خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جماعتِ احمدیہ برطانیہ 2022ء کے تیسرے روز حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا معرکہ آرا،بصیرت افروز اور دل نشیں اختتامی خطاب

اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی بھی مذہب نے اس تفصیل سے ہر طبقے اور تمام مخلوق کے حقوق بیان نہیں کیے اورنہ ہی کسی انسانی قانون و قواعد نے اور ضابطوں نے ان کا احاطہ کیا ہے جس طرح اسلام کی تعلیم میں بیان ہوئے ہیں

اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورتوں کے بھی حقوق قائم فرمائے اور مردوں کے بھی

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوہ یہ بھی ہے کہ آپؐ عورتوں سے بعض اہم امور میں مشورہ بھی لے لیا کرتے تھے

اللہ تعالیٰ مرد اور عورت دونوں کو برابری کی سطح پر رکھ کے ان کی خصوصیات بیان کر کے فرماتا ہے کہ اگرتم یہ یہ کرنے والے مرد اور عمل کرنے والی عورتیں ہو تو تم اس بات کے حقدار ہو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں نوازے

اگر ہم احمدی یہ حق ادا کرنے کی مثالیں قائم کرنے والے بن جائیں گے تو ایک حسین معاشرے کا نمونہ بن سکتے ہیں

نمونے قائم کرنا مردوں کا کام ہے

’’جو پردہ کہ سمجھا گیا ہے وہ غلط ہے، قرآن شریف نے جو پردہ بتلایا ہے وہ ٹھیک ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

پس اصل چیز یہ ہے کہ سائل کا حق، اگر حق بنتا ہے تو اس کو دو لیکن یہ بھی دیکھ لو کہ وہ خرچ صحیح جگہ کر رہا ہے کہ نہیں کر رہا

قرآن کریم ،احادیث نبویؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات کی روشنی میں مردوں، عورتوں نیز سوالی اور محروم کے حقوق کا بصیرت افروز بیان

(فرمودہ مورخہ07؍اگست 2022ء بروز اتوار بمقام حدیقۃ المہدی (جلسہ گاہ) آلٹن، ہمپشئر ۔ یوکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

اسلام نے مختلف لوگوں کے، مختلف طبقوں کے حتی کہ کل مخلوق کے جو حقوق قائم کیے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر مَیں نے 2019ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں کیا تھا۔ پھر 2021ء کے جلسہ سالانہ یوکے میں کچھ حقوق کا ذکر کیا تھا لیکن جس تفصیل سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حقوق کا ذکر فرمایا ہے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح حقوق قائم فرمائے اور بیان فرمائے اور پھر جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق نے اس زمانے میں ان کی تفصیل بیان فرمائی وہ سب اتنی زیادہ ہے کہ کئی گھنٹوں میں بھی ان کا احاطہ نہیں ہو سکا نہ ہو سکتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ تمام حقوق بیان نہیں ہو سکے بلکہ جو بیان ہوئے ان کو بھی میں نے چند مختصر حوالوں کے ساتھ بیان کیا تھا۔ سو آج بھی مَیں بعض حقوق کا ذکر کروں گا۔

اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی بھی مذہب نے اس تفصیل سے ہر طبقے اور تمام مخلوق کے حقوق بیان نہیں کیے اور نہ ہی کسی انسانی قانون و قواعد نے اور ضابطوں نے ان کا احاطہ کیا ہے، جس طرح اسلام کی تعلیم میں بیان ہوئے ہیں۔

جب ایک انصاف پسند انسان ان حقوق کی تفصیل پڑھتا ہے اور سنتا ہے تو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا حسن نکھر کے سامنے آتا ہے اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلتا ہے کہ یہ تعلیم تو ایسی خوبصورت ہے کہ اسے ہر ایک کو اپنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد انسان کرتا ہے اور انصاف پسند برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اعتراض کرنے والے غلط اعتراض کرتے ہیں۔ ہمارے مختلف فنکشنز پر آئے ہوئے لوگوں کے جو مختلف ممالک کے رہنے والے ہیں اور مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، افریقہ سے بھی، ہندوستان سے بھی، یورپ سے بھی، امریکہ سے بھی، آسٹریلیا سے بھی اور جزائر سے بھی ان کے یہ اعتراف موجود ہیں کہ جس طرح اسلام ہر پہلو کا احاطہ کرتاہے یہ حیران کن ہے۔ پس

ہمارا کام ہے کہ اس خوبصورت تعلیم کے حسن کو دنیا کو بتاتے چلے جائیں۔ نیک فطرت لوگوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کریں اور مخالفین اور بے جا اعتراض کرنے والوں کے منہ بند کریں۔

آج جو حقوق مَیں بیان کرنے لگا ہوں ان میں

پہلا ذکر مردوں اور عورتوں کے حقوق

کا ہے۔ آج کل ان دونوں طبقوں کے حقوق اور برابری کی باتیں ہوتی ہیں۔ بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور یہ تنظیمیں افراط و تفریط کرنے والی ہیں۔ یعنی ایک حقوق دلانے کے لیے دوسرے پر زیادتی بھی جائز قرار دے دیتی ہے۔ آج کل اگر عورتوں کے حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے تو کسی اصول و قاعدے کو بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ عورتوں کو حقوق دینے کا نعرہ لگاتے ہیں تو ان سے زبردستی ان کی مذہبی آزادی اور اس پر عمل کرنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔ مرد سے حقوق لینے کی کوشش کرتے ہیں تو عورتوں مردوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے حالات پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر جو حق دینا چاہتے ہیں ان میں بھی سقم ہے۔ پتہ نہیں چلتا کہ کس طرح ان پر عملدرآمد کروائیں۔ چنانچہ خود مانتے ہیں کہ

مردوں اور عورتوں کے برابری کے حقوق میں بین الاقوامی قانون بھی اوربین الاقوامی عدالتیں بھی خاموش ہیں۔

پھر معاشی، معاشرتی رہن سہن، سہولیات اور رسم و رواج کی وجہ سے جو روکیں ہیں ان کو کس طرح حل کرنا ہے اس کا کچھ پتہ نہیں۔ پس مرد عورت برابر ہیں کا نعرہ لگا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے۔ یہ دیکھتے ہی نہیں کہ اس کی جزئیات میں جا کر کن کن چیزوں کو دیکھنا ہے، کن کن باتوں پر غور کرنا ہے۔ کس بارے میں کس طرح کے قواعد اور ضوابط اور قوانین بنانے ہیں۔ یہ خود ساختہ بغیر سوچے سمجھے کے برابری کے اصول معاشرے میں امن پیدا کر رہے ہیں یا بدامنی پیدا کر رہے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں سوچتے۔ گھروں کو جوڑ رہے ہیں یا توڑ رہے ہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ اگلی نسل کی تربیت اور انہیں بہترین انسان بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں یا ان کو تباہ کر رہے ہیں۔ پس بےشمار باتیں ہیں جن پر نہ انہوں نے غور کیا نہ دیکھا۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مَیں مردوں اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں اسلام ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے، وہ چند مختصر سی باتیں بیان کروں گا۔ اس کی تفصیلات تو بہت ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا بعض باتیں بیان کروں گا۔ اور جب ہم اس معاشرے کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھتے ہیں، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور قرآن کریم نازل ہوا تو پھر اس کی اہمیت اور واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح

اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورتوں کے بھی حقوق قائم فرمائے اور مردوں کے بھی۔

اس زمانے میں جب عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی ان کے حقوق قائم فرمائے۔ پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے میں اس نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے نکھار کو ہمارے سامنے پیش کرنے والا بھی مبعوث فرمایا۔ بہرحال مَیں قرآن کریم کے حوالے سے بات شروع کرتا ہوں۔ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَبَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَالۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا (النساء: 2)اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رِحموں کے تقاضوں کا بھی خیال رکھو۔ یقیناًً اللہ تم پر نگران ہے۔

اسلام کی تعلیم کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع ہی میں فرما دیا کہ یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ متقی کون ہے؟ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی ہے، اس سے محبت بھی کرتا ہے، اس کے حکموں پر چلنے کا عہد کر کے اس پر چلتا ہے اور یہی حقیقی مسلمان بھی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو تو جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ لوگ تو وہ ہیں اور پہلے مخاطب وہی ہیں جو مسلمان ہیں۔ پس مسلمانوں کو ہی نصیحت ہے کہ ہمیشہ یاد رکھو اے مردو اور عورتو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔ پس

مرد اور عورت نفس واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں اس لحاظ سے ایک ہی جنس ہیں۔

جب ایک ہی جنس ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ بھی ایک جیسے بنائے ہیں، ان میں احساسات بھی ایک قسم کے رکھے ہیں ان کے جذبات بھی ایک ہی طرح کے ہیں۔

یہ آیت نکاح کے شروع میں بھی پڑھی جاتی ہے یعنی شادی کے بندھن میں بندھتے وقت یہ واضح کر دیا جاتا ہے کہ یہ بندھن مضبوط تبھی ہو سکتا ہے جب مرد کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ احساس کے لحاظ سے، جذبات کے لحاظ سے، عقل کے لحاظ سے، حقوق کے لحاظ سے عورت اور مرد برابر ہیں اس لیے عورت کو کمتر نہ سمجھنا۔ اسی طرح عورت کو بھی سمجھایا گیا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوہ یہ بھی ہے کہ آپؐ عورتوں سے بعض اہم امور میں مشورہ بھی لے لیا کرتے تھے۔

اس سوسائٹی میں جہاں اسلام سے پہلے عورت کی کوئی اہمیت نہیں تھی، مشورہ لینا تو ایک طرف اس کو اپنی معمولی رائے دینے کا بھی حق نہیں تھا۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ کہ اہم معاملات میں عورت سے مشورہ بھی لے لیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل نے عورتوں میں اتنی جرأت پیدا کر دی کہ وہ مردوں کی بیجا روک ٹوک کے سامنے بھی جواب دے دیا کرتی تھیں۔

حضرت عمر ؓکا ہی ایک واقعہ ہے کہ جب ان کی کسی بات پر ان کی بیوی نے اپنی رائے دی تو انہوں نے انہیں سختی سے ڈانٹا کہ تمہارا بیچ میں بولنے کا کوئی حق نہیں۔ اس پر ان کی بیوی نے کہا کہ اب آپ چپ کریں۔

اب وہ زمانہ نہیں رہا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بولنے کا حق دیا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الطلاق باب فی ایلاء واعتزال النساء … الخ حدیث 3692)

ہم بھی عقل رکھتی ہیں، ہم بھی کسی معاملے میں اپنی اعلیٰ رائے دے سکتی ہیں۔ بلکہ دین کا علم بھی حاصل کرتی تھیں اور بعض دینی معاملے میں بھی صحابیاتؓ خلفاء کو بھی اپنی رائے دے دیا کرتی تھیں۔

اسلام نے عورت کو اس وقت یہ مقام دلایا جب اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔

پھر صرف میاں بیوی کو ہی نصیحت نہیں کی کہ خدا کا خوف دل میں پیدا کرتے ہوئے ایک دوسرے کا حق ادا کرو بلکہ یہ بھی نصیحت فرمائی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو۔ رشتہ داروں کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ وسیع تر حقوق کا تحفظ اور ان کو قائم کرنا معاشرے کے امن کی بھی ضمانت ہو گا اور ایک کے بعد دوسری نسل ایک دوسرے کے حقوق قائم کرنے والی پیدا ہوتی جائے گی۔ پس اس طرح اسلام حقوق کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

پھر ترکہ کا سوال ہے تو

اسلام نے دونوں مرد اور عورت کے ترکے کے حق کو قائم فرمایا۔

مرد کو اس کی ذمہ داریوں کے مطابق ترکے کے ایک حصہ کا حق دار قرار دیا تو عورت کو بھی محروم نہیں رکھا اور اسے بھی ترکہ میں حصہ دیا۔ جب ہم اس زمانے کے حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں جب عورت کو جائیداد کے حق سے محروم رکھا جاتا تھا بلکہ اب بھی بعض ملکوں میں حق نہیں دیا جاتا تو اس وقت اسلام کہتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے والدین یا جن سے بھی ان کو ترکہ مل سکتا ہے شرعاً اس کے حق دار ہیں، لیں۔ نہ مرد زیادتی کرے یا پھر کسی چیز سے محروم کیا جائے نہ عورت کو اس وجہ سے کہ وہ عورت ہے جائیداد سے محروم کیا جائے۔ آج عورت کے حقوق کا نعرہ لگانے والے جو ہیں اپنے گریبان میں دیکھیں اور اپنی تاریخ پر نظر رکھیں۔ ان کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے جب یہ عورت کے حقوق پامال کرتے تھے، کوئی سینکڑوں سالوں کی باتیں نہیں ہیں۔ پھر اسلام پر اعتراض کہ یہ حق نہیں دیتا، اس کو ڈھٹائی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔

بہرحال اس سلسلہ میں اسلام کی تعلیم کیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَالۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا (النساء: 8)کہ مردوں کے لیے اس ترکہ میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور اقربا نے چھوڑا ہے اور عورتوں کے لیے بھی اس ترکہ میں ایک حصہ ہے جو والدین اور اقربانے چھوڑا۔ خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ یہ ایک فرض کیا گیا حصہ ہے۔

پس یہ ہے اسلام کی تعلیم۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اور بہت سے حق قائم فرمائے ہیں عورت اور مرد کے جو حق قائم فرمائے ہیں۔

مرد کو اگر قوام بنا کر اس کی جسمانی ساخت کو مضبوط بنایا ہے تو اسے یہ بھی کہا ہے کہ گھر کا خرچ چلانا اور بیوی بچوں پر خرچ کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور عورت کو کہا کہ جب تمہارے حق ادا کر رہا ہے تو تمہارا بھی فرض ہے کہ اس کا حق ادا کرو۔

گھر کے ماحول کو خوشگوار بناؤ خاوند کے گھر سے باہر جانے کی صورت میں اس کے گھر جائیداد بچوں اور اپنی عصمت و عزت کی حفاظت بھی تمہارا فرض ہے۔ پس دونوں کو حکم ہے کہ ایک دوسرے کے حق ادا کرو۔

پھر صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ مرد اور عورت کو کہتا ہے کہ تم ایک دوسرے کے حق ادا کرو بلکہ

اللہ تعالیٰ مرد اور عورت دونوں کو برابری کی سطح پر رکھ کے ان کی خصوصیات بیان کرکے فرماتا ہے کہ اگر تم یہ یہ کرنے والے مرد اور عمل کرنے والی عورتیں ہو تو تم اس بات کے حقدار ہو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں نوازے۔

پس اللہ تعالیٰ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے مرد اور عورت دونوں کو اس بات کی ضمانت دی کہ اللہ نہ صرف تمہیں بخش دے گا بلکہ اجرِ عظیم بھی عطا فرمائے گا۔ گویا اللہ تعالیٰ خود بھی ان کا حق ان کو دے رہا ہے۔ گو کہ بندے کا کیا حق ہے کہ اللہ تعالیٰ سے حق کا مطالبہ کرے لیکن اللہ تعالیٰ کا سلوک ایسا ہے کہ لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نیک کاموں کی وجہ سے بندے کا حق ادا کر رہا ہے۔ بہرحال میں وہ آیت بھی پیش کرتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی خصوصیات بیان کر کے پھر ان سے اپنی نوازش کا وعدہ فرماتا ہے۔ فرماتا ہے۔ اِنَّ الۡمُسۡلِمِیۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِیۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِیۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِیۡنَ وَالۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیۡنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالۡحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمۡ وَالۡحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیۡنَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا وَّالذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّاَجۡرًا عَظِیۡمًا (الاحزاب: 36)یقیناً مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں اور صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں، اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور اجرِعظیم تیار کیے ہوئے ہیں۔

پس یہ ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم، یہ ہے اسلام کی خوبصورتی کہ نہ صرف مرد اور عورت دونوں کو تلقین فرما رہا ہے کہ ایک دوسرے کا حق ادا کروبلکہ خود اللہ تعالیٰ ان مردوں اور عورتوں کو ان کا حق دینے کا وعدہ فرما رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بجا لانے اور معاشرے کے حق ادا کرنے اپنی پاکیزگی کو قائم رکھنے اور عبادت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ اور پھر

اس آیت سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کس طرح عورت اور مرد کو بھی برابری کا مقام دیتا ہے، ہر عمل، ہر نیکی کا اجر اگر مرد کوملے گا تو عورت کو بھی ملے گا۔

اسلام پر اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ اسلام مرد اور عورت میں امتیاز کرتا ہے، فرق کرتا ہے تو وہاں جہاں جسمانی ساخت اور گھریلو فرائض کا تعلق ہے اور ایک حسین معاشرہ قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عورت اور مرد اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں اور ادا کریں تا کہ گھر جنت نظیر بنے۔ ان اعتراض کرنے والوں کی جو اکثریت ہے ان کے گھر اس لیے بے اعتمادی اور فساد کی جگہ بنے ہوئے ہیں کہ اپنے فرائض کو بھول گئے ہیں۔ ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے اور نتیجةً بچوں کی تربیت پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ پس

اگر ہم احمدی یہ حق ادا کرنے کی مثالیں قائم کرنے والے بن جائیں گے تو ایک حسین معاشرے کا نمونہ بن سکتے ہیں۔

اب مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقوال و احادیث بھی پیش کرتا ہوں جن میں آپؐ نے مختلف حوالوں سے عورتوں اور مردوں کے حق قائم فرما کر ہدایات فرمائی ہیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اللہ کے نام کے ساتھ نکلو اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ کے دین پر نکلو اور کسی ضعیف العمر کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی بچے کو اور نہ کسی چھوٹے کو اور نہ کسی عورت کو اور نہ تم خیانت کرنا اور اپنے مالِ غنیمت اکٹھے رکھنا اور اپنے احوال کی اصلاح کرنا اور حسنِ معاملگی سے پیش آنا کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین حدیث 2614)

جنگوں کے حالات میں، لڑائی کی حالت میں انسان بعض باتوں کا خیال نہیں رکھتا لیکن یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کے حقوق قائم کرنے کی ان کی حفاظت کرنے کا ایک ضابطہ عطا فرمایا ہے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عبدالرحمٰن بن عائذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی دستہ روانہ فرماتے تویہ فرمایا کرتے کہ لوگوں کے ساتھ الفت پیدا کرو اور ان پر اس وقت تک حملہ نہ کرو جب تک ان کو دعوت نہ دے دو اس لیے کہ مجھے تم تمام اہل زمین کا خواہ وہ گھر میں رہنے والا ہو یا خیمہ میں ان کا مسلمان ہو کر آنا اس بات کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہے کہ تم ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لاؤ اور مردوں کو قتل کر دو۔

(کنز العمال جلد 4 کتاب الجہاد صفحہ 469 حدیث نمبر11396 باب فی فضلہ والحث علیہ مؤسسۃ الرسالۃ 1981ء)

اسلام پر الزام ہے کہ ظلم کرتے ہیں۔ یہ تو ظلم کی روک کے لیے اسلام کھڑا ہے۔

پھر گھریلو زندگی کے امن و سکون کو قائم رکھنے اور بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت کرنے اور ان کا حق ادا کرنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہترین ہے اور مَیں اپنے اہل کے لیے تم سب سے بہترین ہوں۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب باب فی فضل ازواج النبی حدیث 3895)

پھر عورت کی عزت کو قائم کرنے اور اس کے وجود کا حق قائم کرنے کے لیے آپ نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا کہ حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ،‏‏‏‏ وَالطِّيْبُ،‏‏‏‏ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِيْ فِي الصَّلَاةِ کہ حضرت انسؓ کی روایت ہے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتیں اور خوشبو میرے لیے محبوب بنا دی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔

(سنن النسائی كتاب عشرة النساء باب حب النساء حدیث 3392)

پس یہ نمونہ ہے آپؐ کے ماننے والوں کے لیے جس پر ہمیں غور اور عمل کرنا چاہیے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام عورتوں کے حقوق کے بارے میں بتاتے ہیں: ’’فحشا کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ ہمیں تو کمال بےشرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے۔ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤکریں۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ 1)

پھر ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں: ’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصر الفاظ میں فرما دیا ہے وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں۔ بعض لوگوں کا حال سنا جاتاہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طر ح جانتے ہیں اور ذلیل تر ین خد مات ان سے لیتے ہیں۔ گالیا ں دیتے ہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سے برتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہو تا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خداتعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو۔ ‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے ۔‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ417-418)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک اَور جگہ فرمایا کہ ’’قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگرمرد اپنی عورت کو مروت اور احسان کی رو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے۔ ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہرحال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْف یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کرسکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروت سے پیش آتے ہو۔

علاوہ اِس کے شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔ اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تواسلامی اصطلاح میں اس کانام خلع ہے۔ جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابلِ برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اَور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اس کے گھر میں آباد رہنا ناگوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کردے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اس کی عورت کو اس سے علیحدہ کیا جائے۔‘‘

(چشمۂ معرفت ، روحانی خزائن جلد23 صفحہ 288-289)

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ہما ری جما عت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گا ری کے لئے عورتوں کو پر ہیز گا ری سکھاویں ورنہ وہ گناہ گار ہوں گے۔‘‘ یہ مرد کا فرض ہے، عورت کا حق ہے اس کو سکھایا جائے اور عورت کا یہ حق ہے کہ اس کا خاوند اور مرد اپنا حق ادا کرنے والا ہو۔ فرمایا کہ ’’اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلا ں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی۔ جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید پیدا ہوتی ہے۔ اولاد کا طیب ہونا تو طیبات کا سلسلہ چاہتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر اولاد خراب ہوتی ہے۔ اس لیے چاہئے کہ سب توبہ کریں اور عورتوں کو اپنا اچھا نمونہ دکھلاویں۔ عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔ نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثروں کو حاصل کرتی ہیں۔ جب خاوند سیدھے رستہ پر ہو گا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی۔‘‘پس یہ

نمونے قائم کرنا مردوں کا کام ہے۔

پھر فرمایا کہ ’’…سب انبیاء اولیاء کی عورتیں نیک تھیں اس لئے کہ ان پر نیک اثر پڑتے تھے۔ جب مرد بدکار اور فاسق ہوتے ہیں تو ان کی عورتیں بھی ویسے ہی ہوتی ہیں۔ ایک چور کی بیوی کو یہ خیال کب ہو سکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں۔ خاوند تو چوری کرنے جاتا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے؟‘‘ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اگر خاوند میں برائیاں ہیں تو عورت میں بھی وہی برائیاں پیدا ہوں گی۔ فرمایا کہ ’’اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلٰى النِّسَاءِ اسی لیے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی۔ ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہو گا تو بدمعاشی سے وہ حصہ لیں گی۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 217-218)

اب اس کی تشریح بعض لوگ اپنی خود غرضی کے لیے یہ کر لیتے ہیں کہ ہم قوام ہیں اس لیے ہم جو چاہیں کہیں جو چاہیں کریں ہمارا کہنا ماننا ضروری ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے پہلے اپنے نمونے دکھانا ضروری ہے اور مرد نمونے دکھائیں گے تو پھر عورتیں مانیں گی تب یہ ایک دوسرے کے حق ادا ہوں گے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’عورتوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے جب موسم متعفن ہوتا ہے تو ان کو اسی چار دیواری کے حبس میں زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔ لوگ اگرچہ ملامت کرتے ہیں ا ور برا جانتے ہیں لیکن جبکہ ایک امر خدا تعالیٰ کی رضا کے برخلاف نہیں ہے تو ہمیں اس کے بجا لانے میں کیا تامل ہے۔ جبکہ خدا تعالیٰ نے مرد و عورت میں مساوات رکھی ہے تو اسی خیال سے کہ کہیں ان کو حبس میں رکھنا معصیت کا موجب نہ ہو۔ میں گاہے گاہے اپنے گھر سے چند دوسری عورتوں کے ساتھ باغ میں سیر کے لیے لے جایا کرتا تھا اور اب بھی ارادہ ہے کہ لے جایا کروں۔‘‘

آپؑ نے فرمایا کہ موسم گرم ہوتا ہے، حبس ہوتا ہے لیکن عورتوں کو گھروں میں بند کیا ہوا ہے۔ ہمارے بعض ایشین ملکوں میں یہی رواج ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ لوگ کہتے ہیں جی عورتیں باہر نکل گئیں ان کی، شریف خاندانوں کی عورتیں کیوں باہر نکلیں۔ عورتوں کا باہر نکلنا منع نہیں۔ ہاں پردے کی پابندی ضروری ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’یورپ کے اعتراض پردہ پر بے حیائی کے ہیں اور ان میں تفریط ہے اور مسلمانوں میں افراط ہے کہ گھروں کو عورتوں کے لیے بالکل حبس بنا دیا ہے۔‘‘اگر اعتراض ہیں حیا نہیں ہے وہ بھی غلط اعتراضات ہیں لیکن اگر مسلمانوں کے بعضوں کے عمل ہیں تووہ بھی غلط ہیں کہ بالکل گھر میں بند کر دینا۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہؓ کو باہر اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے، جنگوں میں بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

جو پردہ کہ سمجھا گیا ہے وہ غلط ہے، قرآن شریف نے جو پردہ بتلایا ہے وہ ٹھیک ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 321-322 حاشیہ )

جتنے حوالے مَیں نے پیش کیے ہیں ان میں سے اکثریت میں عورتوں کے حقوق کی ہی بات ہوتی ہے۔ مردوں کے حقوق اس طرح علیحدہ بیان نہیں ہوئے۔ ہوئے بھی ہیں تو بہت کم ہیں اس لیے کہ ہر معاشرے میں مرد کی برتری نظرآتی ہے اور مرد اپنے حقوق لے لیتا ہے۔ اسلام نے تو مردوں کو یہ کہا ہے کہ تم بعض دفعہ جائز ناجائز طریق سے اپنے حق لے لیتے ہو بلکہ بعض اوقات حق نہیں بھی بنتے تو پھر بھی حق لے لیا جاتا ہے خاص طور پر کم ترقی یافتہ ممالک میں وہاں کے لوگوں میں یا کم پڑھے لکھے لوگوں میں تو عورتوں کے حق بہت مارے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت فی زمانہ انہی ملکوں میں ہے جو کم ترقی یافتہ ہیں اور کم پڑھے لکھے ہیں اور وہاں اسی لیے عورتوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے، ان کو حق نہیں دیا جاتا۔ اپنے حق کی مرد بات کرتا ہے۔

عورت سے اگر حق لینا ہے تو پھر حق دینا بھی ہوگا اور یہ اسلام کی تعلیم ہے۔

بہرحال اس عمومی حالت کے پیش نظر اسلام نے عورتوں کے حقوق دلوانے کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔ پھر بھی اسلام پر یہ اعتراض ہے کہ اسلام عورتوں کو حق نہیں دلواتا بلکہ شاید یہ باتیں سن کر اب مرد یہ بھی کہیں کہ ہمارے حق تو کوئی قائم نہیں ہوئے عورتوں کے حقوق قائم کیے جا رہے ہیں عموماً مرد جیساکہ میں نے کہا طاقتورہونے کے لحاظ سے اپنے حقوق لے ہی لیتے ہیں۔ آج کل جو عورت کے حقوق کے نام پر نام نہاد تنظیمیں بن گئی ہیں وہ عدالتوں کے ذریعہ یا اپنے دوسرے ذرائع سے بعض دفعہ مردوں پر زیادتی بھی کروا دیتی ہیں تو اسلام کہتا ہے کہ

جو عورت اپنے خاوند اور اس کے گھر اور اس کے بچوں کے حق ادا نہیں کرتی اور صرف اپنے حقوق کے لیے شور مچاتی ہے ایسی عورتیں پھراللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والی بنتی ہیں۔

پس جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا کہ مومن مرد اور مومن عورت ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والے ہوں گے تو پھر ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنے والے ہوں گے اور کسی کو بھی بلا وجہ اپنے حقوق کے لیے کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ پس

یہ سوچ ہونی چاہیے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے ہیں۔ اور اس کے لیے کسی دوسرے کے پاس نہیں جانا بلکہ ہم نے اگر جانا ہے تو پھر اللہ اور رسول کے پاس جانا ہے،

وہاں دیکھنا ہے ہم نے شریعت کیا حکم دیتی ہے قرآن کیا حکم دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لیے کیا ہے اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں کس طرح واضح فرمایا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم عدالتوں کے دھکے کھاتے پھریں یا اِدھر اُدھر لوگوں کو بتاتے پھریں یا گھروں سے چلے جائیں۔

اب مَیں معاشرے کے ایک اور کمزور طبقے کے بارے میں بات کروں گا جس کااسلام نے بڑی گہرائی سے حق قائم فرمایا ہے اور وہ ہے سوالی اور محروم۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَالۡمَغۡرِبِ وَلٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَالۡمَلٰٓئِکَۃِ وَالۡکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ۚ وَاٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنَ وَابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَالسَّآئِلِیۡنَ وَفِی الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَالصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ (البقرة:178) نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو۔ بلکہ نیکی اسی کی ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور مال دے اس کی محبت رکھتے ہوئے یعنی مالی قربانی کرے اس کی محبت رکھتے ہوئے۔ اقرباکو دے یتیموں کو اور مسکینوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو نیز گردنوں کو آزاد کرانے کی خاطر۔ اور جو نماز قائم کرے اور زکوٰة دے اور وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں جب وہ عہد باندھتے ہیں اور تکلیفوں اور دکھوں کے دوران صبر کرنے والے ہیں اور جنگ کے دوران بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صدق اختیار کیا اور یہی ہیں جو متقی ہیں۔

پس اللہ تعالیٰ نیک اور مومن کی تعریف یہ فرماتا ہے کہ جو اپنے مال سے محبت کے باوجود اسے محروموں اور سائلوں اور مسکینوں پر خرچ کرتے ہیں وہ حقیقی مومن ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تقویٰ پر چلنے والے یہی لوگ ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ (البقرۃ: 274)یہ خرچ ان ضرورتمندوں کی خاطر ہے جو خدا کی راہ میں محصور کر دیے گئے اور وہ زمین میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ایک لاعلم ان کے سوال سے بچنے کی عادت کی وجہ سے انہیں متمول سمجھتا ہے۔ لیکن تو ان کے آثار سے ان کو پہچانتا ہے۔ وہ پیچھے پڑ کرلوگوں سے نہیں مانگتے۔ اور جو کچھ بھی تم مال میں سے خرچ کرو تو اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی مختلف آیات کی تفسیر میں اس نکتہ کو بیان فرمایا ہے کہ سائل اور محروم پر مال خرچ کرنے کی وضاحت کی ہے۔ ایک جگہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’نفلی صدقہ جس کی بناء رحم اور شفقت پر ہے یہ کسی مقدار معین میں فرض نہیں بلکہ ہمسایوں کی ضرورت اور دینے والے کی مالی حالت او راس کے دل کے تقویٰ پر اسے چھوڑا گیا ہے۔ صدقہ کا حکم اس شکل میں اس لیے دیا گیا ہے تا ہر شخص اپنے تقویٰ اور اپنی مالی حالت کے مطابق اسے ادا کرے چونکہ اس کی حکمت تعاون باہمی کی روح کو پیدا کرنا ہے اس لیے یہ خرچ حکومت کی وساطت سے نہیں رکھا گیا بلکہ ہر فرد کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ خود اس قسم کا خرچ کرے۔ اس کا ارشاد قرآن کریم کی اس آیت میں اجمالاً کیا گیا ہے اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ بِالَّیۡلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (البقرۃ:275) یعنی جو لوگ اپنے مال رات اور دن خرچ کرتے ہیں اور پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور ظاہر بھی خرچ کرتے ہیں۔ وہ اپنے اجر اپنے رب کے پاس پائیں گے اور انہیں نہ آئندہ کا خوف لا حق ہو گا نہ سابق کوتاہیوں پر انہیں کوئی گھبراہٹ لاحق ہو گی۔ اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں زکوٰة کا ذکر نہیں جو فرض ہے اور حکومت کو ادا کی جاتی ہے کیونکہ زکوٰة مخفی خرچ نہیں کی جا سکتی پس یہ خرچ نفلی صدقہ کا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور حسب موقعہ کبھی مخفی کرتا ہے کبھی ظاہر ۔مخفی اس لیے تاکہ جس کی امداد کرتا ہے لوگوں میں شرمندہ نہ ہو اور ظاہر اس لیے کہ تا ان لوگوں کو بھی صدقہ کی تحریک ہو جو اس نیکی میں ابھی کمزور ہیں۔‘‘

بعض کمزور ہیں وہ مطالبے نہیں کرتے، پیچھے پڑ کر نہیں مانگتے

جیسا کہ قرآن شریف نے فرمایا کہ خاموشی سے ان کی مدد کی جاتی ہے۔ فرمایا کہ تا ان لوگوں کو بھی صدقہ کی تحریک ہو جو اس نیکی میں ابھی کمزور ہیں ’’ورنہ اسے اپنی ذات کے لئے کسی شہرت کی تمنا نہیں ہوتی ایسے لوگوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ اپنے اس فعل کا بدلہ خدا سے پائیں گے … خرچ کے دو مواقع قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں۔ نمبر ایک ان افرا دپر خرچ کیا جائے جو اپنی ضرورتوں کے لیے مطالبہ کر لیتے ہیں جیسے کہ وہ غرباء جو سوال کر لیتے ہیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اسلام ان پر بھی حسب موقعہ خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ (الذاریات:20) مومنوں کے اموال میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے۔‘‘حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تشریح کرتے ہوئے کہ ’’یاد رہے کہ قرآنی محاورہ میں سائل سے مراد وہ عادی گدا گر نہیں کہ جنہوں نے سوال کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے کیونکہ اسلام سوال کو ناپسند کرتا ہے اور ایسا گداگر اسلامی نظام کی کسی شق میں بھی نہیں آ سکتا کیونکہ قرآن کریم توکّل علی اللہ پر بڑا زور دیتا ہے اور سوال کرنا توکّل کے بالکل برخلاف ہے۔ پھر قرآن کریم انسانی زندگی کو مفید طو رپر خرچ کرنے پر زور دیتا ہے اور عادی سوالی اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اور حضرت عمر ؓتو اس حکم پر عمل کرانے میں اس قدر شدت سے کام لیتے تھے کہ اگر کوئی ایسا سوالی ملتا تو آپؓ اس کی مانگی ہوئی چیزوں کو پھینک دیتے تھے او راسے محنت مزدوری کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ سوالی سے مراد وہ لوگ بھی نہیں جو معذور ہوں اور کما نہ سکیں کیونکہ ان کا بوجھ اسلام نے قوم پر تسلیم کیا ہے اور زکوٰة بھی ان لوگوں کے اخراجات کی متحمل ہے۔‘‘معذور ہیں کام نہیں کر سکتے بوڑھے ہو گئے ان کا خرچ کرنا، ان کا سنبھالنا حکومت کا کام ہے۔ ’’پس جب ہم اسلام کے دوسرے احکامات کو ملا کر دیکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک سوالی وہ ہے جو در حقیقت محنت اور مزدوری سے کام تو لیتا ہے لیکن مثلاً اس کا پیشہ ایسا ہے کہ اس سے کافی آمدن نہیں ہو سکتی یا یہ کہ اس کے عیال زیادہ ہیں ایسے اشخاص میں سے اگر کوئی اپنے دوستوں سے سوال کرے تو گو اسلام نے اسے پسند تو نہیں کیا لیکن اسے منع نہیں کیا کیونکہ پوری محنت کے بعد بھی اگر اسکی ضرورت پوری نہیں ہوتی ہو تو گو اس کا سوال کرنا معیوب ہو مگر اسے حرام یا ممنوع نہیں کہا جا سکتا کیونکہ آخر بھائی بھائیو ں کے بوجھ اٹھاتے ہیں۔

دوسرا مصرف قرآن کریم نے ایسے صدقہ کا محروم لوگوں کا گروہ بتایا ہے‘‘

یعنی وہ لوگ جو محروم ہیں۔ ’’چنانچہ اوپر کی آیت‘‘ یعنی جو پہلے آیت پڑھی تھی الذاریات کی وہ ’’پوری‘‘ آیت ’’اس طرح ہے وَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ (الذاریات:20) یعنی مومنوں کے لیے مالوں میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے اور محروم لوگوں کا بھی یعنی جو باوجود غربت کے سوال نہیں کرتے اور اس طرح ان لوگوں کی توجہ میں نہیں آتے جو گہری نگاہ سے اپنے ہمسایوں کو دیکھنے کے عادی نہیں ہیں۔ان لوگوں کا ذکر قرآن کریم کی ایک اَور آیت میں ان الفاظ میں آیا ہے لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِی الۡاَرۡضِ ۫ یَحۡسَبُہُمُ الۡجَاہِلُ اَغۡنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ۚ تَعۡرِفُہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ لَا یَسۡـَٔلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَافًا ؕ (البقرہ:274)یعنی اے مومنو! جو مال تم خرچ کرو اس میں سے ان بے مایہ لوگوں کو بھی دیا کرو جو دین یا ملت کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور اس شغل کی وجہ سے اِدھر ادھر پھر کر اپنی کمائی میں زیادتی نہیں کر سکتے لیکن باوجود مال کی کمی کے وہ اپنے نفس کو سوال کی دنائت سے بچاتے اور خاموش رہتے ہیں اور اس وجہ سے وہ لوگ جو غور کرنے کے عادی نہیں انہیں خوشحال سمجھ لیتے ہیں حالانکہ تو اگر دیکھے تو ان کو ان کے چہروں سے پہچان لے گا۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔

اس آخری فقرہ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ وہ نرمی سے مانگ لیتے ہیں کیونکہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ وہ سوال کرتے ہی نہیں پس چمٹ کر نہیں مانگتے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنی غربت کو چھپانے کے لئے امرا ء کا سایہ بننے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اس طرح سوال مجسم ہو کر انسان لوگوں سے جو فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سے بھی محروم رہتے ہیں ایسے لوگوں پر خرچ کرنے پر قرآن کریم نے خاص زور دیا ہے۔‘‘یہ ان کا حق ہے اس کو ادا کرو۔ دیکھو غور کرو کون کون غریب ہے۔ تلاش کرو پھر ان کے حق ان کو دو۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھو۔

’’محروم کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ سوال کر ہی نہ سکتے ہوں۔ سو ان معنوں کے روسے اس میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو مثلاً گونگے بہرے ہیں یا پردہ دار عورتیں ہیں یا چھوٹے بچے ہیں یا پھر جانور ہیں کہ زبان ان کو قدرت نے عطا ہی نہیں کی ان سب پر خرچ کرنا بھی صدقہ کی اقسام میں شامل ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد1 صفحہ126تا 128)اور تقویٰ پر چلنے والے یہی لوگ ہیں جو یہ حق ادا کرتے ہیں۔

سوال کرنے والے کو کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حق دیتے تھے،

اس بارے میں روایت ہے: ابو بردہ بن ابی موسیٰ اپنے باپ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب سائل آتا یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ضرورت پیش کی جاتی تو آپؐ لوگوں سے فرماتے تم بھی سفارش کرو تمہیں ثواب ملے گا اور اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جتنی چاہے گا حاجت پوری کر دے گا۔

(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب التحریض علی الصدقۃ والشفاعۃ فیھا حدیث 1432)

صرف سوالی کا حق ہی قائم نہیں فرمایا بلکہ اس کی ضرورت پوری کرنے کی سفارش کرنے والے کو بھی ثواب پہنچنے کی بشارت دی۔ یہ توجہ دلائی کہ تم بھی اس طرف خود توجہ دیا کرو۔ اگر اپنے پاس وسائل نہیں تو جہاں سے تم سمجھتے ہو تمہیں مدد مل سکتی ہے دلوایا کرو اگر اس کا حق ہے۔

عام سوالی اور محروم کی ضرورت کے لیے تو آپ کی یہ نصیحت ہے کہ اس کا حق ادا کرواؤ لیکن ساتھ ہی امّت کے افراد کو محنت کی اور غیرت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ کسی سے نہ مانگو، مانگنا اچھی بات نہیں۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا

اونچا ہاتھ نیچے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ اونچا ہاتھ تو وہی ہے جو خرچ کر رہا ہو اور نیچاہاتھ وہ ہے جو سوال کر رہا ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب لا صدقۃ الا عن ظھر غنی حدیث 1429)

پس سوال کرنے سے بھی آپؐ نے منع فرمایا۔

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مَیں تمہیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو اللہ کے نزدیک سب سے بہتر ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہؐ! آپؐ نے فرمایا جو شخص اپنے گھوڑے کو لیے ہوئے اللہ کی راہ میں جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے یا قتل ہو جائے یعنی جہاد کے لیے نکلتا ہو۔ آپؐ نے پہلے تو یہ فرمایا کہ اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو اللہ کے لیے سب سے بہتر ہے پھر اس کے بارے میں یہ بتایا جو جہاد کے لیے نکلتا ہے پھر فرمایا اب مَیں اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو اس کے قریب ہے، جہاد کرنے والے کے قریب کون ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو شخص لوگوں سے جدا ہو کر ایک گھاٹی میں چلا جائے وہ وہاں نماز قائم کرے اور زکوٰة ادا کرے یعنی خاموشی سے چھپ کے اپنی عبادتیں کرے اور مالی قربانیاں بھی کرے تو خاموشی سے کرے اس کا بھی بڑا اجر ہے اور لوگوں کی برائیوں سے دور رہے۔ بلا وجہ کی مجلسوں میں غلط قسم کی مجلسوں میں غلط قسم کے پروگراموں سے محفوظ رہے۔ آج کل تو بےشمار ایسے پروگرام ہیں جو دن رات ٹی وی پہ اور انٹرنیٹ پہ اور کمپیوٹر پہ آتے رہتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر بعض دفعہ انسان برائیوں میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے بلکہ اکثر دفعہ خاص طور پہ نوجوان ۔ تو فرمایا ان چیزوں سے دُور رہو، عبادتوں کی طرف توجہ کرو، مالی قربانیاں کرو، یہ بھی جہاد کرنے والے کے قریب مقام ملنے والی بات ہے۔ پھر فرمایا مَیں تم کو اس شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو سب سے بدتر ہے۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہؐ!۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ شخص جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ نہ دے۔

(سنن نسائی کتاب الزکاۃ باب من یسال باللہ عزوجل ولا یعطی بہ حدیث 2570)

ایک سوالی آیا، اللہ کے نام پہ سوال کر رہا ہے اگر اس کی حاجت پوری نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے اور جھڑک دیتے ہو تو وہ بدتر انسان ہے۔

ابوولید مکی کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت عمر ؓبیٹھے ہوئے تھے کہ ایک لنگڑا آدمی اونٹنی کو پکڑے ہوئے آیا، وہ بھی لنگڑی ہو گئی تھی اس نے چند اشعار کہے جس میں آپؓ کی تعریف کی گئی تھی۔ آپؓ نے اس پر لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھا۔ کسی قسم کی تعریف تھی بہرحال پھر اسی شخص نے اپنی اونٹنی کے لنگڑا ہونے کی شکایت کی۔ حضرت عمر ؓنے وہ اونٹنی اس سے لے لی اور اس کے بدلے میں ایک سرخ اونٹ پر اس کو سوار کرا دیا، ایک اچھا خوبصورت بڑا مہنگا قیمتی قسم کا اونٹ اس کو دے دیا اور اس کے ساتھ اسے زاد راہ بھی فراہم کر دیا۔ ساتھ سفر کا خرچ بھی دے دیا۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 576دار الکتب العلمیۃ بیروت)

پھر حضرت عمر ؓکے بارے میں ہی ایک اَور روایت ہے۔ حضرت عمر ؓکا گزر ایک ایسے دروازے سے ہوا جہاں ایک بوڑھا سوالی جس کی نظر زائل ہو چکی تھی بھیک مانگ رہا تھا۔آپؓ نے پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ تم کون سے اہل کتاب ہو؟ تو اس نے عرض کیا یہودی ہوں۔ حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے یعنی بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ تو اس نے عرض کیا مَیں جزیہ، حاجت مندی اور بڑھاپے کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔ ایک تو جزیہ دینا پڑتا ہے پھر مجھے ضرورت بھی ہے کام کوئی نہیں، بڑھاپے کی وجہ سے کام کر نہیں سکتا اس لیے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمر ؓنے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے گھر لے گئےاور گھر سے کچھ چیزیں بطور عطیہ اسے عطا کیں۔ ایک سوالی بھکاری ہے جو بھیک مانگ رہا ہے لیکن کیونکہ آپؓ نے دیکھا کہ یہ تو اس کا حق تھا جو اس کو حکومت کی طرف سے ملنا چاہیے تھا تو اس کا حق دلانے کے لیے آپؓ اس کا ہاتھ پکڑ کے لے گئے۔ گھر سے کچھ چیزیں بطور عطیہ کے دیں۔ پھرآپؓ نے بیت المال کے خادم کو بلایا جو بیت المال کا نگران تھا اس کو بلایا اور اس سے کہا کہ اس کا اور اس جیسے دوسرے افراد کا خیال رکھو۔آپؓ نے ذاتی طور پر جو مدد کرنی تھی کر دی پھر آپؓ نے بیت المال سے بھی اس کی مدد کروانے کے لیے ہدایت فرمائی کیونکہ فرمایا کہ یہ بات غیر منصفانہ ہے کہ جوانی میں ہم ان سے جزیہ لے کر کھائیں پھر بڑھاپے میں ان کو بےسہارا چھوڑ دیں۔ اب بوڑھا ہو گیا ہے کام نہیں کر سکتا تو بے سہارا تو نہیں چھوڑنا۔ ان کا حق ہے کہ ان کے خرچے پورے کیے جائیں۔ فرمایا اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ اس میں فقرا سے مراد مسلمان ہیں اور مساکین سے مراد یہ اہل کتاب ہیں۔ آپؓ نے اس سے اور اس جیسے دوسرے افراد کا جزیہ بھی معاف کر دیا۔

(کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف صفحہ 136)

روایات میں آتا ہے عام لوگوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے

حضرت عمر ؓنے اعلان کر رکھا تھا کہ جو مال مانگنا چاہے وہ میرے پاس آئے کیونکہ اللہ نے مجھے ان کے مال کا تقسیم کنندہ اور خزانچی بنایا ہے۔

(المصنف ابن ابی شیبہ جزء 11 صفحہ 323 کتاب السیر باب ما قالوا فیمن یبدأ فی الاعطیۃ حدیث 33440 مکتبۃ الرشد ناشرون الریاض 2004ء)

جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے مانگنے والے سائل کا تھیلا بھی آپؓ نے جانوروں کو ڈلوا دیا، بعض دفعہ ایسے مانگنے والوں کو الٹا دیا کرتے تھے وہ اس لیے کہ اس کو مانگنے کی عادت تھی اور وہ صرف مال جمع کرنا چاہتا تھا۔ تھیلے میں سب کچھ بھرا ہوا تھا کھانے کو آٹا روٹی سب کچھ اور پھر بھی مانگ رہا تھا لیکن عام طور پر سائل اور محروم کو آپ نے ہمیشہ اس کا حق دیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ سائل کو دیکھ کے چڑ جاتے ہیں اور کچھ مولویت کی رگ ہو تو اس کو بجائے کچھ دینے کے سوال کے مسائل سمجھانا شروع کر دیتے ہیں۔‘‘ کہ تمہیں پتہ نہیں کہ مانگنا کتنا جرم ہے کیا ہے کیا نہیں ’’اور اس پر اپنی مولویت کا رعب بٹھا کر بعض اوقات سخت سست بھی کہہ بیٹھتے ہیں۔ افسوس ان لوگوں کو عقل نہیں اور سوچنے کا مادہ نہیں رکھتے جو ایک نیک دل اور سلیم الفطرت انسان کو ملتا ہے۔ اتنا نہیں سوچتے کہ سائل اگر باوجود صحت کے سوال کرتا ہے تو وہ خود گناہ کرتا ہے۔ اس کو کچھ دینے میں تو گناہ لازم نہیں آتا۔‘‘ اگر مانگ رہا ہے اچھا بھلا صحت ہونے کے باوجود کام نہیں کر رہا اور مانگنے کی عادت ہے تو اسکو دو۔ دینے کے بعد سمجھا بھی دو بےشک لیکن دو صحیح اس کو پہلے، تو گناہ اس کا اس پہ ہے لیکن تم اگر کچھ دے دو گے تمہیں تو کوئی گناہ نہیں ہو گا ’’بلکہ حدیث شریف میں لَوْ اَتَاکَ رَاکِبًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی خواہ سائل سوار ہو کر بھی آوے تو بھی کچھ دے دینا چاہئے اور قرآن شریف میں وَ اَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ کا ارشاد آیا ہے کہ سائل کو مت جھڑک۔ اس میں یہ کوئی صراحت نہیں کی گئی کہ فلاں قسم کے سائل کو مت جھڑک اور فلاں قسم کے سائل کو جھڑک۔ پس یاد رکھو کہ سائل کو نہ جھڑکو کیونکہ اس سے ایک قسم کی بداخلاقی کا بیج بویا جاتا ہے۔ اخلاق یہی چاہتا ہے کہ سائل پر جلد ہی ناراض نہ ہو یہ شیطان کی خواہش ہے کہ وہ اس طریق سے تم کو نیکی سے محروم رکھے اور بدی کا وارث بنادے۔

غور کرو کہ ایک نیکی کرنے سے دوسری نیکی پیدا ہوتی ہے اور اسی طرح پر ایک بدی دوسری بدی کا موجب ہو جاتی ہے۔ جیسے ایک چیز دوسری کو جذب کرتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے یہ تجاذب کا مسئلہ ہر فعل میں رکھا ہوا ہے۔‘‘ اس طرح ایک دوسرے کو جذب کرنے کا مسئلہ رکھا ہوا ہے۔ ’’پس جب سائل سے نرمی کے ساتھ پیش آئے گااور اس طرح پر اخلاقی صدقہ دے دے گا تو قبض دور ہو کر دوسری نیکی بھی کر لے گا اور اس کو کچھ دے بھی دے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ75-76)

جو نیکی کرنے کی بعض دفعہ روکیں پیدا ہو جاتی ہیں دل نہیں چاہتا بعض دفعہ شیطان ورغلاتا ہے

اگر ایک نیکی کرو گے توایک نیکی سے دوسری نیکی کی طرف توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام خود کس طرح سائل کے ساتھ سلوک فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ماسٹر احمد حسین صاحب فریدآبادی کی بیوی نے ان کو بتایا کہ ماسٹر صاحب بھی مجھے کبھی کبھی حضور کی باتیں سناتے تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ چٹھی رساں آیا، ڈاکیا ڈاک لے کے آیا اور خط لایا تو حضور کے پاس چائے رکھی تھی اور کسی آدمی نے مانگی۔ لوگ بیٹھے ہوئے تھے، چائے رکھی تھی مانگی۔ حضور نے اس کو آنجلہ بھر کے دے دی یعنی چائے کی پتی پڑی تھی یہ ہندی لفظ ہے آنجلہ کہ چُلّو بھر کے، ایک مٹھی بھر کے دے دی۔ چائے کی پتی اسے دے دی ہوگی۔ تو ڈاکیا نے کہا حضور چائے کی مجھے بھی عادت ہے۔ اس کو دیکھ کر اس کا بھی دل چاہا کہ چائے کی پتی لے جائے۔ حضور نے اس کو بھی دے دی۔ پھر جب چائے کی پتی لے لی تو وہ کہنے لگا حضور دودھ اور میٹھا کہاں سے لوں گا تو آپ نے اس کو ایک روپیہ بھی دیا۔(ماخوذ از سیرت المہدی جلد2صفحہ318)کہ چلو جاکے چائے بنا کے پی لو۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایک اور روایت انہی ماسٹر احمد حسین صاحب کی اہلیہ کے حوالے سے ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ماسٹر صاحب نے سنایا کہ سردی کا موسم تھا ڈاکیا خط لایا اور کہنے لگا کہ حضور مجھے سردی لگی ہے آپ مجھے اپنا کوٹ دے دیں تو حضور اسی وقت اندر گئے اور دو گرم کوٹ لے کر آ گئے۔ کہنے لگے اس میں سے جو پسند ہو لے لو۔ اس نے کہا مجھے دونوں پسند ہیں۔ حضورؑ نے فرمایا اچھا چلو دونوں لے جاؤ۔

(ماخوذ از سیرت المہدی جلد2 صفحہ318-319)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ہی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں جو صفیہ بیگم بنت مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانوی نے بتایا۔ ان کو تحریر لکھ کے بھیجی تھی۔ لکھا کہ ’’ایک دفعہ ایک سوالی دریچے کے نیچے کُرتا مانگتا تھا۔‘‘ حضرت صاحب سے آپ کی قمیض مانگی۔ ’’حضرت صاحب نے اپنا کرتہ اتار کر دریچہ سے فقیر کو دے دیا۔ والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ اللہ اللہ کیسی فیاضی فرما رہے ہیں۔‘‘

(سیرت المہدی جلد2صفحہ311)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بھی روایت بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ چہل قدمی سے واپس آ کر اپنے مکان میں داخل ہو رہے تھے کسی سائل نے دُور سے سوال کیا مگر اس وقت ملنے والوں کی آوازوں میں اس سائل کی آواز گم ہو کر رہ گئی اور حضرت مسیح موعودؑ اندر چلے گئے مگر تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دُور ہو جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز گونج اٹھی تو آپؑ نے باہر آ کر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اسی وقت یہاں سے چلا گیا تھا اس کے بعد آپؑ اندرونِ خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ پر اسی سائل کی پھر آواز آئی اور آپؑ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھ دی اور ساتھ ہی فرمایا کہ

میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اورمَیں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے۔‘‘

(سیرتِ طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 65)

یہ تھے آپؑ کے نمونے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ الذاریات آیت بیس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’مساکین اور ابن السبیل کابھی اللہ تعالیٰ نے حق قرار دیا ہے … کھول کر بھی بتایا ہے وَ فِيْٓ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ (الذاریات:20) کہ انسان کے اموال میں سائل وغیرہ کا بھی حق ہوتاہے۔ مساکین کا حق قرار دینے کی ایک تو یہ وجہ ہے کہ دنیا میں امیر غریب بدلتے رہتے ہیں۔ جو آج غریب ہیں کبھی امیر تھے اور جو آج امیر ہیں کبھی غریب تھے اور اس وقت کے امیروں نے ان سے حسن سلوک کیا تھا۔ پس ساری دنیا کو اگر مجموعی نگاہ سے دیکھا جائے تو کسی کا مال اس کا خالص مال نہیں بلکہ اس میں دوسروں کے حقوق شامل ہیں۔ دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کی سب اشیاء اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے بحیثیت جماعت پیدا کی ہیں نہ کہ زید یا بکر کے لیے ۔پس اگر زید اور بکر کسی وجہ سے زیادہ مالدار ہوگئے ہوں تو اس سے ان باقی لوگوں کا حق باطل نہیں ہوجاتا جو دنیا کی چیزوں کی ملکیت میں زید اور بکر کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔ بےشک بوجہ خاص محنت کے زید یا بکر کا زائد حق اسلام تسلیم کرتاہے لیکن ان کو مالک بلاشرکت غیر نہیں تسلیم کرتا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4صفحہ323)

پھر ایک جگہ ایک آیت کی تشریح میں آپؓ فرماتے ہیں: ’’وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا … اس آیت کے دو معنی ہیں کہ جب تم اقرباء مساکین وغیر ہ سے اعراض کرویعنی ان کی مدد نہ کر سکو۔ توا س بات کی ضرور نیت کرلو کہ جب اللہ تعالیٰ دے گاتوضرور دوں گا اور ساتھ ہی تم ان کویہ بات نرمی سے سمجھا دو کہ توفیق ملنے پر تمہاری ضرورمدد کروں گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں اگراللہ تعالیٰ کے فضل کی امید میں یعنی یہ خیال کرتے ہوئے کہ میرا دینا ان کی دینی یااخلاقی حالت بگاڑ دے گا غرباء کی مددسے اعراض کرے تو تُو ان کو نرمی سے سمجھا دے گویا اعراض ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ ہونا چاہئے نہ کہ بخل کی وجہ سے۔ مثلاً کوئی ہٹا کٹا آدمی سوال کرے اورجس سے سوال کیا جائے وہ اس نیت سے اس کے سوال کو پورا نہ کرے کہ قوم میں سوال کی عادت نہ پیدا ہو جائے تو یہ جائز ہے مگر اس انکار کا باعث بخل اورکنجوسی نہ ہو۔ اسی طرح مثلاً سائل مسرف ہو‘‘ (خرچ کرنے والا ہو) ’’یا نشہ شراب افیون کی بد عادت میں مبتلا ہو اس کی مالی مدد سے اگر یہ اس وجہ سے باز رہتا ہے‘‘ کوئی دینے والا اس کو نہیں دیتا ’’کہ میں نے اس کی امداد کی تو اس کی صحت خراب ہو گی ملک میں بدی ترقی کرے گی اور نہ دینے سے اس کی نشہ کی عادت چھوٹے گی اور ملک کو بھی فائدہ پہنچے گا تو یہ شخص گناہ گار نہ ہوگا بلکہ نیکی کامرتکب۔ حدیث میں آتاہے بعض ایسے سائلوں کے آنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے یا انہیں سمجھادیتے تھے ۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4صفحہ324-325)

پس اصل چیز یہ ہے کہ سائل کا حق، اگر حق بنتا ہے تو اس کو دو لیکن یہ بھی دیکھ لو کہ وہ خرچ صحیح جگہ کر رہا ہے کہ نہیں کر رہا۔

یہ دو طبقوں کے حقوق ہیں جو میں نے آج بیان کیے ہیں۔ جہاں یہ باتیں ہماری علمی حالت بڑھانے والی ہوں وہاں عملی حالت کو بھی بہتر کرنے والی ہوں اور ہم ان حقوق کو ادا کرنے والے بھی بنیں۔

معاشرے کی بنیادی اکائی جو گھر ہے اس کا بھی حق ادا کرنے والے بنیں، میاں بیوی اور بچے جو ہیں اگر ہم ان کا حق ادا کرنے والے بنیں گے تو معاشرہ پُرامن رہے گا اور نہ صرف پُرامن رہے گا بلکہ گھریلو فضا پُرامن رہنے سے ایک مثالی معاشرے کی مثالیں ہم قائم کرنے والے بن جائیں گے۔

دنیا جو ہے وہ اپنے دنیاوی قانون وضع کرنے کے بجائے جب ہمارے نمونوں کو دیکھے گی تو ان اپنے دنیاوی قانونوں کے متعلق سوچنے کی بجائے اور وضع کرنے کی بجائے اسلام کی تعلیم کو دیکھنے کی کوشش کرے گی۔ اسی طرح معاشرے میں امن قائم کرنے اور آپس میں محبت اور بھائی چارے کو قائم کرنے کے لیے سائل اور محروم کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ دنیا والے اپنے مفادات کے لیے حق قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اسلام بے لوث ہو کر حق قائم کرنے کی تلقین فرماتا ہے۔ پس اس تعلیم کا عملی نمونہ ہی ہمارے لیے اسلام کی تعلیم سے دنیا کو روشناس کروانے اور تبلیغ کے میدان کھولنے کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے کہ ہم اسلامی تعلیم کی عملی مثال قائم کرتے ہوئے اس زمانے کے امام کے مشن کو پورا کرنے میں معاون و مددگار بن سکیں۔

اب ہم دعا کریں گے،

دعا میں بھی اپنے لیے اپنے گھر والوں کے لیے معاشرے کے محروم طبقے کے لیے دعا کریں۔ اسی طرح اسیرانِ راہ مولیٰ کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے جلد سامان پیدا فرمائے۔ دنیا میں بسنے والے سب احمدیوں کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ یہ وبا جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس کے جلد دور ہونے کے لیے دعا کریں۔ مریضوں کے لیے دعا کریں۔ جلسہ پر آئے ہوئے جو لوگ ہیں اللہ تعالیٰ خیریت سے ان کو واپس اپنے گھروں میں لے جائے۔ اپنے لیے بھی دعا کریں دوسروں کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اگلا جلسہ سالانہ ہم مکمل طور پر آزادانہ ماحول میں پرانی رونقوں کے ساتھ دوبارہ منعقد کر سکیں اور اس کے فیض سے سب فیض کی خواہش رکھنے والے فیض پانے والے بھی ہوں۔ دعا کر لیں۔

٭٭دعا٭٭

دعا کے بعد حضورِ انور نے فرمایا:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ حاضری کی رپورٹ پہلے سن لیں۔ اس کے بعد ترانے جلدی سےسنیں گے۔ کُل حاضری اللہ کے فضل سے چھبیس ہزار چھ سوانچاس ہے اور اس میں جو سکین ہوئے ہوئے ہیں مردوں کے گیارہ ہزار آٹھ سو باسٹھ، عورتوں کی طرف سے دس ہزار چھ سو ستاسی اور جو ورکرز وغیرہ ہیں دو ہزار چھ سو۔ جو چھوٹے بچے ہیں پندرہ سو۔ اس طرح یہ کُل تعداد انہوں نے بنائی ہے اور اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترپن (53) ممالک نے لائیو سٹریمنگ کے ذریعہ سے جلسہ یوکے میں شمولیت اختیار کی ہے۔

٭…٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button