متفرق مضامین

رسول اللہﷺکا عشقِ الٰہی اور اندھیری راتوں کی عبادات کا پُرلطف تذکرہ

(عبدالسمیع خان)

’’خدا کی بے پناہ محبت میری زندگی کی بنیاد ہے اور میری سانسوں کا دارومدار اسی پر ہے۔‘‘(حدیث نبوی)

خداتعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے اپنی صورت پر آدم کو پیدا کیا۔ كنت كنزًا مخفيًا فأحببت أن أعرف فخلقت خلقًا فبي عرفوني…خَلَقَ اللّٰهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ۔(کشف الخفاء ومزیل الا لباس اسماعیل بن محمد العجلونی متوفی 1162 ھ جلد2 صفحہ132 حدیث نمبر 2016 مکتبہ القدسی قاہرہ۔ صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب بدء السلام حدیث نمبر 6227)

خداتعالیٰ کی پہچان کا یہ عمل اسلامی اصطلاح میں عبودیت کہلاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آدمِ خاکی کامل تذلل اور خضوع کے ساتھ اپنے رب کے قدموں میں بچھ جائے اور صرف اور صرف اسی کے نقش قبول کرے اور انہیں دنیا پر ظاہر کرے۔ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۔(الذاریات:57)

الوہیت اور عبودیت کے اس درمیانی رشتے کا نام عبادت ہے۔ عبادت وہ سانچہ ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنے رب کے رنگوں میں ڈھلتا ہے۔ عبادت تہذیب ِنفس کا وہ راستہ ہے جس پر چل کر سالک راہ اپنی تمام لذات و مرادات کو خداتعالیٰ کی مرضی کے مطابق بنا کر ایک آئینہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس سے صفات الٰہیہ کا انعکاس ہوتا ہے۔

عبادت ایک ایسا لطیف اور پاکیزہ جذبہ ہے جو محبت اور خوف کے امتزاج سے انسانی دل کی گہرائیوں میں جنم لیتا ہے۔ دماغ کی لہروں پر سفر کرتا ہے۔ زبان پر جاری ہوتا ہے۔ ہونٹوں پر تیرتا ہے۔ آنکھوں سے چھلکتا ہے۔ اور تمام جوارح کو ہمہ وقت متحرک کرکے اپنے رب کے حضور جھکا دیتا ہے۔ عبادت کے اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ عبودیت کی یہ بلند ترین چوٹی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺنے سر کی اور خداتعالیٰ نے صرف آپ کو عبداللہ کے لقب سے یاد فرمایا۔اور یہ عبودیت جب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺکی ذات میں جلوہ گر ہوئی تو کائنات کا سب سے حیرت انگیزانقلاب وقوع پذیر ہوا۔

ذرا اس جوان رعنا کو دیکھو تو سہی اپنے رب سے ملنے کی آرزو اسے سنسان کو ٹھڑیوں اور تاریک غاروں میں لیے جاتی ہے۔ وہ شباب کی امنگوں اور آرزوؤں سے بے نصیب تو نہیں لیکن ایک ان دیکھی قوت نے اسے طرب خیز زندگی سے بے نیاز کرکے اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔

صحرائے عرب کی تاریک رات میں ہو کا عالم طاری ہے اور خانہ کعبہ کے پڑوسی اور وادیٔ بطحا کے مکین رنگ رلیاں منا کر خواب نوشین میں پڑے ہیں مگر مکہ سے کئی میل دور ایک پہاڑی غار میں ایک معصوم اور عابد و زاہد عربی نوجوان عبادت میں مصروف ہے۔(صحیح بخاری باب بدء الوحی حدیث نمبر3)

عشق الٰہی کی آتش سوزاں نے اس کے قلب و جگر میں ایک آگ لگا رکھی ہےوَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى۔ وہ اپنے رب کی تلاش میں سرگرداں ہے اور دیکھو کہ خدائے ذوالعرش ابدی زندگی کا پانی لے کر اس دریتیم کی طرف لپکا ہے اور جبریل امین کی تجلی سے قلب محمد کے اندر زیتون صفت چراغ (جو پہلے ہی جل اٹھنے کو تیار تھا) بھڑک اٹھتاہے اور نور علیٰ نور بن کر ساری کائنات کو یہ مژدہ جانفزا سناتا ہے کہ اب اس کائنات پر کبھی اندھیروں کی حکمرانی نہیں ہوگی۔کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۔(ابراہیم:2)آپؐ کی پرسوز عبادات اور اندھیری راتوں کی دعاؤں نے اپنے خالق کی تلاش کا مرحلہ کامیابی کے ساتھ طے کرلیا ہے۔ آپؐ کی آہوں کے بادل آسمان کی طرف اٹھے اور قرآن کریم کو دوش پر لے کر اس زمین پر اتر آئے ہیں۔

اپنے رب کی تلاش میں اس مقدس سالک کا سفر ختم ہوا تو اس بے کراں ذات کے اندر سفر کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ہے جس کے پہلے قدم پر آپ نے عبادت کو نئے معانی پہنائے ہیں کہ ہر وہ کام جو رضائے مولیٰ کی خاطر کیا جائے وہ عبادت ہے۔ نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا صَدَقَةٌ۔(بخاری کتاب الایمان باب ان الاعمال بالنیۃ والحسبة حدیث نمبر54)

اس لیے اب آپ کو معین عبادت کی خاطر اوقات وقف کرنے اور غاروں میں جانے کی ضرورت نہیں۔ عبادت کی مہک اب آپ کی زندگی کے ہر لمحے میں گھل چکی ہے۔ اپنی ہر حرکت اور سکون کو اپنے مولیٰ کے نام منسوب کردیا ہے۔حضرت عائشہؓ کے بقولیذکر اللّٰہ علی کل احیانہ۔(صحیح بخاری کتاب الحیض باب تقضی الحائض المناسک…)آپ ہر وقت خدا ہی کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور ذکر الٰہی سے آپ کی زبان تررہتی ہے۔ اس کی رضا سے آغاز کرتے ہیں اور اس کی خوشی سے انجام کرتے ہیں۔ جذبہ عشق و خود سپردگی نہایت جامع، فصیح و بلیغ اور دل کو موہ لینے والی بے قرار دعاؤں سے ظاہر ہوتا ہے جو گہری حکمتوں اور فلسفے کی راز داں ہیں۔

آپؐ کو ہر انقلاب میں، رات اور دن کی تبدیلی میں،سورج اورچاند کے گرہن میں اور بہار و خزاں کی آمد میں،ہرتبدیلی میں خدا کی شان نظر آتی ہے۔ اپنے خدا کا خیال آپؐ کے دل و دماغ پر اس طرح مستولی ہے کہ اس سے پل بھر کی جدائی موت ہے۔ کوئی بھی معاملہ ہو اس میں خداتعالیٰ کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، کھاتے پیتے غرضیکہ ہر موقع پر خدا کا نام ضرور لیتے ہیں۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک انسان ہزار ہا کیفیات سے گزرتا ہے مگر کوئی ایک بھی کیفیت نہیں جس کے ظاہر ہونے پر رسول اللہﷺ نے کوئی دعا نہ کی ہو اور اپنے غلاموں کو نہ سکھائی ہو۔ آپؐ خدا نمائی کا سب سے مصفّٰی اور وسیع آئینہ ہیں جن میں غیروں کو بھی خدا ہی نظر آتا ہے جس کی گواہی آپ کے معاصرین عَشِقَ محمد ربہ کہہ کر دیتے ہیں۔(المنقذ من الضلال صفحہ51 امام غزالی۔لاہور 1971ء)

اور ڈاکٹر سپرنگر جیسا متعصب عیسائی بھی یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ’’اس نبی عربی کے خیال میں ہمیشہ خدا کا تصور غالب رہتا تھا۔اس کو نکلتے ہوئے آفتاب اور برستے ہوئے پانی اور اگتی ہوئی روئیدگی میں خدا ہی کا دست قدرت نظر آتا تھا۔ رعد اور طیور کے نغمۂ الٰہی میں خدا ہی کی آواز سنائی دیتی تھی اور سنسان جنگلوں اور پرانے شہروں کے کھنڈروں میں خدا ہی کے قہر کے آثار دکھائی دیتے تھے۔‘‘(بحوالہ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ29)

محبوبِ ازلی کا قرب اور محبت کی تپتی ہوئی لہریں آپ کے سینہ و دل میں اور بھی ہیجان پیدا کرتی ہیں۔ دل محبوب کے قدموں میں جھک کر آنسوؤں کی راہ پگھلنے کی تمنا کرتا ہے تو رب کریم آپ کو آسمانوں کی سیر کراتا ہے۔ اپنا دیدار عطا کرتا اور واپسی پر پانچ نماز وں کا تحفہ عنایت کرتا ہے۔ اور فرماتا ہے کہ ان کا اجر 50 کے برابر ہے۔ (بخاری کتاب الصلوٰة باب کیف فرضت الصلوٰة حدیث نمبر 336 )

یہ نماز غیروں کے لیے فرض مگر محمد عربی ﷺ کے لیے شب معراج کی ایک یادگار آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کی غذا ہے۔ فرمایا: قرۃ عینی فی الصلوٰۃ۔مگر آپ کا دل فرائض سے آگے بڑھ کر نوافل کے ذریعے اپنے رب کا پیار ڈھونڈتا ہے۔ پنجوقتہ نماز کے علاوہ آپ روزانہ کم ازکم 39 رکعتیں سنت اور نوافل ادا کرتے ہیں۔(بحوالہ سیرة النبی شبلی نعمانی جلد دوم صفحہ253)چاشت اور تحیۃ المسجدکی رکعات اس کے علاوہ ہیں۔

زندگی کی ہر کیفیت کو عبادت کے ساتھ باندھ دیا ہے۔خوشی کی خبر سنتے ہیں تو سجدہ شکر بجالاتے ہیں اور اجتماعی مسرت کا دن آئے تو نماز عید ادا کرتے ہیں۔ کسی کی وفات کی خبر ملے تو نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ سفر سے واپس لوٹیں تو پہلے مسجد میں دورکعات اداکرتےہیں۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب حدیث کعب حدیث نمبر 4066)

قحط سالی کا خدشہ ہے تو نماز استسقاء کے لیے کھلے میدانوں کا رخ کرتے ہیں۔لمبی قرا٫ت کرتے ہیں اس نماز میں ہر رکعت میں ایک کی بجائے دو رکوع کرتے ہیں۔ کوئی خاص ضرورت پیش آئے تو نماز حاجت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کسی معاملے میں اپنے رب سے استصواب کرانا ہو تو نمازاستخارہ کے لیے ایستادہ ہو جاتے ہیں۔آسمان پر کوئی نشان ظاہر ہو تو کسوف و خسوف کی اتنی لمبی اور درد بھری نماز ادا کرتے ہیں کہ عام انسان کی برداشت جواب دینے لگتی ہے۔(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب صلوٰة النساء مع الرجال حدیث نمبر 994 )

کوئی بھی مشکل درپیش ہو تو نماز کی نیت کرلیتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰة باب وقت قیام النبی من اللیل حدیث نمبر 1124)کوئی فوت ہو جائے تو نماز جنازہ کی دعا کے ساتھ اسے رخصت کرتے ہیں بعض روایات کے مطابق 70 شہدائے احد کے جنازے الگ الگ پڑھائے۔وفات سے کچھ دن قبل پھر ان کی قبروں پر تشریف لے گئے اور پھر جنازہ پڑھایا یا لمبی دعا کی اور اس کے بعد ایک پرسوز خطبہ دیا۔ ایک دفعہ تازہ قبر دیکھی تو پوچھا یہ کس کی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یہ فلاں عورت کی ہے جو فلاں قبیلہ کی خادمہ تھی۔ یہ آج دوپہر کو فوت ہوگئی تھی جبکہ آپ آرام فرما رہے تھے اس لیے ہم نے آپ کو جگانا پسند نہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نےاس کاجنازہ پڑھایا اور فرمایا جب تم میں سے کوئی میری موجودگی میں فوت ہو جائے تو مجھے ضرور اطلاع دیا کرو کیونکہ میری دعا اس کے لیے رحمت ہے۔(سنن نسائی کتاب الجنائز باب الصلوٰة علی القبر حدیث نمبر1995)

ان تمام امور میں سے کوئی بھی نہ ہو تو محض اپنے رب کی حمدو ثناکی خاطر نوافل ادا کرتے ہیں اور چلتے پھرتے ذکر الٰہی کرتے ہیں۔

یہ معمولات تو زیادہ تر دن کے اوقات سے تعلق رکھتے ہیں شب بیداریاں اور سحر خیزیاں اس پر مستزاد ہیں۔ تمام دن کی بے پناہ مصروفیات، تعلیم و تربیت، دعوت الیٰ اللہ کے تھکا دینے والے فرائض، غیروں کے طعن و تشنیع کے جگر پاش نشتر اور عائلی زندگی کے بوجھ آپ کے وجود کو ماندہ نہیں کرسکتے۔ آپؐ کی روح عبادت کے لیے پگھلتی اور آنکھ آنسو بہاتی اور سینہ میں آگ پیدا کردیتی ہے اور آپ کو تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لیے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے۔ اور آپ کو بے تاب، دیوانہ اور ازخود رفتہ بنا دیتی ہے۔حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓاس کا ذکر یوں کرتے ہیں:

وفینا رسول اللّٰہ یتلو کتابہ

اذا انشق معروف من الفجر ساطع

ارانا الھدی بعد العمی فقلوبنا

بہ موقنات ان ما قال واقع

یبیت یجا فی جنبہ عن فراشہ

اذا استثقلت بالمشرکین المضاجع

(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب فضل من تعار من اللیل حدیث نمبر1087 )

یعنی ہم میں اللہ کا رسول موجود ہے جو ہمیں ایسے وقت میں کتاب اللہ پڑھ کر سناتا ہے جب صبح کو پو پھٹتی ہے۔ اس نے ہمیں راہِ راست دکھائی جبکہ ہم اندھے ہو چکے تھے جس سے ہمارے دل اس یقین سے پُر ہیں کہ اس کا ہر قول پورا ہو کر رہے گا۔ آپؐ رات اس طرح بسر کرتے ہیں کہ بستر پر آرام کی کروٹ نہیں لیتے اور اس وقت مشرکوں کے بستر خواب غفلت سے بوجھل ہوتے ہیں۔

یہ محض شاعرانہ کلام نہیں سچائی کا اظہار ہے۔

سنو! رات کے سناٹے میں بھیانک قبرستان سے اٹھنے والی یہ کربناک آواز اسی کشتۂ تیغ محبت کی ہے۔ذرا قریب ہو کر تو دیکھو آپؐ سجدہ میں پڑے ہیں۔ سینہ ہنڈیا کی طرح ابل رہا ہے اور بار بار فرماتے ہیں سبحانک وبحمدک لاالہ الا انت۔ اشکوں کا ایک سیلاب ہے جو آنکھوں سے بہ رہا ہے۔ آپ کا دل تو ازل سے پاک ہے۔ یہ آنسو تو اس لاثانی انقلاب کا غازہ اور سرمایہ ہیں جو صدیوں کے مردوں کو زندہ کررہا ہے، آنکھوں کے اندھوں کو بینائی بخش رہا ہے اور گونگوں کی زبانوں پر الٰہی معارف جاری کررہا ہے۔

اس سجدہ ریز وجود کے دائیں طرف جو سایہ نظر آرہا ہے یہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓہیں جو رسول اللہﷺ کو بستر پر نہ پاکر گھر سے نکلی ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ میں کس خیال میں تھی اور رسول اللہ کس حال میں ہیں۔(سنن نسائی کتاب عشرة النساء باب الغیرہ حدیث نمبر 3901)

حضرت عائشہؓ سوچتی ہیں کہ آپؐ کی تو ہر بات ہی عجیب ہے۔ ان کی نظروں میں وہ واقعہ لہرا گیا ہے جب رسول اللہﷺنے ان کے بستر میں داخل ہوتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے عائشہ! کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں گی کہ میں یہ رات اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں۔ حضرت عائشہؓ عرض کرتی ہیں یارسول اللہ!مجھے تو آپ کا قرب پسند ہے اور آپ کی خوشنودی مقصود ہے میں آپ کو خوشی سے اجازت دیتی ہوں۔ آپؐ اٹھے، وضو کیا اور نماز پڑھنے لگے۔ قرآن کا کچھ حصہ تلاوت فرمائی اورپھر رونے لگے۔ یہاں تک کہ آپؐ کے آنسو دونوں رخساروں تک بہ آئے۔ پھر آپؐ بیٹھ گئے اور خدا کی حمد و توصیف کرتے ہوئے پھر رونے لگے یہاں تک کہ رات ڈوب گئی۔ صبح نماز کے وقت حضرت بلالؓ رسول اللہﷺ کو جگانے کے لیے آئے تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ عرض کیا گیا یارسول اللہ! کیا آپ کے متعلق اللہ نے یہ خوشخبری نہیں دی کہغفراللّٰہ لک ماتقدم من ذنبک وما تاخر۔فرمایا کیا میں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۔(تفسیر کشاف زیر آیت ان فی خلق السموت والارض)

آپ جس قدر خداتعالیٰ کی بندگی بجا لاتے ہیں اتنی ہی آتش شوق اور تیز ہوتی ہے اور شرمندۂ احسان ہوتے ہیں کہ الٰہی! اس قدر توفیق تیرے فضل سے ملتی ہے۔آپ کی عبادت ایک دور تسلسل کا رنگ رکھتی ہے۔کچھ وقت عبادت میں گزارتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس کام کی توفیق دی اس احسان کا شکر بجالانا ضروری ہے۔ اس جذبۂ شکر سے بے اختیار ہو کر اور عبادت کرتے اور پھر اسے بھی احسان سمجھتے ہیں کہ اس نے شکر بجالانے کی توفیق دی۔ پھر اور بھی شوق کی جلوہ نمائی ہوتی ہے اور اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔کیا عشق ہے کیا محبت ہے۔ خداتعالیٰ کی یاد میں کھڑے ہوتے ہیں تو اپنے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا۔ خون کا دوران نیچے کی طرف شروع ہو جاتا ہے اور آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب قیام النبی اللیل حدیث نمبر 1062)

مگر محبت اس طرف خیال ہی نہیں جانے دیتی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓجیسے مضبوط جوان صحابہ عشق سے بے تاب ہو کر رسول اللہﷺکے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ عالی منزل تو صرف اور صرف محمد رسول اللہﷺ کے لیے ہے کوئی دوسرا اس کی گرد اور پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب طول الصلوٰة فی قیام اللیل حدیث نمبر 1067)

اس مقام سے تو آپؐ اس وقت بھی دست بردار نہ ہوئے تھے جب مکہ کی تمام شیطانی قوتیں اپنے پورے جبرو تشدد کے ساتھ آپؐ کو عبادت سے ہٹانے پر تل گئی تھیں۔آپ کے سر پر خاک ڈالی گئی۔ آپؐ کی راہوں میں کانٹے بچھائے گئے۔ سجدہ کرتے ہوئے آپ کی پشت پر اونٹ کی اوجھڑی پھینکی گئی۔(صحیح بخاری کتاب المناقب باب ذکر مالقی النبی و اصحابہ من المشرکین حدیث نمبر 3565)صحن کعبہ میں آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر گھونٹا گیا۔(صحیح بخاری کتاب المناقب باب ذکر مالقی النبی واصحابہ من المشرکین حدیث نمبر 3567)ابوجہل نے مسجد حرام میں عبادت کرنے پر آپؐ کو کئی دفعہ دھمکیاں دیں۔(تفسیر ابن کثیر سورت العلق جلد4 صفحہ529)مگر آپؐ عبادت الٰہی سے باز نہ آئے تو آپؐ پر مسجد حرام کے دروازے بند کردیے گئے۔لیکن خداتعالیٰ نے ساری زمین آپ کے لیے مسجد بنا دی۔(صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب جعلت لی الارض مسجداً وطھوراً حدیث نمبر 419)

آپؐ نے عبادت کا جھنڈا ہر حال میں سربلند رکھا۔عبادت کے اس بلند پرچم کو سرنگوں کرنے کے لیے اہل مکہ نے پے درپے مدینہ پر چڑھائی کی مگر میدان وغا کی گھمبیر اور خون آشام گھڑیوں میں بھی محمد مصطفیٰﷺ کی آخری فتح اس پرچم کو بلند کرنا تھا۔شامِ احد کو تو دیکھو تمام دن کتنے ہی ہولناک طوفان محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے سروں پر سے گزرتے رہتے ہیں۔ زندگی اور موت کے درمیان گھمسان کے رن میں جسم لہو لہان ہو گئے ہیں۔اور نماز کو کبھی اپنے قیام کے لیے ایسی سخت آزمائش پیش نہیں آئی جیسی آج پیش آئی ہے۔تمام دن کی شدید محنت اور مشقت اور جانکاہی کے سبب جسم تھکاوٹ کے غلبہ سے مٹی ہوئے جاتے ہیں۔کاری زخموں نے الگ آفت ڈھارکھی ہے۔بوٹی بوٹی اذیت میں مبتلا ہے۔رسول اللہ ﷺکے دندان مبارک شہید ہو چکے ہیں چہرہ زخموں سے چور ہے۔ زانوؤں کی کھال چھلی ہوئی ہے مگر شام ہوتی ہے تو محمد مصطفیٰﷺ آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے مسجد نبوی میں آرہے ہیں۔ آپ کے قدم نقاہت سے لڑکھڑا رہے ہیں مگر عبادت کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں آنے دیتے۔(شروع الحرب ترجمہ فتوح العرب صفحہ332 از ممتاز بیگ ذیشان)

آپؐ جنگ خندق کے دوران دشمن کو بددعا دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ مسلمان نمازیں بروقت ادا نہیں کرسکے۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق حدیث نمبر 3802)

حضرت علی ؓکے سوال کرنے پر رسول اللہﷺاپنی زندگی کا خلاصہ یوں بیان فرماتے ہیں:الحب اساسی والشوق مرکبی و ذکراللّٰہ انیسی والحزن رفیقی و العجز فخری والطاعة حسبی وقرة عینی فی الصلوٰة۔(الشفاء جلد اول صفحہ85 عیاض بن موسیٰ۔ عبدالتواب اکیڈمی ملتان)یعنی خدا کی بےپناہ محبت میری زندگی کی بنیاد ہے میرے سانسوں کا دارومدار اسی پر ہے۔ یہ ایک ایسا بےکراں جذبہ ہے جو ہردم مجھے اپنے مولیٰ کی طرف کھینچے لیے جاتا ہے۔ خدا کی یاد ہر دم میرے ساتھ رہتی اور مجھے اس کی یاد میں سکون ملتا ہے۔ اور خدا کے حضور میرے دل کی غمزدہ کیفیات ایک وفادار دوست کی طرح میرے ساتھ رہتی ہیں۔ اور ہر لمحہ میرا دل خدا کے حضور میں گداز رہتا ہے۔ اور اللہ کے حضور اپنی عاجزی اور انکساری اور فروتنی میں ہی میں اپنی بڑائی سمجھتاہوں۔ اور میرے لیے یہی کافی ہے کہ خدا کی کامل اطاعت مجھے حاصل رہے اور میں ہمیشہ اس کی بندگی کرتا رہوں۔اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سرور اور روح کا سکون صرف ان لمحوں میں ملتا ہے جب میں اپنے مولیٰ کے حضور نماز میں کھڑا ہوتا ہوں۔

سطوتِ توحید قائم کرنے والی ان نمازوں کا قرآن کریم کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ قرآن کریم آپؐ کی معتدل طبیعت اور پاک طینت کے موافق ہے۔ فرمایا: اقرأواالْقُرْآن بالحزن فَإِنَّهُ نزل بالحزن۔(فردوس الاخبار جلد اول صفحہ133 حدیث نمبر 312)قرآن کو غم اور درد کے ساتھ پڑھو کیونکہ وہ غم کی گھڑیوں میں اتراہے۔

اس لیے بڑے سوز و گداز کے ساتھ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ خصوصاً رات کے تیرہ و تار لمحات ہوں۔ قرآن ہو اور محمدﷺ کا لحن ہو تو کائنات کی رفتاریں تھم جاتی ہیں۔اور خداتعالیٰ بھی توجہ سے اس کو سنتا اور گواہ بن جاتا ہے وَمَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّمَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّلَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ…۔(یونس:62) اور تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اسی طرح تم (اے مومنو) کوئی (اچھا) عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کو خدا نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ کسی بات کو اتنی توجہ سے نہیں سنتا جتنی توجہ سے اپنے نبی کی آواز سنتا ہے جب وہ بلند خوب صورت آواز سے قرآن کی تلاوت کرتا ہے مَا أَذِنَ اللّٰهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ بِالقُرْآنِ يَجْهَرُ بِهِ۔( صحیح بخاری کتاب التوحید باب الماہر بالقرآن حدیث نمبر 7544 )

بعض اوقات طویل سورتیں ایک ایک رکعت میں پڑھتے ہیں اور بعض دفعہ ساری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزار دیتے ہیں۔(شمائل الترمذی باب فی عبادة رسول اللّٰہﷺ)

تلاوت کا کتنا زندگی بخش اسلوب ہے کہ جب کوئی خوف اور خشیت کی آیت آتی ہے تو خدا سے دعا مانگتے اور پناہ طلب کرتے ہیں۔ اور جب کوئی رحمت اور بشارت کی آیت آتی ہے تو اس کے حصول کے لیے دعا کرتے ہیں۔(ابو داؤد کتاب الصلوٰة باب مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ حدیث نمبر 739)

ایک روز حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے فرماتے ہیں قرآن سناؤ اور پھر قرآن سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے۔(بخاری کتاب التفسیر سورة النساء حدیث نمبر 4216 )

سوتے جاگتے، چلتے پھرتے قرآن کی آیات وردِ زبان ہیں۔ تعلیم القرآن کا ہرسو چرچا ہے۔ایک علمی قرآن ہے جو اوراق میں محفوظ ہے اور ایک عملی قرآن ہے جو ذات نبویﷺ میں محفوظ ہے۔قرآن میں جو چیز قال ہے وہی ذات نبوی میں حال ہے اور جو قرآن میں نقوش و نقاط ہیں وہی ذات نبوی میں سیرت و اعمال ہیں۔

ان شدید جسمانی مشقتوں سے گزرتے ہوئے آپؐ اپنے جسم کا نذرانہ بھی اپنے مولیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ رمضان فرض ہونے سے قبل اہل کتاب کے دستور کے مطابق عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ 2 ھ میں رمضان فرض ہوتا ہے تو گویا دل کی کلی کھل اٹھتی ہے۔ آپؐ نیکیوں اور عبادتوں کا مجسمہ بن جاتے ہیں۔ نماز میں اور زیادہ حسن کے رنگ بھرتے ہیں۔ کبھی تیز ہواؤں کی طرح صدقات تقسیم کررہے ہیں۔کبھی جبریل امین کے ساتھ قرآن کریم کا ورد ہورہا ہے۔جبریل ہر رمضان میں آپؐ کے ساتھ قرآن کا دَور کرتے ہیں او رسرورِکائنات کی زندگی کے آخری سال میںدو بار يہ مقدس کام انجام دیا جاتا ہے۔رمضان کا آخری عشرہ آتا ہے تو راتوں کو زندہ کرتے اور کمر ہمت اَور کس لیتے ہیں۔اعتکاف کرکے خلوت میں اپنے رب کے نام کی مالا جپتے ہیں۔

رمضان تو آپ کی زندگی میں کامیابی کا نشان بن چکا ہے۔ آپؐ کو خداتعالیٰ نے بدر میں پہلی فتح بھی رمضان میں عطا کی تھی اور مکہ کی آخری عظیم الشان فتح بھی رمضان میں دی ہے۔ رمضان کے علاوہ کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھتے ہیں۔ شعبان کا توقریباً پورا مہینہ روزے سے گزارتے ہیں۔ شوال کے چھ روزے رکھتے ہیں۔ ہر ماہ کے آغاز میں تین روزے، مہینہ کے نصف اول میں اکثر روزے اور چاند کی 15,14,13 کو روزہ رکھتے ہیں۔ ہرسوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں اعمال خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں۔ اتفاقی روزے اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الصوم و جامع ترمذی کتاب الصوم)

کوئی بتائے تو سہی کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ذاتی آرام و سکون کا کون سا لمحہ ہے؟ ایک قلیل سی نیند کی طرف توجہ ہوتی ہے تو فرماتے ہیں تنام عینی ولاینام قلبی۔(بخاری کتاب المناقب باب تنام عینہ حدیث نمبر 3569)کہ میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔ وہ تو مسلسل بیدار رہ کر اپنے رب کی عبادت اور شکرگزاری میں مشغول رہتا ہے۔

یہ قلب مطہر 63 انسانیت کی فلاح کے لیے مسلسل دھڑکتا رہا۔ اس پر غفلت کا ایک لمحہ بھی کبھی نہ آیا۔ قرآن کریم نے آپؐ کی حیات مبارکہ کا نقشہ آپ کی اپنی زبان سے کتنے خوبصورت انداز میں کھینچا ہے:اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔(الانعام:163)

مگر ان ساری عبادتوں کو کافی نہ سمجھ کر رسول اللہ ﷺ کشتگان محبت کے ساتھ مکہ آن پہنچے ہیں تسبیح و تہلیل کا غلغلہ ہے۔ توحید اور اللہ اکبر کی صدائیں ہیں۔ رسول اللہﷺ دیوانہ وار حضرتِ احدیت کے گھر کا طواف کرتے ہیں۔ اس کے آستانہ کے پتھر کو بار بار بوسے دیتے ہیں۔ پتھریلے میدانوں میں آبلہ پائی کرتے ہیں۔ آپؐ کی یہ عبادتیں بانجھ اور بے ثمر نہیں ہیں۔ خشک اور بے کیف نہیں۔ آپؐ کی روح کے لیے اطمینان بخش اور سحر آفریں غذائیں ہیں۔ آپؐ کی تمام فتوحات کی کلید یہ عبادتیں ہیں۔

یہی وہ عبادت تھی جس نے وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ وہ کون سی طاقت تھی جس نے بدر کے میدان میں نہتے اور کمزور مسلمانوں کو دشمن کی ایک قوی اور اسلحہ سے لیس فوج پر فتح عطا کی۔ یہ عبادت ہی تو تھی جو مارمیتکی نوید میں ڈھل گئی تھی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ بدر کے میدان میں وہ جنگ جیتی گئی تھی مگر عارف باللہ خوب سمجھتے ہیں کہ وہ جنگ اس خیمے میں جیتی گئی تھی جہاں محمد مصطفیٰ ﷺ سجدہ میں گرے ہوئے تھے اور خدا کو عبادت گزاروں کا واسطہ دے کر فتح کی التجائیں کررہے تھے۔(بخاری کتاب الجہاد باب درع النبی حدیث نمبر 2699)

یہ حیرت انگیز ماجرا کیسے رونما ہوا کہ ایک بے زر، بےزور، بے کس، امی، یتیم، تنہا اور غریب نے براہین قاطعہ اور حجج واضحہ سے سب کی زبان بند کردی۔ اور بڑے بڑے لوگوں کی جو حکیم بنے پھرتے تھے اور فیلسوف کہلاتے تھے فاش غلطیاں نکالیں اور پھر باوجود بے کسی اور غریبی کے زور بھی ایسا دکھایا کہ بادشاہوں کو تختوں سے گرادیا اور انہی تختوں پر غریبوں کو بٹھا دیا۔آپ کی عبودیت کے جلوے فتوحات اور معجزات کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں تو آپ کے اندر تکبر اور غرور اور نخوت پید انہیں کرتے بلکہ بارگاہ الٰہی پر جھکاتے چلے جاتے ہیں۔ خدا آپ کو مکہ کی فتح عطا کرتا ہے تو سرجھکتا جھکتا اونٹ کے کجاوے سے جالگتا ہے۔(سیرت ابن ہشام جلد4 صفحہ48 حدیث نمبر 405 حالات فتح مکہ)

دوسری طرف یہ عبادتیں رحمت بن کر عالمین پر برستی ہیں اور اخلاق حسنہ کے لبادے میں کل کائنات پر محیط ہو جاتی ہیں۔ یہ عبادتیں کبھی جودو سخا بنتی ہیں اور محتاجوں کا دامن بھر دیتی ہیں۔ کبھی عفو میں جلوہ گر ہوتی ہیں اور دشمنوں کو نئی زندگی کا مژدہ سناتی ہیں۔ کبھی حلم و صبر کا لبادہ پہنتی ہیں اور بڑے بڑے سورماؤں کو قدموں میں گراتی ہیں۔ کبھی پدرانہ محبت کے جذبات بن کر آنکھوں سے بہتی ہیں۔ کبھی مسکراہٹوں کی صورت میں مومنوں کی خوشیوں کو دو چند کرتی ہیں۔ کبھی دعا بنتی ہیں اور بارش کی صورت میں برستی ہیں اور کبھی دوا بن کر سکینت اور اطمینان کے سامان لے آتی ہیں۔

دنیٰ فتدلیٰ کا مضمون دونوں کناروں پر حیرت انگیز ہے۔ قوس الوہیت اور قوس انسانیت کا درمیانی وتر بن کر ایک طرف خدا کی کامل بندگی کا حق ادا کررہے ہیں اور دوسری طرف رحمةللعالمین بن کر تمام مخلوق کو فیض یاب کررہے ہیں۔ یہ رحمت کمزوروں، مسکینوں، غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کا سہارا بھی بن رہی ہے اور مالداروں، طاقتوروں، سرداروں اور بادشاہوں پر بھی اس کی عنایات ظاہر ہورہی ہیں۔

یہ صرف عبادت کی طاقت اور اسی کے ثمرات تھے۔ اسی لیے رسول اللہﷺ اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اس پر کاربند رہے۔ آپؐ کی مرض الموت کی شدت کا یہ عالم ہے کہ بار بار غش آتے ہیں۔ اٹھنے سے قاصر ہیں مگر نماز شروع ہوتی ہے تو آپ نماز سے پیچھے رہنا برداشت نہیں کرسکتے اسی وقت دو آدمیوں کے کاندھوں پر سہارا لے کر لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ مسجدمیں پہنچ جاتے ہیں۔(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی حدیث نمبر 4088)

اس شدید بیماری میں آپؐ کا باجماعت نماز کے لیے مسجد میں آنا شریعت کے لحاظ سے ضروری نہیں مگر یہ فتویٰ نہیں یہ تقویٰ ہے۔ یہ عشق کی شریعت ہے، یہ محبت کے احکام ہیں جو کشاں کشاں درمولیٰ پر لیے آتے ہیں۔اور جب مسجد میں آنے سے بالکل معذور ہو جاتے ہیں تو ہاتھ آگے کرکے حجرے کا پردہ اٹھاتے ہیں، صحابہ فجر کی نماز ادا کررہے ہیں۔رسول اللہﷺ اپنی نخل تمنا کو پھولتے پھلتے دیکھ کر مسکراتے ہیں۔یہ آخری مسکراہٹ تھی جو صحابہ نے رسول اللہﷺ کے چہرے پر دیکھی۔(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی حدیث نمبر 4093)

کاشانۂ نبوی میں قیامت کا سماں ہے۔ جسم اقدس نڈھال ہو چکا ہے اور روح کا ساتھ دینے کی ہمت نہیں پاتا۔ واقف حال لوگ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺکی واپسی کا وقت آن پہنچا ہے۔ مگر زندگی کی ان نازک گھڑیوں میں جبکہ جسم اور روح کا رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔ آپؐ اپنے متبعین کو نماز قائم کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب وھل اوصیٰ رسول اللّٰہ حدیث نمبر 2688 )

یہاں تک کہ دم واپسیں آن پہنچا ہے اور فرماتے ہیں: الی الرفیق الاعلیٰ۔اے میرے اللہ ! میرے آسمانی رفیق میں تیری طرف محو پرواز ہوں۔(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی حدیث نمبر 4084)

اے میرے آقا! آپ آسمان سے آئے تھے اور آسمان کی طرف چلے گئے۔ آپ کی جسمانی زندگی پر موت آئی مگر اس کا دست کوتاہ آپ کی روحانی زندگی سے کوسوں دُور ہے۔ آپ نے عبودیت کا حق ادا کردیا۔ آپ کی زندگی کا خمیر عبادت سے اٹھایا گیا تھا۔ آپ کے درخت وجود کا بیج بھی عبادت تھا۔ اس کی جڑیں بھی عبادت میں پیوست تھیں اور آسمانوں سے ہمکلام ہوتی ہوئی بلند شاخوں پر عبادت ہی کے دلفریب اور شیریں ثمرات تھے۔اس کے پھول اور پتے اور ان کی مہک بھی عبادت ہی کا اعلان کرتے تھے۔اور اس شجرہ طیبہ پر بسیرا کرنے والے روحانی پرندے بھی عبادت ہی کے راگ الاپتے رہے اور الاپتے رہیں گے۔ انہی سے اس دنیا کی بھی حقیقی آبادی ہے اور جنت بھی انہی کے دم سے آباد ہوگی۔

آقا! قیامت کے دن حمد کا پرچم آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔(ترمذی کتاب المناقب باب فضل النبی حدیث نمبر 3543)اور تمام انبیاء اور صلحاء اور اہل جنت آپ کے تتبع میں حمدو شکر کے راگ گائیں گے اور ابدالآباد تک گاتے رہیں گے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button