حضرت مصلح موعود ؓ

حصولِ مقصد کے لیے جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے (قسط نمبر3)

(خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 17 ؍ دسمبر 1937ء )

مجھے یاد ہے جب مولوی محمد احسن صاحب فوت ہوئے اور میں نے ان کا جنازہ پڑھا تو بعض لوگوں نے مجھے لکھا کہ جب آپ نے ان کا بھی جنازہ پڑھ لیا تو پھر بیعت کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے لوگوں کے خیال میں مدارج کا فرق کوئی فرق ہی نہیں ہوتا۔ حالانکہ بیعت اور عدمِ بیعت کا فرق تو الگ رہا رنگ میں اگر اُنیس بیس کا فرق ہو تو وہ بھی فرق ہی ہوتا ہے۔ گورنمنٹ بی۔ اے پاس لوگوں کو بھی نوکریاں دے دیتی ہے مگر کیا پھر لوگ ایم۔اے پاس کرنا چھوڑ دیتے ہیں؟ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر میں فرق تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ لوگ پھر کمشنری کا خیال ہی چھوڑ دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر کچھ فرق ہے تو کیا ہوا۔ اور جب دنیا میں کچھ فرق کا خیال نہیں چھوڑ ا جاسکتا اور بندوں کا کچھ بھی بڑا سمجھا جاتا ہے تو کیا خدا کا کچھ ہی ایسا بے حقیقت ہے کہ اس کا خیال نہ کیا جائے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک بھانجے تھے۔ آپ ایک دفعہ ان پر ناراض ہوئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چونکہ کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی جائیدادرشتہ داروں میں ہی تقسیم ہونی تھی۔ اس بھانجے نے کہیں کہہ دیا کہ یہ سخاوت بہت کرتی ہیں، انہیں روکنا چاہئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو بہت ناراض ہوئیں اور قسم کھائی کہ میں آئندہ کبھی اس کی شکل نہ دیکھوں گی اور اگر دیکھوں تو کچھ صدقہ کروں گی۔ اس ناراضگی پر کچھ عرصہ گزر گیا تو اس بھانجے نے بعض صحابہؓ سے کہا کہ ناراضگی دور کرادو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اتنا کردیں گے کہ تمہیں اندر لے جائیں۔ کیونکہ بغیر اِذن کے وہ اندر نہ جاسکتے تھے۔ آگے اندرجاکر تم اپنی خالہ سے لپٹ جانا اور معافی لے لینا۔ چنانچہ چھ سات صحابہ مل کر گئے اور دروازہ پر جاکر اجازت مانگی۔ حضرت عائشہؓ نے دریافت فرمایا کہ کون ہیں؟ تو انہوں نے دوچار کا نام لے دیا اور کہا کہ یہ اور کچھ اَور ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے پردہ کھینچ دیا اور اجازت دے دی۔ چنانچہ یہ اندر گئے اور ساتھ ہی وہ بھانجا چلا گیا اور پھر پردے کے اندر جاکر آپ سے لپٹ گیا اور معافی مانگنے لگا۔ حضرت عائشہؓ نے اسے معاف تو کردیا مگر اس کے بعد جو غلام بھی آپ کے پاس آتا اُسے آزاد کردیتیں اور فرماتیں کہ میں نے کہا تھا کہ کچھ صدقہ کروں گی۔ اب مجھے کیا علم ہے کہ خداتعالیٰ کے نزدیک کچھ کی حد بندی کیا ہے؟ (بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش)

تو یہ کتنی نادانی کی بات ہے کہ لوگ کچھ کے فرق کو بےحقیقت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ خداتعالیٰ کے کچھ کا فرق انسانی کچھ کے مقابلہ میں ذرہ اور سورج کا فرق ہے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ خاک کا ذرہ ہو اور سورج نہ ہو۔ ابوجہل بھی انسان تھا اور محمد رسول اللہ ﷺ بھی انسان تھے۔ مگر کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تم ابوجہل بن جائو۔ پھر رسول کریمﷺ بھی انسان تھے اور وہ مسلمان بھی جو ہمیشہ غلطیاں کرتے اور جھاڑیں کھایا کرتے تھے۔ پھر کیا تم اس وجہ سے رسول کریم ﷺ کے مثیل بننے کی کوشش نہ کرو گے کہ دوسرے بھی انسان تھے۔ اگر جنازہ پڑھاجانا ہی معیار ہے تو رسول کریم ﷺ کا بھی جنازہ پڑھا گیا تھا اور ایک ادنیٰ مسلمان کا بھی پڑھا جاتا ہے پھر کیا دونوں ایک ہی ہیں؟ کیا یہی جنازہ ایک معیار ہے۔ تو بعض لوگوں کا نقطۂ نگاہ یہی ہوتا ہے۔ ہر بات کے متعلق وہ یہی کہہ دیتے ہیں کہ اگریہ نہ ہوئی تو کیا ہم احمدی نہ رہیں گے۔ جب دیکھتے ہیں کہ کسی بات پر وہ شدید گرفت کے نیچے نہیں آئیں گے تو اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ مگر صحابہ کا نقطۂ نگاہ اس کے بالکل اُلٹ تھا۔ ایک صحابی ایک دفعہ کسی جنازہ کے پاس سے گزرے تو انہیں بتایا گیا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایاہے کہ جو کسی کا جنازہ ادا کرنے اور پھر دفن تک ساتھ رہے تو اسے اُحد کے پہاڑ کے برابر ثواب حاصل ہوتاہے۔ یہ سن کر انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہم نے تو کئی اُحد ضائع کردیئے۔(بخاری کتاب الجنائز باب فضل اتباع الجنائز)یہ اعلیٰ درجہ کی قربانیوں میں سے تو نہیں مگر یہ بات سن کر وہ برداشت نہ کرسکے۔ اور یہ اُحد بھی تو صرف سمجھانے کے لیے کہا گیا ہے ورنہ خداتعالیٰ کا ثواب تو ساری دنیا کے پہاڑوں سے بھی بھاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ ہم ادنیٰ درجہ کے مومن کو بھی جو انعام دیں گے وہ زمین و آسمان کے برابر ہوگا۔

پس یہ خیال کہ بعض نیکیاں اگر چھوٹ جائیں تو کیا حرج ہے کافر اور منافق بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ یوں کوئی چھوٹ جائے تو علیحدہ بات ہے مگر اس نیت سے نہ چھوڑے کہ یہ معمولی بات ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہر انسان اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا کہ ساری نیکیاں کرے۔ مگر جو یہ خیال کرلیتا ہے کہ اگر کوئی چھوٹ جائے تو کیا حرج ہے۔ اس کی سَو میں سے اگر ایک بھی چھوٹ جائے تو باقی نناوے بھی ساتھ ہی ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس لئے پیشتر اس کے کہ مَیں وہ باتیں بیان کروں جو میں تحریک جدید کے سلسلہ میں کہنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے اور جو تبدیلی نہیں کرے گا وہ یا تو منافق بنے گا اور یا پھرہمارے رستہ میں پتھر بن کر رُکاوٹ پیدا کرے گا۔ آئے دن ان کی طرف سے فتنے اُٹھتے رہیں گے۔ سفر میں جو شخص ساتھ چلنا چاہے مگر چل نہ سکے وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے مصیبت ہی بنا کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے ذرا بیٹھ جائو، سانس لے لیں۔ کبھی کہتا ہے پانی پی لیں اور کبھی یہ کہ پیشاب کرلیں اور اس طرح دوسروں کا سفر بھی خراب کرتا ہے لیکن جب ذہنیت میں تبدیلی پیدا ہوجائے تو ہر شخص اپنی ذمہ واری کو سمجھتا ہے۔

چونکہ جلسہ کے ایام قریب ہیں اس لئے میں اس وقت اہم تفاصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اِنْشَاءَاللّٰہ جلسہ سالانہ کے بعد بیان کروں گا۔ مگر فی الحال دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذہنیت میں تبدیلی پید اکریں۔ اس کے متعلق میں نے پہلے بھی بعض خطبے پڑھے تھے اور توجہ دلائی تھی کہ جب تک ہماری ذہنیت میں تبدیلی نہ ہو کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ جب تک ہمارا دانا اور نادان، عالم اور اَن پڑھ، چھوٹا اور بڑا، بچہ اور بوڑھا یہ سمجھ نہیں لیتا کہ اسلام دراصل ایک خاص قسم کے قوانین کے مجموعہ کا نام ہے اور جب تک ہم ان کو جاری نہیں کرلیتے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسلام نہ کسی کلمہ کا نام ہے اور نہ کسی اقرار کا۔ یہ کلمے اور اقرار تو صرف علامتیں ہیں اور تعلیمات کے خلاصے ہیں۔ ورنہ اسلام ایک وسیع تمدنی دائرہ کانام ہے جسے قائم اور مکمل کئے بغیر قومی زندگی حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب ہم اس دائرہ کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوجائیں، جب اس کعبۃاللہ کی تعمیر کرلیں، اُسی وقت ہم کامیاب ہوں گے۔ اُسی وقت حج شرو ع ہوگا لیکن جب تک وہ دائرہ ہم مکمل نہیں کرلیتے، جب تک وہ گھر نہیں بنالیتے اُس وقت تک کامیابی کی تمام امیدیں محض وہم ہیں جن کے اندر کوئی حقیقت نہیں۔

جیسا کہ میں کہہ آیا ہوں تفاصیل تو اِنْ شَاءَ اللّٰہ جلسہ سالانہ کے بعد بیان کروں گا مگر بعض چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ذکر اس اثنا میں بھی کرتا رہوں گا۔ چنانچہ ایک آج بیان کرتا ہوں جو یہ ہے کہ نوجوان نکلیں اور باہر جائیں۔ تحریک جدید کے شروع میں بھی میں نے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی اور بہت سے نوجوان نکلے بھی تھے مگر ان کے نکلنے کا طریق زیادہ مفید نہیں تھا۔ اور اس لئے جن ممالک میں ہم جانا چاہتے تھے اور جس رنگ میں کام کرنا چاہتے تھے نہیں کیا جاسکا۔ بےشک انہوں نے قربانیاں کیں مگر صحیح طریق پر ان کی قربانیوں کو استعمال نہیں کیا جاسکا۔ اس لئے میں دوستوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رنگ میں اپنے آپ کو وقف کریں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مبلغ بن سکیں۔ میں نے پچھلے سے پچھلے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو یا تو انگریزی دان ہوں اور ہم انہیں دینی تعلیم دلاویں۔ یا ایسے عالم ہوں جن کو یورپین زبانیں سکھالیں۔ پہلا حملہ تو ہوچکا۔ اُس وقت ہمیں جو ملا اور اُسے جہاں بھیجنا پسند کیا بھیج دیا۔ اس سے ہم نے تجربہ حاصل کیا، نتیجہ نکالا، خطرات دیکھے، فوائد کا مشاہدہ کیا اور آئندہ کے لئے نقائص کو دور کرنے کے لئے اپنے ذہن میں بعض تدابیر کا اندازہ کیا۔ اب دوسرا قدم ہمیں ایسے رنگ میں اُٹھانا چاہئے کہ یا تو یورپین زبانوں کے ماہرین کو دین سکھائیں اور یا علماء کو زبانیں سکھا کر باہر بھیجیں تا وہ باہر جاکر مکمل تبلیغ کرسکیں۔

پس جماعت کے نوجوانوں کو میں پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آگے آئیں۔ پہلا تجربہ ان کے سامنے موجود ہے اس لئے وہ اپنی ذمہ واریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ جس وقت فوری ضرورت ہو اُس وقت کا معیار اور ہوتا ہے اور دوسرے وقت کا اور۔ اُس وقت ہم صرف تجربہ کرنا چاہتے تھے کہ کس طرح آواز کو غیرممالک میں پہنچاسکتے ہیں اور دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہم میں ایسے نوجوان موجود ہیں جو خطرات سے بے پرواہ ہوکر اسلام کی تبلیغ کے لئے باہر نکل جائیں۔ لیکن اب ہم مستقل صورت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس مستقل طریق پر کام کرنے والے ہوں۔ اور جو ایسے اخلاص اورجذبۂ اطاعت کے ماتحت اپنے آپ کو پیش کریں کہ جس میں کوئی کیا اور کیوں نہ ہو۔ جو شخص کیا اور کیوں کہتا ہے وہ کبھی سپاہی نہیں بن سکتا۔ سپاہی وہی ہوسکتا ہے جو ان الفاظ کو بھول جائے اور جو شخص اطاعت اور فرمانبرداری کا مفہوم جانتاہے وہ سوال نہیں کیا کرتا۔ حکم کے مقابلہ میں کیوں اور کیا نہیں پوچھا کرتا۔

٭…٭…(جاری ہے)٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button