مختصر الفاظ میں ٹھوس دلیل کے ساتھ جو آپ مشورہ دینا چاہتے ہیں وہ دیں

’’شوریٰ کا نظام ہمارا کوئی پارلیمنٹ کا نظام اس لحاظ سے نہیں ہے کہ ایک ہم نے رائے دے دی ،اُس پر ووٹنگ ہوگئی اور کسی رائے کے حق میں زیادہ ووٹ ہوں تو ضروری ہے کہ وہ قابلِ قبول بھی ہو۔ ہماری شوریٰ فیصلہ کرنے والی شوریٰ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشورہ ہے جو آپ خلیفۂ وقت کو پیش کر رہے ہیں۔اس لئے ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی رائے دیں اور بحث کرتے ہوئے یادرکھیں کہ ضرور اپنی بات منوانے کے لئے بات نہیں کرنی بلکہ دلیل سے بات کرنی ہے۔ تا کہ اگر میری رائے میں کوئی وزن ہو تو دوسرے اس کے حق میں اپنی رائے استعمال کر سکیں…….بعض رائے دینے والے ایسے بھی آتے ہیں ۔ بعض تو مقررین ہوتے ہیں جو تقریر زیادہ کرتے ہیں رائے اُس میں کم ہوتی ہے۔ تو اس سے بھی بچنے کی کوشش کریں کہ تقریر نہ ہو بلکہ مختصر الفاظ میں ٹھوس دلیل کے ساتھ جو آپ مشورہ دینا چاہتے ہیں وہ دیں۔ اور اگر اس سے پہلے کوئی مقرراپنی رائے اور مشورے کے حق میں دلیل کے ساتھ بات کر چکا ہے تو پھر جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے بلاوجہ کج بحثی میں نہیں پڑنا چاہیے۔ دوسرے کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔‘‘( خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ بھارت 29؍دسمبر2005ء الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2006ء صفحہ16)

خلیفۂ وقت کو یہ اختیار ہے کہ آپ کی رائے کو رد کردے

’’جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہمارے وسائل کم ہیں۔ لیکن ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے جو منصوبہ بندی ہم نے کرنی ہے اس لحاظ سے رائے دیا کریں اور میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ آپ رائے دے رہے ہیں خلیفۂ وقت کو، کہ یہ ہماری رائے ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں ۔ بعض دفعہ اکثریت کی رائے جو ہے وہ بھی یا بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ پورے کا پورا ایوان جو ہے شوریٰ کا اس کی بھی ایک رائے ہوتی ہے لیکن دونوں صورتوں میں خلیفۂوقت کو یہ اختیار ہے کہ آپ کی رائے کو رد کردے۔ آپ کے مشورہ کو رد کردے۔ کیونکہ یہ مشورہ ہے، فیصلہ نہیں ہے۔ تو اس لحاظ سے بھی نئے آنے والوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ شوریٰ کا مقصد مشورہ دینا ہے۔‘‘(خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ بھارت 29؍دسمبر2005ء، الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2006ءصفحہ16)

ممبرانِ شوریٰ کو فیصلہ جات پر عملدرآمد کروانے کے لئے مقامی جماعتی نظام کی مدد کرنی چاہیے

’’آپ شوریٰ کے نمائندے ہیں جماعت کی طرف سے۔ جماعت نے منتخب کر کے آپ کو بھجوایا ہے۔شوریٰ کے ممبر کی حیثیت سے آپ کا یہ عہدہ پورے ایک سال کے لیے ہے۔ اس لیے جو بھی فیصلے آپ شوریٰ میں کرتے ہیں ان کو آپ نے جماعتوں میں رائج بھی کرنا ہے ،لاگو بھی کروانا ہے۔ لیکن خود نہیں بلکہ جو بھی جماعتی نظام ہے اس کے تحت یہ کام کرنا ہے۔ امیر جماعت ہے یاصدر جماعت ہے یا دوسری انتظامیہ ہے اس کو بتاتے رہنا ہے کہ شوریٰ میں یہ فیصلے ہوئے تھے اور اس کے مطابق اس طرح کارروائی ہونی چاہیے…تربیت کے لیے جائزے لیتے رہنا چاہیے اور جیسا کہ میں نے کہا وہ جائزے اسی صورت میں لے سکتے ہیں جب آپ خود اپنے نمونے دکھارہے ہوں گے، اپنے نمونے قائم کر رہے ہوں گے۔ تو صرف یہ نہ سمجھیں کہ آپ کو شوریٰ کی نمائندگی کا ایک اعزاز مل گیا ہے اور بس کام ختم ہو گیا۔ یہ آپ پر ایک ذمہ داری ڈال دی گئی ہے جس سے آپ کی خود اپنی بھی اصلاح ہونی چاہیے اور دورانِ سال آپ کو جماعت کی ترقی کے لیے جو بھی منصوبے یہاں بنائے گئے ہیں ان پر عملدرآمد کروانے کے لیے مقامی جماعتی نظام کی مدد بھی کرنی چاہیے۔‘‘( خطاب برموقع مجلسِ مشاورت جماعتِ احمدیہ بھارت 29؍دسمبر2005ء ، الفضل انٹرنیشنل17؍فروری2006ء صفحہ16و11)

مجلسِ مشاورت کے لیے کیسے نمائندگان کا انتخاب کیا جانا چاہیے

’’حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ شَاوِرُوْا الْفُقَہَآءَ وَالْعَابِدِیْن (کنزا لاعمال جلد 2جزو 3کتاب الاخلاق حرف میم ’’المشورۃ‘‘نمبر7188 طبع ثانی 2004ء)کہ سمجھدار اور عبادت گزار لوگوں سے مشورہ کرو۔ اس لئے جماعت میں یہ طریق رائج ہے کہ ایسے لوگ جو بظاہر نظام جماعت کے پابند بھی ہوں، مالی قربانی کرنے والے بھی ہوں، عبادتیں کرنے والے بھی ہوں وہ مرکزی شوریٰ کے لئے اپنے میں سے نمائندے چنتے ہیں جو مجلس شوریٰ میں بیٹھ کر تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے مشورے دیتے ہیں یاد ینے چاہئیں… مشورہ دینے والے اپنی عقل اور سمجھ کے ساتھ ساتھ اپنے کسی خاص کام میں مہارت کے ساتھ ساتھ عبادت گزار بھی ہوں اور نیکیوں پر قدم مارنےوالے بھی ہوں، تقویٰ پر قائم ہوں تبھی ایسے مشورے ملیں گے جو قوم کے مفاد میں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنےوالے ہوں گے۔ اور ان مشوروں میں برکت بھی پڑے گی اور بہتر نتائج بھی برآمد ہوں گے…یہ بڑا مقدس ادارہ ہے اور نظام خلافت کے بعد نظام شوریٰ کا ایک تقدس ہے۔ اس لئے بظاہر سمجھدار اور نیک لوگ جو عبادت کرنے والے اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں اُن کو منتخب کرنا چاہئے اور جب ایسے لوگ چنو گے تبھی تم رحمت کے وارث بنو گے ورنہ دنیادار لوگ تو پھر ویسے ہی اخلاق دکھائیں گے جیسے ایک دنیا دار دنیاوی اسمبلیوں میں، پارلیمنٹوں میں دکھاتے ہیں۔ پس افراد جماعت کی طرف سے اس امانت کا حق جو اُن کے سپرد کی گئی ہے اس وقت ادا ہو گا جب تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے شوریٰ کے نمائندے منتخب کریں گے…یہ بات ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تُؤَدُّواالْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا(النساء 59)کہ امانتوں کو ان کے مستحقوں کے سپردکرو کیونکہ وہ نمائندے خلیفہ ٔوقت کو مشورہ دینے کے لئے چنے جاتے ہیں۔ آپ اپنی جماعتوں سے نمائندے چن کے اس لئے بھیج رہے ہیں کہ خلیفہ ٔوقت کو مشورہ دیں۔ اس لحاظ سے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ جو لوگ کھلی آنکھ سے ظاہرًانااہل نظر آ رہے ہوں ان کو اگر آپ چنیں گے تو وہ پھر شوریٰ کی نمائندگی کا حق بھی ادا نہیں کر سکتے۔ یا ایسے لوگ جو بلاوجہ اپنی ذات کو ابھار کر سامنے آنے کا شوق رکھتے ہیں وہ بھی جب شوریٰ میں آتے ہیں تو مشوروں سے زیادہ اپنی علمیت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ تو جماعتیں جب انتخاب کرتی ہیں تو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسے لوگوں کو نہ چنیں۔ تو یہ ہے شوریٰ کے ضمن میں ذمہ داری افراد جماعت کی کہ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے نمائندگان شوریٰ چنیں نہ کہ کسی ظاہری تعلق کی وجہ سے اور جس کو چنیں اس کے بارے میں اچھی طرح پر کھ لیں۔ اس کو آپ جانتے ہوں، آپ کے علم کے مطابق اس میں سمجھ بوجھ بھی ہو اور علم بھی ہو اور عبادت گزار بھی ہو۔ اور تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا بھی ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍مارچ2006ء،خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ158تا160)

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button