حیا دار لباس یا فیشن کی اندھا دھند تقلید؟
جب سے انسان نے شعور سنبھالا اس نے اپنے لباس کی طرف بھی توجہ دینی شروع کی۔ ابتدا میں وہ اپنے جسم کو بڑے بڑے پتوں سے ڈھانپنے لگا اور آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے آج کا انسان مختلف ریشوں، دھاگوں، چمڑے سے بنے ہوئے لباس کو استعمال کر رہا ہے۔ لباس نہ صرف جسم کو ڈھانپتا ہے بلکہ اسے سردی ،گرمی اور موسمی تغیرات سے بھی بچاتا ہے۔ انسان اپنی ضرورت کے مطابق اپنے لباس کا انتخاب کرتا ہے۔ آج کل پارچہ جات کی ایک مکمل انڈسٹری ہے جو آئے دن نت نئے فیشن کے لباس تیار کرتی ہے اور لوگ اس فیشن کی اندھا دھند تقلید کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تقلید میں کسی بھی مذہب، قوم سے تعلق رکھنے والے بچے، خواتین اور مرد شامل ہیں۔ ایک مسلمان اور ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ہمارا لباس اور ہمارا فیشن کس حد تک اسلام کے تابع ہے۔ اسلام ایک کامل مذہب ہے اور اس میں انسانی زندگی کی ہر ضرورت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہمارے سامنے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ایک رول ماڈل ہیں۔ آپؐ کی بیان کردہ احادیث ہمیں زندگی کے فیشن کے بارے میں بتاتی ہیں اور ہمیں پتا چلتا ہے کہ کیا چیز،کیا عمل،کیا اوڑھنا پہننا ہمارے لیے بہتر ہے۔چونکہ خواتین میں خدا تعالیٰ نے بننے سنورنے کی ایک حس رکھی ہے تو وہ اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیےہر قسم کا فیشن اختیار کرنے کی کوشش کرتی ہیں خاص طور پر آج کل جو فیشن یورپ میں مشہور ہو اس کو اپنانے سے گریز نہیں کرتیں۔لیکن ایک حدیث جو یقیناًسب نے پڑھی ہو گی جو کہ فیشن کے پیچھے بھاگنے والوں کے لیے ہی ہے کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیےکہ’’ جو بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان میں سے ہے۔( یعنی ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں )‘‘( ابو داؤد )
بعض اوقات خواتین مردوں کی طرح لباس زیب تن کیے ہوتی ہیں اور مرد خواتین کی طرح سرخی پاؤڈر لگائے ہوئے نظر آتے ہیں۔اور مردوں میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ وہ بھی ہلکا ہلکا سا میک اَپ کرنے لگ گئے ہیں، اپنی Eyebrowsوغیرہ بھی بنواتے ہیں۔یہ سراسر اسلام کے منافی ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں سے مشابہت کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں سے مشابہت کرتی ہیں۔ ‘‘ ( بخاری)
آج کی مسلمان عورت بھی فیشن کی تقلید میں یورپ کے پیچھے چل پڑی ہے، وہ بھول گئی ہے کہ اس کا مذہب اس کو لباس کے بارے میں کیا ہدایت دیتا ہے۔ اس کے لئے پردہ کا کیا حکم ہے۔ اس کا لباس بھی مغربی خواتین کی طرح چھوٹا اور باریک ہوتا جا رہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں کہ ان جیسا میں نے کسی گروہ کو نہیں دیکھا۔ ایک وہ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے پھرتے ہیں اور دوسرے وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ ننگی ہوتی ہیں۔ ناز سے لچکدار چال چلتی ہیں، لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے جتن کرتی پھرتی ہیں۔ بختی اونٹوں کی لچکدار کوہانوں کی طرح ان کے سر ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی جنت میں داخل نہیں ہو گی اور اس کی خوشبو تک نہ پائے گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سےآسکتی ہے۔ ‘‘( مسلم کتاب اللباس باب النساء الکاسیات العاریات )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ انسان کو جیسے باطن میں اسلام دکھانا چاہیے ویسے ہی ظاہر میں بھی دکھلانا چاہیے…جو شخص ایک قوم کے لباس کو پسند کرتا ہے تو پھر وہ آہستہ آہستہ اس قوم کو اور پھر ان کے دوسرے اوضاع و اطوار حتیٰ کہ مذہب کو بھی پسند کرنے لگتا ہے اسلام نے سادگی کو پسند کیا ہے اور اور تکلفات سے نفرت کی ہے…کیونکہ پھر آہستہ آہستہ انسان کی نوبت تتبع کی یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ان کی طرح طہارت کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ ‘‘( ملفوظات جلد چہارم ایڈیشن 1984ء صفحہ 387)
اسلام عورت کو صاف ستھرا اور باحیا لباس پہننے سے منع نہیں کرتا اپنے خاوند کے لئے بننے سنورنے سے بھی منع نہیں کرتا لیکن آج کے دور میں جو فیشن کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے وہ آہستہ آہستہ تباہی کے دہانے تک لے جارہی ہے۔اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ پیسہ کمانے کی دھن ہے۔ اسی لیے عائلی مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ میاں بیوی بچے سب دن رات کام کر کر کے مہنگے سے مہنگا جوڑا، گاڑی، گھر وغیرہ خریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کو فخر سے سب کے سامنے پیش بھی کرتے ہیں لیکن ان کو دیکھ کر جو صاحب حیثیت نہیں ہیں ان کے دل میں بھی خواہش ابھرتی ہے اور وہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کے غلط کام کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کا مقصد صرف پیسے کا حصول ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی طریقے سے ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :’’اب دیکھیں آج کل بھی شادی بیاہوں میں صرف ایک دو دفعہ پہننے کے لئے دلہن کے لئے یا دولہا کے لئے بھی اور رشتہ داروں کے لئے بھی کتنے مہنگے جوڑے بنوائے جاتے ہیں جو ہزاروں میں بلکہ لاکھوں میں چلے جاتے ہیں۔ صرف دکھانے کے لئے کہ ہمارے جہیز میں اتنے مہنگے مہنگے جوڑے ہیں یا اتنے قیمتی جوڑے ہیں یا ہم نے اتنا قیمتی جوڑا پہنا ہوا ہے۔ صرف فخر اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلے تو یہ ہوتا تھا پرانے زمانے میں کہ قیمتی جوڑا ہے تو آئندہ وہ کام بھی آجاتا تھا۔ کام سُچا ہوتا تھا اچھا ہوتا تھا پھر اب تو وہ بھی نہیں رہا کہ جو اگلی نسلوں میں یا اگلے بچوں کے کام آجائیں ایسے کپڑے یونہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ ضائع ہو رہے ہوتے ہیں۔ پھر فیشن کے پیچھے چل کر دکھاوے اور فخر کے اظہار کی رو میں بہ کر قرآن کریم کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ۔ فیشن میں بس ایسے ایسے عریاں قسم کے لباس سل رہے ہوتے ہیں۔ کسی کو کوئی خیال ہی نہیں ہوتا۔ تو احمدی بچوں اور احمدی خواتین کو ایسے لباسوں سے جن سے ننگ ظاہر ہو رہا ہو پرہیز کرنا چاہیے اور پھر فخر کے لئے لباس پہنیں گے تو دوسری برائیاں بھی جنم لیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچی ہر احمدی عورت کو ایمان کی پوشاک ہی پہنائے اور دنیاوی لباس جو دکھاوے کے لباس ہیں ان سے بچائے رکھے۔ اسی طرح مرد بھی اگر دکھاوے کے طور پر کپڑے پہنتے ہیں، لباس پہن رہے ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ صاف ستھرا اچھا لباس پہننا منع نہیں۔ اس سوچ کے ساتھ یہ لباس پہننا منع ہے کہ اس میں فخر کا اظہار ہوتا ہو اور وہ دکھاوا ہوتا ہو۔ ‘‘ ( خطبات مسرور جلد دوم صفحہ8-9مطبوعہ2005ء)
یاد رکھیں کہ سب سے بہترین لباس تقویٰ کا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لباس التقویٰ ذالک خیر یعنی تقویٰ کا لباس سب سے زیادہ بہتر ہے۔ اپنے روحانی حسن کو بڑھائیں، ظاہری بناؤ سنگھار میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کریں جن کا حسن آپ کے چہرے کو، آپ کے جسم کو اور خوبصورت بنا دے گا۔ تقویٰ کے لباس کا فیشن کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ہر کام کے لیے ایک لباس ہے۔ گھوڑے کی سواری کا لباس ہے۔ ایک سو گز کی دوڑ کا لباس ہے۔ مسجد میں آنے کا لباس ہے۔ گھر کا بھی ایک لباس ہے لیکن ایک لباس مسلمان کا ہے اور مسلمان کا لباس ہے لباس التقویٰ۔ اور ایک مسلمان کی ساری بھلائی اسی لباس میں ہے… لیکن ایک ایسا لباس ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور وہ تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ نہیں کہ کبھی تقویٰ کا لباس اوڑھا ہوا ہے اور اس سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں اور کبھی شیطان کا دامن اپنے گرد لپیٹ لیا اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھا گیا ہے۔ ‘‘( مشعل راہ جلد دوم مطبوعہ2006ء انڈیاصفحہ280)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اس بات کو نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی فیشن میں ہے۔ حالانکہ فیشن میں کوئی زندگی نہیں۔ اصل زندگی تو اُس فیشن میں ہے جو دین کا فیشن ہے۔ اس میں نہیں ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا کہ یہ زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں۔ پس زندگی کا فیشن تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھیں گے نہ کہ کسی اور سے۔‘‘( خطبات طاہر جلد اول صفحہ367مطبوعہ2007ءبھارت)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ 2006ء کے موقع پر لجنہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :’’ پس ہر احمدی عورت ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھے کہ لہو و لعب، فیشن پرستی اور دنیا داری کے پیچھے نہیں چلنا بلکہ دائمی جنت کا وارث بننے کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اس کی عبادت کرنی ہے اور شیطانی حملوں سے بچنے کے لئے بہت دعا کرنی ہے۔
ہر احمدی عورت کا ایک تقدس ہے اس لئے کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے آپ کے تقدس پر حرف آتا ہو بلکہ اپنی زندگیوں میں پاک روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ نے پردہ کا حکم دیا ہے اس کی پابندی کریں۔ اللہ کے کسی حکم کو کم اہمیت کا حکم نہ سمجھیں۔‘‘ (الفضل2؍اگست2006ء)
آئیے ہم سب وہ فیشن اختیار کریں جس کی تعلیم ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے جو دائمی ہے اور ہمیں خدا کا پیارا بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خلفا ء کی تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
السلام علیکم ، ماشااللہ بہت عمدہ مضامین آتے رہتے ہیں جو سب کے لئے یکساں مفید ہیں۔ جزاک اللہ