متفرق مضامین

صادق اور امین تھے ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

اللہ تعالیٰ کے بزرگ انبیاء یقیناً صدیق اور امین تھے۔لیکن ہمارے پیارے آقاﷺ کے وجود میں یہ صفات تو سب انبیاء سے بڑھ کر پائی جاتی تھیںیہاں تک کہ عرش کا خدا خود گواہی دیتا ہے

اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں ایک ایساوجود بھیجا جو صادق اور امین کے نام سے جانا و پہچانا گیا۔ صادق ہر اُس شخص کو کہتے ہیں جو سچا ہو،جب کوئی بات کہے تو سچ پر مبنی ہو،راست گو ہو اوراس کاظاہر و باطن پاک وصاف ہو۔ سچی اور کھری بات کرنا اس کا وطیرہ ہو،کہی ہوئی بات حقیقت پر مبنی ہو اور جھوٹ سے دُور ہو۔ نکلےہوئے الفاظ کچھ غلط اور کچھ درست نہ ہوں بلکہ سو فی صد ہی صحیح ہوں۔لیکن صدوق اُس وجود کے لیے بولا جاتا ہے جو ہمیشہ اور ہر لمحہ سچ بولنے والا یعنی بے حد سچااور قول و قرار کا پکا ہو۔امین ہر اس ہستی ا ور و جودکے لیے بولا جاتا ہے جس پر اعتماد اور بھروساکیا جائے۔ وفاداری و دیانتداری اس کا شیوہ ہو اور دوسروں کی ہر قسم کی امانتوں کا نگہبان و محافظ ہو،لیکن خیانت و بد دیانتی اور بے ایمانی سے اس کو نفرت ہو۔امین اس کو بھی کہتے ہیں جواپنے فرائض اور کاموں کو برمحل اور موقع پر کرنے والا، امن و آشتی لانے والا اورجنگ وجدل سےدور رہنے والا ہو۔اللہ تعالیٰ نے امین کا لفظ اپنے انبیاء کے لیے بھی قرآن کریم میں استعمال کیا ہے۔ جیساکہ حضرت یوسف ؑکے بارے میں فرمایا: اِنَّکَ الۡیَوۡمَ لَدَیۡنَا مَکِیۡنٌ اَمِیۡنٌ۔(یوسف:55) (یعنی اے یوسف )یقیناً تُو ہمارے ہاں بہت تمکنت والا اور امین ہے۔اسی طرح اورانبیاء کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں متعدد بار یہ الفاظ پائے جاتے ہیں: اِنِّیۡ لَکُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِیۡنٌ۔یقیناً میں تمہارے لئے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔

اللہ تعالیٰ کے بزرگ انبیاء یقیناً صدیق اور امین تھے۔لیکن ہمارے پیارے آقاﷺ کے وجود میں یہ صفات تو سب انبیاء سے بڑھ کر پائی جاتی تھیں۔یہاں تک کہ عرش کا خدا خود گواہی دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا: مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیۡنٍ۔(التکویر: 22) یعنی بہت واجب الاطاعت اورامین بھی ہے(محمدﷺ)۔ آپؐ اس قدر قدرت وطاقت رکھتے تھے کہ اس امانت کو جس کوآسمان و زمین اورپہاڑوں نے اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔آپؐ نے اس مقدس امانت کو اٹھایا اور پھر اس کا پورا پورا حق بھی ادا کیاِ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود اس کا ذکر اپنے کلام میں فرماتاہے:ـ اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالۡجِبَالِ فَاَبَیۡنَ اَنۡ یَّحۡمِلۡنَہَا وَاَشۡفَقۡنَ مِنۡہَا وَحَمَلَہَا الۡاِنۡسَانُ ؕ(الاحزاب:73) یقیناً ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے جبکہ انسانِ کامل نے اسے اٹھا لیا۔

آنحضرتﷺ کے امین و صدیق ہونے کی گواہی آپ کے اہل وعیال،آپ کے گھرمیں پلنے والےبچوں سمیت ہراُس شخص نے دی جس نے بھی آپؐ کو دیکھا،آپؐ کے ساتھ کسی بھی قسم کا لین دین کیا۔یہاں تک کہ دشمن بھی پکارا کرتے تھے : ’’یہ تو سچوں کا سچا اورصدوق ہے‘‘۔ آپؐ کی صدق بیانی اور امانت داری کا حال سن کر ہی توحضرت خدیجہؓ نے اپنا مال،تجارت کی غرض سے آپؐ کے سپرد کیا اور جب آپؑ کو انتہا درجہ کا صدیق و امین پایا اوراس بات کی گواہی جب آپؓ کے ایک غلام نے دی جو کہ سفر میں آپؐ کےساتھ تھا، تواس سے متأثر ہو کر آنحضورﷺ کو شادی کا پیغام بھجوایا،اور آپؐ سے شادی کی۔شادی کے کئی سال بعد جب آنحضرتﷺپرپہلی وحی الٰہی کا نزول ہوا،تو بھی حضرت خدیجہ ؓنے آپؐ کی بیوی کے طور پر جو آپؐ کو دیکھا تھا،اس پر ان الفاظ میں گواہ بنیں جب آپؓ نے کہا :’’اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی رُسوا نہیں کرے گا۔ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں،راست گوئی اور سچائی سے کام لیتے ہیں۔‘‘ بیوی کے بعد دوستوں سے بےتکلفی ہوتی ہے، جن سے انسان کی باتیں بھی چھپی نہیں رہ سکتیں۔ان دوستوں میں آپؐ کا ایک ایسا دوست تھا، جس کانام بھی ’’صدیق‘‘تھا،جس کو دُنیا نے حضرت ابو بکرصدیقؓ کے نام سے جانا،جن کے ساتھ بچپن سے کھیلتے کودتے ہوئے آپؐ جوان ہوئے تھے۔ جب انہوں نے آپؐ کے دعوے کے بارے میں سنا،تو بغیر دلیل کے ہی آپؐ پر ایمان لے آئےبلکہ دلیل سننے کو بھی نا پسند کیا ہاں یہ ضرورنبی کریمﷺسے پوچھتے اور اصرار کرتے رہے کہ آ پؐ صرف یہی بتادیں کہ کیا آپؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہےیا نہیں؟ آنحضرتﷺ نے وضاحت کرنی چاہی، تو ہر بار آپؓ نے یہی عرض کی کہ مجھے صرف ہاں یا نہ میں بتا دیں۔ اور آنحضورﷺ کے ہاں کہنے پرآپؓ نے عرض کیا :میرے سامنے تو آپؐ کی زندگی گذری ہے،جو شخص دنیاوی معاملات میں بندوں سے سچ بولنے والا ہو آج یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اُس نے خداتعالیٰ پر جھوٹ بولا ہو۔

آپﷺ کا اشد ترین دشمن ابو جہل بھی آپؐ سے مخاطب ہو کر یہی کہا کرتا تھا کہ اے محمدﷺ ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے، ہاں ! ہم اس تعلیم کو جھوٹا سمجھتے ہیں جو تم پیش کرتے ہو۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود کی تنصیب کے لیے قبائل کا باہم اختلاف ہوگیا اور نوبت جنگ و جدال تک پہنچنے لگی۔جب چار پانچ دن تک کوئی حل نظر نہ آیا،تو ان میں سے ایک عقلمند شخص نے مشورہ دیا،جو سب سے بوڑھا اور تجربہ کار تھا اورکہا :جو شخص کل سب سے پہلے بیت اللہ میں آئے گا وہ فیصلہ کر ے گا۔ چنانچہ سب نے یہ تجویز مان لی اور اگلے روز انہوں نے دیکھا کہ سب سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے والے رسول اللہ ﷺتھے۔ چنانچہ جب انہوں نے آپؐ کو دیکھا توبے اختیار خوشی سے پکار اُٹھےھٰذَالْاَمِیْن کہ یہ تو امین ہے۔ چنانچہ جب آپﷺ ان کے پاس پہنچے اور قریش نے حجر اسود کے نصب کرنے کا جھگڑا بتایا۔ تو نبی پاکﷺنے فرمایاکہ میرے پاس ایک کپڑا لاؤ۔ چنانچہ آپؐ کو کپڑا پیش کیا گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا بچھایا اور حجر اسود کو اس چادر پررکھ دیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا:ہر قبیلہ اس چادر کا ایک کونہ پکڑ ےاور مل کر حجر اسود کو اٹھائے۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا۔ یہاں تک کہ حجر اسود مقام مقررہ تک پہنچ گیا۔ توآپﷺ نے حجر اسود کو اپنے ہاتھوں سے اس کی جگہ پر نصب فرما دیا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام۔ حدیث بنیان الکعبۃ … اشارۃ ابی امیۃ بتحکیم اول داخل فکا ن رسو ل اللّٰہ)

ایک اور موقع پر آپؐ کے صدیق ہونے پر دشمن کی گواہی یوں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہیں ابو سفیان نے بتایا کہ جب وہ شام کی طرف ایک تجارتی قافلے کے ساتھ گیا ہوا تھا۔تو ایک دن شاہ روم ہرقل نےہمارے قافلے کے افراد کو بلایاتاکہ آنحضرتﷺکے بارے میں وہ کچھ سوالات پوچھے؟ ان میں سے ایک سوال یہ تھاکہ کیا دعوے سے پہلے تم لوگ آپؐ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے تھےیانہیں؟تو مَیں نے جواباً کہا کہ نہیں۔ اس پر ہرقل نے ابوسفیان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’جب تُو نے میرے اس سوال کا جواب نفی میں دیا، تو مَیں نے سمجھ لیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر تو جھوٹ باندھنے سے باز رہے مگر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے۔‘‘(بخاری، کتاب بد ء الوحی، حدیث نمبر7)

ایک چہرہ شناس یہودی عالم کی گواہی آپﷺکی سچائی کے متعلق اس طرح بیان کی جاتی ہے۔ ’’حضرت عبداللہ بن سلامؓ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے، تو لوگ آپؐ کا استقبال کرنے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے۔ اور یہ صدائیں بلند ہونے لگیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ تشریف لے آئے ہیں۔ عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں کہ مَیں بھی لوگوں کے ساتھ رسول اللہﷺ کو دیکھنے کے لیے آیا۔ جب میری نظر آپؐ کے چہرہ مبارک پرپڑی تو مَیں اس نتیجے پر پہنچا کہ آپؐ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔(ترمذی کتاب صفۃالقیامۃ والرقائق والورع باب نمبر 42)

جنگ کے موقع پر دشمن کے مال پر قبضہ کرنا اوراُس کو استعمال میں لے آنا کامیابی کی دلیل سمجھا جاتا ہے اور دُنیا میں ایسے ہی ہوتا آیاہےاور ہوتا ہے۔لیکن ہمارے پیارے آقاﷺجو کہ امین وصدیق تھے، دوسروں کے مال ومتاع کی حفاظت کرنے اور کروانے کے بھی امین تھے۔آپؐ کا نمونہ یہاں بھی عام دنیا داروں سے مختلف لیکن امانت و صداقت سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔غزوۂ خیبر کے محاصرے کے وقت بھوک اور فاقے کے ایام میں مسلمانوں کی امانت کاایک کڑا امتحان تھااوراسی دوران یہود کے ایک حبشی چرواہے کو اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سوال پیدا ہو اکہ اس کے سپرد یہود کی جوبکریاں ہیں اس کا کیا کیا جائے؟ نبی کریمؐ جو کہ ہر حال میں امانت کی حفاظت کرنےپر معمور تھے۔آپؐ نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ کی قربانی تو قبول کرلی،مگرکیامجال کہ آپؐ کی امانت میں کوئی فرق آیا ہو حالانکہ یہ بکریاں دشمن کے طویل محاصرے میں مسلمانوں کی کئی روزکی خوراک بن سکتی تھیں۔مگرآپؐ نے فرمایا:بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ان کوہانک دو،خداتعالیٰ خودہی ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچادے گا۔ نومسلم غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیں، قلعے والوں نےجب بکریوں کو دیکھاتوان کو اندر داخل کرلیا۔سبحان اللہ! رسول اللہﷺ جنگ میں بھی جہاں سب کچھ جائز سمجھاجاتا ہے۔ کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے اور کرواتے تھے۔(السیرۃ النبویۃلابن ہشام،جلد4 صفحہ 42،ماخوذ اسوۂ انسانِ کامل صفحہ 166،سن اشاعت 2007ء)

ہمارے پیارے آقاﷺ جہاں اپنے عمل سے صدیق اور امین کہلائے،وہاں آپؐ نے اپنی امّت کو بھی اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی۔ایک جگہ فرمایا: امانت دینے والا جب اپنی امانت واپس مانگے تو اس کی امانت واپس لوٹادو۔لیکن اگر کوئی تمہارے ساتھ خیانت کرے تو تم اُس کے ساتھ خیانت سے پیش نہ آؤ۔(سنن ابي داؤد، كِتَابُ الْإِجَارَةِ، باب فِي الرَّجُلِ يَأْخُذُ حَقَّهُ مِنْ تَحْتِ يَدِهِ)

آپؐ نےمسلمان تاجروں کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا: امانت داراور سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔(سنن ترمذي،كتاب البيوع عن،باب مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُمْ)

جھوٹ اور خیانت کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا: یہ توبہت بڑی خیانت ہےکہ تم اپنے بھائی سے کوئی ایسی بات کرو،جسے وہ تو سچ مانے،لیکن تم خود اس سے جھوٹ کہہ رہے ہو۔(سنن ابي داؤد،كِتَاب الْأَدَبِ،باب فِي الْمَعَارِيضِ)

پھر نصیحت کرتے ہوئے ایک اور مقام پر فرمایا:ایک آدمی کے دل میں کفر اور ایمان دونوں اکٹھے نہیں ہو سکتے،اور نہ ہی سچ اور جھوٹ اور نہ ہی خیانت اور امانت جمع ہو سکتے ہیں۔( احاديث صحيحه، الايمان والتوحيد والدين والقدر)

ایک جگہ آپؐ نے ڈراتے ہوئے فرمایا:فریب اور دھوکا بازی والے سال آئیں گے، جس میں سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا،امانت دار کو خائن اور خائن کوامانت دار، کمینہ اوربد خصلت شخص دوسروں کے معاملات حل کرے گا۔(سنن ابن ماجه،كتاب الفتن،بَابُ شِدَّةِ الزَّمَانِ)

جھوٹ سے دُور رہنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نبی پاکﷺ نےارشاد فرمایا: جب کوئی بندہ جھوٹ بولتا ہے،تو فرشتہ ا س کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے، اس سے میلوں دور بھاگتا ہے۔(سنن ترمذي، كتاب البر والصلة،باب مَا جَاءَ فِي الصِّدْقِ وَالْكَذِبِ)

حضرت ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے نزدیک سب سے زیادہ قابل ِنفرت اورنا پسندیدہ بات جھوٹ تھی۔جب کوئی شخص جھوٹ بولتا تو وہ آپؐ کی نظر میں گر جاتا،یہاں تک کہ آپﷺ جان لیتے کہ اُس نے اس قبیح فعل، جھوٹ سے توبہ کر لی ہے۔(سنن ترمذي، كتاب البر والصلة، باب مَا جَاءَ فِي الصِّدْقِ وَالْكَذِبِ)

حضر ت مسیح مو عو د علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت نبی کریمﷺ کے صادق و امین ہونےکےبارے میں فرماتے ہیں:’’اما نت سے مرا د ا نسانِ کا مل کے وہ تما م قو یٰ اور عقل ا ور علم اور دل اور جا ن اور حوا س اور خو ف اور محبت اور عز ت اور و جا ہت اور جمیع نعما ء رو حا نی و جسما نی ہیں۔ جو خداتعالیٰ انسان کا مل کو عطا کر تا ہے…اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی اُ مّی صادق مصدو ق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پا ئی جا تی تھی۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحا نی خزا ئن جلد 5 صفحہ 161تا162)

ایک اور جگہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:’’ہمارے نبیﷺ اظہارِ سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے، جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے۔ اس فخر میں ہمارے نبیﷺ کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں…اور وہ کام،صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی‘‘۔(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خز ائن جلد 20صفحہ 206)

نبی کریمﷺ کو تو اللہ تعالیٰ نےصدیقیت کے ایسے مقام پر سرفراز کیا تھاکہ آپؐ کی اطاعت اور پیروی سے ایک عام شخص بھی صدیق بن سکتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا۔(النساء:70)اور جو بھی اللہ کی اور اِس رسول کی اطاعت کرے،تو یہی وہ لوگ ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے،جن پر اللہ نے انعام کیا ہے (یعنی) نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔ اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپﷺکی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے صادق اور امین بنائے اور ہمیں ہر قسم کی امانتوں کی بھی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button