اداریہ

’’اُسوۂ رسولؐ کے مطابق…ہر احمدی کو بننا چاہئے‘‘

(حافظ محمد ظفر اللہ عاجزؔ)

اس زمانے میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر خدا تعالیٰ کے خوبصورت انعامات میں سے ایک یعنی ایم ٹی اے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمتِ اقدس میں آن لائن یا بالمشافہ حاضر ہونے والے وفود کی ملاقاتیں عالمی نوعیت اختیار کر گئی ہیں۔ ان میں پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات سے پوری دنیا فیض پاتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں اس بات کا مشاہدہ کرنا مشکل نہیں کہ حضورِ انور ہر سوال کے جواب میں نبی اکرمﷺ یا حضورؐ کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک سیرت کے واقعات یا اقوالِ زرّیں سے استنباط فرما کر سوال کرنے والے کی تشفی کا سامان فرماتے ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہمارے لیے اسوہ ہیں۔ مزید برآں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو تو خدا تعالیٰ نے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔

جماعت احمدیہ سارا سال عموماً اور ربیع الاوّل کے مہینہ میں خصوصی طور پر جلسہ ہائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انعقاد کرتی ہے۔ ایم ٹی اے پر اس خوبصورت موضوع کے مختلف پہلوؤں پر پروگرامز نشر کیے جاتے ہیں، اخبارات و رسائل اس پیاری شخصیت کے بارے میں متنوع عناوین پر مضامین شائع کرتے ہیں اور ایک زمانہ وہ بھی تھا جب جلسہ سیرت النبیﷺ کے بعد شرکائے جلسہ درود اور نعتیہ اشعار کا ورد کرتے ہوئے ایک جلوس کی صورت شہر کا چکر لگاتے تاکہ نبی اکرمﷺ کی شان ظاہر ہو، آپؐ کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کر کے لوگوں کو متاثر کیا جائے نیز ان کے دلوں میں اس عالی شان ذاتِ بابرکات کی بے مثال زندگی کی رغبت پیدا کی جائے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دیگر انبیاء کی بجائے نبی اکرمﷺ کی سیرت کا اس قدر بیان کیا جاتا ہے، آپؐ ہی کے نمونے پر چلنے کی اس قدر تلقین کی جاتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو اس پیارے نبی کو اللہ تعالیٰ نے انسانِ کامل اور اس کے طرزِ عمل کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی اَور نبی کی سیرت اور اقوال اس تفصیل اور استناد کے ساتھ محفوظ ہی نہ ہو سکے جتنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ چنانچہ دیگر انبیاء بشمول حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یوسف و دیگر علیہم السلام کی تاریخ جس قدر کہ ضروری تھی قرآنِ عظیم نے محفوظ فرما دی لیکن اس کے علاوہ شاذ ہی کوئی ثقہ کتاب ایسی ملے جس میں ان انبیاء کی پاکیزہ سیرت مفصل مذکور ہو۔ عالی شان نبی حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت عہد نامہ قدیم اور بعض دیگر صحائف سے اخذ کی جاتی ہے، لیکن بنی اسرائیل پر گزرے حالات کے باعث نہ تو وہ مکمل ہے اور نہ اسے مستند کہا جا سکتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی سیرت اناجیلِ مقدّسہ میں بیان کی گئی۔ اس کے مستند ہونے نہ ہونے کا سوال ایک طرف، اس کے نامکمل ہونے کی ایک مثال اس طرح پیش کی جاتی ہے کہ اناجیل کے مطالعہ سے یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ کیا اللہ کا پیارا نبی مسیح ابن مریم علیہ السلام کبھی مسکراتا بھی تھا یا نہیں۔

جبکہ دوسری جانب ہم ہادیٔ کامل و رحمتِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور کریں تو مشرکین گویا اس بات پر طنز کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ تمہارا نبی تو تمہیں بیت الخلاء جانے کے آداب بھی سکھاتا ہے۔ اس پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے خوب جواب دیا کہ کیوں نہیں! بیت الخلا جانے اور اپنے آپ کو پاک صاف رکھنے کے طریق بھی نبی اکرمﷺ نے تفصیل کے ساتھ سکھائے ہیں۔ (مسلم کتاب الطہارۃ باب الاِسْتِطَابَةِ)

لڑکپن میں جب انگریزی پڑھنا شروع کی تو اساتذہ نصیحت کرتے کہ زبان سیکھنے کے لیے اس کے اہلِ زبان کی لکھی کتابیں پڑھو اور بہت بہتر ہو اگر اس میں معمولاتِ زندگی کا تذکرہ زیادہ سے زیادہ ہو کیونکہ جتنی تفصیل سے روزمرہ معاملات کو پڑھو گے اسی قدر زبان کو سمجھنے اور اپنانے میں سہولت رہے گی۔ یہ ایک چھوٹی سے مثال ہے۔ زبان بھی سیکھنی ہو تو ایسی کتاب پڑھنے کی نصیحت کی جاتی ہے جو ہمہ جہت ہو، زیادہ سے زیادہ پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہو تو جب بامقصد اور کامیاب زندگی گزارنے کا سوال ہو بلکہ اپنے خالق و مالک کو پہچاننا، اس کی عبادت کے آداب سیکھنا اور اس کی رضا حاصل کرنا مقصود ہو تو پھر کیوں ایسے کامل و مکمِل کی پیروی نہ کی جائے جو زندگی گزارنے کے تمام چھوٹے بڑے آداب و رموز کے متعلق راہنمائی فرماتا ہو۔

پھر نبی اکرمﷺ کے کامل اسوہ یا نمونہ ہونے کی ایک لاجواب دلیل یہ بھی ہے کہ کفار نے اعتراض کیا کہ خدا نے ایک بشر کو رسول بنا بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر زمین میں فرشتے سکونت پذیر ہوتے تو ضرور فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ یعنی مٹی سے بنے انسان کے لیے مٹی سے بنا انسان ہی حجت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تمام حوائج و ضروریات درپیش تھیں جو ایک عام انسان کو ہوتی ہیں۔ اسی لیے تنگی ہو یا فراخی، امن ہو یا جنگ، خوشی ہو یا غم، دن ہو یا رات، دوستی ہو یا دشمنی، موافقت ہو یا مخالفت ہر حالت میں اس پیارے نبیؐ کا اسوہ ہمارے لیے قابلِ تقلید ٹھہرتا ہے جو ایک کامل انسان تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’سب سے پہلے دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اُسوۂ رسولﷺ کے مطابق دنیا کی زندگی کے سامان کرنے والا ہر احمدی کو بننا چاہئے۔ اگر ہمارے عمل صحیح ہوں گے، ہم اس اسوہ پر چلنے والے ہوں گے تبھی ہم اپنی زندگی کے سامان کے ساتھ ساتھ دنیا والوں کی زندگی کے بھی سامان کر رہے ہوں گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ مارچ 2009ء)۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ربیع الاوّل کے بابرکت موقعے پر شائع کی جانے والی الفضل انٹرنیشنل کی خصوصی اشاعت برائے سیرت النبیﷺ منظرِعام پر لائی جا رہی ہے۔ اس خصوصی اشاعت کے لیے الفضل انٹرنیشنل کے تین شماروں (جلد 29، شمارہ 79 تا 81 04تا 13؍ اکتوبر 2022ء) کو یکجا کیا گیا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ادارے کی اس کاوش کو قبول فرماتے ہوئے اسے افادۂ عام کا موجب بنائے۔ آمین(مدیر)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button