خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 14؍اکتوبر2022ء

’’میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا ہے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور و رحیم خدا اس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

سب سے بڑا احسان جو اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے

اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں اور اس کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں

وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حَکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو

خلافت کے ساتھ وابستگی اور اطاعت کے عہد کو نبھانا بھی ہر احمدی کا فرض ہے ورنہ بیعت ادھوری ہے

’’سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے ‘‘

’’میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا ہے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور و رحیم خدا اس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘

اس دنیا نے ہمیں نہیں بچانا، نہ ہمارا اور ہماری نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے بلکہ ہم اگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے کلمہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعاؤں اور نیک اعمال کی وجہ سے دنیا کو بچا لے گا

جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہمیں سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے؟ اس کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصود ہے؟ واقعی ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت کر رہے ہیں؟

جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف باوجود سمجھانے کے دریدہ دہنی سے باز نہیں آتا اس سے بھی ہم دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے اور نہ کسی احمدی کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کے لیے اپنی روحانی و اخلاقی حالتوں میں بہتری پیدا کرنے کی تلقین

دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے دعائیں کرنے کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 14؍اکتوبر2022ءبمطابق 14؍اخاء 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمٰن، میری لینڈ، یوایس اے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے، جماعتِ احمدیہ پر بڑا احسان ہے، یہاں اس ملک میں آنے والے لوگوں پر بڑا احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس ترقی یافتہ ملک میں آنے کی توفیق عطا فرمائی اور خاص طور پر گذشتہ چند سالوں میں پاکستان سے بہت سے احمدی یہاں آئے ہیں اور اب بھی آ رہے ہیں۔ جو پاکستان سے اس لیے ہجرت کر کے آئے کہ وہاں احمدیوں کے حالات سخت سے سخت تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اس وجہ سے وہاں رہنا مشکل ہو گیا تھا اور اس لحاظ سے احمدیوں کو ان حکومتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے بہت سے مظلوم احمدیوں کو یہاں رہنے کی جگہ دی لیکن

سب سے بڑا احسان جو اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

پس اس کے لیے ہم خداتعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں وہ کم ہے اور

اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں اور اس کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں

اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی وہ راہنما ہیں جنہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی حقیقی تعلیم پر ہمیں چلایاہے۔

پس اس بات کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ

اب حقیقی اسلام کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ ہی مل سکتی ہے

کیونکہ آپ علیہ السلام ہی وہ شخص ہیں جن کو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم و معارف عطا فرمائے ہیں اور اسلام کا حقیقی علم عطا فرمایا ہے۔ آپ ہی وہ شخص ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی عاشق ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور سنت کے مطابق اپنی جماعت کی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں حقیقی مسلمان بننے کے لیے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف ہی دیکھنا ہو گا اور آپ علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہو گا۔ آپ علیہ السلام کی بعثت پر ایمان و یقین کامل کرنا ہو گا۔ آپ کو حَکم و عدل ماننا ہو گا۔ اس یقین پر قائم ہونا ہو گا کہ اب آپؑ کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر ہی انسان اسلام کی حقیقی تعلیم پر چل سکتا ہے۔

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے پر کامل یقین اور ایمان پر قائم ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے اپنی بیعت کرنے والوں کو فرماتے ہیں:’’جو شخص ایمان لاتا ہے اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہئے ۔‘‘ صرف ایمان نہیں لے آئے بلکہ اس پر یقین بھی پیدا ہونا چاہیے اور اس کا عرفان بھی حاصل ہونا چاہیے کہ کیوں ہم بیعت کر رہے ہیں۔ ’’نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو۔‘‘ پھر یہ نہیں ہے کہ دل میں بدظنیاں پیدا ہو جائیں کہ یہ کیوں ہوا اور یہ کیوں ہوا۔ سوال نہ اٹھنے شروع ہو جائیں۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو ظن مفید نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔا(یونس:37)‘‘یقیناًً ظن حق سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کر سکتا۔ ’’یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بامراد کر سکتی ہے۔ یقین کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر انسان ہر بات پر بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے۔‘‘ فرمایا کہ ’’وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے۔‘‘ زندگی گزارنی مشکل ہو جائے گی۔’’ یہ ایک موٹی مثال ہے۔ اسی طرح پر انسان روحانی امور میں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اب تم خود سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حَکم عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔

وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے، کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حَکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو۔ اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا۔‘‘ یعنی آنے والا مسیح موعود تمہارے میں سے تمہارا امام ہو گا۔ ’’وہ حَکم عدل ہو گا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو پھر کب ہو گی۔ یہ طریق ہرگز اچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میں بدظنیاں بھی ہوں۔‘‘ظاہری طور پر یہ اظہار ہو کہ ہم ایمان بھی لے آئے لیکن پھر بعض معاملات میں بدظنیاں بھی پیدا ہو رہی ہوں۔ فرمایا ’’…جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا ہے اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اَور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ73-74 ایڈیشن 1984ء)پس یہ ایمان کا معیار ہے جو ہم سب کا ہونا چاہیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی اپنے بعد خلافت کے جاری رہنے کی اطلاع دی تھی۔(ماخوذ از رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ306)اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسیح و مہدی کے آنے کے ساتھ خلافت کے تا قیامت جاری رہنے کی خبر دی تھی۔(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ285مسند النعمان بن بشیر حدیث 18596 عالم الکتب بیروت 1998ء)اور خلافتِ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق کو ہی جاری رکھنے والا نظام ہے۔ اس حَکم اور عدل کے فیصلوں کو ہی جاری رکھنے والا نظام ہے۔ اپنے عہد میں ہر احمدی خلافت سے بھی وابستگی اور اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ پس اس لحاظ سے

خلافت کے ساتھ وابستگی اور اطاعت کے عہد کو نبھانا بھی ہر احمدی کا فرض ہےورنہ بیعت ادھوری ہے۔

پس اس لحاظ سے بھی اپنے ایمان اور یقین کو بڑھانے کی ہر احمدی کو ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔

پھر جماعت کو

قرآن کریم کو غور سے پڑھنے اور اسے سمجھنے کی طرف توجہ

دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا۔‘‘ فرمایا ’’اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیساکہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر پڑھو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ155 ایڈیشن 1984ء)

پس ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ اس دنیا کی مصروفیات میں ڈوب کر کہیں ہم اپنے بیعت کے مقصد کو بھول تو نہیں گئے!

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تو فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے علوم و معارف اور احکامات کو سمجھانے اور ان پر عمل کروانے کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اور جو میرے سلسلۂ بیعت میں داخل ہیں اس اہمیت کو سمجھیں اور قرآن کریم کے علوم و معارف پر غور کریں۔ اس کے معانی اور تفسیر کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی خزانے کو بھی ہم سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپؑ کے دیےہوئے لٹریچر کو بھی ہم سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپؑ نے فرمایا کہ

قرآن کریم کوئی قصہ کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ضابطۂ حیات ہے۔ ایک لائحہ عمل ہے جس پر عمل کرنا ہر احمدی مسلمان کا فرض ہے۔

اگر ہم یہاں آ کر، ان ملکوں میں آ کر اپنے اس مقصد کو بھول گئے اور دنیا کی مصروفیات میں ہی غرق ہو گئے، اپنے گھروں کے ماحول کو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کی تو ہماری اولادیں اور نسلیں دین سے دُور ہوتی جائیں گی اور یہ شکرگزاری کے بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی نفی کرنے والی بات ہو گی۔ پس ہر احمدی کے لیے چاہے وہ پرانے احمدی ہیں، نئے احمدی ہیں، یہاں پیدا ہوئے ہوئے احمدی ہیں یا ہجرت کر کے آنے والے احمدی ہیں بہت غور اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ

اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنا اور اس کی کتاب کو پڑھنا ،سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ تبھی ہم حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں۔

جو ہجرت کر کے آئے ہیں وہ دنیا کی مخالفت سے تو یہاں آ کر بچ گئے ہیں لیکن اگر دین پر چلنے والے اور قرآن کریم کو سمجھنے والے نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔ اسی طرح جو نئے ہونے والے احمدی ہیں یا یہاں رہنے والے پرانے احمدی ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ صرف بیعت کرنے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ مقصد تبھی پورا ہو گا جب ہم اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا حامل بنائیں گے اور وہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھیں اور سمجھیں گے نہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسنِ ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی لیکن

سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔

پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ چاہو۔ فرمایا ’’یہ میں یقیناًً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہو گا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا۔ اپنے خدا کو وحدہٗ لا شریک سمجھو جیساکہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرار کرتے ہو اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب، مطلوب اور مطاع اللہ کے سوا نہیں ہے۔یہ ایک ایسا پیارا جملہ ہے کہ اگر یہ یہودیوں، عیسائیوں یا دوسرے مشرک بت پرستوں کو سکھایا جاتا اور وہ اس کو سمجھ لیتے تو ہرگز ہرگز تباہ اور ہلاک نہ ہوتے۔ اسی ایک کلمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ان پر تباہی اور مصیبت آئی اور ان کی روح مجذوم ہو کر ہلاک ہو گئی۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ184-185 ایڈیشن 1984ء)

پس دیکھیں !کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تسلی دلائی اور ضمانت دی ہے کہ تم جس چشمے کے قریب پہنچے ہو، بیعت کر کے جس بات کا اقرار کیا ہے اگر اس سے پانی پیو گے، فیض اٹھاؤ گے، صرف باتوں تک ہی نہ رہو گے بلکہ عمل بھی کرو گے تو پھر تمہیں یہ ضمانت دی جاتی ہے کہ کبھی تمہاری روحانی ہلاکت نہیں ہو گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہی قرآن کریم کے پیغام کو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جاری کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ فرمایا کہ پس اس بات کو سمجھ لو کہ صرف بیعت کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور جو عمل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے خالی نہیں رہتا، کبھی ہلاک نہیں ہوتا اور یہ عملی حالت اس وقت پیدا ہو گی جب اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکا کلمہ تمہارے ظاہر و باطن کی آواز بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے زیادہ تمہیں کوئی محبوب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کسی چیز کی طلب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت ہو۔ اب ہر ایک اس بات سے اپنے جائزے لے سکتا ہے کہ

جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہمیں سب چیزوں سےزیادہ محبوب ہے؟ اس کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصود ہے؟ واقعی ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت کر رہے ہیں؟

اگر نمازوں کے وقت ہمیں نمازیں پڑھنے کی طرف فوری توجہ نہیں ہوتی، اگر ہم اپنا دنیوی کام چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی آواز پر فوری لبیک کہتے ہوئے نماز کے لیے حاضر نہیں ہوتے تو منہ سے تو کلمہ پڑھ رہے ہیں لیکن ایک مخفی شرک ہمارے دل میں ہے۔ ہمارے دنیاوی کاروبار خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ ایک مومن تو اس یقین پر قائم ہوتا ہے اور ہونا چاہیے کہ میرے کاروبار میں برکت، میرے کام میں برکت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پڑتی ہے اور پڑنی ہے اور پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میرے دنیوی کام اللہ تعالیٰ کی آواز کے مقابلے پر آ کر کھڑے ہو جائیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم نے کلمہ کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔ ہم منہ سے تو اقرار کر رہے ہیں لیکن ہمارے عمل ہمارے اقرار کا ساتھ نہیں دے رہے۔ ہم پانی کے چشمہ کے نزدیک تو آ گئے ہیں لیکن پانی پینے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہے۔ پس آپؑ نے فرمایا اگر یہ صورتحال ہے تو پھر تو حقِ بیعت ادا نہیں ہوا۔

یہ کلمہ شہادت اس بات کی ہی تلقین نہیں کرتا، اس بات کی ہی طرف توجہ نہیں پھیرتا کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نےجو حقوق العباد کے ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور حکم دیا ہےاس پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے

اور جب انسان یہ دو حقوق ادا کرتا ہے تو تب ہی حقیقی مومن بنتا ہے اور تبھی ایک حقیقی احمدی مسلمان بیعت کا حق ادا کرتا ہے۔

پھر آپؑ اپنی بیعت میں آنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اگر دنیاداروں کی طرح رہوگے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔ میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک اَور پیدائش حاصل کرو۔‘‘ یعنی بیعت کرنے کے بعد تمہیں ایک نئی روحانی زندگی ملنی چاہیے ۔ اگر وہ روحانی زندگی نہیں ملتی اور وہی مادی زندگی کی خواہشات اور ترجیحات ہیں تو پھر ایسی بیعت کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ فرمایا ’’بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں۔

میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا ہے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور و رحیم خدااس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘

بالکل معصوم ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’ایک گاؤں میں اگر ایک نیک آدمی ہو تو اللہ تعالیٰ اس نیک کی رعایت اور خاطر سے اس گاؤں کو تباہی سے محفوظ کر لیتا ہے لیکن جب تباہی آتی ہے تو پھر سب پر پڑتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کو کسی نہ کسی نہج سے بچا لیتا ہے۔ سنت اللہ یہی ہے کہ اگر ایک بھی نیک ہو تو اس کے لیے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں ۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ262 ایڈیشن 1984ء)

پس یہ بنیادی اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ اپنے خالص بندوں کی دعاؤں کو سنتا اور ان کے نیک عملوں کو قبول کرتا ہے۔

پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہماری عبادتیں خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہوں۔ ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔

آج کل جو دنیا کے حالات ہیں ان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بہت خوفناک تباہی کے بادل ہمارے اوپر منڈلا رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر نے کل یہ بیان دیا تھا کہ اگر روس کے صدر نے ایٹمی ہتھیار کا استعمال کیا تو پھر اس کے جواب میں دوسری طرف سے بھی ردّعمل ہو گا اور پھر جو تباہی ہو گی وہ دنیا کے خاتمے پر منتج ہو گی۔ پس ان ملکوں میں رہنے والے یہ نہ سمجھیں، جو یہاں ہجرت کر کے آئے ہیں وہ یہ خیال نہ کریں کہ ہم یہاں محفوظ ہیں۔ کوئی بھی کسی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ ان بڑی طاقتوں کے لیڈروں کے جب دماغ الٹتے ہیں تو پھر یہ کچھ نہیں دیکھتے۔ پس ان حالات میں احمدیوں کا ہی کام ہے کہ دعا سے کام لیں۔ اپنی عبادتوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کریں۔ جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نیک لوگوں کی خاطر، اپنے خالص بندوں کی خاطر اللہ تعالیٰ دوسروں کو بھی بچا لیتا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کے کلام سے قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔ پس اس زعم میں کسی کو نہیں رہنا چاہیے کہ یہاں آ کر ہم محفوظ ہو گئے ہیں، ہمارے بچوں کے مستقبل محفوظ ہو گئے ہیں۔ نہیں بلکہ بہت خطرناک دَور سے ہم گزر رہے ہیں۔ اگر ایسے حالات میں کوئی بچا سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پس خود بھی اس کے آگے جھکیں، اپنی نسلوں کو بھی اس کے آگے جھکنے والا بنائیں تا کہ اپنے آپ کو بھی محفوظ کر سکیں اور اپنی نسلوں کو بھی محفوظ کر سکیں۔

اس دنیا نے ہمیں نہیں بچانا نہ ہمارا اور ہماری نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے بلکہ ہم اگر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے کلمہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری عاجزانہ دعاؤں اور نیک اعمال کی وجہ سے دنیا کو بچا لے گا۔

پس آج کل کے حالات میں اس حوالے سے بھی بہت دعائیں کریں۔ اس سے پہلے کہ دنیا کے حالات انتہا سے زیادہ بگڑ جائیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’نیکی وہی ہے جو قبل از وقت ہے۔ اگر بعد میں کچھ کرے تو کچھ فائدہ نہیں۔ خدا نیکی کو قبول نہیں کرتا جو صرف فطرت کے جوش سے ہو۔ کشتی ڈوبتی ہے تو سب روتے ہیں۔‘‘کشتی ڈوبنے لگے تو سب رونے لگ جاتے ہیں اس سے پہلے ہا ہو ہو رہی ہوتی ہے۔ ’’مگر وہ رونا اور چِلَّانا چونکہ تقاضا فطرت کا نتیجہ ہے اس لئے اس وقت سُود مند نہیں ہو سکتا۔ اور وہ اس وقت مفید ہے جو اس سے پہلے ہو تا ہے جبکہ امن کی حالت ہو۔‘‘

فرمایا: ’’یقیناًً سمجھو کہ خدا کوپانے کا یہی گُرہے۔ جو قبل از وقت چوکنّا اور بیدار ہو تا ہے ایسا بیدار کہ گویا اس پر بجلی گرنے والی ہے۔ اس پر ہر گز نہیں گرتی۔‘‘ اگر وہ بیدار ہوگا اور یہ سوچے گا کہ بجلی گرنے والی ہے تو پھر بجلی نہیں گرتی جتنے مرضی کڑکے ہو رہے ہوں۔ ’’لیکن جو بجلی کو گرتے دیکھ کر چِلَّاتا ہے اس پر گرے گی اور ہلاک کرے گی۔ وہ بجلی سے ڈرتا ہے نہ خدا سے۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 265 ایڈیشن 1984ء)

پس بڑے واضح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تنبیہ کر دی کہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے تو اب کرو۔ ابھی تو خطرے کے بادل ذرا سے اٹھے ہیں یا کم از کم ایسے ہیں کہ اگر چاہیں تو کنٹرول کیے جا سکتے ہیں لیکن کسی وقت بھی یہ پھیل سکتے ہیں۔پس

آج احمدیوں کا ایمان اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور دعائیں دنیا کو تباہی سے بچا سکتی ہیں۔

دنیا کی ہمدردی دل میں پیدا کر کے دعا کریں۔ اپنے اپنے دائرے میں دنیا کو سمجھائیں کہ اگر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ نہیں دی تو یہ خوبصورت دنیا ویرانیوں میں بدل سکتی ہے۔ پس ہر احمدی اس سوچ کے ساتھ اپنے فرض ادا کرنے کی کوشش کرے۔

دعاؤں کی طرف مزید توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’دیکھو!تم لوگ کچھ محنت کر کے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدہ کی امید ہوتی ہے۔ اس طرح پر امن کے دن محنت کے لیے ہیں۔ اگر اب خدا کو یاد کرو گے تو اس کا مزہ پاؤ گے۔ اگرچہ دنیا کے کاموں کے مقابلہ میں نمازوں میں حاضر ہونا مشکل کام معلوم ہوتا ہے۔ آپؑ نے بڑا واضح فرما دیا دیکھو! دنیا کے کاموں کے مقابلے میں نمازوں میں حاضر ہونا بعض دفعہ بڑا مشکل لگتا ہے۔ اور تہجد کے لیے اَور بھی مشکل ہے۔ فرمایا مگر اب اگر اپنے آپ کو اس کا عادی کر لو گے تو پھر کوئی تکلیف نہ رہے گی۔ اگر دعائیں کرو گے تو وہ کریم و رحیم خدا احسان کرے گا۔‘‘ فرمایا ’’دیکھو! اب کام تم کرتے ہو (یعنی دنیوی کام بھی کرتے ہو۔) اپنی جانوں اور کنبہ پر رحم تم کرتے ہو۔ (ان کی ضروریات کی فکر کرتے ہو۔) بچوں پر تمہیں رحم آتا ہے۔ جس طرح اب ان پر رحم کرتے ہو یہ بھی ایک طریق ہے (یعنی دنیاوی لحاظ سے جو تم رحم کرتے ہو ایک طریق اَور بھی ہے۔ وہ کیا طریق ہے) کہ نمازوں میں ان کے لیے دعائیں کرو۔ رکوع میں بھی دعا کرو۔ پھر سجدے میں دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے اور عذاب سے محفوظ رکھے۔

جو دعا کرتا ہے وہ محروم نہیں رہتا۔

یہ کبھی ممکن نہیں ہے کہ دعائیںکرنے والا غافل پلید کی طرح مارا جاوے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خدا کبھی پہچانا ہی نہ جاوے۔ وہ اپنے صادق بندوں اور غیروں میں امتیاز کر لیتا ہے۔ ایک پکڑا جاتا ہے دوسرا بچایا جاتا ہے۔ غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طور پر تم میں سچا اخلاص پیدا ہو جاوے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 266 ایڈیشن 1984ء)

گو یہ باتیں اس زمانے میں آپؑ نے کہی تھیں جب طاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی لیکن آج کل بھی عالمی تباہی کے جو آثار نظر آ رہے ہیں جیساکہ میں نے کہا اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور خاص طور پر جھکیں اور یہی اپنے آپ کو محفوظ کرنے کا، دنیا کو محفوظ رکھنے کا ایک راستہ ہے۔

پھر

جماعت کو اعلیٰ اخلاق کی نصیحت

بھی آپؑ نے خاص طور پر فرمائی کیونکہ اعلیٰ اخلاق دکھانا بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے یہ اصلاح نہیں ہوتی۔‘‘ اپنا جائزہ نہ لیتے رہو، اپنی باتیں جو تم سارا دن کرتے ہو جس طرح زندگی گزاری، دن گزار رہے ہو اس کا جائزہ نہ لو کہ کیا اچھائی کی کیا برائی کی ،کیا نیک باتیں کیں ،کیا غلط باتیں کیں۔ جب تک جائزہ نہ ہواس وقت تک اصلاح نہیں ہو سکتی۔ فرمایا

’’زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں اس لئے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے۔‘‘

فرمایا ’’دیکھو!کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے پھر وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تر بیت نہیں کرتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 346 ایڈیشن 1984ء)

یعنی عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ جو طاقتیں اور صلاحیتیں انسان کے اندر ہیں، اللہ تعالیٰ نے دی ہوئی ہیں ان کی ایسی تربیت ہو، ان کو ایسے طریق پر استعمال کیا جائے کہ انسان کے ہر عمل سے اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہو رہا ہو۔ ذرا ذرا سی بات پر اگر بداخلاقی کا مظاہرہ کرو گے تو اپنی جان کو خود مشکل میں ڈالو گے۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جہاں اسلام ذاتی معاملات میں صبر ،ضبط ،تحمل اور اعلیٰ اخلاق کے اظہار اور لڑائی جھگڑے سے بچنے کی تلقین کرتا ہے وہاں قانون کی حدود میں رہ کر دینی غیرت دکھانے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دینی غیرت کے اظہار کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’وہ شخص جو سلسلہ عالیہ یعنی دین اسلام سے اعلانیہ باہر ہو گیا ہے اور وہ گالیاں نکالتا ہے اور خطرناک دشمنی کرتا ہے اس کا معاملہ اَور ہے جیسے صحابہ ؓکو مشکلات پیش آئے اور اسلام کی توہین انہوں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنی۔ تو پھر باوجود تعلقات شدیدہ کے‘‘(یعنی گہرے تعلقات ہونے کے باوجود، قریبی تعلقات ہونے کے باوجود) ’’ان کو اسلام مقدم کرنا پڑا۔‘‘

فرمایا ’’…ایک شخص ہے جو اسلام کا سخت دشمن ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے بیزاری اور نفرت ظاہر کی جاوے لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا ہو کہ وہ اپنے اعمال میں سست ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اس کے قصور سے درگذر کیا جاوے اور اس سے ان تعلقات پر زد نہ پڑے جو وہ رکھتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 3 صفحہ 346 ایڈیشن 1984ء)ہاں اگر کوئی مخالفت نہیں کر رہا تو پھر اس سے تعلقات رکھو۔ اچھے تعلقات رکھو لیکن جو کھل کر مخالفت کر رہا ہے یا اسلام کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے رہا ہے، باوجود سمجھانے کے باز نہیں آ رہا تو پھر وہاں دینی غیرت دکھانی چاہیے اور اسی طرح پر ہر احمدی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاملے میں بھی غیرت دکھانی چاہیے۔

جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف باوجود سمجھانے کے دریدہ دہنی سے باز نہیں آتا اسی طرح اس سے بھی ہم دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے اور نہ کسی احمدی کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے۔

بہت سے آپ میں سے ہیں جو یہاں پاکستان سے آئے ہیں۔ انہیں ذاتی تجربہ ہے کہ کس قسم کی غلیظ زبان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف وہاں نام نہاد ملاں استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہمیں کہا جائے کہ ان سے محبت کا اظہار کیا جائے یا ان کے شر ان پر الٹنے کی دعا نہ کی جائے تو ہماری غیرت یہ گوارا نہیں کرتی۔ وہی اصول جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا یہاں بھی چلے گا۔ ہاں

ہم ایسے لوگوں کے خلاف قانون بھی ہاتھ میں نہیں لیتے کیونکہ یہ بھی اسلامی تعلیم کا حصہ ہے کہ کسی بھی صورت میں قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک اَور خوبی جو احمدیوں میں بیعت کے بعد ہونی چاہیے بیان فرمائی۔ آپؑ نے فرمایا کہ

آپس میں محبت اور اخوت پیدا کرو ۔

اس کی تعلیم دیتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جب تک وہ آپس میں سچی ہمدردی نہ کریں۔ جو پوری طاقت دیاگیاہے وہ کمزور سے محبت کرے۔ یعنی جو بھی صلاحیتیں اور طاقتیں دی گئی ہیں اس کو استعمال میں لا کر کمزوروں سے محبت کرو نہ کہ نفرت کا اظہار یا بیزاری کا اظہار۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ میں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے تو اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا یہ طریق درست نہیں۔ آپؑ نے فرمایا جماعت تب بنتی ہے جب ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی جائے اور حقیقی بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے سلوک کرو۔ آپؑ نے بڑے درد سے فرمایا کہ یہ طریق درست نہیں کہ جماعت میں اندرونی پھوٹ ہو۔ صحابہؓ نے بھی محبت و اخوت آپس میں پیدا کی اور ایک جماعت بن گئے۔ آپؑ اپنی جماعت کے افراد سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ وہ آپس میں صحابہؓ کی طرح اخوت کا رشتہ قائم کریں۔ چنانچہ فرمایا: اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے (یعنی جس طرح صحابہؓ کا سلسلہ تھا) اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا۔ خدا تعالیٰ پر مجھے بڑی امیدیں ہیں۔ فرمایا دیکھو! ایک دوسرے کا شکوہ کرنا، دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے دوسرے کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 3 صفحہ 348-349 ایڈیشن 1984ء)

پس یہ اعلیٰ اخلاق ہیں کہ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھا جائے اورجب یہ ہوگا تو تب ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی امیدوں پرپورا اتر سکتے ہیں، تب ہی ہم ان انعاموں کے وارث ہو سکتے ہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے آپ کی جماعت کے متعلق فرمایا ہے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں تو ہندوستان کی مختلف قومیں اور قبیلے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ اب تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے کیے ہوئے وعدے کے مطابق دنیا کی مختلف قوموں اور قبیلوں اور رنگ و نسل کے لوگوں کو جماعت میں شامل فرما دیا ہے اور فرما رہا ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا مختلف قوموں اور رنگ و نسل کے لوگوں پر احسان ہے کہ اس نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہونے کی، آپؑ کے غلامِ صادق کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ایک قوم بنا دیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس طرف توجہ دلائی کہ تم آپس میں بھائی ہو۔ فرمایا

’’گو باپ جدا جدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 349 ایڈیشن 1984ء)

پس قطع نظر اس کے کہ ہم کس نسل کے ہیں سفید فام ہیں یا افریقن، امریکن ہیں یا پاکستانی ہیں یا ہندوستانی ہیں یا ہسپانوی نسل کے ہیں جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر ہم ایک روحانی باپ کی اولاد بن گئے ہیں اور کسی کو دوسرے پر نسل اور قوم اور رنگ کی وجہ سے برتری حاصل نہیں ہے کیونکہ ہمارا روحانی باپ ایک ہی ہے اور یہی اعلان اپنے آخری خطبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ پس جب ہم اس بات کو سمجھ کر اور ایک ہو کر کام کریں گے، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ ترقیات سے ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں نوازتا رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 9 ایڈیشن 1984ء) پس کیا نمونہ صرف سطحی باتوں سے اور بغیر کسی گہرے عمل کے انسان بن سکتا ہے۔ نمونہ بننے کے لیے تو بڑا جہاد کرنا پڑتا ہے، بڑی محنت کرنی پڑتی ہے اور ہمیں بھی کرنی پڑے گی۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرتے ہوئے بھی اور اپنی اخلاقی حالتوں کو درست کرتے ہوئے بھی اور آپس میں محبت اور بھائی چارے کے تعلقات کے معیار قائم کرتے ہوئے بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم نمونے بن رہے ہیں کہ نہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہمیں اپنے معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف مزید توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں پیدا کرو ’’اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔‘‘ فرمایا ’’جماعت میں اگر ایک آدمی گندا ہوتا ہے تو وہ سب کو گندا کر دیتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 9 ایڈیشن 1984ء)

آپؑ نے فرمایا

اعلیٰ قدریں اور اعلیٰ اخلاق اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں تقویٰ ہو۔

چنانچہ اس بارے میں جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں ،کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 10 ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ نے فرمایا:’’ہماری جماعت یہ غم کُل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنے جان پر لگائے۔‘‘ دنیا کے بڑے غم انسان کو ہوتے ہیں لیکن فرمایا نہیں، یہ غم سب سے بڑھ کر تمہارے دل میں ہونا چاہیے۔ کیا غم؟ ’’کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 35 ایڈیشن 1984ء)

پس اگر ہم نے اپنا حق بیعت ادا کرنا ہے، اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر اس کا شکر گزار ہونا ہے تو ہمیں اپنی حالتوں کا ہر وقت جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت ہمارے اندر پیدا ہو جائے اور ہم حقیقت میں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا حق ادا کرنے والے بنیں اور ہم آخرین کی اس جماعت میں شامل ہو جائیں جس کی خوشخبری اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ابھی آتے ہوئے مجھے امیر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آج سے اٹھائیس سال پہلے آج کے دن ہی 14؍اکتوبر کو اس مسجد کا بھی افتتاح ہوا تھا اور یہ کھولی گئی تھی۔ اس مسجد کو اب اٹھائیس سال ہو گئے ہیں۔

یہاں رہنے والے اس علاقے میں رہنے والے پرانے احمدی بھی، نئے آنے والے بھی جائزہ لیں کہ ان اٹھائیس سالوں میں انہوں نے اپنی روحانیت میں کس حد تک ترقی کی ہے۔ کس حد تک اس مسجد کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

اللہ تعالیٰ آئندہ بھی کئی دہائیاں اور کئی صدیاں اس مسجد میں آنے والوں کو مہیا فرماتا رہے اور یہ ہر قسم کی دنیاوی آفات سے بھی بچی رہے لیکن

اصل حق تبھی ادا ہو گا جب ہم مسجدوں کے حق ادا کرتے ہوئے انہیں آباد کرنے کی کوشش کریں گے۔

اللہ تعالیٰ اس کی بھی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button