یادِ رفتگاں

چودھری محمد علی صاحب(نمبر9)

(‘ابن طاہر’)

مکرم داؤد احمد طاہر صاحب نے محترم پروفیسر چودھری محمد علی صاحب مضطر عارفی کی سیرت و سوانح پر کتاب تحریر کی ہے۔اس کا وہ حصہ جو چودھری صاحب مرحوم نے اپنے حالاتِ زندگی کی شکل میں ریکارڈ کروایا بالاقساط قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک کڑی الفضل انٹرنیشنل کی 29؍جون تا 17؍اگست2021ء کی اشاعتوں میں شائع ہو چکی ہے۔(ادارہ)

چودھری محمد علی ۱۹۴۱ء میں جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے چودھری ظفراللہ خان کا نام سن رکھا تھا یا اخبارات اور سنیما ہالز میں زیرنمائش فلم سے پہلے دکھائی جانے والی محکمۂ اطلاعات کی پبلسٹی فلمز میں دیکھا ہواتھا۔ قبولِ احمدیت کے بعد جب چودھری محمد علی کی قادیان میں آمدورفت بڑھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی ان سے ملاقات کے اسباب پیدا فرما دیے تاہم چودھری صاحب کا خیال تھا کہ جماعت میں اگر کوئی شخص غیرمشروط طور پر قابلِ عزت و احترام ہے تووہ صرف خلیفہ وقت ہی ہوسکتا ہے اور باقی لوگوں کی حد سے بڑھی ہوئی عزت جسے خوشامد بھی کہاجا سکتا ہے نہ صرف غیرضروری بلکہ اخلاقی لحاظ سے ناپسندیدہ بھی ہے۔ اسی لیے چودھری ظفراللہ خان کے ساتھ پہلی ایک دو ملاقاتوں میں چودھری محمد علی نے ارادۃً اس عزت و احترام کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے وہ مستحق تھے لیکن آہستہ آہستہ جب انہیں احساس ہوگیا کہ چودھری ظفراللہ خان عزت کے ایک ایسے مقام پر فائز ہیں جہاں کوئی نصیبوں والا ہی پہنچ سکتا ہے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ تمام زندگی اپنے اس رویہ پر نادم رہے۔اس باب میں آپ چودھری محمد علی کی چودھری ظفراللہ خان کے ساتھ ابتدائی دو تین ملاقاتوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں گے۔ چودھری محمد علی بتاتے ہیں’’میرے زمانہ طالبِ علمی میں جب میں فلم دیکھ لیا کرتا تھا سینمائوں میں شو شروع ہونے سے پہلے حکومت کے پریس انفرمیشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ایک تصویری خبرنامہ دکھایا جاتا تھا۔ یہ حکومت کی تشہیری مہم کا ایک حصہ ہوتاتھا۔ اس میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کی مِیٹنگز اور کارکردگی کے حوالے سے بھی تصویریں دکھائی جاتی تھیں۔ چودھری محمد ظفر اللہ خان(۱) ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے لہٰذا ان خبرناموں میں وہ بھی نظر آجاتے تھے۔ ماشاءاللہ بہت سمارٹ،خوش لباس اور صحت مند تھے۔ ان کی جوانی کی تصویریں دیکھ کر میں حیران رہ جاتا تھا۔ وہ لیڈر آف دی ہائوس تھے۔ انہیں آپ آج کا وزیراعظم بھی کہہ سکتے ہیں۔

اپنے زمانہ طالب علمی میں تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری کبھی چودھری ظفراللہ خان سے ملاقات ہوسکتی ہے لیکن احمدیت کی برکت سے یہ موقع کئی دفعہ پیدا ہوا۔ چودھری صاحب ہمیشہ مجھ پر شفقت فرماتے رہے لیکن ہمارے تعلقات کی ابتدا جس رنگ میں ہوئی اس پر مجھے آج بھی شرمندگی ہے۔ یہ سب کچھ میری اپنی وجہ سے ہوا اور اس کا سبب جماعتی کلچر سے میری ناواقفیت، میری کم علمی و ناتجربہ کاری اور طبیعت کا لاابالی پن تھا۔ ایک بار میں مغرب کی نماز پڑھنے جا رہا تھا تو راستے میں حضرت میاں محمد شریف(۲) جو ’’ڈپٹی شریف‘‘کے نام سے پہچانے جاتے تھے اور لاہور کے میاں خاندان سے تھے، مل گئے۔ یہ خاندان لاہور کے متموّل خاندانوں میں شمار ہوتا تھا اور لاہور کا تقریباً پورا لنڈابازار اسی کی ملکیت تھا۔ ڈپٹی صاحب نے ازراہِ سرپرستی مجھے اپنا بیٹا بنا رکھا تھا۔ اس روز چودھری ظفراللہ خان جو اُن دنوں فیڈرل کورٹ کے جج تھے قادیان آئے ہوئے تھے۔ ڈپٹی شریف مجھے پکڑ کر چودھری صاحب کے پاس لے گئے۔ مجھے یاد ہے بیتِ مبارک کے پہلو میں ایک چھوٹا سا دروازہ تھا۔ چودھری صاحب وہاں کھڑے تھے۔ ڈپٹی صاحب کہنے لگےچودھری صاحب! اجازت ہو تو میں آپ سے پروفیسر محمد علی کا تعارف کرائوں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک میرا ایم اے کا رزلٹ بھی نہیں آیا تھا اور میں دیکھنے میں مُنڈا کُھنڈا لگتا تھا لیکن بہت سے لوگ حتّٰی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی خود بھی مجھے پروفیسر محمد علی کہتے تھے۔ بہرحال چودھری صاحب میرے سلام کا جواب دیتے ہی فرمانے لگے کیا آپ وہی محمد علی ہیں جو بیدی کے دوست ہیں؟ میں نے کہاجی میں وہی ہوں۔ یاد رہے کہ بیدی جس کا کچھ ذکر پہلے آچکا ہے میرا ایک بہت ہی اچھااورقریبی دوست تھا۔ بہت لائق لیکن شوخا تھا۔ اس کا ایک لطیفہ یاد آگیا ہے۔ وہ جناح کیپ سے ملتی جلتی ٹوپی پہنتا تھا۔ اس نے مقابلے کا امتحان پاس کیاتھالیکن اُس سال انڈین سِول سروس کے لیے افسران نہیں لیے گئے چنانچہ اس نے اپنے لیے ریلوے سروس پسند کرلی۔ ایک بار وہ بغیر اطلاع کے اپنے سرکاری سیلون میں قادیان پہنچ گیا۔ بیدی کا ایک بھائی جج یا مجسٹریٹ تھا۔ بیدی اس کے ساتھ چودھری ظفراللہ خان سے مل چکا تھا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ چودھری صاحب نوجوانوں سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی اپنی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ مجھے پتا نہیں وہاں کیا باتیں ہوئیں لیکن ایک بات جو مجھے خود بیدی نے سنائی تھی یہ ہے کہ جہاں وہ بیٹھے تھے قریب ہی ایک ٹینس لان تھا لیکن برسات میں اونچی خود رو گھاس کی وجہ سے بہت خراب حالت میں تھا۔ بیدی نے چودھری صاحب سے سوال کیا, May I ask what’s this? Sir

انہوں نے جواباً کہا Well, it’s tennis lawn.اس پر بیدی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا Sir Muhammad! For God’s sake don’t say it’s a tennis lawn. Say it was a tennis lawn.بیدی اس طرح کا نوجوان تھا، بہت ذہین اور بذلہ سنج۔ جب وہ قادیان آیا تو ایک بار خاموشی کے ساتھ نماز میں بھی شامل ہوگیا۔نماز کے بعد ہم حلقہ بنا کر بیٹھ گئے۔ میں نے سوچا دوستوں سے اس کا تعارف کروادوں۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ(۳) بھی وہاں موجود تھے۔ وہ ان دنوں ناظرامورعامہ تھے۔میں نے بیدی کا تعارف کرایا کہ وہ اس سیلون میں جو ریلوے سٹیشن پر آئی ہوئی ہے یہاں آیا ہے تو شاہ صاحب فرمانے لگےشکر ہے کہ اب مسلمان لڑکوں کو بھی سنٹرل سروسز میں جگہ ملنا شروع ہوگئی ہے۔ اب میں شاہ صاحب کو لقمہ دینا چاہتا ہوں کہ بیدی مسلمان نہیں ہے لیکن بیدی موقع ہی نہیں دیتا انہیں کسی اور طرف توجہ دینے کا اور کوئی نئی بات شروع کردیتا ہے۔ اسی اثنا میں شاہ صاحب چلے گئے تو میں نے اسے بہت برا بھلا کہا کہ اس نے مجھے اپنے بارے میں وضاحت کیوں نہیں کرنے دی۔ اس سے اگلے دن میں نے شاہ صاحب کو بتایا کہ بیدی مسلمان نہیں ہے تو وہ مجھ سے سخت ناراض ہوئے کہ میں نے انہیں پہلے کیوں نہیں بتایا تھا۔ میں نے کہا میں تو بتانا چاہتا تھا لیکن بیدی نے موقع ہی نہیں دیا۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی چودھری صاحب کے ساتھ میری پہلی ملاقات کی۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے (اورمیں ان کے الفاظ من و عن دہرا رہا ہوں)Are you the same Muhammad Ali who is a friend to Bedi?میں نے جواب دیاYes Sir, I have that honour.اس پر چودھری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا Bedi believes only in three persons in the world. P.N.S. Bedi, P.N.S. Bedi and P.N.S. Bedi.تب میں نے کہاSir, excuse me. I know him much better. He is my friend and he is a gentleman. چودھری صاحب کہنے لگے You may know him much better because you are his friend. But I’m a judge. I can judge him much better.اس پر میں نے کہا You can judge criminals, not gentlemen and Bedi is luckily a gentleman.چودھری صاحب کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ اس طرح کے سوال جواب کے تو عادی نہ تھے۔ اتنی دیر میں نماز کھڑی ہوگئی۔ نماز کے بعد ڈپٹی صاحب نے میری خوب مرمت کی کہ تم نے یہ کیا بیوقوفی کی چودھری صاحب کے ساتھ لڑائی ہی شروع کر دی۔ میں نے کہا میں نے تو نہیں کی۔ اب دماغ میں وہی کیڑا کہ جب حضرت صاحب کی بیعت کی ہے تو یہ چھوٹے بڑے کا فرق کیوں ہو۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ گیسٹ ہائوس پہنچے۔ رات کے وقت چودھری صاحب کی کوٹھی پر ایک بہت بڑا بلب جلنے لگا۔ میں نے برسبیلِ تذکرہ کہا کہ پہلے کبھی اس طرح کا بلب نہیں جلا، آج کیوں جلا دیا گیا ہے تو مسعودوینس(۴) نے جواب دیا کہ جب باباجی (چودھری صاحب کو گھر میں سب بابا جی کہتے تھے) یہاں ہوں تو یہ بلب جلا دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو ان کی قادیان میں موجودگی کی خبر ہو جائے۔ یاد رہے مسعود وینس جو حضرت چودھری نذیر احمد بھنگوانوالے کا بیٹا اور چودھری ظفراللہ خان کا بھانجا تھا۔ رہتا تو ہوسٹل میں تھا لیکن چونکہ اس وقت تک وہاں پر کھانے کا خاطرخواہ انتظام نہ تھا لہٰذا وہ کھانا چودھری صاحب کی کوٹھی پر کھاتا تھا۔ میں نے مسعود وینس کے جواب پر ایک فقرہ کسا It’s very presumptuous on his part. We are not interested in him whether he is here or not. We are interested only in one person, that is the Khalifa tul Masih.

یعنی یہ تو بڑی غیرمناسب بات ہے، ہمیں چودھری صاحب کے آنے جانے سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ ہمیں تو صرف ایک شخص کی ذات سے دلچسپی ہے اور وہ ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ذاتِ بابرکات۔

نو احمدی بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اسے چیزوں کا علم ہوتا نہیں اور وہ باتیں بناتا چلا جاتا ہے۔ میں نے یہ بات کہہ تو دی لیکن اب شرمندہ ہوں، ساری عمر شرمندہ رہوں گا۔ جیسا کہ مجھے بعد میں علم ہوا مسعود وینس نے جاکر یہ بات چودھری صاحب کو بتا دی۔

ان ہی دنوں کالج میں علمی تقاریر کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا جس میں پہلی تقریر چودھری ظفراللہ خان(۵) کی تھی۔ چھوٹی سی سٹیج تھی جس پر صرف دو کرسیاں آسکتی تھیں۔ ایک کرسی پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد بیٹھ گئے اور دوسری پر چودھری ظفراللہ خان۔ چودھری صاحب نے اس تقریر کے لیے اپنے قلم سے مفصل نوٹس لکھ رکھے تھے۔ وہ نوٹس میں نے کسی طرح اُڑا لیے تھے لیکن افسوس پارٹیشن کے موقع پر ضائع ہوگئے۔ ہال میں صفیں بچھی ہوئی تھیں اور لوگ ان پر بیٹھے تھے۔سٹیج پر دو کرسیوں کے علاوہ دیواروں کے ساتھ بھی کرسیاں رکھی تھیں جن پر ناظر صاحبان اور سٹاف ممبرز بیٹھے تھے۔ میں بھی وہیں کہیں بیٹھا تھا۔ یہ اپریل مئی کی بات ہے جب خاصی گرمی ہوجاتی ہے۔ پنکھے شاید تھوڑے تھے یا تھے ہی نہیں اور چھت ٹین کی تھی اس لیے شدید گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ لائوڈ سپیکر نہیں تھا لہٰذا ہم تک آواز بھی پوری طرح پہنچ نہیں پارہی تھی۔ اس ماحول میں اونگھ کا آجانا غیرقدرتی بات نہ تھی چنانچہ میں اونگھنے لگا۔اتنی دیر میں کسی نے آکر مجھے جھنجھوڑا اور میرے ہاتھ میں ایک چِٹ تھما دی جس پر میاں صاحب نے لکھا ہوا تھا کہ چودھری صاحب کی تقریر کاشکریہ میں نے ادا کرناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں نے تقریر توجہ سے سنی ہی نہ تھی اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ چودھری صاحب نے کہا کیا ہے لہٰذا اب میں چوکنّا ہوکر بیٹھ گیا اور چودھری صاحب کی تقریر غور سے سننے لگا۔ آخری چند فقرات جو میں سن سکا ایک بزرگانہ نصیحت پر مشتمل تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہاں بارش بہت ہوتی ہے اور اسی نسبت سے مچھر بھی زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملیریا عام ہے لہٰذا آپ کونین استعمال کر تے رہاکریں۔

آپ جانتے ہوں گے کہ ڈِیبیٹرز نے کچھ فقرے رَٹ رکھے ہوتے ہیں سو میں نے بھی اسی طرح کے کچھ فقرے رٹے ہوئے تھے چنانچہ میں نے سٹیج پر جاکر چودھری ظفر اللہ خان کو حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان کی بجائے سرمحمد ظفراللہ خان کہہ کر مخاطب کیا اور یہ بات بالکل نظرانداز کردی کہ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی دست بوسی کا شرف حاصل ہو چکا ہے اور وہ مسلمانوں کے بہت بڑے خادم ہیں۔ مجھے اپنا فقرہ آج بھی یاد ہے۔ میں نے کہاتھا Unlike other political leaders, his speech was not all verbiage. We are thankful to Sir Muhammad Zafarullah Khan for coming here and for delivering this address.چودھری صاحب نے میرے ان فقروں پر اسی وقت دبے لفظوں میں اپنے ردعمل کا اظہار بھی کردیا چنانچہ میں نے خود انہیں میاں صاحب سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ دیکھو خود کتنا موٹا لفظ استعمال کیا ہے۔ مجھے اب بھی ہوش نہیں آئی اور میں نے کہا We are particularly grateful to him for his wonderful discovery that quinine is useful for malaria.چودھری صاحب کھلکھلا کر ہنسے اور اونچی آواز سے فرمانے لگے Good humor!باقی سب لوگ بھی ہنس پڑے بلکہ حضرت مولوی محمد دین آخری عمر تک مجھے یہ لطیفہ یاد کراتے رہے اور ہر بار اس سے نیا حظ حاصل کرتے رہے لیکن میں نے دیکھا کہ میاں صاحب کا چہرہ متغیر ہوگیا ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ شاید مجھ سے کوئی بدتمیزی سرزدہوگئی ہے چنانچہ مجھے دل ہی دل میں سخت شرمندگی محسوس ہوئی۔

ایک بار چودھری صاحب تشریف لائے تو ان کا استقبال احمدیہ چوک یعنی بیت مبارک کے سامنے ہوا۔ لوگ ان سے مل رہے تھے۔ مجھ سے گستاخی یہ ہوئی کہ جب میری باری آئی تو میں نے مصافحے کے لیے صرف ایک ہاتھ آگے بڑھایا جب کہ لوگ آپ کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے تھے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرا یہ اقدام ہرگز غیرارادی نہ تھا۔ میں نے سوچ سمجھ کر ایک ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، حضرت مسیح موعودؑ کے ایک رفیق کے ساتھ اتنا گستاخانہ رویہ کہ میں نے اس نور کے ساتھ پورا ہاتھ نہیں ملایااور ساتھ ہی یہ بھی کہا Sir, I am here not because you are a Judge of the Federal Court. I’m here because you are a companion of the Promised Messiah.اس فقرے میں میرا ایک ذاتی اکھڑ پن تھا لیکن چودھری صاحب نے اس پر بڑی نرمی سے فرمایا کہ یہی تو میرے لیے عزت کی بات ہے اور آگے بڑھ گئے۔ہم نے اگلے روز ہوسٹل میں چودھری صاحب کو دعوت پر مدعو کررکھا تھا۔ آپ نے مجھے مسعود وینس کے ذریعہ پیغام بھجوایا کہ اپنے اس پروفیسر کو بتا دینا کہ میں کل ہوسٹل میں آ رہا ہوں۔ اس پیغام میں پیار بھی تھا اور سب کچھ تھا۔ یہ چودھری صاحب کا ہی کمال تھا۔ واہ کیا خوب کہا تھا انہوں نے اس کو بتا دو کہ میں کل آرہا ہوں، تیار رہے۔اب میں ڈرا بیٹھا تھا کہ چودھری صاحب میری گستاخیوں کا مجھ سے نہ جانے کیسے حساب چکائیںگے لیکن آفرین ہے انہوں نے میری کسی بےادبی کا حوالہ دیا نہ کوئی شکوہ شکایت کی۔ جتنی دیر بیٹھے اِدھراُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ میرا سب سے پسندیدہ ناول نگار کون ہے تو میں نے تھیکرے(۶) (William Makepeace Thackeray) کا نام لیا۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ مجھے اس کا کون سا ناول سب سے زیادہ پسند ہے تو میں نے ایک کتاب کا نام لیا۔ چودھری صاحب نے کہا کہ مجھے بھی تھیکرے کی یہ کتاب بے حد پسند ہے۔

میری ان تمام گستاخیوں کے باوجود آخری عمر تک چودھری صاحب کی محبتیں مجھ پر بارش کی طرح برستی رہیں۔ میرا ایف سی کالج، لاہور میں تبادلہ ہوا تو میرے پاس رہنے کی جگہ نہیں تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ اس کو یہاں لے آئو اور اگر وہ چوں چراں کرتا ہے تو اسے بستر سمیت اٹھالائو۔ انہوں نے بہت دن مجھے اپنے پاس رکھا لیکن مجھے معافی مانگنے کا موقع نہیں دیا۔ حافظہ تو ان کو خداتعالیٰ نے بہت اچھا دیا ہوا تھا اور یقیناً میری یہ گستاخیاں بھی ان کے ذہن میں رہی ہوں گی لیکن انہوں نے میرے ساتھ ہمیشہ محبت کا برتائو کیا اور ایک لمحے کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں نے کسی مرحلہ پران کا مقام و مرتبہ ملحوظ نہیں رکھا(۷)۔ ہاں کبھی مُوڈ میں ہوتے تو کہا کرتے تھے I know you are a friend of Bedi and I am a Judge.

مجلس خدام الاحمدیہ میں

ابھی آپ چودھری محمد علی اور چودھری ظفراللہ خان کی بعض ملاقاتوں کا دلچسپ تذکرہ پڑھ رہے تھے۔ چودھری محمد علی خدا کے فضل سے ان لوگوں میں سے تھے جو پیچھے سے آکر آگے نکل جاتے ہیں۔ انہوں نے بہت غوروخوض کے بعد احمدیت قبول کی تھی اور وہ ایک پُرجوش احمدی تھے چنانچہ پہلے دن سے ہی حسبِ توفیق مجلس خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ان کے تعلیمی پس منظر اور احمدیت کے لیے ان کی فدائیت کی وجہ سے جلد ہی انہیں اس تنظیم میں بعض اہم ذمہ داریاں سونپی جانے لگیں چنانچہ اُن کی اپنی فراہم کردہ معلومات کے مطابق وہ کم و بیش ایک سال تک نائب مہتمم اطفال، چار ماہ تک قائم مقام مہتمم اطفال اور بعد میں مہتمم اطفال اور قائم مقام نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھی رہے۔

تاریخ احمدیت مؤلفہ دوست محمد شاہد جلدہشتم کے صفحہ ۴۵۲ پر یہ ذکر موجود ہے کہ ۴۶۔۱۹۴۵ء کے دوران چودھری محمد علی مہتمم اطفال اور ۴۷۔۱۹۴۶ء کے دوران مہتمم ایثار و استقلال رہے۔

چودھری صاحب نے مجلس خدام الاحمدیہ میں اپنی کچھ سرگرمیوں کی تفصیل ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں بیان کی ہے اور وہیں سے یہ آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں’’میں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ قادیان میں قیام کے دوران میں نے مجلس خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں میں بھی مقدور بھر حصہ لیا چنانچہ مجھے چودھری مشتاق احمد باجوہ، مہتمم اطفال کے ماتحت نائب مہتمم اطفال کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ نائب مہتمم کوئی چیز نہیں ہوتا اور وہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجلسِ عاملہ کا ممبر بھی نہیں ہوتا لیکن پتا نہیں کیوںمشتاق باجوہ ایک اجلاس میں مجھے ساتھ لے گئے۔ میرا اس طرح کی کسی میٹنگ میں شامل ہونے کا یہ پہلا موقع تھا۔ میٹنگ شروع ہوئی تو خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی بات ہونے لگی جس پر میں نے کہا کہ کچھ بات اطفال کی بھی کریں۔ میٹنگ کے باقی شرکاء میں ملک عطاءالرحمٰن، خلیل احمد ناصر اور شیخ ناصر احمد شامل تھے۔ میں نے کہا بتایا جائے کہ اطفال کام کیا کرتے ہیں۔ کسی نے کہا جی وہ خدام کا اجتماع دیکھتے ہیں، تقریریں اور درُوس سنتے ہیں اور میچز دیکھتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں،میں نے پتا لگالیا ہے۔ وہ خدام کے لیے ان کے گھروں سے کھانا لے کر آتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آپ نے انہیں صرف کھانا جمع کرنے پر لگایا ہوا ہے۔ آپ ان کی تربیت کرنے کی بجائے انہیں اپنا خدمت گزار بنا رہے ہیں۔ کسی نے میری مخالفت میں ایک لفظ بھی نہیںکہا۔میں نے کہایہ توبڑی زیادتی کی بات ہے۔ اطفال کے لیے الگ پروگرام ہونا چاہئے۔

آپ نے وہ محاورہ ضرور سن رکھا ہوگا کہ Fools dare where angels fear to tread چنانچہ میں نے مشتاق باجوہ سے مشورہ کر نے اور ان کی معرفت صدر مجلس خدام الاحمدیہ کو خط لکھنے کی بجائے میٹنگ کے بعد سیدھا حضرت صاحب کو خط لکھ دیا کہ میں نائب مہتمم اطفال ہوں، میں آج مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجلسِ عاملہ کی میٹنگ میں شامل ہوا تھا اور اس میں یہ یہ باتیں ہوئی ہیں۔ خط میں میں نے اپنے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ بچوں کی غلط تربیت کی جا رہی ہے اور انہیں گھروں سے کھانا جمع کرکے لانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں اس خط کا جواب آگیا کہ آئندہ سے اطفال کا اجتماع الگ ہوگا اور خدام اپنے کھانے کا مقامِ اجتماع پر خودانتظام کریں گے۔ اگلی میٹنگ میں طے ہوگیا کہ اب سے اطفال کا اجتماع الگ ہوا کرے گا اور ان کے لیے بھی کھانامقام اجتماع پر ہی پکے گا۔

میں نے پہلے اشارۃً ذکر کیا ہے کہ میں جوانی میں گوشت نہیں کھا تا تھا۔ صوفی بشارت الرحمٰن مجھے کئی اطبّاء کے پاس لے کر پھرتے رہے۔ ایک حکیم احمد الدین(۴) ہوئے ہیں، حضرت مسیح موعودؑ کے رفیق۔ شاہدرہ کے رہنے والے تھے۔ ان کا ایک خاص طریقہ علاج تھا جسے انہوں نے ’’طبِ جدید‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ مجھے ان کے علاج سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ پھر میں نے اپنے ایک استاد، ڈاکٹر لطیف سے تحلیلِ نفسی کروائی جس سے میں اللہ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہوگیا۔ پتا یہ چلا کہ میرے بچپن میں جب گندم کی کٹائی ہوتی تو بٹیروں کی ڈاریں دانہ چگنے کے لیے آجاتیں۔ بعض لوگ جال لگا کر انہیں پکڑلیتے اور پھر ذبح کر کے کھا لیتے یا بازار میں بیچ دیتے۔ میں نے ایسا ہی ایک بٹیر گھر میں پال لیا اور اس سے کھیلتا رہتا۔ پتا نہیں کیوں ایک دن اسے ذبح کر کے مجھے کھلا دیا گیا۔ مجھے پتا چلا تو مجھے شدید غم ہواا ور میں بہت رویا دھویا۔ یہ واقعہ تو مجھے وقت کے ساتھ ساتھ بھول گیا لیکن یوں سمجھ لیں کہ اس دن سے مجھے گوشت سے سخت نفرت ہوگئی۔ جب میری تحلیلِ نفسی ہوئی تو مجھے یہ واقعہ یاد آگیا اور میں نے اسی طرح اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی لیکن گوشت سے میری نفرت ختم ہوگئی۔

اسی پس منظر میں اطفال کے اجتماع سے پہلے میں نے تجویز کیا کہ گائے کا گوشت نہ پکایا جائے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے میری تجویز سے اتفاق کیا اور فرمایا لکھو کہ گائے کا گوشت نہیں ہوگا۔ ہم نے خیمے لگوائے۔ ہر خیمے کا ایک انچارج مقرر کیا جسے ’’سائق‘‘ کہتے تھے اور ہر خیمے کے لیے ایک شعار مقرر کیا۔مجھے یاد ہے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد اور صاحبزادہ مرزا نعیم احمد بھی اس اجتماع میں شامل تھے۔ شِعار کو شُعار پڑھتے تھے۔ ہم نے پوری کوشش کی کہ وہ یہ لفظ صحیح طور پر ادا کرسکیں لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔

حضور نے سارے خیموں کا چکر لگایا۔ اطفال اپنے اپنے خیموں کے باہر سائقین کے پیچھے ایستادہ تھے۔ جب حضور قریب پہنچتے تو سائق اونچی آواز سے کہتا ہمارا شعار! اور پیچھے کھڑے اطفال بیک زبان کہتے’’صداقت ‘‘یا ’’عبادت ‘‘یا ’’سعادت‘‘(جو بھی ان کا شعار ہوتا)۔ حضور یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button