متفرق مضامین

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بطور ماہر ِنفسیات جدید تحقیق کی روشنی میں

(‘م۔ ط۔ بشیر’)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی تعلیم عطافرمائی کہ جو نہ صرف ہماری روحانی نشوونما کے لیےایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے بلکہ ہماری ذہنی اور جسمانی پر ورش کے لیے بھی انتہائی مفید ہے

گزشتہ چند سالوں میں دنیا انتہائی تیز رفتاری کےساتھ ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔ ایسی ترقی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی۔ وہ اشیاء جو کبھی کتابوں، قصوں میں تصور کی جاسکتی تھیں آج حقیقت بن کر ہم سب کےسامنے کھڑی ہیں۔ جہاں چند دہائیوں پہلے کسی دوسرے بر اعظم میں جانا ایک انتہائی مشکل امر تھا وہاں آج خلائی سفر کرنا بھی آسان نظر آرہا ہے۔ ایک انتہائی تیز رفتاری سے بدلنے والی یہ دنیا ایک ایسی نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں پر ایک پَل کے لیے ٹھہرنا بھی اپنے لیے سماجی موت کو قبول کر نے کے مترادف ہے۔ مگر کیا یہ ترقیات، یہ سہولیات، یہ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے والی دنیا ہماری زندگیوں میں پہلے سے بڑھ کر خوشیاں پیدا کر رہی ہے؟ یا ہمارے اندر مزید بے چینیاں پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے؟

2019ء کی World Happiness Reportکے مطابق دنیا بھر میں منفی احساسات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2010ء سے 2018ءتک منفی احساسات میں 27فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ Jeffery D. Sachsجو کہ ایک مشہور ماہر معاشیات ہیں کے مطابق ’’ہم ایک بڑھتے ہوئے منفی جذبات اور کشیدگیوں کے دور سے گزر رہے ہیں‘‘۔ یہ بے چینیاں لوگوں میں ذہنی دباؤ پیدا کر رہی ہیں جس سے وہ ڈپریشن جیسی بیماریوں کا شکار بن رہے ہیں۔ اگر بروقت ان بے چینیوں کو دور نہ کیا جائے اور نہ ہی صحیح علاج تجویز کیا جائے تو بالآخر انسان کو ایسے مقام پر بھی لے جاسکتی ہیں جہاں وہ خود کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض انتہائی کیسز میں تو معاملہ خود کشی جیسے مستقل قدم تک پہنچ جاتا ہے۔ مگر آخر ان بے چینیوں کی کیا وجہ ہے؟ کوئی ایک نہیں بلکہ مختلف لوگوں میں مختلف وجوہات کے باعث ڈپریشن پیدا ہورہا ہے۔

بعض لوگ سماجی مسائل کی وجہ سے بے چین ہیں تو کچھ کو معاشی بحران اس کنارے پر لے آیا ہے۔ بعض کا ماحول ان کے اندر ڈر اور خوف پیدا کر رہا ہےجبکہ کچھ کو حسد کی آگ جلا رہی ہے۔ بعض احساس کمتری کے شکار بن چکے ہیں۔ بعض کے اندر احساس گناہ منفی جذبات کے پیدا ہونے کا باعث بن رہا ہے۔ غرض یہ کہ اس بیماری کی ایک وجہ نہیں بلکہ مختلف اندرونی اور بیرونی عوامل اس کیفیت کو پیدا کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ بروقت علاج نہ کرنے کی صورت میں اس کے انتہائی خطرناک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں مثلاًمنشیات و شراب نوشی کی لت، جوا کھیلنے کی عادت، نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے غلط اقدامات کا اٹھانا، اپنے آپ کو یا کسی اور کو جسمانی نقصان پہنچاناجبکہ اس کا آخری قدم خود کشی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیاکی 4.4فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔ World Health Organizationکےکوائف کےمطابق دنیا میں ہر سال 7لاکھ موتیں خود کشی کے باعث ہوتی ہیں۔ اس حساب سےدنیا بھر میں ہر 40سیکنڈ میں کہیں نہ کہیں ایک انسان اپنی جان لے لیتا ہے۔ ایک اوراندازے کے مطابق اس سے 20گنا زیادہ لوگ خود کشی کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی قابل فکر مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا نہایت ضروری ہے۔ مگر کیا اس جدید زمانہ میں ہمیں اس کے لیے کوئی جدید لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے یا ہمارے پاس پہلے سے اس کا حل موجود ہے؟جدید زمانہ میں ایسی ادویات کی ایجاد ہو چکی ہے جو ایسے مریضوں کی مدد کے لیے دی جاتی ہیں۔ تا ہم یہ ادویات عارضی طور پر تو سکون عطا کر دیتی ہیں مگر ان بیماریوں کا مستقل حل نہیں۔ اس کے برعکس خاکسار کی رائے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے قرآن کریم کی تعلیم، اپنی سنت اور احادیث کے ذریعہ وہ پْرحکمت نصائح عطا فرمائی ہیں جس سےہم ان بیماریوں کے پیدا ہونے سےاوران کےنقصانات سے اپنے آپ کومحفوظ رکھ سکتے ہیں۔اس کایہ مطلب نہیں کہ جن کو ادویات تجویز کی گئی ہیں وہ ان کو چھوڑ دیں کیونکہ ادویات کا استعمال بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی گئی تعلیم کے مطابق ہے مگرمکمل شفایابی کے لیے جس ماحول اور کیفیت کی ضرورت ہےوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ذریعہ قائم کی جاسکتی ہے۔

ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ذہنی بیماریوں کے حل کے لیے کسی بھی سطح پر تیار کیےجانے والے لائحہ عمل کے لیے ضروری ہے کہ اس بیماری کے تمام پہلوؤں کوجن میں سماجی، سیاسی اور معاشی وجوہات شامل ہیں کو مد نظر رکھا جائے۔ اور یہی بات ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی دیکھتے ہیں کہ زندگی کے ہر پہلو پر انتہائی پر حکمت روشنی ڈالتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی تعلیم عطافرمائی کہ جو نہ صرف ہماری روحانی نشوونما کے لیےایک مکمل ضابطہ اخلاق ہے بلکہ ہماری ذہنی اور جسمانی پر ورش کے لیے بھی انتہائی مفید ہے۔ اس مضمون میں ایسی چند احادیث کا ذکر کروں گا تا ہم یہ چند احادیث محض حکمت کے نہ ختم ہونے والےاس گہرے سمندر سے چند بوندیں لینے کے مترادف ہو گا۔

زبان اور ہاتھ سے دوسرے کو نقصان نہ پہنچاؤ

بخاری میں ایک حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔یہ بنیادی چیز ہے جس پر عمل کر کے بہت سی بے چینیوں سے بچا جاسکتا ہے۔بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ دوسرے کو تکلیف صرف اپنے ہاتھ سے دی جاسکتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں زبان کا ذکر پہلے کیا ہے کیونکہ زبان سے دی گئی تکلیف کے نتائج بہت دیر پا ہوتےہیں۔دماغی بیماریوں کی اصل وجہ زبان کا غلط استعمال ہی ہے جس کے سبب سے دماغ میں بے چین کرنے والے خیالات جنم لیتےہیں اور آہستہ آہستہ نشوو نما پاکر بیماری کی حد تک لے جاتے ہیں۔اسی طرح جو شخص پہلے سے بیمار ہو اس کے آگےزبان کا ذرہ سا غلط استعمال بھی انتہائی خطرناک نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ ریسرچ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے۔ کتابWords can۔ Change Your Brainمیں اس کے مصنفین لکھتے ہیں کہ مثبت الفاظ ہمارے دماغ کی علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں جبکہ منفی الفاظ اس صلاحیت کو کمزور بنادیتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک لفظ کا غلط استعمال بھی اپنے اندر ایسی قوت رکھتا ہے کہ وہ ہماری جسمانی اور ذہنی کشیدگی کو کنٹرول کرنے والی جینز کو تبدیل کر سکتا ہے۔

پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اپنی زبان کے حملوں سے دوسروں کو محفوظ رکھو اپنے اندر بہت سے نفسیاتی مسائل کا حل سمیٹے ہوئے ہے۔ زبان کے غلط استعمال میں کسی کو گالی دینا، کسی کو حقارت سے پکارنا، کسی سے طعنہ زنی کرنا،کسی سے ایسی بات کرنا جس سے اس کو یا اس کے پیاروں کو تکلیف ہو، کسی کو ایسے نام سے پکارنا جس کو وہ پسند نہیں کرتا وغیرہ شامل ہیں۔ ریسرچ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ یہ تمام باتیں براہ راست یا بالواسطہ ذہن پر بوجھ ڈالتی ہیں اور بے چینیوں میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں۔

نفسیات پر صحبت اور ماحول کا اثر

آپ صلی اللہ علیہ سلم کے اپنے عمل اور احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ آپ انسانی نفسیات کے باریک پہلوؤں کو بخوبی سمجھتے تھے۔ آپ کی نظر اس بات پر بھی تھی کہ انسان کا ماحول اس کے ذہن پر کس قدر اثر کرتا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اچھے ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک اٹھانے والے اور بھٹی جھونکنے والے کی سی ہے۔ خوشبو والا یا تو تجھے (خوشبو)دے دے گا یا تو اس سے خرید لے گا یا کم از کم تجھے اس سے اچھی خوشبو تو آجائے گی اور بھٹی جھونکنے والا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا تجھے اس سے بد بو آئے گی‘‘۔ (مسلم۔اردوترجمہ :حدیقۃ الصالحین صفحہ 417)

آج کل کے ماہرین بھی اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ صحبت کا اثر انسان کے نفس پر پڑتا ہے یہاں تک کہ ذہنی دباؤ کے مریضوں کو یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ منفی خیالات رکھنے والے لوگوں سے دور رہیں اور ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو ان میں مثبت احساسات اجاگر کریں۔ چنانچہ اگر مندرجہ بالا حدیث کو محض نفسیاتی نقطٔہ نگاہ سے پرکھا جائے توہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہی تعلیم آج سے 1500سال قبل عطافرمائی۔

اسی حوالہ سے آپ کی ایک اور ہدایت ہمیں ملتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’لوگوں کو اسلام کی طرف بلاؤ۔ ان کو خوشخبری سناؤ، نفرت نہ دلاؤ بلکہ آسانی پیدا کرو۔ مشکل میں نہ ڈالو۔ آپس میں اتفاق رکھواور اختلافات نہ کرو۔‘‘(ابو داؤد۔النسائی)

مندرجہ بالا احادیث سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو آپس میں ایک مثبت ماحول بنانا ہے۔ منفی باتوں سے بچنا ہے۔ مثلاً اچھی باتیں بتایا کرو جبکہ ایسی گفتگو جس میں منفی پہلو ہوں سے گریز کیا کرو۔یہ بات ہم سب اپنے تجربہ سے بھی محسوس کرتےہیں کہ جب کہیں بھی ہم کسی اچھی مفید گفتگو کا حصہ بنیں تو اس کاہمارے ذہن پر بہت مثبت اثر پڑتا ہےجبکہ مشکل اور منفی بات چیت کے نتیجہ میں ذہن میں ایک بوجھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ریسرچ بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے۔ ہر مثبت بات چیت پر انسان کے اندر Oxytocinکے نام سے خوشی کا ہارمون پیدا ہوتا ہے جو کہ ہماری ذہنی صلاحیتوں پر اچھا اثر چھوڑتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس منفی گفتگو سے Cortisolہارمون پیدا ہوتا ہے جو کہ ہماری سوچنے کی صلاحیت کومنفی طور پر متاثر کر تا ہے۔

ہمیشہ مسکراتے رہنا

اچھا ماحول بنانے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بھی ہدایت فرمائی کہ ہم ہر معاملہ میں صبر و استقلال سے کام لیں اور اپنی سنت کے ذریعہ ہمیشہ مسکراتے رہنے کی تعلیم دی۔ چنانچہ’’حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی اور شخص کو نہیں دیکھا‘‘۔(ترمذی۔اردوترجمہ:حدیقۃ الصالحین صفحہ 49)

اب ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل کی ریسرچ مسکرانے کے بارہ میں کیا کہتی ہے؟ جب ہم مسکراتے ہیں تو ہمارا دماغ neuropeptidesکے نام سے مالیکیولز پیدا کرتا ہے جو ذہنی تناؤکا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد دیتے ہیں۔ اسی طرح مسکرانے سے دیگر ہارمونزمثلاً dopamine, serotoninاور endorphins پیداہوتےہیں۔ یہ ہارمونز بھی ذہنی دباؤ کو کم کرنے اور اینٹی ڈپریسنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ لہٰذا بعض ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انسان کو تکلیف میں بھی کوشش کرکے مسکرانا چاہیے تا ذہنی دباؤ کو کم کیا جاسکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بہت سی آزمائشوں کا سامنا کیا۔ بچپن میں ہی والدین کی وفات۔ چھوٹی عمر میں دادا کی وفات۔ رسالت کی ذمہ داری ملنے پر اپنوں کی مخالفت، اپنے شہر سے ہجرت، اولاد کی وفات۔ غرض یہ کہ بہت سے ایسے مواقع آئے جہاں آپ کے صبر کو آزمایا گیا مگر آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر اور استقلال کامظاہرہ فرماتے رہے اور ہمیشہ مسکراتے رہے۔ اگر آج ہم آپ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کریں اور باوجود مشکلات اور پریشانیوں کے مسکراتے رہنے کی کوشش کریں تو نہ صرف یہ کہ ہمیں اپنے آقا کی سنت پر چل کر ثواب حاصل ہوگا بلکہ یہ عمل ہمارے اپنے ذہن کے دباؤ کو بھی کم کرے گا اور ہماری صحت پر اس کا اچھا اثر قائم ہوگا۔

غصہ کو کم کرنے کا طریق

اسی طرح غصہ بھی انسان کے اندر بہت سے منفی احساسات کو پیدا کرتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو چاہیے کہ بیٹھ جائے، اب اگر اس کا غصہ رفع ہو جائے (تو بہتر ہے)ورنہ پھر لیٹ جائے‘‘۔(ابی داؤد۔ کتاب الادب)اب یہ ایسی بات ہے جو ایک عام انسان کے ذہن میں نہیں آسکتی اور جدید ریسرچ نے اس بات کوثابت کیا ہے کہ یہ بات ایک ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جو انسانی نفسیات کو سمجھتا ہو۔ چنانچہ Dr. Robert Nay جو کہ جارج ٹاؤن میڈیکل اسکول میں نفسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں کہتے ہےکہ جب ہم بیٹھے یا لیٹے ہوئے ہوں تو ہمارے دماغ کو یہ سگنل جاتا ہے کہ ہم سکون میں ہیں اور محفوظ ہیں، اس کے برعکس اگر ہم کھڑے ہوں اور بحث کر رہے ہوں تو ایڈرینالین اور تناؤ کا ہارمون Cortisolاپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ اس سے ہمارےدل کی دھڑکن تیز ہونا شروع ہو جاتی ہے اور آواز بھی آہستہ آہستہ اونچا ہونا شروع ہو جاتی ہے جس سے ہمارا غصہ اور بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں پہلے سے بتا گئے ہیں کہ جب غصہ کی حالت میں ہوں تو اس کو روکنے کے لیے بیٹھ جائیں اور اگر تب بھی بہتری نہ آئے تو لیٹ جائیں۔ دماغ کو خود ایسے سگنلز جائیں گے جس سے ہمارا غصہ جاتا رہے گا اور ذہن پر اس کے منفی اثرات سے ہم بچ سکیں گے۔

غم اور فکر کے لیے دعا

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو غم اور فکر زیادہ ہوں وہ یہ بار بار پڑھتا رہےلاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ‘‘۔(بخاری)

اس حدیث کا اصل مقصد تو یہی ہے کہ غم اور تکلیف کے وقت ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور اس سے دعا کریں اور مدد مانگیں کیونکہ کوئی کام اس کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور وہی ذات تمام طاقتوں کا مرکز ہے لیکن اگر نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے بھی اس حدیث کو دیکھا جائے تو اس میں بہت سے فوائد ہمیں نظر آتے ہیں جس سے آج کے ماہرین بھی متفق ہیں۔ مثلاً نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ذہنی تناؤ کے شکار مریضوں کو چاہیے کہ اپنے لیے کوئی منتر یا نعرہ تجویز کریں اور اس کو بار بار دھیمی یا اونچی آواز میں دہرائیں۔ ان کے مطابق اس مشق کےذریعہ آپ کی سوچوں میں ٹھہراؤ پیدا ہوگا، ذہن صاف ہوگا اورذہنی سکون و اطمنان حاصل ہوگا۔ 2017ء کی ایک ریسرچ کے مطابق منتر یا نعرہ کے گنگنانے سے آپ کے جسم میں nitric oxideکی پیداوار میں اضافہ ہو گا جس سےآپ کے پٹھوں کو آرام حاصل ہوگا۔ مزید برآں اس ریسرچ نے یہ بھی ثابت کیا کہ اس کے ذریعہ بے چینی کی علامات میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔

اس مشق کا دوسرا نفسیاتی اثر یہ ہوگا کہ اس میں یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ تمام طاقت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اسی ذات سے مدد طلب کی جائے۔ ڈپریشن کی ایک وجہ نا امیدی بھی ہوتی ہے۔ انسان کو اپنے مستقبل میں اندھیرا نظر آرہا ہوتا ہے۔ یہ دعا ان کے لیے سکھائی گئی ہے جو غم اور فکر میں مبتلا ہیں جن کو ایک نئے یقین کی ضرورت ہوتی ہے جس پر وہ انحصار کر سکیں۔ ایک شخص جوغموں اور فکروں میں الجھا ہواہو اور امید کی کوئی کرن اس کو نہ نظر آئےتو اس کی بے چینی دن بدن بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ بار بار اپنے ذہن میں ایک ایسی طاقت کا ذکر کرتا رہےاور اپنے دماغ میں اس بات کو راسخ کر رہا ہو کہ ایک بالا ہستی موجود ہے جس کے ہاتھ میں سب طاقتیں ہیں اور وہ میری اس مشکل کو بآسانی دور کرسکتا ہے تو اس کی ناامیدی جاتی رہے گی اور وہ مدد کے لیے اسی ذات کے آگے جھکے گا۔ یہ بات ریسرچ نے بھی ثابت کی ہے۔ چنانچہ Harvard Medical Schoolکے ایک نفسیات کے انسٹرکٹرDavid H. Rosmarinنے اپنی ریسرچ میں ثابت کیا ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والے لوگوں میں غیر یقینی حالات اور نا امیدی کا مقابلہ کرنے کی طاقت ایمان نہ لانے والوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ علاج کے نتائج بھی ایمان لانے والوں میں زیادہ مثبت نظر آئے ہیں۔ لہٰذا یہ طریق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا وہ نہ صرف ایک بہترین دعا ہے بلکہ نفسیاتی طور پر بھی ہم میں بہتر تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

آپس میں باہمی تعلقات کا قیام

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ یہی تعلیم دی کہ آپس میں محبت کے باہمی تعلقات قائم کریں اور آپ نے ہمیشہ اجتماعیت پر زور دیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اس وجہ سے اس سے ملنا جلنا چھوڑدے۔(بخاری) اسی طرح فرمایا کہ ’’آپس میں مصافحہ کیا کرو اس سے بغض اور کینہ دور ہو جائے گا اور آپس میں تحفہ تحائف دیا کرو اس سے ایک دوسرے سےمحبت زیادہ ہوگی اور عداوت اوررنجش دور ہوجائے گی۔‘‘ (موطا امام مالک۔اردو ترجمہ:حدیقۃ الصالحین صفحہ 596) ایک اَور حدیث میں آیا ہے کہ ’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکیامیں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے۔ یعنی نفرت نہیں کرتا ان سے نرم سلوک کرتا ہے۔ ان کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے۔‘‘(ترمذی۔اردوترجمہ: حدیقۃ الصالحین صفحہ 639)

آپس کے تعلقات کا بھی دماغی اور ذہنی بیماریوں کے علاج میں بہت بڑا کردا رہے۔ چنانچہ Harvard Universityکے تحت ہونے والی ایک لمبے عرصہ پر محیط ریسرچ کے لیڈ سکالر George Valiantاپنی رپورٹ کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کر تے ہیں کہ ’’خوشی محبت ہے‘‘۔ اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے اس ریسرچ ٹیم کے موجودہ سربراہ کہتے ہیں کہ ان کی ریسرچ میں ایسےلوگ جو اپنی زندگیوں میں زیادہ خوش ہیں میں بھاری تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے پاس ایک مضبوط سپورٹ سسٹم ہے جس میں مضبوط خاندانی و سماجی تعلقات شامل ہیں جبکہ ایسے لوگ جو ڈپریشن کا شکار ہوئے ان میں سے اکثر ایسے تھے جنہوں نے اپنی دوستیوں اور رشتہ داریوں کو نظر انداز کیا۔ذہنی بیماریوں کے مریضوں کے لیے ایک اچھا، محبت کرنے والا،مضبوط سپورٹ سسٹم بہت مفید نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور اس کی بے چینی کو دور کرے گا۔ اور جو شخص کسی تنگ دست کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا‘‘۔ (ترمذی۔اردوترجمہ: حدیقۃ الصالحین صفحہ650)

ایک دوسرے کو معاف کرنا

جہاں اجتماعیت قائم کی جائے وہاں بعض اوقات رنجشیں پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ انسان جو کہ ایک حدیث کی روشنی میں خطا کا پتلا ہے وہ ایسی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جس سے دوسروں کو تکلیف اور نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے موقع پرجس شخص کا دل دکھا ہو اس کے دل میں بہت سے مختلف جذبات ابھر نا شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض روٹھ کر الگ ہونا پسند کرتے اور قطع تعلقی اختیار کرتے ہیں جبکہ بعض انتقام لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بے شک اسلامی تعلیم ہمیں یہ اجازت دیتی ہے کہ اگرکسی سے غلطی ہو تو ہم اس کا بدلا لے سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ’’اور اگر تم عفو سے کام لو اور درگزر کرواور معاف کر دو تو یقیناً اللہ بہت بخشنے والا(اور)بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘۔( التغابن، آیت نمبر 15)آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس تعلیم پر مکمل عمل کرتے ہوئے ہمارے لیے یہی اسوہ پیش کیا ہے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر قریش کے بے پناہ ظلموں اور نا انصافیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو معاف فرمایا۔ معاف کرنے کے حوالہ سے آپ فرماتے ہیں:’’ جو شخص دوسرے کے قصور معاف کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کردینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی۔‘‘(مسند احمد بن حنبل۔اردوترجمہ: حدیقۃ الصالحین صفحہ 654)

اگر اس حدیث کو نفسیاتی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہاں دو سبق حاصل ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ معاف کرنا بہتر ہے۔ ماہرین نفسیات بھی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ روٹھ کر الگ ہونے اور انتقامی جذبات کا اظہار کرنے سے انسان میں بے چینی اور ڈپریشن جنم لیتا ہے۔ جبکہ معاف کرنا انتہائی فائدہ مند ہے نہ صرف اس شخص کے لیے جس سے غلطی سر زد ہوئی بلکہ معاف کرنے والے کے ذہنی توازن کے لیے بھی یہ بہت مفید قدم ہے۔ چنانچہ Everett Worthingtonجو کہ ایک طبی ماہر نفسیات ہیں اور معاف کرنے کی نفسیات کے اثر پر لمبے عرصہ سے ریسرچ کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ معاف کرنے سے ہمارے ذہنی توازن پر انتہائی مثبت اثر قائم ہوتا ہے اور اس سے بے چینی، ڈپریشن اور نفسیاتی عوارض میں کمی آتی ہےجبکہ معاف نہ کرنے سے ہمارے ذہن میں زہریلے خیالات جنم لیتے ہیں جو لمبے عرصہ تک ہمارے توازن کو بھاری نقصان پہنچاتے ہیں۔ مزید کہتے ہیں کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ معاف کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ گزشتہ کوتاہیوں کو بھلا کر مستقبل کی طرف چل پڑیں اور گزرے ہوئے کل کو اپنے ذہن پر سوار نہ ہونے دیں جبکہ معاف کرنے سے انسان کے اندر ہمدری اور رحم کا مادہ پہلے سے بڑھ جاتا ہے جو کہ معاف کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ آپ کی نفسیات پر طویل مدت تک ایک انتہائی مثبت اثر قائم رکھتا ہے۔

دوسرا سبق جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس حدیث میں دیا وہ انسان کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے آپ کا یہ فرمانا تھا کہ کسی کے قصور کو معاف کردینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ اسی سوچ میں دب کر معاف نہیں کر پاتے۔ ان کے خیال میں اگر انہوں نے معاف کردیا تو شائد وہ کمزور نظر آئیں گے۔ شائد یہ تاثر قائم ہوگا کہ باوجود اس کے کہ فلاں نے ان کو نقصان پہنچایا مگر وہ کمزور تھے اس لیے آگے سے کچھ جواب نہ دے سکے۔ یہ سوچ ان کے ذہن پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کی نفی کی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ معاف کرنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ Worthingtonاس حوالہ سے صرف اتنا کہتے ہیں کہ اگر کسی کو یہ وہم ہے کہ معاف کرنا کمزوری ہے تو میں صرف اتنا کہوں گا کہ ایسے شخص نے کبھی کسی کو معاف کرنے کی خوشی کو محسوس ہی نہیں کیا۔

احساس گناہ

بعض لوگوں کے لیے دوسروں کو معاف کرنے سے زیادہ خود کو معاف کرنا زیادہ مشکل امر ہوتا ہے جبکہ ذہنی سکون کے لیے یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ کبھی کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہو جائے توان کے ذہنوں پر اس حد تک یہ بات سوار ہو جاتی ہے کہ ان کے لیے اس کیفیت سے نکلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ان کا جرم ان کو اندر ہی اندر ہلاک کر رہا ہو تا ہے۔ماہرین اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ اس کیفیت کو اگر بروقت کنٹرول نہ کیا جائے تو بے چینی اور ذہنی تناؤ کے ساتھ ساتھ ایک قسم کا احساس کمتری اور ناامیدی پیدا ہو جاتی ہے۔ مزید برآں ایسے لوگ پھر اپنے آپ کو سزا دینے کے طریق تلاش کرنے لگتے ہیں جس سے مزید خطرناک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو امید دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ‘‘۔(اردوترجمہ: حدیقۃ الصالحین صفحہ 153)مزید فرماتے ہیں کہ’’اگر کوئی برا کام کر بیٹھو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو یہ نیکی اس بدی کو مٹادے گی اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آو۔ ‘‘(ترمذی۔اردوترجمہ: حدیقۃ الصالحین صفحہ 542)

مندرجہ بالا ارشادات اور توبہ کے حوالہ سے قرآن کریم کی آیات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث ہر غلطی کرنے والے کو اس کی ناامیدی کی کیفیت سے نکال کر امید کی طرف لے جاتی ہیں۔ مزید برآں آپ کا یہ فرمانا کہ اچھے کام کے ذریعہ بدی کو مٹانے کی کوشش کرو، اس میں غلطی کرنے والے کے لیےایک بہترین لائحہ عمل بھی عطا کیا گیا ہے جس سے نہ صرف وہ اپنی غلطیوں سے توبہ کرتا ہے بلکہ اچھے کاموں کے ذریعہ اپنے اور دوسرے لوگوں کے ذہنوں کو بھی سکون عطا کرتا ہے۔

صدقہ و خیرات دینا

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخیل اور سخی کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جنہوں نے سینے تک لوہے کی قمیص پہنی ہوئی ہے جس میں وہ جکڑے ہوئے ہیں۔ سخی جب کچھ خرچ کرتا ہے تو اس کی آہنی قمیص کا حلقہ کھل جاتا ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ وہ قمیص کھل جاتی ہے اور آخر کار وہ اس کی جکڑ سے آزاد ہو جاتا ہے لیکن بخیل کو وہ قمیص جکڑتی چلی جاتی ہے۔ اور اس طرح اس کی گرفت بڑھتی جاتی ہے۔‘‘(مسند احمد بن حنبل :اردوترجمہ: حدیقۃا لصالحین صفحہ 702)

مندرجہ بالا حدیث کو اگر گہرائی میں جا کر پرکھا جائے تو یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ واضح سبق دے رہے ہیں کہ صدقہ و خیرات کے ذریعہ ہم اپنے سینوں کی جکڑ کو کم کر سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کثرت سے صدقہ و خیرات کیا کرتے اور اس کی اہمیت کا بار بار اظہار فرماتے چنانچہ’’حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک بکری ذبح کروائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کس قدر گوشت بچ گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ نے جواب دیا صرف دستی بچی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سارا بچ گیا ہے سوائے اس دستی کے‘‘۔(الترغیب و الترھیب للمنذری۔اردوترجمہ: حدیقۃ الصالحین صفحہ 596)

دنیا والے شائد حیران ہوں اس بات کو پڑھ کر کہ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1500سال قبل صدقات کے ذریعہ سینے کی جکڑ کو کم کرنے کا طریق کار تجویز فرمایا،موجودہ دور کے ماہرین بھی آج اسی نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں۔ چنانچہ آج ریسرچ نے ثابت کر دیا ہے کہ ذہنی دباؤ اور صدقات کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ صدقہ دینا آپ کی اپنی ذات کے لیے بھی مفید ہےکیونکہ اس سے بےچینی اور ذہنی پریشانیوں میں کمی آتی ہے۔خوشی کے ہارمونز پیدا ہوتےہیں۔ خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہاں تک کے ایک ریسرچ کے مطابق صدقہ نہ دینے والوں کی نسبت صدقہ دینے والے لمبی زندگیاں پاتے ہیں۔

اس کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس کی طرف مت دیکھو جو تم سے اوپر ہے یہ اس بات کے زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی نعمت کی تحقیر نہ کرو۔‘‘(مسلم۔اردوترجمہ: حدیقۃ الصالحین صفحہ 601)

موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے لوگوں کے اندر بالخصوص نوجوان طبقہ میں بہت سی ذہنی پریشانیاں پیدا کر دی ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا کے تمام ممالک تک رسائی انتہائی آسان ہوچکی ہے جس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہمارے سامنے وہ تمام آسائشیں اور آلائشیں آگئی ہیں جن کا ہمیں پہلے علم نہ تھا اور یہ سب کی سب ہمارے سامنے روزانہ کی سطح پر نمائش بن کر کھڑی ہیں۔ اس وجہ سےلوگوں کی آپس میں ایک دوڑ شروع ہے جس میں ہر ایک کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دکھاوے کے ذریعہ یہ ثابت کرے کہ اس کی زندگی دوسروں سے بہتر ہے جبکہ حقیقت میں اکثریت اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ دوسرے ان سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ وہم ان میں طرح طرح کی بے چینیاں پیدا کر رہا ہےجس کے باعث وہ اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگتے ہیں اور احساس کمتری اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اپنے اوپر مت دیکھو بلکہ تمہاری نظر ان لوگوں کی طرف ہو جو تم سے بھی زیادہ محرومیت کے شکار ہیں اس مقصد سے تھاکہ اس سے تمہارے ذہنوں میں بے چینیاں جنم لینے کے بجائے شکر گزاری کی کیفیت پیدا ہوگی جس سے مثبت خیالات منفی احساسات کی جگہ لے لیں گے۔

احساس کمتری و برتری

احساس کمتری در اصل خود اعتمادی میں کمی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح احساس برتری کے بارہ میں بھی ماہرین کی رائے یہی ہے کہ ایسے شخص میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہےمگر اس کو چھپانے کی غرض سےدفاع کے طور پر وہ بڑھ چڑھ کر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہے۔ ہر دو اشخاص در اصل اپنی صلاحیتوں کو صحیح طریق پر جانچنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ احساس کمتری والا شخص ہر وقت اس بے چینی میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ دوسروں سے کمتر ہے۔ جبکہ احساس برتری والا شخص اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہوئے ان کو اپنے سے نیچا سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کرتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر فرماتے ہیں:۔’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب ایک ہی درجہ کے ہو۔ تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملادیں اور کہا جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں برابر ہیں اسی طرح تم بنی نوع انسان آپس میں برابر ہو۔ تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ تم آپس میں بھائیوں کی طرح ہو۔ ‘‘پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالہ سے اصولی ہدایت فرمائی کہ کسی ایک کو بھی دوسرے پر فضیلت حاصل نہ ہے۔پس ایک ارشاد میں ہی آپ نے احساس کمتری کے شکار شخص کو یہ تسلی دی کہ وہ مایوس نہ ہو جبکہ اپنی ذات کو بہتر سمجھنے والے شخص کو اس کی غلطی کی نشاندہی بھی کر دی۔

غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانی نفسیات کی تمام باریکیوں کو بخوبی سمجھتے تھے اور اِس علم میں آپ کی مہارت اس حد تک تھی کہ بعض اوقات ایک ہی مسئلہ پر مختلف اشخاص کو آپ نے مختلف علاج تجویز فرمائے اور ہر ایک کے لیے اس کا مجوزہ علاج انتہائی مفید ثابت ہوا۔ اس سے یہ واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب شخص کو دیکھ کر، اس سے بات کر کے، اس کے نفس کو سمجھ کر اس کے لیے بہترین دوا تجویز فرماتے۔

خاکسار نےاس مضمون کے لیے چند نفسیاتی مسائل کا انتخاب کیا اوران کے لیے بعض احادیث کو پیش کیاتا ہم جیساکہ پہلے ذکر کیا کہ حکمت کایہ سمندر انتہائی گہرا ہے اور اس میں مکمل غوطہ لگا کر ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس حدتک انسانی نفسیات کو سمجھتے تھے۔اسی وجہ سے آپ نےمسلمانوں کو تکبر سے روکا، حسد سے روکا، بدظنی سے بچنے کی تعلیم دی۔اجتماعیت پر زور دیا، عشاء کے بعد بات چیت کرنے کو نا پسند فرمایا، میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم دی، رحم کی تعلیم دی، بچوں سے محبت کے اظہار کو پسند فرمایا اور بہت سی اور پرحکمت نصائح عطا کیں جن کے ذریعہ ہم ذہنی سکون حاصل کر سکتے ہیں۔ تا ہم بے چینیاں، گھبراہٹیں اور پریشانیاں کسی حد تک ہر انسان کی زندگی کا حصہ رہتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانتہائی پیار کے طریق پر ایسے لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اس کے سارے کام برکت ہی برکت ہوتے ہیں۔ یہ فضل صرف مومن کے لیے مختص ہے۔ اگر اس کو کوئی خوشی و مسرت اور فراخی نصیب ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے اور اس کی شکر گزاری اس کے لیے مزید خیروبرکت کا موجب بنتی ہے۔ اور اگر اس کو کوئی دکھ اور رنج، تنگی اور نقصان پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس کا یہ طرزِعمل بھی اس کے لیے خیر و برکت کا ہی باعث بن جاتا ہے کیونکہ وہ صبر کر کے ثواب حاصل کرتا ہے‘‘۔(مسلم )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button