متفرق مضامین

گھانین قوم کی چند نمایاں خوبیاں (میری نظر میں)

(فہیم احمد خادم۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل گھانا)

’’میرا افریقہ میں رہ کر ذاتی تجربہ ہے کہ یہ لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں اور پیار کا جواب دینے والے ہیں‘‘(حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران امریکہ میں مامور گھانین ایمبیسڈر کو انٹرویو دیتے ہوئے گھانا سے اپنی محبت کا تذکرہ فرمایا۔ اسی مناسبت سے گھانین قوم کی چند خصوصیات پر مشتمل ایک مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔(ادارہ)

ہر شخص خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر اس کی خوبیاں غالب آجائیں تو وہ بہت اچھا اور نیک کہلاتا ہے۔ اور اگر اس کی خامیاں اور برائیاں بڑھ جائیں تو اسے بد اور بہت برا گردانا جاتا ہے۔ اسی طرح اقوام کا حال ہوتا ہے۔ ہر قوم میں اچھائیاں ہیں اور برائیاں بھی۔ خوبیاں ہیں اور خامیاں بھی۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ خاکسار کو گھانا میں کافی عرصہ سے خدمت کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اس لیے گھانین عوام کو کافی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس مضمون میں خاکسار گھانین عوام کی بعض خوبیوں کا ذکر کرے گا۔ کوئی میرے بیان سے اختلاف کرسکتا ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ مجھے ان کی جو خوبیاں اچھی لگیں اور جن سے میں بالخصوص متاثر ہوا انہیں تسلیم کرنا میرا فرض ہے۔ یہاں ان کی چند ایسی خوبصورت اور قابل ذکر خوبیوں کا ذکر ہوگا جو اپنی مثال آپ ہیں۔

بشاشت اور خوش خلقی

ایک چیز جو ان لوگوں میں نمایاں طور پر دیکھنے کو ملی وہ بشاشت اور خوش اخلاقی ہے۔ کسی سے ملیں تو وہ خوشی سے چہک چہک کے ملے گا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منہ بسورا ہوا ہو یا چہرے پر تیوری چڑھی ہوئی ہو۔ چہرے پر مسکراہٹ ہوگی اور خوش خلقی سے ملے گا۔ میں نے ٹامالے میں ایک معلم عبدالعزیز صاحب کے ساتھ کام کیا تھا۔ کافی عرصہ بعد آکرا میں اپنی فیملی سمیت اچانک ان سے ملاقات ہوگئی۔ بے حد خوشی ہوئی مگر وہ تھے کہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ خوشی ان کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔ ان کی یہ خوشی دیکھ کر ایک دوست نے ازراہِ مذاق یہ کہا: ’’فہیم! اس کی خوشی کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ گویا تم دوبارہ زندہ ہوئے ہو‘‘۔ یہ تبصرہ تو ضمناً تھا مگر یہ بھی اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ لوگ خوش اخلاق اور خوش باش ہیں۔ یہ لوگ زندگی جینا جانتے ہیں۔ غم میں گھل گھل کرمرتے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ اکثر ہشاش بشاش ہوتے ہیں۔ اکرافو جماعت میں ایک دوست Mr. Benyameen Kow Okyere Keelson تھے۔ کافی عمر کے تھے۔ کمزور اور بیمار تھے۔ گھر سے باہر نہ نکل سکتے تھے۔ باہر کے برآمدے میں ایک کرسی رکھ کر بیٹھتے۔ میرا اکثر ان کے ہاں آنا جانا ہوتا۔ وہ باتیں ایسی کرتے جیسے جوان کرتے ہیں۔ ہمیشہ مسکرا کر، خوش باش ہوکر۔ کہتے کہ میرا ریڈیو مجھے پورے گھانا کی خبریں دیتا ہے۔ میں کسی کے ذریعے یام، مکئی وغیرہ کا فارم بنوا رہا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ان کے پاس جاکر زندگی جینے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ اس عمر میں بھی جوانوں کی طرح امید اور روشن مستقبل کی باتیں کرتے تھے۔ ہنسنا، مسکرانا اور ہلکا پھلکا مذاق کرنا ان لوگوں کی عادت ہے، چند دوست بیٹھے ہوں قہقہے اٹھ رہے ہیں۔ مسکراہٹیں بکھیر رہے ہیں اور زندگی پورے جوبن پر ہے۔ میرے خیال میں ان میں غیبت اور دوسروں کی برائی کرنے کا رجحان کم ہے۔ ایک بار خاکسار مکرم شیخ سلیمان احمد صاحب مربی سلسلہ کینیڈا کے ساتھ گاڑی پر ٹامالے سے ٹیچی مان جارہا تھا۔ ہمارے ساتھ تین سرکٹ مبلغین بھی تھے۔ سفر لمبا تھا۔ ساری رات یہ مبلغین علمی گفتگو کرتے رہے۔ موضوع بدلتا رہا مگر بات علمی۔ کسی کی غیبت نہ کی۔شیخ سلیمان صاحب کہنے لگے: کمال ہے بھئی۔ انہوں نے اس سارے عرصہ میں کسی کی برائی نہیں کی۔ علمی باتیں ہی ہوتی رہیں۔

عمومی نظم وضبط

ان میں پائی جانے والی نظم وضبط کی ایک شکل متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ مثال جگہ جگہ پائی جاتی ہے۔ خاکسار کو پبلک ٹرانسپورٹ میں کئی بار سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ ٹکٹ خریدنے گئے تو دیکھا کہ ٹکٹ خریدنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ جو بھی نیا شخص آئے گا تو پوچھے گا کہ

’’Who is the last person?‘‘

لائن میں آخری شخص کون ہے؟ جواب ملنے پر وہ اس کے پیچھے خاموشی سے کھڑا ہوجائے گا۔ بینک میں جائیں، ہسپتال میں جائیں یا کسی ایسی جگہ جہاں زیادہ لوگوں نے اپنے کام نپٹانے ہوں تو ہر نئے آنے والے شخص کی زبان پر یہی الفاظ ہوں گے کہ آخری شخص کون ہے؟ اگر کسی نے چالاکی سے لائن میں گھسنے کی کوشش کی تو لوگ اسے برداشت تو کرلیں گے لیکن ضرور اسے شرمندہ کریں گے کہ ا س نے ایسا کیوں کیا؟

بڑوں کا ادب

گھانین قوم میں بڑوں کا ادب پایا جاتا ہے۔ جب بڑے بول رہے ہوں یا کوئی بات کررہے ہوں تو انہیں خاموشی سے سنا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ قبائلی نظام اور چیف صاحبان کے تحت چلنے والا نظام بھی جاری ہے اور اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ علاقہ کے چیف کی بات سنی جاتی ہے۔ اس کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے افسران جب دورہ پر جاتے ہیں تو علاقہ کے چیف صاحبان سے ملاقات کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ خود میرے ساتھ بارہا یہ تجربہ ہوا کہ مسجد جانے کے لیے قرآن مجید یا جائے نماز پکڑا اور جانے لگا تو کسی خادم یا طفل نے فوری طور پر اسے لے لیا اور مسجد جاکر اسے میرے حوالے کردیا۔ آپ لاکھ اصرار کریں مگر ناممکن ہے کہ آپ کی بات مانی جائے۔ کئی بار تو ایسا ہوا کہ بعض دوست مجھے اپنا جوتا تک پکڑنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ مسجد سے باہر نکلتا تو وہ جوتا میرے سامنے رکھ دیتے۔ بار بار ایسا کرنے سے منع کیا گیا مگر ایک نہ سنی گئی اور میں شرم کے مارے پانی پانی ہوتا رہا۔ ان کا ایسا کرنا بڑوں کے ادب کے سوا کچھ نہیں ہے۔

گفتگو میں شائستگی

اکثر دیکھا گیا ہے کہ گفتگو میں نرمی اور شائستگی پائی جاتی ہے۔ گفتگو کا آغاز ’’می پاچو‘‘سے کیا جاتا ہے یعنی پلیز براہِ مہربانی وغیرہ۔ کسی بڑے کو اس کے نام سے نہیں پکاریں گے بلکہ Dad یا Mamaکے الفاظ سے مخاطب کریں گے۔ اسی طرح بچوں کو بھی My Son یا My Daughter کے الفاظ سے مخاطب کریں گے۔ میرا بیٹا اور بیٹیاں یہاں کے اسکول میں پڑھتی رہیں اور بعض اب بھی زیرِ تعلیم ہیں۔ جب کبھی ان کے کسی استاذ یا اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے ملا تو انہوں نے بچوں کا نام نہیں لیا بلکہ پوچھا کہ

’’How is my son?‘‘ یا ’’How is my daughter?‘‘

یعنی میرا بیٹا کیسا ہے؟ میری بیٹی کیسی ہے؟ کسی نے میری اہلیہ کا ذکر کرنا ہے تو کہے گا ’’Salam to Mama‘‘ یا ’’How is Mama‘‘۔ یہ سب ادب اور پیار کا اظہار ہے جس میں شائستگی ہے جو دلوں کو موہ لیتا ہے۔ مارکیٹ میں جائیں اگر کسی کا ہاتھ غلطی سے چھو جائے یا اس کی وجہ سے آپ کو ٹھوکر لگ جائے تو فوراً’’Sorry‘‘ بولے گا۔ یہ آئے دن کے مشاہدات ہیں۔

مالی قربانی

ان میں مالی قربانی کا مادہ تو کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے گھانا تحریکِ جدید میں افریقہ بھر میں اول آتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں بالعموم مالی قربانی میں دنیا بھر میں دس ابتدائی جماعتوں میں اس کا نام شامل ہوگیا ہے۔ اس حوالہ سے خاکسار ٹامالےکے دو افراد کا ذکر کرنا چاہے گا۔ Tamale میں جماعت نے پہلے Diamond FM اور پھر Justice FM پر ہر ہفتہ تبلیغی پروگرام کیے۔ یہ پروگرام سالہا سال جاری رہے۔ اس کا خرچ صرف ایک احمدی دوست Alhaj Baba Qasimاپنی جیب سے دیتے رہے۔ ہماری خواہش تھی کہ سرکاری ریڈیو Savana FM پر بھی پروگرام کریں۔ اس کی نشریات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اس پر وقت لینا خاصا مہنگا تھا۔ خاکسار نے Late Alhaj Awudu کو تحریک کی جنہوں نے حامی بھر لی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک دن صبح میرے پاس خوشی خوشی آئے اور بتایا کہ کہیں سے 4000GHcکی رقم ملی ہے جو میں ریڈیو پروگرام کے لیے لایا ہوں۔ مجھے اس رقم کی فراہمی پر اتنی خوشی ہوئی کہ ساری رات سو نہ سکا۔ ان دنوں یہ رقم ایک خطیر رقم تھی جبکہ آج بھی یہ بہت بڑی رقم شمار کی جاتی ہے۔ خدا کے فضل سے اس رقم کے باعث ہم نے اس سرکاری ریڈیو پر سارا سال پروگرام کیا اور کھل کر اسلام احمدیت کی تبلیغ کی۔

ایک انتہائی مخلص احمدی Mr. Suleman Idris نے ڈگبانی زبان میں سارے پروگراموں کا براہ راست ترجمہ کیا۔ ان کی زبان بڑی پختہ اور فصیح تھی۔ وہ ترجمہ میں جان ڈال دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان تینوں احباب کو ان کی اعلیٰ قربانیوں کی جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔

دوسروں کا احساس

گھانین قوم کی ایک خوبی دوسروں کا احساس بھی ہے۔ یہاں Extended Family System ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ فیملی کا سسٹم میاں، بیوی اور ان کے بچے ہی نہیں بلکہ چچا، پھوپھو، خالہ وغیرہ کے بچے بھی فیملی کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ اکثر پوچھا جائے تو بتایا جائے گا کہ ’’میں اپنی خالہ کے ساتھ رہا وہیں پلا بڑھا‘‘۔ مجھے میرے چچا نے بڑا کیا۔ پالا پوسا اور پڑھایا۔’’ آج تک پرورش میری والدہ نے نہیں بلکہ میری پھوپھو نے کی ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اگر کسی بچے کے والد فوت ہوجاتے ہیں تو اس کا چچا یا تایا اس بچے کو اپنے گھر لے آتا ہے جو روکھی سوکھی چچا کے بچے کھاتے ہیں یہ بچہ بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ ایک بچہ کی بات نہیں اگر ایک سے زائد بچے یتیم ہوجاتے ہیں ان کو بھی اسی طرح آغوش میں لینے کا انتظام موجود ہے۔ یہ سب بچے یوں باہم مل جل کر، محبت اور اخوت کے ساتھ، ایک دوسرے کا احساس کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ اس طریقِ عمل سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یتیم بھوکا نہیں مرتا کوئی نہ کوئی قریبی اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والا ضرور ہوتا ہے۔مشکلات ہوتی ہیں مگر مکمل بے بسی اور لاچارگی نہیں ہوتی۔ میں نے بارہا اپنے دوستوں سے پوچھا کیا یہ آپ کے بچے ہیں؟ جواب ملا یہ میرے بچے ہیں۔ یہ میرے بھائی کے اور یہ میری بہن کے بچے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایسا دیکھ کر رشک آتا ہے۔ ہمارے جامعہ میں ایک کارکن تھا جس کے چار بچے تھے۔ اس کے بھائی کی وفات ہوگئی تو وہ بڑی فراخ دلی سے اس کے بچے بھی اپنے گھر لے آیا۔ آپ جان سکتے ہیں کہ ایک کارکن کی تنخواہ کتنی ہوگی مگر اس کا یہ جذبہ سننے والوں اور دیکھنے والوں کی آنکھ نم ضرور کرتا ہے اور اس جذبہ پر دادِ تحسین دیےبغیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارے ایک عام کارکن کی وفات ہوگئی تو جامعہ کے سارے ورکرز نے مل کر اچھی خاصی رقم اس کی بیوہ کو دینے کے لیے اکٹھی کی۔ رقم کا سن کر بے حد رشک آیا کہ سارے ورکرز معمولی تنخواہ لینے والے ہیں مگر ان کا کس قدر پیارا جذبہ ہے کہ ایک مرحوم بھائی کی بیوہ سے بہرحال تعزیت کا اظہار کیا جائے اور اس کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کی ضروریات پر خرچ کرسکے۔دوسروں کا احساس ہی انسان کے اندر باہمی محبت اور اخوت کو جنم دیتا ہے۔ خاکسار گھانا کے ناردن ریجن میں بطور مربی ایک لمبا عرصہ رہا ہے۔ وہاں اس باہمی محبت کے نظارے بارہادیکھے۔ جماعتوں میں دیکھا کہ ایک فیملی کے سارے مرد ایک ہی بڑے سے برتن میں کھا رہے ہیں چاول ہیں، Beans ہیں یا لوکل کھانا Yam جس پر چٹنی پڑی ہو یا Fufu جس کے ساتھ Soup سے بھرا پیالہ ہو۔ سب سے پہلے سب اپنے اپنے ہاتھ دھوتے ہیں۔ پھر مل کر اس ایک بڑے سے پیالے سے ہاتھ کےساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ ہر ایک کے لیے الگ سے پلیٹ یا پیالہ نہیں ہے۔ سب مرد ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ سے ایک ہی برتن میں ہاتھ سے کھانا کھارہے ہیں۔

قارئین شاید میری باتیں، غیر شائستہ یا Hygiene کے خلاف قرار پائیں یا اس سے کراہت محسوس ہو لیکن بخدا سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر، اس میں شامل ہوکر، محبت اور اخوت کا جو مزہ آیا اس کا شاید میرے الفاظ احاطہ نہ کرسکیں۔ ایک ہی جگہ بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے اکٹھے کھانا کھانے میں جو اپنائیت کا احساس ہے وہ بھلا الگ الگ سے کھانے میں کہاں؟دوسروں کے احساس کا تعلق مہمان نوازی سے بھی ہے۔ یہ قوم مہمانوں کو بے حد عزت دیتی ہے۔ مہمان سے مراد غیر ملکی نہیں بلکہ ہر آنے والا مہمان خواہ کہیں سے ہو اس کی عزت کی جاتی ہے۔ مقامی روایات کے مطابق اسے پانی دیا جاتا ہے۔ پانی پوچھا نہیں جاتا بلکہ سادہ پانی کا پیالہ اس کے آگے رکھ دیا جاتا ہے۔ مقصد بڑا واضح ہے کہ مہمان باہر سے آیا ہے دور سے آیا ہے اسے پیاس لگی ہوگی۔ اسے پانی کا مطالبہ کرنا نہ پڑے۔ بغیر کہے اس کے آگے پانی پیش کیا جاتا ہے اور پھر اس سے باضابطہ اس کے آنے کا مقصد یا مدعا دریافت کیا جاتا ہے۔مزہ تو تب ہے کہ غربت کے سائے گھر پہ ہوں لیکن پھر بھی مہمان کی تکریم اور ضیافت کی جائے۔ شمالی علاقہ جات میں دورہ کے دوران یہ نظارے عام ملتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مرغی یا گنی فاؤل کا گوشت سامنے آتا تو حیران ہوتاکہ ایسا تکلف کیوں کیا؟ یہ تکلیف کیونکر کی گئی؟ جہاں خود کبھی کبھی شاذ کے طور پر گوشت پکاتے وہاں مہمان کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں خشک موسم میں ہرطرف خشکی نظر آتی ہے کہیں سبزہ یا ہریالی نظر نہیں آتی اور نہ ہی کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ کئی کئی ماہ ایک ہی طرح کا کھانا کھایا جاتا ہے۔ دوپہر کو بھی وہی اور شام کو بھی وہی۔

پیار کرنے والے لوگ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 6؍مئی 2005ء کو افریقہ میں کام کرنے والے تمام مبلغین کے نام ایک خط لکھا۔ اس میں مندرجہ ذیل فقرات درج تھے۔ ’’میرا افریقہ میں رہ کر ذاتی تجربہ ہے کہ یہ لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں اور پیار کا جواب دینے والے ہیں۔‘‘حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو افریقہ میں رہنے کا تجربہ تو ملک گھانا میں ہی ہوا تھا لہٰذا بلا مبالغہ یہ الفاظ کہ یہ لوگ بے حد پیار کرنے والے ہیں گھانا کے لوگوں کے بارے میں فرمائے گئے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کسی دوست کو کافی عرصہ کے بعد بھی ملیں تو وہ اس طرح ملے گا جیسے وہ اکثر ملتا رہا ہو، وہی محبت، وہی پیار اس کے الفاظ اور چہرے کی بشاشت اور مسکراہٹ سے مہک رہا ہوگا۔ کسی کو ایک بار ہی ملے ہوں تو دوبارہ ملنے پر ایسا لگے گا کہ وہ برسوں سے آپ کو جانتا ہے۔ مجھے اکرافو گاؤں میں ایک لمبا عرصہ رہنے کا موقع ملا۔ محبت کے عجیب انداز تھے۔ بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد جن سے لوکل زبان میں بات نہ بھی ہو تو ہاتھوں کے اشاروں اور چہرہ کی مسکراہٹ سے گفتگو ہوئی جیسے محبت کی علیک سلیک ہورہی ہے۔ فارم پر کام کرنے والی عورتیں ہمارے گھر میں کبھی ہری مرچ لارہی ہیں، کبھی یام اور کبھی پلانٹین (ایک طرح کا کیلا) کا گچھا وغیرہ۔شمالی ریجن میں بارہا دیکھا کہ کسی کی خوشی میں جائیں تو وہ بچھ بچھ جاتا ہے اور بار بار احسان مندی کا ذکر کرتا ہے۔ کسی کی غمی پر تعزیت کے لیے جائیں تو بے حد شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔یہاں یہ بھی طریق ہے کہ کبھی خود شکریہ ادا نہیں کرتے کسی دوسرے شخص سے کہیں گے کہ وہ باضابطہ شکریہ ادا کرے۔ مربی سلسلہ گھانا Hafiz Muhammad Ismael Edusei (جب وہ جامعہ انٹرنیشنل گھانا کے طالب علم تھے اور تراویح پڑھانے ناروے گئے ہوئے تھے) ایک بار ناروے میں تھے تو میری اہلیہ کی بڑی بہن نے ان کی پُر تکلف دعوت کی۔ وہ بے حد خوش ہوئے اور مجھے فون پر کہنے لگے کہ میں ان کی طرف سے اپنی بہن کا شکریہ ادا کروں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ خود بھی شکریہ ادا کیا ہوگا مگر دوسروں سے شکریہ ادا کروانا دراصل شکر گزاری کے جذبات میں شدت کا اظہار ہے جو عام طور پر پایا جاتا ہے۔ کسی کا تھوڑا سا کام کردو یا کسی کی مدد کردو تو وہ آپ پر نچھاور ہوا جاتا ہے۔ اور باربار شکریہ ادا کرے گا۔ چہرہ کی خوشی اس کے دلی جذبات کی عکاسی کررہی ہوتی ہے۔ وہ مدد بے شک معمولی بھی ہو وہ اس کا باربار ذکر کرے گا۔ کبھی کبھی تو کافی عرصہ بعد بھی بازگشت سُنائی دیتی ہے۔

صبر کا مادہ

اس قوم میں صبر اور برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہے۔ حالات تنگ ہوں بہت مشکلات ہوں مگر لوگوں کو صبر وشکر کے ساتھ مسکراتے دیکھا۔ جماعت کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں اور حاضرین گھنٹوں بیٹھتے ہیں ،لمبی لمبی تقاریر سنتے ہیں مگر مجال ہے کہ شکایت کی نوبت آئے۔ صبر کے ساتھ بیٹھے ہیں اور خاموشی سے سُن رہے ہیں۔جو ملا کھا لیا اور شکر کیا۔ اس کے نظارے شمالی علاقہ جات میں باربار دیکھے۔ بلکہ بعض اوقات اکثریت کو کھانا گھر سے نہیں ملتا۔ اپنی جیب سے خود ہی کچھ خرید کر کھا لیتے ہیں۔ غربت کا عالم ہے۔ ایک غریب کے پاس بیوی اور بچے ہیں انہیں کھلانے کو کچھ زیادہ نہیں بس تھوڑا تھوڑا کرکے گزارہ کرلیا۔ خشک سالی کے دوران صبح دلیا سا ایک Porridge اور دوپہر اور شام ایک ہی کھانا Tuzafi (جَو یا گندم سے بنتا ہے) یا کبھی کبھی یام (آلو کی طرح سبزی ہے)۔ ان کھانوں میں گوشت نام کی کوئی چیز نہیں۔ بس ایک طرح کا کھانا، پھر بھی الحمدللہ۔ صبر تو اس کا نام ہے کہ زبان پر شکوہ نہ ہو۔دیکھنے والا اس کے اندر کی کیفیت کا احاطہ نہ کرسکے۔ چہرہ پر بس مسکراہٹ اور شگفتگی ہو۔ بس یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ اندر کا درد بس اندر ہی ہے۔ اور مسکرا کر جی رہے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 2020ء میںجماعت احمدیہ گھانا کا ذکر کرتے ہوئے گھانین قوم کے صبر کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا:’’ گھانا کا دورہ تھا جو 2008ء کا دورہ تھا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے ایک زمین خریدی ہے، بڑا وسیع رقبہ ہے تقریباً پانچ سو ایکڑ کے قریب وہاں جلسہ تھا اور اکثر احباب وخواتین میرے جانے سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے اور اس نئی جگہ پہ پہلے ایک پولٹری فارم ہوتا تھا اس کے شیڈ (shed) تھے اس کو بدل کر وہاں کی جماعت نے جلسے کے لیے کچھ رہائش بھی بنادی تھی، کھڑکیاں دروازے لگا کر بیرک جیسی بن گئی تھی لیکن اس کے باوجود جگہ کی تنگی تھی بہت سارے لوگ شامل ہوئے۔ لیکن جو لوگ وہاں آئے ہوئے تھے کسی نے بھی اس جگہ کی تنگی کی شکایت نہیں کی۔ کوئی شکوہ نہیں جلسے میں ان میں بہت لوگ ایسے تھے جو بڑے اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے، کاروباری لوگ تھے، سکولوں کے پڑھانے والے تھے، دوسرے کام کرنے والے تھے۔ اگر ان کو رہائش نہیں ملی تو باہر صف بچھا کر آرام سے سو گئے۔ ایک تو ویسے ہی اس گھانین قوم میں صبر ہے لیکن ان دنوں میں تو خاص طور پر انہوں نے بہت صبر دکھایا۔ کسی نے ایک دو ایسے لوگوں سے پوچھا جو اس طرح باہر پڑے ہوئے تھے کہ تمہیں بڑی تکلیف ہوئی ہوگی تو انہوں نے کہا کہ ہم تو جلسہ سُننے آئے ہیں اور خلیفہ وقت کی موجودگی میں جلسہ ہورہا ہے۔ دو دن کی عارضی تکلیف سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم خوش ہیں کہ اس جلسے میں شمولیت کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق عطا فرمائی۔‘‘ (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2020 صفحہ7)

مذہبی رواداری

مذہبی رواداری میں گھانین دوسری قوموں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ایک گھر میں عیسائی بھی ہیں احمدی بھی اور غیر احمدی بھی۔ لیکن آپس میں ایک دوسرے سے مذہبی اختلاف میں نہیں الجھتے اور مل کر رہتے ہیں۔ یہی حال ملکی سطح پر مذاہب کی اعلیٰ قیادت کا ہے۔ ’’ انٹر ریلیجس باڈی‘‘ کے نام سے ایک قومی سطح پر کمیٹی ہے۔ جس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شامل ہیں۔ احمدی، غیر احمدی، عیسائی اور لوکل روایتی مذاہب کے نمائندے شامل ہیں۔ یہ کمیٹی مل کر ملک میں پیدا ہونے والے مختلف امور پر بات کرتی ہے۔ اپنی رائے دیتی ہے اور قوم کی راہنمائی کرتی ہے۔ یہ کمیٹیاں ریجن کی سطح پر بھی تشکیل دی گئی ہیں۔

National Peace Concilکے نام سے قومی سلامتی کا ادارہ ہے جس میں ملک کی چند اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے نمائندے اور جماعتِ احمدیہ گھانا کے امیر صاحب بھی شامل ہیں۔ یہ کونسل ملک میں امن کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ جہاں کہیں بھی بدامنی کا اندیشہ ہو یہ کونسل اس کا سدباب کرتی ہے۔ ایک بار ملکی انتخابات کے آخر پر نتائج کو تسلیم کرنے کے حوالے سے دونوں سیاسی پارٹیوں میں ٹھن گئی۔ قریب تھا کہ ملک بدامنی اور خانہ جنگی کا شکار ہوجاتا۔ اس کونسل نے دونوں پارٹیوں کے ساتھ بار بار کے رابطہ سے انہیں نتائج تسلیم کرنے پر مجبور کیا اس طرح ملک کوانارکی اور خانہ جنگی سے بچا لیا۔ کیا ایسا کسی اسلامی ملک میں ممکن ہے کہ عیسائی، احمدی، غیر احمدی اور روایتی مذاہب کے نمائندے ایک جگہ پر بیٹھ کر ملکی سطح پر ابھرنے والے مسائل کا حل تلاش کررہے ہوں۔ یہ اچھوتا اور دلفریب نظارہ گھانا میں ہی نظر آتا ہے۔ قومی سطح پر اور ریجن کی سطح پر اور ہر جگہ تمام مذاہب اور فرقوں کی نمائندگی ہے۔گھانا میں ’’بلال کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو رمضان کی آمد اور عید کی آمد کا اعلان کرتی ہے۔ اس کمیٹی میں احمدیوں کی نمائندگی موجود ہے۔

بلا کے مقرر

کہتے ہیں ہر شخص میں تقریر کرنے کا مادہ ہوتا ہے۔ تجربہ کرنے کے لیے کسی کو زور سے تھپڑ ماردو پھر دیکھو وہ کیسے دھواں دار تقریر کرتا اور تمہیں اول فول سناتاہے۔ یہاں تقریر کا زور سننے کے لیے کمر پر تھپڑ مارنے کی ضرورت نہیں۔ ہر کس وناکس پیدائشی طور پر بلا کا مقرر ہے۔ کوئی جھجک نہیں، کوئی خوف نہیں، دھڑلے سے مائک پر آئے تقریر شروع کی اور چھوڑنے کا نام نہیں لیا۔ ہر کوئی پورے اعتماد سے اپنی بات کرے گا۔ ایسا جگہ جگہ دیکھا گیا کہ تقریر کرنے والے کو چپ کروانا مشکل ہوگیا۔ باتیں ہیں کہ ابل ابل کر باہر آرہی ہیں۔

خوبصورت، پرشوکت اور مترنم آوازیں

یہ لوگ لوکل زبان میں جب کوئی حمدیہ یا نعتیہ کلام گاتے ہیں تو آواز میں خاص شوکت ہوتی ہے اور جذب بھی۔ پورے زور کے ساتھ نغمات الاپتے ہیں۔ ایک بار MTA کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے مجھے کہا: پورے افریقہ میں غانین کی آواز بڑے غضب کی آواز ہے جب گاتے ہیں تو چھا جاتے ہیں۔ یہ نغمات پورے ماحول میں ایک خاص کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اگر الفاظ سمجھ نہ بھی آرہے ہوں تب بھی کوئی ان سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ پرشوکت آوازیں بھرے مجمعےکوجوش وجذبہ سے بھرتی ہیں۔ اس میں ایک نئی جان ڈال دیتی ہیں۔ MTA کے ناظرین بھی خلفائےاحمدیت کی دورہ گھانا کی ویڈیو دیکھنے پر اس امر کی گواہی دیں گے۔

دوسروں کی مدد

مارکیٹ میں گئے، کچھ سامان خریدا، کسی دکان پر رکھا اور کہا کہ پلیز کچھ دیر کے بعد لے لوں گا۔ بغیر کسی ڈر اور جھجک کے جب واپس آئیں گے تو وہ سامان بحفاظت ملے گا۔ اس پر بس نہیں جب کسی سے راستہ پوچھیں یا کسی دکان کے بارے میں دریافت کریں تودوسرا شخص صرف راستہ بتانے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ پوری کوشش کرکے آپ کو وہاں پہنچا کر آئے گا۔ مارکیٹ میں کئی بار ایسا ہوا کہ کسی عورت یا مرد کو کسی دکان کا پوچھا تو وہ وہاں پہنچا کر آیا خواہ اسے اپنی دکان چھوڑنی پڑی یا کسی کو اپنی دکان پر بٹھا کرگیا۔ کسی اجنبی کی یہ مدد ان لوگوں میں نمایاں طور پر دیکھی گئی ہے۔

عورتوں میں محنت اور مشقت کی عادت

گھانین عورتیں بے حد محنتی ہیں۔ بڑی جفاکش ہیں۔ مارکیٹ میں جاؤ تو اکثر عورتیں ہی کاروبار کرتی نظر آئیں گی۔ سبزی، پھل، اشیائےخورونوش اور ہر طرح کی اشیابیچنے والی عورتیں ہی نظر آئیں گی۔ بینک میں جائیں، دفاتر ہوں یا ٹریفک پولیس ہو یا کسی اَور شعبے میں ہر جگہ محنتی عورتوں کی ایک کثیر تعداد پائیں گے۔ عورتوں نے نہ صرف اپنا یہ کام کرنا ہے بلکہ بچوں کو بھی خود پالنا ہے۔ اس لیے اکثر عورتیں کمر پر چھوٹے بچے باندھے نظر آتی ہیں۔ کام بھی جاری ہے اور بچہ بھی کمر پر آرام سے خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ بچہ رویا تو اتار کر دودھ پلایا اور پھر کمر پر باندھ دیا۔ اور وہ سوتا بنا۔ بارہا بڑی محنت کے ساتھ عورتوں کو کسی چلاتے اور زراعت (فارمنگ) کرتے دیکھا۔ بے حد بوڑھی عورتوں کو اپنے سروں پر سوکھی لکڑیوں کا گٹھا اٹھا کر واپس گاؤں آتے دیکھا تو حیران ہوگیا کہ اتنی محنت اور جفاکشی!!

جسمانی صفائی

یہ لوگ جسمانی صفائی کے شائق ہیں۔ ہرکس وناکس روزانہ صبح وشام دو بار نہائے گا۔ پانی میسر نہیں تو دور یا نزدیک کہیں سے بھی پانی لاکر نہائے گا اور پھر سوئے گا۔ جب میںدورہ پر جاتا تو ہمیشہ نمازِ عشاء کے بعد کہا جاتا مولوی صاحب! غسل خانہ میں پانی کی بالٹی پڑی ہے، نہا لیں۔ کبھی ٹھنڈے موسم یا طبیعت کی خرابی یا سستی کے باعث ’’نہانے سے جان چھڑانی چاہی‘‘ تو فوراً جواب آیا: ’’پانی گرم کردیتے ہیں‘‘۔ نہانے کے بعد Pomade یعنی خوشبو والی کریم جسم پر ملنے کا رواج عام ہے۔ یہ کریم جلد کو خشکی سے بچاتی ہے۔ پرفیوم لگانے کا بھی بہت شوق ہے۔ نہا کر ایک دوست اگر کپڑے بدل کر باہر آئے تو اس کے جسم سے خوشبو کا فوارہ پھوٹ رہا ہوتا ہے۔ غربت کی وجہ سے اگر اکثر اچھے کپڑے نہیں پہنے جاتے مگر جب کوئی فنکشن ہو تو ایسے خوبصورت، شاندار اور دیدہ زیب لباس زیبِ تن کیے جاتے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ کسی ریسٹورنٹ جائیں تو میز پر پانی، صابن اور ہاتھ دھونے کے لیے ایک برتن ضرور ہوگا۔ مطلب واضح ہے کہ کھانے سے قبل اور اس کے بعد ہاتھ ضرور دھولیں ان کی طرف سے پانی کی سہولت میسر ہے۔

قارئین کرام مضمون کچھ طویل ہوچلا ہے۔ اسے مختصر کرتا ہوں۔ یقیناً اس قوم میں کچھ ایسا ہے کہ خلیفۂ وقت حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ان لوگوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں۔ اس ملک کو اپنا وطن قرار دیتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کے اخلاص وفا اور فدائیت کا ذکر کرتے تھکتے نہیں۔ آپ نے 2008ء کے دورۂ گھانا کے دوران جلسہ سالانہ گھانا کے افتتاحی خطاب کے موقع پر ساری دنیا کو مخاطب کرکے گھانین احمدیوں کی بعض خوبیوں کو سراہا۔ حضور انور نے فرمایا:’’میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ یہ جذبات وفا اور محبت جو ہر چھوٹے بڑے کے چہرہ پر ہویدا تھے میرے دل میں نہ صرف آپ کے لئے گہری محبت کا باعث بن گئے بلکہ میں تو دنیا کے دیگر ممالک کے احمدیوں کو بھی کہنے لگ گیا کہ خلافت کے ساتھ محبت کے گُر سیکھنا ہیں تو گھانا کے احمدیوں سے سیکھیں۔ اس لئے اے گھانا کے احمدیو! میں آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے خلافت کے ساتھ اپنے پیمان کو پورا کردیا ۔لیکن یاد رہے کہ شیطان ہمیشہ دو تعلقات کے درمیان دراڑیں ڈالنے کے لئے تیار رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر اس تعلق کی حفاظت نہیں کی جاسکتی‘‘۔پھر فرمایا: ’’افریقہ کے ساتھ میرے پہلے تعلق کے باعث میں نے ہمیشہ اہلِ غانا کی تعریف کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میری حیثیت گھانا کے نمائندہ یا سفیر کی رہی ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مجھے کبھی کسی گھانین سے شکایت نہیں ہوئی۔ میں نے ہمیشہ انہیں شریف النفس اور باوفا پایا ہے۔ اس لحاظ سے آج اگر میں ان کا مداح ہوں تو یہ ان کا حق ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 16؍مئی 2008ء صفحہ16،12،11)

ان لوگوں میں کچھ تو ہے جو قابل ستائش اور قابل تعریف ہے۔ شاید ایک شاعر نے انہیں کے لیے کہا تھا کہ

؂ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button