امریکہ (رپورٹس)دورہ امریکہ ستمبر؍اکتوبر 2022ء

کعبۃ اللہ کی تقلید میں مساجد کے قیام کا مقصد اللہ کی عبادت اور مخلوق کی خدمت ہے (مسجد بیت الاکرام کی افتتاحی تقریب سے حضورِ انور کا خطاب)

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مسجد بیت الاکرام کے افتتاح کے موقع پراستقبالیہ تقریب سے بصیرت افروز خطاب

(ڈالاس، امریکہ، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) آج مورخہ 09؍اکتوبر 2022ء اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسجد بیت الاکرام، ڈالاس کے افتتاح کی مناسبت سے جماعت احمدیہ امریکہ کی جانب سے ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس میں متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی معززین نے شرکت کی۔

سٹیج پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب ڈاکٹر Robert Hunt صاحب تشریف فرما تھے جو Southern Methodist یونیورسٹی میں Christian Mission and Interreligious Relations کے پروفیسر ہیں۔ ان سے اگلی نشست پر محترمہ Nicole Collier صاحبہ تھیں جو Texas House of representatives کی رکن ہیں۔ جبکہ ان کے بعد مکرم حامد شیخ صاحب صدر جماعت ڈالاس بیٹھے تھے۔

حضورِانور کی بائیں جانب امریکی کانگرس کے رکن محترم Michael McCaul تھے۔ ان کے بعد مکرم اظہر حنیف صاحب مبلغ انچارج امریکہ بیٹھے تھے۔ اور حضور انور کے بائیں جانب تیسری نشست پر مقامی شہر Allen کی سٹی کونسل کے رکن محترم Carl Clemencich صاحب تھے۔ اس تقریب میں ماڈریٹر کے فرائض مکرم امجد محمود خان صاحب (نیشنل سیکرٹری امورِ خارجیہ امریکہ) نےسر انجام دیے۔

تقریب کا آغاز

مکرم امجد محمود خان صاحب کے مدعو کرنے پر مکرم سیّد لبیب جنود صاحب نے قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیات 126 تا 129 اور سورۃ الاعراف کی آیت 30کی تلاوت سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا جس کے بعد مکرم ابراہیم نعیم صاحب نے ان آیات کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں نیشنل سیکریٹری اُمورِخارجیہ مکرم امجد محمود خان صاحب نے حاضرینِ تقریب کو خوش آمدید کہتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے عقائد کا مختصر تعارف پیش کیا۔ انہوں نے دنیا بھر میں قیامِ امن کے لیے کی جانے والی حضورِانور کی کاوشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ہیومینیٹی فرسٹ کا تعارف بھی پیش کیا اور آخر میں مسجد بیت الاکرام کے مختصر تعارف سے بھی شرکائے تقریب کو آگاہ کیا۔ انہوں نے جماعت احمدیہ کی مساجد میں ہونے والے بعض پروگراموں کا بھی ذکر کیا۔

بعد ازاں ممبر سٹی کونسل، سٹی آف ایلن(Allen)، ٹیکساس Hon.Carl Clemencich نے اس تقریب میں حضور انور کے ساتھ شامل ہونے کو اپنے لیے ایک اعزاز قرار دیا اور کہا کہ آج کی اس خاص تقریب کے انعقاد پر جماعت احمدیہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاشرے میں پیار محبت اور امن قائم کرنے کے لیے جماعت احمدیہ اہم کردار ادا کررہی ہے اور اس کے اراکین معاشرے کے انتہائی فعال رکن بن چکے ہیں۔ اس معاشرے کے لیے جماعت احمدیہ کی خدمات کو ہم بہت ہی تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں اور شکر گزار بھی کہ حضورِانور یہاں تشریف لائے۔ انہون نے جماعت احمدیہ کے موٹو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش کے کہ یہ مسجد تمام لوگوں کے لیے ایک اُمید کی کرن بن جائے اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو قریب لانے میں معاون ثابت ہو۔ انہوں نے آخر میں میئر کی جانب سے حضورِانور کی خدمت میں شہر کی چابی بھی پیش کی۔

پروفیسرکرسچین مشن اینڈ انٹر ریلیجیئس ریلیشنز، سدرن میتھوڈسٹ چرچ مکرم Dr. Robert Huntصاحب نے اپنی تقریر میں تمام حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے اپنے آپ کو اس تقریب میں حضورِانور کی موجودگی میں مدعو کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم حضورِانور کے بصیرت افروز خطاب کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضورِانور مذہبی رواداری کے علمبردار ہیں۔ ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہا جائےاور تمام لوگوں کے لیے امریکہ میں مذہبی آزادی کو برقرار رکھا جائے۔ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ مغربی معاشرے میں زیادہ تر دنیاوی حکومت مذہبی اقدار کو دباتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی حکومتیں مذہبی رواداری کو فروغ دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حضورِانور بھی یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دوسرے کی عزت و تکریم سے نفرتوں کو ختم کیا جائے۔ ایک دوسرے کی مذہبی اقدار کی قدر کی جائے اور ہم سب مل کر امن قائم کرنے کی طرف کرنے والے ہوں۔

یو ایس کانگریس مین فار ٹیکساس 10th ڈسٹرکٹ Hon.Michael McCaul نے اپنی تقریر میں کہا کہ میرے لیے ایک اعزاز ہے کہ مجھے اس تاریخی تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ مجھے حضورِانور کے ساتھ دوسری مرتبہ کسی تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملاہے۔ انہوں نے حاضرینِ تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ ایک ایسی جماعت ہے جس کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ جماعت احمدیہ ہمیشہ امن پیار اور محبت کی فضا کو قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جماعت کی خدمات انتہائی قابل قدر ہیں۔ آج کے تاریخی موقع پر میں آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حضورِانور سے بعض باتوں پر تبادلہ خیال کے بعد میرا یقین ہے کہ ہم جماعت احمدیہ سے بہت سی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے احمدیہ کاکس (امریکن سینٹ) کی جانب سے جاری کردہ ایک ریزولیوشن کی تحریر بھی سامعین کو پڑھ کر سنائی جس میں انہوں نے امام جماعت احمدیہ عالمگیر کو خوش آمدید کہا اور حضورِ انور کی خدمات انسانیت کو سراہا۔ ریزولیوشن میں کہا گیا کہ آپ شدت پسندی کے مخالف ہیں، بنی نوع انسان کی خدمت کرتے ہیں اورحقوق انسانیت قائم کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ حضورِانور کے خطابات میں ہمیشہ انسانی حقوق، خدمتِ انسانیت اور دنیا میں امن قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ انہوں نے لاہور میں ہونے والی ممبرانِ جماعتِ احمدیہ کی شہادتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان شہادتوں کے باوجود حضورِانور شدت پسندی کے خلاف نصائح فرماتے ہیں اور حقیقی اسلامی تعلیم کا پرچار کرتے ہیں۔ بعد ازاں موصوف نے ریزولیوشن حضورِ انور کی خدمت میں پیش کی۔

خطاب حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اس کے بعد حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسٹیج پر رونق افروز ہوئے اور اپنے خطاب کا آغاز تسمیہ سے کرتے ہوئے فرمایا:

معزز مہمانانِ کرام! السلام و علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہٗ!

اللہ تعالیٰ کی بےشمار رحمتیں اور برکتیں  آپ سب پر نازل ہوں۔ آج کی یہ تقریب  جو ہماری مسجد کے افتتاح کے بعد شکرانے کی ایک تقریب ہے اس میں  شرکت کرنے پر مَیں آپ  سب احباب کا شکرگزار ہوں۔  مسجد مسلمانوں کےلیے عبادت کا ایک مقدس مقام ہے اس لحاظ سےآج کی یہ تقریب مسلمانوں کی ایک  مذہبی  تقریب ہے۔ پس آپ سب خواتین و حضرات کا، باوجود اکثریت کے غیرمسلم ہونے کے،  آج کی اس تقریب میں ہماری دعوت پر شریک ہونا آپ لوگوں کی کشادہ دلی اور وسعتِ نظری کی علامت ہے جس کے لیے یقیناً مَیں آپ سب کا شکرگزار ہوں۔  یہ شکرگزاری کا اظہارمحض رسمی طور پر نہیں  ہے  بلکہ  یہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد رسول اللہﷺ کے اس ارشاد کی روشنی میں  ہے کہ جہاں آپؐ نے فرمایا کہ  جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ خداکا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام میں مساجد کے قیام کا اولین مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت کا قیام ہے اس کے ساتھ دوسرامقصد یہ ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی خدمت کے مواقع تلاش کر سکیں اور اسلام کا حقیقی پیغام دنیا تک پہنچا سکیں۔  افسوس! کہ آج اسلام کو شدّت پسندی کے ساتھ جوڑا جاتا ہےاور اسی وجہ سے مَیں سمجھتا ہوں کہ اس شہر میں بھی مسجد کے قیام  پر یہاں کے لوگ کئی طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہوں گے۔ ابتداً مقامی لوگوں نے مسجد کے قیام اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا تھا، پس مَیں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ مسجد آپ کے لیے کسی قسم کی تکلیف کا باعث نہیں ہوگی بلکہ یہ آپ کے معاشرے میں ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کا سبب بنے گی۔  

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم مسجد، بیت اللہ، مسجد الحرام ہے اور کعبة اللہ کے قیام کا مقصد ہی تمام مساجد کے قیام کا مقصد ہے۔ کعبے کے قیام کا مقصد خدا کی عبادت کوقائم کرنا اور خدا کی مخلوق  کو امن وسلامتی کا درس دینا ہی تھا۔  پس خدا کا سچا عابد بندہ وہی ہے جو دوسروں کے لیے امن کا ضامن ہو۔ اسلام کو تفرقہ بازی اور نقصِ امن سے جوڑنا انتہائی بڑی غلطی ہے، اسلام نے تو ہمیشہ امن کےقیام کی کوشش کی ہے۔ اسلام کے ابتدا میں جنگوں کا تصوّر بھی محض دفاعی جنگوں  تک محدود ہے۔ جب قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں  پر مظالم حد سے بڑھ گئے تو قیامِ امن کی خاطر ایک حد تک مدافعانہ جنگوں کی اجازت دی گئی۔

قیامِ امن کے لیے قرآن کریم نے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ  جہاں کہیں بھی تمہارے جذبات انگیخت کیے جارہے ہوں تم اپنا وقار قائم رکھو اور یہی جواب دو کہ ’سلامٌ‘ یعنی تم پرسلامتی ہو اور مومن ایسی صورتِ حال سے اعراض کرتے ہیں۔ اسلام نے خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو صرف ایک مذہب تک محدود نہیں کیا بلکہ رب العالمین  کہہ کر عام ربوبیت قائم فرمائی اور یوں اسلام کے فیض میں سب مخلوقات کو شامل فرمایاہے۔  پس کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ و ہ خدا کی ربوبیت کو محض اسلام تک محدود گمان کرے بلکہ اس ربوبیتِ عامہ میں یہودی، مسیحی، ہندو حتیٰ کہ دہریے غرض سب شامل ہیں۔

اسی لیے جماعت احمدیہ  نہ صرف مساجد قائم کرتی ہے بلکہ عام ہمدردی کے تابع  پسماندہ ممالک میں ہسپتال اور سکول بھی تعمیر کرتی ہے۔ اسی لیے ہم دنیا میں  صاف پانی کی فراہمی کےلیے بھی کوشاں ہیں اور اس کے لیے منصوبے لگا رہے ہیں۔  پھر جہاں کہیں آفات کا نزول ہو وہاں بھی ہم لوگوں کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں۔ یہ سب خدمات بلا تفریق مذہب و ملّت سرانجام دی جاتی ہیں اور ان خدمات کے بجا لانے کا واحد سبب وہ محبت ہے جو ربوبیتِ عامہ کے قرآنی تصوّر نے ہمارے دلوں میں پیدا کی ہے۔ قرآن کریم نے ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی تعلیم  دی ہے۔  یہ عام محبت کا پیغام خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے بعد  حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ذریعے ہمیں عطا فرمایا ہے۔  آپؑ آنحضورﷺ کی اُس عظیم الشان پیش گوئی  کے طفیل  نازل ہوئے  جس میں آنحضرتﷺ نےامتِ مسلمہ  کےلیے کئی سوسال کی بدحالی کے بعد مسیح موعود کے نزول کی خوش خبری دی تھی۔آنحضرتﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اسلام کی نشأة ثانیہ کا آغاز تلوار کے زور سے نہیں ہوگا بلکہ  آنے والامسیح تو مذہبی جنگوں کا خاتمہ کردے گا۔ پس اس پیش گوئی کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اب چونکہ اسلام کے خاتمے کےلیے تلوار اور جنگ وجدل سے کام نہیں لیا جاتا لہٰذا اسلام کی طرف سے بھی ایسی کارروائیاں اب معطّل ہیں۔  سو آپ سب جو اس شہر کے باشندے ہیں آپ سب کو کسی قسم کے خوف اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس مسجد کےقیام  کا مقصد محض امن اور سلامتی کے پیغام کو آپ  سب تک پہنچانا ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہ مسجد صرف محبت اور ہمدردیٔ خلق کا پیغام تمام انسانوں تک پھیلائے گی اور معاشرے کی خدمت کرنا ہماری بنیادی ذمہ داری ہو گی۔ دنیا میں بھی ترقی کرنا خدا تعالیٰ کی اطاعت کرنے کے احکام سے ہی وابستہ ہے۔ جماعت احمدیہ کا پیغام ہے کہ ہم سب کی مشترک ضرورت پائیدار امن کا قیام ہے اور مسجد اس کا بہترین گہوارہ ہے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ اس وقت دنیا ایک بہت بڑی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ دنیا میں ایسی قومیں ہیں جو جنگ پر تلی ہوئی ہیں۔ اب تو ایسے ہتھیار ہیں کہ ایک ہی حملہ بہت نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس حملے کے نتیجے میں جو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اس پر ہماری نسلیں بھی ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی حکومتیں سفارت کاری کے ذریعہ امن کے قیام کی کوششیں کریں اور اس کے لیےتمام مذہبی جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں مذہبی رواداری اور امن کو فروغ دینا ہوگا۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو تباہی سے بچالے۔ جنگ اور خونریزی کے بادل امن و سلامتی سے بدل جائیں۔ میری یہ بھی دعا ہے کہ ہماری یہ مسجد اس شہر میں روشنی کا ایک چراغ بن کر اُبھرےاور اس کی یہ روشنی دنیا کے ماحول کو روشن تر کردے اور یہ مسجد امن، پیار اور محبت کا گہوارہ بنی رہے۔ آخر میں مَیں آپ سب کا اس تقریب میں شامل ہونے پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور معززین کی تقاریر کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

حضورِ انور نے اپنے خطاب کے بعد اجتماعی دعا کروائی۔ بعد ازاں معزز مہمانان کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button