متفرق مضامین

بین المذاہب تعلقات کو استوار کرنے میں اسوۂ نبوی ﷺ

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبرِ دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں

آنحضورﷺ کا فرض ِمنصبی نبوت تھا۔ آپؐ کے ذریعہ دنیا میں ایک مذہب کی بنیاد رکھی گئی۔ اُس وقت موجود مختلف مذاہب کی تعلیمات میں مرورِ زمانہ سے جو اغلاط رہ پا گئی تھیں یا ان مذاہب کی تعلیمات میں جو کمزوریاں موجود تھیں، آپؐ کے ذریعہ ان سب کی تصحیح اور تکمیل ہوئی۔ چنانچہ اسلام کی آفاقی تعلیم کی شکل میں بنی نوع انسان کے لیے ایک کامل مذہب اور نافذ العمل تعلیم پیش کرنے کا فریضہ آپؐ کے سپرد ہوا۔ پس یہ قدرتی امر تھا کہ آپؐ کو روز اول سے ہی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بطور نبی اور مذہبی راہنما واسطہ پڑتا اور یوں آپؐ کے ذریعہ بین المذاہب تعلقات کے اصول طے کیے گئےاور ان پر عمل درآمد کے طریقے سکھائے گئے۔ ذیل میں بین المذاہب تعلقات کے متعلق آنحضور ﷺ کے بیان فرمودہ اور عملی طور پر پیش کردہ اصولوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اصول تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے یکساں اور ان پر عمل کے بغیر بین المذاہب صلح ناممکن ہے۔

پہلا اصول: آزادئ مذہب

سب سے اہم بات جو کہ بین المذاہب پر امن تعلقات کی بنیاد ہے، یہ اصول ہے کہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے کو کسی خیال کے ماننے پر مجبور نہ کیا جائے۔ جبر و طاقت کا استعمال دشمنی اور فساد کا سب سے بڑا موجب ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ۔ (البقرۃ: ۲۵۶)اس دین، یعنی اسلام، میں کوئی جبر نہیں۔ فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْ (الکہف: ۳۰) جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کر دے۔ کسی پر زبردستی نہیں کہ وہ ضرور کسی مخصوص دین کو قبول کرے۔

اس سے یہ مراد نہیں کہ ایمان لانا اور انکار کرنا برابر ہیں بلکہ یہ کہ ایمان لانا اور انکار کرنا ہر کسی کا ذاتی اور آزادانہ فیصلہ ہونا چاہیے۔ پھر اگر فیصلہ درست ہو گا تو قدرتی طور پر اس کے مثبت نتائج نکلیں گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور انعامات ملیں گے۔ اور اگر فیصلہ غلط ہو گا تو اس کا نقصان ہو گا۔ لیکن یہ جزا اور سزا اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی انسان یا حکومت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی شخص کو اس کے مذہبی خیالات کی وجہ سے سزا دے یا اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک کرے کیونکہ امتیازی سلوک بھی ایک قسم کی سزا ہی ہے۔

چنانچہ جب پہلی مرتبہ یہود کے ساتھ تعلق استوار ہوا تو ہجرت مدینہ کے موقع پر جو میثاق مدینہ کیا گیا اس میں مہاجرین اور اہل یثرب کو ایک امت قرار دیا گیا جس میں یہود بھی شامل تھے۔ نیز مزید وضاحت کے لیے ان کا الگ مخصوص ذکر کر کے فرمایا: ان یھود بنی عوف امہ مع المومنین۔ للیھود دینھم و للمسلمین دینھم۔(مجموعہ وثائق السیاسیہ، محمد حمید اللہ، صفحہ ۶۱)بنی عوف کے یہود مومنین کے ساتھ ایک امّت ہوں گے۔ نیز یہود کے لیے ان کا دین ہو گا اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہو گا۔ یعنی کسی کو اپنا دین تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا اور ہر ایک کو اپنے دین پر عمل کی مکمل آزادی ہو گی۔

دوسرا اصول: سب و شتم کی ممانعت

جبر و اکراہ کے بعد دوسری بات جو بین المذاہب تعلقات کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے وہ کسی کے مذہبی بزرگوں یا مذہبی عقائد یا مقامات مقدسہ یا کتب مقدسہ کے متعلق تحقیر آمیز، توہین پر مبنی بات کرنا یا ان کا ٹھٹھا اڑانا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک طرف کسی کے بزرگ یا عقیدہ کو گالی دی جائے اور دوسری طرف امید کی جائے کہ وہ جواب میں خاموش رہے گا یا اگر کسی مجبوری سے خاموش رہے بھی تو اس کے دل میں نفرت پیدا نہیں ہو گی؟ فرمایا لَا تَسُبُّوا لَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ للّٰهِ۔ (الانعام :۱۰۹)لوگوں نے اللہ کے ساتھ جو فرضی شریک بنائے ہوئے ہیں، جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں، ان کو بھی گالی مت دو۔ آگے اس کی وجہ بیان فرمائی کہ ان فرضی خداؤں کو کچھ کہو گے تو وہ انتقامی جوش میں تمہارے حقیقی خدا کو گالی دیں گے۔ اس کے موافق فرمایا: کبیرہ گناہوں میں یہ بھی ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے۔ جب دریافت کیا گیا کہ یہ کیونکر ممکن ہے، تو فرمایا: يسب أبا الرجل فيسب أباه، ويسب أمه فيسب أمه۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الکبائر ا کبرھا) جب کوئی شخص کسی کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دیتا ہے تو گویا اس شخص نے اپنے ماں باپ کو خود ہی گالی دی۔ پس کسی کے نسبی یا روحانی بزرگوں کے لیے توہین، تضحیک، تمسخر آمیز بات کرنا درحقیقت خود اپنے ہی بزرگوں کو ایسا کہنا قرار دیا گیا ہے۔ سب و شتم ویسے بھی ایک مذموم حرکت ہے جس کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ بلکہ فرمایا منافق کی چار نشانیوں میں ایک یہ ہے کہ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ (ابو داؤد، کتاب السنہ، باب الدلیل علیٰ زیادہ الایمان و نقصانہ) یعنی جب بحث کرتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔ کسی کے بزرگوں کے تضحیک یا توہین آمیز خاکے بنانا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔

اس اصول سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ صرف بزرگ ہی نہیں بلکہ مقدس سمجھے جانے والی تمام چیزیں اسی اصول کے ماتحت ہیں اور مقامات یا کتب مقدسہ وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ ان میں سے کسی کے متعلق بھی توہین و تحقیر آمیز بات کہنے کا بھی یہی نتیجہ ہو گا کہ دوسرا فریق ہمارے بزرگان اور مقامات مقدسہ وغیرہ کی توہین و تحقیر کرے گا۔ چنانچہ یہ سب باتیں ممنوع ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کر سکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبرِ دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں۔ اور ان قوموں میں ہرگز سچا اتفاق نہیں ہو سکتا جن میں سے ایک قوم یا دونوں ایک دوسرے کے نبی یا رشی اور اوتار کو بدی یا بدزبانی کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نبی یا پیشوا کی ہتک سن کر کس کو جوش نہیں آتا‘‘۔ (پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳، صفحہ ۴۵۲)

تیسرا اصول: مذہبی مساوات

جبر و اکراہ اور توہین کے بعد تیسری بات جو فساد کی بنیاد بنتی ہے عدم مساوات ہے۔ بہت سی اقوام کا خیال تھا کہ صرف وہی خداتعالیٰ کے پسندیدہ ہیں: نَحْنُ أَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَأَحِبَّاؤُهُ۔ (المائدہ:۱۹) جبکہ باقی سب اقوام ان سے کمتر اور ذلیل ہیں اور خداتعالیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ صرف یہود و نصاریٰ ہی نہیں، جن کا اس جگہ بالوضاحت ذکر ہے، بلکہ یہ خیال مختلف صورتوں میں کم و بیش تمام اقوام میں پایا جاتا ہے اور تکبر اور ظلم کی بنیاد بنتا ہے۔ اس کے مقابل پر اعلان فرمایا: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُوْلًا (النحل: ۳۷) ہر قوم کی جانب اللہ کی جانب سے سچے رسول بھیجے گئے ہیں۔ اور یہ رسول اپنے منصب کے لحاظ سے برابر ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا: لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۔(البقرۃ : ۲۸۶) اس اصل کے ذریعہ تمام اقوام میں اللہ کے بھیجے ہوئے انبیاء کی موجودگی کا اقرار کیا اور سب مذاہب میں مساوات اور برابری قائم فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ بطور اصول فرمایا: ’’لا ينبغي لعبد أن يقول: أنا خير من يونس بن متى ‘‘۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ و ان یونس لمن المرسلین)کسی بندے کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ یقیناً آپ ﷺ اپنے مقام اور قرب الٰہی کے لحاظ سے یونسؑ ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء سے بہتر تھے مگر منصب نبوت کے لحاظ سے ایک برابری بھی تھی۔

یہ الگ امر ہے کہ: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔ (البقرۃ :۲۵۴)یعنی منصب کے لحاظ سے برابری کے باوجود مقام کے لحاظ سے انبیاء میں فرق بھی ہے۔ مگر یہ فرق اللہ نے مقرر کیا ہے بندوں نے نہیں۔ تاہم خاتم النبیین کے عظیم الشان مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے سامنے اپنی فضیلت ایسے رنگ میں بیان کرنے سے جو ان کے بزرگوں کی تخفیف کے مترادف یا ان کے لیے تکلیف کا باعث ہو منع فرمایا: لا تخيروني من بين الأنبياء۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب اذا لطم المسلم یھودیا) یعنی فخر و مباہات کے لیے اور دوسروں کو تکلیف پہچانے والے انداز میں مجھے دوسرے نبیوں سے بہتر مت قرار دو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں ’’اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کی فضیلت کے متعلق اپنے عقائد کا غیروں کے سامنے ایسے غیر محتاط انداز میں ذکر نہ کیا کریں جس سے ان کی دل شکنی اور دل آزاری ہو‘‘۔ (اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل، صفحہ ۲۰)

یہ اصول صرف اہل کتاب کے متعلق نہیں بلکہ تمام ادیان خواہ وہ کتاب پر مبنی ہوں یا نہیں، سب کے لیے یکساں ہے۔ مشرکین مکہ کے ساتھ معاہدہ حدیبیہ کرتے وقت اس اصول کی ایک عملی شکل یوں ظاہر ہوئی کہ ان کے کہنے پر آپؐ نے معاہدہ کی تحریر میں سے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ اور ’’رسول اللہ ‘‘کے الفاظ حذف فرما دیے۔ (بخاری، کتاب الشروط، باب شروط فی الجھاد و المصالحۃ)یوں مشرکین مکہ کے اعتراضات کو مساوات کے اس اصول کے مطابق دور کیا گیا۔

چوتھا اصول: عبادت گاہوں کا تحفظ

بزرگوں کی توہین کے بعد چوتھی بات جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان امن و آشتی کے لیے ضروری ہے معابد اور مقامات مقدسہ کا تحفظ ہے۔ اگر کسی مذہب کے مقامات مقدسہ پر قبضہ کیا جائے یا ان کو مسمار کیا جائے یا ایسی کوشش بھی کی جائے تو اس سے صدیوں تک چلنے والے جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں بابری مسجد، مسجد اقصیٰ، بامیان کے مجسمے اس کی مشہور مثالیں ہیں۔ کسی جگہ کلیساء یا مندر یا مسجد کے مسمار کرنے کی کوشش کو جواز بنا کر مذہبی فسادات شروع کر دیے جاتے ہیں۔ اس لیے عبادت گاہوں کی حرمت کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ فرمایا : وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ۔ (الحج :۴۱) پس اللہ تعالیٰ صوامع یعنی خاموش عبادت یا تنہائی میں رہنے کی جگہیں اور بیع یعنی مذہبی مقاصد کے لیے جمع ہونے کی جگہیں اور صلوات یعنی دعائیں مانگنے کی جگہیں اور مساجد یعنی سجدہ ریز ہونے کی جگہیں، ان سب کی حفاظت کے لیے بعض لوگوں کو بعض دیگر لوگوں کے ذریعہ بدل دیتا ہے۔ اگرچہ عموماً اس جگہ مسیحی راہب خانے اور کلیساء اور یہودی ہیکل اور مسلمانوں کی مساجد مراد لی جاتی ہیں، تاہم آیت کے الفاظ ہمہ گیر ہیں۔ اگر محض مسیحی اور یہودی عبادتگاہوں کا ذکر ہی مقصود ہوتا تو اس جگہ ’’كنيسة ‘‘ اور ’’دیر‘‘ کے الفاظ ہونے چاہیے تھے جو کہ اس زمانہ میں بھی اس مقصد کے لیے مستعمل تھے جیساکہ بہت سی احادیث و روایات میں درج ہے۔ پس یہ آیت تمام مذاہب کی مختلف قسم کی عبادتگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ظاہر ہے کہ معابد کے ساتھ پروہت، پادری، ربی، مولوی، وقف شدہ مرد یا عورتیں وغیرہ بھی اس حفاظت میں شامل ہو جاتے ہیں۔

پانچواں اصول: آزادی عمل

پانچویں بات جو مذاہب کے درمیان صلح کے لیے ضروری ہے یہ ہے کہ ہر مذہب کے پیروکار کو اپنی تعلیمات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہو، فرمایا: يٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَكَانَتِكُمْ إِنِّىْ عٰمِلٌ۔ (الزمر ۴۰، الانعام ۱۳۶)اے قوم کے لوگو!تم اپنی جگہ اپنے خیال کے مطابق عمل کرو میں بھی اپنے طریق کے مطابق عمل کر رہا ہوں۔ گویا نہ صرف ہر ایک مذہب کے پیروکاروں کو اپنا الگ نظریہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے بلکہ اس پر عمل کی اجازت بھی دی گئی ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو شرک یا بدعت یا دھوکا دہی یا اور کسی بات کا جواز بنا کر اپنے مذہب پر عمل کرنے سے روک دے۔ اس سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنی ضرورت کے مطابق عبادتگاہیں، راہب خانے، مندر، ہیکل وغیرہ بنانے کی بھی اجازت ہے ورنہ وہ اپنے مذہب پر عمل نہیں کر سکتے۔

البتہ ایسا عمل جو کسی انسان کی جان کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو اس سے مستثنیٰ ہے مثلاً کوئی مذہب انسان کی قربانی کی تعلیم دے یا کسی کو خود کشی پر اُکسائے تو اس عمل کو آزادی مذہب کے باوجود روکنا جائز ہو گا۔ ایسے امور کے سوا ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہونی چاہیے۔

چھٹا اصول: تبلیغ کی آزادی

چھٹی بات یہ ہے کہ ہر شخص کو نہ صرف اپنے مذہب پر ایمان رکھنے اور اس پر عمل کی آزادی ہو بلکہ اپنے مذہب کی تبلیغ اور اپنے نکتہ نظر کو مدلل طریق پر پیش کرنے کی بھی آزادی ہو۔ فرمایا: أَمْ لَكُمْ سُلْطَانٌ مُّبِيْنٌ۔فَأْتُوْا بِكِتَابِكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِيْنَ۔ (الصافات: ۱۵۷۔۱۵۸)کیا تمہارے پاس کوئی واضح دلیل ہے،؟ اگر تم سچے ہو تو پھر اپنی کتاب پیش کرو۔ قُلْ‌ هَاتُوْا بُرْهَانَکُمْ‌ إِنْ‌ کُنْتُمْ‌ صَادِقِيْنَ‌ (البقرۃ: ۱۱۲) اگر تم سچے ہو تو اپنی بات کے حق میں کوئی واضح دلیل پیش کرو۔ یعنی غیر مذہب والوں کو بار بار بحث مباحثہ اور اپنے عقائد کے حق میں دلائل دینے کی طرف بلایا گیا ہے۔ پھر مسلمانوں کے لیے فرمایا: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ۔(النحل ۱۲۶)یعنی اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلا۔ اور ان لوگوں کے ساتھ بہترین طریق پر بحث مباحثہ کر۔ پس دیگر مذاہب کے ساتھ مذہبی بحث، جسے دوسرے الفاظ میں تبلیغ کہہ سکتے ہیں، ہرگز ممنوع نہیں بلکہ اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ درحقیقت جو لوگ بحث مباحثہ سے منع کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنی کمزوری کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس اپنی بات کے حق میں واضح اور مضبوط دلائل ہوں تو وہ بڑی خوشی سے بحث پر آمادہ ہو جائیں۔ جب پلے کچھ نہ ہو تو پھر ظاہر ہے کہ بحث کو بند کرنا ہی ان کے لیے مفید ہے۔ یہ بات صرف غیروں پر ثابت نہیں آتی خود مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ تاہم اسلام کی تعلیم اس غلط طریق سے مختلف ہے۔

سن ۹ ہجری میں نجران کے مسیحیوں کا ساٹھ افراد پر مشتمل وفد آپﷺ کے پاس مدینہ میں حاضر ہوا تو ان کے ساتھ تفصیلی بحث مباحثہ ہوا۔ وفد کئی دن وہاں قیام پذیر رہا۔ ان کو مکمل عزت و احترام سے رکھا گیا۔ بحث کے باوجود وہ آخر تک اپنے دین یعنی مسیحیت پر قائم رہے۔ جب آخر میں مباہلہ کی دعوت دی گئی تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا۔ اس دوران وہ مسجد نبویؐ میں اپنے طریق پر عبادت بھی کرتے رہے۔ (ابن کثیر، البدایہ و النھایہ، جلد ۷، صفحہ ۲۶۲۔۲۷۲) یہ اسی اصول کا عملی اظہار تھا کہ ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کے حق میں دلائل پیش کرنے اور اس کی جانب بلانے کی آزادی ہے۔ اسی طرح مختلف سوال اٹھانے کی بھی آزادی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں یہود اور مشرکین کی طرف سے کیے گئے کئی سوالات کا ذکر ہے اور ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔

ساتواں اصول: اشتراک عمل

ساتویں بات جو بین المذاہب امن کو دنیا کے لیے باثمر بناتی اور براہ راست فائدہ پہنچاتی ہے وہ مشترکہ اور متفقہ امور پر اتحاد ہے مثلاً رفاہ عامہ کے کام ہیں، انسانی حقوق کے کام ہیں، مشکل اور مصیبت میں گرفتار لوگوں کی مدد ہے، شہری اور ملکی مفاد کے کام ہیں، امن کے قیام کی کوششیں ہیں، مذہبی ہم آہنگی کا فروغ ہے وغیرہ۔ میثاق مدینہ جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے میں یہ اصول عملی طور پر واضح کیا گیا تھا۔ باوجود مذہبی اختلاف کے یہود کو مسلمانوں کے ساتھ ایک امت قرار دیا گیا۔ نیز امور مملکت میں اشتراک عمل کیا گیا۔ جنگی اخراجات میں مسلمان اور یہود دونوں شریک ہوئے اور یہ بھی طے ہوا کہ حملہ کی صورت میں مسلمان اور یہود ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ (مجموعہ وثائق السیاسیہ، محمد حمید اللہ، صفحہ ۵۹ تا ۶۲) پس اختلاف مذہب صرف مذہب کے دائرہ تک ہے۔ اس کے سوا دیگر معاملات میں اشتراک عمل بالکل جائز اور ضروری ہے اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں ہم آہنگی اور امن کا باعث ہے۔

آٹھواں اصول: نجات پر اجارہ داری کی تردید

آٹھویں بات جو بین المذاہب تعلقات پر اثر انداز ہوتی ہے کسی بھی مذہب یا فرقہ کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے سوا باقی سب جہنمی یعنی خدا کی رحمت سے دور اور لعنتی ہیں۔ یہ بھی گالی ہی کی ایک قسم ہے۔ درحقیقت نہ تو کسی مذہب یا فرقہ سے وابستگی کی وجہ سے کوئی شخص لازمی طور پر جنتی ہو جاتا ہے اور نہ ہی کسی مذہب یا فرقہ سے عدم تعلق کی بناء پر لازمی طور پر جہنمی۔ جب کسی مذہب یا فرقہ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جنتی یا جہنمی ہے تو اس سے مراد اس کی عمومی صورتحال ہے نہ کہ اس کے ہر ایک پیروکار کا انفرادی انجام۔

یہ بحث ہمیشہ سے فساد کی ایک وجہ بنتی آئی ہے اور اسی لیے انبیاء کے مخالفین نے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرعون نے موسیٰؑ سے سوال کیا کہ ہمارے آباء و اجداد اور بزرگوں کا کیا حال ہوا؟ اس پر اسے جواب دیا گیا: عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ فِیۡ کِتٰبٍ ۚ لَا یَضِلُّ رَبِّیۡ وَلَا یَنۡسَی (طٰہٰ :۵۳) یعنی ان کے انجام کا علم میرے رب کو ہے۔ میرا رب نہ تو غلطی کرتا ہے کہ کسی بے قصور پر زیادتی کر جائے اور نہ ہی بھولتا ہے کہ اسے یاد نہ رہے کہ فلاں کا کیا حال تھا اور اس کی نیت اور اعمال کیسے تھے اور اس کا علم کتنا تھا اور عقل کتنی تھی۔ نعوذ باللہ یہ کوئی مداہنت یا خوف پر مبنی مبہم جواب نہیں تھا۔ حقیقت ہی یہی ہے کہ کسی بھی مخصوص شخص، خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کا انجام اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس کے متعلق فتویٰ نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ضرور جنتی یا جہنمی ہے، سوائے اس کے کہ اللہ اس کے متعلق اطلاع دے کہ فلاں کا یہ انجام ہو چکا ہے۔

اس کی مزید وضاحت ایک اور آیت سے ہو سکتی ہے۔ فرمایا:اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَالَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِئِیۡنَ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۪ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔ (البقرۃ: ۶۳)اس جگہ مسلمانوں، یہودیوں، مسیحیوں اور صابیوں کا نام بنام ذکر کر کے واضح فرمایا ہے کہ ان میں سے اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے اور اعمال صالحہ کرنے والوں کو اس کا اجر ملے گا اور ان کے لیے کوئی خوف اور غم نہیں ہو گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ یہ خیال کرنا کہ کسی ایک مذہب میں داخل ہوئے بغیر نجات نہیں مل سکتی اور باقی تمام لوگ جہنمی ہیں ایک ’’تنگ نظر، کٹر اور عدم روادارانہ ‘‘ خیال ہے۔ پھر فرماتے ہیں: ’’میں اپنے سامعین کرام کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اسلام کی طرف ایسے کٹر نظریہ کو منسوب کرنے کا ہرگز کوئی جواز موجود نہیں‘‘۔(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ ۲۴) پھر فرمایا: ’’قرآن کریم کی رو سے نجات پر کسی ایک مذہب کی اجارہ داری نہیں۔ وہ لوگ جنہیں اپنے آباء و اجداد سے غلط نظریات ورثہ میں ملے ہیں مگر وہ عام طور پر سچائی اور خلوص کی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نجات سے محروم نہیں کیے جا سکتے ‘‘۔ (اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ ۲۴)

اس سے یہ بھی مراد نہیں کہ آنحضورؐ یا حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کی ضرورت ہی نہیں بس اچھے اعمال کرو اور نجات حاصل کر لو۔ اس طرح تو کُل سلسلہ انبیاء کا باطل ٹھہرتا ہے۔ نبی، جو کہ اللہ کا مقرر کردہ نائب ہوتا ہے، سے روگردانی کر کے کوئی شخص اللہ کا قرب کیونکر حاصل کر سکتا ہے؟ پہلا سبق جو آدمؑ کے قصے میں بیان کیا گیا ہے یہی ہے کہ جس میں خدا نے اپنی روح پھونک دی، اس کی اطاعت کرنا لازم ہو گا ورنہ راندۂ درگاہ اور مردود ٹھہرے گا۔ پس مذکورہ بالا آیت میں نجات پانے والے غیر مومنین سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے نبی پر ایمان نہ لانے کی وجہ بغاوت یا روگردانی نہیں بلکہ دیگر وجوہ ہیں۔ چونکہ ان کا علم اللہ ہی کو ہو سکتا ہے اس لیے ان کی نجات کا فیصلہ بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں ’’وحی الٰہی پر مبنی تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ اللہ انہیں کوئی سزا نہیں دے گا اور نہ ہی وہ نجات سے محروم رکھے جائیں گے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نئے مذہب کو شناخت نہ کر سکنے کا ان کے پاس کوئی حقیقی اور جائز عذر ہو ‘‘۔(اسلام اور عصر حاضر کے مسائل کا حل صفحہ ۲۴) یہ جائز اور حقیقی عذر کیا ہے؟ اس کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے جو کہ عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔چنانچہ کسی مخصوص شخص پر فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ ضرور جہنمی ہے۔

نواں اصول: افہام و تفہیم کے لیے حقوق کی قربانی

نواں اصول جو آپؐ نے قائم فرمایا وہ افہام و تفہیم ہے، جس کے لیے اگر ضرورت ہو تو اپنے جائز حقوق کی قربانی بھی دے دینی چاہیے۔ اس سے پہلے تیسرے اصول کے تحت ذکر ہو چکا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے نبیؐ کی فضیلت یا اپنی تعلیمات اس طریق پر بیان نہ کریں کہ دوسروں کے لیے باعث تکلیف ہوں۔ یہ اصول اس سے ایک قدم آگے جا کر بین المذاہب امن کو قائم کرنے کی خاطر اپنے جائز حقوق کی قربانی کے متعلق ہے۔ صلح حدیبیہ میں مساوات کے اصول کے تحت مشرکین مکہ کے اعتراض کرنے پر آنحضورﷺ نے معاہدہ کے متن میں سے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ اور ’’رسول اللہ‘‘کے الفاظ حذف فرما دیے تھے۔(بخاری، کتاب الشروط، باب شروط فی الجھاد و المصالحۃ)لیکن اسی معاہدہ میں آپؐ نے قیام امن کی خاطر اپنے حق سے دستبردار ہونے کا اصول بھی قائم فرمایا۔ چنانچہ آپؐ نے اس معاہدہ میں بعض ایسی شرائط بھی قبول فرمائیں جو کہ مساوات کے سراسر خلاف تھیں۔ مثلا ً یہ کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر مکہ سے مدینہ گیا تو اسے واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر کوئی شخص مدینہ سے کافر ہو کر مکہ گیا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔(بخاری، کتاب الصلح، باب الصلح مع المشرکین)اس جگہ امن کی خاطر اپنا جائز حق قربان کر دیا حالانکہ طاقت کا استعمال بھی کیا جا سکتا تھا۔ کمزوری کی حالت میں تو ہر ایک قربانی دیتا ہے، کیونکہ اس پر مجبور ہے۔ لیکن حدیبیہ میں مسلمان مکہ کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے اور موت پر بیعت کر کے نہایت درجہ جوش میں تھے۔ تعداد بھی کافی تھی۔ ایسے موقع پر طاقت ہونے کے باوجود اپنے جائز حق کی قربانی کی حکمت صحابہؓ کو بھی سمجھ نہیں آئی اور دہائیاں دی گئیں کہ کفار مکہ زیادتی کر رہے ہیں، یہ بات ہماری عزت اور حمیت کے خلاف ہے، ہم کیوں ایسی ذلت آمیز شرائط قبول کریں وغیرہ۔ لیکن آپؐ نے کچھ پرواہ نہ فرمائی۔ پس ایسے مواقع پر قیام امن کا زیادہ اہم اور ضروری ہدف پیش نظر رکھنا چاہیے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button