متفرق مضامین

حقیقی امنِ عالم کے قیام کا داعئ اعظم ﷺ

(مختار احمد)

حضور اکرمﷺنےدنیا میں امن است در مکانِ محبت سرائے ما کی ندا دی تا آپؐ دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائیں۔یہی الٰہی تصرف تھا کہ آپﷺکی سرشت میں امن و سلامتی کا جذبہ ودیعت کیا گیا آپؐ نےرنگ و نسل کے فرق کو مٹا یا اور قومی تفاخر کا بھی قلع قمع کیا،لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ کا اعلان کرکے مذہبی ہم آہنگی کا درس دیا

وہ عظیم ہستی جو مشیتِ ایزدی میں وجہ تخلیق کائنات تھی۔ وہ ایک نور تھا جسے خالقِ ارض و سمانے تمثّل عطا کیا اور پَر تَو بنایا اپنی ہستی کا۔خالق الکون نے مجسم نور کے تولّد کا شرف بخشا عبد اللہ اور آمنہ کو۔اس نورانی مٹی کو ابوت اور امومت میں عبدیت اور امن سے گوندھ کر تجسّم عطا فرمایا اور سیّدہ حلیمہ سعدیہؓ سےحلم کے دودھ کا انتظام و انصرام فرمایا۔

اسمِ مبارک محمد(ﷺ)

یہ بھی الٰہی تصرف تھاکہ آپؐ کو محمؐد نام سے پکارا گیا۔آپؐ کے دادا عبدالمطّلب سے کسی نے پوچھا پوتے کا نام عام ناموں سے ہٹ کر محمؐد کیوں رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں میرے اس بیٹے کی تعریف سے زمین و آسمان بھر جائیں اس لیےاس نام کو میں نے پسند کیا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعائیہ خواہش قبول ہوئی فرمایااِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا(الاحزاب:57) ىقىناً اللہ اور اس کے فرشتے نبى پر رحمت بھىجتے ہىں، اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! تم بھى اس پر درود اور خوب خوب سلام بھىجو۔ آج ہر لمحہ آپﷺ پر لاکھوں کروڑوں لوگ درود و سلام بھیج رہے ہیں جو ہمیشہ ہمیش کے لیےجاری وساری رہے گا۔

حضور اکرمﷺ کی سرشت میں امن پسندی

جیسا کہ پہلے عرض کردیا گیا حضورﷺ کی مٹی کا خمیر ہی مجسم امن تھا کسی پر کسی بھی نوع سے اپنےحق سے زیادہ کے تقاضے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آپؐ کے رضاعت کے زمانہ پہ علّامہ سہیلی کا تجزیہ و تبصرہ یہ ہے کہ آپﷺ کو معلوم ہوچکا تھا کہ ماں کے دودھ میں آپﷺ کا ایک شریک بھائی بھی ہے۔آپؐ اپنی والدہ کے دائیں طرف کا دودھ پیتے اور دوسرا چھوڑ دیتے۔دراصل وراء الوراء الٰہی تصرف کام کررہاتھا۔اللہ تعالیٰ نے امن کا پیکر، عدل کا ناظم پیدا فرمایا کیونکہ دھرتی کی آواز تھی نظامِ عدل کا ناظم عطا کر۔

زمانہ طفولیت میں بھی طبیعت میں امن اور سکون

حضرت ابوطالبؓ کے گھر میں جب بچوں کا ناشتہ آتا تو سب مل کر چھینا جھپٹی کر کے ناشتہ حاصل کرتےلیکن جب چند مرتبہ دیکھا گیا کہ یتیم بھتیجا اس لوٹ میں شریک نہیں رہتا تو پھر آپؐ کا ناشتہ الگ اور مستقل دیا جانے لگا۔

عمارتِ امن کی تعمیر میں حصہ

موسمی حوادث کی وجہ سے کعبہ کی عمارت گر گئی تو قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی اور ہمارے آقا و مولا نے اپنی طفولیت کے زمانہ میں اس عالمی عمارت ِامن کی تعمیر میں کاندھے پہ پتھر ڈھو ڈھو کر حصہ ڈالا۔

مکہ میں امن و امان کی انجمن کا قیام

عرب کا معاشرہ جنگلی،لڑاکا اور جنگجو قسم کا تھا۔ بقول الطاف حسین حالی

کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا

کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا

اندریں حالات مکّہ کےایک رئیس عاص بن وائل سہمی نے ایک اجنبی مسافر کا حق مار لیا، تو وہ شخص حضورﷺ کے حقیقی چچا زبیر بن عبدالمطّلب کے پاس گیا جو اس وقت کے شہ زور جوان تھے۔ اس کی تکلیف سن کرخون ہاشمی بے چین ہوا اورآپ نے قبیلہ تیم کے بزرگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں چند قبائل کے معزّزین اکٹھے کیے۔اس وقت آپﷺ کی سن مبارک صرف بیس برس تھی۔آپؐ بھی اپنے چچا کے ہمراہ تھے۔ امر واقعہ میں تو آپؐ کے چچا کے پیچھے آپؐ کا ہی مشورہ چل رہا تھا۔ اگر یہ کہا جائے اس انجمن کے بانی مبانی آپؐ تھے تو یہی حقیقت ہے۔ اس مجلسِ شوریٰ میں تین فضل نامی آدمی موجود تھے اس لیے انجمن کا نام حلف الفضول رکھا۔ اس مجلس مشاورت نے یہ پختہ معاہدہ تحریر کیا کہ

1.ہم مظلوموں کا ساتھ دیں گے، خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں یہاں تک کہ ان کا حق ظالم اور غاصب سے دلوایا جائے گا۔

  1. امن و امان قائم کریں گےاورمسافروں کی حفاظت کریں گے۔

3.غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔

معاہدہ طے پانے کے بعد اس انجمن کے بزرگانِ کرام عاص مذکورہ کے گھر گئے اور اس اجنبی کا مال بازیاب کرایا۔ایک دفعہ مکّہ کے ایک رئیس نے ایک حاجی کی بیٹی اغوا کرلی تو زبیر بن عبدالمطّلب سے مل کر آپؐ نے نوجوانوں کے دستہ کی مدد سے لڑکی کو برآمد کرایا۔ گویا حلف الفضول میں شامل افراد ایک امن فورس کا رنگ اختیار کرگئے۔ اسی طرح ابو جہل نے مکّہ میں آنے والے ایک تاجر سے سامان خرید کر قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو آپﷺنے اکیلے جاکر اس تاجر کو ابوجہل سے قیمت دلوائی۔

امن کی سعی پر فخر

حضورﷺاس معاہدہ میں شرکت پر بڑے فخر سے اظہارِ مسرّت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ فرمایا:

’’لَقَدْ شَھِدْتُ فِی دَارِ عَبْدِاللہِ بْنِ جُدْعَانَ حِلْفًا مَا اُحِبُّ اَنَّ لِیْ بِہٖ حُمْرَ النَّعَمِ وَلَوْ اُدْعٰی بِہٖ فِی الْاِسْلَامِ لَأَ حْبَبْتُ‘‘

یعنی ’’کہ میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حاضر تھا جب حلف فضول طے پایا۔ اس کے بدلے میں اگر مجھے کوئی سرخ اونٹ دے تب بھی میں لینےکے لیے تیار نہیں۔ اور اس قسم کے معاہدہ کی دعوت ،اسلام میں بھی اگر کوئی مجھے دے تو اسے قبول کروں گا۔‘‘

حجرِ اسود کی تنصیب اور خونریزی کا سدّباب

آپؐ کی عمر مبارک تقریباً 35سال تھی موسمی حوادث کی بناپہ کعبہ کی عمارت دوبارہ تعمیر کرنا پڑی،تو حجر اسود کی تنصیب میں تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ہر قبیلہ اس سعادت کو حاصل کرنے کے لیےتلواریں بے نیام کیے ہوئےتھا آخر عمر رسیدہ سردار ابوامیہ بن مغیرہ کے مشورہ پر یہ فیصلہ ہوا کہ جو بھی آدمی ابھی حرم شریف میں باب الاسلام سے پہلے داخل ہو اسے اپنا حَکَم تسلیم کرلو وہ جو بھی فیصلہ کرے سب کے لیے قابل قبول ہو۔

الٰہی تصرف ہوا کہ مذکورہ باب سے داعئ امن ﷺ تشریف لائے تو سب بیک زبان کہنے لگے: یہ محمدؐ امین ہیں جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہوگا۔

آپؐ نےایک بڑی چادر میں حجر اسود رکھ کر تمام قبائل کے سرداروں کے ہاتھوں میں چادر کے کنارے پکڑائےاور سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور حجر اسود کو حضورﷺنے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا۔ اور ایک متوقّع فساد اور خونریزی سے اپنی قوم کو بچایا۔ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔

آپﷺ کی بعثت

جب اللہ تعالیٰ نے غارِحرا میں زمینی اور آسمانی نور یکجا کیے،محمدمصطفیٰ ﷺ کو مہدی سے ہادئ اعظم بنانے کا اعلان کروایا۔ اور اہلِ ارض کو تاریکی سےنجات دلانے کا فیصلہ کیااور فرمایا :یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِہٖ وَیَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔(المائدة:17)اللہ اس کے ذرىعہ انہىں جو اس کى رضا کى پىروى کرىں سلامتى کى راہوں کى طرف ہداىت دىتا ہے اور اپنے اِذن سے انہىں اندھىروں سے نور کى طرف نکال لاتا ہے اور انہىں صراطِ مستقىم کى طرف ہداىت دىتا ہے۔

غرضِ بعثت

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (آل عمران:165)جب اس نے انہى مىں سے اىک رسول مبعوث کىا وہ ان پر اس کى آىات پڑھتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔آپﷺ نے بعثت کے متعلق فرمایا:بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقیعنی مجھے عمدہ اَخْلاق کی تکمیل کےلیے مبعوث کیا گیا ہے۔ جب حضورﷺ نے لوگوں کواللہ تعالیٰ کی وحی سنائی اور حکمت کی تعلیم دی نفوس کا تزکیہ کیا اور اللہ تعالیٰ نےاس جماعت کو مسلم کا نام عطا فرمایاهُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ (الحج :79) اُس (ىعنى اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔

مسلم کا لفظ اسلام سے مشتق ہے۔اسلام، امن،امان اور ایمان مترادفات ہیں ان کا اصطلاحی معنی تمام روحانی و جسمانی خطرات سے محفوظ و مأمون ہونا ہے۔ اسلام کا لفظ سلم کے مادہ سے ہےجس کے معانی سلامتی اور حفاظت عطا کرنے کے ہیں۔اس معنی و مفہوم کی تائید درج ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓسے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا:’’ایّ المسلمین خیر قال من سلم الناسُ من لسانہٖ ویدہٖ ‘‘’’سارے مسلمانوں میں کونسا آدمی سب سے بہتر ہے؟ فرمایا جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے تمام لوگ سلامت رہیں۔‘‘حضرت ابوہریرہؓ کے مطابق نبی اکرم ﷺ نے ایک کامل مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:’’المؤمن من امنہ الناس علی اموالہم و انفسہم الخ ‘‘’’اصل مومن وہ آدمی ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ تصور کریں۔‘‘

حضورﷺ کے مذکورہ بالا تمام ارشادات سے روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ حقیقی طور پر محمد مصطفٰی ﷺ کے پیروکار مسلم اورمومن وہی ہیں جن کی زبان اور ہاتھوں کے حملوں سے بنی نوع انسان محفوظ و مأمون رہیں۔اور دین ِ اسلام بنی نوع انسان کو محفوظ و مأمون رکھنے کا نام ہے۔

قیامِ امن کےلیےراہنما

آپؐ کی بعثت کے وقت ہر سُو معاشرہ انتہائی اخلاقی گراوٹ کا شکار تھا۔ اخلاق بافتہ لوگ کعبہ کی حرمت کو اپنے مفاد کے لیےنظر انداز کردیتے۔رحمی رشتہ داریوں کالحاظ ختم کر چکے تھے۔ اپنی مرضی سے جنگ و جدل کے لیےمہینوں کے نام بدل لیتے۔ گویا کہ اہل عرب تمام کی قسم کی برائیوں کا منبع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) فساد خشکى پر بھى غالب آ گىا اور تَرى پر بھى یعنی شہری، دیہاتی لکھے پڑھے اور ان پڑھ سب ہی اخلاق سوزی کے سمندر میں غرق تھے۔اس فسادِعظیم کو امن و امان میں بدلنا کوئی آسان کام نہ تھا۔

عظیم فساد عظیم ہستی کا متقاضی تھا

چنانچہ اللہ فرماتا ہے إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا۔(الاحزاب: 73)ىقىناً ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمىن اور پہاڑوں کے سامنے پىش کىا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دىا اور اس سے ڈر گئے جبکہ انسانِ کامل نے اسے اٹھا لىاىقىناً وہ (اپنى ذات پر) بہت ظلم کرنے والا (اور اس ذمہ دارى کے عواقب کى) بالکل پرواہ نہ کرنے والا تھا۔

قیامِ امن کے لیےعوام النّاس کو اخلاق سکھانا لازم ہے

جب کسی کو کوئی نصیحت کرنی ہوتو لازم ہے کہ خود ناصح بھی اس پر عمل پیرا ہو۔ آپؐ کو تو سارا معاشرہ ہی صادق اور امین نام سے پکارتا تھا اور آسمان سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ندادی اور فرمایا وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم:5) اور ىقىناً تو بہت بڑے خُلق پر فائز ہے۔آپؐ کی زوجہ حضرت خدیجہؓ نے ان الفاظ میں گواہی دی۔كَلاَّ وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقّ،اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں،آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

قیامِ امن کے لیےصبر اور برداشت کی تعلیم

آپؐ کے دعویٰ نبوت کے بعد اہل مکہ بالعموم اور سردارنِ قریشِ مکّہ ابوجہل، عقبہ بن ابی معیط، عاص بن وائل، ولید بن مغیرہ، اور حارث بن قیس وغیرہ جیسے بدبخت حضور اکرمﷺکے ساتھ استہزا اور اذیت پہنچانے میں پیش پیش تھے۔ حضورﷺ پراور مومنین حضرت بلال، یاسر، عمار بن یاسر، ابوفکیہ، صہیب رومی اور حضرت خباب بن الارت اور دوسرے آزاد مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کے ریکارڈ توڑے گئے اور جسمانی اذیتوں کی حدیں عبور کی گئیں وہ بیان سے باہر ہیں۔ اس اشتعال انگیز صورتِ حال میں حضورﷺنے اپنے ماننے والوں کی جماعت اور قبائلی عصبیت سے فائدہ اٹھانے اورکوئی جتھا بنا کر مزاحمت کی بجائے ہمیشہ صبر سے کام لینا اور ان تمام مصائب کا سہتے رہنا بھی حضورﷺ کی امن پسندی کی بے مثال دلیل ہے۔

امن کی خاطر اسیری کو قبول کرنا

آپؐ کی دعوت و تعلیم لوگوں کو کیا تھی !ابو سفیان کا بیان جو اس نے ہرقل کے دربار میں دیا:میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤ اور اپنے باپ دادا کی (شرک کی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔یہ وہ دعوت و تعلیم تھی جس پہ اہلِ مکہ ناراض ہوئے اور دن بدن ان کے ظلم وستم کی تشنگی کا جام بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا حتٰی کہ سردارانِ قریش نےبنوہاشم اور مسلمانوں سے بائیکاٹ اور ان کو شعب ابی طالب میں قید کرنے کامعاہدہ کر لیا اور آپؐ نے مقابلہ کرنے کی بجائے اسیری کوقبول کیا اور شعبِ ابی طالب میں محصور ہوگئے اور بلد الامین کا تقدس پامال نہ ہونے دیا۔ہر قیمت پر امن و امان کے فروغ کے لیےکوشاں اور کمر بستہ رہے۔

ہجرت ِحبشہ کی غرض :حصولِ امن

ظلم سہتے ہوئے پانچ سال بیت گئے اور مکہ میں ظالموں کو کوئی روک نہ سکا اور مکّہ میں جان بچانا بھی مشکل ہوگیا تو حضورﷺنے مسلمانوں کو قریبی عیسائی ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت عطافرمادی اور فرمایا: وہاں کا بادشاہ رعایا پر ظلم نہیں کرتا۔ رعیّت اپنے عقیدہ اور مذہب میں آزاد ہے۔چنانچہ نبی کریمﷺکی اجازت سے اولاً ایک چھوٹا قافلہ حبشہ چلا گیا۔ اس قافلہ میں حضورﷺکے داماد حضرت عثمانؓ بن عفان اور آپؐ کی لخت جگر سیدہ رقیہ ؓبھی تھیں۔ بعدازاں مسلمانوں کا ایک بڑا قافلہ اپنا دین اور جان بچانے کی خاطر اپنا گھر بار، کاروبار اور وطن چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرگیا۔

ہجرتِ مدینہ

اسی طرح اہل مدینہ کی طرف سے بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد مدینہ منوّرہ میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے حالات سازگار ہونے پر آپؐ نے پہلے ان مسلمانوں کو جو ابھی مکّہ سے باہر نہیں گئے تھے لیکن ان پر مصائب کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے، یثرب (مدینہ )چلے جانے کی اجازت فرمادی۔ بعدازاں خود بھی مدینہ منوّرہ ہجرت فرمائی۔ باوجودیکہ اس وقت تک آپؐ کے جاںنثاروں میں حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ جیسے جری اور شہ زور موجود تھے ،چاہتے تو مکّہ میں رہتے ہوئے مخالفین کو منہ تو ڑ جواب دے سکتے تھےمگر امن کی خاطر اپنا گھر بار، قبیلہ سب سے بڑھ کر حرم کعبہ سے دور ی قبول کر لی لیکن خون بہانا قبول نہ کیا۔یہ دونوں ہجرتیں حضور اکرمﷺکی امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

مدینہ میں قیامِ امن کی زبردست تدبیر

جب حضورﷺ مدینہ میں رونق افروز ہوئے تو آپؐ نے مدینہ اور گردو نواح کے باسیوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا جو میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہوا۔جس کا بنیادی مقصد حقوق کی پاسداری، باہمی جنگ کی ممانعت، ظلم و زیادتی کا استیصال، صرف مدینہ منورہ میں ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے تمام علاقوں میں امن کا قیام تھا۔ میثاق مدینہ کی مختلف کتب میں پچاس سے زائد شقوں کا ذکر ہے۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔1.مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔2.مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔اور بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ متحد ہو کر مدینہ کے دفاع میں حصہ لیں گے۔3.ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔کسی مسلمان کے قتل ناحق پر اگر ورثا بالرضا دیت لینے پر آمادہ نہ ہوں تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔4.تمدنی و ثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے۔کسی سے لڑائی اور صلح کی صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔5.مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر حملے کی صورت میں مسلمان ان کا ساتھ دیں گے۔6.قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے۔7.یہود اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلاف کی صورت میں عدالت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔حضورﷺ نے ہمیشہ مذہبی رواداری کا پاس رکھا اور قوت و طاقت کے باوجود کبھی کسی پہ رعب نہ جمایا اور ہمیشہ معاہدہ کی پاسداری فرماتے رہے۔ لیکن یہود کی سرشت میں ہی غداری اور بے وفائی تھی۔وہ قوم جو اپنے نبی موسیٰؑ کی نہ بن سکی، اس سے غداری کے علاوہ بھلا توقع ہی کیا کی جاسکتی تھی۔ چنانچہ یہود پہلے دن سے ہی معاہدہ کے برعکس خفیہ مخالفین ِاسلام کی مدد کرتے رہے اور آخرکار غزوہ خندق کے موقع پر ساتھ دینے سے اعلانیہ انکاری ہوگئے جبکہ معاہدہ میں جنگ کے وقت مسلمان اور یہود ایک دوسرے کا ساتھ دینے کے پابند تھے۔آپﷺ نے جنگ کے بعد غداروں کو غداری کی سزا دی جس کا آج تک ڈھونڈوراپیٹا جاتا ہے کہ ہائے ظلم کردیا۔ بھلا یہ تو کوئی بتائے کہ غدار کو سزا دینا امن کے قیام کے لیےضروری ہےیانہیں؟ ظالم،غاصب اور غدار ہی توہیں جو معاشروں کا امن تباہ کرتے ہیں۔

غزوۂ خیبر

مدینہ کے یہود کی عہد شکنی اور غداری کا ذکر ہوچکا ہے۔ چونکہ ان کے خمیر میں ہی شر انگیزی تھی ان کی شرارتیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ آخر کار ان ظالموں کو امن کا سبق دینے کےلیےآپؐ نے فتنہ انگیزی کی آماجگاہ قلعہ خیبر کا محاصرہ کیا اور چند جھڑپوں کے بعد جب عقل ٹھکانے آئی تو جزیہ کی ادائیگی کی شرط پر صلح کرلی۔

فتح خیبر کے موقعہ پر خون ریزی سے اعتراز

خیبر فتح ہوجانے کے بعد یہود نے پھر حضورﷺ پر ایک عورت کے ذریعہ حملہ کروایا۔واقعہ اس طرح ہے کہ زینب بنت حارث نامی خیبر کی ایک خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری پیش کی، جس میں اس نے زہر ملادیا تھا۔آپؐ کےایک جاںنثار نے لقمہ نگل لیا جو بعد میں شہید ہوگیا لیکن آپؐ نے اپنا لقمہ تھوک دیااوراپنے دیگر جاں نثار اصحاب کرام ؓکو ہاتھ روکنے کا ارشاد فرمایا اور کہا کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےزینب بنت حارث کو بلاکر پوچھا تو اس نے یہ عذر پیش کیا کہ میں نے آپ کے دعویٴ نبوت کی تصدیق کے لیے ایسا کیا ہے۔اس کا غلط خیال تھا کہ پیغمبر کو زہر اثر نہیں کرتا۔انسانی روح حیران و ششدر اور دنگ رہ جاتی ہےکہ امن کے پیامبرنے جنگی ایّام میں مفتوح قوم کی اس جان لیوا حملہ کرنے والی بد طینت عورت ، جس کے حملہ سے آپؐ کے ایک جاںنثار کی شہادت بھی ہو گئی اس کو بھی سزا نہ دی۔ تا دوبارہ خونریزی کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے۔یہود کی سرشت میں انبیاء کی عداوت بھری پڑی ہےاللہ تعالیٰ نے فرمایا: قُلۡ فَلِمَ تَقۡتُلُوۡنَ اَنۡۢبِیَآءَ اللّٰہِ مِنۡ قَبۡلُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ(البقرة:92)تُو کہہ دے اگر تم واقعى مومن ہو تو اس سے قبل اللہ کے نبىوں کو کىوں قتل کىا کرتے تھے حضرت یحیٰؑ کو شہید کردیا۔حضرت مسیحؑ کو بزعم خود صلیب پر ماردیا۔دنیا کا کوئی قانون اور کوئی عاقل انسان حضورﷺ کی جنگی کارروائیوں کو جارحیت قرار نہیں دے سکتا۔کیونکہ امن کے دشمنوں کی طاقت کو توڑنا اور سرکش کی سرکشی سے بچنا حصولِ امن کے لیےتدبیر کا حصہ ہوتا ہے۔

صلح حدیبیہ امن پسندی کا عظیم ثبوت

جب نبی اکرم ﷺ الٰہی حکم کے ماتحت اپنے ۱۴۰۰ جاںنثاروں کے ساتھ عمرہ کرنے مکہ کے لیےعازمِ سفر ہوئے اور اہلِ مکہ کو پیغام دیا کہ ہم کعبۃ اللہ کے طواف کی غرض سے آئےہیں۔ اس لیےہمارے ساتھ لڑائی نہ کرو،راستہ نہ روکو،حرمِ امن کا تقدس مدنظر رکھو۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا (العنكبوت: 68) کىا انہوں نے نہىں دىکھا کہ ہم نے اىک امن والا حرم بناىا ہے۔ لیکن سردارانِ مکّہ نے طواف کی اجازت نہ دی اور اندر ہی اندر مسلمانوں پر پل پڑنے کے لیےتیار بیٹھے تھے اوردکھاوے کے لیےیک طرفہ شرائط کے ساتھ صلح کی پیش کش کی لیکن امن کو برباد کرنے کی اس کوشش کوبھی نبی امین ﷺ نے ناکام بنادیا۔اور ان کی من مانی شرائط پر صلح قبول کرلی۔اہلِ مکہ کی طرف سے آخرکارخطیبِ قریش سہیل بن عمرو قریشی نے حاضر ہوکر صلح کا معاہدہ کیا۔جس میں یہ شرائط طےپائیں:1.امن کی یہ شرائط محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور سہیل بن عمرو سفیرِ مکہ کے درمیان طے ہوئیں۔2.دس سال تک کوئی جنگ نہیں ہوگی۔3.کوئی بھی (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا ساتھ دینا چاہے یا ان سے معاہدہ کرنا چاہے تو اس امر میں آزاد ہے۔ 4.اسی طرح کوئی بھی قریش (مشرکینِ مکہ) کا ساتھ دینا چاہے یا ان سے معاہدہ کرنا چاہے تو اس امر میں آزاد ہے۔5.کوئی بھی جوان آدمی یا ایسا شخص جس کا باپ زندہ ہو (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی طرف اپنے والد یا سرپرست کی اجازت کے بغیر جائے تو اسے اپنے والد یا سرپرست کو واپس کر دیا جائے گا۔6.اگر کوئی بھی مسلمانوں کا شخص قریش کی طرف جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔7. اس سال (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں گے۔8.مگر اگلے سال وہ اور ان کے ساتھی مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔9.تین دن گزار سکتے ہیں اور طواف کر سکتے ہیں۔10.ان تین دنوں میں قریشِ مکہ ارد گرد کی پہاڑیوں سے ہٹ جائیں گے۔11.جب (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ان کے ساتھی مکہ میں داخل ہوں گے تو غیر مسلح ہوں گے سوائے ان سادہ تلواروں کے جو عرب ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔مسلمانوں کو یہ شرائط اور اتنا دب کر صلح کرنا ہضم نہیں ہورہا تھا۔ ان میں شدید بے چینی کی فضا پیدا ہوگئی تھی حتیٰ کہ حضرت عمر فاروقؓ سے زیادہ دیر ضبط نہ ہوسکا اور حضور اکرمﷺکے سامنے جسارت کرتے ہوئے اپنے تحفّظات اور اشکالات کا اظہار بھی کر ڈالا جس کا انہیں زندگی بھر افسوس رہا۔ آپﷺنے ہر قیمت پر معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پورے وثوق اور اللہ پر بھرپور اعتما د سے صحابہؓ پر واضح فرمایا:انا عبداللّٰہ ورسولُہ لن اخالف امرہ ولن یضیعنی۔میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں ہرگز اس کے حکم کے خلاف نہیں کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔زیادہ دیر نہ گزری کہ قریش مکہ نے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ پہ شب خون مارا اورپشتوں کے بگڑے ہوؤں نے معاہدہ توڑ دیا۔ امن تو ان کی سرشت میں ہی نہیں تھا۔ چنانچہ یہی معاہدہ فتح مبین کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور اسی کے ثمرات سے مکہ فتح ہوا۔

بدامنی کی بڑی وجہ مذہبی تعصّب

بدامنی، لڑائی جھگڑا، باہمی عداوت و نفرت اور عدم تحفظ کا ایک بہت بڑا سبب مذہبی تعصّب ہوتاہے۔بعثت نبویؐ کے وقت یہود و نصاریٰ میں مذہبی تعصب اس حد تک موجود تھا کہ ان میں سے ہر ایک اپنے سوا باقی تمام مذاہب کو جھوٹا اور جہنمی سمجھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں یہود و نصاریٰ کے باہمی جھگڑے کو بیان فرمایا ہے۔ وَقَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ(البقرة: 114)اور ىہود کہتے ہىں کہ نصارىٰ (کى بنا) کسى چىز پر نہىں اور نصارىٰ کہتے ہىں کہ ىہود (کى بنا) کسى چىز پر نہىں۔نبی رحمتﷺنے اعلان فرمایا : لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (البقرة:286) ہم اس کے رسولوں مىں سے کسى کے درمىان تفرىق نہىں کرىں گے۔آپؐ کی بے مثال صلح کاری،رواداری اور وسعتِ قلبی سید سلیمان ندوی نے ان الفاظ میں بیان کی ہے۔’’ایک یہودی کے لیے حضرت موسٰیؑ کے سوا کسی اَور پیغمبر کو ماننا ضروری نہیں، ایک عیسائی تمام دوسرے پیغمبروں کا انکار کرکے بھی عیسائی رہ سکتا ہے، ایک ہندو تمام دنیا کو ملیچھ شودر اور چنڈال کہہ کر بھی پکا ہندو رہ سکتا ہے، ایک زرتشتی تمام عالم کو بحرظلمات کہہ کر بھی نورانی ہوسکتا ہے اور وہ حضرت ابراہیم و موسی علیہم السلام کو نعوذ باللہ جھوٹا کہہ کر بھی دینداری کا دعویٰ کرسکتا ہے لیکن محمد رسول اللہﷺنے یہ ناممکن کردیا ہے کہ کوئی ان کی پیروی کا دعویٰ کرکے ان سے پہلے کسی پیغمبر کا انکار کرسکے۔‘‘

دیگر مذاہب کی عبادات اور بے نظیر نمونہ

نجران کے عیسائی وفد کے ساتھ مذاکرات اور گفتگو کے دوران ان کی عبادت کا وقت ہوگیا تو آپﷺنے کھلے دل سے انہیں مسجد نبوی میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ کرامؓ نے انہیں روکنا چاہا تو فرمایا۔ ’’دعوھم‘‘ انہیں چھوڑ دو۔آج کوئی ہندو،سکھ،عیسائی،یہودی تو درکنار، اسی پیشوا کے نام لیوا اپنے مسلک کے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیںچہ جائیکہ ان کی مساجد میں کوئی عبادت کر سکے۔

عالمی اتّفاق و اتّحاد کےلیےسعی

آپؐ کو اللہ تعالیٰ نےتمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث فرمایا تھا جیسا کہ فرمایا قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (لاعراف:159) تُو کہہ دے کہ اے انسانو! ىقىناً مىں تم سب کى طرف اللہ کا رسول ہوں۔جیساکہ پہلے بیان ہوچکا ہے اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔اس امن کی نعمت کو آپؐ نے دیگر ممالک تک پہنچانے کے لیےکسریٰ شاہِ ایران اور قیصر شاہِ روم اور دیگر کئی بادشاہوں کو خطوط ارسال کیے۔ اور عالمی امن کی طرف دعوت دی۔ اور فرمایا: اَسْلِمْ تَسْلَمْ۔ کہ اسلام ہی ہے جو دائمی امن کاضامن ہے۔ پس سلامتی کی رداء اوڑھنےکی دعوت دیتا ہوں اور ساتھ یہ ارشاد ربّانی تحریر فرمایا:قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنََ (آل عمران: 65) تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کى طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمىان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسى کى عبادت نہىں کرىں گے اور نہ ہى کسى چىز کو اُس کا شرىک ٹھہرائىں گے اور ہم مىں سے کوئى کسى دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہىں بنائے گا پس اگر وہ پھر جائىں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ىقىناً ہم مسلمان ہىں۔اس داعئ امنﷺ نے یہاں تک فرمادیا کہ میرا مذہب قبول نہیں کرتے نہ کرو مشترک قدروں پر باہمی اتّفاق و اتّحاد قائم کرنے پر آمادہ ہوجاؤ۔اگر تم اس کو بھی قبول نہیں کرتے تو کم از کم اتنی گواہی تو دو کہ ہم امن و سلامتی کے داعی ہیں۔

غزوات کی غرض، امن کا قیام

جیساکہ اوپر اہلِ مکّہ کے تیرہ سالہ ظلم و ستم اور ایذارسانیوں کا ذکر گذر چکا ہے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں کا بھی پیچھا کرتے رہے اور شاہ حبشہ تک ایلچی بھیجے کہ یہ ہمارے مجرم ہیں انہیں ہمارے حوالہ کیا جائے۔ جب وہاں سے مایوسی ہوئی تو مدینہ کا رخ بھی کیا۔جب آپؐ مدینہ تشریف لے آئے تو ان کی ریشہ دوانیاں جاری وساری رہیں۔ مدینہ کے رئیس عبداللہ بن ابیّ کو یہ دھمکی آمیز خط لکھا کہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو (اپنے ہاں) پناہ دی ہے۔ ہم لوگ تمہیں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ تم لوگ ہر قیمت پر اس سے جنگ کرو یا اسے اپنے شہر سے نکال دو ورنہ ہم سب تمہاری طرف کوچ کریں گے حتیٰ کہ تمہارے ساتھ جنگ کریں گے اور تمہاری عورتیں باندیاں بنالیں گے۔عبداللہ بن ابیّ دھمکی سے مرعوب ہوکر جنگ کے لیےآمادہ بھی ہوگیا جس کو آپﷺ نے بڑی حکمت و دانائی سے رفع دفع کرایا۔پھر حضرت سعد بن معاذؓ عمرہ کے لیےمکہ گئے تو ابوجہل نے ان سے حضورﷺ کاساتھ نہ چھوڑنے کی بنا پہ سخت جھگڑا کیا۔ جب یہ کارروائیاں کارگر نہ ہوئیں۔تومدینہ کے گردو نواح میں پہنچ کر مسلمانوں کے اموال لوٹنے،چرواہوں کو قتل کردینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذریعے ظالموں،غاصبوں اور امن کے دشمنوں کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور اپنے رسولﷺ کو اذن عطا فرمایا کہ اب مظلموں کی مدد طاقت سے کرنا ضروری ہوگیا ہے۔غزوہ بدر سے قبل قریش کی غارت گری، لوٹ مار کا ذکر ہوچکا۔ انہی کارروائیوں کی وجہ سے غزوہ بدر کی نوبت آئی ۔آپؐ کوخبر پہنچی کہ ابوسفیان کی سرکردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے بڑے مال ومتاع کے ساتھ واپس آرہا ہےاور اس منافع سے وہ جنگی طاقت میں اضافہ کرکے مدینہ پر چڑھائی کرکے مسلمانوں کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔حضورﷺ اس تجارتی قافلہ کو روکنا چاہتے تھے لیکن تقدیر الٰہی ان کی بڑھی ہوئی رعونت اور تکبّر کاخاتمہ کرنا چاہتی تھی۔لہٰذاتجارتی قافلہ تو نکل گیا اور ان کا مسلح ایک ہزار کا لشکر جو سامانِ حرب سے خوب لیس تھا اورجن کا سپہ سالار ابوجہل اپنے تکبّر اور رعونت سے پھٹا جارہا تھا اس نے کعبہ کے دامن کو پکڑ کر قسم کھائی تھی کہ وہ نعوذ باللہ حضورﷺ کو قتل کرکے دین اسلام کا خاتمہ کردے گا لیکن تقدیر ِخدا وندی نے اس کے ارادے خاک میں ملادیے اور ۳۱۳ کو ہزار پر نہ صرف غلبہ عطا کیابلکہ ان کے تکبر اور رعونت کو بھی توڑ کر رکھ دیا۔ غزوہ احد کے موقعہ پر بھی اہلِ مکّہ تین ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ حضورﷺْنے اپنے دفاع میں ان سے جنگ لڑی۔ غزوہ خندق / احزاب میں بھی اہلِ مکّہ نے دیگر قبائل کے ساتھ مل کر چوبیس ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ منوّرہ کا گھیراؤ کیا اور حضورﷺنے خندق کھود کر شہر کا دفاع ممکن بنایا۔غرض یہ ابتدائی غزوات نبوی خالصتاً اپنے دفاع میں تھے جبکہ بعد کے غزوات مثلاً غزوہ خیبر، غزوہ حنین، فتح مکّہ اور غزوہ تبوک وغیرہ میں اگرچہ پیش قدمی کی گئی لیکن اس کی غرض صرف یہ تھی کہ یہ امن کے دشمن لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں اورلوگوں کاسکھ چین برباد نہ کرسکیں۔

فتح مکّہ اور دائمی امن کے اقدامات

جن لوگوں نے حضورﷺ کو ہرقسم کی تکلیف پہنچائی، آپؐ کے ماننے والوں کو بے دردی سے شہید کیا اور مسلسل تیرہ سال تک ایذادہی ان کا وطیرہ رہا، پھر حبشہ کے ملک تک پیچھا کیا، اموال لوٹے پھر مدینہ پرہرطرح کی طاقت سے لیس ہو کر کئی بار چڑھائی کی۔آپؐ نےان مہمات میں کئی عزیز کھوئے اور کتنے ہی زخم کھائے۔اب اللہ تعالیٰ نےان کو زیر کردیا اور وہ مفتوح ہوگئے۔اس داعئ امنﷺ کی شان دیکھیں۔آپؐ نے اہل مکہ سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ تم لوگ کیا کہتے تھے کہ میں تم سے کیا برتاؤ کروں گا؟انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: آج میں بھی تم سے وہی کہتا ہوں، جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، لاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن آج تم پر کوئی الزام نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور بے شک وہ تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔

زندگی بخش جامِ احمد ہے

کیا ہی پیارا یہ نامِ احمد ہے

لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا

سب سے بڑھ کر مقامِ احمد ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے قاتل وحشی کو معاف کردیا اور امان عطا فرما دی۔ اور ہند،زوجہ ابو سفیان کو بھی نہ صرف امان عطا فرمادی بلکہ مکہ میں رہنے کی اجازت بھی عنایت فرمائی جس نے آپؐ کے محترم اور پیارے محبّ چچا حمزہ ؓکا مثلہ کیا اور سینہ چاک کر کے کلیجہ چبایا تھا، اور ان کی نعش کی بے حرمتی کی تھی۔ آپؐ نے اس عمیر بن وہب کو بھی امان دے دی جس نے اپنی تلوار زہر میں بجھاکر آپ کو قتل کرنے کا ناپاک ارادہ کیا تھا۔

دائمی امن کا آئین

آپؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پہ دائمی امن کے اصولوں کی تعلیم دی، فرمایا:لوگو! میری باتیں سن لو۔مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی، اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے۔ (ربیعہ آپؐ کا چچازادبھائی تھا جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا)اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔ ہاں تمہارا سرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا اور سب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اسی دن سے بارہ ہے جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کیے تھے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین (ذیقعد ذوالحجہ اور محرم) لگا تار ہیں اور رجب تنہا ہے۔لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو سرزنش کرسکتے ہو۔ اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ، اچھی طرح پہناؤ۔تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث ہےجس کے بستر پر پیدا ہو۔زناکار کے لیے پتھر اوران کا حساب خدا کے ذمہ ہے۔عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔ عاریتاً( وقتی طور پر دی گئی چیز) واپس کی جائے۔ عطیہ لوٹا دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ کیا چیز ہے؟کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔

جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضر نہیں ہیں۔

نقصِ امن کے اسباب کی ممانعت و مذمّت

عصبیت کی نفی:انسانی معاشرے میں نقص امن کے اسباب و وجوہات میں سے ایک بڑا سبب عصبیت بھی ہے۔ عصبیت یہ ہے کہ آدمی کسی کی محض اس بنیاد پر حمایت کرے کہ وہ اس کی قوم اور برادری سے تعلق رکھتا ہے چاہے وہ ناحق، غلط اور دوسرے پر ظلم کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ حضورﷺ کی خدمت میںعرض کی گئی کہ کیا یہ بات عصبیت میں داخل ہے کہ آدمی اپنی قوم کے ساتھ محبت رکھے۔ فرمایا ’’نہیں: بلکہ عصبیت یہ ہے کہ آدمی ظلم وزیادتی کے معاملے میں بھی اپنی قوم کی مدد کرے۔‘‘نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے عصبیت کے جذبہ کے قلعے قمعے کے لیےبطور وعید ارشاد فرمایا:جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں۔ جس نے محض عصبیت کی بنا پر جنگ کی اور وہ آدمی بھی جو عصبیت کے جذبہ پر مر گیا ہم میں سے نہیں۔

ہتھیار کے اشارہ سے ممانعت

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ شاید شیطان (اسے غصہ دلادے اور) اس کے ہاتھ میں کپکپی طاری کردے پھر وہ (بے گناہ قتل کی سزا میں) جہنم کی آگ میں جاگرے۔اسی طرح ایک دوسری حدیث میں فرمایا:جس آدمی نے اپنے بھائی کی طرف کسی آہنی ہتھیار سے اشارہ کیا تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس اشارہ کو ترک کردے چاہے وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو۔اب بھائی مسلمان کے علاوہ غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے۔ گویا غیر مسلم کو بھی اس انداز میں ڈرانا دھمکانا جائز نہیں۔آپؐ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو ڈرائےیا پریشان کرے۔کسی کی چیز چھپانا بھی پریشانی کا سبب ہوتا ہےاس لیے حضورﷺنے ایسا کرنے سے بھی منع فرمایا۔ ارشاد ہوا:’’تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کا سامان ہرگز نہ چھپائے نہ مذاق میں نہ جان بوجھ کر‘‘۔یعنی کوئی بھی بے احتیاطی، اشتعال انگیزی،اور لایعنی مذاق بازی امن کو برباد کرسکتی ہے تو اس طرح کے اشاروں سے ہی منع فرما دیا۔

بنی نوع انسان کے تحفّظ کی منادی

آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعلان فرمایامَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة:33) جس نے بھى کسى اىسے نفس کو قتل کىا جس نے کسى دوسرے کى جان نہ لى ہو ىا زمىن مىں فساد نہ پھىلاىا ہو تو گوىا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دىا اور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گوىا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کردىا۔

امن کے فروغ کے لیےکلیدی اقدامات

آپؐ کے ماننے والوں میں ایسے لوگ کثرت سے تھے جو ایک دوسر ے کے جانی دشمن تھے مگر اسلام کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دی۔ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ (الانفال:64)۔نبی رحمتﷺنے اس محبت کو بڑھانے کے لیےجو متعدد اقدامات اٹھائے ان میں سے چند تعلیمی و تربیتی تھے تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے۔آپؐ نے فرمایا چار صفاتِ حمیدہ اپنا لوتو جنت کےحق دار بن جاؤ گے۔1.ایک دوسر ے کو آتے جاتے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا کرو۔2.جو تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرتے رہا کرو۔3.ایک دوسرے کو کھانے کی دعوت دیا کرو۔4.رات کو جب لوگ سوئے ہوں تو عبادت کیا کرو۔یہی مذکورہ بالا بنیادی امور ہیں جن سے محبت بڑھتی اور نفرت ختم ہوتی ہے۔امن پھیلتا ہے اور نقض امن کا خاتمہ ہوتا ہے۔نبی رحمت ﷺ کے نام پر بے گناہ انسانوں کا قتل کرنا، ان پر تشدد کرنا، خود کش حملے کرنا، لوگوں کے املاک اور جائیدادیں تباہ کرنا، ان کی عزت و آبرو سے کھیلنا، ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلانا جسے آج کی اصطلاح میں دہشت گردی (Terrorism) کہا جاتا ہے، اس کا دینِ اسلام اور حضورﷺ کے اسوہ سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔

خلاصۂ بحث

حضور اکرمﷺ نےدنیا میں امن است در مکانِ محبت سرائے ما کی ندا دی تا آپؐ دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائیں۔یہی الٰہی تصرف تھا کہ آپﷺکی سرشت میں امن و سلامتی کا جذبہ ودیعت کیا گیا۔ آپؐ نےرنگ و نسل کے فرق کو مٹا یا اور ساتھ قومی تفاخر کا بھی قلع قمع کیا،لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِنْ رُسُلِہٖ کا اعلان کرکے مذہبی ہم آہنگی کا درس دیا۔ آپ ﷺنے معاشرے میں امن وسلامتی کے فروغ اور ہر انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ و سلامتی کے لیےایسے متعدد اور دوررس اقدامات فرمائے اور ایسا ذہنی و عملی انقلاب پیدا کردیا کہ اکیلی خاتون صنعاء (یمن) سے بیت اللہ کا سفر کرتی تھی اور اسے کسی رہزن کا ڈر نہ تھا۔ امن و سلامتی کے حوالے سے حضور اکرمﷺکی تعلیمات اور ہدایات پر آج بھی عمل کیا جائے تو ساری دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔(ماخوذاز قرآن کریم،سیرت ابن اسحاق۔سیرت ابن ہشام۔ روض الانف۔طبقات ابنِ سعد۔الرحیق المختوم۔ صحیح بخاری۔صحیح مسلم۔ دلائل النبوۃ۔ ترمذی۔ بائبل۔ نقوش رسول۔)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button