متفرق مضامین

تاریخی دستاویزات بابت میموریل برائے رخصت جمعہ (قسط اوّل)

(ابو حمدانؔ)

(حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی للہ عنہ بنام وائسرائے ہند برموقع تقریب تاجپوشی شہنشاہ جارج پنجم)

اگرچہ متفرق اخبارات اور مضامین میں اس بابت اظہار ہوتا رہا البتہ ایک منظم طور پر باضابطہ شکل میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے اور بعد ازاں حکومت کو میموریل لکھ کر کارروائی کا سہرا خلافت احمدیہ کے ہی سر جاتا ہے

برصغیر میں ایک لمبے عرصہ تک ہفتہ وار جمعہ کی چھٹی رائج تھی جو کہ انگریز حکومت کی آمد کے ساتھ اتوار سے تبدیل کرلی گئی۔ اس بات کا بھرپوراحساس رکھتے ہوئے کہ مسلمانوں کے لیے جمعة المبارک کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہےاور عبادات و دیگر اہم امور کی ادائیگی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خود بھی اس کے لیے کافی کوشش کی بلکہ جنوری 1896ء میں ایک اشتہار طبع کرواکر مسلمانوں کو اس بات کی تلقین بھی کی کہ وائسرائے کو جمعہ کی رخصت کی بحالی کے لیے بھیجے جانے والے میموریل پر سب لوگ دستخط بھی کریں تاکہ برصغیر میں 8 سو سال سے جاری یہ رخصت بحال کی جاسکے جو کہ اس وقت تک ریاست پٹیالہ میں جاری ہے۔ رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود کا کام دراصل اسلام اور اسلامی شعار کی حفاظت کرنا تھا۔اسلام کے قلعہ کے گرد جو گردوغبار اکٹھی ہونے لگ گئی تھی اس کا ازالہ کرنا تھا۔ حضرت اقدس مرزا غلام احمدؑ قادیانی کی سیرت وسوانح پر نظر دوڑائیں تو اس بطل جلیل کی ساری زندگی ہی اسلام کے دفاع اور مسلمانوں کی اصلاح میں صرف دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ توہین رسالت کے سدباب کے لیے ایک منظم کوشش کرنا اور حکومت وقت سے اس پر بھرپور کارروائی کرنے کا مطالبہ کرنا بھی حضور کی انہی کوششوں میں سے ایک ہے۔ پھر مسلمانوں کے لیے نماز جمعہ کی ادائیگی میں درپیش مسائل کے حل کے لیے بھی اسی جری اللہ نے کوشش کر کے حکومت کو ایک میموریل روانہ کیا۔ بدقسمتی سے ان دونوں کوششوں کو محمد حسین بٹالوی ودیگر علماء نے اپنی کمزوری، بد نیتی اور بے انتظامی کی وجہ سے زائل کردیا نتیجةً دونوں امور ہی وقتی طور پر رک گئے۔

چنانچہ حضور علیہ السلام اسی بابت اپنے ایک اشتہار میں فرماتےہیں کہ …’’آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے پہلے اس سے محض ہمدردی دین اسلام کی نیت سے گورنمنٹ میں ایک عرضداشت مسلمانوں کی طرف سے بھیجنے کی تجویز کی تھی او ر یہ چاہا تھا کہ جو مخالفوں کی طرف سے تحقیر اور توہین ہمارے سید و مولیٰ خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰﷺ کی ہو رہی ہے اور ناخداترس مخالف انواع اقسام کی بیجا تہمتیں اور بے اصل بہتان اس سیّدالمعصومین پر لگارہے ہیں اور سبّ و شتم اور سخت زبانی کو انتہا ء تک پہنچا دیا ہے، اس کے روکنے کے لئے کوئی احسن انتظام ہو جائے چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے یہ کوشش کی کہ غیر تمند مسلمان اس عرضد اشت پر دستخط کریں اور اس قانون کو پاس کرانا چاہیں…مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ہمارے اشتہارات کے شائع ہونے کے ساتھ ہی ایک اشتہار شائع کردیا کہ میں اس کا م کو بہت جلدی انجام دے دوں گا اور نہ صرف اسی قدر بلکہ گورنمنٹ سے اس کام کو منظور بھی کرادوں گا کیونکہ میرا گورنمنٹ میں نہایت درجہ رسوخ ہے اور درخواست کی کہ تم اس کام سے بکلی کنارہ کش ہو کر یہ کام میرے سپرد کردو پھر دیکھو کہ کیسی کامیابی میرے ہاتھ سے ہوتی ہے۔سو میں نے مولوی صاحب موصوف کی اس تحریر کو پڑھ کر خیا ل کیا کہ جس حالت میں انہوں نے یہ وعدہ کر لیا ہے کہ وہ اس قانون کو پاس کراسکتے ہیں اور بڑے زور سے وعدہ کیا ہے کہ کامیابی کی بڑی امید ہے تو بہتر ہے کہ ان کی درخواست کے موافق ہم اس کام سے کنارہ کش ہو جائیں اور ان کی شرط کے موافق اپنا اور اپنی جماعت کا قدم بیچ سے نکال دیں۔چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور 31؍ اکتوبر 1895ء کو اپنے استعفاء اور کنارہ کشی کا اشتہار شائع کردیا … حاصل کلام یہ کہ اس طرح پر مولوی صاحب موصوف نے ہماری اس کارروائی کو برباد کیا۔لوگ اس انتظار میں ہوں گے کہ مولوی صاحب کچھ کام کر رہے ہیں۔مگر مولوی صاحب کا مطلب صرف دین کو نقصان پہنچانا تھا اور ہمارے کام میں حرج ڈالنا تھا۔ان کو ہماری کتابوں کے تلف کرنے کی کیوں فکر پڑ گئی اور مخالفوں کی وہ کروڑہا کتابیں ان کو بھول گئیں جو گالیوں اور بہتانوں سے بھری ہوئی ہیں۔یہ تو ظاہر تھا کہ قانون پاس ہونے سے ایسے لوگوں کی کتابیں خود ردّی ہو جائیں گی جو خلاف واقعہ باتوں پر مشتمل ہونگی اور ان کی اشاعت ایک جرم میں داخل ہوگی۔انہیں اغراض کے لئے تو قانون کی حاجت تھی۔غرض مولوی محمد حسین صاحب کی حقیقت معلوم ہوگئی۔ان سے یہ کام ہونا ممکن نہیں اگر ان میں ایک ذرہ اسلام کی خیر خواہی باقی ہے تو چاہئے کہ اپنا استعفا اسی طرح شائع کریں جس طرح ہم نے شائع کیا تھا اور خدا تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی چاہیں جو ناحق فضول گوئی سے چلتے کام کور وک دیا اور ہم یہ وعدہ نہیں کرتے کہ ضرور قانون کو پاس کرادیں گے۔یہ امر تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے،لیکن ہم مولوی صاحب کی طرح فارغ نہیں بیٹھیں گے اور جہاں تک بشری طاقت ہے اس کام کے لئے کوشش کریں گے۔

اب اے بھائیوایک دوسرا کام ہے جو میں شروع کرنا چاہتا ہوں …وہ مقصد یہ ہے کہ جب سے اس ملک ہند میں اسلامی سلطنت نے اپنی بنیاد ڈالی تب سے جمعہ کی تعطیل صدہا برسوں سے اس ملک میں جاری رہی۔چنانچہ اس کے آثار باقیہ میں سے یہ بات ہے کہ اب تک بعض ریاستوں میں باوجود ہندو ہونے کے جمعہ کی تعطیل ریاست کے دفتروں اور عدالتوں میں رہی ہے اور چونکہ گورنمنٹ عالیہ نے اتوار کی تعطیل کو مقرر کر کے عیسائیوں اور ہندوؤں کو وہ حق دے دیا ہے جو ایک مذہبی دن کے متعلق ان کو ملنا چاہئے تھا تو پھر مسلمان بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ اس مہربان گورنمنٹ سے اپنے حق کا بھی ادب اور انکسار کے ساتھ مطالبہ کریں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 96-100)الغرض آپؑ نے یہ میموریل بھجوانے کا اہتمام کیا۔ آپ ؑ اپنے اشتہار میں اسی بابت فرماتے ہیں کہ ’’…بڑی جماعت کی تحریک سے یہ میموریل ارسال حضور کیا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ توجہ سے اس پر غور کی جائے خاص کر میرے لئے جو ہمیشہ اس سعی میں ہوں کہ مسلمان لوگ گورنمنٹ کے ساتھ سچے اخلاص میں ترقی کریں۔ اس تعطیل سے ایک دستاویز ملتی ہے اور گورنمنٹ کی عنایات ثابت کرنے کے لئے اور نئے دلائل حاصل ہوتے ہیں اس لئے میں اس عرض کے لئے جرأت کرتا ہوں کہ اس عرضداشت پر ضرور توجہ فرمائی جائے اور اس کو ایک معمولی عرضی سمجھ کر ٹال نہ دیا جائے اور نہ یہ تصور کیا جائے کہ صرف ایک شخص کی یہ درخواست ہے کیونکہ جیساکہ میں عرض کر چکا ہوں یہ ایک شخص کی درخواست نہیں بلکہ ایک لاکھ معزز مسلمانوں کی درخواست ہے اور چونکہ وہ لوگ مجھ سے بیعت اور مریدی کا تعلق رکھتے ہیں اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ان کے نام لکھے جائیں اور میں ان سب کی طرف سے بطور ایڈووکیٹ ہو کر امید بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ عرضداشت روانہ کرتا ہوں اور دعا پر ختم کرتا ہوں۔ ‘‘(ریویوآف ریلیجنز جلد نمبر1 نمبر12/1902ء)

اس سے پیشتر یہ تجویز کئی دفعہ مسلمانوں نے سوچی تو ضرور البتہ اس گمان سے کہ کافر حکومت سے ایسے بھلے کی کیا امید،کارروائی سے دستکش ہوگئے تھے۔ حضرت اقدسؑ نے علماء کو اس بابت خصوصاً توجہ دلائی کہ خداتعالیٰ کبھی کبھار دین کو فاسقوں کے ذریعہ بھی مدد فراہم کردیتا ہے کیا پتا اس میموریل کا فائدہ ہی ہوجاوے۔چنانچہ اس دفعہ آپ ؑ نے خود اس کا اہتمام فرمایا۔

معاندین کی رکاوٹ

یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک نیک کام کی ابتداحضرت اقدسؑ خود کریں اور علماء اور دیگرمعاندین اس میں کھٹائی ڈالے بغیر رہ سکیں۔ چنانچہ بعض معاندین علماء و اخبارات نے بھی حضور انور کی اس مساعی کو زیر کرنے کی کوشش کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیک کام کے لیے سب مل کر یکجان ہوکر کوشش کرتے اور حضور کی اس کوشش کو بڑھاتے مگر بد نیت علماء نے اس موقع پر بھی دھڑا بندی کو فروغ دیا اور از بس کوشش کی کہ کہیں اس نیک کام کا سہرا مرزا صاحب کے نام نہ ہوجاوے۔ جہلم سے نکلنے والے سراج الاخبار نے جہاں ایک طرف اس بات کا اشارہ دیا کہ مرزا صاحب کی اس تحریک کے نتیجہ میں حکومت کم از کم مسلمانوں کو 2 گھنٹے کی رخصت تو دے ہی دے گی وہیں دارالحرب اور دارالاسلام والی بحث (کہ اگر یہ حکومت دارالحرب کے زمرہ میں آتی ہے تو جمعہ کی فرضیت نہیں ہوتی) چھیڑتے ہوئے حضرت اقدسؑ کی اس کاوش کو مشتبہ بھی قرار دینے کی کوشش کی اور لکھا کہ یہ سب کچھ برٹش حکومت کی شاباش لینے کے لیے کیا جارہا ہے۔ الغرض نہ خود یہ مبارک کام کرنے کی جسارت تھی نہ کسی اور فکر مند کو اس کی تحریک کرتے ہوئے دیکھنا گوارا تھا۔

(سراج الاخبار 20 جنوری 1896ءمطبع جہلم/ Selections from the vernacular newspapers published in the Punjab,1896 ,Pg58; Published by Punjab Government Press)

مزید برآں جناب مولوی محمد حسین بٹالوی کی غفلت اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے اس کارخیر میں مزید روک بن گئی اوریہ کام پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ پایا۔ بٹالوی صاحب نے اپنے اخبار اشاعة السنة میں حضرت اقدسؑ اور آپ کی مسلمانوں کے لیے اس بے لوث کاوش کی بابت لکھا کہ ’’چونکہ وہ درپردہ دشمن اسلام ہےاوردہریہ ہے اور موجودہ ہیئت اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتاہےلہذا کچھ بعید نہیں کہ یہ درخواست اس نے اسی غرض سے تجویز کی ہو کہ یہ درخواست گورنمنٹ سے نامنظور ہو تو موجودہ حالت(افسران بالادست کی خاص اجازت) بھی جاتی رہے اور جمعہ جماعت کا بکھیڑا دور ہوتا نظر آوے۔‘‘(اشاعة السنة جلد16نمبر12صفحہ 273/تاریخ احمدیت جلد 1صفحہ566-567)ان سب کے باوجود بھی کہ ایسے نیک کام کے ساتھ معاندین حضور کا نام دیکھنا پسند نہ کررہے تھے اور کہتے تھے کہ یہ کام تو اچھا ہے لیکن مرزا صاحب کے ہاتھ سے یہ کام نہیں ہونا چاہیے، ہم خود اس کو سرانجام دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو کسی قسم کی پذیرائی اور سہرا لینے کے لیے یہ نہ کررہے تھے بلکہ درد تھا تو صرف یہ کہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے اس فریضہ کی ادائیگی میں آسانی مہیا کی جاسکے۔ چنانچہ آپؑ نے فرمایا کہ ہمیں تو کوئی نام و نمود کا شوق نہیں ہے۔ آپ خود کر لیں۔ اور پھر آپ نے کارروائی بند کر دی۔ لیکن پھر نہ مولوی محمد حسین صاحب کو، نہ کسی دوسرے مسلمان عالم کو یہ توفیق ہوئی کہ اس پر کارروائی ہو اور وہ کارروائی آگے نہیں چلی۔ (ماخوذ از ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ، رخصت برائے نمازِ جمعہ صفحہ 42-43)چنانچہ وقتی طور پر ان تخریبی کارروائیوں سے یہ تحریک دب تو گئی البتہ حضرت خلیفة المسیح الاول ؓکے دور خلافت میں 1911ء میں حضور انور کے ذریعہ ہی اس تحریک کا دوبارہ احیاہوا اور کامیابی نصیب ہوئی۔ اور یوں سلسلہ احمدیہ کے ہاتھوں ہی ایک دفعہ پھر امت مسلمہ کے اس اہم مسئلہ کا حل نکلا۔ اس میموریل کی ضرورت اور اہمیت تو کافی عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی البتہ کون اس نیک کام کی ابتداکرے یہ ایک معمہ تھا۔چنانچہ اکثر ہندوستانی اخبارات نے بھی اس مسئلہ کا ذکرکیا۔بریلی سے نکلنے والے یونین گزٹ نے مسلمانوں کی اسی مشکل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ حکام کو چاہیےکہ اپنے مسلمان ملازمین کو جمعہ کی نماز کے لیے آدھ گھنٹے کی رخصت دے دیا کریں۔

اگرچہ متفرق اخبارات اور مضامین میں اس بابت اظہار ہوتا رہا البتہ ایک منظم طور پر باضابطہ شکل میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے اور بعد ازاں حکومت کو میموریل لکھ کر کارروائی کا سہرا خلافت احمدیہ کے ہی سر جاتا ہے کہ جس نے نہ صرف اس مسئلہ پر خاطرخواہ اقدامات کیے بلکہ مسلمانوں کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچانے کے لیے تمام مسلمانوں کی جانب سے اس میموریل کو جاری کیا اور مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ کے فورم کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مسئلہ کو اجاگر کیا تاکہ حکومت وقت کے سامنے تمام مسلمان ایک بھرپور طاقت اور اکائی کی شکل میں ابھریں اور اس مسئلہ کا خاطر خواہ حل نکل سکے۔

حضور ؓکی جانب سے وائسرائے کو بھجوایا جانے والا میموریل 4صفحات پر مشتمل اور انگریزی میں ہے۔ جس کے چربہ جات منسلک ہیں۔ آئندہ قساط میں مسلم لیگ کی دستاویزات میں سے ہم حضور ؓکا مسلمان طبقوں کو لکھا جانے والا خط اور اس کی مزید تفصیل کے ساتھ ساتھ اس میموریل پر مختلف مکاتب فکر کی طرف سے آنے والے ردعمل کی بابت جان سکیں گے۔

(جاری ہے)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی جانب سےوائسرائے ہند کے نام بھجوائے جانے والے خط کی نقل

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button