تعارف کتاب

سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب

(ابوسلطان)

تعارف

مسٹر سراج الدین پروفیسر ایف سی کالج لاہور پہلے مسلمان تھے پھر پادریوں سے میل ملاقات اور ان کے اعتراضات سے متاثر ہو کر عیسائی ہو گئے۔ وہ 1897ء میں قادیان پہنچے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہے۔ مختلف مسائل پر گفتگو کی اور پھر اسلام کی فضیلت کے قائل ہو گئے، نماز بھی پڑھنے لگے، لیکن جب لاہور گئے تو پھر پادریوں کے دام میں پھنس گئے۔ پھر عیسائیت اختیار کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں چار سوالات بغرض جواب ارسال کر دیے۔ ان چار سوالات کے جواب حضورؑ نے 22؍جون 1897ء کو رسالہ کی صورت میں شائع فرمائے۔

مضامین کا خلاصہ

فرمایا ہر چہار سوال مع جواب ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔

سوال نمبر1: عیسائی عقائد کے مطابق مسیح کا مشن اس دنیا میں بنی نوع انسان کی محبت کے لیے آنا اور نوع انسان کی خاطر اپنے تئیں قربان کر دینا تھا۔ کیا بانی اسلام کا مشن ان دونوں معنوں میں ظاہر ہو سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب: فرمایا: واضح ہو کہ اس سوال سے اصل مطلب سائل کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح عیسائیوں کے خیال میں یسوع مسیح اس لیے آیا تھا کہ گنہگاروں سے محبت کر کے ان کے گناہوں کی لعنت اپنے سر لیوے اور پھر ان ہی گناہوں کی وجہ سے مارا جاوے۔کیا اس لعنتی قربانی کا کوئی نمونہ گنہگاروں کی نجات کے لیے قرآن بھی پیش کرتا ہے یا نہیں؟ سو اس کے جواب میں میاں سراج الدین صاحب کو معلوم ہو کہ قرآن کوئی لعنتی قربانی پیش نہیں کرتا۔ بلکہ ہرگز جائز نہیں رکھتا کہ ایک کا گناہ یا ایک کی لعنت کسی دوسرے پر ڈالی جائے۔ قرآن شریف فرماتا ہے کہ لا تزر وازرۃ وزر اخریٰ (بنی اسرائیل:16)یعنی ایک کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھائے گا۔ پس عیسائیوں کا یہ اصول کہ خدا نے دنیا سے پیار کر کے دنیا کو نجات دینے کے لیے یہ انتظام کیا کہ نافرمانوں اور بدکاروں کا گناہ اپنے پیارے بیٹے یسوع پر ڈال دیا اور دنیا کو گناہ سے چھڑوانے کے لیے اس کو لعنتی بنایا۔ یہ اصول ہر ایک پہلو سے فاسد اور قابل شرم ہے۔ اگر میزان عدل کے لحاظ سے اس کو جانچا جائے تو صریح یہ بات ظلم کی صورت میں ہے کہ زید کا گناہ بکر پر ڈال دیا جائے۔ انسانی کانشنس اس بات کو ہر گز پسند نہیں کرتا کہ ایک مجرم کو چھوڑ کر اس مجرم کی سزا غیر مجرم کو دے دی جائے۔

روحانی فلاسفی کی روح سے گناہ کی حقیقت پر غور کی جائے تو اس تحقیق کے روح سے بھی یہ عقیدہ (کفارہ) فاسد ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ گناہ درحقیقت ایک ایسا زہر ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان خدا کی اطاعت اور خدا کی پرجوش محبت اور محبانہ یاد الٰہی سے محروم اور بے نصیب ہو۔ اس کا علاج قانون قدرت میں تین طور سے ہے ایک محبت، دوسرا استغفار اور تیسرا علاج توبہ ہے۔ یعنی زندگی کا پانی کھینچنے کے لیے تذلل کے ساتھ خدا کی طرف پھرنا اور اس سے اپنے تئیں نزدیک کرنا اور معصیت کےحجاب سے اعمال صالحہ کے ساتھ اپنے تئیں باہر نکالنا۔ اسی لیے خدا نے انسان کی جان کو پیدا کرکے اس کا نام روح رکھا کیونکہ اس کی حقیقی راحت اور آرام خدا کے اقرار اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں ہے اور اس کا نام نفس رکھا۔ یہی انسان کا جنت ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرکے اللہ جل شانہ فرماتا ہے یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ وَادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ۔

گناہ کو دور کرنے کا علاج

فرمایا غرض گناہ کو دور کرنے کا علاج صرف خدا کی محبت اور عشق ہے۔ لہٰذا وہ تمام اعمال صالحہ جو محبت اور عشق کے سرچشمہ سے نکلتے ہیں گناہ کی آگ پر پانی چھڑکتے ہیں کیونکہ انسان خدا کے لیے نیک کام کر کے اپنی محبت پر مہر لگاتا ہے۔ پس وہ کیسے نادان لوگ ہیں جو کسی کی خودکشی کو گناہ کا علاج کہتے ہیں۔

کفارہ کے عقیدہ کے لیے مسیح کو لعنتی ماننا ضروری ہے

لغت کی رو سے کفارہ کے اصول کو جانچیں تو نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیوں نے یسوع مسیح کی وہ بے ادبی کی ہے جو دنیا میں کسی قوم نے اپنے رسول یا نبی کی نہیں کی۔ یسوع مسیح کا لعنتی ہو جانا گو دو تین دن کے لیے ہی سہی عیسائیوں کے عقیدہ میں شامل ہے۔ گو اس کفارے کے عقیدے کا شہتیر لعنت ہی ہے۔ کسی شخص کو اس وقت لعنتی کہا جاتا ہے جبکہ اس کا دل خدا سے بالکل برگشتہ اور اس کا دشمن ہو جائے۔ اس لیے لعین شیطان کا نام ہے۔ پس یسوع کی نسبت ایسا اعتقاد رکھنا گویا (نعوذ باللہ) اس کو شیطان کا بھائی بنانا ہے۔ پس جب کہ یہ بات باطل ہوئی کہ حقیقی طور پر یسوع مسیح کا دل مورد لعنت ہو گیا تھا تو ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایسی لعنتی قربانی بھی باطل اور نادان لوگوں کا اپنا منصوبہ ہے۔ اگر نجات اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ اول یسوع کو شیطان اور خدا سے برگشتہ اور خدا سے بیزار ٹھہرایا جائے تو لعنت ہے ایسی نجات پر!!!افسوس ہے کہ عیسائی ایک طرف تو یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا اور خدا سے ملا ہوا فرض کرتے ہیں اور دوسری طرف شیطان کا لقب اس کو دیتے ہیں۔ پس عیسائیوں کے عقیدے کی روسے یسوع میں دو قسم کی تثلیث پائی گئی ایک رحمانی اور ایک شیطانی۔

کفارہ اور کتب سابقہ

ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس لعنتی قربانی کی تعلیم یہودیوں کو بھی دی گئی ہے۔ کوئی عقلمند اس بات کو باور نہیں کر سکتا کہ خدا کا وہ ازلی ابدی قانون جو انسانوں کی نجات کے لیے اس نے مقرر کیا ہے، ہمیشہ بدلتا رہے۔ توریت کے زمانہ میں کچھ اور، انجیل کے زمانہ میں کچھ اور اور قرآن کے زمانہ میں کچھ اور۔ فرمایا: کئی یہودی فاضلوں کو خطوط لکھے گئے تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ نجات کے بارے میں توریت کی تعلیم بالکل قرآن کے مطابق ہے۔یوں ایک عاجز انسان کو خدا بنانا، اس پر پہلی تعلیموں کی گواہی نہ ملنا، نہ ہی عقل کی گواہی اور اس شخص کو خدا کابھی کہنا اور پھر شیطان کابھی۔ کیا ان گندی اور نا معقول باتوں کو ماننا پاک فطرت لوگوں کا کام ہے!!!

عقیدہ کفارہ کے اثرات

اس عقیدہ کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ باوجودیکہ تورات کی تعلیم کی مخالفت کی گئی اور ایک کا گناہ دوسرے پر ڈالا گیا پھر ایک راستباز کے دل کو لعنتی اور خدا سے دور اور مہجور اور شیطان کا ہم خیال ٹھہرایا گیا۔ پھر ان سب خرابیوں کے ساتھ اس لعنتی قربانی کو قبول کرنے والوں کے لیے ایک فائدہ کیا ہوا۔ کیا وہ گناہ سے باز آگئے یا ان کے گناہ بخشے گئے تو اور بھی اس عقیدے کی لغویت ثابت ہوتی ہے کیونکہ گناہ سے باز آنا اور سچی پاکیزگی حاصل کرنا تو ببداہت خلاف واقعہ ہے۔

کفارہ کے عقیدہ کو ماننے والوں کو فائدہ کیا ہواکیا وہ گناہ سے باز آ گئے یا ان کے گناہ بخشے گئے۔ کیونکہ بموجب عقیدہ عیسائیوں کے حضرت داؤد علیہ السلام بھی کفارہ یسوع پر ایمان لائے تھے۔ لیکن بقول ان کےایمان لانے کے بعد نعوذ باللہ حضرت داؤد نے ایک بےگناہ کو قتل کیا اور اس کی جورو سے زنا کیا، سو 100تک جورو کی، اخیر عمر تک اپنے گناہوں کو تازہ کرتے رہے اور ہر روز کمال گستاخی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کیا۔ پس اگر یسوع کی لعنتی قربانی گناہ سے روک سکتی تو بقول ان کے داؤد اس قدر گناہ میں نہ ڈوبتا۔ ایسا ہی یسوع کی تین نانیاں زنا کی بری حرکت میں مبتلا ہوئیں۔ ایسا ہی یسوع کے حواریوں سے بھی ایمان لانے کے بعد قابل شرم گناہ سرزد ہوئے۔ یہودہ اسکریوتی نے تیس روپے پر یسوع کو بیچا اور پطرس نے سامنے کھڑے ہو کر تین مرتبہ یسوع پر لعنت بھیجی اور باقی سب بھاگ گئے۔ اور یورپ میں آج کل شراب خوری اور زنا کاری کا طوفان برپا ہے اس کے لکھنے کی حاجت نہیں۔ پس ان واقعات سے بکمال صفائی ثابت ہے کہ یہ لعنتی قربانی گناہ سے روک نہیں سکی۔

دوسرا شق یہ ہے کہ اگر گناہ رک نہیں سکتے تو کیا اس لعنتی قربانی سے ہمیشہ گناہ بخشے جاتے ہیں۔ گویا یہ ایک ایسا نسخہ ہے کہ ایک بدمعاش ناحق کا خون کر کے یا چوری کر کے یا جھوٹی گواہی دے کر یا کسی کے مال یا جان یا آبرو کو نقصان پہنچا کر پھر اس لعنتی قربانی پر ایمان لا کر خدا کے بندوں کے حقوق کو ہضم کر سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کے دل کو بھی یہ دھڑکا شروع ہو گیا تھا اس لیے وہ کہتا ہے کہ یسوع کی قربانی پہلے گناہ کے لیے ہے اور یسوع دوبارہ مصلوب نہیں ہو سکتا۔ اگر کہو کہ اس لعنتی قربانی پر ایمان لانے کے بعد کوئی گناہ، گناہ نہیں رہتا تو ایسا مذہب ایک ناپاکی پھیلانے والا مذہب ہو گا۔

یہ سوال کہ مذہب کا تصرف انسانی قویٰ پر کیا ہے، انجیل نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ کیونکہ انجیل حکمت کے طریقوں سے دور ہے۔ لیکن قرآن شریف بڑی تفصیل سے بار بار اس مسئلہ کو حل کرتا ہے اور مذہب کی علت غائی یہ بتاتا ہے کہ جو قویٰ اور ملکات فطرتاً انسان کے اندر موجود ہیں ان کو اپنے محل اور موقع پر لگانے کے لیے رہبری کرے۔ انسانی قوتوں میں سے کوئی بھی قوت بری نہیں بلکہ افراط اور تفریط اور بداستعمال بری ہے۔ مذہب کے اثر کی رُو سے کسی قوم کا اچھا بن جانا یا کسی مذہب کو کسی قوم کی شائستگی کا اصل موجب قرار دینا اس وقت ثابت ہوگا کہ اس مذہب کے بعض کامل پیروؤں میں اس قسم کے روحانی کمال پائے جائیں جو دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہ مل سکے۔

سو میں زور سے کہتا ہوں کہ یہ خاصہ اسلام میں ہے۔ اسلام نے ہزاروں لوگوں کو اس درجہ کی پاک زندگی تک پہنچایا ہے۔ یہ لوگ ہر صدی میں ہوتے رہے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اعلیٰ درجہ کی پاک زندگی کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ ایسےشخص سے خوارق ظاہر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کی دعا سنتا ہے اور ان سے ہمکلام ہوتا ہے اور پیش از وقت ان کو غیب کی خبریں بتلاتا ہے اور ان کی تائید کرتا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں یہ نمونہ دکھلانے کے لیے یہ عاجز موجود ہے۔

پھر فرمایا : ہر ایک چیزاپنی نشانیوں سے پہچانی جاتی ہے جیساکہ ہر ایک درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اور میں سچ سچ کہتا ہوں اور میرا خدا گواہ ہے کہ مجھ پر ثابت ہو گیا ہے کہ حقیقی ایمان اور واقعی پاک زندگی جو آسمانی روشنی سے حاصل ہو بجز اسلام کے کسی طرح مل نہیں سکتی۔ اسی بنا پر میں نے عیسائیوں کے لیے ایک فیصلہ کرنے والا اشتہار دیا تھا۔ میں اب بھی کہتا ہوں کہ عیسائیوں کو بھی ایمان اور پاک زندگی کا دعویٰ ہے اور مسلمانوں کو بھی۔ پس میرے نزدیک جو ایمان اپنے ساتھ آسمانی گواہیاں رکھتا ہے اور قبولیت کے آثارپائے جاتے ہیں وہی ایمان صحیح اور مقبول ہے…خدا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے ان کی اعتقادی حالتوں سے ایسا متنفر ہے جیسا کہ ہم نہایت گندے اور سڑے ہوئے مردار سے متنفر ہوتے ہیں۔ اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں اور اگر اس قول میں میرے ساتھ خدا نہیں ہے تو نرمی اور آہستگی سے مجھ سے فیصلہ کر لیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاکیزگی اور نجات کے لیے پیش کردہ مشن

اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم سچی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے اپنے وجود کی پاک قربانی پیش کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےبَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔یعنی جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ سر چشمہ قرب الٰہی سے اپنا اجر پائے گا اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔

راہ استقامت

فرمایا اسلام کا لفظ جو یہاں بیان ہوا ہے دوسرے لفظوں میں اس کا نام استقامت رکھا ہے جیسا کہ یہ دعا سکھاتا ہے۔ صِرَٰطَ اَلَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ اَلْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے۔ ہر چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے اور انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی در حقیقت خدا کے لیے ہو جائے اور جب وہ اپنے تمام قویٰ سے خدا کے لیے ہو جائے گا تو بلا شبہ اس پر انعام نازل ہو گا۔ جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہتے ہیں۔جیسا کہ آفتاب کی طرف کھڑکی کھولی جائے تو آفتاب کی شعاعیں ضرور کھڑکی کے اندر آ جاتی ہیں ایسا ہی انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف بالکل سیدھا ہو جائے اور اس میں اور خدا تعالیٰ میں کچھ حجاب نہ رہے تب فی الفور ایک نورانی شعلہ اس پر نازل ہوتا ہے اور اس کو منور کر دیتا ہے اور اس کی تمام اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ تب وہ ایک نیا انسان ہو جاتا ہے اور ایک بھاری تبدیلی اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ اس شخص کو پاک زندگی حاصل ہوئی۔ اس پاک زندگی کے پانے کا مقام یہی دنیا ہے جیسا کہ فرمایاوَمَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَاَضَلُّ سَبِیۡلًا۔یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا رہا اور خدا کے دیکھنے کا اس کو نور نہ ملا وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا۔ غرض خدا کے دیکھنے کے لیے انسان اسی دنیا سے حواس لے جاتا ہے۔

اسلام کی وجہ تسمیہ

اس وجہ سے خدا نے ہمارے دین کا نام اسلام رکھا تا یہ اشارہ ہو کہ ہم نے خدا کے آگے سر رکھ دیا ہے۔درختوں کی طرف دیکھو کہ وہ تندرست رہنے کے لیے دو خصلت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ایک وہ اپنی جڑوں کو زمین کے اندر دباتے چلے جاتےہیں دوم یہ ہے کہ اپنی جڑوں کے ذریعے زمین کا پانی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اس طرح نشوونما کرتے ہیں۔ یہی اصول قدرت نے انسان کے لیے رکھا ہے اول صدق وثبات کے ساتھ خدا میں اپنے تئیں مستحکم کرتا ہے اور استغفار کے ساتھ اپنی جڑوں کو خدا کی محبت میں لگاتا ہے اور پھر قولی اور عملی توبہ کے ساتھ خدا کی طرف جھکنے کے ذریعہ سے اپنے انکسار اور تذلل کی نالیوں کےساتھ ربانی پانی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جس پانی کے ذریعہ گنہ کی خشکی کو دھو ڈالتا ہے۔

استغفار کی دو اقسام

ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا یہ استغفار تو مقربوں کا ہے، جو ایک طرفۃ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں۔

دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھاگنا اور کوشش کرنا۔ ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے۔غَفْر جس سے استغفار نکلا ہے ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ گویا استغفار کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس شخص کے گناہ کو جو اس کی محبت میں اپنے تئیں دبائے رکھے اور بشریت کی جڑیں ننگی نہ ہونے دے اور اگر کوئی جڑ گناہ کے ظہور سے ننگی ہو گئی ہو پھر اس کو ڈھانک دے۔

فرمایا: خدا کو راضی کرنے والی اس سے زیادہ کوئی قربانی نہیں کہ ہم درحقیقت اس کی راہ میں موت کو قبول کر کے اپنا وجود اس کے آگے رکھ دیں۔ اسی قربانی کی خدا نے ہمیں تعلیم دی ہے جیساکہ فرماتا ہے لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ۔یعنی تم حقیقی نیکی کو کسی طرح پا نہیں سکتے جب تک تم اپنی تمام پیاری چیزیں خدا کی راہ میں خرچ نہ کرو۔یہ راہ ہے جو قرآن نے ہمیں سکھائی ہے۔ یسوع ناصری نے اپنا قدم قرآن کی تعلیم کے موافق رکھا اس لیے اس نے خدا سے انعام پایا۔ یہ پاک تعلیم ہزاروں کو عیسیٰ مسیح بنانے کے لیے طیار ہے اور لاکھوں کو بنا چکی ہے۔

سوال نمبر2: اگر اسلام کا مقصد توحید کی طرف آدمیوں کو رجوع کرنا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آغاز اسلام میں یہودیوں کے ساتھ جن کی الہامی کتابیں توحید کے سوا اور کچھ نہیں سکھاتیںجہاد کیا گیا؟ یا کیوں آج کل یہودیوں یا اور توحید کے ماننے والوں کی نجات کے لیے مسلمان ہونا ضروری سمجھا جائے۔ الجواب: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں یہودی توریت کی تعلیم سے بہت دور جا پڑے تھے۔ حقیقی توحید تو یہ ہے کہ خدا کی ہستی کو مان کر اور اس کی وحدانیت کو قبول کر کے پھر اس کامل اور محسن خدا کی اطاعت اور رضاجوئی میں مشغول ہونا اور اس کی محبت میں کھوئے جانا۔ سو یہ عملی توحید ان میں باقی نہ رہی تھی۔کامل توحید کے لیے تین قسم کی تخصیص لازم ہے:

اول ذات کے لحاظ سے یعنی یہ کہ اس کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا اور تمام کو ھالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیت خیال کرنا۔

دوم صفات کے لحاظ سے توحید یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذات باری تعالیٰ کسی میں قرار نہ دینا۔

تیسرے اپنی محبت اور صدق اور شفا کے لحاظ سے توحید یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا اور اسی میں کھوئے جانا۔

یہود اس حقیقی توحید کو کھو بیٹھے تھے جیسا کہ خود قرآن کریم فرماتا ہے اور یہود و نصاری کو ملزم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ توریت اور انجیل کو قائم کرتے تو آسمانی رزق بھی انہیں ملتا اور زمینی رزق بھی۔ یعنی آسمانی خوارق عادت اور قبولیت دعا اورکشوف اور الہامات جو مومن کی نشانیاں ہیں ان میں پائی جاتیں جو آسمانی رزق ہے۔ اب یاد رہے کہ قرآن کی تعلیم سے بے شک ثابت ہے کہ یہود اور نصاریٰ سے لڑائیاں ہوئیں۔ مگر ان لڑائیوں کا ابتدا اہل اسلام کی طرف سے ہرگز نہیں ہوا اور یہ لڑائیاں دین میں جبراً داخل کرنے کے لیے ہرگز نہیں تھیں جب کہ خود اسلام کے مخالفوں نے ایذا دے کر ان لڑائیوں کے اسباب پیدا کیے۔ اور جب اسباب انہی کی طرف سے پیدا ہو گئے تو غیرت الٰہی نے ان قوموں کو سزا دینا چاہا اور رحمت الٰہی نے یہ رعایت رکھی کہ اسلام میں داخل ہونے والا یا جزیہ دینے والا اس عذاب سے بچ جائے۔رہا یہ سوال کہ یہودیوں کو مسلمان ہونے کی ضرورت کیا تھی وہ تو پہلے ہی مؤحد تھے۔ اس کا جواب پہلے آچکا ہے کہ توحید یہودیوں کے دلوں میں قائم نہ تھی صرف کتابوں میں تھی اور وہ بھی ناقص۔

قرآن کے نزول کی ضرورت (یہود کے حوالہ سے)

ایک یہ تھی کہ تا مردہ طبع یہودیوں کو زندہ توحید سکھائے۔ دوسرے یہ کہ تا ان کی غلطیوں پر ان کو متنبہ کرے۔تیسرے یہ کہ وہ مسائل کہ جو توریت میں محض اشارہ کی طرح بیان ہوئے تھے جیسا کہ مسئلہ حشر اجساد اور مسئلہ بقاء روح اور مسئلہ بہشت اور دوزخ کے مفصل حالات سے آگاہی بخشے۔

شریعت کے دو حصے: حق اللہ اور حق العباد ہیں

یہ دونوں حصے صرف قرآن شریف نے ہی پورے کیے۔ قرآن کا یہ منصب تھا کہ تا وحشیوں کو انسان بناوے اور انسان سے بااخلاق انسان بناوے اور با اخلاق انسان سے باخدا انسان بنائے۔ منجملہ قرآن کی ضرورتوں کے یہ بھی تھا کہ جو اختلاف حضرت مسیح کی نسبت یہود اور نصاریٰ میں واقع تھا اس کو دور کر دے۔ سو قرآن نے ان سب جھگڑوں کا فیصلہ کیا۔ جیسا کہ قرآن شریف کی آیت یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ۔اسی جھگڑے کے فیصلہ کے لیے ہے۔ کیونکہ یہودیوں کے خیال کے مطابق مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور موافق حکم توریت وہ لعنتی ہوا اور اس کا رفع نہیں ہوا اور یہ دلیل اس کے کاذب ہونے کی ہے۔عیسائیوں کا خیال تھا کہ لعنتی تو ہوا مگر ہمارے لیے اور بعد اس کے لعنت جاتی رہی اور رفع ہو گیا۔ پس اس آیت کی رو سے دونوں کے عقائد کا بطلان فرما دیا کہ مسیح ہرگز صلیب پر نہ مرا بلکہ طبعی وفات پائی۔ اور پھر خدا کی طرف رفع بھی ہوا جیسا کہ مومنوں کا ہوتا ہے۔پھر جیسا کہ مسیح نے کہا کہ میری حالت یونس سے مشابہ ہے ایسا ہی ہوا، نہ یونس مچھلی کے پیٹ میں مرا، نہ یسوع صلیب کے پیٹ پر اور اس کی دعا ایلی ایلی لما سبقتانی سنی گئی۔ پھر مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے دیگر قرائن یہ ہیں کہ پیلا طوس پر وبال نہ آیا، مسیح کی ہڈیاں نہ توڑی گئیں، چھیدنے سے خون نکلا پھر بعد صلیب حواریوں کو اپنے زخم بھی دکھائے۔

قرآن کریم کے اترنے کی ضرورت

فرمایا! اے نادانوں! اے دلوں کے اندھو! قرآن کامل توحید لایا۔ قرآن نے عقل اور نقل کو ملا کر دکھلایا۔ قرآن نے توحید کو کمال تک پہنچایا۔ قرآن نے توحید اور صفات باری تعالیٰ پر دلائل قائم کیے۔ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت عقلی، نقلی دلائل سے دیا اور کشفی طور پر بھی دلائل قائم کیے۔

خود قرآن اپنے نزول کی ضرورت کو یوں ثابت کرتا ہے کہ اعلموا ان اللّٰہ یحیی الارض بعد موتھا یعنی اس بات کو جان لو کہ زمین مر گئی اور اب خدا نئے سرے سے اس کو زندہ کرنے لگا ہے۔ تاریخ شہادت دیتی ہے کہ قرآن کے زمانہ قرب نزول میں ہر ایک قوم کا چال چلن بگڑا ہوا تھا۔ اے غافلو! اور دلوں کے اندھو! قرآن جیسے ضلالت کے طوفان کے وقت میں آیا ہے، کوئی نبی ایسے وقت میں نہیں آیا۔ بیماروں کی کثرت ایک طبیب کو چاہتی ہے ایسا ہی گنہگاروں کی کثرت ایک مصلح کو۔

اب اگر کوئی اس قاعدہ کو ذہن میں رکھ کر عرب کی تاریخ پر نظر ڈالے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قوت قدسی اور تاثیرقوی اور افاضہ برکات میں سب نبیوں سے اول درجہ پر سمجھے گا۔ اور اسی بنا پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی ضرورت کو دوسری تمام کتابوں اور نبیوں کی ضرورت سے بدیہی الثبوت یقین کرے گا۔

توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورت فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں

پانچ سو روپے نقد اگرپادری صاحبان اپنی کل ضخیم کتابوں میں سے جو ستر کے قریب ہوں گی وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور منتظم دُرَرِ حکمت و جواہر معرفت و خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں۔ جو ہم پہلے بطور تفسیر سورہ فاتحہ لکھ کر پیش کریں گے تو ہم بطور انعام پانسو روپیہ نقد ان کو دینے کو تیار ہیں۔

فرمایا جس وقت ہم قرآن کو غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف دکھائی دیتا ہےکہ قرآن نہ تو توریت کی طرح انتقام اور سختی پر ایسا زور ڈال کر قصاص کی تعلیم دیتا ہے اور نہ انجیل کی طرح یکدفعہ عفو اور صبر اور درگزر کی تعلیم پر گر پڑتا ہے بلکہ بار بار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیتا ہے۔

سوال نمبر3: قرآن میں انسان اور خدا کے ساتھ محبت کرنے کے بارے میں اور خدا کی انسان کے ساتھ محبت کرنے کے بارے میں کونسی آیات ہیں۔ جن میں خاص محبت یا حبّ کا فعل استعمال کیا گیا ہے؟

الجواب: واضح ہو کہ قرآن کی تعلیم کا اصل مقصد یہی ہے کہ خدا جیسا کہ واحد لاشریک ہے ایسا ہی اپنی محبت کے رو سے اس کو واحد لا شریک ٹھہراؤ۔ جیساکہ کلمہ لا الہ الا اللّٰہ جو ہر وقت مسلمانوں کو وردِ زبان رہتا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے۔کیونکہ الہ۔ ولاہ سے مشتق ہے یعنی ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جائے۔ یہ کلمہ نہ توریت نے سکھایا نہ انجیل نے، صرف قرآن نے سکھلایا۔ یہی کلمہ اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ پانچ وقت کی نماز کی اذان میں خدا کی محبت کو یاد کرنے کے لیے مؤذن بلند آواز سے کہتا ہے۔

لفظ اسلام کا مفہوم اور خدا سے محبت

اسلام کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کے آگے اپنا سر رکھ دینا اور صدق دل سے قربان ہونے کے لیے تیار ہو جانا۔ دنیا میں اور کون سا دین ہے جس کے بانی نے اس کا نام اسلام رکھا ہے۔ اسلام نہایت پیارا لفظ ہے اور صدق اور اخلاص اور محبت کے معنی کوٹ کوٹ کر اس میں بھرے ہوئے ہیں۔ پھر خدا کی محبت کے بارے میں فرماتا ہے۔ والذین امنوا اشد حبا للّٰہ۔ پھر فرماتا ہے فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا پھر فرمایا قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ پھر فرماتا ہے وَیُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّیَتِیۡمًا وَّاَسِیۡرًا۔ اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُکُوۡرًا۔غرض قرآن شریف ایسی آیتوں سے بھرا پڑا ہے کہ اپنے قول اور فعل کے رو سے خدا کی محبت دکھلاؤ اور سب سے زیادہ خدا سے محبت کرو۔

خدا بھی انسانوں سے محبت کرتا ہے۔ قرآن شریف میں بکثرت آیات موجود ہیں کہ خدا توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ خدا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور خدا صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ پھر فرمایا وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین یعنی دنیا پر رحم کر کے ہم نے تجھے بھیجا ہے اور عالمین میں کافر اور بے ایمان اور فاسق اور فاجر بھی داخل ہیں۔ اور ان کے لیے رحم کا دروازہ اس طرح پر کھولا کہ وہ قرآن شریف کی ہدایتوں پر چل کر نجات پا سکتے ہیں۔

پس قرآن شریف میں خدا کی انسانوں سے ایسی محبت مذکور نہیں ہے کہ اس نے کوئی اپنا بیٹا بدکاروں کے گناہوں کے بدلے میں سولی دلوا دیا اور ان کی لعنت اپنے بیٹے پر ڈال دی۔ گویا خدا نے دنیا کے بدکاروں سے یہ کیسی محبت کی کہ نیک کو مارا اور برے سے پیار کیا۔

اس سوال کی تیسری جزو یہ ہے کہ قرآن شریف میں کہاں لکھا ہے کہ انسان انسان کے ساتھ محبت کرے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے اس جگہ بجائے محبت کے، رحم اور ہمدردی کا لفظ لیا ہے۔ کیونکہ محبت کی انتہا عبادت ہے اس لیے محبت کا لفظ خدا کے لیے خاص ہے۔ یوں خدا کی پاک کلام میں بنی نوع انسان کے لیے رحم کا لفظ آیا ہے جیسا کہ فرمایا وَتَوَاصَوْاْ بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْاْ بِالصَّبْرِ۔ یعنی مومن وہ ہیں جو حق اور رحم کی وصیت کرتے ہیں۔ پھر فرمایا اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰىیعنی خدا کا حکم ہے کہ تم عام لوگوں کے ساتھ عدل کرو اور اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ تم احسان کرو اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تم بنی نوع سے ایسی ہمدردی بجا لاؤ جیسا کہ ایک قریبی کو اپنے قریبی کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ تین درجے بنی نوع کے حق گزاری کے ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائے ہیں۔

اسلام ایک عالمگیر مذہب

وہ قانون جو عام عدل اور احسان اور ہمدردی کے لیے دنیا میں آیا وہ صرف قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا پھر فرمایا وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔

سوال نمبر4: مسیح نے اپنی نسبت یہ کلمات کہے کہ میرے پاس آؤ تم جو تھکے اور ماندے ہو کہ میں تمہیں آرام دوں گا اور یہ کہ میں روشنی ہوں، میں راہ ہوں۔ میں زندگی اور راستی ہوں۔ کیا ایسے کلمات بانی اسلام کے کسی جگہ اپنے لیے منسوب کیے ہیں۔

الجواب:قرآن شریف فرماتا ہے قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہیعنی ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے۔ یہ وعدہ مسیح کے جملہ اقوال پر غالب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام قرآن میں نور رکھا ہے۔ فرمایا قد جاءکم من االلہ نور۔

مسیح کا یہ جملہ کہ تم جو تھکے اور ماندے ہو میرے پاس آؤ میں تمہیں آرام دوں گا۔ یہ کیسا لغو معلوم ہوتا ہے۔ اگر آرام سے مراد دنیا کا آرام اور بے قیدی ہے تب تو یہ فقرہ بلاشبہ صحیح ہے۔ کیونکہ مسلمان جب مسلمان ہوتا ہے تو اس کو پانچ وقت نماز پڑھنی پڑتی ہے،علی الصبح سورج سے پہلے نماز کے لیے اٹھنا پڑتا ہے۔ موسم سرما میں پانی کیسا ہی ٹھنڈا ہو، وضو کرنا پڑتا ہے۔ تہجد پڑھنی پڑتی ہے۔ غیر عورتوں سے اپنے تئیں بچانا پڑتا ہے۔شراب اور نشے سے اپنے تئیں دور رکھنا پڑتا ہے۔ تیس یا انتیس دن کے روزے رکھنے پڑتے ہیں۔ پھر جب ایک بدبخت جو پہلے مسلمان تھا عیسائی ہو گیا تو ساتھ ہی یہ تمام بوجھ اپنے سر سے اتار لیتا ہے۔ گویا سچ ہے عیسائی باش ہر چہ خواہی مکن۔

غرض عیسائیوں کا آرام جو ان کو ملا ہے وہ بے قیدی اور اباحت کا آرام ہے۔ لیکن روحانی آرام جو خدا کے وصال سے ملتا ہے اس کے بارے میں یہ قوم بالکل بے نصیب ہے۔ان کی آنکھوں پر پردے اور دل مردہ ہیں۔

دیکھو قرآن کریم نے جو نشانیاں ایمانداروں کی بیان فرمائی ہیں وہ ہر زمانہ میں پائی گئی ہیں۔قرآن شریف فرماتا ہے، ایماندار کو الہام ہوتا ہے، ایماندار خدا کی آواز سنتا ہے۔ ایماندار کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ ایماندار پر غیب کی خبریں ظاہر کی جاتی ہیں۔ ایماندار کے شامل حال آسمانی تائیدیں ہوتی ہیں۔

عیسائیوں کو مقابلے کی دعوت

فرمایا اٹھو عیسائیو! اگر کچھ طاقت ہے تو مجھ سے مقابلہ کرو۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو بے شک مجھے ذبح کر دو۔

الراقم

مرزا غلام احمد از قادیان

ضلع گورداسپور 22؍جون 1897ء

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button