تاریخی دستاویزات بابت میموریل برائے رخصت جمعہ (قسط نمبر3)

(ابو حمدانؔ)

(حضرت خلیفة المسیح الاول ؓبنام وائسرائے ہند برموقع تقریب تاج پوشی شہنشاہ جارج پنجم)

کوئی انجمن یا جماعت ایسی ہو جو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے کہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے

گزشتہ اقساط میں ہم نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی جانب سے جمعہ کی رخصت کی کوشش اور پھر بعض علماء کی وجہ سے اس میں حائل رکاوٹوں کا ذکر کیا تھا۔ بعدازاں کس طرح حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کے دور میں اس بابرکت کام کا احیا ہوا اور آپ کی جانب سے ایک میموریل وائسرائے کی خدمت میں بھجوایا گیا۔

مسلمان اخبارات اور عام مسلمانوں نے عموماً اور علی گڑھ تحریک سے وابستہ لوگوں نے خصوصاً اس ضمن میں اپنی اپنی آراءکا اظہار کیا۔ علی گڑھ تحریک کا عمومی نظریہ یہ تھا کہ یہ میموریل دربار تاج پوشی کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش ہو۔ (تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ380) البتہ تحریک علی گڑھ کے آرگن اخبار علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ کا نظریہ اس بابت کچھ منفرد نظر آتا ہے۔ چنانچہ حضور کے اس میموریل کی بابت اس کا موقف یہ تھا کہ اگرچہ میموریل بذاتہ اچھی کاوش ہے اور مناسب معلوم ہوتا ہے البتہ اسے وائسرائے کی خدمت میں بھجوانا کچھ ضروری نہ تھا۔

بہرحال حضرت خلیفہ اولؓ نے مناسب سمجھا کہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہی اسے بھجوایا جائے چنانچہ احمدی جماعتوں کو اس سے مطلع کردیا گیا کہ وہ اس معاملہ میں مسلم لیگ کی ہر طرح سےتائید و معاونت کریں۔ مسلم لیگ کے ریکارڈ میں آج بھی یہ دستاویزات موجود ہیں جن میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی جانب سےمسلم حلقوں کو اردو زبان میں لکھا گیا خط شامل ہے۔ اور آخر پر 4 صفحات پر مشتمل انگریزی زبان میں میموریل بھی موجود ہے جس کے آخر پر بھی حضور کا نام درج ہے۔ جو قسط نمبر 2 میں شائع کیےجاچکے ہیں۔

ان کے علاوہ حضور ؓکا مسلم لیگ انتظامیہ کو لکھا جانےوالا انگریزی زبان میں Covering Letter بھی موجود ہے جس میں اس بات کا مکرر ذکر ہے کہ اگر اس میموریل کا حضور کی جانب سے پیش کیےجانے پر کسی کو اعتراض ہو تو حضور یہ معاملہ کسی اور کے سپرد کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ پھر ان کے ساتھ خواجہ کمال الدین صاحب کا بھی ایک خط موجود ہے جو انہوں نے حضور کے خط کے ہمراہ مسلم لیگ آفس میں بھجوایا تھا جس میں اس بات کا اظہار ہے کہ اہم مسلم تنظیموں کو بھی اس کارخیر میں شامل کیاجانا چاہیے۔نیز یہ کہ مسلم لیگ ہی کے فورم سے مسلمانوں کی ایک آواز بلند ہونی چاہیے۔چنانچہ یہ خط بھی مسلم لیگ کےریکارڈ کا حصہ ہے۔حضور ؓنے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جہاں تمام مسلمان لیڈرز کو اس بات کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی وہیں اس بات کا بھی بلا تردد اظہار فرمایا اور یہ دعوت دی کہ ’’ یہ غرض نہیں کہ ضرورہم ہی اس کو پیش کرنے والے ہوں۔چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل میں یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے ہم نے اسے پیش کردیا ہے اگر کوئی انجمن یا جماعت ایسی ہو جو صرف اس وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق نہ کرے کہ یہ میموریل ہماری طرف سے کیوں پیش ہوتا ہے تو ہم بڑی خوشی سے اپنے میموریل کو گورنمنٹ کی خدمت میں نہیں بھیجیں گے بشرطیکہ اس کے بھیجنے کا کوئی مناسب انتظام کرلیا جائے۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 379)انہیں خطوط کے ہمراہ ایک خط جناب محمد شفیع قائمقام سیکرٹری دفتر انجمن اسلامیہ کی طرف سے بھی موجود ہے جس میں حضور کی طرف سے میموریل کی تیاری سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔چنانچہ اس خط کے ساتھ ریزولیوشن بھی منسلک کیا گیا ہے۔ الغرض حضورؓ کی کوششوں سے اس کام کا آغاز ہوا اور آپ کے اس کام کو دیگر مسلمان تنظیموں کے سپرد کرنے کے بعد علی گڑھ تحریک اور مسلم لیگ نے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اگرچہ آئندہ ہونے والی کارروائیوں میں کہیں حضور کا نام تو شامل نہ تھا البتہ اس سے فرق بھی نہ پڑتا تھا کیونکہ حضور نے خود ہی اس بات کا اظہار بھی کیا تھا اصل مقصد پورا ہوجائے تو بھلے نام کسی کا بھی ہو کوئی حرج نہیں۔ سب سے زیادہ جس شخص نے اس مقصد کےلیے کوشش کی اور بھرپور تائید کی وہ شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی تھے جنہوں نے اس غرض کے لیے چندہ بھی جمع کرناشروع کردیا تھا۔ نیز انگریزی میں میموریل لکھواکے مسلمانوں کے دستخط کروائے اور ندوۃ العلماء کے اجلاس منعقدہ 8,7,6؍اپریل 1912ء میں ریزولیوشن پیش کرکے اس تحریک کی تائید میں ایک مختصر اور مدلل تقریر فرمائی۔ اس اجلاس میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمدصاحبؓ بھی موجود تھے۔ آپ نے بھی اس کی تائید کی اور یہ ریزولیوشن بالاتفاق پاس ہوگیا۔ چنانچہ اجلاس کی روئداد میں لکھا ہے۔’’جناب مرزا سمیع اللہ بیگ صاحب بی –اے- ایل- ایل- بی نے اس کی نہایت پُرجوش تائید کی اور جناب مرزا محمود احمد صاحب قادیانی کی تائید مزید کے بعد ووٹ لیے گئے اور تجویز مندرجہ بالا انہیں الفاظ کے ساتھ نہایت جوش کی حالت میں بالاتفاق پاس کی۔ ‘‘ (تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 381)

سید سلیمان ندوی کی کتاب ’’حیات شبلی ‘‘میں اس واقعہ کا تفصیلی ذکر ہے۔1913ء میں بنگال کونسل کی منظوری کے بعد گورنمنٹ آف بنگال نے نماز جمعہ کےلیے 2گھنٹے کی رخصت جاری کردی۔ چنانچہ مولانا شبلی نے اس پر ایک میموریل تیار کرایا جس میں بنگال گورنمنٹ کے فیاضانہ حکم کا حوالہ دے کر گورنمنٹ سے خواہش کی کہ جمعہ کو دو گھنٹہ کی تعطیل کی بجائے ایک بجے سے آدھے دن کی عام تعطیل دی جائے۔ یہ کارروائی ابھی جاری تھی کہ مولانا شبلی انتقال فرماگئے مگر اس میموریل کا یہ اثر ہوا کہ اکثر صوبوں میں ملازمین کو نماز جمعہ میں جانے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت مولانا صاحب اس کاوش پر کافی مصروف العمل تھے۔

اکثر فرماتے تھے کہ تعطیل کی کوشش تو ہورہی ہے مگرڈر یہ لگتاہےکہ کہیں تعطیل ہوجائے اورمسلمان نماز پڑھنے نہ جائیں توان کی کیسی جگ ہنسائی ہوگی۔ (ماخوذ از حیات شبلی از سیدسلیمان ندوی دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ یوپی اکتوبر2008ء)مختلف اخبارات ورسائل نے اس بابت تحریر کیا کہ مولانا شبلی نعمانی مسلمانوں کے لیےجمعہ کی چھٹی کے حصول کے لیے مصروف العمل ہیں۔ مسلم گزٹ لکھنؤ نے 26؍مارچ 1913ء کو لکھا کہ مولانا نے وائسرائے کو میموریل بھجوایا ہے اور مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ خرچ وغیرہ میں معاونت کےلیے اپنے دستخط بھی کریں۔اسی طرح مشرق اخبار گورکھ پور نے یکم اپریل 1913ء کو لکھا کہ مولانا نے جمعہ کےلیے 2 گھنٹے رخصت (11 بجے تا 1 بجے) کی درخواست کا اعادہ کیا ہے۔جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کسی اور اسلامی ملک میں موجود نہیں ہے۔

پھر حال ہی میں رسالہ معارف نے بھی لکھا کہ ’’انگریزوں کےدورحکومت میں علامہ شبلی نے … تعطیل جمعہ کے لیے بھی جدوجہد کی اور تعطیل منظور ہوئی۔‘‘ پھر موجودہ دور میں ہندوستان میں ایک دفعہ پھر سے جمعہ کی رخصت کے حصول کی بابت رسالہ لکھتا ہے کہ ’’اگر ہم اس سے سبق لیں تویقیناً آزاد ہندوستان میں ہم کامیابی سے ہم کنار ہوں گے، خاص طور سے تعطیل جمعہ کےلیے تحریک برپاکیاجاسکتی ہے۔‘‘(المعارف اعظم گڑھ فروری 2008ء /صفحہ135)

حضورؓ کے موقف کی تائید

1911ء کے اوائل میں جہاں یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ایسے معاملہ کو حکومت وقت کے حضور کون پیش کرے۔ وہیں حضوؓر کے اس میموریل کے بعد 1911ء آخر اور پھر 1912ء کے اخبارات کا احوال دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اخبارات نے پھر اسی موقف کی تائید میں لکھنا شروع کردیا تھا اور بارہا اپنی اشاعت میں اس ضرورت کا اظہار کیاجانے لگا تھا۔

مقامی اخبارات میں ذکر

لکھنو گزٹ 15؍مئی 1912 کو حکومت سے 2 گھنٹے رخصت کا مطالبہ کرنےکےساتھ ساتھ مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ ندوة العلماء کے گزشتہ سال کے فیصلے بابت رخصت جمعہ پر مختلف اجلاسات کا اہتمام کریں۔لکھنو گزٹ 15؍مئی 1912ء

Selections from the vernacular newspapers published in the Punjab,1912 ,Pg502;

البشیر اٹاوہ 18؍جون 1912 کو مسلمان کالج اور سکولوں کے الحاق کی بابت لکھتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی ساکھ بہتر کرنے کیلئے عدم توجگی کو ختم کرنا ہوگا نیز اس امر کا بھی ذکرکیاکہ تمام اسلامیہ کالجوں اور سکولوں کو اتوار کی بجائے جمعہ کی رخصت اپنانی چاہئیے۔البشیر (اٹاوہ) 18؍مئی 1912ء

Selections from the vernacular newspapers published in the Punjab,1912 ,Pg620;

مرادآباد سے نکلنے والے نیراعظم نے اس بات کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ اگر آزاد مسلم یونیورسٹی کی بابت فیصلہ جات میں مشکل کا امکان ہے تو مسلمانوں کو کم از کم اپنے بورڈنگ ہاؤس کی تعمیر کیلئے یہ فنڈز استعمال کرنے چاہئیں۔ نیز حکومت سے جمعہ کے روز 2 گھنٹے رخصت کی بھی درخواست کرتا ہے۔

نیّراعظم (مرادآباد)28؍جولائی 1912ء Selections from the vernacular newspapers published in the Punjab,1912 ,Pg548;

میرٹھ سے نکلنے والا تاجر اخبار بھی اس امر کی بابت لکھتا ہے کہ جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیے۔ابھی تک اس بابت خاطرخواہ انتظام نہیں کیا جاسکا کہ جمعہ کو مسلمانوں کے نزدیک اہمیت کے پیش نظر اسے تعطیل عام قرار دیا جاسکے۔نیز سرکاری دفاتر اور عدالتوں وغیرہ میں بھی مسلمانوں کو 2 گھنٹے رخصت دی جانی چاہیے۔تاجر اخبار میرٹھ 11؍اکتوبر1912ء

Selections from the vernacular newspapers published in the Punjab,1912 ,Pg922;

البشیر اٹاوہ 15؍اکتوبر 1912ء کو اس افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے جمعہ والے دن 2 گھنٹے کی رخصت کی بابت کوئی کوشش نہیں کی گئی۔لہذا مسلمانوں کو چاہئیے کہ اس تحریک کی بابت حکام بالا کو مکرر یادہانی کروائی جائےنیز مختلف اجلاسات ومجالس کے ذریعہ اس کو سپورٹ کیاجائے۔البشیر (اٹاوہ) 15اکتوبر1912ء /

Selections from the vernacular newspapers published in the Punjab,1912 ,Pg922;

قارئین! اگرچہ ان تمام اخبارات میں حضور کا نام حکمةً یا جان بوجھ کر نہ لیا جانا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ لوگ اس نیک اور مبارک کام کا سہرا جماعت احمدیہ کے خلیفہ سے منسوب نہ کرنا چاہتے تھے۔ اور اس سے کچھ خاص فرق پڑتا بھی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کا اصل کام تو مسلمانوں کے مسائل کا حل تھا جو اس نے بخوبی سرانجام دیا۔ رہی بات نام لینے یا لکھنے کی تو حضور نے تو خود ہی اپنے اس میموریل کو پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ انتظامیہ کو لکھے گئے مکتوب میں یہ واشگاف درج کردیا تھا کہ اگر کسی کو میری طرف سے پیش کرنے پر اعتراض ہے تو بھلے یہ کام کسی اور کے ہاتھوں ہوجائے، مگر ہوئے ضرور۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button