حضرت مصلح موعود ؓ

مستورات سے خطاب (قسط نمبر1)

(سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۲۹ء بر موقع جلسہ سالانہ)

تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

عورتوں کی موجودہ علمی قابلیت

میں نے ہر سال جماعت کی مستورات کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تک تعلیم نہ ہو خدا سے ان کا اپنا معاملہ درست نہیں ہو سکتا اور نہ ہی وہ ذمہ داریاں پوری ہو سکتی ہیں جو اپنے رشتہ داروں اور خاندان اور اپنی قوم اور ملک کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں شاید یہ الفاظ جو اس وقت میں نے بیان کئے ہیں آپ کو بوجھل معلوم ہوتے ہوں کیونکہ ان میں یہ کہا گیا ہے کہ تم میں تعلیم نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک تم دوسری زبانیں تو درکنار خود اپنی زبان سے بھی ناواقف ہو مجھے عورتوں میں تقریر کرتے وقت یہ دقت پیش آتی ہے ۔

تقریر میں مشکلات

میں کوشش کرتا ہوں کہ میری تقریر میں ایسے الفاظ نہ آئیں جن کو تم سمجھ نہ سکو حالانکہ میں کسی غیر زبان میں تقریر نہیں کیا کرتا جب قوم کی ایسی گری ہوئی حالت ہو کہ وہ اپنے ملک کی زبان میں بھی بات سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتی ہو تو اس کی کمزور حالت کا اندازہ اس سے ہی ہو سکتا ہے تقریر میں روزمرہ ہی کی زبان ہوتی ہے مثلاً اگر دین کا ذکر آئے تو اس میں قیامت، تقدیر وغیرہ کے الفاظ ضروری ہیں پھر جو نہ سمجھے تو واعظ کے لئے کتنی مشکلات ہیں اس کی دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں یا تو وہ آسان آسان لفظ لا کر عام فہم طریق کے لفظوں ہی کے خیال میں پڑا رہے اور اپنے مضمون کو خراب کر لے یا اصطلاحی لفظ استعمال کر کے اپنے مضمون کو تو ادا کر دے مگر سامعین اس کو نہ سمجھ سکیں پس ہر ایک عورت کو تعلیم کی ترقی کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ میں مردوں میں ایک آیت کے موضوع پر کئی کئی گھنٹے بول سکتا ہوں مگر عورتوں میں ادھر ہی توجہ رہتی ہے کہ مضمون عام فہم ہو اسی وجہ سے عورتوں میں درس، وعظ وغیرہ بہت آسان رہ جاتا ہے اور اصل مضمون ذہن سے اتر جاتا ہے میں جب عورتوں میں درس دیتا ہوں تو بعض اوقات ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو رکوع کا درس تھوڑے سے وقت میں دے دیتا ہوں حالانکہ مردوں میں اتنا وقت بعض دفعہ صرف ایک آیت کی تشریح میں لگ جاتا ہے۔ میں پھر اور بار بار تمہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے پہلے اپنے ملک کی زبان سیکھو۔

اپنی ترقی کی طرف توجہ کرو

اس کے بعد میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے ۔کس طرح سمجھائوں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو۔ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کا مامور آیا اور اس نے چالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سنا کر ایسی خشیت الٰہی پیدا کی کہ مردوں میں سے کئی نے غوث،قطب ،ولی ،صدیق اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا۔ ان میں سے کئی ہیں جو اپنے رتبے کے لحاظ سے کوئی تو ابوبکرؓ اور کوئی عثمانؓ،کوئی علیؓ،کوئی زبیرؓ،کوئی طلحہؓ ہے تم میں سے بھی اکثر کو اس نے مخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سنائیں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کر سکیں اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں ایک صدیقی وجود کو کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا پھر خدا نے مجھ کو اس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ ،نصائح اور لیکچر میں دین کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی ان میں وہ روح پیدا نہ ہو سکی جس کی مجھے خواہش تھی اور کوئی عورت تم میں سے اس قابل نظر نہیں آتی جو کسی وقت تمہاری لیڈری اور راہنمائی کر سکے افسوس وہ کونسی کوشش ہے جس سے میں تمہیں بیدار کروں دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے مگر تم خواب غفلت میں سوتی ہو۔

کیا تم میں کوئی قرآن مجید جانتی ہے؟

پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتائو جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو؟ حالانکہ مردوں میں سے عالم کے علاوہ کئی ایسے لوگ ہیں جو ظاہری تعلیم کے لحاظ سے جاہل یا معمولی سے علم کے شہر کے رہنے والے یا گائوں کے رہنے والے ہیں جو باوجود عدم علم ظاہری کے یا کمی علم کے قرآن کے کئی معرفت کے نکتے بتا سکیں گے جو لوگوں کو پہلے معلوم نہ ہوں گے قادیان کے کئی عربی سے ناواقف بھی عجیب معرفت اور نکات کی باتیں قرآن سے بیان کرتے ہیں تم ایک عورت کی مثال پیش کرو جس نے قرآن کریم سے کوئی نئی بات نکالی ہو اور ایسی بات پیش کی ہو جو دنیا کو پہلے معلوم نہ تھی اور اب تو آپ میں کچھ ایسی عورتیں بھی موجود ہیں جو مولوی کہلاتی ہیں ۔میں پھر توجہ دلاتا ہوں اور سوال کرتا ہوں کہ تم میں سے کون ہے جسے قرآن شریف کی معرفت نصیب ہوئی ہو؟

اس کمی کی وجہ کیا ہے؟

تم میں سے کئی عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ مردوں کی طرفداری کی جاتی ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدا تعالیٰ کو بھی تم سے دشمنی ہے کہ وہ تمہاری مدد نہیں کرتا کیوں خدا کے کلام کا دروازہ تم پر بند ہے اور کیوں فرشتے خدائی دربار تک تمہاری رسائی نہیں کراتے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے، فوائد ہیں، حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے اسی لئے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہے دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے۔ قرآن اس لئے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ (الانبیاء :11)اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں قرآن ٹونہ نہیں یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے۔ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہو گا لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہرگز ہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گی بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں،رسائل، ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود کی کوئی کتاب ہو گی۔ تم سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجے میں معلوم کی ہے کتنا بڑا اندھیر ہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنی نوع انسان کے لئے یکساں ہے اس سے تم اس قدر لاعلم ہو اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہو تو تم سے کس بات کی توقع ہو سکتی ہے؟

ایک عورت نے کس طرح ترقی کی

میں تمہیں ایک عورت کا واقعہ سناتا ہوں کہ جسے صرف معمولی لکھنا پڑھنا آتا تھا۔ اس کے لکھنے کے متعلق مجھے اس وقت صحیح علم نہیں ہے لیکن بات ضرور تھی کہ اسے پڑھنا آتا تھا اس نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا۔جنت کی طمع اور دوزخ کے خوف سے نہیں،عادت اور دکھاوے کے طور پر نہیں بلکہ خدا کی کتاب سمجھ کر اور یہ سمجھ کر اس کے اندر دنیا کے تمام علوم ہیں اسے پڑھا۔ اس کے نتیجہ میں باوجود اس کے کہ اس نے کسی کے پاس زانوئے شاگردی طے نہیں کیا تمام دنیا کی استاد بنی وہ عورت کون تھی؟ اس کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا ہے۔

وہ بی بی فہم قرآن میں اکثر مردوں سے بڑھ گئی

اس نے قرآن کو جیسا کہ سمجھنے کا حق تھا سمجھا۔ ان کی صرف ایک مثال سے دنیا کے مرد شرمندہ ہیں کہ وہ بایں ہمہ عقل و دانش اس فہم و فراست کو حاصل نہ کر سکے۔ وہ آیت یہ ہے مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(الاحزاب 41)یعنی محمدؐ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں۔ دنیا نے سمجھا کہ آپﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور ادھر چونکہ آنحضرت ﷺ نے بھی فرما دیا کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ (بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل )جس سے آپ کی مراد تھی کہ میری شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی نبی نہ آئے گا)یہ امر ایسے خیال کے لوگوں کے لئے اور بھی مؤیّد ثابت ہوا اور سب نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اور انہوں نے اپنے اس خیال کی خوب اشاعت کی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس قسم کی باتیں ایک مجلس میں ہو رہی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وہاں سے گزریں اور آپ نے سن کر فرمایا قُوْلُوْا اَنَّہٗ خَاتَمُ الْاَنْبِیَاءِ وَلَا تَقُوْلُوْ الَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ(تکملہ مجمع البحار جلد ۴ صفحہ ۸۵ حرف الزاء مطبوعہ نولکشور لکھنو) دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قرآن پر غور کرنے سے کس قدر صحیح نتیجہ نکالا کہ آج اس زمانہ کے نبی نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ وہ خیالات جو تیرہ سو سال سے مسلمانوں کو مغالطہ میں ڈالے ہوئے تھے ان کو کس صفائی کے ساتھ رد فرمایا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قرآن پر غور کرنے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فائدہ اٹھایا اور احمدی جماعت ان کی ممنون احسان ہے انہوں نے ان کی مشکلات کو آسان کر دیا ۔یہ تو ایک واقعہ ان کے فہم قرآن کا ہے۔

اسی بی بی کی فہم حدیث کی ایک مثال

دوسرا واقعہ یہ ہے جس سے ان کے کمال فراست اور غور و فکر کا ثبوت ملتا ہے وہ حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفررضی عنہ کی شہادت کا واقعہ ہے۔ جب ان کی اطلاع گھر پر آئی تو عورتیں رونے پیٹنے اور نوحہ کرنے لگیں جیسا کہ عرب کا رواج تھا۔اسلام چونکہ نیا نیا تھا اس لئے اسلامی عادات ابھی پوری طرح لوگوں میں پیدا نہ ہو سکی تھیں اور جاہلیت کے زمانے کے اثرات باقی تھے اسی کی پیروی ان عورتوں نے کی۔ آنحضرت ﷺکو جب کسی نے آ کر اس کی اطلاع دی تو آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں منع کرو ۔منع کرنے سے بھی وہ باز نہ آئیں۔ پھر آ کر کسی نے شکایت کی۔ آپﷺ نے فرمایا اُحْثُوْا التُرَابَ فِیْ وُجُوْھِھِنَّ(شرح مواھب اللدنیہ جلد ۲ صفحہ ۲۷۴ باب غزوہ موتہ )یعنی ان کے منہ پر مٹی ڈالو۔ وہ لوگ جنہوں نے آپﷺ کے اس ارشاد کو سنا فی الواقعہ مٹی ڈالنے کے لئے دوڑے ۔حضرت عائشہؓ کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ تم رسول کریم ﷺکو ایسا بداخلاق سمجھتے ہو کہ اس مصیبت کے وقت بھی تکلیف پہنچانے کا حکم دیں۔آپﷺ کا تو یہ مطلب تھا کہ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو۔

قال اللہ و قال الرسول کا صحیح فہم اسی خاتون کو تھا

اب دیکھو جس بات کو مردوں نے نہ سمجھا اسے ایک عورت یعنی حضرت عائشہؓ نے سمجھا اور یہی دنیا میں ایک عورت ہے جس نے قرآن کریم کو اور خداتعالیٰ کے رسول کے کلام کو صحیح معنوں میں سمجھا۔ اس کا ایک ثبوت افک کے واقعہ سے بھی ملتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺنے آپ سے فرمایا کہ عائشہ سچی سچی بات بتا دو کہ کیا معاملہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا یہ میرا کام نہیں خدا تعالیٰ خود جواب دے گا۔ چنانچہ قرآن کی بعد کی وحی سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ ان کا یہ خیال درست تھا کیونکہ قرآن نے یہی کہا ہے کہ الزام دینے والا گواہ لائے نہ کہ جس پر الزام ہو وہ اپنی بریت کے لئے قسمیں کھاتا پھرے ۔حضرت عائشہؓ نے قرآن کو قرآن کر کے پڑھا اس لئے مردوں سے زیادہ معرفت حاصل کی اگر آپ بھی اسی طرح اس پر غور کرنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گی تو ایسا ہی فائدہ حاصل کریں گی اور کسی علم کے حاصل کرنے میں کسی کی محتاج نہ ہوں گی۔ قرآن شریف ہر ایک زمانے کے علوم اپنے اندر رکھتا ہے اگر کوئی اس پر غور کرے تو دنیا کو حیران کر دینے والے علوم کا دروازہ اہل دنیا پر خدا کی تائید سے کھول سکتا ہے۔(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button