متفرق مضامین

انسانوں کا حقیقی قائد جس نے توہمات کی زنجیریں توڑیں

(ابو نائل)

آپؐ کی عام روزمرہ زندگی کے واقعات بھی جتنی تفصیل سے ہزاروں لوگوں نے مشاہدہ کیے اور روایات میں محفوظ کیے گئے، تاریخ میں کسی اور شخص کے نہیں کیے گئے

نسل انسانی کے آغاز سے لے کر اب تک ایک سوال ہمیشہ سے انسانوں میں زیر بحث رہا ہے اور وہ یہ کہ کس شخص کو ان کی قیادت کا حق حاصل ہے یا دوسرے الفاظ میں انسانوں کو کس کی پیروی کرنی چاہیے ؟ آج کا دَور ہو یا قدیم زمانہ مختلف میدانوں میں کسی نہ کسی شخص کو اپنے گروہ کی قیادت کرنی ہوتی ہے۔ تمام ممالک میں کسی نہ کسی لیڈر یا قائد کو اپنے ملک کی سیاسی قیادت کرنی ہوتی ہے۔ مختلف پیشوں میں مختلف شخصیات اپنے ہم پیشہ لوگوں کی قیادت کرتی ہیں۔ اور اس پیشہ سے وابستہ افراد ان کے کارناموں کی تقلید کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف مذہبی قائدین اپنے اپنے مسالک کی مذہبی قیادت کرتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ مختلف جہتوں سے مختلف لوگ مختلف گروہوں کی قیادت کر رہے ہوتے ہیں۔لیکن ہم اس دَور میں جی رہے ہیں جب جدید ترقی نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے اور مختلف اقوام کے درمیان فاصلے مٹ رہےہیں۔اس دور کا یہ لازمی تقاضہ ہے کہ دنیا کسی ایک ایسے وجود کی تلاش کرے جس کا نمونہ پوری دنیا کے لیے مشعل راہ ہو۔

پوری دنیا کے لیے کون سا وجود اسوہ ہو سکتا ہے؟

لیکن یہ وجود کون سا وجود ہو سکتا ہے؟ سب سے پہلے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کس وجود نے یہ دعویٰ پیش کیا ہےکہ میں تمام نسل انسانی کے لیے قابل تقلید نمونہ ہوں۔ اگر کسی شخصیت نے کبھی خود یہ دعویٰ پیش ہی نہیں کیا کہ تمام دنیا کو میری تقلید کرنی چاہیے توکسی اور کا حق نہیں کہ وہ مدعی سست گواہ چست کا مصداق بن کر یہ دعویٰ پیش کرے کہ یہ وجود تمام دنیا کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ جہاں تک حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ کے متعلق واضح طور پر قرآن کریم میں یہ اعلان موجود ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًا۔(الاحزاب:22)ترجمہ: یقینا ًتمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد رکھتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(سبا:29)ترجمہ: اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کسی نبی نے یہ دعویٰ پیش نہیں کیا کہ میں تمام نسل انسانی کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔ سلسلے کے لٹریچر میں اس کے دلائل تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔اس لیے ان دلائل کو یہاں دہرایا نہیں جائے گا۔اور دوسری طرف دنیا کی کسی غیر مذہبی شخصیت نے یہ دعویٰ کبھی پیش نہیں کیا کہ وہ تمام دنیا کی قیادت کرنے کی اہل ہے اور ان کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔

ہندو مت میں بادشاہ ایک دیوتا

اس موضوع کے بیسیوں ایسے پہلو ہو سکتے ہیں جن پر بحث کی جانی چاہیے۔ لیکن اس مضمون میں صرف ایک نکتہ پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔جدید دور سے قبل ہزاروں سال کی تاریخ موجود ہے۔قدیم زمانے سے بادشاہ اپنے اپنے ممالک یا علاقوں کی قیادت کرتے آئے ہیں۔اپنے اقتدار کا جواز پیش کرنے کے لیے دنیاوی بادشاہ بھی اکثر اپنی طرف کچھ نہ کچھ خدائی صفات منسوب کر کے اپنے آپ کو ایک دیوتا کے روپ میں پیش کرتے تھے۔اس تعلی کا مقصد اپنے آپ کو انسانوں سے بالا مختلف مخلوق کے طور پر پیش کرناہوتا تھا تاکہ کوئی ان کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت نہ کرے اور انسان خاموشی سے ان کی اطاعت کرتے جائیں۔ قدیم ہندوستانی تہذیب میں بھی اسی سوچ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔اور بہت سے بادشاہوں کو ایک دیوتا کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر رگوید میں تراساداسیو بادشاہ کو ایک دیوتا کا روپ دے کر پیش کیا گیا ہے۔(Rigveda Hymn XLIL Indra –Varuna)

ہندو دھرم کےمقدس قانون منو دھرم شاستر میں بادشاہوں کو دیوتائوں کے روپ میں پیش کر کے ان کی طرف خدائی صفات کو منسوب کیا گیا ہے۔منو دھرم شاستر میں لکھا ہے:’’اس لیے کہ بادشاہ کی عدم موجودگی میں جب کل مخلوقات خوف سے ہر طرف منتشر ہونے لگی تو مالک نے (کل مخلوق ( کی حفاظت کے لیے بادشاہ پیدا کیا۔)اس مقصد کے لیے )اندر، وایو، یم، سوریہ، اگنی، ورم،، سوم اور دولت کے دیوتا کے لافانی ذرات لیے گئے۔دیوتائوں کے ذرات سے پیدا ہونے کے باعث بادشاہ میں تابانی تمام مخلوق سے زیادہ ہے اور وہ سوریہ کی طرح آنکھوں اور دلوں کو خیرہ رکھتا ہے، نہ ہی کوئی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ سکتا ہے۔اپنی (مافوق الفطرت) طاقت کے وہ اگنی اور وایو اور سوریہ اور سوم انصاف کے دیوتا (یم)، کبر ورن اور عظیم اندر ہے۔ بادشاہ شیر خوار ہی کیوں نہ ہو حقیر نہیں جاننا چاہیے، اس لیے کہ وہ انسان کے روپ میں عظیم معبود ہے۔‘‘(منو دھرم شاستر ترجمہ ارشد رازی ناشر نگارشات 2003صفحہ 145)یہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ ان قوانین کی رو سے بادشاہوں کی تخلیق عام انسانوں کی طرح نہیں بلکہ دیوتائوں کے ذرات سے ہوئی ہے اور وہ اندر دیوتا کی طرح ایک دیوتا اور معبود ہوتا ہے۔اس لاف و گزاف کا مقصدیہی تھا کہ انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کا غلام بنا کر رکھا جائے اور اس غلامی کو مذہبی رنگ دے کر ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ انسان خدا کی عبادت کی بجائے اپنے جیسے انسانوں کو دیوتا سمجھتے رہیں۔

ہندو مت میں نیک ہستیوں کو خدا قرار دیا گیا

ہندو مت کی تاریخ میں ایسے مامور بھی گذرے ہیں جو کہ اپنے ملک کے بادشاہ بھی تھے۔ بعد میں ان کو خدا کے روپ میں پیش کیا گیا۔ یقینی طور پر ان مامورین کی اصل تعلیم یہ نہیں تھی۔حضرت رام اور حضرت کرشن ؑکو ایسے وجودوں کے طور پر پیش کیا گیا، جن کی صورت میں خدا نے جنم لیا تھا۔چنانچہ حضرت رام کی پیدائش کے متعلق ہندو مت کی روایات کی کتاب رامائن میں لکھا ہے کہ دیوتائوں نے برہمہ سے درخواست کی کہ بد روحوں اور شیطانوں کا سردار راون بہت سرکش ہو گیا ہے۔ اور برہمہ نے بتایا کہ راون پر کوئی دیوتا نہیں بلکہ انسان ہی قابو پا سکتا ہے۔ چنانچہ دیوتائوں نے وشنو سے رجوع کیا کہ وہ انسان کے روپ میں جنم لے کر راون کا خاتمہ کرے۔ چنانچہ وشنو یعنی خدا نے دسرتھ بادشاہ کے گھر میں چار بیٹوں کی صورت میں جنم لیا۔(رامائن ترجمہ یاسر جواد ناشر فکشن ہائوس 2000صفحہ 19)

اسی طرح حضرت کرشن ؑکے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ہندوئوں کے خدا وشنو کا روپ ہیں۔ اور گیتا میں حضرت کرشنؑ کی طرف یہ دعویٰ منسوب کیا گیا ہے میں تمام پیدا ہونے والی اشیاء کا مالک ہوں اور جب دنیا میں راستی کم ہوتی ہے اورگناہ بڑھ جاتا ہے میں جنم لے کر نیک لوگوں کی حفاظت کرتا ہوں اور برے لوگوں کو تباہ کرتا ہوں۔(گیتا باب 4)

خلاصہ کلام یہ کہ ہندو مت کے لٹریچر میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ بادشاہ ہو ں یا حضرت رام اورحضرت کرشنؑ جیسی مقدس شخصیات وہ الوہی صفات اپنے اندر رکھتی ہیں اور بعض صورتوں میں وہ مکمل طور پر خدا ہیں جس نے اس زمانے میں انسانوں کے گھرمیں جنم لیا تھا۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ یہ وجود انسان نہیں تھے بلکہ نعوذُ باللہ خدا تھے تو کیا انہیں نسل انسانی کے لیے قابل تقلید نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی۔کجا یہ کہ انہیں مستقبل میں پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ قرار دیا جائے۔غالباََ ان دعووں کا مقصد لوگوں کو ان کی اطاعت کی طرف مائل کرنا تھا لیکن حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس سے الٹ نتیجہ برآمد ہوا۔

قدیم تہذیبوں میں بادشاہ اپنی خدائی کا اعلان کرتے رہے

بہت سی قدیم تہذیبوں میں بادشاہ کو خدا کے طور پر پیش کر کے اس کا رعب اور قدر ومنزلت بڑھانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر قدیم رومی تہذیب میں بہت سے رومی بادشاہوں کو ان کی زندگی میں بھی خدا قرار دیا گیا تھا۔اور ان کے نام کے گرجے تعمیر کیے گئے تھے۔اور ان کی موت کے بعد رومی سینٹ نے بھی انہیں خدا یا دیوتا قرار دے کر ان کی اہمیت میں اضافہ کیا۔مثال کے طور پر سیزر اور آگسٹس کو دیوتا قرار دے کر ان کا مقام بڑھایا گیا۔ ان لغو حرکات کا مقصد صرف تمام دنیا میں اور خاص طور وسیع رومی سلطنت میں رومی بادشاہت کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔لیکن یہ تعلی رومی تہذیب کو زوال نے نہ بچا سکی۔ اور رومی سلطنت کا مشرقی حصہ مسلمانوں سے ٹکرا کر ختم ہوا۔

اسی طرح قدیم مصر میں فرعون کو بھی ایک دیوتا کا درجہ دیا جاتا تھا اور اسے خدا اور انسانوں کے درمیان ایک وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ سمجھا جاتا کہ مرنے کے بعد وہ اوسیرس دیوتا سے وابستہ ہوجاتا ہے اور اس کی مافوق الفطرت طاقتیں نئے فرعون کو منتقل ہو جاتی ہیں۔اور اس تہذیب میں مرنے کے بعد بھی اس کی پرستش کی جاتی جیسا کہ سورت النازعات آیت 25 میں فرعون کی یہ تعلی درج ہے کہ فقال أنا ربكم الأعلى یعنی اس نے کہا کہ میں تمہارا اعلیٰ رب ہوں۔لیکن خدائی کا یہ دعویٰ اس تہذیب کو زوال سے نہ بچا سکا اور آخر کار فرعون کا ملک دوسری طاقتوں کا محکوم بنا اور ایک مرحلہ پر مسلمانوں کی حکومت کا ایک صوبہ بن گیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا گیا

دنیا میں سب سے زیادہ عیسائیت کے پیروکار موجود ہیں۔ عیسائیت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ نعوذُ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کے حقیقی بیٹے ہیں۔اگرچہ یہ دعویٰ اسی بنیاد پر بے بنیاد ثابت ہوجاتا ہے کہ پرانے صحیفوں میں بکثرت خداتعالیٰ کے نیک اور مقرب بندوں کو ’’خدا کا بیٹا ‘‘ کہا گیا ہے۔لیکن موجودہ عیسائیت کی بنیاد یہی عقیدہ ہے۔

مرقس کی انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حضرت یحییٰ علیہ السلام سے بپتسمہ لینے کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے’’ اور اُن دِنوں اَیسا ہواکہ یِسُوع نے گلیل کے ناصرۃ سے آ کر یَردَن میں یُوحنّا سے بپتِسمہ لیا۔ اورجب وہ پانی سے نِکل کر اُوپر آیا تو فِی الفَور اُس نے آسمان کو پھٹتے اور رُوح کو کبوتر کی مانند اپنے اُوپر اُترتے دیکھا۔ اور آسمان سے آواز آئی کہ تُو میرا پیارا بیٹا ہے۔ تجھ سے مَیں خُوش ہوں۔‘‘

اسی طرح متی کے باب 17 میں یہ واقہ بیان ہوا ہے:’’یسوع نے پطرس اور یعقوب اور اُس کے بھائی یوحنا کو ہمراہ لیا اور اُنہیں ایک اُونچے پہاڑ پر الگ لے گیا۔ اور اُن کے سامنے اُس کی صُورت بدل گئی اور اُس کا چہرہ سُورج کی مانند چمکا اور اُس کی پوشاک نور کی مانند سفید ہوگئی۔ اور دیکھو مُوسیٰ اور ایلیاہ اُس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اُنہیں دِکھائی دئے۔ پطرس نے یسوع سے کہا اے خداوند ہمارا یہاں رہنا اچھاہے۔ مرضی ہو تو میں یہاں تین ڈیرے بناؤں۔ ایک تیرے لئے۔ ایک مُوسیٰ کے لئے اور ایک ایلیاہ کے لئے۔ وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دیکھو ایک نورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لیا اور اُس بادل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خُوش ہوں اِس کی سنو۔‘‘

مرقس کے پانچویں باب میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے کہ آسیب زدہ شخص نے یسوع کو دیکھ کر کہا:’’ وہ یسوع کو دُور سے دیکھ کر دَوڑا اور اُسے سجدہ کیا۔ اور بڑی آواز سے چلاکر کہا اَے یسوع خداتعالیٰ کے فرزند مجھے تجھ سے کیا کام؟ تجھے خُدا کی قسم دیتا ہوں مجھے عذاب میں نہ ڈال۔‘‘

متی کے باب 27 میں بیان کیا گیا ہے کہ جب رومی سپاہیوں نے واقعہ صلیب کے ساتھ ظاہر ہونے والی علامات دیکھیں تو کہا:’’ پس صوبہ دار اور جو اُس کے ساتھ یسوع کی نگہبانی کرتے تھے بھونچال اور تمام ماجرا دیکھ کر بہت ہی ڈر کر کہنے لگے کہ بیشک یہ خدا کا بیٹا تھا‘‘

اس طرح انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے شروع سے آخر تک بار بار آپ کو خداتعالیٰ کا بیٹا قرار دینے پر زور دیا ہے۔ اگر آپ خدا کا بیٹا تھے تو پھر ظاہر ہے کہ بطور انسان کے آپ نمونہ نہیں ٹہر سکتے۔اور انسان آپ کی تقلید کس طرح کر سکتے ہیں؟

یہودیت میں ایک قوم کو خدا کا فرزند قرار دیا گیا

یہودیت میں توحید کی تعلیم پائی جاتی ہے لیکن ان کے نزدیک بنی اسرائیل دنیا کی تمام اقوام سے بلند تر اور خدا کی محبوب قوم ہیں۔اس طرح صرف چند اشخاص کو نہیں بلکہ ایک قوم کو خدا کا فرزند اور محبوب قرار دے دیا گیا۔جیسا کہ توریت میں استثناء کے باب 14 کے شروع میں بیان کیا گیا ہے:’’تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو۔ تُم مُردوں کے سبب سے اپنے آپ کو زخمی نہ کرنا اور نہ اپنے ابرو کے بال منڈوانا۔ کیونکہ تُو خداوند اپنے خدا کی مُقدس قوم ہے اور خداوند نے تجھ کو روی زمین کی اور سب قوموں میں سے چُن لیا ہے تاکہ تُو اُ س کی خاص قوم ٹھہرے۔ تو کسی گھنونی چیز کو مت کھانا‘‘

یہ چند مثالیں ظاہر کر دیتی ہیں کہ زمانہ قدیم سے لے کر اب تک دنیاوی بادشاہوں نے خدا، دیوتا یا خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ پیش کیا۔گو کہ اللہ تعالیٰ کے تمام انبیاء نے توحید کی تعلیم دی تھی لیکن ان کے بعض پیروکاروں نے ان کی طرف الوہیت منسوب کی یا انہیں خدا کا بیٹا قرار دیا اور اب ان انبیاء کی طرف یہی غلط تعلیم منسوب کی جاتی ہے اور اب سوائے اس کے کہ کوئی قرآن مجید پر ایمان لے آئے، ان کی اصل تعلیم جاننے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر دنیا کی کئی اقوام نے خدا کے فرزند ہونے یا دنیا کے تمام انسانوں سے برتر ہونے کا دعویٰ پیش کیا اور اس طرح باقی انسانیت کو اپنے سے حقیر قرار دیا۔ان سب حرکات کا مقصد ایک ہی تھا اور وہ کہ دنیا کے انسانوں کو خدا کی غلامی سے علیحدہ کر کے اپنا غلام بنایا جائے۔ اور ان کی سوچ پر قفل لگا کر انہیں اندھی تقلید پر آمادہ کیا جائے۔اور اس طرح ان کی قیادت حاصل کی جائے۔لیکن عقل ان دعووں کو رد کرتی ہے۔

انسان کامل کی بشریت کا اعلان

جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو بالکل ایک علیحدہ منظر نظر آتا ہے۔قرآن مجید میں نعوذ باللہ آپ کی طرف خدائی صفات نہیں منسوب کی جارہیں بلکہ قرآن کریم بار بار واضح الفاظ میں دنیا کے افضل ترین انسان کی بشریت کا اعلان کرتا ہے۔ سورۃ کہف کی یہ آیت ملاحظہ فرمائیں۔

قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۔(الکہف:111)ترجمہ:کہہ دے میں تو محض تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے۔پس جو کوئی اپنے رب کی لقاء چاہتا ہے وہ (بھی)نیک اعمال بجا لائے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹہرائے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے یہ اعلان کروایا:قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِۚۛوَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُۚۛاِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۔(الاعراف:189)ترجمہ: تو کہہ دے میں اللہ کی مرضی کے سوا اپنے نفس کے لئے )ایک ذرہ بھر بھی (نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ اور اگر میں غیب جاننے والا ہوتا تو یقیناََ بہت دولت اکھٹی کر سکتا تھا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔لیکن میں تو محض ایک ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں اُ س قوم کے لئے جو ایمان لاتی ہے۔

پھر قرآن مجید میں آپ کی بشریت کا اعلان ان لفاظ میں کیا گیا:وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ یَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِؕلَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًا۔اَوْ یُلْقٰۤى اِلَیْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّاْكُلُ مِنْهَاؕ۔وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۔(الفرقان:8و9)ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہو گیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے کیوں نہ اس کی طرف کوئی فرشتہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ مل کر )لوگوں کو (ڈرانے والا ہوتا۔یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے یہ کھاتا۔ اور ظالموں نے کہا کہ تم لوگ یقیناََ ایک ایسے آدمی کے سوا کسی کی پیروی نہیں کر رہے جو سحر زدہ ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا اعلان ان الفاظ میں کروایا:قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْۤا اِلَیْهِ وَ اسْتَغْفِرُوْهُ وَ وَیْلٌ لِّلْمُشْرِكِیْنَۙ۔(حٰم السجدہ:7)ترجمہ: تو کہہ دے میں محض تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک معبود ہے پس اس کے حضور ثبات قدم کے ساتھ کھڑے ہو جائو اور اس سے بخشش مانگو۔ اور ہلاکت ہو شرک کرنے والوں کے لئے۔

سورت بنی اسرائیل میں یہ اعلان موجود ہے :قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا۔(بنی اسرائیل:94)ترجمہ: تو کہہ دے کہ میرا ربّ )ان باتوں سے( پاک ہے )اور( میں تو ایک بشر رسول کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کتنا واضح فرق ہے۔واضح طور پر اعلان کیا جا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی طرح ایک بشر ہیں۔جو اپنی ذات کے لیے نفع اور نقصان کے مالک بھی نہیں ہیں کیونکہ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے اور غیب کو جاننے والے بھی نہیں کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے۔وہ جس پر چاہے جتنا چاہے غیب کا علم ظاہر کر دے۔ مخالف بھی یہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازروں میں چلتا ہے۔یہ کوتاہ بینی کا اعتراض ہے کیونکہ یہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی شان ہے کہ آپؐ نے اپنے آپ کو ایک بشر کے طور پر اس طریق پر پیش فرمایا کہ شرک تو ایک طرف رہا کسی تصنع کا بھی شائبہ بھی نہیں باقی رہتا۔ یہی تو آپؐ کی قیادت کا حسن اور اعجاز ہے کہ آپ کی اتنی اتباع اور اطاعت کی گئی جتنی تاریخ میں کسی اور شخص کی نہیں کی گئی لیکن آپؐ کی اطاعت ان دعووں کی وجہ سے نہیں تھی کہ نعوذُ باللہ آپ کی طرف منسوب تعلیم نے آپ کی طرف الوہی صفات منسوب کی تھیں بلکہ ایک بشر کامل کی حیثیث سے آپ کی تعلیم اور آپ کی مقدس شخصیت کی قوت قدسیہ اتنی کامل تھی کہ اس نے اربوں انسانوں کو آپ کی قیادت کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔

دنیا کی تاریخ عام بادشاہوں کے ان دعووں سے بھری ہوئی ہے کہ وہ دیوتا ہیں یا اپنے اندر الوہی صفات رکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وسیع سلطنت عطا فرمائی تھی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اتنی وسیع سلطنت کسی اور نبی کو نہیں عطا ہوئی جتنی آپ کو عطا ہوئی تھی۔ لیکن آپؐ نے ہمیشہ اپنی بشریت کا ہی اعلان فرمایا۔مختلف مذاہب کی مقدس تحریریں اپنی مقدس ہستیوں کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کی اہمیت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہر نبی نے صرف توحید کی تعلیم دی تھی لیکن اس وقت ان کی اصل تعلیم محفوظ نہیں اور مشرکانہ خیالات کی آکاس بیل نے ان کی اصل تعلیم کو پوشیدہ کر دیا۔ اب جب کہ ان کی اصل تعلیم ہی محفوظ نہیں تو ان کی شخصیات نسل انسانی کی قیادت کس طرح کر سکتی ہے۔ اور عقلی ترقی کے دور میں انسانی ذہن ان تصورات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ انسان جو کہ کھانے پینے کے محتاج تھے۔ بیمار بھی ہوتے تھے اور مرتے بھی تھے۔ بلکہ قتل بھی کیے جاتے تھے۔ بلکہ پیشاب اور پاخانے کی حاجت سے بھی پاک نہیں تھے۔وہ اصل میں خدا کے فرزند تھے۔ یا اس بھی بڑھ کر خود خدا تھے۔

ان عقائد کا کیا نتیجہ نکلا؟

پھر کیا شرک کا یہ سلسلہ صرف انہی مقدس ہستیوں تک محدود رہا؟ نہیں ایسا نہیں ہوا۔ایک کے بعد دوسری جاندار یا غیر جاندار اشیاء کے آگے ہاتھ جوڑ کر اور ماتھا ٹیک کر انسانوں کی توہین کرائی گئی۔خود مشہور مورخ ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon)اپنی کتاب The Decline and Fall of the Roman Empireمیں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیسائیت اور بت پرست مذاہب میں کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

The Christians of the seventh century had insensibly relapsed into a semblance of Paganism: their public and private vows were addressed to the relics and images that disgraced the temples of the East: the throne of the Almighty was darkened by a cloud of martyrs, and saints, and angels, the objects of popular veneration; and the Collyridian heretics, who flourished in the fruitful soil of Arabia, invested the Virgin Mary with the name and honors of a goddess. The mysteries of the Trinity and Incarnation appear to contradict the principle of the divine unity. In their obvious sense, they introduce three equal deities, and transform the man Jesus into the substance of the Son of God: an orthodox commentary will satisfy only a believing mind: intemperate curiosity and zeal had torn the veil of the sanctuary; and each of the Oriental sects was eager to confess that all, except themselves, deserved the reproach of idolatry and polytheism. The creed of Mahomet is free from suspicion or ambiguity; and the Koran is a glorious testimony to the unity of God. The prophet of Mecca rejected the worship of idols and men, of stars and planets, on the rational principle that whatever rises must set, that whatever is born must die, that whatever is corruptible must decay and perish.(The Decline and Fall of the Roman Empire by Edward Gibbon .Chapter Chapter L: Description Of Arabia And Its Inhabitants.—Part III)

ترجمہ: ساتویں صدی کی عیسائیت غیر محسوس طریق پر بت پرست مذاہب جیسی ہو چکی تھی۔پبلک میں اور نجی زندگی میں ان کی مناجات کا مرکز پرانے تبرکات اور کچھ تصویریں تھیں۔جن کی وجہ سے مشرقی کلیسا کا وقار پامال ہو رہا تھا۔قادر خدا کے تخت کے ارد گرد شہیدوں، پرانے بزرگوں اور فرشتوں کی دھند چھائی ہوئی تھی اور یہ ہستیاں لوگوں کی عقیدت کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔کولیرڈین بدعتی فرقہ عرب میں عام پایا جاتا تھا اور یہ فرقہ حضرت مریم کو ایک دیوی کا درجہ دیتا تھا۔تثلیث اور تناسخ کے پر اسرار عقیدے ظاہری طور پر توحید کی نفی کرتے ہیں۔تین برابر کے خدائوں کا عقیدہ یسوع کو خدا کا بیٹا قرار دیتا ہے اور اس کی روایتی تشریح صرف ایک عقیدت مند کے ذہن کے لیے ہی تسلی کا باعث بن سکتی ہے۔تجسس اور جوش نے عقیدت کا پردہ چاک کر دیا تھا اور مشرق کا ہر فرقہ یہ تسلیم کرتا تھا کہ ان کے علاوہ ہر فرقہ شرک اور بت پرستی کا مجرم ہے۔محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کا دین ہر شک و شبہ اور ابہام سے پاک ہے اور قرآن مجید خدا کی توحید کی ایک عظیم الشان گواہی ہے، مکہ کے نبی نے بتوں اور انسانوں اور ستاروں اور سیاروں کی پرستش کو رد کر دیا۔ اور اس کے لیے یہ عقلی دلیل بیان کی کہ جو طلوع ہوتا ہے وہ غروب بھی ہوتا ہے۔ جو پیدا ہوتا ہے وہ مرتا بھی ہے اور جس میں خرابی یا نقص پیدا ہوتا ہے اس کا زوال آتا ہے اور وہ فنا ہوجاتا ہے۔

یہ گواہی ایک عظیم مغربی مورخ کی ہے۔ پوری دنیا کے لیے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی قیادت ہی ایک قیادت ہے کیونکہ آپ کی تعلیم نے اتنے واضح طور پر آپ کی بشریت کا اعلان کیا کہ کسی قسم کے توہمات کی کوئی جگہ باقی نہ رہی۔ جیسا کہ اسی کتاب میں گبن نے لکھا ہے کہ عیسائی دنیا نے تو اپنے بزرگوں کی ہڈیوں سے بھی مشرکانہ عقیدت کا اظہار شروع کر دیا تھا۔کیا اس قسم کے توہمات کے ساتھ انسانیت کا شرف برقرار رہ سکتا ہے ؟

اب ہندو مت کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔ہزاروں سال سےہندو مت کی معروف مقدس شخصیات کو خدا یا دیوتا کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور بتوں کی پرستش کی جاتی ہے۔لیکن جب جدید دور کا آغاز ہوا تو خود ہندو مت سے وابستہ افراد میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ اس طریق اور عقیدہ پر عقل کی رو سے کئی اعتراضات اٹھتے ہیں چنانچہ اس طریق کو الوداع کہہ کر توحید کی طرف ہی جانا مناسب ہو گا۔چنانچہ آریہ سماج کے بانی پنڈت دیانند نے یہ اعتراف کیا:’’دیکھو بت پرستی کے سبب شری رامچندر۔شری کرشن۔نارائن۔اور شو وغیرہ کی بڑی مذمت اور ہنسی ہوتی ہے۔سب لوگ جانتے ہیں کہ وے بڑے مہاراجہ ادھیراج اور انکی عورتیں سیتا۔رکمنی۔ لکھشمی۔ وغیرہ مہارانیاں تھیں۔ لیکن جب ان کے بت مندر وغیرہ میں رکھ کر پجاری (مجاور)لوگ ان کے نام سے بھیک مانگتے ہیں۔ یعنی ان کو بھیکاری بناتے ہیں کہ مہاراج جی سیٹھ ساہوکار۔ درشن کیجیئے۔ بیٹھئے۔ چرنا مرت لیجئے۔ کچھ بھینٹ چڑھائیےمہاراج۔ سیتا رام۔کرشن۔ رکمنی یا رادھا کرشن۔ لکھشمی۔ ناراین اور مہادیو۔ پاربتی جی کو تین روز سے بال بھوگ یا راج بھوگ یعنی آب و دانہ بھی نہیں ملا ہے۔آج ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ سیتا جی کی نتھنی وغیرہ رانی جی یا سیٹھانی جی بنوا دیجئے۔ اناج وغیرہ بھیجو تو رام۔کرشن وغیرہ کو بھوگ لگا دیں کپڑے سب پھٹ گئے ہیں …ایک دن چوہوں نے ایسا غضب کیا کہ ان کی آنکھ بھی نکال کر بھاگ گئے۔ اب ہم چاندی کی آنکھ نہ بنا سکے اس لئے کوڑی کی لگا دی۔‘‘(ستیارتھ پرکاش مصنفہ دیانند سرسوتی۔ اردو ترجمہ از پنڈت ریمل داس و لالہ آتما رام۔ناشر لالہ تولا رام 1899صفحہ464)

دوسرے یہ پہلو قابل غور ہے کہ اگر یہ دعویٰ قبول کر لیا جائے کہ یہ ہستیاں خدائی صفات اپنے اندر رکھتی تھیں تو کیا ان کی شخصیت نسل انسانی کے لیے ایسا نمونہ قرار دی جا سکتی، جس کی پیروی کی کوشش کی جا سکے۔عقل کی رو سے انسانوں کو تو کسی بشر کے اسوہ کی پیروی کرنے کا ہی کہا جا سکتا ہے۔ انسانوں کی حقیقی قیادت تو ایک انسان ہی کر سکتا ہے۔جیسا کہ جماعتی لٹریچر میں یہ پہلو بار بار بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کے حالات سے گذرنا پڑا۔ آپ پر مکہ مکرمہ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ آپ کو کسی قسم کا کوئی اقتدار حاصل نہیں تھا اور با اثر لوگ آپ کی ذات اقدس پر اور آپ کو ماننے والوں پر ہر قسم کا ظلم کرنے کے لیے کمر بستہ تھے۔ اور پھر آپ پر وہ دور بھی آیا جب آپ ایک وسیع ملک کے حکمران تھے۔ دونوں انتہائی صورتوں میں آپ کا اسوہ حسنہ ظاہر ہوا۔آپ کو مدینہ میں اندرونی منافقین اور ان یہودی قبائل سے مقابلہ کرنا جو کہ دشمنوں سے مل گئے تھے۔ اور دوسری طرف فارس کی عالمی طاقت نے بھی آپ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔آپ نے شادیاں کیں اور اپنی بچیوں کی پرورش کی۔آپ پر ایسا دور بھی آیا جب کہ بھوک کی شدت کا سامنا کرنا پڑا۔اور ایسا دور بھی آیا جب کہ آپ نے بکریوں سے بھری وادی ایک شخص کو صدقہ کے طور پر دے دی۔نسل انسانی کے لیے تو وہی وجود قابل تقلید نمونہ ٹہر سکتا ہے جسے ان تمام قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہو، جس کا سامنا دنیا میں انسانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اور وہی شخصیت نسل انسانی کے لیے قابل تقلید قائد کہلانے کی مستحق ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ آپؐ کی عام روزمرہ زندگی کے واقعات بھی جتنی تفصیل سے ہزاروں لوگوں نے مشاہدہ کیے اور روایات میں محفوظ کیے گئے، تاریخ میں کسی اور شخص کے نہیں کیے گئے۔آپ کھانا کس طرح تناول فرماتے تھے۔آپ پانی کس طرح پیتے تھے۔ آپ نے قرض کس طرح لیے اور کس طرح واپس کیے۔آپ نے غسل کس طرح کیا۔آپ کا لباس کس طرح کا تھا۔آپ بچوں سے کس طرح پیش آتے تھے۔آپ قضائے حاجت کے لیے کس طرح جاتے تھے۔ الغرض آپ کی زندگی کا کون سا پہلو ہے جس کے متعلق روایات بیان نہیں کی گئیں۔اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ کسی اور نبی یا کسی اور شخصیت کے اتنے تفصیلی حالات محفوظ کئے گئے ہیں تو اسے چاہیے کوئی معین مثال پیش کرے۔اگر کسی شخص کے حالات کی تفصیلات ہی محفوظ نہیں تو آنے والی تمام نسلوں کے لیے نمونہ کس طرح ہو سکتا ہے؟لیکن یہ عظیم اسوہ پیش کرنا اس لیے ممکن ہوا کہ آپ نے بار بار اپنی بشریت کا اعلان کر کے شرک اور توہمات کے بتوں کو توڑ دیا اور ایک انسان کی حیثیت سے اپنا نمونہ پیش فرمایا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے:’’غرض یہ تمام بگاڑ کہ ان مذاہب میں پیدا ہوگئے جن میں سے بعض ذکر کے بھی قابل نہیں اور جو انسانی پاکیزگی کے بھی مخالف ہیں یہ تمام علامتیں ضرورتِ اسلام کے لئے تھیں۔ ایک عقلمند کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام سے کچھ دن پہلے تمام مذاہب بگڑ چکے تھے اور روحانیت کوکھو چکے تھے۔ پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لیے ایک مجدّد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اِس فخر میں ہمارے نبی صلعم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی۔ جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اُتار کر توحید کا جامہ نہ پہن لیا اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے اُن سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی۔ یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلعم کے نصیب نہیں ہوئی۔ یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت ؐکی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جب کہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعًا ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جب کہ لاکھوں انسان شرک اور بُت پرستی کو چھوڑ کر توحید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے۔ اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی عادات سکھلائے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا۔‘‘(لیکچر سیالکوٹ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ206)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button