متفرق مضامین

صحابہ کرام ؓکی شاندار قُربانیاں

خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ ۴؍اگست۱۹۳۹ء

تحریکِ جدید کی قُربانیوں میں حصّہ لینا جنّت کو واجب کر دیتا ہے

تشہد،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

رسُولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ایک بیوی کے گھر میں ایک رسّہ لٹکا ہؤا دیکھا آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسا رسّہ ہے؟ کسی نے جواب دیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فلاں بیوی جب رات کو نماز پڑھتی ہیں تو نماز پڑھتے پڑھتے جب انہیں اونگھ آتی ہے تو وہ کھڑے کھڑے اس سے ٹیک لگا لیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ کوئی نیکی نہیں۔ نیکی یہ ہے کہ انسان اس حد تک اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرے جس حدتک اُس کے دل میں ملال پیدا نہ ہو اور پھر دائمی اور مستقل طور پر اس کو اختیار کرے۔ (سنن ابن ماجہ۔ ابواب اقامۃ الصلٰوۃ و السنۃ فیھا۔ باب ماجاء فِی المصَلِّی اذا نَعَسَ )اگر ایک شخص ایک نیکی کرتا ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اُسے چھوڑ دیتا ہے یا اس میں سستی پیدا ہو جاتی ہے یا اُسے جگانے اور بیدار کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو درحقیقت وہ نیکی ظاہری طور پر زیادہ ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گر جاتی اور اس کا ثواب کم ہو جاتا ہے کیونکہ اصل چیز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے انسان اپنے آپ کو وقف کر دے اور جو اقرار کرے اُسے پورا کرے جیسے اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ (الاحزاب :۲۴)کہ صحابہ میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی غرض اور مقصد کو پورا کر لیا اور کچھ ایسے ہیں جو ابھی اس بات کے انتظار میں ہیں۔گویا کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے جامِ شہادت پی لیا اور دنیا کے سامنے اُنہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جو اقرار اُنہوں نے اﷲ تعالیٰ سے کیا تھا وہ اُنہوں نے پورا کر دیا مگر باقی اس قسم کے تھے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے گو ابھی تک وہ اپنے اقرار کو پورا نہیں کر سکے یعنی اﷲ کی راہ میں موت ان پر نہیں آئی لیکن ان کی کیفیتِ قلبی ایسی ہے کہ وہ ہر وقت موت کے انتظار میں رہتے ہیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ جن کی نسبت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے سَیْفٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ کے الفاظ فرمائے ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار۔(صحیح بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الموتَۃ من أرض الشام) وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے آخری زمانہ میں ایمان لائے تھے۔ اُحد میں مسلمانوں کو جو نقصان پہنچا اُس کا موجب بھی یہی تھے۔ یہ دراصل ان نوجوانوں میں سے تھے جو قوم کی نظروں میں بڑھ رہے تھے اور ترقی کر رہے تھے۔ یہ اُحد میں کفار کے ایک دستہ کے کمانڈر تھے۔ جب دُشمن بھاگا اور کافروں کو شکست ہو گئی تو ان کی نظر اچانک اس دَرّے پر پڑی جس پر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے دس آدمی مقرر کئے ہوئے تھے مگر اُنہوں نے غلطی سے اُس دَرّے کو چھوڑ دیا تھا وہ فوراً بھانپ گئے کہ یہ ایک ایسا موقع نکل آیا ہے جسے ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے چنانچہ اُنہوں نے عکرمہ ؓکو کہ وہ بھی نوجوان تھے اس طرف توجہ دلائی اور ان دونوں نے مل کر ایک چھوٹے سے دستہ کے ساتھ مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا۔ (تاریخ الطبری الجز الثانیصفحہ ۵۰۷۔ دارالمعارف بمصر ۱۹۶۱ء زیر عنوان غزوۃ احد۔) پھر جو واقعات ہوئے وہ کئی دفعہ بیان ہو چکے ہیں۔ احادیث میں بھی مسلمان ان واقعات کو پڑھتے رہتے ہیں اور قرآن کریم میں بھی ان کا ذکر آتا ہے بلکہ ایک جگہ تو تفصیلی ذکر ہے۔ تو ان واقعات کا موجب خالد ہی تھے اور اُحد کی جنگ تک یہ برابر اسلام کے مقابلہ میں لڑتے رہے تھے۔ غزوۂ احزاب کے بعد یہ مسلمان ہوئے اور پھر انہوں نے اسلام میں ترقی کرنی شروع کر دی۔ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دُور بین نگاہ نے انہیں ایسا بھانپا کہ فتح مکّہ کے وقت ایک طرف کے کمانڈر خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تھے اور دوسری طرف کے کمانڈر خالد بن ولید تھے۔(سیف اللّٰہ خالد بن الولید دراسہ عسکریہ تاریخیہ عن معارکہ و حیاتہٖ الجزء الاوّل)پھر غزوہ موتہ کے وقت بھی ان کے ہاتھ لشکر کی کمان آئی۔ گو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں مقرر نہیں کیا تھا اور اس وقت آپﷺ کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ خالد سَیْفٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی تلواروں میںسے ایک تلوار ہے۔(صحیح بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الموتَۃ من أرض الشام) یہ اسلام کی قُربانی کے لئے اس قدر تیار رہتے تھے کہ بہت کم مثالیں اس قسم کی جانی قُربانی کی ملتی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد آرام سے بیٹھنا انہوں نے اپنے لئے پسند ہی نہیں کیا۔ ہمیشہ جہاں جنگ ہوتی پہنچ جاتے۔ اگر ایک جگہ جنگ ختم ہو جاتی تو دوسری جگہ اپنے آپ کو والنٹیئرکر دیتے اور دوسری جگہ سے فارغ ہوتے تو تیسری جگہ اپنے آپ کو والنٹیئر کر دیتے۔ کوئی خطرے کا مقام ایسا نہیں تھا جہاں وہ نہ پہنچتے ہوں حتّٰی کہ وہ فیصلہ کُن آخری جنگ جس میں قیصر نے اپنے ایک جرنیل کو اس شرط پر جنگ کرنے کے لئے بھیجا تھا کہ اگر تم فتح کرکے آؤ گے تو مَیں اپنی بیٹی کی تم سے شادی کردوں گا اور آدھے مُلک کی سلطنت تمہیں دے دوں گا۔ اس میں بھی خالد کی تدبیر سے ہی مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ ایک عظیم الشان سلطنت کا نصف حصّہ مل جانا اور شاہی خاندان کا فرد بن جانا کوئی معمولی بات نہیں اور تم یہ بھی سمجھ سکتے ہو کہ اس کے لئے اُس جرنیل نے کس قدر سر توڑ کوششیں کی ہوں گی۔ اسلامی تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ جرنیل مسلمانوں کے مقابلہ میں دس لاکھ فوج لایالیکن یورپین تاریخیں قیصر کی فوج کی تعداد دو سے تین لاکھ تک بتاتی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی فوج اسلامی تاریخ کے مطابق ساٹھ ہزار اور عیسائی تاریخ کے مطابق ایک لاکھ تھی۔بہرحال ادنیٰ سے ادنیٰ اندازہ بھی اگر لگالیا جائے تو کفار کے لشکر کی نسبت مسلمانوں کے مقابلہ میں ایک اور تین کی تھی۔ یعنی مسلمان اگر ایک تھا تو کافر تین تھے۔ پھر وہ تین لاکھ ایک منظم فوج کا حصّہ تھے کیونکہ قیصر کی حکومت کوئی معمولی حکومت نہیں تھی۔ کفّار کے لشکر کی کثرت دیکھ کر اسلامی کمانڈر اِنچیف نے تجویز کیا کہ ہمیں پیچھے ہٹ جانا چاہئے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو لکھنا چاہئے کہ ہماری مدد کے لئے اور فوج بھجوائی جائے۔ خالد بن ولید ہی وہ شخص تھے جنہوں نے اس موقع پر کھڑے ہو کر کہا کہ مَیں ہر گز یہ مشورہ نہیں دیتا کہ اسلامی لشکر کو پیچھے ہٹنا چاہئے کیونکہ اگر ہم پیچھے ہٹے تو دُشمن چونکہ آخری اور فیصلہ کن جنگ کرنے کے ارادہ سے نِکلا ہے اور وہ تہیّہ کئے ہوئے ہے کہ یا تو وہ ہمیں مار دے گا یا خود مَر جائے گا۔ اِس لئے اگر ہم پیچھے ہٹے تو دُشمن کا دل بڑھ جائے گا اور پھر ہمارے قدم مدینے تک نہیں ٹھہریں گے اور خالد بن ولید ہی تھے جنہوں نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں ساٹھ ہزار لشکر کم ہے مگر میں کہتا ہوں کہ اسلا م نے جو غیرت اور قُربانی کا مادہ مسلمانوں کے اندر پیدا کیا ہؤا ہے اس کے لحاظ سے مجھے اجازت دی جائے کہ مَیں صرف ساٹھ مسلمان چُن کر دُشمن پر حملہ کر دوں۔ اسلامی کمانڈر نے اس سے انکار کیا لیکن بعض اَور صحابہؓ نے خالدؓ کی تائید کی اور اُنہوں نے بھی کہا کہ یہ درست ہے۔ خالدؓ کو ساٹھ آدمی اپنے ڈھب کے چن لینے دیئے جائیں۔ چنانچہ لشکر میں اعلان کیا گیا کہ جو لوگ اس جنگ میں اپنی جان دینے کے لئے تیار ہوں وہ اپنے آپ کو پیش کریں۔ اس اعلان پر سینکڑوں مسلمانوں نے اپنے آپ کو پیش کیا جن میں سے اُنہوں نے ساٹھ آدمی چُن لئے۔ ان میں سے ایک ان کا پُرانا دوست عکرمہ، ابوجہل کا بیٹا بھی تھا۔ یہ ساٹھ آدمی تھے اور اُدھر قیصر کی فوج کا جو اگلا دستہ تھا اُس میں ساٹھ ہزار عرب عیسائی تھا۔ بعض عرب کے قبائل عیسائی بھی تھے اور وہ قدرتی طور پر قیصر سے مل گئے تھے اور قیصر بھی زیادہ تر اُنہی کو فوج کے آگے رکھتا کیونکہ وہ سمجھتا کہ عربوں سے عرب ہی جنگ کرنا جانتے ہیں اور یہ چونکہ گھوڑے کے خوب سوار ہیں اور لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اِس لئے ضروری ہے کہ عربوں کو ہی آگے رکھا جائے۔

اِدھر اِن ساٹھ نے یہ اقرار کیا کہ وہ سب یکدم حملہ کر کے قلبِ لشکر میں پہنچ کر عیسائی کمانڈر کو قتل کر دیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے گھوڑوں کی باگیں اُٹھائیں اور قلبِ لشکر پر حملہ کر دیا۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ دس لاکھ کا کمانڈر جہاں کھڑا ہو گا وہاں اس کے پہرے اور حفاظت کا کتنا بڑا سامان ہو گا مگر جس طرح تیر کمان سے چھٹتا ہے یا جس طرح باز چڑیا پر جھپٹتا ہے اسی طرح وہ قلبِ لشکر کی طرف بڑھے۔ کچھ ان میں سے زخمی ہوئے، کچھ شہید ہوئے اور کچھ قلبِ لشکر میں جا پہنچے اور عین وسط میں پہنچ کر اُنہوں نے عیسائی کمانڈر کو قتل کر دیا یا بھگا دیا۔ مجھے اس وقت پوری طرح یاد نہیں۔ اسلامی لشکر کھڑا ہوااس حملہ کا نظارہ دیکھ رہا تھا لیکن جونہی وہ دُشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے اندر گھُسے بعض مسلمان افسروں نے سردارِ لشکر کو مشورہ دیا کہ اب ان کو اکیلے لڑنے دینا مناسب نہیں بہتر ہے کہ ہم بھی ساتھ ہی حملہ کر دیں۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی ساتھ ہی حملہ کردیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ شام تک وہ عیسائی لشکر جو اتنی بڑی شان و شوکت کے ساتھ آیا تھا تِتر بِتّر ہو گیا۔یہی وہ لوگ ہیں جن کا ایک مشہور قصّہ تاریخوں میں آتا ہے جسے پڑھ کر ہر مسلمان کی رگوں میں خون تیزی سے چلنے لگ جاتا ہے اور اس کے دل میں غیرت اور قُربانی کا شاندار جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ انہی ساٹھ آدمیوں میں سے سات آدمی شدید زخمی ہوئے۔ جب عیسائی لشکر کو شکست ہوگئی تو ایک مسلمان زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے میدانِ جنگ کا چکرکاٹ رہا تھا کہ اس نے ایک شخص کو نزع کی حالت میں دیکھا۔ قریب پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ وہ شدّتِ پیاس کی وجہ سے اپنے ہونٹوں پر زبان مل رہا ہے اُس نے پوچھا تمہیں پیاس لگی ہوئی ہے؟ وہ کہنے لگا ہاں۔ اس نے اپنی چھاگل سے پانی نکالا اور اُسے پینے کے لئے دینا چاہا تو اُس کی نگاہ اپنے پاس پڑے ہوئے ایک اَور زخمی کی طرف پھر گئی اور وہ کہنے لگا یہ شخص مجھ سے زیادہ پیاسا معلوم ہوتا ہے پہلے اسے پانی پلاؤ۔ وہ اُس کے پاس پانی لے کر گیا تو اس نے اپنے پاس پڑے ہوئے ایک اَور زخمی کی طرف دیکھ کر کہا مجھے بھی پیاس ہے مگر اسے مجھ سے زیادہ پیاس معلوم ہوتی ہے پہلے اسے پانی پلاؤ۔ وہ اُسے چھوڑ کر تیسرے کی طرف متوجہ ہؤا تو اُس نے چوتھے کی طرف اشارہ کر دیا اور کہا کہ پہلے اُسے پانی پلایا جائے۔ اسے زیادہ پیاس معلوم ہوتی ہے۔ اِسی طرح ہر شخص نے اُسے دوسرے کو پانی پلانے کی تاکید کی۔ یہاں تک کہ وہ ساتویں شخص تک پہنچ گیا جب اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ فوت ہو چُکا ہے۔ پھر وہ واپس دوسرے کی طرف گیا تو جس جس کے پاس پہنچا اُس کی جان نکل چکی تھی۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد ۳ صفحہ ۱۹۱ باب عکرمہ مکتبہ دارالکتب)تو زخموں سے چُور، پیاس سے بالکل لاچار اور جان کندنی کی حالت میں صحابہ ؓنے اس قسم کے ایثار سے کام لیا کہ دُنیا کی تاریخ اس قسم کی کوئی اور مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اور ہر سچا مسلمان جو اس واقعہ کو پڑھتا ہے اُس کے دل میں بھی یہ خواہش اور آرزو پیدا ہوتی ہے کہ کاش اﷲ تعالیٰ مجھے بھی اسلام کی خدمت کی ایسی ہی توفیق دے۔

غرض خالدؓ ان صفات کا مالک تھا جو مَیں نے اوپر بیان کی ہیں۔ صحابہ میں سے جو چوٹی کے آدمی سمجھے جاتے تھے ان کی اولاد خالدؓ کی فدائیت، اس کی بہادری اور جذبۂ جان نثاری کی وجہ سے ہمیشہ اس کے اردگرد جمع رہتی تھی اور باوجود اس کے کہ وہ بعد میں ایمان لائے تھے جس طرح شمع کے گرد پروانے جمع رہتے ہیں اسی طرح خالد بن ولیدؓ کے گرد اکابر صحابہ ؓکی اولاد جمع رہتی تھی۔ چنانچہ ان کے ارد گرد جمگھٹا رکھنے والوں میں رسُولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے قریبی عزیز بھی تھے۔ مثلاً حضرت عباسؓ کے لڑکے فضل اکثر آپ کے ساتھ رہتے۔ اسی طرح اس فدائی جمگھٹے میں حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لڑکے بھی تھے۔ غرض باوجود بعد میں ایمان لانے کے ان کی قُربانی، ایثار اور اخلاص کو دیکھ کر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاندان کے افراد کیا اور دوسرے خاندانوں کے افراد کیا سب ان کے ارد گرد رہتے اور سمجھتے کہ ان سے مل کر کام کرنا اسلا م کی خدمت ہے۔ جب خالدؓ فوت ہونے لگے تو ان کے ایک دوست اُن سے ملنے کے لئے آئے۔ ان کی حالت نازک ہو رہی تھی اور یہ نظر آرہا تھا کہ وہ چند گھنٹوں کے اندر اندر دُنیا کو چھوڑ دینے والے ہیں۔ انہیں سخت کَرب تھا اور اسی کرب کی حالت میں وہ بستر پر تڑپ رہے تھے۔ کبھی دائیں کروٹ بدلتے اور کبھی بائیں۔ اس دوست نے انہیں کہا خالدؓ! تم نے اسلام کی اتنی عظیم الشّان خدمت سر انجام دی ہے کہ مَیں تمہیں جنت اور خدا کے فضل کی بشارت دیتا ہوں۔ تم کیوں فکر کرتے ہو؟ تمہیں تو فوراً خدا اپنے فضل کی چادر میں لپیٹ لے گا۔ خالدؓ نے ان سے کہاکہ ذرا میرے قریب آؤ اور میری قمیص اُٹھاؤ۔ جب اُنہوں نے قمیص اُٹھا ئی تو خالدؓ کہنے لگے دیکھو! میرے جسم پر کیا کوئی جگہ ہے جہاں تلوار کا نشان نہ ہو؟ اُنہوں نے دیکھا تو واقع میں ایک انچ بھی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں تلوار کے زخم کا نشان نہ ہو۔ پھر اُنہوں نے کہا کہ میرے تہہ بند کو رانوں تک اُٹھادو۔ اُنہوں نے تہہ بند اُٹھا کر دیکھا تو وہاں بھی رانوں تک اسی طرح زخموں کے نشانات سے جسم بھرا ہؤا تھا۔ یہ نشانات دکھا کر وہ کہنے لگے۔ مَیں نے اپنے آپ کو ہر خطرے میں ڈالا۔ ایسی ایسی نازک جگہوں پر مَیں نے اپنے آپ کو پھینکا کہ مَیں سمجھتا تھا آج میرے لئے شہادت یقینی ہے لیکن افسوس باوجود اس کے کہ ہر میدان میں مَیں نے اپنے آپ کو شہادت کے لئے خطرے میں ڈالا آج مَیں بستر پر مَر رہا ہوں۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد ۲ صفحہ ۱۴ باب حرف الخاء مکتبہ دارالکتب ) یہ وہ لوگ تھے جو اپنی کمزوریوں کو سمجھتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو جانتے تھے کہ ہم نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی وقت جو مخالفت کی ہے اُس کا کفارہ معمولی کفارہ نہیں ہو سکتا۔ ایمان کے ساتھ ان کے گناہ بخشے گئے، ایمان کے ساتھ انہیں خدا اور اس کے رسول کا قُرب حاصل ہو گیا اور ایمان کے ساتھ وہ اعلیٰ درجہ کے روحانی مقامات پر پہنچ گئے مگر باوجود اس کے ان کے دلوں کی یہ خلش نہیں مٹتی تھی کہ ہم نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پہلی آواز کو کیوں نہیں مانا۔ خدا نے تو ان کو بیشک بخش دیا مگر اُنہوں نے اپنی جانوں کو نہیں بخشا۔ خدا نے تو ان کی جانوں پر رحم کر دیا مگر اُنہوں نے اپنی جانوں پر رحم نہیں کیا۔ جب خدا نے ان کو بخشا تو اُنہوں نے کہا اگرہمیں خدا نے بخش دیا ہے تو کیا ہم شکر گزاری کے طور پر پہلے سے بھی زیادہ قُربانیاں نہ کریں؟ پس باوجود اس بات کے کہ خدائی الہام ان کی تائید میں تھا جیسے مَیں نے بتایا ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے الہام کی بنا پر خالدؓ کو سَیْفٌ مِّنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ قرار دیا مگر انہوں نے چَین اور آرام سے بیٹھنا اپنے لئے جائز نہ سمجھا اور خالدؓ نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ جب خدا نے مجھے اپنی تلوار کہا ہے تو اب اس تلوار کو نیام میں نہیں آنا چاہئے۔ تلوار تو میدان جنگ میں ہی اچھی لگتی ہے۔ چنانچہ وہ دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور کوئی موقع ایسا نہیں آیا جس میں وہ اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں نہ کود گئے ہوں۔ یہ گویا اﷲ تعالیٰ کے اس انعام کی شکرگزاری کی انتہا تھی کہ اس نے ایک نبی پر ایمان لانے کی سعادت سے انہیں بہرہ اندوز فرمایا اور اس احسان کا حقیر شکرانہ تھا جو خدا نے اس رنگ میں ان پر کیا کہ انہیں رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شناخت کی توفیق بخشی۔ غرض انسانی فطرت کا حُسن و جمال ایسے نمایاں طور پر ان لوگوں میں ظاہر ہؤا کہ ان کو دیکھ کر وہ تمام خیالات مٹ جاتے ہیں جو شیطان کے اس دعوے سے بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہوتے ہیں کہ آدم کے بیٹے دُنیا میں خون بہائیں گے اور فساد کریں گے۔ جب انسان قُربانی اور اخلاص کے ان عظیم الشان نمونوں کو دیکھتا ہے تو وہ بے اختیار چلّا اُٹھتا ہے کہ لعنتی تھا شیطان، جھوٹا تھا شیطان اور سچا تھا وہ خدا جس نے آدم کو پیدا کیا جس کی نسل سے ایسے قیمتی وجود دُنیا میں ظاہر ہوئے۔ یہ تو اس بے نظیر انسان کی مثال ہے جو گو ابتدائی زمانہ میں اسلام کے مقابلہ میں لڑ تا رہا مگر بعد میں خدا تعالیٰ نے اسے توبہ نصیب کی اور وہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہو کر اسلامی غزوات میں حصّہ لیتا رہا۔ پھر معمولی آدمیوں کی طرح نہیں بلکہ اس رنگ میں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے عزت کے مقام پر کھڑا کیا۔ نہ صرف رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہی بلکہ خدا نے بھی اسے ایک عزت کا خطاب دیا مگر اس کے علاوہ اور لوگ بھی تھے اور گو وہ درجہ میں کم تھے مگر احسان مندی اور شکر گزاری کی مثالیں ان میں بھی ایسی شاندار نظر آتی ہیں کہ دل ان کو دیکھ کر فرطِ مسرت سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ ایسی مثالیں ہیں جو ایمان کو تازہ کر دیتی ہیں۔

مکّہ کے بعض بڑے بڑے لوگ جو کفار کے لیڈر تھے ان کی عظمت کو آج پوری طرح نہیں سمجھا جاتا۔ ہم جو مسلمان ہیں اپنی تاریخوں میں چونکہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا نام پڑھتے اور انہی کا نام ہر وقت سُنتے رہتے ہیںاس لئے عام طور پر مسلمانوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہی مکّہ کے بڑے لوگ تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مکّہ کے بڑے آدمی نہیں تھے مگر آہستہ آہستہ جب قوموں میں مذہب پھیل جائے تو وہ اپنے آدمیوں کے متعلق ہی یہ خیال کرنے لگ جاتی ہیں کہ وہ سب سے بڑے تھے۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے وہ اپنی شوکت اور عظمت کی وجہ سے اس بات کو بھُول چکے ہیں کہ اُس وقت کے مسلمان دوسری قوموں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے تھے۔ مثلاً آج یہ سمجھنا مشکل ہے کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نبوت سے پہلے مکّہ کے ایک بیکس نوجوان تھے بلکہ آج ہم میں سے ہر شخص یہ خیال کرتا ہے کہ شاید رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پیدائشی طور پر ہی بادشاہ تھے۔ اسی طرح آج حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی قُربانیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ان کی جو عزت ہے اس کی وجہ سے وہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ شاید مکّہ کے سب سے بڑے رئیس تھے۔ یہی حال حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓکے متعلق مسلمانوں کے خیالات کا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ گو یہ لوگ مکّہ کے بڑے خاندانوں میں سے تھے مگر سردارانِ قوم میں سے نہیں تھے بلکہ سردارانِ قوم کے قریب درجہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ آج ہم جب پڑھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ فلاں خاندان میں سے تھے جسے عرب میں بڑی عزت حاصل تھی تو خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ عزت حضرت ابوبکرؓکو حاصل تھی۔ اسی طرح جب پڑھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے خاندان کو مکّہ میں یہ عظمت حاصل تھی تو خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ عظمت حضرت عمرؓ کو ہی حاصل تھی حالانکہ اس کے صرف یہ معنے ہوتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ کے رشتہ داروں میں سے کسی رشتہ دار کو یہ عزت اور عظمت حاصل تھی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ کو بھی یہ عظمت حاصل تھی یا حضرت عمرؓ کو بھی یہ عظمت حاصل تھی۔ مکّہ کے اصل سردار بالکل اور تھے ان سرداروں میں سے ابوسفیانؓ تھا، ابوجہل تھا جس کا اصل نام ابو الحکم تھا۔ اسی طرح عتبہ تھا، شیبہ تھا، ولید تھا۔ اسی طرح بعض اَور لوگ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو مکّہ کے سردار تھے اور ان میں سے کوئی شخص مسلمان نہیں تھا۔ مکّہ والے جب بھی کوئی بات کرتے ہمیشہ ان سے پوچھ کر کیا کرتے اور ان کو عظمت بھی اس قسم کی حاصل تھی کہ لوگ ان کے سامنے بات کرنے سے ڈرتے اور ان کے مکّہ والوں پر بہت بڑے احسان تھے۔ چنانچہ ان لوگوں کو جس قسم کی عظمت حاصل تھی اس کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکّہ والوں نے جس شخص کو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ صلح کی گفتکو کرنے کے لئے بھیجا اس نے باتیں کرتے ہوئے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دیا اور جس طرح دوسرے کو سمجھاتے ہوئے بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اپنے باپ کی عزت کا خیال کرو اِسی طرح اس نے بھی رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو سمجھانا شروع کر دیا کہ میری عزت کا پاس کرو اور جس طرح ہماری پنجابی زبان میں مثل ہے کہ وَنْ وَنْ دِی لکڑی۔ اسی طرح اس نے انصار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ متفرق لوگ ہیں ان پر تم اعتبار نہ کرو۔ یہ تو تم پر مصیبت کا کوئی وقت آیا تو فوراً چھوڑ کر چلے جائیں گے اور تمہارے کام آخر تمہارا خاندان ہی آئے گا۔ اس لئے تم ان کی بات کے پیچھے نہ جاؤ اور جس طرح ہم کہتے ہیں کہ اس دفعہ بغیر عمرہ کئے واپس چلے جاؤ۔ اِس کو مان لو۔ یہ مضمون بیان کرتے ہوئے جب وہ یہاں پہنچاکہ اپنی قوم ہی اچھی ہوتی ہے اور مصیبت کے وقت وہی کام آیا کرتی ہے، یہ لوگ تو تجھے مشکل کے وقت بالکل چھوڑ دیں گے تو اس نے اپنی بات پر زیادہ زوردینے اور اُسے منوانے کے لئے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگا دیا۔ اِس پر ایک صحابی نے اپنی تلوار کا کندہ اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا ہٹالے اپنا ناپاک ہاتھ۔ تیری کیا حیثیت ہے کہ تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ریشِ مبارک کو ہاتھ لگائے۔ اُس نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا۔ صحابہ ؓ چونکہ خَود پہنے ہوئے تھے اور صرف آنکھیں اور ان کے حلقے ہی نظر آرہے تھے اس لئے وہ کچھ دیر غور سے اس صحابی کی طرف دیکھتا رہا اور آخر اس نے پہچان لیا اور کہا کیا تم فلاں ہو؟ اس نے کہا ہاں۔ وہ کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں مَیں نے فلاں موقع پر تمہارے باپ کو اس مصیبت سے بچایا اور فلاں موقع پر تمہارے فلاں رشتہ دار کو اس مُشکل سے نجات دی۔ کیا تم میرے سامنے بولتے ہو؟ وہ صحابی بالکل خاموش ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس پر پھر اس نے بات شروع کی اور جوش میں آکر اس نے پھر رسُول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی ڈاڑھی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں ہم میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جس پر اس کا کوئی نہ کوئی احسان نہ ہو۔ ہر شخص ہم میں سے اس کا ممنونِ احسان تھا اور ہم میں سے ایک فرد بھی ایسا نہیں تھا جو اس کی طرف ہاتھ بڑھا سکے۔ اہلِ عرب میں احسان مندی کا جذبہ نمایاں طور پر پایا جاتا تھا جسے اسلام نے اَور بھی زیادہ بڑھا دیا۔

پس اس جذبۂ امتنان کی وجہ سے صحابہ ؓ میں سے کوئی شخص یہ جرأت نہیں کرتا تھا کہ اُسے روکے اور پھر اس سے وہی جواب سُنے جو اس نے پہلے شخص کو دیا تھا۔ تب ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے زور سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر مار کر کہا۔ خبردار! جو تُو نے اپنا ناپاک ہاتھ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف بڑھایا۔ اس نے پھر نظر اُٹھائی اور تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد اس نے اپنی نظریں نیچی کر لیں اور کہا ابو بکر! تم پر میرا کوئی احسان نہیں۔(السیرۃ النبویہ لا بن ھشام۔ الجزء الثالث صفحہ ۳۲۹۔ مطبع مصطفی البابی الحلبی)

پس ایک ابوبکرؓ ہی تھا جس پر اُس کا کوئی احسان نہیں تھا باقی سب صحابہ ایسے تھے کہ ان میں سے ہر ایک پر اِس کا کوئی نہ کوئی احسان تھا۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ اُن سرداروں کی کیا حیثیت تھی۔

پس عمائد اور سردار جو اہلِ مکّہ کے تھے ان کی شان بالکل اَور تھی۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نوجوان تھے، بالخصوص حضرت ابوبکرؓ ایک بڑھنے اور ترقی کرنے والے نوجوان تھے اور بہت سے لوگوں کی اُن پر نظریں اُٹھتی تھیں اور وہ خیال کرتے تھے کہ کسی دن یہ قوم کا سردار ہو جائے گا کیونکہ ان کے احسانات بھی بہت لوگوں پر تھے۔

مگر بہرحال سردارانِ قوم کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ جب مکّہ فتح ہو گیا تو ان لوگوں کی کیا حیثیتیں رہ گئی ہوں گی جو قوم کے سردار اور عمائد سمجھے جاتے تھے۔

فتح مکّہ کے بعد پہلی حکومت بدل گئی وہ جو کبھی سردار سمجھے جاتے تھے ان کی سرداریاں جاتی رہیں اور وہ جنہیں ذلیل اور حقیر سمجھا جاتا تھا وہ اُن کے حاکم اور سردار بن گئے۔ اس طرح زمانہ گزرا اور گزرتا چلا گیا پھر رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا عہد آگیا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا عہد آگیا۔

ایک دفعہ حضرت عمرؓ حج کے لئے مکّہ تشریف لے گئے تو ان کی ملاقات کے لئے لوگ جمع ہونے شروع ہوئے۔ انہی ملاقاتیوں میں مکّہ کے رؤسا اور سردارانِ قریش کے بعض لڑکے بھی تھے جو اکٹھے ہو کر حضرت عمرؓ کو ملنے کے لئے آئے کیونکہ اس وقت حضرت عمرؓ سے ملاقات ایسی ہی تھی جیسے کوئی شاہی دربار میں پہنچ جائے۔ اس وقت ساری بادشاہت حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ کو ہی حاصل تھی۔ پس انہوں نے بھی ایک دوسرے سے کہا کہ آؤ ہم حضرت عمرؓ سے مل آئیں۔ چنانچہ وہ اکٹھے ہو کر ان کے پاس آئے اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھ گئے۔ حضرت عمرؓ نے ان سے باتیں شروع کردیں اتنے میںکوئی غریب سا صحابی آگیا۔ حضرت عمرؓ نے ان نوجوانوں سے کہا ذرا ان کے لئے جگہ چھوڑ دیں چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئے اور وہ صحابی ؓ قریب ہو کر باتیں کرنے لگ گیا۔ اسی اثناء میں ایک اَور صحابی ؓ آگیا اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے پھر اُن سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جانا وہ اَور زیادہ پیچھے ہٹ گئے اور اس جگہ وہ صحابی ؓ بیٹھ گئے۔ چونکہ حج کے ایّام تھے اِس لئے یکے بعد دیگرے کئی صحابہ ؓ آتے چلے گئے اور حضرت عمرؓ ہر صحابیؓ کی آمد پر ان سے یہی کہتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جانا یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ جوتیوں تک جا پہنچے۔ یہ صحابہؓ جو آئے ان میں سے بعض ان کے باپ دادا کے غلام تھے اور وہ ان پر دن رات ظلم و ستم ڈھاتے رہتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے ان میں سے کئی غلاموں کو اپنے پاس سے روپیہ دے کر آزاد کروایا تھا وہ تاجر تھے مگر انہوں نے اپنی تجارت تباہ کر دی اور جس قدر روپیہ تھا وہ سب غلاموں کو آزاد کروانے پر صرف کر دیا۔ پھر ان میں سے بعض وہ لوگ تھے جو اُن کے برتن مانجا کرتے تھے۔ بعض وہ تھے جو اُن کے بستر جھاڑتے، بعض وہ تھے جو اُن کے لئے جنگل سے لکڑیاں اور ایندھن لاتے اور بعض وہ تھے جو اُن کے اونٹوں کے لئے گھاس وغیرہ لاتے۔ اسی طرح ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے سروں پر وہ جوتیاں مارا کرتے تھے اور ان میں وہ لوگ بھی تھے جن کی ماؤں کو اسلام لانے پر ان کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر انہوں نے ہلاک کیا تھا۔

غرض یہ غلام جن کو ذلیل ترین وجود سمجھا جاتا تھا باری باری اندر آئے اور ہر شخص کے آنے پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ان رؤساء سے کہتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور ان کو جگہ دو۔ اور وہ پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ جوتیوں میں جاکر بیٹھ گئے۔ جب مجلس ختم ہوئی تو باہر نکل کر اُنہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا آج جو سلوک ہمارے ساتھ ہؤا ہے اس سے زیادہ ذلت کا سلوک اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ شہر جس میں ہمارے باپ دادوں نے حکومت کی اسی شہر میں یہ لوگ جو ہمارے غلام تھے اور مکّہ میں ذلیل ترین وجود سمجھے جاتے تھے آج ایک ایک کر کے ہمارے آگے بٹھائے گئے اور ہمیں پیچھے ہٹاتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ ہم جوتیوں میں بیٹھے اس سے زیادہ ذلت اور رسوائی کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ یہ گفتگو سُن کر ان میں سے ایک جو زیادہ شریف تھا وہ بولا اور اس نے کہا کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ یہ بات سن کر سب شرمندہ ہو گئے۔ وہ کہنے لگا جب ہم نے اور ہمارے باپوں نے خدا کے رسول کا انکار کیا تھا اس وقت یہ لوگ ایمان لائے تھے۔ پس چونکہ یہ پہلے ایمان لائے اس لئے ان کو یقیناً ہم پر فضیلت حاصل ہے اور یہ ہمارا ہی قصور ہے کہ ہم وقت پر ایمان نہیں لائے۔ تب اُنہوں نے ایک دوسرے سے سوال کیا کہ کیا اس ذلت کو مٹانے کا کوئی ذریعہ بھی ہے یا نہیں اور کیا اس گناہ کا کوئی کفارہ نہیں؟ اُنہو ں نے کئی تدبیریں سوچیں۔ کسی نے کہا ہم اپنی جائدادیں اسلام کی راہ میں دے دیں، کسی نے کہا ہمیں چاہئے کہ ہمارے پاس جس قدر روپیہ ہے وہ سب قُربان کر دیں، مگر کسی بات پر ان کا اطمینان نہ ہؤا اور آخر اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چلو حضرت عمرؓ کے پاس ہی چلیں اور انہی سے دریافت کریں کہ اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟ حضرت عمرؓ چونکہ اچھے خاندان میں سے تھے اور وہ شریف خاندانوں کی عزت و عظمت کو سمجھتے تھے اس لئے ان کا خیال تھا کہ حضرت عمرؓ ہمیں کوئی ہمدردانہ مشورہ دیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے اجازت طلب کی اور حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ ہم ایک مشورہ لینے کے لئے آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہو کیا بات ہے۔ اُنہوں نے کہا آج ہم آپ کی مجلس میں آئے اور ہم آپ کے پاس بیٹھے تھے کہ آپ نے بعض اَور لوگوں کے آنے پر ہمیں پیچھے ہٹانا شروع کر دیا یہاں تک کہ ہم جوتیوں میں بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تم میری مجبوری کو سمجھ سکتے ہو۔ یہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور میرے لئے ضروری تھا کہ مَیں ان کو عزت وتکریم سے بٹھاتا۔ اُنہوں نے کہا ہم اس بات کو خوب سمجھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادوں نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا انکار کر کے ایک بہت بڑی ذلّت اپنے لئے مول لی مگر اب ہمیں کوئی ایسا طریق نظر نہیں آتا جس سے یہ ذلت کا داغ ہم اپنی پیشانی سے دور کر سکیں اور ہم آپ سے یہی مشورہ لینے کے لئے آئے ہیں کہ کیا کوئی ایسا طریق نہیں جس سے یہ ذلت ہمارے ماتھے سے دور ہو سکے۔ عجیب بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ رضی اﷲتعالیٰ عنہ اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے ذمہ عرب کے نسبوں کو یاد رکھنا ہوتا تھا اور وہ بتایا کرتے تھے کہ فلاں خاندان میںفلاں بڑا آدمی ہؤا ہے اور فلاں خاندان میں فلاں بڑا آدمی ہؤا ہے۔ پس حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے زیادہ واقف ان کی خاندانی عزت کا اور کون ہو سکتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے باپ دادا کو کیسی عظمت حاصل تھی، وہ جانتے تھے کہ انہیں کتنی بڑی حکومت حاصل تھی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اب ان کی کیا حالت ہے۔ یہ تمام حالات حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے سامنے ایک ایک کر کے آنے لگے اور ان واقعات کا تصور کر کے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا! تم اس ذلت کا علاج پوچھتے ہو۔ یہ کہہ کر آپ پر رقت طاری ہو گئی اور مزید کوئی اور بات کرنا آپ کے لئے مُشکل ہو گیا۔ آپ نے غلبۂ رقت میں اپنا ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف جہاں شام میں ان دنوں لڑائی ہو رہی تھی اشارہ کیا اور کہا اس کا علاج اُدھر ہے۔ گویا انہیں بتایا کہ اس ذلت کو دور کرنے کا علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جہاد میں شامل ہو کر جانیں دے دو۔ اس کے سوا اَور کوئی علاج نہیں۔ وہ لوگ بھی اخلاص سے اسلا م میں داخل ہوئے تھے۔ ان کے دلوں میں بھی ایمان تھا اور ان کے قلوب بھی اﷲ تعالیٰ کی محبت سے سرشار تھے۔ اُنہوں نے جب یہ سُنا تو اسی وقت وہ اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ پھر ان میں سے کوئی شخص زندہ واپس نہیں آیا۔ (اسدالغابہ جلد ۲ صفحہ ۳۷۲۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ)سب اسلام کی خاطر جہاد میں شامل ہوکر شہید ہو گئے۔ یہ ان دشمنوں کے لڑکے تھے جنہوں نے محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت شروع دن سے کی مگر پھر بھی ان کے اخلاص اور ان کی قُربانی کا یہ حال تھا کہ وہ ایک اشارہ پاتے ہی شام کی طرف روانہ ہو گئے اور ان میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ اس کے مقابلہ میں مَیں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ تمہارے اخلاص اور تمہاری قُربانی اور تمہاری محبت اور تمہاری فدائیت کا بھی ثبوت یہی ہو سکتا تھا کہ تم ثابت کرتے کہ تم نے احمدیت کے لئے اسی قسم کی قُربانیوں کا نمونہ دکھا دیا ہے جس قسم کی قُربانیاں صحابہؓ نے کیں مگر کیا تم کہہ سکتے ہو کہ تم واقع میں اس قسم کی قُربانیاں کر رہے ہو؟ کیا تم میں وہ رجلِ رشید نہیں ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے اس عظیم الشان احسان کے شکر کے طور پر کہ اس نے تمہیں اپنے مسیح کو ماننے کی توفیق بخشی اپنا مال اور اپنی جان اس کی راہ میں قُربان کر دیں۔ کیا تمہارے دل میں یہ درد پیدا نہیں ہوتا کہ کاش تمہیں بھی ایسی ہی قُربانیوں کا موقع ملے تا آنے والی نسلیں تمہارے نمونہ کو دیکھ کر تم پر درود بھیجیں اور آسمان پر فرشتے تمہاری قُربانی اور ایثار کی تعریف کریں۔ نہایت چھوٹی چھوٹی قُربانیاں ہیں جو تمہارے سامنے پیش ہوتی ہیں مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد تم ان کو بالکل بھول جاتے ہو اور تمہاری حالت اس افیونی کی طرح ہو جاتی ہے جسے بار بار جگانا پڑتا ہے اور وہ بار بار سو جاتا ہے۔ مثلاً مَیں نے تحریک جدید شروع کی۔ مَیں سمجھتا ہوں اپنے دل میں اسلام کا درد رکھنے والا کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو سکتاتھا جس کے سامنے یہ تحریک پیش کی جاتی کہ اس چندہ کے ذریعہ ایک ایسا مستقل فنڈ قائم کر دیا جائے گا جو دائمی طور پر اسلام کی تبلیغ کے کام آئے گا اور وہ یہ تحریک سُننے کے باوجود اس میں حصّہ نہ لیتا بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک مَرتے ہوئے باایمان انسان کے کانوں میں بھی یہ تحریک پہنچ جاتی تو اس کی رگوں میں خون دوڑنے لگتا اور وہ سمجھتا کہ میرے خدا نے میرے مَرنے سے پہلے ایک ایسی تحریک کا آغاز کرا کے اور مجھے اس میں حصّہ لینے کی توفیق عطا فرما کر میرے لئے اپنی جنت کو واجب کر دیا مگر تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا، تم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے استقلال کے ساتھ اس میں حصّہ لیا؟ لاکھوں کی جماعت میں سے پانچ ہزار کی تعداد بھی تو ابھی پوری ہونے میں نہیں آئی۔ چنانچہ مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ’’الفضل‘‘ میں اُن لوگوں کی جو فہرست شائع ہو رہی ہے جنہوں نے شرائط کے مطابق تحریک جدید کے پانچوں سالوں کا چندہ اگست تک ادا کر دیا ہے ان کی تعدادابھی تین چار سَو سے زائد نہیں ہوئی اور ابھی تو اس تحریک کا پانچواں سال ہے۔ نہ معلوم شامل ہونے والوں میں سے آخری سال تک کون گرتا اور کون رہتا ہے۔ اس زمانہ کے لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں اور وہ انعام بھی حاصل کر لیں جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے حاصل کئے حالانکہ یہ بالکل ناممکن ہے۔ وہ انعامات تو الگ رہے ایمان بھی اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اُن تمام قُربانیوں میں حصّہ نہ لیا جائے جو پہلے انبیاء کی جماعتوں نے کیں۔ ایمان تو ایک موت ہے جب تک کوئی شخص اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک وہ ہر گز ہر گز ابدی زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔ اﷲ تعالیٰ انہی لوگوں کو اپنی بارگاہ میں قبول کیا کرتا ہے جو ہر وقت مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ قوم ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلی اس ڈر اور خوف سے کہ وہ مَر جائیں گے اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَہُمۡ اُلُوۡفٌ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ۪ فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوۡتُوۡا ۟ ثُمَّ اَحۡیَاہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَشۡکُرُوۡنَ (البقرۃ :۲۴۴)مگر کیا آج اسلام کی یہی حالت نہیں؟ اور کیا اسلام اپنی موت کے قریب نہیں پہنچ گیا؟ کیا تمہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ تم کن لوگوں کی اولاد ہو؟ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہوں نے یورپ سے لے کر چین کی انتہائی سرحدوں تک حکومت کی تھی، تم ان لوگوں کی اولاد میں سے ہو جن کے ماتحت کسی زمانہ میں وہ تمام یوروپین اقوام تھیں جو آج تم پر حکومت کر رہی ہیں۔ یہی اٹلی جو آج بڑا شور مچا رہا ہے اس کے کئی حصے تمہارے باپ دادوں کے ماتحت تھے۔ یہی جرمنی جس کا آج چاروں طرف شہرہ ہے اس کے کئی حصّوں پر تمہارے باپ دادوں کی حکومت تھی۔ یہی سپین جو آج ترقی کر رہا ہے تمہارے باپ دادوں کے ماتحت تھا۔ اِسی طرح امریکہ کے جزائر، فلپائن تک، افریقہ سارے کا سارا اور ایشیا قریباً سارا ان کے ہاتھ میں تھا۔ تم میں سے کئی جو آج یہاں بیٹھے ہوئے ہیں بالکل ممکن ہے وہ بِلاواسطہ ان بادشاہوں کی اولاد میں سے ہوں لیکن آج تمہاری کیا حیثیت ہے۔ آج تمہاری ہی نہیں آج سارے اسلام کی کیا حیثیت ہے۔ آج مسلمانوں کی کہیں عزت ہے نہ اسلام کے نام سے ڈرنے والا کوئی موجود ہے۔ چھوٹی چھوٹی قومیں جن کے پاس حکومت نہیں آج ان کی بھی آواز سنی جاتی ہے مگر اسلام اور مسلمانوں کی آواز کہیں سُنی نہیں جاتی۔ گاندھی کی آواز بھی آج لوگوں پر اثر کرتی ہے۔ حالانکہ گاندھی ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہے جسے ہزار سال سے زیادہ حکومت کئے گزر چُکا ہے لیکن آج مسلمان بادشاہوں کی آواز کی بھی کوئی قدر نہیں کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی مثال ایک گرتے ہوئے کھنڈر کی سی ہے اور گاندھی کی مثال گو ایک جھونپڑی کی سی ہے مگر وہ نئی بنی ہوئی ہے اور اس کے متعلق امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دس بیس سال تک ان کے کام آئے گی لیکن مسلمانوں کی حکومتیں گرتا ہؤا کھنڈر ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ آج ہے تو کل نہیں اور جو کل ہے تو پرسوں نہیں تو وہ جو یہود کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے حَذَرَالْمَوْتِ کے الفاظ بیان فرمائے ہیں اُس سے زیادہ موت کا خوف مسلمانوں کے ساتھ لگا ہؤا ہے اور تمہارے ساتھ بھی لگا ہؤا ہے مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اب اگر تم زندگی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریق ہم تمہیں بتا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ مُوْتُوْا تم مَر جاؤ۔ فرمایا مُردہ قوم کی زندگی کی صرف ایک ہی صورت ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آپ پر موت وارد کرلے۔ پہلی موت جو تم نے اپنے آپ پر وارد کی تھی وہ خدا تعالیٰ کے لئے نہیں تھی بلکہ وہ موت شیطان کے لئے تھی۔ وہ موت اپنے نفس کے لئے تھی، وہ موت اپنی سُستیوں اور کاہلیوں کے لئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تم نے جو موت قبول کی تھی وہ دائمی تھی مگر فرماتا ہے اب تم دوسری موت کا بھی تجربہ کرکے دیکھ لو اور اپنے نفس کے لئے نہیں شیطان کے لئے نہیں بلکہ ہمارے لئے مَر جاؤ۔ پھر دیکھو ہم تمہیں زندہ کرتے ہیں یا نہیں۔ کتنا لطیف استعارہ ہے جو اس جگہ اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ نبی ہمیشہ اسی قوم میں آتا ہے جس قوم کے متعلق دُنیا یہ فیصلہ کر دیتی ہے کہ وہ مَررہی ہے اور جو مَرنے والا ہو اس کی جان کی کیا قیمت ہو سکتی ہے۔ قیمت ہمیشہ اس چیز کی ہوتی ہے جس نے رہ جانا ہو مگر جس نے ضائع ہی ہو جانا ہو اس کی کچھ بھی قیمت نہیں ہو سکتی تو یہاں ایسا لطیف تقابل کیا ہے کہ دل عَش عَش کر اُٹھتا ہے اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ کس بُلندی تک مضمون کو پہنچا دیاگیا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ ہم ہمیشہ ایسی ہی قوموں میں نبی بھیجا کرتے ہیں جن کے متعلق دُنیا یہ فیصلہ کر چکی ہوتی ہے کہ وہ آج بھی مَریں اور کل بھی مَریں جیسے آج کل مسلمان ہیں کہ ان کے متعلق تمام دُنیا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ ایک مُردہ قوم ہے۔ غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو تم مَر گئے اور آج تمہاری موت اس قدر واضح اور کھلی ہے کہ ہر شخص تمہیں دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ تم زندہ نہیں ہو سکتے مگر یہ موت تم نے اپنے نفس کی خاطر قبول کی تھی۔ یہ موت تم نے اپنے عیش اور آرام کے لئے قبول کی تھی، یہ موت تم نے اپنی عزت کی خاطر قبول کی تھی، یہ موت تم نے اپنی ذاتی ترقی کے لئے قبول کی تھی مگر بجائے اس کے کہ تمہیں آرام حاصل ہوتا، بجائے اس کے کہ تمہیں عزت ملتی، بجائے اس کے کہ تمہیں ترقی حاصل ہوتی تم موت کے قریب پہنچ گئے ہو۔ نہیں نہیں تم مَر ہی گئے ہو اور دُنیا متفقہ طور پر پُکار اُٹھی کہ اب تم میں کوئی جان باقی نہیں رہی۔ اب بتاؤ تمہاری عزت اور تمہارے مال کی کیا قیمت ہے؟ یقینا کچھ بھی نہیں مگر فرماتا ہے جس جسم، جس عزت اور جس مال میں زوال آچُکا ہے، جس پر موت آچکی ہے، تم اس حقیر ذلیل اور بے حقیقت چیز کو ہماری خاطر بھی قُربان کردیکھو۔ پھر دیکھو اس موت کے بعد کیا ہوتا ہے۔ فرماتا ہے فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا خدا نے ان کو کہا کہ مَر جاؤ اور اپنے لئے ایک موت قبول کر لو۔ ثُمَّ أَحْیَاھُمْ۔ جب اُنہوں نے ہماری خاطر یہ موت قبول کر لی تو ہم نے ان کو زندہ کر دیا۔ گویا جو موت انہوں نے اپنے نفس، اپنے آرام، اپنی عزت اور اپنی ترقی کے لئے قبول کی تھی وہ تو قطعی اور یقینی موت بن گئی مگر وہ موت جو خدا تعالیٰ کے لئے انہوں نے اپنے آپ پر وارد کی تھی وہ ان کی زندگی کا موجب بن گئی۔ یہاں تک کہ فرعون کے گھروں کے پتھیرے شام اور فلسطین کے بادشاہ ہوئے، بابل اور ایران پرانہوں نے حکومتیں کیں اور پھر اُنہی پتھیروں میں سے داؤد جیسا عظیم الشان بادشاہ پیدا ہؤا جس کے جہاز ایشیا اور ایران اور یورپ تک جاتے تھے اور دنیا کے تمام خزانے اس کے پاس جمع تھے۔ یہ سب کچھ کیوں ہؤا؟ صرف اس لئے کہ جب ان پر موت آرہی تھی تو خدا تعالیٰ نے ان سے کہا کہ آؤ مَیں تمہیں اپنا معجزہ دکھاؤں۔ دنیا میں تو کسی مُردہ کو زندہ کرنا خدا تعالیٰ کی سُنت کے خلاف ہے مگر وہ اپنی اس معجز نمائی کے لئے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ دنیا میں مُردہ قوموں کو زندہ کیا کرتا ہے۔ جب کوئی قوم مَر رہی ہو تو وہ اس کی مثال کو دنیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ تم اس بات پر ایمان نہیں لاتے کہ مَیں مُردوں کو زندہ کر سکتاہوں۔ آؤ اور اس قوم کو دیکھو۔ مَیں اسے زندہ کرکے دکھاتا ہوں یا نہیں۔ پھر وہ اس قوم کی طرف مخاطب ہوتا اور فرماتا ہے کہ تم اب ہماری خاطر مَر جاؤ اور ہماری خاطر اپنی جانوں اور اپنے مالوں پر موت وارد کر لو پھر دیکھو مَیں تمہیں زندہ کرتا ہوں یا نہیں۔ چنانچہ جب وہ قوم اﷲ تعالیٰ کے لئے موت کو قبول کر لیتی ہے تو خداتعالیٰ اُسے زندہ کر دیتا ہے۔

سو اے عزیزو! تم جس قوم کے ساتھ تعلق رکھتے ہو اس کی پہلی شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے تم دنیا کے بد ترین اور ذلیل وجود ہو۔ اپنے آباء کے لئے ننگ، خاندانوں کی عزت برباد کرنے والے اور باپ دادوں کی شہرت کو خاک میں ملانے والے۔ خدا تعالیٰ نے تمہاری اس موت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تمہاری طرف مبعوث فرمایا ہے اور وہ آج تم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ تم میری خاطر قُربانیوں سے اپنے اوپر موت وارد کر لو۔ پھر دیکھو میں تمہیں کتنی بڑی عزت اور عظمت دیتا ہوں، کتنی چھوٹی چھوٹی قُربانیاں ہیں جو تم کرتے ہو مگر ان قُربانیوں کی وجہ سے آج بھی تمام دنیا میں تمہاری عزت ہے۔ جہاں چلے جاؤ یہی ذکر سُنو گے کہ اس جماعت میں بڑی طاقت ہے۔ تمہاری تنخواہیں تمہیں چار چار مہینے نہیں ملتیں لیکن اگر تم میری ڈاک دیکھو تو ہر مہینہ میں ایک دو ایسے خط ضرور آجاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں لیکن ہماری راہ میں بہت سی مُشکلات حائل ہیں۔ ہم پر اتنا قرض ہے اور اس قدر روپیہ کی شدید ضرورت ہے اگر آپ اتنے روپیہ کا انتظام کر دیں تو ہم مسلمان ہونے کے لئے تیار ہیں۔ لوگوں کو یہ یقین ہی نہیں آتا کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس بڑا روپیہ ہے تو اﷲتعالیٰ نے تمام دنیا پر ہماری جماعت کا رُعب قائم کر دیا ہے۔ ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے بعض دفعہ اس رُعب کو مٹا بھی دیتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے احیاء کا سلسلہ برابر شروع ہے اور دُنیا کے کناروں تک احمدیت کی شُہرت پھیلتی جاتی ہے۔ کوئی بڑی سے بڑی قوم ایسی نہیں جسے ہندوستان سے باہر لوگ جانتے ہوں مگر تمہیں ضرور جانتے ہیں اور آہستہ آہستہ دنیا کی تاریخ اور اس کے لٹریچر میں تمہارا نام آنا شروع ہو گیا ہے۔ چنانچہ کئی کتابیں غیر ممالک میں ہماری جماعت کے متعلق لکھی جاچکی ہیں۔ جرمنی میں بھی اور فرانس میں بھی اور اٹلی میں بھی۔ ان میں سے بعض مستقل کتابیں ہیں اور بعض میں اور باتوں کے ضمن میں احمدیت کا ذکر آگیا ہے مگر ہم جو کچھ ہیں وہ ہم جانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک احیاء شروع ہے اور جوں جوں جماعت قُربانی کرتی چلی جاتی ہے اسی قدر اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو زندہ کرتا چلا جاتا ہے لیکن اگر ہماری جماعت ساری موت قبول کرے تو ساری حیات بھی اُسے میسر آجائے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو اس قُربانی کا دنیوی زندگی میں انعام نہ ملے مگر تم میں سے کون ہے جو اپنی اولاد کے لئے قُربانی نہیں کرتا۔ اگر ہم اپنی زندگی میں اس فتح کو نہ دیکھیں مگر ہماری اولادیں دیکھ لیں تو کیا یہ ہمارے لئے کم خوشی کا موجب ہو سکتا ہے؟ تم اپنی اولاد کو پڑھاتے ہو مگر تمہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ تم اس کے پڑھنے اور پھر ملازم ہونے تک زندہ بھی رہو گے یا نہیں۔ تم قُربانی کرتے چلے جاتے ہو اور یہ سمجھ لیتے ہو کہ اگر ہماری اولاد کو کچھ مِلا تو ہمارے نزدیک وہ بھی ہمیں ہی مِلا۔ پس یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ سب کچھ ہمیں ہی حاصل ہو۔ ایک لطیفہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں کوئی بادشاہ کہیں سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک بُڈھے کو جو ستّر اسّی سال عمر کا تھا دیکھا کہ وہ ایک ایسا درخت بو رہا ہے جس کا پھل پندرہ بیس سال کے بعد لگا کرتا ہے۔ اس نے حیرت سے بُڈھے کی طرف دیکھا اور کہا میاں تم یہ درخت کیوں لگا رہے ہو؟ تم نے اس کا پھل تھوڑا کھانا ہے۔ تم تو پھل لگنے سے پہلے ہی مَر جاؤ گے۔ بُڈھے نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت آپ جیسا معقول آدمی اگر ایسی بات کرے تو تعجب ہی ہے۔ اگر ہمارے باپ دادا بھی اسی خیال سے درخت نہ لگاتے کہ ہم تو اب مَر جائیں گے، ہم درخت لگا کر کیا کریں تو آج ہم ان درختوں کا پھل کس طرح کھا سکتے۔ اُنہوں نے درخت لگائے اور ہم نے ان کا پھل کھایا۔ اب ہم لگائیں گے اور ہماری آئندہ نسل اس کا پھل کھائے گی۔ بادشاہ کو اس کی یہ بات بہت ہی پسند آئی اور بے اختیار اس کے مُنہ سے نکلا زِہ[زِہ: حرف تحسین ، شاباش] اور بادشاہ کا یہ حکم تھا کہ جب مَیں کسی کی بات سے خوش ہو کر زہ کہوں تو اُسے تین ہزار درہم بطور انعام دے دیئے جایا کریں۔ چنانچہ اُدھر بادشاہ نے زہ کہا اور اِدھر خزانچی نے تین ہزار درہم کی تھیلی بُڈھے کے سامنے رکھ دی۔ بُڈھا یہ دیکھ کر مسکرایا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت آپ تو کہہ رہے تھے کہ درخت لگانا بیوقوفی ہے تُو اس کا پھل کھا ہی نہیں سکتا مگر دیکھئے لوگ تو درخت لگاتے اور کئی کئی سال کے بعد پھل کھاتے ہیں مگر مَیں نے اس درخت کو لگاتے لگاتے اس کا پھل کھا لیا۔ بادشاہ کو پھر یہ بات پسند آئی اور اس کی زبان سے نِکلا زہ اور خزانچی نے جھٹ تین ہزار درہم کی دوسری تھیلی بھی اس کے سامنے رکھ دی۔ بڈھا دوسری تھیلی کی طرف دیکھ کر ہنسا اور بولا بادشاہ سلامت لوگ سال میں درخت کا ایک دفعہ پھل کھاتے ہیں مگر مَیں نے ایک منٹ میں اس کا دو دفعہ پھل کھا لیا۔ بادشاہ نے پھر کہا زہ اور خزانچی نے تیسری تھیلی اس کے سامنے رکھ دی۔ بادشاہ یہ دیکھ کر ہنس پڑا اور اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا یہاں سے چلو ورنہ بُڈھا ہمیں لُوٹ لے گا۔ ہے تو یہ لطیفہ لیکن اس میں یہی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ بہت ہی کمینہ اور ذلیل انسان وہ ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ میری خدمت کا صلہ اگر مجھے نہ ملا تو کچھ نہ مِلا۔ اوّل تو مومن کی خداتعالیٰ پر نظر ہوتی ہے دُنیا پر اُس کی نظر ہوتی ہی نہیں۔ لیکن اگر ہو بھی تو اُسے سمجھ لینا چاہئے کہ جب میری قوم کو ایک انعام مِلا تو مجھے مِل گیا۔

پس مَیں جماعت کے تمام دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوںکہ وہ تحریک جدید کی ہر قسم کی قُربانیوں میں حصّہ لیں اور جو وعدے اُنہوں نے کئے ہوئے ہیں اُنہیں پورا کریں اور سمجھ لیں کہ یہ ایک موت ہے جس کا ان سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے سینما نہیں دیکھا ہم مَر گئے، تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہم ہمیشہ ایک کھانا کھاتے ہیں ہم تو مَر گئے، تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں تو ہمیشہ سادہ رہنا پڑتا ہے ہم تو مَر گئے، تم میں سے کئی ہیں جو کہتے ہیں ہمیں رات دن چندے دینے پڑتے ہیں ہم تو مَر گئے۔ مَیں کہتا ہوں ابھی تم زندہ ہو، مَیں تو تم سے حقیقی موت کا مطالبہ کرتا ہوں کیونکہ خدا یہ کہتا ہے کہ جب تم مَر جاؤ گے تو پھر مَیں تمہیں زندہ کروں گا۔ پس یہ موت ہی ہے جس کا مَیں تم سے مطالبہ کرتا ہوں اور یہ موت ہی ہے جس کی طرف خدا اور اس کا رسول تمہیں بُلاتا ہے اور یاد رکھو کہ جب تم مَر جاؤ گے تو اُس کے بعد خدا تمہیں زندہ کرے گا۔ پس تم مجھے یہ کہہ کر مت ڈراؤ کہ ان مطالبات پر عمل کرنا موت ہے۔ مَیں کہتا ہوں یہ موت کیا اس سے بڑھ کر تم پر موت آنی چاہئے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کامل احیاء تمہیں حاصل ہو۔ پس اگر یہ موت ہے تو خوشی کی موت ہے اگر یہ موت ہے تو رحمت کی موت ہے اور بہت ہی مبارک وہ شخص ہے جو موت کے اس دروازہ سے گزرتا ہے کیونکہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے زندہ کیا جائے گا۔ (الفضل ۲۲؍اگست ۱۹۳۹ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button