یادِ رفتگاں

چودھری محمد علی صاحب(قسط نمبر10)

(‘ابن طاہر’)

اطفال کے اسی اجتماع کی بات ہے۔میاں صاحب نے مجھے کھانے پر بلایا۔ میں حاضر ہوا تو مٹی کے پیالوں میں گوشت کا شوربہ اور روٹی سامنے پڑی تھی۔ مجھے آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پوچھاکہ کھانا کیسا ہے۔ میں نے کہابہت اچھا ہے۔ شاید گائے کا گوشت ہے۔ فرمایایہ گائے کا گوشت نہیں ہے۔ گائے کا گوشت اتنا اعلیٰ کیسے ہو سکتا ہے؟ خیر جب کھانا کھا چکے تو بتایا کہ یہ بچھڑے کا گوشت تھا۔ میاں صاحب مذاق نہیں کررہے تھے، یہ بچھڑے ہی کا گوشت تھا۔اجتماع میں ہم نے اطفال کے لیے ذہانت کا ایک ٹیسٹ رکھا ہوا تھا جسے علمِ نفسیات والوں نےAbsurdity Test)t) کا نام دے رکھا ہے۔ اس ٹیسٹ میں کسی تصویر یا سٹیٹمنٹ کے اندر تضاد ات تلاش کرنا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک گھڑی دکھائی جائے جس کے ڈائل پر آٹھ کا ہندسہ غائب ہو تو عام فہم و فراست والا شخص اسے دیکھتے ہی بتا دے گا کہ اس میں آٹھ کا ہندسہ غائب ہے یا اگر ایک جدید قیمتی کار کے اندر بیٹھے ہوئے افراد نے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے ہوں تو دیکھنے والوں کو یہ تضاد فوراً نوٹ کرلینا چاہیے۔ امرتسر کے رہنے والے ایک معروف احمدی وکیل جو ہمارے دوستوں میں سے تھے اس اجتماع میں آئے ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ کیا طفلانہ ٹیسٹ ہے اور عدمِ دلچسپی کی وجہ سے وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملاقات کے لیے گئے تو حضور نے دریافت کیا کہ کیا وہ اطفال کے اجتماع میں شامل نہیں ہوئے؟ کہنے لگےمیں گیا تو تھا لیکن اطفال کا ایک ٹیسٹ ہورہا تھا اور ان سے انتہائی بچگانہ سوالات پوچھے جا رہے تھے چنانچہ میں نے سوچا یہاں بیٹھ کر وقت کیوں ضائع کیا جائے اور اٹھ کر آگیا۔ حضور نے دریافت کیاکیا سوالات پوچھے جا رہے ہیں اطفال سے؟ انہوں نے کچھ جواب دیا ہوگا۔ حضور کو تو اللہ تعالیٰ نے ذہنِ رسا دے رکھا تھا۔ آپ فوراً سمجھ گئے۔ خوب ہنسے اور اسی وقت ہمیں پیغام بھیجا کہ ٹیسٹ آپ کو بھجوایا جائے چنانچہ وہ ٹیسٹ آپ کو بھجوادیاگیا۔ حضور نے بعد میں اس کا کسی خطبہ یا تقریر میں ذکر بھی فرمایا۔

خدام الاحمدیہ کے ایک اجتماع کی بات یاد آگئی ہے جو ۱۹۴۴ء میں دارالانوار میں ہوا تھا۔ ایک خیمہ تھا جس میں کچھ صاحبزادگان اور ہمارے بعض تیز طرار نوجوان (جن میں سے ایک نیک محمد خان غزنوی کے بیٹے، حمید بھی تھے) بسیرا کیےہوئے تھے۔ ہم نے ہر خیمے میں ایک ایک مربی رکھا ہوا تھا لیکن اس خیمے میں کوئی مربی ٹکتا نہیں تھا۔ جب جواب طلبی کی گئی تو خدام نے کہا کہ ہمیں مربی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہم خود کسی مربی سے کم نہیں ہیں۔ میں میاں صاحب سے ملا تو پوچھنے لگےکیسا چل رہا ہے اجتماع؟ میں نے کہابہت اچھا چل رہا ہے۔ آپ نے دریافت کیاکوئی پرابلم؟ میں نے کہاجی ایک خیمہ ہے جس کے مکین کہتے ہیں کہ انہیں مربی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میاں صاحب خود اس خیمے میں تشریف لے گئے۔ مجھے نہیں پتا وہاں کیا باتیں ہوئیں لیکن اس کے مکین بات سمجھ گئے اور بعد میں ان کے متعلق کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔یہ بھی مجلس خدام الاحمدیہ کے کسی اجتماع ہی کی بات ہے کہ خدام نے کبڈی کے ایک میچ کے دوران تالی بجا دی۔ حضور نے منع فرمایا لیکن کچھ دیر کے بعد تالی پھر بج گئی چنانچہ حضور اٹھ کر وہاں سے چلے آئے۔ لوگ بہت پریشان ہوئے۔ میری خواہش تھی کہ حضور اطفال کے اجتماع میں تشریف لائیں چنانچہ میں نے حضرت صاحبزادہ مرزاناصر احمد(صدر خدام الاحمدیہ) سے عرض کی کہ وہ حضور تک میری درخواست پہنچا دیں لیکن وہ فرمانے لگے کہ کہنا ہے تو خود کہو۔ حضور کی ذرہ نوازی تھی کہ آپ نے میری درخواست قبول فرمالی اور تشریف لے آئے۔ حضور نے مقامِ اجتماع کا معائنہ فرمایا۔آپ کو خوش دیکھ کر منتظمین نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور وہ ہمارا شکریہ ادا کرنے لگے جن کی کوشش سے آپ کی ناراضگی دُور ہوئی تھی اور آپ اپنے خدام میں دوبارہ تشریف فرما ہوئے تھے۔

غالباً یہ وہی اجتماع ہے جس میں اس عاجز نے لاہور کے طلبہ کی نمائندگی کی تھی۔ ان اجتماعات میں علمی مقابلے بھی ہوتے تھے۔ چودھری ظفراللہ خان خدام سے سوالات پوچھ رہے تھے۔ اگر میں ساری عمر بھی اپنی اس نادانی پر اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگوں تو بھی شاید مجھے معافی نہ مل سکے۔ دراصل میں چودھری صاحب کو سرکاری آدمی سمجھتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جب خدا کو مان لیا ہے، اس کے رسول کو مان لیا ہے تو یہ بہت کافی ہے اورضروری نہیں کہ ہم ہر کس و ناکس کے آگے بچھتے رہیں۔ بہرحال سوالات ہو رہے تھے۔ آپ نے پوچھاآپ اپنے والد سے زیادہ پیار کرتے ہیں یا والدہ سے؟ میں نے جواب میں کہا کہ یہ ایک نہایت نامناسب سوال ہے۔ اس پر چودھری صاحب نے فرمایااگر یہ سوال پوچھ ہی لیا جائے تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ میں نے کہا کہ اگر آپ ضرور پوچھنا ہی چاہتے ہیں تو میرا خیال ہے مجھے اپنی والدہ سے زیادہ پیار ہے۔ چودھری صاحب نے کہااگر کوئی مجھ سے پوچھتا تو میرا جواب بھی یہی ہوتا۔

سفرِ پانگی و لاہول

کچھ ہی دیر پہلے آپ کو چودھری محمد علی کی مجلس خدام الاحمدیہ کے زیرِاہتمام سرگرمیوں کی تفصیل بتائی جارہی تھی۔ اب اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تعلیم الاسلام کالج قادیان کے قیام کے ساتھ ہی طلبہ کے لیے ہم نصابی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں۔ کالج یونین، مجلسِ مذہب و سائنس، مجلسِ اصحاب حضرت مسیح موعودؑ، عریبک سوسائٹی، پرشین سوسائٹی، فلاسوفیکل سوسائٹی، ریلیجیس ریسرچ سوسائٹی اور اکنامکس سوسائٹی کی بنیاد طلبہ کی علمی تشنگی دور کرنے کے لیے رکھی گئی تھی لیکن ان کی جسمانی نشوونما کے لیے سومنگ کی سہولت مہیا کرنے کے علاوہ کالج میں ایک مائونٹینیرنگ اینڈ ہائیکنگ کلب بھی تشکیل دیا گیا جس کی روح ورواں چودھری محمد علی تھے۔ اس کلب نے پہلی بار ۱۹۴۶ء کی موسمِ گرما کی تعطیلات میں پانگی کا سفر اختیار کیا۔ یہ ایک مشکل سفر تھا، راستہ اجنبی اور دشوار گزار تھا اور مقامی لوگ بوجوہ اِن سے کھنچے کھنچے سے تھے لیکن چودھری محمد علی کی دانشمندانہ راہنمائی میں ٹیم اپنا سفر مکمل کرنے کے بعد بخیروعافیت واپس آئی۔ اس سے اگلے سال منالی اور لاہول کا سفر اختیار کیاگیا۔ اس سفر میں باقی طلبہ کے علاوہ صاحبزادہ مرزا طاہر احمد بھی شریک تھے۔ چودھری محمد علی کی قیادت میں کالج کے طلبہ کا یہ گروپ بھی خدا کے فضل سے بغیر کوئی قابلِ ذکر تکلیف اٹھائے واپس پہنچ گیا۔اس مضمون میں چودھری محمد علی کی زبان میں ان ہی دو اسفار کی داستان بیان کی گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے’’تعلیم الاسلام کالج کی بہت سی غیرنصابی سرگرمیاں میری ذمہ داری قرار پائی تھیں چنانچہ سوِمِنگ کے علاوہ ہائیکنگ کلب کا انچارج بھی میں ہی تھا اور ہم نے اس حوالے سے پہاڑی علاقوں کے بعض سفر کیے جن میں سے سب سے طویل، اہم، دلچسپ اور ایک اعتبار سے پریشان کن سفر پانگی کا تھا جو ہم نے ۱۹۴۶ء میں اختیار کیا تھا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہمارے کالج کی ایک ہائیکنگ پارٹی جو میر مسعود احمد ؛ چودھری فتح محمد سیال کے بیٹے، منصور سیال؛ شاعر و ادیب راجہ غالب احمداور چودھری عبداللہ خان کے بیٹے، محمد نصراللہ کے علاوہ بعض دیگر طلبہ پر مشتمل تھی میری قیادت میں پانگی (ریاست چمبہ) کے سفر پر روانہ ہوئی۔ اُن دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ڈلہوزی میں تشریف فرما تھے۔ ہم آپ کے پاس حاضر ہوئے تو آپ فرمانے لگے کہ مجھے یہ شکلیں پانگی پہنچنے والی نظر نہیں آتیں۔ اچانک پردے کے پیچھے سے حضرت اماں جان کی آواز آئی نہیں محمود!( میں نے اماں جان کو اس طرح محمود کہتے ہوئے صرف ایک ہی دفعہ سناہے) بچوں نے بڑی ہمت کی ہے۔ ان کے لیے دعا کرو،میں بھی دعا کروں گی اور فرمایابچو! ہمارے لیے وہاں سے ٹھانگی اور زِیرۂ سیاہ لے کر آنا۔ میں نے ٹھانگی کا نام پہلی بار حضرت اماں جان کی زبان سے سنا تھانہ مجھے یہ معلوم تھا کہ زِیرۂ سیاہ وہاں کی سوغات ہے لیکن خاتونِ خانہ ہونے کے باوجود حضرت اماں جان کو ان باتوں کا پہلے سے علم تھا۔ جب ہم قادیان سے روانہ ہوئے تو میر مسعود احمد نے حضرت میرمحمداسحاق والی بندوق ساتھ رکھ لی۔ وہ قانوناً اسے ہمراہ رکھ تو سکتے تھے لیکن اس کا لائسنس گھر بھول آئے۔ ہم کھجیار(۶) جھیل پر بیٹھے تھے۔ کافی رات گذر چکی تھی۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ میردائود احمد کی قیادت میں ایک پارٹی ہماری طرف چلی آ رہی ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ پانگی جانا چاہتے ہیں لیکن معلوم ہوا کہ وہ ایک تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حکم پر حضرت میرمحمداسحاق والی بندوق کا لائسنس ہمیں پہنچانے اور دوسرے محمدنصراللہ کی والدہ، آمنہ بیگم کی خواہش کے مطابق انہیں واپس لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ یوں محمدنصراللہ کو ہمارا ساتھ چھوڑ کر واپس جانا پڑا۔

کھجیار بہت ہی خوبصورت جگہ ہے۔ حضرت میرمحمد اسماعیل نے کھجیار پر ایک نظم(۷) لکھی ہے جو اُن کے مجموعہ کلام ’’بخارِ دل‘‘ میں شامل ہے۔ موقع ملے تو ضرور پڑھیے۔ انہوں نے بہت ہی عمدہ نقشہ کھینچا ہے کھجیارکا۔ کہتے ہیں

بس گیا دل میں مرے ماہِ لِقائے کھجیار

سامنے پھرتی ہے آنکھوں کے فضائے کھجیار

یوں سمجھ لیں کہ ایک نہایت خوبصورت میدان ہے او راس کے چاروں طرف جنگل سے ڈھکے پہاڑ ہیں۔ اس میدان کے عین درمیان میں ایک جھیل ہے۔ جھیل گول ہے اور جھیل کے اندر ایک قدرتی جزیرہ ہے جو ہر وقت تیرتا رہتا ہے۔ کبھی جھیل کے وسط میں آجاتا ہے، کبھی اِدھر چلا جاتا ہے اور کبھی اُدھر چلاجاتا ہے۔ وہ رات جو ہم نے اس جھیل پر گذاری ہماری زندگی کی خوبصورت ترین راتوں میں سے تھی۔ گیسٹ ہائوس کے ٹھیکیدار اتفاق سے احمدی تھے۔ نام پتا نہیں کیا تھا لیکن مرزا کہلاتے تھے۔ وہ بعد میں لاہور آکر ہماری ٹک شاپ کے انچارج بن گئے تھے۔ گیسٹ ہائوس میں ایک معزز سکھ ٹھہرا ہوا تھا۔ ہارڈوُڈ کا ٹھیکیدار تھااور بڑا متموّل آدمی تھا۔ اس کا نام دوِندرسنگھ تھا۔ اس سے علیک سلیک ہوئی تو معلوم ہوا کہ اسے بخار چڑھا ہوا ہے۔میرے پاس کونین موجود تھی۔ میں نے اسے پیش کی جو اس نے لے لی، شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔ اب ہوا یہ کہ خچروں والا معاہدے کے باوجود ہمارا سامان اٹھائے بغیر غائب ہوگیا۔دراصل وہ چھجومل کا آدمی تھا جو ریاست کے خچرمافیا کا ہیڈ تھا اور ریاست کے اندر ساری کمیونیکیشن اسی کے پاس تھی۔ میری معلومات کے مطابق ہم نے اس کے ساتھ کوئی تلخی ولخی تو نہیں کی تھی لیکن ہو سکتا ہے کسی لڑکے نے کچھ کہہ دیا ہو۔بہرحال مرزا صاحب نے ہمارا کچھ بندوبست کردیا۔ ہم تین، چار میل گئے ہوں گے کہ خچروں والا ہمیں مل گیا۔ ہم نے اسے سخت سست کہا اور ہماری دانست میں بات آئی گئی ہوگئی لیکن معلوم ہوتا ہے اس نے چھجومل سے ہماری شکایت کر کے راجہ کے ذریعہ ہمارے وارنٹ نکلوا دیے۔ ہمیں اس بات کا اس طرح پتا چلا کہ جب ہم اس پُل پر پہنچے جس کی دوسری طرف چمبہ ہے تو وہاں دوِندر سنگھ کا ایک آدمی ہمارا منتظر تھا۔ کہنے لگامیں آپ ہی کے انتظار میں تھا۔ سردار صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ آپ لوگوں کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو چکے ہیں اور حکم یہ ہے کہ آپ کو چمبہ میں داخل ہوتے ہی گرفتار کرلیا جائے۔ سردار صاحب نے اس وعدے کے ساتھ کہ کورٹ کے طلب کرنے پر وہ ہمیں پیش کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں راجہ سے آپ کو گرفتار نہ کرنے کی درخواست کی جسے انہوں نے قبول کرلیا ہے لہٰذا آپ تنہا چمبہ جانے کی بجائے میرے ساتھ چلیں تاکہ کسی ناخوشگوار صورتِ حال سے بچا جاسکے۔ ہم نے ایسے ہی کیا اور ریسٹ ہائوس پہنچ گئے۔ ان دنوں چمبہ کے امیر جماعت مستری غلام رسول نامی ایک صاحب تھے۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم پانگی جا رہے ہیں تو انہوں نے فرمایامیں بطور امیرجماعت آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ وہاں نہ جائیں۔ ہم نے سوچا کہ ہم چمبہ گیسٹ ہائوس میں تو ضرور ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن ان کے حلقہ میں شامل نہیںچنانچہ ہم نے اس بات کی زیادہ پروا نہ کی اور پانگی جانے کے فیصلہ پر قائم رہے۔لدھیانہ کالج میں میرے ایک استاد ہوتے تھے، ڈاکٹر ڈیوڈ۔ اکنامکس کے پروفیسر تھے۔ بعد میں گورنمنٹ کالج، لاہور میں چلے گئے تھے۔ بہت بھلے آدمی تھے۔ ان کا ایک بیٹا یا شاید داماد میرا کلاس فیلو تھا۔ اس کا نام شیوکمار تھا۔ وہ بھی اسی گیسٹ ہائوس میں سٹیٹ گیسٹ کے طور پر ٹھہرا ہوا تھا۔ میںنے اسے دیکھا تو بڑی خوشی سے جاکر اس کو سلام کیا لیکن وہ تو اس وقت بہت اونچی ہوائوں میں تھا چنانچہ اس نے یوں ظاہر کیا گویا وہ مجھے پہچانتا ہی نہ ہو۔ جب اس نے میرے سلام کا بھی جواب نہ دیا تو مجھے خاصی شرمندگی ہوئی۔ سچ پوچھیں تو میں اسے دیکھ کر بے حد خوش ہوا تھا اور میرے دل کو ایک خاص تقویت حاصل ہوئی تھی لیکن افسوس اس کا رویّہ بے حد مایوس کن تھا۔

ریسٹ ہائوس میں ایک اور سکھ بھی ٹھہرا ہوا تھا۔ اس سے دوِندر سنگھ کے ذریعہ تعارف ہوا۔ وہ ایک گھاگ شکاری تھا اور چیتے کے شکار کے لیے آیا ہوا تھا لیکن جس طرح ہم بندوق کا لائسنس گھر بھول آئے تھے اسی طرح وہ کارتوس گھر بھول آیا تھا۔ ہمارے پاس کچھ کارتوس تھے چنانچہ اس کی ہمارے ساتھ دوستی ہوگئی۔اس زمانے میں وہاں ایک آدم خور چیتا آیا ہوا تھا جسے مقامی زبان میں باگھ کہتے تھے۔ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سردار کا ایک نوکر بھاگتا ہوا آیا اور اس نے باگھ کی آمد کی خبر دی۔ سردار یہ خبر سنتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ میں بھی جلدی سے لڑکوں کی طرف بھاگا اور ان سے کہاچلو۔ اندر چلو۔کچھ سوئے ہوئے تھے۔ کچھ جاگ رہے تھے۔ ایک لڑکا تھا محمد احمد۔ اسے محمد احمد موٹا کہتے تھے۔ ہائیکنگ میں بڑے لطیفے ہوتے ہیں۔ سارے اس کی طرف دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ پہاڑ پر پہاڑ چل رہا ہے۔ ہم نے اسے کہامحمد احمد! چیتا۔ کہنے لگافیر میں کی کراں۔ ہم نے بڑی مشکل سے اسے کمرے کے اندر دھکیلا۔

اس کارروائی میں چند منٹ لگے ہوں گے۔ جب فارغ ہو کر دوبارہ اکٹھے ہوئے تو سردار نے بتایا کہ باگھ شہر کی طرف گیا ہے۔ ہم چھت کے اوپر بیٹھ کر اس کا انتظار کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میرمسعود احمد بھی ہمارے ساتھ بیٹھے تھے۔ بندوق میرمسعود احمد نے پکڑ رکھی تھی اور میرے ہاتھ میں ٹارچ تھی۔یہ بات طے شدہ تھی کہ پہلا فائر سردار نے کرنا ہے جس کے فوراً بعد ہم بھی اسی جانب فائر کریں گے۔ اچانک باگھ آگیا۔ بس یوں لگا جیسے کوئی خیال آتا ہے۔ بالکل آواز نہیں آئی۔ چاندنی تھی لیکن ہمیں تو کچھ نظر نہیں آیا۔ سردار نے فائر کیا۔ اس کے بعد دوسرا فائر ہم نے کرنا تھاسو کردیا۔ کچھ دیر باگھ انتظار میں رہا کہ کوئی پھر سے فائر کرے تو وہ اوپر آئے لیکن پھر وہ ارادہ بدل کر پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ پہاڑ پر چڑھنے لگا تو گِر پڑا۔ دوبارہ چڑھا تو پھر گر گیا۔سردار بہت دلچسپ آدمی تھا۔ صبح اٹھا تو اس کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگا First it went up and then bumbled down اس نے چیتے کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ اُس کا کہنا تھا کہ اب اس کے پاس جانا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ وہ تو ہمارا انتظار کررہا ہوگا لہٰذا اس کے قریب جانے سے پہلے اسے مر لینے دیں۔صبح پتا چلا کہ چیتے کی آمد کی خبر سن کر شیوکمار بیہوش ہوگیا تھا۔میرمسعود احمد کو تھوڑی بہت ہندی آتی تھی سو انہوںنے اپنے اس سفر کو تفریح کے ساتھ ساتھ اشاعتِ پیغامِ حق کا ذریعہ بھی بنالیا چنانچہ انہیں جہاں نرم برف ملتی وہ اس پر کلکی اوتار کی آمد کا اعلان لکھتے چلے جاتے تھے۔ اور اوپر پہنچے تو لڑکوں نے جماعت کا جھنڈا لہرا دیا اور نعرہ تکبیر بھی بلند کیا۔وہاں کے لوگوں میں عجیب و غریب توہّمات پائے جاتے ہیں اگرچہ میری ذاتی رائے میں وہ بالکل بے بنیاد بھی نہیں ہوتے۔ وہاں مشہور ہے کہ اگر اونچی آواز سے نعرہ لگایا جائے تو دیوی ناراض ہو جاتی ہے اور برف پھسلنے لگتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ برف وائبریشن سے پھسلتی ہے لیکن وہاں کے لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس بات کو اپنی دیوی کی ناراضگی پر محمول کرتے ہیں۔ وہاں جاکر پتا چلا کہ انگریزوں کی اس علاقے میں خاصی آمدورفت ہے مگر ہماری پارٹی پہلی دیسی پارٹی ہے جو پانگی پہنچی ہے۔ان دنوں پانگی گندم پہنچانے کا ایک منفرد طریقہ رائج تھا۔ وہاں کے لوگ اوپر جانے والے ہر بکرے کی کمر پر سیر سیرگندم کی دو تھیلیاں رکھ دیتے۔ اگر ہزار بکرا اوپر جا رہا ہوتا تو اس طریقے سے پچاس من گندم بہ آسانی اوپر پہنچ جاتی۔ کوئی اور جانور مثلاً خچر وہاں نہیں جاسکتا تھا اور مزدور ایک سیروزن کی ایک منزل کی اجرت ملکہ والا ایک روپیہ لیتے تھے۔ آج کل کا دو سو روپیہ سمجھ لیں بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی۔ گندم اور آٹا تو ان لوگوں کے پاس تھا لیکن انہوں نے ہمیں دینے سے انکار کردیا۔ سچ پوچھیں تو انہوں نے ہمارا بائیکاٹ کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کا مذہب بھرشٹ کردیا ہے اور ان کی دیوی کو ناراض کردیا ہے۔ہم نے کچھ روز تو اس راشن پر گذارا کرلیا جو ہم ساتھ لے کر گئے ہوئے تھے لیکن جب وہ ختم ہوگیا تو بڑی مشکل بن گئی۔ سوچا اب کیاکریں۔ جنگل میں پھل بکثرت تھا۔ وہاں ایک سیب ہوتا ہے جسے Mclntoshکہتے ہیں۔ مشہور نام ہے۔ یہ سیب سائز میں خربوزے کے برابر ہوتا ہے لیکن اسے ایک سال تک برف میں یا کسی ٹھنڈی جگہ پر رکھنے کے بعد کھایا جاتا ہے لیکن ہمیں تو اپنی بھوک مٹانا تھی چنانچہ ہم نے یہ سیب اسی طرح کھانا شرو ع کردیا۔ اس علاقے میں خوبانی بھی تقریباً مفت تھی۔ ہم آٹھ آنے کا ایک کِلٹا یعنی ٹوکرا بھروا لاتے اور جب بھوک محسوس ہوتی کھالیتے۔ سیب اور خوبانی کے بکثرت استعمال نے ہمارا پیٹ خراب کردیا اور ہمیں اسہال کی تکلیف شروع ہوگئی۔ ہم نے سوچا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو دعا کے لیے خط لکھیں لیکن وہاں سے خط کا ڈلہوزی پہنچنا آسان نہ تھا۔ اس کے باوجود ہم نے حضور کو خط لکھا کہ ہم اس طرح مشکل میں گِھرگئے ہیں، ہماری زندگی کی بھی کوئی ضمانت نہیں رہی اور پتا نہیں کہ اب ہماری ملاقات بھی ہوسکے گی یا نہیں، بس حضور ہمارے لیے دعا کریں۔ ہم نے یہ خط لیٹربکس میں ڈال دیا۔ وہاں ڈاک کا سسٹم یہ تھا کہ ہفتے یا دو ہفتے کے بعد پورے پہاڑ پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر آدمی کھڑے ہو جاتے۔ پہلا آدمی ایک گھنٹی ہاتھ میں پکڑ کر دوڑتا اور ڈاک کا تھیلا اگلے آدمی کو پکڑا دیتا۔ اس کے بعد اگلا آدمی دوڑتا ہوا اس تھیلے کو اپنے سے اگلے آدمی کو پکڑا دیتا۔یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک ڈاک قریب ترین پوسٹ آفس میں نہ پہنچ جاتی۔حضور کو خط لکھنے کے بعد ہم نے سوچا کہ جس سوامی(۱۰) کے حکم سے ہمارا بائیکاٹ ہوا ہے کیوں نہ اسے ملنے کی کوشش کی جائے چنانچہ میں اور میر مسعود احمد، دونوں اس سے ملاقات کے ارادے سے چل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ پر لوگ سجدے کررہے تھے اور چڑھاوے چڑھا رہے تھے۔ چڑھاوہ فروٹ کا تھا یا پھر اُون کی ایک اعلیٰ قسم کا جس کو پشم کہتے ہیں۔ پشم کی نفاست کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کی چادر دیاسلائی کی ڈبیا میں پوری آجاتی ہے۔ پرسیئو ایک جگہ ہے۔ وہاں منڈی لگتی تھی۔ہم وہاں نہیں رُکے۔آگے ایک باغیچہ سا تھا، روشیں تھیں اور پھول تھے۔ ہم جوتا اتارے بغیر آگے چلے گئے۔ لوگ تو سجدہ کرنے کے بعد سجدہ گاہ کی طرف پشت کیے بغیر الٹے پائوں واپس جارہے تھے لیکن ہمیں کسی نے نہیں روکا۔ آگے گئے۔ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس کے دروازے پر پردے لٹکے ہوئے تھے، گیروے رنگ کے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں اور جوتا اتارنے کا ارادہ کررہے تھے کہ اندر سے آواز آئی

Gentlemen! Don’t worry. Just come right in

ہم حیران تھے کہ یا اللہ! یہ آواز آسمان سے آئی ہے یا زمین کے اندر سے۔ یہاں تو اردو جاننے والا کوئی نہیں ہے، یہ انگریزی بولنے والا کدھر سے نکل آیا؟ اندر داخل ہوئے تو تیس چالیس سال کا ایک گورا چٹّا، لمبا تڑنگا، بنگالی کھڑا تھا۔ معلوم ہوا اس کا تعلق انڈین سِول سروس سے ہے۔ اس نے ہم سے سب سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ ہم یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ ہم نے بتایا کہ ہمارا تعلق فلاں جگہ اور فلاں کالج سے ہے اور یہ کہ ہم ٹرپ پر یہاں آئے ہیں۔ اس نے کہایہاں تو کبھی کوئی ہائیکنگ پارٹی نہیں آئی۔ میں آپ کے آنے کی کیا وجہ سمجھوں؟ ہم نے کہاہم اپنے بارے میں کوئی بات چھپا نہیں رہے۔ ہمارا مقصد صرف ہائیکنگ ہے لیکن سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے ساتھ ایسا غیرمنصفانہ سلوک کیوں ہو رہا ہے حالانکہ خدا کے فضل سے ہم کچھ ایسے گئے گذرے لوگ بھی نہیں ہیں۔ ہم نے تو مہاراجہ کشمیر کو مصیبت ڈال دی تھی۔ اگر ہم دس دن اور یہاں ٹھہرے رہے تو ختم ہوجائیں گے لیکن ہمارے لوگ اس معاملہ کو آسانی سے نہ دبنے دیں گے۔ وہ دل ہی دل میں مسکرا رہا ہوگا کہ یہ کیا باتیں کررہے ہیں۔ پھر ہم نے اسے احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ اس نے بھی ہمیں اپنے مذہب کی تبلیغ کی۔ وہ ہندو نہیں تھا بلکہ اس کا تعلق کسی اور مذہب سے تھا اور اپنے آپ کو رادھا سوامی کہتا تھا۔ اس کے پاس کچھ مذہبی پمفلٹ تھے جو اس نے ہمیں دیے۔ پھر اس نے انگریزی میں ہم سے پوچھا کہ ہم سٹیٹسمین کا تازہ ترین پرچہ پڑھنا پسند کریں گے؟ یہی وہ سوامی تھا جس کے حکم پر ہمارا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ جب ہم واپسی کے لیے اٹھے تو وہ کہنے لگا کہ جب تک میں آپ کے ساتھ نہیں جائوں گا لوگ آپ کو اپنے قریب نہیں آنے دیں گے کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ آپ لوگوں نے ان کا مذہب بھرشٹ کردیا ہے اور ان کی دیوی کو ان سے ناراض کردیا ہے۔ بہرحال وہ ہمارے ساتھ آیا۔ ہم نے اندازہ کیا کہ لوگوں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔ جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہ وہاں بھی آیا۔ وہیں بیٹھ کر اس نے ہمیں ٹھانگی کھلائی۔اس کے ہمارے پاس آنے اور اس طرح گھل مل جانے کا وہاں کے لوگوں پر بہت خوشگوار اثر پڑا اور وہ ہم سے اپنائیت کا سلوک کرنے لگے۔ اب ہمیں کھانے پینے کی وہ دقت نہ رہی جس کا ہم پچھلے کچھ دنوں سے سامنا کر رہے تھے۔

قارئین کو شاید نہیںپتا ہوگا کہ ٹھانگی کیا چیزہے۔ صرف اپنی بات سمجھانے کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ ٹھانگی مونگ پھلی کی طرح کا ایک خشک پھل لیکن سائز میں قدرے بڑا ہوتا ہے۔ مونگ پھلی کا چھلکا ذرا موٹا اور رَف ہوتا ہے لیکن ٹھانگی کا چھلکا نہایت باریک ہوتا ہے اور اس کے اوپر لکیریں ہوتی ہیں۔یہ چھلکا آسانی سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اندر سے گری نکلتی ہے جو بے حد لذیذ ہوتی ہے۔ ہم واپسی پر ٹھانگی اور زِیرۂ سیاہ، دونوں چیزیں ساتھ لائے۔میں نے زیرہ ایک شیشی میں ڈال کر حفاظت کے خیال سے اپنے تکیہ کے اندر روئی میں گھسیڑرکھا تھا۔ ڈلہوزی پہنچ کر میں نے یہ بوتل حضرت اماں جان کو پیش کردی مگر اس غلاف سے زیرہ کی خوشبو بہت عرصہ نہیں گئی۔

ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا ہے۔ ابھی ہم چوٹی پر نہیں پہنچے تھے۔ اس جگہ کا نام شاید رلّہ تھا۔ ہمیں ایک آدمی ملا اور اس نے پیشکش کی کہ اگر ہم چاہیں تو وہ ہمیں مارخور کا شکار کِھلا سکتا ہے۔ ہم اس کے جھانسے میں آگئے اور اس کے مشورہ کے مطابق ایک آبشار کے پاس جِست لے کر بیٹھ گئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ درختوں کی اوٹ میں کوئی جانور اچھل کود کررہا ہے لیکن سامنے آنے سے مجتنب ہے۔ اس شخص کا کہنا تھا کہ یہ مارخور ہے اور جونہی سامنے آئے ہم اسے نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ہم بہت دیر تک اس کے باہر نکلنے کا انتظار کرتے رہے لیکن اس نے سامنے آنا تھا نہ وہ آیا۔ ہم تھک ہارکر چل پڑے تو وہ اچانک ہمارے سامنے آگیا۔ اگرچہ یہ ایک بندر تھا لیکن اس شخص کو طے شدہ معاوضہ ادا کر کے ہی ہماری جان چھوٹی۔ (جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button