دورہ امریکہ ستمبر؍اکتوبر 2022ء

امریکہ ۲۰۲۲ء: بابرکت سفر و حضر

(آصف محمود باسط)
حضور انور کی یہ تصویر 23؍ اکتوبر ۲۰۲۲ء کو لی گئی۔ عقب میں زائن شہر کی چابی نظر آ رہی ہے

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ امریکہ کے حالیہ دورہ سے تشریف لائے۔ خاکسار کو 23 اکتوبر بروز اتوار شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔

بعض لمحے ایسے نازک ہوتے ہیں کہ انہیں بیان کرنے کی کوشش ان کی لطافت کو قربان کردیتی ہے۔ لہذا میں ان لمحات کو اپنے الفاظ پہنانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ جیسا میں نے ان لمحات کو پایا، اسی طرح بیان کردوں گا۔

حضور نے جو کچھ فرمایا وہ خدا تعالیٰ کے شکر کا اظہار لیے ہوا تھا۔خاکسار نے دورہ کے کامیاب ہونے پر مبارکباد پیش کی تو جو کچھ حضور نے فرمایا، اس کا مفہوم خدا کے حضور مناجات کے رنگ میں یوں تھا کہ

تیرے اے میرے مربی، کیا عجائب کام ہیں

گرچہ بھاگیں، جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار

بات ہوئی غیروں کی داد و تحسین کی،تو میرے منکسر مزاج آقا کا بیان خدا کی حمد سے لبریز تھا۔ گویا اپنے آقا و متاع ؑ کے الفاظ میں فرما رہے ہوں کہ

ابتد ا سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند

شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار

پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا

میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار

ذکر تھا ایک شہر کے مئیر کا جو پہلے مصروفیت کے باعث تقریب میں شامل نہ ہوسکنے کا عذر کر چکا تھا۔ پھر یکا یک اس نے کہلا بھیجا کہ وہ نہ صرف شامل ہوگا بلکہ حضور کی خدمت میں اپنے شہر کی چابی بھی پیش کرے گا۔ وہ آیا بھی، شامل بھی ہوا، اور حضور سے ملاقات کے دوران اپنے خوشی کے جذبات پر بمشکل قابو پاتا رہا اور حضور کے خیالات کو سراہتا رہا۔اس سارے ذکر میں جہاں مسرت اور خوشی محسوس ہوئی، وہ اس بات پر تھی کہ

آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج

نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار

امریکہ کے پیروجواں، مرد و خواتین احمدیوں کی وارفتگی اور خلافت سے والہانہ وابستگی کے نظارے دیکھ کر ازدیاد ایمان کے بارے میں عرض کی تو، جہاں حضور کے چہرے پر اپنی جماعت کے ہر فرد کے لیے اور بھی بڑھ کر محبت نظر آئی، وہاں چہرۂ مبارک زبان حال سے گویا اپنے رب سے یہ کہنے لگا کہ

اِس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم

جن کا مشکل ہے کہ تا روزِ قیامت ہو شمار

جماعت کے دشمن کس طرح خجالت کا شکار ہوئے،کس طرح ان کے سب خواب خاکستر ہوگئے اور کیسے اس دورے کی کامیابی ہمیشہ کی طرح ان کے لیے حسد میں بڑھنے کا سبب بن گئی، اس ذکر پر حضور کے دل میں ان مخالفین کے لیے بھی ہمدردی اور ان کی کم فہمی پر افسوس نظر آیا، گویا اپنے مولا کے حضور عرض کررہے ہوں کہ

ہاتھ میں تیرے ہے ہر خسران و نفع و عُسر و یُسر

تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار

عزت و ذلت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں

تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار

قبضۂ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا

پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار

حضور کے دفتر میں حضور کی نشست کے بالکل پیچھے زائن شہر کی چابی آویزاں تھی۔ میری نگاہوں میں اشتیاق دیکھتے ہوئے فرمایا کہ ’’اتنی دور سے کیسے پڑھو گے۔ قریب سے دیکھ لو‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’اسے بھی کچھ دن تک بیت الفتوح کی نمائش میں ایسے دوسرے souvenirs کے ساتھ ہی رکھنے کے لیے بھجوا دوں گا‘‘۔ مبارکباد عرض کی تو گویا بزبانِ حال فرمایا:

مجھ کو کیا مُلکوں سے، میرا مُلک ہے سب سے جدا

مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

اللھم اید امامنا بروح القدس

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button