متفرق مضامین

امریکہ کو جماعتِ احمدیہ کا پیغام: سانحہ 9/11 سے پہلے اور بعد کے حالات میں

(آصف محمود باسط)

’’اب یہ واضح ہے کہ امریکہ کی سرزمین پر ہونے والے حملوں اور ان کے ردعمل نے عالمی معاملات کو ایک بالکل نیا زاویہ نظر دے دیا ہےاوراس نئی صورت حال کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا ریاست اور مذہب کاباہمی تناؤ اب ان انتہاؤں کو چھو رہا ہے جس کی قبل ازیں بین الاقوامی سطح پر نظیر نہیں ملتی ۔الغرض آج کی دنیا کی بلا شرکت غیرے سپر پاور اورڈیڑھ ارب مسلمانوں کے درمیان تعلقات پر گیارہ ستمبر کے حملوں نے ایک غیر معمولی گہرا اثر ڈالا ہے۔ ‘‘

ا مریکہ میں Brookings Institute میں The Twenty-first Century Defense Intiative کے ڈائریکٹراور معروف تجزیہ کار اور ماہر امور خارجہ Peter W Singerکے سانحہ گیارہ ستمبر کے پانچ سال گزرنے پر کہے گئے مندرجہ بالا الفاظ تب بھی درست تھے اور آج قریبا اکیس برس گزرجانے پر بھی اتنے ہی درست ہیں۔

گو گیارہ ستمبر کے سانحے کو امریکہ اور عالم اسلام یا بالالفاظ دیگر تمام مغربی دنیا اور مسلمانوں کے باہمی تعلقات میں بگاڑپیدا کرنے میں اہم سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے، لیکن تاریخ کے واقعات کوبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ یہ ایک مختلف زاویہ نظر مہیاکررہے ہوں۔

 تجزیہ کار اسپرنگر کی رائےسے بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ’’امریکہ اور مسلم دنیا کے باہمی تعلقات گیارہ ستمبر کے بعد سے غیر معمولی طور پر بدل چکے ہیں‘‘مگر مشہور فرانسیسی مورخ اور ماہر علوم شرقیہ میکسم روڈنسن(Maxime Rodinson) کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ دین اسلام کو اہل مغرب کی طرف سے ’’ ایک حقیقی مسئلہ کے طور پر دیکھے جانے سے بہت پہلے ہی مغربی عیسائی دنیا مسلم امت کوایک خطرہ سمجھتی تھی۔‘‘

اسی طرح، جس معاملے کو خالصتاً سیاسی نظر سے دیکھاجارہا ہے، اس کی جڑیں، ہمیں نہایت گہرے طور پر دو باہم متضاد اور متصادم مذاہب کے طور پر بھی الجھی ہوئی ملتی ہیں۔ البرٹ ہورانی (Albert Hourani)کا ماننا ہے کہ عیسائیوں کا تو صدیوں کا عقیدہ تھا کہ

’’دین اسلام ایک جھوٹا مذہب ہے،اور اس کا پیش کردہ خدا حقیقی معبود نہیں ہے،بانی اسلام محمد(ﷺ) نبی برحق نہیں تھے۔ نیز افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسلام کو قائم کرنے والے وہ لوگ تھے جوتلوار کے زور پر اس کی تبلیغ کرنے والے تھے ۔‘‘

محققین میں سے فواز گیرجز (Fawaz Gerges)جیسے لوگ دین اسلام کے متعلق اس منفی اور غلط تاثر کی جڑیں اولیور آف پیڈربورن(Oliver of Paderborn) جیسے جنگ جوؤں تک ڈھونڈ نکالتے ہیں، جو صلیبی جنگوں کے دوران علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ ’’اسلام تلوار سے شروع ہوا، تلوار سے قائم ہوا اور تلوار ہی سے ختم ہو گا۔‘‘

تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی یہ باہم کشیدگی بعض دفعہ انتہاؤں کو چھوتی رہی جب یہ دونوں مذاہب ہی خو د کو ’’نسل انسانی کی عظمت کے واحد علمبردار ‘‘کے طور سمجھ کر باہم بدست و گریبان ہوتے رہے۔ گو ان دونوں ادیان میں مذہبی طور آپس میں روحانی اور مادی لحاظ سے کئی مشترکہ روابط بھی پائے جاتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ عیسائی اور مسلمان مذہبی اور سیاسی طور پر بھی اور عسکری نکتہ نگاہ سے بھی ایک دوسرے کے حریف بنتے چلے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ تاہم صدیوں کا سفر طے کرکے جوتغیر آیا وہ یہ ہے کہ اسلام تو اسلام ہی رہا ہے جبکہ اس کے مد مقابل آنے والوں نے اپنی شناخت کوتبدیل کرتے ہوئے مغربی عیسائیت سے اختصار کر کے ’’اہل مغرب‘‘کے طور پر خود کو محدود کر لیا ہے، جو ایک عقیدے سے زیادہ محض ایک جغرافیائی، سیاسی اور ثقافتی پہچان ہے۔

امریکہ اور عالم اسلام کا اولین رابطہ :

اگرچہ کچھ محققین و مورخین کا کہنا ہے کہ اسلام اور مسلمان کرسٹوفر کولمبس کی نئی دنیا کی طرف مہم جوئی سے کہیں پہلے براعظم امریکہ کے ساحلوں تک پہنچ چکے تھے، لیکن اس موضوع پر زیادہ مستندمورخین یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ میں مسلمانوں کی پہلی ہجرت ’’غلاموں کی تجارت ‘‘کی تین صدیوں کے دوران ہوئی تھی جب ’’ براعظم افریقہ سے قریبا ًایک کروڑ انسانوں کو زبردستی غلام بناکر امریکہ لایا گیا ۔ایک اندازے کے مطابق ان حرماں نصیبوں میں سے 10 سے 50 فیصد تک لوگ مذہبا مسلمان تھے۔ ‘‘

Ira Berlin کے مطابق مسلمان غلاموں کی یہ اولادیں’’جو تاریخی طور پر یکے بعد دیگرے پانچ نسلوں تک انسانوں پر جبری تسلط کے ایک ایسے سفاک نظام کا شکار ہوتی رہیں جسے ریاست کی پشت پناہی حاصل تھی۔ ‘‘

گو امریکہ کے دستور میں 1865 ء کوہونے والی 13 ویں آئینی ترمیم کے ذریعہ ملک میں غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا اور اس کے بعد 14 ویں اور 15 ویں آئینی ترمیم کرکے ملک کے تمام عوام کے لئے شہریت کے مساوی حقوق بھی قائم کردیئے گئے لیکن دستور ملکی میں کی جانے والی یہ سب تبدیلیاں اس گہری خلیج کو نہ پاٹ سکیں جس کے ذریعے افریقہ سے لائے گئے غلاموں کی نسلوں کو باقی معاشرے کے افراد سے الگ کیا گیا تھا۔

امریکی معاشرے اور ملکی دستور میں اس قدر غیر معمولی انقلاب کے بعد صرف رنگت ہی لوگوں کو باہم تقسیم کرنے والی لکیر نہیں رہی تھی۔بلکہ حکومتی ہدایات پر ان غلاموں کو ایک بہت وسیع پیمانے پرمذہب تبدیل کرواکر عیسائیت میں داخل کیا گیا، اس سے معاشرے میں غلامی کے خاتمے کے بعد دو بہت بڑے طبقوں کی تشکیل ہوئی: وہ سابقہ غلام جن کا مذہب عیسائیت تھا یا وہ جو ’’منکرین‘‘ میں سے تھے۔ تب ان ’’منکرین ‘‘ کی تعداد عیسائیت کی طرف منسوب سابقہ غلاموں کے مقابل پر تھوڑی تھی اور مسلمان تو تب تک اس اقلیت کے اندر ایک چھوٹی سی اقلیت تھے۔اس موضوع پر تحقیق کرنے والے بتاتے ہیں کہ زیادہ تر افریقی غلام ’’غیر اسلامی عقائد کے پابند‘‘ تھے۔

تب صرف ریاستی ادارے اوران کے کارندے ہی تبدیلی مذہب کی مہم میں مصروف کار نہیں تھے۔ بلکہ مختلف عیسائی فرقوں کے پادریوں نے بھی ان غلاموں تک پہنچنے اورانہیں بپتسمہ دینے کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا۔ پس حکومت اور چرچ کی ساری بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ غلامی سے رہائی پانے والے ایک طبقہ کے لئے توان کی نئی زندگی میں ایک اجتماع گاہ میسر تھی، چرچ کے در و دیوار سے منسلک ہونے کے ناطے ایسے غلاموں کو ایک جماعت اور برادری کے فرد ہونے کا احساس میسر تھا جس کے برتے پر ان لوگوں کے لئے معاشرے میں ضم ہونانسبتا آسان تھا۔جبکہ اس کے بالمقابل مسلمان غلام، جو تعداد میں کم اور الگ تھلگ ہوکر ہی رہا کرتے تھے، کے متعلق تحقیقات سے سامنے آتا ہے کہ اس مذہبی طبقے میں لوگ نہ صرف اپنے خاندان والوں کے ساتھ مل کر عبادات بجالایا کرتے تھے، بلکہ یہ بھی ’’ہو سکتا ہے کہ ان میں ایسے غلام مسلمان بھی اجتماعی عبادات میں آکر شامل ہوتے ہوں جو ان کے رشتہ دارتو نہیں تھے بلکہ اپنا مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہوئے تھے۔‘‘یوں ایک طرف تو غلاموں کی ایک بڑی تعداد باقاعدہ اور طاقتور اداروں کی منظم کوششوں کےماتحت عیسائیت میں داخل ہورہی تھی تو دوسری طرف سابقہ غلاموں میں سے ایک محدودتعداد پرانے مسلمانوں کی انفرادی اورمحدود ذاتی کوششوں کے نتیجہ میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے تھے۔لہٰذا، گومز (Gomez)کا یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ ’’جوں جوں امریکہ میں افریقی نژاد لوگوں پر مشتمل عیسائیت ایک طاقت بنتی گئی،دین اسلام کو لازمی طور پر نقصان اٹھانا پڑا۔‘‘

ان غلاموں کا مذہب تبدیل کرکے ان کو عیسائیت میں داخل کرنے کے پیچھے کون سے سیاسی مصالح کارفرماتھے اور ان نئے شامل ہونے والوں کو بپتسمہ لینے کے باوجود جائز حقوق دینے میں حیرت ناک ہچکچاہٹ، ہمارے اس مضمون کا دائرہ کار نہیں ہے۔لہذا، ہم اس بحث سے گریز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اس امریکی معاشرے کاجائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں،جس میں افریقی نژاد لوگوں کی ایک بڑی آبادی آباد تھی اوروہ بھی متفرق مشکلات سے دوچار تھی۔

الغرض امریکی دستور میں 13ویں، 14ویں اور 15ویں ترامیم کرکے ’’معاشرے کی تعمیر نو‘‘ کے جس خاص دور کا آغاز کیاگیا تھا اس میں افریقہ نژاد امریکیوں کے لئے شہریت کے مساوی حقوق تو مہیا کردیئے گئے لیکن ملکوں کے آئین اورقوانین وہاں کے سب باسیوں کے ذہن و فکر پر کماحقہ حکمرانی نہیں کیا کرپاتے ہیں۔ نسلی برتری کا جذبہ، یا دوسروں پر کسی بھی نوع کی بالادستی اور بےجاتفاخر کرنے کی ترنگ اتنی آسانی سے جایا نہیں کرتی ہے۔حکومتیں اور آئین ساز اپنی عوام کے لئے خیر سگالی کے ظاہری اشاروں کے طور پر بھلے کچھ بھی کرلیں، نفسیاتی طور پر فوقیت کا احساس جاتے جاتے ہی جاتا ہے۔

امریکہ کی تعمیر نو کی تحریک (Reconstruction)کے ساتھ ہی ریڈیمپشن کی تحریک (the Redemption Movement) شروع ہوگئی جس میں خاص طور پرامریکہ کی جنوبی ریاستوں میں آباد سفید فام باشندوں نے آواز بلند کی کہ سیاہ فام آبادی کو مساوی حقوق دینے والی قانون سازی کو منسوخ کیا جائے۔ آئین سازی کرنے والوں سے لیکر ملک کا عمومی کاروبار حکومت چلانے والوں پر اس تحریک کے حامیوں کی طرف سے شدید دباؤ تھا، کیونکہ یہ لوگ اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے شدت پسندی اور عسکریت پر بھی اتر آئے تھے، یوں امریکہ کی زیادہ تر جنوبی ریاستوں میں ’’تعمیر نو ‘‘سے پہلے والے دور کی ابتری اور ناانصافی پھر سے راج کرنے لگی۔ مشہور امریکی ماہر عمرانیات ڈو بوئس(DuBois) نے اس تلخ دور کی منظر کشی ان الفاظ میں کی ہے: ’’غلاموں کو آزادی ملی، ابھی وہ دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہونے ہی لگے تھے کہ غلامی کی زنجیروں میں پھر سے جکڑلئے گئے۔‘‘

الغرض یہ دور معاشرتی تشکیل کے لئے ایک بحران سے کم نہ تھا اور اس کا عرصہ ’’ دور تعمیر نو‘‘ (انیسویں صدی کی آخری دہائی) سے شروع ہوا اور بیسویں صدی کی ابتدائی عشروں تک جاری رہا۔ مورخ رے فورڈ لوگن (Rayford Logan)نے اس دور کےلیے ’’نادر‘‘(Nadir)کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ جس کا مطلب پستی کا سب سے نچلا نقطہ ہے۔

امریکی معاشرے کی تشکیل کو درپیش اس ’’نادر‘‘دور کا ہی زمانہ جاری تھا کہ ایک ہندوستان سے تعلق رکھنے والا مسلمان مبلغ سرزمین امریکہ پر وارد ہوا۔ دلچسپ بات ہے ہے کہ عربی زبان میں لفظ ’’نادر‘‘ کے مختلف معانی میں ’’قیمتی‘‘ اور ’’منفرد‘‘ بھی ہیں۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب امریکہ میں:

الحاج حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

جماعت احمدیہ اسلام میں ایک اصلاحی تحریک ہے جس کی بنیاداس اعلان پر ہے کہ بانی سلسلہ حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام اس آخری زمانے کے لئے مسیح موعود ہیں۔ برصغیر پر برطانوی راج کے دوران پنجاب میں 1889 ءمیں اس جماعت کا قیام ہوا اور نہایت قلیل عرصہ میں اس جماعت کی شہرت غیرمعمولی تبلیغی کوششوں کی باعث مشرق و مغرب میں ہوگئی، اس نوزائیدہ جماعت کا یہ عجوبہ روزگار کارنامہ قرار پائے گا کہ یہ لوگ اپنے امام اور خلیفہ المسیح کی نگرانی میں انگلستان کے صدر مقام لندن کے عین قلب میں بیسویں صدی کے آغاز میں یعنی 1912 میں ہی ایک باقاعدہ منظم مشن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

امریکہ کے پہلے مبلّغ احمدیت حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ

لندن میں تبلیغ اسلام کے لئے بھیجے جانے والے ابتدائی مبلغین میں سے ایک حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے۔ لندن مشن بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا جس میں انہوں نے خود کو لندن کے ایک پارک میں ایک وسیع مجمع سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ نیز دیکھا تھاکہ آپؑ نے کچھ سفید پرندے پکڑ ے ہیں۔ آپ علیہ السلام کے اس کشف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آپؑ کے بعد قائم ہونے والے سلسلہ خلافت کے پہلےخلیفہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ نے کمزور سی جماعت کے وسائل سے بڑھ کر معرکہ سر کیا اور لندن شہر میں جماعت کا ایک مشن قائم کردیا۔

انگلستان میں جماعت احمدیہ کی طرف سے لندن مشن کی تبلیغی مساعی از حد حوصلہ افزا رہی تو 1919ء میں جماعت احمدیہ کے دوسرے امام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رویاء دیکھی جو آپ نے مارچ 1919ء میں قادیان میں اپنی جماعت کو سنائی، فرمایا:

حضرت مصلح موعود صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

’’میں نے رویا ء میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کہیں سے دوڑے دوڑے آئے ہیں ۔ میں نے کہا : حضور! اندر آئیں۔ فرمایا :خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں امریکہ جاؤں۔ میں پانچ سال امریکہ رہ کر آیا ہوں۔ میں نے کہا حضور اب کچھ عرصہ گھر پرٹھہریں۔ فرمایا: نہیں، میں نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ پانچ سال بخارے جا کر رہوں۔ چنانچہ آپ چلے گئے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے بعد اب دوسرا قدم ہمارا بخارا کی طرف اٹھنا ہے۔ ‘‘

(رویاء و کشوف سیدنا محمود، صفحہ : 52)

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ سن 1920 ءکے موسم بہار میں امریکہ پہنچے لیکن آپ ؓ کی آمد سے پہلے ہی جماعت احمدیہ مسلمہ کا امریکہ والوں سے تعارف کا مرحلہ طے ہو چکا تھا۔ رچرڈ ٹرنر (Richard Turner)نے لکھا ہے :

’’ایک نئے امریکی اسلام کی جڑیں مسلمانوں کےاندرہندوستان سے شروع ہونے والی احمدیہ تحریک میں تلاش کی جا سکتی ہیں یہ جماعت جدیدیت پسند اصلاح کی وجہ سے معروف ہے۔ انیسویں صدی میں ہی احمدیوں نے دنیا کے مغربی نصف کرہ میں تبلیغ کرکے اسلام کو ایک عالمی مذہب کے طور پر زندہ کرنے کے منصوبوں پر کام شروع کردیا تھا۔

گو اس جماعت نے 1920 ءتک امریکہ میں اپنا کام باضابطہ طور پر شروع نہیں کیا تھا، لیکن اس جماعت کامثالی جذبہ ایک سفید فام امریکی شہری محمد الیگزینڈر رسل ویب کی سرگرمیوں میں شامل ہوچکا تھا جو عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ(World’s Parliament of Religions) میں اسلام کے بنیادی نمائندے تھے۔‘‘

مذاہب کی یہ مذکورہ بالا پارلیمنٹ 1893 ءمیں شکاگو میں منعقد ہوئی تھی اوراس کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ جب اس سفید فام امریکی مسلمان نے اسلام میں تعدد ازدواج کی اجازت کے موضوع پر بات کی تو حاضرین و سامعین کی طرف سے اس کی سخت حوصلہ شکنی کی گئی۔یہ صاحب دین اسلام کے دیگر پہلوؤں کا تعارف کرانے میں کامیاب ہوئے اور اپنی گزارشات کو درج ذیل الفاظ پر ختم کیا:

’’دنیا میں دینِ اسلام جیسا کوئی دوسرا نظام نہیں ہوگا جس کو نام نہاد مورخین، مصنفین اور اہل صحافت نے دانستہ اور متواتر غلط رنگ میں پیش کیا ہو۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ امریکیوں (۔۔۔)کو حقائق کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے اور جب اہل امریکہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو میں سمجھتا ہوں کہ تب ہمارے پاس بھی ایک آفاقی نظام ہوگا جو ہمارے سماجی نظام کو اس مقام تک پہنچا دے گا جہاں اس کو ہونا چاہئے۔‘‘

رسل ویب نے یہ نکات ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں اٹھائے جہاں اسلام کے خلاف نفرت کی ایسی تند و تیز ہوائیں چل رہی تھیں کہ کسی کے لئے ایک قدم اٹھانا بھی مشکل تھا۔ کیونکہ امریکی لوگ عموماً اسلام کو ’’پراسرار، غیر متبدل اور نہایت کمتر‘‘دین کے طور پر دیکھتے تھے۔

دینِ اسلام کے بارے میں افسوسناک حد تک منفی اور متکبرانہ امریکی نقطہ نظر کا خلاصہ ایک مزاح نگار کے الفاظ یوں ابھرتا ہے، جو پارلیمنٹ آف ریلیجنز کے اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا اوراس نے مسلمانوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا:

’’اتوار کی صبح میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جوتوں کے جوڑے سے بھی زیادہ سیاہ تھے [۔۔۔] آپ انہیں دیکھ کر یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ نماز میں ہیں یا کتوں کی لڑائی چل رہی ہے۔ عرب معاشرے میں یوں بھی کتوں کی لڑائی عام ہے۔ ‘‘

تب رسل ویب نے ایک خاص نکتے کی نشاندہی کی کہ اگر اس موضوع پر عوام کو درست تعلیم سمجھادی جائے تواہالیانِ امریکہ کی فکرونظر میں اسلام کی تصویرہی بدل جائے گی ۔ اور وہ اہم نکتہ یہ تھا کہ اسلام تلوار کا مذہب نہیں ہے۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ نہ تب جہاد کا مطلب تیراور تلوار سے لڑنا نہیں تھا اور نہ اب ایسا ہے بلکہ پرامن طریق پر باہمی بات چیت کرنا ہی اصل حل ہے ۔

یقینا یہ حضرت بانیٔ جماعت علیہ السلام کی لائی ہوئی درست اسلامی تفہیم کا سب سے بڑا اور قیمتی ترین زیور تھا، اور آج تک ہے۔ رسل ویب کا تعارف اسلام سے حضرت مرزاغلام احمدقادیانی علیہ السلام کے ذریعے ہواتھا، جیسا کہ اس نے آپؑ کے نام اپنے خط میں واضح طور پر لکھا:

’’آپ کا اشتہار پڑھنے کے بعد میرے دل میں ایک خیال پیدا ہوا جس کو میں بغرض غور و تفکر حضور پیش پیش کرونگا نہ صرف معقولی طور سے بلکہ ایمانی جوش کی تحریک سے یقین کرتا ہوں کہ آپ جو روحانی ترقی میں میرے سے بڑھ کر اور خدا کے قریب تر ہیں مجھ کو ایسی طرز سے جواب دیں گے جو کہ افضل و انسب ہو۔۔۔

’’میرے قیاس کے موافق آج کل عام لوگوں کے خیالات ہمیشہ کی نسبت قبولیت دین اسلام و مذہب بدھ کے لئے زیادہ تر لائق و قابل ہورہے ہیں اور یہ ممکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے طفیل سے میرا یہ مذہب میرے ملک میں اشاعت پاجاوے ۔میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ آپ شوق و ذوق کے ساتھ مصروف ہیں۔ میں کسی دلیل سے شبہ نہیں کرسکتا کہ آپ کو خدا نے بغرض اشاعت نور حقّانیت مشرّف بالہام کیا ہے۔۔۔‘‘

(شحنہ حق، روحانی خزائن جلد دوم، صفحہ :439تا 441)

یہ وہ باتیں ہیں جو رسل ویب نے اپنے خط محررہ 24 فروری 1887 ء میں لکھیں اور اس خط کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 4 اپریل 1887 ءکوتحریر فرمایاتھا۔ اگرچہ رسل وب کبھی بھی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے حلقہ بیعت میں داخل ہوکر آپ کا باقاعدہ پیروکار تو نہیں بنالیکن مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساتھ رسل ویب کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خط و کتابت نے اسکے قبول اسلام میں کلیدی کردار ادا کیاتھا۔اور امریکہ اور ہندوستان کے مابین ہونے والی یہ خط و کتابت پارلیمنٹ آف ریلیجنز (1893)کے برسوں سے تھی جب رسل ویب نے امریکی عوام کو اسلام یعنی جماعت احمدیہ مسلمہ سے متعارف کرایا تھا۔

پس مبلغ احمدیت حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی امریکہ میں آمد ایک ایسے وقت پر ہوئی جب عمومی طور پر امریکی ذہن دینِ اسلام کو حقیر سمجھتا تھا اور اس زمانہ میں افریقی نژاد امریکی شہری بطور خاص داخلی طور پر اپنی شناخت کے بحران سے نبردآزما تھے۔ یا جیسا کہ لوگن (Logan)نے کہا تھاکہ یہ افریقی امریکی نسل اپنی شناخت کی تلاش اور اپنے وجود کو عنوان دینے میں انتہائی مایوسی اور پستی کے درجے کو پہنچ رہی تھی۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کے ذریعے امریکہ میں پھیلنے والے احمدیہ مشن کی اخلاقیات کا خلاصہ جین سمتھ(Jane Smith) کے الفاظ میں یوں کیا جا سکتا ہے:

’’امریکہ میں پہلے احمدی مبلغ حضرت مفتی محمد صادق 1920ء میں پہنچے تھے۔ انہوں نے امریکی اسلام کے تحفظ کے لیے ایک سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور 1921 میں رسالہ ’’مسلم سن رائز‘‘ کی اشاعت شروع کی۔۔۔۔

’’احمدی مبلغین نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں اس حملہ کا دفاع کرنے میں اہم کردار ادا کیا جسے وہ امریکی معاشرے کی صریح نسل پرستی کے طور پر دیکھتے تھے۔‘‘

(Jane I Smith, Islam in America, p 74, Columbia University Press, New York, 1999

الغرض احمدیہ مشن نے اہل امریکہ کی فہم وفکر میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش جاری رکھی،اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم کے مطابق اسلام کی پُرامن تعلیم کا پرچار کیااور امریکی عوام اور معاشرے میں پائی جانے والی نسل پرستی کے گہری خلیج کو درست کرنے کی کوشش کی۔

معاصر مورخین جماعت احمدیہ کی ان کاوشوں کو امریکہ کی جدید تاریخ میں ایسی ابتدائی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے تحت اس ’’نئی دنیا تک رسائی کے لئے، احمدیت کی تعلیم و پیغام نے بہت سے لوگوں کے لیے نئی روحانی ترقیات کے دروَا کردیئے تھے۔‘‘

(From India to America and Back Again, Cornell University Press, www.cornellpress.cornell.edu (accessed 4 October 2022))

مصطفیٰ بایومی(Moustafa Bayoumi) امریکہ میں احمدیہ مشن کی دلچسپ تاریخ کوبطور خاص غیر معمولی زاویہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ مبلغین مغربی دنیا میں پہنچ کر وہاں کی مقامی آبادیوں کو روحانی طور پر مسخر کرنے میں غیر معمولی کامیابیاں سمیٹ کر ممتاز خدمات بجالانے والے تھے۔

(Moustafa Bayoumi, East of the Sun (West of the Moon): Islam, the Ahmadis, and the African America, in Journal of Asian American Studies, Vol 4, No 3)

مصطفیٰ بایومی نے اُس وقت جماعت احمدیہ کے سربراہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمدرضی اللہ عنہ کے پیغام سے ایک اقتباس لیا ہے جو حضورؓ نے اہل امریکہ کے لیے بھیجا تھا اور’’ دی مسلم سن رائز‘‘ کے پہلے شمارے میں طبع ہوا تھا۔ اس مکمل پیغام کو پیش کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ براعظم امریکہ کے لیے احمدیوں کے پختہ ارادوں کا آئینہ دار ہے:

’’امریکی سرزمین کوفتح کرکے وہاں نوآبادیات کا آغاز کرنے والے علمبرداروں کو ہمیشہ بہت عزت اور احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ لیکن ان لوگوں کا کام وقتی تھا۔ مگر اب میرے پیارے بھائیو اور بہنو! اللہ تعالیٰ نے آپ کو مغربی دنیا کی روحانی تسخیر کا علمبردار بنایا ہے۔ اگر آپ اسی محبت، ولولے، خلوص اور وفاداری سے کام کرتے چلے جائیں گے جس طرح اُن پہلے لوگوں نے کیا تھا، تو آپ کا مقام ومرتبہ اور عزت و ناموس ان سے بڑھ کر ہو گی، کیونکہ آپ کو آخرت میں اجر اور اللہ کی خوشنودی، ایک بلند شان اورغیر معمولی عزت ملے گی۔ جس کا اندازہ اس دنیا میں کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ مرزا محمود احمد‘‘

https://muslimsunrise.com/past-issues/(The Moslem Sunrise, July 1921, Vol 1, No 1, USA (Capitalisation and punctuation as in original and not the author’s))

یہ پیغام واضح طور پر جماعت احمدیہ کا منشور اور امریکہ میں جماعتی منصوبوں کی اساس اور عزائم بیان کررہا ہے۔ الغرض جماعت احمدیہ کی تمام تر کوششیں رو زاوّل سے ہی مقامی آبادی کی روحانی فلاح و بہبود کے لئے وقف تھیں اور اس پُرامن مذہبی جماعت کے کوئی بھی سیاسی مفادات اور عزائم نہیں تھے۔یوں جماعت احمدیہ کی تبلیغی کو ششوں کو نہ تو تب ’’سیاسی اسلام‘‘ کہا جاسکتا تھا اور نہ ہی آج اس جماعت کے لئے ایسا کہنا مناسب ہے۔ سانحہ گیارہ ستمبر سے دہائیاں پہلے بھی اہل امریکہ کے ذہن میں اسلام کی یہی تصویر راسخ تھی جو اس سانحہ کے بعد کے دور میں امریکہ اور مسلم تعلقات کے متعلق سمجھی جارہی ہے کہ اسلام اہل مغرب کے خلاف ایک بنیادپرست اور انتہائی سرگرم سیاسی قوت ہے۔

حضرت مفتی صادق صاحب ؓ نے اس غلط تاثر کو زائل کرنے کے لیے اپنے رسالہ ’’ دی مسلم سن رائز‘‘ کا بھرپور استعمال کیاکیونکہ آپؓ ذاتی طور پر بھی اسی متعصبانہ سلوک کا شکار ہو چکے تھے جب امریکی بندرگاہ پر پہنچنے پر، آپ کو ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہونے کی وجہ سے امریکی سرزمین پر داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا جوتعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے۔ اس عجیب وغریب فیصلے کے خلاف آپ کی اپیل کی سماعت پر متعلقہ ملکی حکام نے کئی ہفتے صرف کئے تب جاکر آپ کو حراست سے رہا کرکے امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔ (Turner, p 115)

پس ایک ایسے معاشرے میں جہاں نسل پرستی سب سے بڑی برائی بن چکی تھی، وہاں احمدیہ مشن ’’بلاشبہ بیسویں صدی میں ریاستہائے متحدہ میں اسلام کی تاریخ کی سب سے اہم تحریکوں میں سے ایک کے طور پر ابھرا، اور اس نے امریکی عوام کے لیے اسلام کا پہلا ہمہ نسل تصور نہایت کامیابی سے پیش کیا(ایضاً، ص 110)

احمدیہ مشن نے علی الاعلان اظہار کیا کہ اس کے مقاصدعالیہ میں سے ہے کہ تلوار کا جہادموقوف ہوچکا، اس لئے اب دلیل او رقلم کا زمانہ ہے۔ ’’ دی مسلم سن رائز ‘‘کی اشاعت نے امریکی ذہن میں اسلام کو دوبارہ متعارف کرانے کی ایک نئی لہر کو جنم دیا، جیسا کہ ٹرنر نے لکھا ہے:

’’احمدیوں نے امریکہ میں اسلامی لٹریچر کی بھرپور اشاعت کی۔سیاہ فام اور سفید فام امریکیوں کو احمدیت میں داخل کیا۔ احمدیوں نے ذرائع ابلاغ میں پیش کی جانے والی اسلام کی غلط تشریح کا خوب جم کر مقابلہ کیا۔ مساجد اور دارالمطالعہ بنائے اور قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔‘‘( ایضاً)

لیکن عوام الناس میں مقبول اسلام کے اس ہمہ نسلی پہلو کو متعارف کروانا احمدیہ مشن کے لیے ہرگزایک آسان سفر نہیں تھا۔ گو حضرت مفتی صادق صاحب ؓ امریکیوں کے سیاہ فام اور سفید فام دونوں نسلی گروہوں سے ایک قابل ذکر تعداد کو احمدیت میں داخل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، لیکن آپؓ کو اہل امریکہ کواسلام بطور مذہب ان کے معاشرے کے ایک حصے کے طور پر قبول کرانےمیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ؓ کی ذہنی کیفیات کا اندازہ ’’دی مسلم سن رائز ‘‘کے لئے لکھے گئے ان ادارتی کالموں سے لگایا جاسکتا ہے جو آپؓ نے اس اہم رسالہ آغاز کے چند مہینوں میں لکھے تھے۔ الغرض آپؓ کو امریکی معاشرے کی طرف سے دین اسلام کے لیے ایک سخت داخلی مزاحمت کا سامنا تھا:

’’تب امریکی ہونے کا مطلب ہی یہی تھا کہ وہ انسان یہودی عیسائی تجربات اور ورثے کا امین ہوگا۔۔۔۔۔ اور مذہب اسلام کی کسی بھی طرح سے قابل قدر امریکی معاشرے کی طرز زندگی سے مطابقت نہ تھی۔‘‘

(C Eric Lincoln, The Muslim Mission in the Context of American Social History, in African American Religious Studies: An interdisciplinary Anthology, Duke University Press, Durham, 1989)

تب اصل زمینی صورتحال سخت مخالف تھی لیکن جماعت احمدیہ کے مبلغ پیچھے ہٹنے کے لیےبھیجے ہی نہیں گئے تھے۔ حضرت مفتی صادق صاحب ؓ نے اپنی امریکہ آمد کے موقع پر ہی یہ بات امیگریشن حکام پر واضح کردی تھی جب یہ حکام مفتی صاحب کو واپس ہندوستان بھیجنے کے لئے بہانے ڈھونڈ رہے تھے ۔ پس اہل امریکہ کی اساسی پہچان ان کی ’’یہودی عیسائی‘‘ شناخت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے،احمدیہ مشن نے امریکہ میں عیسائیت کے بارے میں سچائی کو متعارف کرانے پر توجہ مرکوز رکھی اور اس حوالہ سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے درست اور حقیقی مقام و مرتبہ سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنا جاری رکھا کیونکہ یہ امور جماعت احمدیہ کے عقائد اور تبلیغ کا ایک اہم اور بنیادی پہلو ہیں۔

رسالہ ’’مسلم سن رائز‘‘نے قدامت پسند (orthodox) عیسائیت کے عقیدہ بابت یسوع مسیح کی متبادل تفہیم کو عام کرنے کے مشن کا آغاز کیا کیونکہ جماعت احمدیہ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی تھی۔ آپ واقعہ صلیب میں زندہ بچ گئے تھے اور اپنے خداداد مشن کی تکمیل اور تبلیغ کے لیے ایک عرصہ دراز تک زندہ رہے تھے۔ اوراس کے بعد آپ ؑ نے طبعی عمر گزار کر وفات پائی اور مدفون ہوئے۔

پس جماعت احمدیہ کے پیش کردہ اس نظریہ حیات و وفاتِ مسیح نے بہت سے عیسائیوں کو متاثر کیا، اور یوں ایک حیرت انگیز تعداد میں عیسائیت کے پیروکار احمدیت کی طرف راغب ہونے لگے۔رسالہ’’ مسلم سن رائز ‘‘ان نئے مبائعین کے اسماء اور ان کی امریکہ میں احمدیہ مشن کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت کو شائع کرتا تھا۔

انہی دنوں سنکلیئر اپٹن (Sinclair Upton)نے ایک ناول’’ They call me carpenter ‘‘لکھا جس کا مرکزی کردار یسوع مسیح کے طور پر دکھایا گیا جو اس ’’جدید دنیا‘‘ میں واپس آتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اس کی پرستش کرنے والے تو لاکھوں کی تعداد میں ہیں،مگر اس ’’جدید دنیا‘‘ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس ناول کو کتابی شکل میں شائع کرنے سے پہلے The Hearst’s International نے جولائی سے اکتوبر 1922 تک بالاقساط شائع کیا تھا۔

مصنف سنکلیئر کا ماننا تھا، جیسا کہ اس نے اپنی دیگر تصنیفات میں بالکل واضح طور پرلکھا ہے کہ یسوع محض ایک انسان نا کہ خدا کا بیٹا۔ رسالہ ’’ دی مسلم سن رائز‘‘ نے اس مصنف سنکلیئر کے تحریرات پر تبصرہ شائع کرتے ہوئے لکھا اور بتایا کہ اب تو سفید فام امریکی بھی یسوع مسیح کے متعلق کٹر عیسائی عقائد سے بیزار ہیں۔

لگتا ہے کہ احمدیہ مشن نے مغربی دنیا کی نبض کو بالعموم اور امریکی ذہن کو بالخصوص پڑھ لیا تھا۔اور اس نے ’’وقت کی سب سے بڑی ضرورت‘‘ جیسے عناوین کے تحت مضامین شائع کرنا شروع کردیئے تھے جن میں بتایا گیا کہ کس طرح عیسائی پادری اورمناد سبھی ایک ’’مناسب روحانی پیشوا‘‘کے انتظار میں ہیں اور لوگوں کو بتایا کہ ’’آقا تو دروازے پر ‘‘آن پہنچا ہے اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ اسے پہچاننے کے لئے اپنی ’’آنکھیں کھولیں اور اسے شناخت کریں۔‘‘

1923 میں جب حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ امریکہ سے واپس رخصت ہوئے اس وقت تک اسلام کا احمدیہ پیغام امریکی ذہن میں خوب نقش ہو چکا تھا۔

الغرض امریکہ میں احمدیہ مشن نے اسلام کے متعلق گمراہ کن پراپیگنڈا کی اصلاح اور ازالہ کرنے، مسیح کے آمد ثانی کے بارے میں سچائی کی تبلیغ اور امریکی عوام کو اسلام احمدیت کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ احمدیہ مشن نے ان مقاصد کے حصول کے لیے بہت سی کتابیں تیارکرکے شائع کیں اورعوام الناس کے نام کھلے خطوط شائع کیے اور اس جہاد بالقلم کا دائرہ ایک کثیر امریکی آبادی میں پھیلائے رکھا۔ جماعت کی طرف سے مساجد بنائی گئیں اور ان مساجد میں مبلغین کو مقرر کیا گیا تاکہ امریکی لوگوں کے کسی بھی سوال کا جواب دیا جا سکے۔

وقت کا دھارا چلتا رہا اور پھر سانحہ گیارہ ستمبر رونماہوگیا۔یوں اسلام کے خلاف گمراہ کن پراپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے جماعت احمدیہ کو مزید پرزور کام کرنا پڑا۔ قصہ مختصر، جماعت احمدیہ کا امریکہ میں مشن روز اوّل سے وہی رہا بس اب ان جماعتی کوششوں کا دائرہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلنے کا وقت آگیا تھاکیونکہ اسلام کے خلاف منفی اور بے سروپاباتیں پھیلانے کے اس محاذ میں جہاں ملک کے روایتی ذرائع ابلاغ نے نئی حدوں کو چھونا شروع کردیا تھا وہاں سوشل میڈیا کی مدد سے مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے اور زہریلا پراپیگنڈا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی تھی۔

پس 2001 میں گیارہ ستمبر کو ہونے والے حملوں نے مغربی دنیا کو اس راہ پر ڈالا کہ وہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے دین اسلام کے متعلق اپنے نظریات اور پالیسی پر نظرثانی کرسکیں ۔یوں اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر دیکھا اور مشتہر کیا گیاجو تشدد کو بھڑکاتا اور فساد کی راہ کا داعی ہے ۔پس سفاکیت اور غیرمسلموں سے غیر انسانی، بہیمانہ سلوک کو اسلام کی نمائندہ خصوصیات کے طور پر پیش کیا گیا ۔ اسلام کو ایک سیاسی قوت کے طور پر دیکھا اورپرکھا گیا، اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے مشہور کیا گیا کہ اسلام کا مقصد ہی پوری دنیا پربالعموم اور مغربی ممالک پربالخصوص ہرجائز و ناجائز حربہ استعمال کرکے غلبہ اور اقتدار حاصل کرنا ہے۔

گیارہ ستمبر کے ان حملوں کے دو سال بعد حضرت مرزا مسرور احمدایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کوجماعت احمدیہ مسلمہ کی باگ ڈور سپرد ہوئی۔ تب تک گیارہ ستمبر کے حملوں کے نہ صرف زخم ابھی تازہ تھے، بلکہ اسلام کوناحق بدنام کرنے کی مہم بھی عروج پر تھی۔ اسلام کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا تھا،اور اسلام پر یہ نیا حملہ صلیبی دور کی خونریز جنگوں سے بھی کئی لحاظ سے بھاری تھا۔

امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امام جماعت احمدیہ عالمگیر

جماعت احمدیہ نے اپنے امام حضرت مرزا مسرور احمدایدہ اللہ الودود کی قیادت میں دین اسلام کے خلاف ان سخت توہین آمیزحملوں کے دفاع کا فرض خوب نبھایا۔ حضورایدہ اللہ نے دنیا پر واضح کردیا کہ ان دہشت گردوں کا ’’اسلام کی تعلیم سے۔۔۔ کوئی بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ :29 جولائی 2016)اسی خطبہ جمعہ میں آپ نے دنیاکو بتایا کہ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے جس نے تشدد اور دہشت گردی کو ہوا دی ہے بلکہ یہ تو بعض مسلمان سیاسی لیڈر اوراسلام کے نام نہاد مذہبی سکالرز ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آنکھیں چرا کر اپنی قوموں کو تباہی اور بربادی کے راستے پرڈال رہے ہیں۔

اسی طرح سنہ 2012ء میں Capitol Hillمیں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے،آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی واحد سپر پاور کو یاد دلایا کہ ’’خدا تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ انسانوں کی قومیت یا نسلی پس منظرتو محض شناخت کا ذریعہ ہیں، اور یہ امور نہ تو کسی کو حقدار بناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے لئے جائز بنادیتے کہ وہ دوسروں پر کسی بھی شکل میں برتری کا احساس رکھے۔ ‘‘

امریکی کانگریس کے عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے، حضور ایدہ اللہ نے انہیں بہت واضح الفاظ میں کھول کر یاد دلایا کہ ’’تمام لوگوں کو بغیر کسی امتیاز اور تعصب کے مساوی حقوق ملنے چاہئیں‘‘اور یہ کہ ’’امریکہ کوحقیقی انصاف سے کام لیتے ہوئے دنیا میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘

تقریباً ایک صدی کی مسلسل کوششوں کے بعد،جماعت احمدیہ کے پیش کردہ پیغامِ اسلام کا اب امریکی قوم نہایت گرمجوشی سے خیرمقدم کررہی ہے۔

حضورایدہ اللہ کے 2012 میں امریکی ایوان نمائندگان کے دورے کے موقع پر، آپ کے اعزاز میں جو قرارداد منظور کی گئی،اس میں لکھاگیا:

’’ہم تقدس مأب،جماعت احمدیہ مسلمہ کے عالمی روحانی اور انتظامی سربراہ، حضرت مرزا مسرور احمد کا واشنگٹن ڈی سی میں استقبال کرتے ہیں اور عالمی امن، انصاف، عدم تشدد، انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور جمہوریت کےواسطے آپ کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ ‘‘

جماعت احمدیہ کی امریکہ کی عوام تک پرامن اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوششوں کی اس قدردانی اور اس گرمجوشی نے جماعت احمدیہ کو اپنی کوششوں کو مزید بڑھانے کی ترغیب دی۔ امریکہ کے بہت سے قصبوں اور شہروں کے افق پر مساجد کے مینار نظر آناشروع ہوگئے۔ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مواقع پر امریکہ کے طول و عرض کے دورہ جات فرمائے۔ آپ ان بستیوں کو برکت بخشے ہوئے وہاں تشریف لے جاتے اوروہاں مساجد کے سنگ بنیاد رکھتے اور مساجد کا افتتاح فرماتے۔ ان تقریبات میں ان علاقوں کے مقامی حکام سے لے کر وفاقی حکومت تک کے معززین شریک ہوتے، اور جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی طرف سے پیش کئے گئے اسلام کے پرامن پیغام کوسنتے اور اسی پیغام کی سچائی اور معقولیت کا برملا اعتراف اور اظہار کرتے ۔

ابھی حال ہی میں، امریکی قوم نے 2 ریاستوں میں جماعت احمدیہ کی دو نئی مساجد کی تعمیر اور افتتاح کا منظر دیکھا ہے: ایک ریاست Illinoisمیں زائن کی ’’مسجد فتح عظیم‘‘ اور دوسری ریاست ٹیکساس میں نئی تعمیر ہونے والی مسجدبیت الاکرام ہے۔

زائن میں مسجد ’’ فتح عظیم ‘‘کے افتتاح کے موقع پر ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے، حضور ایدہ اللہ نے جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کردہ اسلام کے پیغام کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’ہمارا واحد مشن اور ہماری واحد خواہش محبت کے ذریعے بنی نوع انسان کے دلوں کو جیتنا اور لوگوں کو اللہ تعالی کے قریب لانا ہے۔ تاکہ اس کے سچے بندے بن جائیں اور ایک دوسرے کا حق ادا کریں۔‘‘

خداتعالیٰ کے حضور اپنی اس دعا کے ساتھ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ جماعت احمدیہ کی امیدوں کا مزکر اوراس کا نصب العین غیر متزلزل ہے۔

’’ جماعت احمدیہ مسلمہ کا یہ اولین مقصد ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو روحانی نجات کی راہ پر گامزن کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام لوگ بلا تفریق ذات، عقیدہ یا رنگ و نسل خیر سگالی اور ہم آہنگی کے جذبے کے ساتھ اور حقیقی امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کریں۔‘‘

امریکی شہر زائن کے میئر Hon Billy McKinney نے حضرت مرزا مسرور احمدایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہتے ہوئے جماعت احمدیہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا کہ

’’ تقدس مآب کی طرف سے رہنمائی نصیب ہونا بہت ہی باعث برکت ہے، جماعت احمدیہ امن، انصاف، عالمی انسانی حقوق اور انسانیت کی خدمت کے پیغام کی علمبردار بن کر تمام مذاہب کے لوگوں تک پہنچتی ہے۔ پس میں جماعت احمدیہ کی شاندار خدمات پر شکر گزار ی کے قلبی جذبات رکھتا ہوں اور ہم زائن شہر کی چابی تقدس مآب خلیفة المسیح کو پیش کرتے ہیں۔‘‘

اسی طرح ریاست ٹیکساس میں Allen میں مسجد بیت الاکرام کے افتتاحی استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے ریاست Texas, کی 10th Districtسے امریکی کانگریس کے رکن منتخب ہونے والے Michael McCaul نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اور سب حاضرین پر مشتمل معززین کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

’’یہ احمدی مسلمان ہی تھے جو نائن الیون کے بعد امریکہ کے لیے کھڑے ہوئے ۔ یہ احمدی مسلمان ہی تھے جو مذہب کی آزادی کے لیے کھڑے ہوئے۔۔۔ اس لیے میں اس مسجدکی تعمیر کے موقع پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔۔۔۔

تقدس مآب کے ساتھ، میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات، جماعت احمدیہ کے عقائد، عہد نامہ جدیداور اناجیل کے موضوع پر بات کی ہے۔۔۔ میرے خیال میں ہم احمدیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘‘

یاد رہے کہ ان مواقع پر خطاب کرنے والے معززین کے استقبالیہ کلمات کے باوجود، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ان بنیادی خدشات کو بخوبی سمجھتےہیں جو امریکہ کے مقامی باشندوں کو اسلام کے بارے میں دامن گیر رہتے ہیں،کجا یہ کہ ان مقامی لوگوں کے عین پڑوس میں ایک مسجدہی تعمیر کردی جائے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نہایت سادہ اور واضح الفاظ میں اس مسئلے کو حل کرتے ہوئے فرمایا:

’’درحقیقت، جب ہم نے دوسری جگہوں پر مساجد بنائی ہیں، تب کچھ لوگوں نے اپنے خدشے یا تحفظات کا اظہار کیا کہ نئی مسجد اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی ان کے قصبے یا شہر کے امن و سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی اس قسم کے خدشات رکھتا ہے تو میں انہیں فوری طور پر یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ایک مخلص مسلمان جو اسلام کی تعلیمات کو سمجھتا ہے اور اس کی قدر کرتا ہے وہ کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جس سے اسلام بدنام ہو یا اسلام کے نام پر حرف آئے، ایک احمدی کبھی بھی غیر مسلموں کے لیے غم یا پریشانی کا باعث نہیں بن سکتا ہے۔ ‘‘

الغرض حضورانور ایدہ للہ نے اہالیانِ ٹیکساس کوجو پیغام دیا وہ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں کا خلاصہ سے کم نہیں ہے۔ فرمایا:

امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امام جماعت احمدیہ عالمگیر

’’ایک سچااورحقیقی مسلمان وہ ہے جو دوسروں کا بوجھ اٹھائے اور ان کے دکھ اور غم کو اس طرح محسوس کرے جیسے یہ اس کا اپنادکھ ہو۔ لہٰذا تمام بنی نوع انسان کے لیے ہمدردی کے جذبے کو دل میں جگہ دیتے ہوئے اور اس حقیقی فہم کے ساتھ ہم مساجد بناتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت عالمگیر ہے۔ ‘‘

اختتامیہ:

ایک صدی پہلے شروع ہونے والا جماعت احمدیہ کا سفر مسلسل جاری ہے۔ ہم مساوات، امن، انصاف قائم کرنے اور سب سے بڑھ کرانسانوں کو ان کے خالق سے تعلق جوڑنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ پس امریکہ میں جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکے وہ پرزور الفاظ کتنے ہی سچے ثابت ہوئے جب آپ ؓ کو ایک امیگریشن افسرنے بتایا کہ آپ کو امریکہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں مل سکتی اور آپ کو اب واپس بھیج دیا جائے گا،

 اس پر مفتی صاحب نے اسے جواب دیا: ’’میں یہاں سے واپس جانے کے لیے نہیں آیا ہوں‘‘۔

یادرہے کہ انگلستان سے امریکہ کے لئے روانگی کے موقع پر حضرت مفتی صادق صاحب نے لیورپول میں رات کے قیام کے دوران اسٹیمر میں سوار ہونے سے پہلے امریکہ کے لیے خواب میں یہ الفاظ دیکھے تھے:

’’فتح محمد بہادر‘‘

جس کا مطلب ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح ہوگی اور آپ ﷺ ہی عظیم ہیں۔

پس یہ نوشتے بالآخر حضرت سیدنا مرزا مسرور احمدخلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت دور خلافت میں پورے ہوتے نظر آتے ہیں جب امریکہ نے اسلام کے پیغام کے لیے اپنا دل کھول دیا ہے۔

لہٰذا،سانحہ گیارہ ستمبر سے پہلے بھی اور بعد میں بھی دین اسلام کاحقیقی نمائندہ گروہ، یعنی جماعت احمدیہ کا مشن امریکی معاشرے میں مستقل طور پر قائم اور سرگرم عمل ہے۔ اسلام کے متعلق گمراہ کن باتوں کا جواب دینے اور لوگوں کو راہ نجات کی طرف بلانے میں جماعت احمدیہ کی ثابت قدمی اور انتھک کوششوں سے وہ پھول کھلنا شروع ہوئے ہیں جو یقینا ایک نہ ایک دن مادیت کے تاریک افق پر خوش رنگ بہار یں لائیں گے۔

یوں روشن اورخوش کن مستقبل کے ان مناظر کے ساتھ ہم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس کی خدمت اقدس میں کامیاب دورہ امریکہ پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

خلافت احمدیہ زندہ باد!

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button