الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

سچی خدمت دل فتح کرلیتی ہے

مامورمن اللہ کی صداقت کا ایک قوی ثبوت اور نشان یہ بھی ہے کہ اس کے پیروکاروں میں خاص تبدیلی واقع ہو جاتی ہے جس کی تائید و تعریف غیر بھی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ20؍جنوری 2014ء میں مکرم محمد شفیع خان صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں دو واقعات بیان کیے گئے ہیں۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ چند برس قبل مَیں اپنا بجلی کا بل جمع کروانے بینک کی قطار میں اپنی باری کے انتظار میں کھڑا تھا۔ قطار میں مجھ سے اگلے شخص سے بات چیت شروع ہوئی تو مَیں نے اسے بتایا کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ وہ شخص پہلے تو چونکا پھر کہنے لگا میرا تعلق جماعت احمدیہ سے نہیں بلکہ میں تو کچھ عرصہ قبل تک جماعت احمدیہ کے سخت خلاف تھا نام بھی سننا نہیں چاہتا تھا لیکن جب سے میری بہن نے ایسے وقت میں جب اس بھری دنیا میں کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دیا ہماری شب و روز خدمت کی، اب میرے خیالات جماعت احمدیہ کے بارے میں نہایت اچھے ہیں۔ مَیں دل سے اس جماعت کے افراد کی قدر کرتا ہوں مجھے ان سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ میرے دریافت کرنے پر اس شخص نے بتایا کہ میری بیوی چند ماہ قبل فوت ہوگئی تھی میرے تین چھوٹے بچے ہیں جن میں سے میرا ایک بیٹا دوسری جماعت میں پڑھتا ہے۔ فوتیدگی پر میرے دو بھائی مع بچوں کے افسوس کرنے آتے رہے اور اسی روز دوپہر کو واپس چلے جاتے۔ اسی شہر میں میری ایک بہن بھی بیاہی ہوئی ہے وہ بھی فوتیدگی پر چند روز تک صبح آتی اور کچھ دیر بعد واپس اپنے گھر چلی جاتی۔ میری ایک دوسری چھوٹی بہن ہے جس کی ہم نے 5 برس قبل شادی کردی تھی اس کا خاوند شادی کے ایک برس بعد احمدی ہو گیا۔ ہم سب نے اسے بلایا اور بٹھا کر سمجھایا کہ تم اپنے خاوند کو چھوڑ دو، میرے بوڑھے ماں اور باپ نے بھی اسے سمجھایا لیکن وہ نہ مانی تو ہم سب اہل خانہ نے اس سے تعلق توڑ لیا اور اسے کہا جب تک تم خاوند کو نہیں چھوڑتی ہمارے گھر نہیں آنا نہ کسی سے ملنے کی کوشش کرنا۔ گذشتہ چار برسوں میں وہ خوشی کے مواقع پر کئی بار آئی لیکن ہم نے اس کے لیے اپنے دروازے کبھی نہیں کھولے وہ ہمیشہ بغیر کسی سے ملے لَوٹ جاتی تھی۔

میری بیوی کی وفات پر وہ تعزیت کے لیے آئی تو ماں نے کہا تعزیت کے لیے آنے والوں کو نہیں روکنا چاہیے۔ وہ سارا دن تعزیت کے لیے آنے والے مہمانوں کی خدمت پر کمربستہ رہی اور رات گئے وہ اپنے خاوند کے ساتھ چلی گئی جو اسے لینے آیا تھا۔ اگلی صبح وہ پھر آگئی اور رات تک گھر کے کام کاج مہمانوں کی خاطر خدمت پر کمربستہ رہی۔ وہ اپنے دو بچے ان کی دادی کے پاس چھوڑ آتی اور ہمارے گھر میں دن بھر رہتی، میرے بچوں کو سنبھالتی، سکول جانے والے بچے کو تیار کرکے سکول روانہ کرتی اور گھر کا کھانا و دیگر گھریلو کام کو دن بھر سرانجام دیتی۔ وہ کسی سے بات نہ کرتی اور نہ ہی گھر کا کوئی فرد اس سے خوش خُلقی سے پیش آتا۔ وہ ہماری بہن چہلم تک صبح سے شام تک سب گھروالوں کی خدمت پر کمر بستہ رہی۔ آخری روز وہ ماں کے پاس گئی اس نے ماں سے کہا: ماں اگر کوئی غلطی مجھ سے ہوئی ہے تو مجھے معاف کردینا۔ ماں نے اسے گلے لگا کر پیار کیا اور کہا بیٹی اس مصیبت کی گھڑی میں نہ تمہارے بھائیوں کی بیویوں کو ہمارا خیال آیا نہ تمہاری دوسری بہن کو جو اسی شہر میں رہتی ہے اس کو ہماری خدمت اور مدد کا خیال آیا، ایک تم ہو کہ اپنے بچوں اور خاوند کو چھوڑ کر دن رات ہماری خدمت پر کمربستہ رہی ہو۔ اللہ تمہیں خوش رکھے۔ بہن نے کہا: ماں مجھے آپ کی خدمت پر مامور کرنے والے میرے خاوند ہیں جنہوں نے کہا اللہ کا حکم ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرو تم ہماری فکر نہ کرو۔ تم جا کر اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کی خدمت کا حق ادا کرو۔ یہ سب میں نے اپنے خاوند کی اجازت اور حکم سے کیا ہے۔ ہمیشہ مجھے آپ کے پاس میرے خاوند ہی بھیجا کرتے تھے وہ کہا کرتے تھے چاہے تمہارے ماں باپ تمہیں برا بھلا کہیں یا دھتکار دیں تم نے پھر بھی ضرور ان کی خبرگیری کے لیے جانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماں باپ کا اولاد پر اتنا حق ہے کہ اگر وہ اس کا گوشت بھی کھانے کو مانگیں تو ان پر حلال ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگی۔ پھر والد نے بھی اسے پیار دیا اور مَیں نے بھی اسے معاف کردیا۔ اب میں احمدیوں کو نہایت اچھا سمجھتا ہوں۔

اسی طرح ایک واقعہ راقم الحروف کو ایک غیرازجماعت نے یوں بتایا کہ ہم نے اپنے مکان کی بالائی منزل کرایہ پر کسی پراپرٹی ڈیلر کے توسط سے دی تھی۔ ابھی ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کہ ایک شام بالائی منزل سے ہمیں کسی کی تقریر کی آواز سنائی دی جو وہ ڈش پر سن رہے تھے۔ جب ہم نے غور کیا تو یہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کا خطاب تھا۔ مالک مکان کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت کرایہ دار کو بلایا اور اسے کہا کہ تم کو بتانا چاہیے تھا کہ تم قادیانی ہو اگر تم پہلے بتا دیتے تو ہم کبھی بھی آپ کو مکان کرایہ پر نہ دیتے چاہے ہمارا مکان سال بھر خالی پڑا رہتا۔ اب تم اسے فوری خالی کردو ہم کسی قادیانی گھرانے کو مکان کرایہ پر دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس پر کرایہ دار نے کہا آپ ہمیں صرف 15 یوم کا وقت دیں تاکہ ہم کرایہ کا کوئی مکان تلاش کرسکیں۔ میرے بوڑھے ماں باپ اور دو چھوٹے بچے اور بیوی ہے ایسے میں فوری ہم کہاں جائیں۔ مالک مکان کہتے ہیں اس پر میں نے انہیں کہا ٹھیک ہے مَیں کل عمرہ کی ادائیگی کے لیے جارہا ہوں پندرہ روز بعد میری واپسی ہوگی میرے آنے تک مکان بہرصورت خالی ہونا چاہیے۔

مالک مکان کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کو چند روز قبل اطلا ع دی تھی کہ وہ میری غیرحاضری میں آکر میرے چھوٹے بچوں اور بیوی کے پاس میری واپسی تک رہے۔ وہ کسی دوسرے شہر میں بیاہی ہوئی ہے اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آکر رہے گی۔ جس روز میں نے عمرہ پر روانہ ہونا تھا اس وقت تک میری بہن نہیں پہنچی تھی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا میری بہن آج نہیں تو کل تک ضرور آجائے گی تم گھبرانا نہیں ہاں میری تم کو تاکید ہے کہ کرایہ دار کی عورت سے یا ان کے گھر کے کسی فرد سے بالکل تعلق نہ رکھنا۔

مالک مکان کہتے ہیں میری بہن اپنے خاوند کی اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے نہ آسکی۔ میری بیوی دو روز تک بہن کی منتظر رہی۔ کرایہ دار کے بزرگ والد روزانہ صبح دستک دیتے اور کہتے بیٹی میں بازار سودا لینے جارہا ہوں اگر تم نے کچھ منگوانا ہے تو بتا دو تاکہ میں لیتا آؤں۔ بیوی گھر کے اندر سے جواب دیتی: باباجی ہم نے کچھ نہیں منگوانا۔

جب دو دن گزر گئے اور بہن نہیں آئی تو تیسرے دن باباجی نے جب روزانہ کی طرح آواز دی تو میری بیوی نے ہاتھ کی لکھی چٹ بابا جی کو دی کہ یہ اشیاء لادیں۔ باباجی نے پیسے لینے سے انکار کیا اور میری بیوی سے کہا بیٹی جتنے پیسے خرچ ہوں گے اس کا حساب میری بہو تمہیں دے کر پیسے تم سے لے لے گی۔ باباجی بازار سے سامان لے آئے اور اپنی بہو کو میری بیوی کے پاس سامان دے کر بھیجا اور کہا جب آپ کا شوہر آئے گا پیسے ہم اُن سے لے لیں گے۔ آپ حسب ضرورت روزانہ اشیاء منگوا لیا کریں۔ لیکن میری بیوی نے ہر بار سامان کی نقد ادائیگی کر دی۔ پھر کرایہ دار کی والدہ میری بیوی کے پاس آئیں اس نے کہا بیٹی تم اکیلی ہو دو چھوٹے بچوں کا تمہارا ساتھ ہے۔ اگر تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں۔ میری بیوی نے کہا کہ رات کو اکیلے میں مجھے ڈر لگتا ہے نیند نہیں آتی۔ کرایہ دار کی والدہ نے کہا بیٹی! جب تک تمہارا خاوند واپس نہ آجائے مَیں رات کو تمہارے پاس آکر لیٹ جایا کروں گی تم بالکل فکر نہ کرو۔ پھر ایک روز میری بیوی کی طبیعت خراب ہوگئی۔ کرایہ دار کی بیوی اپنے معصوم بچے دادی کے پاس چھوڑ کر رات بھر میری بیوی کے سرہانے بیٹھی رہی۔ اس کا سر دباتی رہی اور اسے تسلی دیتی رہی۔ صبح کو وہ اپنے گھر سے ناشتہ بنا کر لائی اور میری بیوی اور بچوں کو ناشتہ کرایا۔

مَیں عمرہ کی ادائیگی کے بعد گھر پہنچا تو میری بیوی نے تمام صورتحال سے مجھے آگاہ کیا۔ مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ احمدی اچھے لوگ ہیں۔ اگلی صبح کو کرایہ دار میرے پاس آیا اس کے ہاتھ میں میرے مکان کی بالائی منزل کی چابیاں تھیں۔ کہنے لگا میں نے 15 یوم میں آپ کا مکان خالی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج 15 یوم ہوگئے ہیں ہم نے اپنا سامان باندھ لیا ہے۔ مَیں سامان لے جانے کے لیے کوئی گاڑی لے کر ابھی آرہا ہوں آپ اپنے مکان کا قبضہ لے لیں۔مَیں نے اُن سے کہا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں، ہم معذرت خواہ ہیں کہ میں نے آپ لوگوں کو غلط سمجھا۔ اس پر کرایہ دار نے کہا ہم نے اب دوسرا مکان کرایہ پر لے لیا ہے، اس کا ایڈوانس بھی دے دیا ہے اس لیے اب ہم یہاں نہیں رُک سکتے۔ پھر مزید بتایا کہ آپ کے کہنے پر ہم نے پراپرٹی ڈیلر کو مکان کرایہ پر لینے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ہمارا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے آپ جس کا مکان بھی کرایہ پر ہمیں لے کر دیں اسے پہلے بتادیں۔ جس پر پراپرٹی ڈیلر نے جواب دیا کہ ہمیں تو مکان کرایہ پر دینے والے خود کہتے ہیں کہ ہمارا مکان کسی احمدی فیملی کو کرایہ پر دلوائیں اس لیے کہ احمدی لوگ وعدے کے پکے ہوتے ہیں، یہ وقت پر کرایہ ادا کرتے ہیں اور جب کہو حسب وعدہ مکان بغیر کسی حیل و حجت کے خالی کردیتے ہیں۔

………٭………٭………٭………

ٹورانٹو (کینیڈا)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍دسمبر 2014ء میں کینیڈا کے صوبے ٹورانٹو کے صدرمقام ٹورانٹو کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون (مرسلہ:مکرم امان اللہ امجد صاحب) شامل اشاعت ہے۔ ٹورانٹو کا شہر امریکاکو کینیڈا سے جدا کرنے والی جھیل انٹاریو کے کنارے پر واقع ہے۔نیاگرا آبشار سے ٹورانٹو کا فاصلہ 120کلومیٹر ہے۔

ٹورانٹو کی آبادی (بشمول میٹروپولیٹن علاقہ) 43لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا رقبہ 398مربع کلومیٹر ہے۔ یہ کینیڈا کا سب سے بڑ ااور اہم تجارتی، ثقافتی اور صنعتی شہر بھی ہے۔غذائوں کو ڈبوں میںبند کرنے، پرنٹنگ مشینوں کی تیاری اور دھاتی اشیاء تیار کرنے کے کارخانے یہاں واقع ہیں۔ اگرچہ یہ صنعت وحرفت کا بڑا مرکزہے تاہم یہاں آلودگی کانام ونشان نہیں ملتا۔

فرانسیسیوں نے یہاں 1749ء میں ایک قلعہ روئیلی (ROUILLE)تعمیرکروایا تھا جو 1759ء میںتباہ ہوگیا جس کے بعد انگریزوں نے ٹورانٹو پر قبضہ کرلیا۔ اُس وقت اس کا نام یارک (YORK)تھا۔ 1796ء میں یہ بالائی کینیڈا کا دارالحکومت بنا۔ 1812ء کی جنگ میں امریکیوں نے اس پرقبضہ کرلیا۔1834ء میںاسے ٹورانٹو کانام دیا۔1837ء میںڈبلیو ایل میکنزی کی بغاوت کے دنوں میں یہ شہر باغیوں کا مرکز بن گیا۔ چنانچہ 1840ء کے ایکٹ آف یونین کے تحت کینیڈا کا دارالحکومت کنگسٹن میںمنتقل کردیاگیا لیکن 1849ء میں ٹورانٹو کو ازسر نو دارالحکومت کی حیثیت حاصل ہوگئی۔

ٹورانٹو شہر ایک اہم تعلیمی مرکز بھی ہے۔یہاں دو یونیورسٹیاں ہیں۔ پہلی یونیورسٹی 1827ء میںجبکہ دوسری کا قیام 1959ء میں عمل میںآیا تھا۔ یہ شہر انگریزی ابلاغیات اور چھپائی کی صنعت کا بڑا مرکز ہے۔ نیز دانشوروں ، آرٹسٹوں اور اہل علم کی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہاہے۔ایک پُر امن اور صاف ستھرا شہر ہے۔ بہت سی اقوام کامسکن ہے جن میں یونانی، چینی، اطالوی، ہنگروی اور پرتگیزی شامل ہیں۔

ٹورانٹو کا سی این ٹاورجدید طرز تعمیر کا ایک نادرنمونہ ہے۔ 552میٹربلند اس مینار کی بالائی منزل میں ایک ریستوران قائم ہے۔ ٹورانٹو میں دو انٹرنیشنل ہوائی اڈے ہیں۔ شہر میںزیر زمین ریلوے بھی چلتی ہے۔ متعددریڈیو اور ٹی وی سٹیشن ہیں۔ یہاں کے مقبول کھیلوں میں آئس ہاکی، Baseball، شامل ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button