حضرت مصلح موعود ؓ

حصولِ مقصد کے لیے جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے(قسط نمبر4۔آخری)

(خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 17 ؍ دسمبر 1937ء )

پس کامل اطاعت اور فرمانبرداری نہایت ضروری ہے۔ اور یہ صرف خلیفہ سے ہی مخصوص نہیں۔ بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بس خلیفہ کی بات ماننا ہی ضروری ہے اور کسی کی ضروری نہیں۔ خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ لوگوں کا حکم بھی اسی طرح ماننا ضروری ہوتا ہے جس طرح خلیفہ کا۔ کیونکہ خلیفہ تو براہِ راست ہر ایک شخص تک اپنی آواز نہیں پہنچاسکتا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَ مَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ۔(بخاری کتاب الاحکام باب قول اللّٰہ تعالیٰ اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول…الخ)جس نے میرے مقرر کردہ افسر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کردہ افسر کی نافرمانی کی، اس نے گویا میری نافرمانی کی۔ ایسا خلیفہ کون سا ہوسکتا ہے جو تمام افراد تک براہِ راست اپنی آواز پہنچاسکے۔ ایسا تونبی بھی نہیں کرسکتا۔ بلکہ خداتعالیٰ گو اِس پر قادر ہے مگر عملاً ہر ایک تک اپنی آواز نہیں پہنچاتا۔ اس قسم کی باتیں کرنے والوں کے اندر بھی وہی روح ہوتی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ظاہر کی تھی اورکہا تھا کہ اگرخدا ہم سے کہے تو ہم مانیں گے۔ خدا تو ایسا کرسکتا ہے مگر کرتا نہیں لیکن خلیفہ تو کر ہی نہیں سکتا۔ پس جب خدا جو کرسکتا ہے وہ ایسا نہیں کرتا اور جو کر ہی نہیں سکتا وہ کس طرح کرے۔ خداتعالیٰ کے نہ کرسکنے کا سوال نہیں بلکہ حکمت کا سوال ہے۔ مگر خلفاء تو نہ ایسا کرسکتے ہیں اور نہ ہی حکمت ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ سوائے اِس کے کہ ملاّنوں کی طرح پانچ سات طالب علم لے کربیٹھ جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ خلیفہ کے ماتحت افسر ہوں جن کی اطاعت اُسی کی طرح کی جائے۔ پس وہی نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو اس بات پر آمادہ ہوں کہ کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھائیں گے، عقل سے کام لیں گے، تیسرے محنت کرسکتے ہوں چوتھے اخلاص سے کام کرنے والے ہوں اور پانچویں قابلیت رکھتے ہوں۔ ان اوصاف کے ساتھ ہی یہ وقف مفید ہوسکتے ہیں۔ قابلیت اور اطاعت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اور اگر اخلاص نہ ہو تو بھی انسان ایسے ایسے اعتراض کرتا رہتا ہے کہ بجائے مفید ہونے کے نقصان کا موجب ہوجاتا ہے۔ پھر محنت بھی ضروری ہے۔ جو شخص محنت نہیں کرتا اس کے ہاتھ سے کئی چیزیں چھوٹ جاتی ہیں اور کئی سوراخ ایسے رہ جاتے ہیں جن سے خرابی پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے کوئی شخص کنویس کی چادر میں پانی ڈال لے تو اگر تو اس کے چاروں کونوں کو پکڑ کر رکھے تو وہ محفوظ رہے گا لیکن اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو پانی گر جائے گا۔ پھر عقل بھی ضروری ہے۔ اگر عقل نہ ہو تو علم اور اخلاص بھی کام نہیں دے سکتا۔

بعض احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ زاہد بہترہے یا عاقل؟ آپ نے فرمایا عاقل کئی گنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ زاہد تو صرف اپنی ذات کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے مگر عاقل دوسروں کو بھی۔ بعض لوگوں نے کتابیں تو رٹی ہوئی ہوتی ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ علم کو استعمال کہاں کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ قابلیت سے میری مراد دراصل علم ہے جس سے کام اور اس کے کرنے کا طریق معلوم ہوتا ہے اور عقل ا س علم کے استعمال کا محل بتاتی ہے اور اخلاص، استقلال او رمداومت سے عقل کو کام پر لگائے رکھتا ہے۔ جب یہ چیزیں جمع ہوجائیں اور پھر ساتھ محنت کی عادت اور اطاعت کا جذبہ ہو تو پھر کامیابی ہی کامیابی ہوتی ہے لیکن ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ میں نے دیکھا ہے کہ تحریک جدید کے تمام کاموں سے زیادہ دقتیں تحریک جدید کے بورڈنگ میں پیش آئی ہیں۔ اتفاق سے ہمیں وہاں کام کرنے کے لیے ایسے آدمی ملے جنہوں نے محنت سے کام نہ کیا یا عقل سے نہ کیا اور یہ نہ سمجھا کہ اس کا مقصد کیا ہے اورمیں کیا چاہتا ہوں۔ ان کی مثال ’’من چہ سرائم و طنبورئہ من چہ مے سرائید‘‘کی تھی۔ اگر وہ ذمہ واری کا احساس کرتے اور خیال کرتے کہ لوگوں کے کام تو اس زمانہ میں نتائج پیدا کریں گے اور ہمارے آئندہ زمانہ میں جاکر تو یہ حالت نہ ہوتی۔ مگر انہوں نے نہ خود کام کو سمجھا اور نہ ہی طالب علموں کی ذہنیت میں مناسب تبدیلی پید اکی، حتیٰ کہ ان کو بتایا بھی نہیں گیا کہ اُن کو یہاں کیوں جمع کیا گیا ہے۔ پس محض وقف سے کام نہیں بنتا ایسے وقف سے کام بنتا ہے کہ انسان محنت، مشقت، قربانی اور اطاعت سے کام کرنے کے لیے تیارہو۔ تحریک جدید کے بورڈنگ کا کام ہی ایک ایسا کام ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ہم اس میں کامیاب ہوجاتے تو ایک ایسا انقلاب پیدا کردیتے جس کی قیمت اور عظمت کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر مجھے چالیس خالص مومن مل جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کرسکتا ہوں۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ342،ایڈیشن 1988ء)اور اس قسم کے بورڈنگ میں موقع ہے کہ ایک زمانہ میں ایسے سَو سَو مومن پید اکرسکیں۔

پس آئندہ جو لوگ اپنے آ پ کو وقف کریں وہ یہ سمجھ کر کریں کہ اپنے آپ کو فنا سمجھیں گے اور جس کام پر ان کو لگایا جائے اُس پر محنت، اخلاص اور عقل و علم سے کام کریں گے۔ عقل اور علم کا اندازہ کرنا تو ہمارا کام ہے مگر محنت، اطاعت اور اخلاص سے کام کا ارادہ ان کو کرنا چاہئے اور دوسرے یہ بھی خیال کرلینا چاہئے کہ وقت کے یہ معنے نہیں کہ وہ خواہ کام کے لیے موزوں ثابت ہوں یا نہ ہوں ہم ان کو علیحدہ نہیں کریں گے یا سزا نہیں دیں گے۔ صرف وہی اپنے آپ کو پیش کرے جو سز اکو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جن قوموں کے افراد میں سزا برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ ہلاک ہی ہوا کرتی ہیں۔ صحابہ کو دیکھو وہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ سزا برداشت کرتے تھے اور خودبخود کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صحابی سے کوئی غلطی ہوگئی تو انہوں نے مسجد میں جاکر اپنے آپ کو ستون سے باندھ لیا او رکہا کہ جب تک اللہ تعالیٰ مجھے معاف نہ کردے میں یہاں سے نہ ہٹوں گا۔ مگر ایسا کرنے کے لیے بھی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کئی وہمی آدمی ہوتے ہیں جو ایسی بات سن کر فوراً اُچھل پڑتے ہیں کہ بہت اچھا گُر مل گیا ہے۔ آئندہ اگر ہم سے کبھی غلطی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح کریں گے۔ مگر جو اپنے آپ کو باندھتا اور پھر اِدھر اُدھر دیکھتا ہے کہ کوئی آئے اور مجھے چھڑائے وہ خود بھی دھوکا خوردہ ہے۔ اس کی مثال تو ایسی ہی ہے جیسے کانگرسی قانون شکنی کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہمیں گرفتار کیوں کرتی ہے۔ اس صحابی نے تو اپنی نیت پوری کردی مگر رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جائز نہیں۔لیکن بہرحال سزا کا برداشت کرنا قومی زندگی کے لیے بہت اہم چیز ہے۔ ایک شخص کو رسول کریم ﷺ نے سزا دی کہ یہ ہماری مجلس میں کبھی نہ آئے اور وہ ساری عمر نہ آسکا۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے ایک شخص کو یہ سزا دی کہ ہمارے زمانہ میں کبھی مدینہ میں نہ آئے۔ چنانچہ وہ نہیں آیا مگر کام اسی قربانی سے کرتا رہا۔ تو سزا کا برداشت کرنا ہر مومن کے لیے ضروری ہے۔ خاص کر وقفِ زندگی کی صورت میں تو بہت ہی ضروری ہے۔ جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ اسے سزا دی ہی نہ جائے خواہ کچھ ہو، وہ گویا چاہتا ہے کہ ہر حال میں اس کالحاظ کیا جائے اور اس کے لیے دوسروں کو تباہ کردیا جائے ۔ پس وقف کرنے والوں کے لیے ان پانچوں اوصاف کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اور بعدمیں یہ نہ کہیں کہ اس وقت ہمیں نوکری مل سکتی تھی۔ یونہی ہمارے دو سال ضائع کئے گئے۔

پس وہی آگے آئے جس کی نیت یہ ہو کہ میں پوری کوشش کروں گا۔ لیکن اگر نکمّا ثابت ہوں تو سزا بھی بخوشی برداشت کرلوں گا۔ میں پھر ایک بار دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ ثواب کا ایک نہایت اہم موقع ہے۔ انگریزی دان اور عربی دان دونوں قسم کے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں۔ انٹرنس پاس یا اس سے اوپر گریجوایٹ انگریزی دان اور مولوی فاضل یا بعض ایسے جوکہ اگرچہ مولوی فاضل کی ڈگری تو نہ رکھتے ہوںمگر عربی میں اچھی استعداد ہو، اپنے آپ کو پیش کرسکتے ہیں۔ انتخاب کرنے کا اختیار تو ہمارا ہے۔ مگر جو اپنے آپ کو پیش کریں وہ محنت اور قربانی کے لیے تیار ہوکر اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوااور ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو پیش کریں اور اپنے سامنے ایک ہی مقصود رکھیں یعنی اشاعتِ اسلام۔ اور اس بات کے لیے بھی تیار ہوں کہ اگر کبھی وہ نظام کے لئے موزوں ثابت نہ ہوں تو بے شک ان کو الگ کردیا جائے خواہ دُنیوی لحاظ سے ان کو کیسا بھی نقصان کیوں نہ پہنچ چکا ہو۔

مجھے امید ہے کہ ہمارے نوجوان ان شرائط کے ماتحت جلد از جلد اپنے نام پیش کریں گے تا اس سکیم پر کام کرسکیں جو میرے مدنظر ہے۔ ہم آدمی تو تھوڑے ہی لیں گے مگر جو چند آدمی سینکڑوں میں سے چنے جائیں گے وہ بہرحال ان سے بہتر ہوں گے جو پانچ سات میں سے چنے جائیں گے۔ پچھلی مرتبہ قریباً دو سَونوجوانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اورمجھے امید ہے کہ اب اس سے بھی زیادہ کریں گے۔ جنہوں نے پچھلی مرتبہ اپنے آپ کو پیش کیاتھا وہ اب بھی کرسکتے ہیں۔ بلکہ جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ بھی چاہیں تو اپنے نام پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان کی تین سال کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تین سال تو ہم جانتے نہیں جب ایک دفعہ اپنے آپ کو پیش کردیا تو پھر پیچھے کیا ہٹنا ہے۔ ان کو بھی قانون کے ماتحت پھر اپنے نام پیش کرنے چاہئیں کیونکہ پہلے ہمارا مطالبہ صرف تین سال کے لیے تھا۔ اور جو بھی اپنے آپ کوپیش کریں پختہ عزم کے اور ارادہ کے ساتھ کریں۔ کیونکہ ڈھلمل آدمی اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لیے بھی مصیبت کا موجب ہوتا ہے۔

میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم میں سے ہر ایک بچے بوڑھے، جوان، مرد، عورت، چھوٹے بڑے کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ عزمِ صمیم کے ساتھ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے جس کا مطالبہ ہم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کیا گیاہے اور وہ ہمارے کاموں میں برکت دے تا ہم اس میں کامیاب ہوسکیں۔اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ

(الفضل 22؍دسمبر1937ء بحوالہ خطبات محمود جلد18صفحہ637تا652)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button