الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 5؍اکتوبر2013ء میں شامل ایک مختصر مضمون میں مکرمہ ڈاکٹر ع۔ب۔الٰہ دین صاحبہ اپنے ماموں محترم حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ آپ حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین صاحب کے پوتے اور محترم علی محمد الٰہ دین صاحب کے فرزند تھے۔ حضرت سیٹھ صاحب خلافتِ ثانیہ کے ابتدائی زمانے میں اسماعیلیہ فرقہ سے احمدیت کی آغوش میں آئے اور پھر ایمان و اخلاص میں جلد جلد ترقی کرتے چلے گئے۔سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے قبول احمدیت سے پہلے ایک رؤیا دیکھی جس کے حوالے سے آپ کے نام اپنے خط میں یوں تحریر فرمایا: ’’مَیں نے خواب میں دیکھا کہ آپ ایک بڑی عمارت میں بیٹھے ہیںجس کے بیچ میں ایک بڑا صحن ہے۔ ایک تخت اس میں بچھا ہے اور آپ اس پر بیٹھے ہوئے ہیں اور مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے خداتعالیٰ کے فضل کی بارش بہ شکل نُور ہورہی ہے اور آپ پر گر رہی ہے۔‘‘

محترم حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب مسکراتے چہرے کے ساتھ حد درجہ منکسرالمزاج تھے۔ آپ نے دنیاوی طور پر پی ایچ ڈی کی اور دینی طور پر قرآن کریم حفظ کیا۔ آپ کا شمار دنیا کے ایک سو(100)نامور ماہرین فلکیات میں ہوتا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ آپ سے بطور خاص سائنسی نشست فرماتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی علمی اور دینی خدمات کو سراہتے ہوئے آپ کو ’’اولوالالباب‘‘ میں شمار فرمایا۔

………٭………٭………٭………

میرے خاندان میں احمدیت کا نفوذ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍ستمبر2013ء میں مکرم محمود احمد ملک صاحب نے ایک مضمون میں اپنے خاندان میں احمدیت کے نفوذ کے بارے میں چند روایات بیان کی ہیں۔

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت ملک غلام فرید صاحب کی سیرت پر جو کتاب ’’مبشرین احمدؑ جلد اوّل‘‘(مؤلفہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب) شائع ہوئی تھی اُس میں حضرت ملک صاحب اپنے برادرنسبتی محترم حکیم شیخ فضل حق بٹالوی صاحب کے ذکرمیں فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک دفعہ اُن کے مکان واقع بٹالہ میں پرانے خطوط میں ایک کارڈ دیکھا جو حضرت مسیح موعودؑ نے حکیم صاحب کے دادا شیخ صوبہ خان صاحب کو تحریر کیا تھا جو بٹالہ کے رئیس اور اُس زمانے میں EAC (ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر) تھے۔ وہ بڑی جائیداد کے مالک تھے جو اُنہی کی پیداکردہ تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا خاندان بھی رئیس تھا اس لیے دونوں خاندانوں کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔ شیخ صوبہ خان صاحب صرف 44 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اُن کے بیٹے محترم شیخ نور احمد صاحب نے 1916ء میں باون سال کی عمر میں وفات پائی جب کاروبار میں ایک بھاری نقصان کا صدمہ وہ برداشت نہ کرسکے اور دل پر اثر پڑگیا۔ وہ حضورؑ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہونے پر 1892ء کے جلسہ سالانہ پر اپنے بیٹے مکرم شیخ فضل حق صاحب کے ہمراہ قادیان حاضر ہوئے تھے۔ دونوں کا نام ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کی فہرست میں موجود ہے۔ انہوں نے باقاعدہ بیعت نہیں کی تھی لیکن کبھی احمدیت کی مخالفت بھی نہیں کی۔ البتہ محترم شیخ فضل حق صاحب نے خلافت اولیٰ میں حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب کی تبلیغ سے بیعت کرلی اور اُن کے زیراثر پھر اُن کے بھائی محترم شیخ ظفرالحق صاحب (ڈپٹی کمشنر) اور چاروں ہمشیرگان نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ محترم شیخ فضل حق صاحب بٹالوی مضمون نگار کے نانا تھے۔

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ کے حوالے سے ’’اصحاب احمدؑ‘‘ (جلدسوم) میں رقم ہے کہ محترم شیخ فضل حق صاحب کے قبول احمدیت پر اُن کے والد محترم شیخ نُور احمد صاحب نے کبھی بُرا نہیں منایا تھا۔ لیکن جب اُن کے والد کی وفات ہوئی تو شیخ فضل حق صاحب نے اُن کا جنازہ نہیں پڑھا۔ اس پر عندالملاقات حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اُن کو فرمایا کہ آپ کو اپنے والد کا جنازہ پڑھ لینا چاہیے تھا کیونکہ اُن کا بقیہ سارا خاندان احمدی ہے اور وہ ان احمدی افراد میں گھلے ملے رہتے تھے اور ان سے الگ نہیں تھے۔

حضرت ملک غلام فرید صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ نواب بیگم صاحبہ (ہمشیرہ شیخ فضل حق صاحب) کی وفات پر اپنے مضمون میں تحریر کیا کہ یہ بٹالہ کے ایک نہایت معزز خاندان کی خاتون تھیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے عہد میں سارا خاندان احمدی ہوا۔ ان کے والد (محترم شیخ نور احمد صاحب) کے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بھی بڑے تعلقات تھے اور اُن کو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ساتھ بھی ایک تعلق خصوصی تھا۔ حضرت اماں جانؓ جب قادیان سے بٹالہ تشریف لے جاتیں تو ان کے مکان میں ٹھہرتی تھیں۔ شیخ فضل حق صاحب کئی مجالس مشاورت میں بھی شریک ہوتے رہے۔

………٭………٭………٭………

محترم منشی علم الدین صاحب شہید کوٹلی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اکتوبر2013ء میں شامل ایک مختصر مضمون میں مکرم عطاءالاسلام صاحب نے اپنے دادا محترم منشی علم الدین صاحب عرائض نویس کا ذکرخیر کیا ہے۔ شہید مرحوم کا تذکرہ قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 20؍دسمبر 1996ء اور 24؍جنوری 2020ء کے الفضل ڈائجسٹ میں بھی کیا جاچکا ہے۔

محترم منشی علم الدین صاحب کے والد کا نام پیر بخش تھا جو اہل حدیث فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ منشی صاحب کی پیدائش کا معین علم نہیں ہے مگر غالب گمان ہے کہ آپ 1890ء کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دو بھائی اَور تھے جن میں سے مکرم کرم دین صاحب نے حضرت چودھری محبوب عالم صاحبؓ کی تبلیغ سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کی تھی، اُس کے بعد مکرم الف دین صاحب احمدی ہوئے اور آخر میں محترم منشی علم الدین شہید نے 1934ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔

محترم منشی صاحب 1959ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ جلسہ سالانہ ربوہ میں بہت التزام سے شامل ہوتے لیکن آخری عمر میں جب صحت کی کمزوری کے باعث نہ جاسکتے تو جلسہ پر جانے والوں کو بہت محبت سے روانہ کرتے۔ آپ ایک فرشتہ سیرت انسان تھے۔ کبھی کسی کو تکلیف نہ دیتے اور اگر کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو سخت تکلیف محسوس کرتے۔ نمازوں کے بہت پابند اور تہجدگزار تھے۔ ایک بار اپنے بیٹے کو تحریر کیا کہ معلوم ہوا ہے کہ تم نمازوں میں سستی کررہے ہو، یہ بات میرے لیے ناقابل برداشت ہےکہ میری اولاد بےنماز ہو۔

نرم طبع ہونے کی وجہ سے آپ عموماً بچوں کو سزا دینے سے اعراض کیا کرتے تھے۔ اگر بہت ضروری ہوجاتا تو باریک سی چھڑی سے ہلکا ہلکا مارتے اور ساتھ ساتھ استغفراللہ کہتے جاتے۔ اس ’سزا‘ کے بعد دودھ جلیبیاں بھی ملا کرتی تھیں۔

واقفین زندگی کی بہت عزت کرتے۔ پیشے کے اعتبار سے عرائض نویس تھے۔ ضلع کچہری کوٹلی (کشمیر) میں بیٹھتے تھے۔ بہت اصول پسند اور صاف گو انسان تھے اس لیے کسی غیراخلاقی (رشوت ستانی وغیرہ کے) معاملات سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی کوئی شخص آپ سے کوئی غلط تحریر لکھواسکتا تھا۔ اگر کوئی غریب آجاتا تو اُس کا کام مفت کردیتے بلکہ اس کے علاوہ بھی جو بن پڑتا وہ بھی مدد کرتے۔ دعوت الی اللہ کا بھی انوکھا انداز تھا۔ اگر کوئی پڑھالکھا شخص آجاتا تو اُس کو کام کے عوض کوئی جماعتی کتاب یا رسالہ پڑھ کر سنانے کو کہتے۔

محترم منشی صاحب کی عادت تھی کہ صبح جلدی کچہری پہنچ جاتے اور کام مکمل کرکے جلد واپس تشریف لے آتے۔ 17؍اگست 1979ء کی صبح نو بجے جب آپ گھر سے نکلے تو گلی میں ہی بدبخت قاتل استرا لیے کھڑا تھا۔ اُس نے آپ پر پے در پے وار کیے اور گردن پر بہت گہرا زخم لگایا۔ آپ گھر کے سامنے ہی گر گئے اور خون بہت زیادہ بہ جانے کی وجہ سے موقع پر شہید ہوگئے۔ آپ کو قتل کرنے کے بعد قاتل (جو خود ایک وکیل تھا) مرزائی کو مارنے کے نعرے لگاتا ہوا فرار ہوگیا۔ چونکہ اُس نے منصوبہ بندی پہلے سے کی ہوئی تھی اس لیے عدالت میں اُس نے خود کو پاگل ظاہر کرکے بری کروالیا۔ لیکن خداتعالیٰ نے اُس کو واقعی پاگل کردیا۔ پھر وہ منشی صاحب کے رشتہ داروں کی دکانوں کے آگے گھنٹوں ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا اور معافی مانگتا۔ اُس کی حالت دیکھ کر اُس کے والد نے اُس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا اور بالآخراُس نے زہر کھاکر خودکُشی کرلی۔

اللہ تعالیٰ نے محترم منشی علم الدین صاحب کو چار بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ اس کے علاوہ کچھ اولاد کم سنی میں بھی فوت ہوئی۔

………٭………٭………٭………

لینن گراڈ (سینٹ پیٹرز برگ)روس

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ستمبر2013ء میں روس کے ایک اہم تاریخی شہر لینن گراڈ کے بارے میں ایک مختصر مضمون شائع ہوا ہے۔

1689ء میں پیٹراعظم جب روس کا حکمران بنا تو اُس نے روس کو جدید ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے ایک بہت بڑی بندرگاہ بناکر روسی بحریہ کو مضبوط تر کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ خلیج فِن لینڈ پر دریائے نیوا کے دہانے پر ایک شہر ’’سینٹ پیٹرزبرگ‘‘ کا سنگ بنیاد 1703ء میں رکھا گیا اور 1712ء میں یہ شہر روس کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ ہوا۔ اس کی تعمیر میں روس کے علاوہ اٹلی اور جرمنی کے ماہرین تعمیرات کا بھی اہم حصہ ہے۔ یہ شہر ادب و فنون کا بہت بڑا مرکز بنا اور اس پر مغربی تہذیب کا گہرا اثر پڑا۔ 1725ء میں پیٹراعظم کی موت کے بعد بھی شہر کی تعمیر جاری رہی۔ چونکہ اس علاقے میں پتھر نہیں تھے اس لیے شہر میں داخل ہونے والی ہر سواری یا گاڑی میں کم از کم تین پتھر، ہر کشتی میں دس پتھر اور ہر بحری جہاز میں تیس پتھر لدے ہوتے تھے۔

یہاں کے سرمائی محل (Winter Palace) میں سینٹ پیٹرز برگ کی مکمل تاریخ جمع کی گئی ہے۔ یہ محل 1711ء میں بنایا گیا تھا۔ اس کی تین منزلوں میں ڈیڑھ ہزار کمرے ہیں۔ نچلی منزل ملازمین کے لیے مخصوص تھی۔ دوسری منزل پر سرکاری دفاتر تھے اور تیسری منزل پر بیڈرومز اور درباریوں کے رہنے کی جگہ تھی۔1837ء میں آتش زدگی سے اس محل کو نقصان پہنچا تو اس کی دوبارہ مرمت کی گئی۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران سینٹ پیٹرزبرگ کا نام تبدیل کرکے پیٹروگراڈ رکھ دیا گیا اور 1924ء میں روسی انقلاب کے قائد لینن کے انتقال کے بعد اُس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اس کا نام لینن گراڈ رکھ دیا گیا۔ لینن گراڈ ایک اچھی بندرگاہ بھی ہے مگر سردیوں میں پانی جم جانے کی وجہ سے یہ بندرگاہ ناقابل استعمال ہوجاتی ہے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 23؍مئی 2014ء میں مکرمہ امۃالباری ناصر صاحبہ کی ’’شہیدان احمدیت‘‘ کے حوالے سے کہی جانے والی ایک نظم شاملِ اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

راہِ حق کی مشکلیں رحمت کے ساماں ہو گئیں

آنسو آہیں اور کراہیں نذرِ جاناں ہو گئیں

جان و مال و آبرو اولاد کی قربانیاں

پیارے آقا کی دعاؤں سے سب آساں ہو گئیں

خود خدا نے لے لیا اپنی پناہوں میں ہمیں

خوں نہائی ساری خوشیاں درد و درماں ہو گئیں

کیسے کیسے ہیرے خاک و خون میں نہلا دیے

قیمتی انسانی جانیں کیسی ارزاں ہو گئیں

’’کیوں غضب بھڑکا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو‘‘

ناری شیطاں کی ادائیں خُوئے انساں ہو گئیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button