حضرت مصلح موعود ؓ

حصولِ مقصد کے لیے جماعت اپنی ذہنیت میں تبدیلی کرلے (قسط نمبر2)

(خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 17 ؍ دسمبر 1937ء )

تو وہ اخلاق جو طبیعت کے خلاف ظاہر ہوتے ہیں وہی نیکی کے کمال پردلالت کرتے ہیں۔ طبیعت کے میلان کے مطابق جو نیکی ہو وہ کامل نیکی نہیں کہلاسکتی۔ مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کردو۔(متی باب۵ آیت۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء)اب اگر ان کا سارا کریکٹر اسی نقطہ کے گرد گھومتا ہے اور یہی بات ان کے ہر عمل میں نظر آتی ہے تو یہ کوئی اعلیٰ خوبی نہیں۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ ان کی تمام نیکیوں میں ان کے طبعی میلان کا دخل ہے۔ نیکی دراصل اسی کی ہوتی ہے جس کی زندگی میں ہرقسم کی نیکیاں پائی جائیں۔ جیسے ہمارے رسول کریم ﷺکی ذات ہے۔ عفو میں آپ نے ایسانمونہ دکھایا کہ اس سے بہتر عفو نہیں ہوسکتا۔ لڑائی میں اِس قدر دلیر تھے کہ آپ سے بڑھ کر کوئی دلیر نظر نہیں آتا۔ پالیسی میں اس قدر ذہین تھے کہ آپ سے بہت تدبیر کرنے والا اور سپاہیوں کو لڑانے والا کوئی دوسرا نہیں ملتا۔ جب آپ تقریر کرتے تو ایسی کہ بڑے بڑے مقررین آپ کے سامنے ہیچ نظر آتے۔ ایک دفعہ آپ تقریر کرنے کے لیے صبح کھڑے ہوئے تو شام تک تقریر کرتے رہے صرف نماز کے لیے بند کرتے اور نماز پڑھ کر پھر شروع فرمادیتے۔ مگر جب مختصر بات فرماتے تو ایسی کہ اس کی تفسیر میں کئی کتابیں لکھی جاسکیں۔ گویا ایک طرف آپ کے لیکچرمیں اتنی وسعت نظر آتی ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور دوسری طرف اختصاراً کلام فرماتے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جب آپ سخاوت کرتے تو انتہاء درجہ کی حتیٰ کہ صحابہؓ کا بیان ہے کہ آپ بِالخصوص رمضان میں اس طرح سخاوت کرتے کہ جس طرح تیز آندھی چلتی ہے ۔(بخاری کتاب الصوم باب اجود ماکان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم )اور پھر اس کے ساتھ ہی لَاتُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(بنی اسرائیل: ۲۷) پر آپ کا عمل تھا۔ یعنی سخاوت کو فضول اور رائیگاں نہ گنواتے اور نہ بے محل استعمال کرتے۔ حاتم طائی کی سخاوت تو تھی مگر بے محل۔ کیونکہ وہ حلوائی کی دُکان پر دادا جی کی فاتحہ والی سخاوت تھی۔ باپ کے مال پر اُس کا کیا حق تھا کہ اُسے تقسیم کردیتا۔ اِس کے مقابل پر آنحضرت ﷺ ایک طرف تو آپ اِس قدر سخی تھے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صحابہؓ کہتے ہیں کہ رمضان کے دنوں میں آپ اس طرح سخاوت کرتے کہ گویا تیز آندھی چل رہی ہے۔ مگر دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک دفعہ آپ کی عزت کی اور کہا کہ آپ پانچ آدمیوں کو ساتھ لے آئیں۔ آپ نے پانچ آدمیوں کو ساتھ لیا اور اس کے گھر کی طرف چلے۔ رستہ میں ایک چھٹا آدمی ساتھ شامل ہوگیا۔ بعض طبائع بے تکلّف ہوتی ہیں اور ایسے لوگ خودبخود ساتھ ہوجایا کرتے ہیں۔ جب آپ اس شخص کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا کہ اس نے صرف پانچ آدمیوں کی اجازت دی تھی، چھ کی نہیں۔ (مسلم کتاب الاشربۃ باب مایفعل الضیف اذا تبعہو)گویاجب دوسرے کے حق کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے اس قدر احتیاط کی۔ یوں تو آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمی کھاسکتے ہیں مگر اس وقت یہ نہیں فرمایا کہ پانچ کا کھانا چھ کھالیں گے۔ کیونکہ یہاں سخاوت کا نہیں بلکہ دوسرے کے حق کا سوال تھا۔ جب آپ قضا فرماتے تو یہی نظر آتا تھا کہ آپ بہترین قاضی ہیں اور ساری توجہ آپ کی اسی کام کی طرف ہے۔ لیکن جب تدریس فرماتے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا سارا میلان اسی کی طرف ہے اور آپ بہترین مدرس ہیں۔ پھر جب آپ تربیت فرماتے تو یہی معلوم ہوتا کہ آپ بالکل ایسے ہیں جیسے تربیت کرنے والے اور بورڈنگوں وغیرہ کے افسر ہوتے ہیں اور گویا آپ صرف مربی ہیں۔ پھر جب مجلس میں بیٹھتے تو صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص یہی خیال کرتا تھا کہ آپ میرے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور یہ نظر آتا تھا کہ آپکو ان لوگوں کے سوا اور کسی کا بلکہ اپنے گھر والوں کابھی کوئی خیال نہیں۔لیکن جونہی گھر میں قدم رکھتے آپ کی بیویاں خیال کرتیں کہ آپ سے زیادہ محبت کرنے والا خاوند دنیا بھر میں نہیں ہوگا۔ آپ جب بچوں سے ملتے تو معلوم ہوتا کہ آپ ایک خوش مذاق نوجوان ہیں اور بچوں سے کھیلنے میں ہی ساری لذت محسوس کرتے ہیں۔ کسی بچہ کو کندھے پر اُٹھاتے، کسی کو چھیڑتے، کسی کو پیار فرماتے ہیں مگر جب بوڑھوں میں جاتے تو ایسا نظر آتا کہ بڑھاپا ہی بڑھاپا ہے۔ آپ کے منہ سے عقل اور تدبیر کے پھول جھڑتے ہیں۔ جب آپ دوستوں کی طرف توجہ کرتے تو معلوم ہوتا ہے ان کے سوا آپ کو کسی کا خیال تک نہیں۔ مگر جب دشمن کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ بھی اتنا ہی آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے جتنا دوست۔ مختصر یہ کہ دنیا کی کوئی نیکی ایسی نہیں جس میں آپ نمایاں نظر نہیں آتے اور نیکی اسی کا نام ہے۔ یہ نیکی نہیں کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی آگے کردو، یہ تو طبیعت کا میلان ہے۔ نیکی یہی ہے کہ ایک تھپڑ کھا کر دوسرا آگے کرنے کے موقع پر آگے کردیا جائے اور مقابلہ کرنے کے موقع پرمقابلہ کیا جائے۔ ہاتھ کھولنے کے موقع پر کھولا جائے اور بند رکھنے کے موقع پر بند رکھا جائے۔ دوستوں کے تحفظ کا سوال ہو تو اس کا خیال رکھا جائے اور دشمنوں سے انصاف کا موقع ہو تو اس کا۔ قضاء کے موقع پر بہترین قاضی بناجائے اور لڑائی کے موقع پر بہترین جرنیل۔ تعلیم کا معاملہ ہو تو انسان معلّم بنے اور تربیت کا وقت ہو تو مربی۔ اور اخلاق بیان کرنے کا وقت ہو تو عظیم الشان فلسفی نظر آئے۔ غرضیکہ ساری نیکیوں کاخیال رکھا جائے۔ یہی حقیقی اور کامل نیکی ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں طبیعت کا میلان نہیں ہوسکتیں۔ ایسی حالت میں ماننا پڑے گاکہ اگر کچھ چیزیں طبیعت کا میلان ہیں تو کچھ ایسی بھی ہیں جو محض نیکی کی خاطر اور خداتعالیٰ کی رضا کے لیے کی جارہی ہیں۔ یہ چیز ہے جو دنیا میں نیکی کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

جو لوگ چندہ دے کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کرلیا اب ہمیں نمازوں کی کیا ضرورت ہے۔ یاجو نمازیں پڑھ کر خیال کرلیتے ہیں کہ اب ہمیں زکوٰۃ کی ضرورت نہیں۔ حج کرلیا تو خیال کرلیا کہ اب عمرہ کی کیا حاجت ہے۔ روزہ رکھ کر سمجھ لیا کہ اب ہمیں اپنی یا ہمسایوں کی تربیت اور لوگوں کے اخلاق کی نگرانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ صرف اپنے اپنے میلاناتِ طبائع کی اتباع کرتے ہیں خداتعالیٰ کے احکام کی نہیں اور ایسے لوگ کبھی صحیح قومی ترقی حاصل نہیں کیا کرتے۔ یہ مقصد ہے جسے تم نے حاصل کرنا ہے اور تم اس مقصد کے حصول کا ارادہ کرکے کھڑے ہوئے ہو۔ اس کا نام خواہ تحریک جدید رکھ لو یا تحریک قدیم۔ نام سے کوئی غرض نہیں، اصل مقصود کام ہے۔ اس کانام خواہ کچھ رکھ لیا جائے اور یہ تحریک جدید نہیں بلکہ اسے تم تحریک اَقْدم کہہ سکتے ہو کیونکہ یہ آدم کے وقت سے ہے، کوئی نئی تحریک نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام ہم نے کرنا ہے یا نہیں اور میرا نقطۂ نگاہ تو یہ ہے کہ خواہ کوئی اس سے متفق ہو یا نہ ہو کہ اگر ہم نے اس بات کو پورا نہ کیا اور قومی زندگی کو اس طرح نہ بدلا تو ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے اور ہمیشہ ناکام و نامراد رہیں گے۔ اگر واقعی ہمارا یہی مقصود ہے تو ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا کہ اس راہ میں کیا کیا روکیں ہیں اور کن کن قربانیوں کی ہمیں ضرورت ہے۔ اور جب تک اس کے متعلق اپنے قلوب میں قطعی فیصلہ نہ کرلیں اس جہت میں کوئی قدم نہیں اُٹھاسکتے۔

اصل بات یہ ہے کہ کوئی کام مشکل نہیں ہوتا، مشکل اس کا سمجھ لینا اور ارادہ کرلینا ہوتا ہے۔ جب یہ ہوجائے تو پھر کام آسان ہوتا ہے۔ جو شخص کام کو سمجھتا نہیں اور صرف رو میں بہتا ہے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگرجہاد کا وقت ہوا تو اس کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھے بغیر شامل ہوگیا۔ تو جب اسے مشکلات نظر آئیں گی بھاگ اُٹھے گا۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی جو بغیر سوچے سمجھے ساتھ ہولیتے تھے ان میں سے ہی بعض لڑائی میں سے بھاگ بھی آیا کرتے تھے۔ پس کام میں روکیں صرف اسی وجہ سے پید اہوتی ہیں کہ بعض لوگ حقیقی طور پر اسے سمجھتے نہیں۔ بعض لوگ تو بے سوچے ہی داخل ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ ہم نے سمجھ لیا ہے مگر حقیقتاً سمجھا نہیں ہوتا اور محض رَو میں بہ کر شامل ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب مشکلات دیکھتے ہیں تو پھر پیچھے ہٹتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہتے ہیں کہ اپنی بہادری کی علامت کے طور پر شیر کی تصویر کندھے پر گدوانے گیا تھا۔ پُرانے زمانے میں یہ رواج تھا کہ لوگ اپنے جسموں پر مختلف تصویریں گدوالیتے تھے اور اس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ ہمارے اخلاق اس تمثیل کے صاحب کی طرح ہیں۔ مثلاً کوئی عقاب کی تصویر گدوالیتا تھا اور اس کا مطلب یہ ہوتا کہ میں دشمن پر عقاب کی طرح جھپٹتا ہوں اور اُسے اُٹھا کر لے جاتا ہوں۔ یا سانپ کی تصویر گدوالی جس کے معنے یہ ہوتے کہ میں سانپ کی طرح دشمن کو ڈس لیتا ہوں اور پھر وہ بچ نہیں سکتا۔ یہ شخص جس کی کہاوت ہے اُس کو یہ وہم تھا کہ میں بڑا بہادر ہوں اور اُس نے سوچا کہ سب سے زیادہ بہادر تو شیر ہوتا ہے اس لئے مجھے اپنے جسم پر شیر کی تصویر گدوالینی چاہئے۔ چنانچہ وہ گدوانے والے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ شیر کی تصویر گود دو۔ اُس نے جب سوئی ماری کہ نشان کرکے اس میں سرمہ بھرے تو اس نے پوچھا کہ کون سا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ دایاں کان۔ وہ کہنے لگا پہلے یہ بتائو کہ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا رہتا تو ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ بس پھر یہ چھوڑ دو۔ اس نے پھر سوئی ماری تو اس نے پوچھا اب کیا گودتے ہو؟ اس نے کہا بایاں کان۔ کہنے لگا اچھا یہ بتائو کہ اگر شیر کا بایاں کان نہ ہو تو وہ شیر رہتا ہے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا رہتا تو ہے۔ کہنے لگا کہ بس پھر یہ بھی چھوڑ دو۔ اس کے بعد اُس نے پھر سوئی ماری تو اس نے پوچھا کہ اب کیا گودتے ہو؟اس نے کہا کہ دُم۔ کہنے لگا اگر دُم نہ ہو تو کیا شیر نہیں رہتا؟ اس نے کہا رہتا تو ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا کہ بس پھر دُم بھی چھوڑ دو۔ اسی طرح بعض اور اعضاء کے گودنے کے متعلق بھی اس نے ایسا ہی کہا۔ اس پر گودنے والا سوئی رکھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے پوچھا کہ گودتے کیوں نہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ بس اب شیر کا کچھ نہیں رہ گیا۔ کیونکہ جب نہ کان ہوں نہ دُم نہ ٹانگیں تو شیر کا رہ کیا گیا۔ دراصل یہ مثال اخلاقی حالت بیان کرنے کے لیے ہے۔ جو شخص یہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر یہ بات نہ ہو تو میں احمدی رہ سکتا ہوں یا نہیں اور وہ نہ ہو تو رہ سکتا ہوں یا نہیں، اس کی احمدیت باقی نہیں رہ سکتی۔ باقی اُسی کی رہتی ہے جو یہ خیال کرتا رہتا ہے کہ اگر یہ بات بھی شامل ہوجائے تو میری احمدیت اور اچھی ہوجائے گی اور اگر فلاں بھی کرسکوں تو اور بھی اچھی ہوجائے گی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں درس دے رہا تھا کہ ایک رئیس وہاں آکر بیٹھ گیا۔ میں پڑھارہا تھا اور میں نے بتایا کہ دوزخ دائمی نہیں بلکہ ایک وقت یہ سزا منقطع ہوجائے گی اورجنت حاصل ہوجائے گی اس پر وہ کہنے لگا کہ پھر یہ تو بڑا مزا ہے۔ ہم اس دنیا میں بھی عیش کرتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی تھوڑی سی سزا کے بعد جنت حاصل کرلیں گے۔ آپ فرماتے تھے کہ وہ بڑا آدمی تھا، میں نے خیال کیا کہ یہ ایسی ہی مثال سے سمجھے گا۔ میں نے کچھ روپے نکال کر رکھ دیئے اور کہا کہ گلی میں چل کر مجھے دو تین جوتے مارلینے دیں اور یہ روپے لے لیں۔ اس پر وہ بہت غصہ میں آیا اور کہنے لگا کہ تم مولوی لوگ ایسے ہی بدتہذیب ہوتے ہو، یونہی عالم بنے پھرتے ہو۔ میں نے کہا کہ اگر واقعی تم اس بات کو پسندیدہ سمجھتے ہو کہ اگلی پچھلی مخلوق کے سامنے دوزخ کی سزا برداشت کرکے جنت لے لو تو پھر گلی میں چل کر چند آدمیوں کے سامنے جوتے کھاکر انعام کیوں نہیں لیتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم نے جو بات کہی تھی وہ جھوٹ تھی۔ دراصل تم اس کے لیے تیار نہیں ہو۔ تو کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو یہی خیال کرتے رہتے ہیں کہ چلو یہ بات نہ کی تو کیا احمدی نہ رہیں گے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button