متفرق مضامین

جو تجھ سے ہو سکے تو خلق کی خدمت گزاری کر

(م۔ ا۔ شہزاد)

خدمت خلق کے واقعات

صبح دروازہ پر دستک ہوئی میں نے جا کر دروازہ کھولا تو حضورؒ کا باورچی دودھ لے کر کھڑا تھا…حضورؒ کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرنا بہت ہی بڑی بات ہے اور خدا تعالیٰ اس کو بہت پسند کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اس سے اپنی ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص کا خادم کسی اس کے دوست کے پاس جاوے اور وہ شخص اس کی خبر بھی نہ لے تو کیا وہ آقا جس کا کہ وہ خادم ہے اس اپنے دوست سے خوش ہوگا؟ کبھی نہیں۔ حالانکہ اس کو تو کوئی تکلیف اس نے نہیں دی، مگر نہیں۔ اس نوکر کی خدمت اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک گویا مالک کے ساتھ حُسنِ سلوک ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھی اس طرح پر اس بات کی چڑ ہے کہ کوئی اس کی مخلوق سے سردمہری برتے کیونکہ اس کو اپنی مخلوق بہت پیاری ہے۔ پس جو شخص خدا تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے وہ گویا اپنے خدا کو راضی کرتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ215-216)

ابن آدم تم نےمیری عیادت نہیں کی مجھےکھانا نہیں کھلایا پانی نہیں پلایا

حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ عزوجل قیامت کے روز فرمائے گا اے ابن آدم ! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ بندہ کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو ساری دنیا کا پروردگار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کیا تجھے پتہ نہیں چلا کہ میر افلاں بندہ بیمار تھا تو تونے اس کی عیادت نہیں کی تھی۔ کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس پاتے۔اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تو تو نے مجھے کھانا نہیں دیا۔ اس پر ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب ! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تو تو رب العالمین ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا تو تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تم اسے کھانا کھلاتے تو تم میرے حضور اس کا اجر پاتے۔اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا مگرتو نے مجھے پانی نہیں پلایا تھا۔ ابن آدم کہے گا۔ اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو ہی سارے جہانوں کا رب ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا۔ مگر تم نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تم اس کو پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے حضور پاتے۔(مسلم کتاب البر والصلة باب فضل عیادة المریض)

نابینا حافظ نے اپنی روٹی کتیا کے بچوں کو دے دی

مکرم ایڈیٹر صاحب الحکم نے حضرت معین الدین صاحب کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ جس مکان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رہتے تھے، پہلے یہ نہایت خستہ حالت میں ایک کھنڈر سا پڑا ہوا تھا۔اُس کے ایک حصہ میں ایک مرتبہ ایک کتیا نے بچے دیے ہوئے تھے اور بارش کے ایام تھے۔میں نے ایک دن دیکھاکہ حافظ صاحب گرتے پڑتے نہایت تکلیف سے اُدھر کو جارہے ہیں میں نے پوچھا کہ حافظ صاحب کدھر کو جا رہے ہو، تو جواب میں اپنی عادت کے موافق پہلے یہ پوچھا، کون شیخ صاحب ہیں؟ پھر السلام علیکم کے بعد کہا کہ بھائی ایک کتی نے بچے دیے ہوئے ہیں، میرے پاس روٹی پڑی ہوئی تھی، میں نے کہاکہ جھڑی کے دن ہیں اُس کوہی ڈال دوں۔مجھ کو شرم دلوانے کے لیے یہ الفاظ کافی سے زیادہ اثر رکھتے تھے۔ نابینا آدمی ہیں، راستہ خراب ہے،کیچڑ ہے، بچوں والی کتی ہے جو بچوں کی حفاظت کے جذبہ سے دیوانہ سی ہوتی ہے، مگر یہ مرد ِخدا اُ س کے بچوں کی بھلائی کے جذبہ سے متحرک ہوکر اپنی روٹی اُس کودینے کے لیے جارہا ہے۔ (الحکم 21؍فروری1923ءصفحہ7)

نیکی ضائع نہیں جاتی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ایک نیکی سے دوسری نیکی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد آیا تذکرة الاولیاءمیں مَیں نے پڑھا تھا کہ ایک آتش پرست بڈھا نوے برس کی عمر کا تھا۔ اتفاقاً بارش کی جھڑی جو لگ گئی تو وہ اس جھڑی میں کوٹھے پر چڑیوں کے لئے دانے ڈال رہا تھا۔ کسی بزرگ نے پاس سے کہا کہ ارے بڈھے تو کیا کرتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ بھائی چھ سات روز متواتر بارش ہوتی رہی ہے۔ چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں۔ اس نے کہا کہ تو عبث یہ حرکت کرتا ہے۔ تو کافر ہے۔ تجھے اجر کہاں۔ بوڑھے نے جواب دیا۔ مجھے اس کا اجر ضرور ملے گا۔ بزرگ صاحب فرماتے ہیں کہ میں حج کو گیا تو دور سے دیکھتا ہوں کہ وہی بڈھا طواف کر رہا ہے۔ اس کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور جب میں آگے بڑھا تو پہلے وہی بولا کیا میرے دانے ڈالنا ضائع گیا۔ یا ان کا عوض ملا؟

اب خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کی نیکی کا اجر بھی ضائع نہیں کیا۔ تو کیا مسلمان کی نیکی کا اجر ضائع کر دے گا؟ مجھے ایک صحابی کا ذکر یاد آیا۔ کہ اس نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نے اپنے کفر کے زمانہ میں بہت سے صدقات کئے ہیں کیا ان کا اجر مجھے ملے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہی صدقات تو تیرے اسلام کا موجب ہو گئے ہیں۔(ملفوظات جلد اول صفحہ46-47 و جلد سوم صفحہ93)

جو خدا نے دیا ہےاس میں سے دو

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے جسے ہم بھی بچپن میں بہت خوشی سے سنا کرتے تھے۔ قصہ یہ تھا کہ کوئی لکڑ ہارا تھا جو بادشاہ کے باورچی خانہ کےلئے لکڑیاں لایا کرتا تھا۔ایک دن جب وہ لکڑیاں لے کر آیا تو کھانے کو بگھار لگایا جارہا تھا۔ اُس کااِس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور باورچی سے کہنے لگا،کیا اِس کھانے میں سے مجھے کچھ دے سکتے ہو؟ اُس نے کہا، یہ بڑا قیمتی کھانا ہے تمہیں کس طرح دیا جاسکتا ہے۔کہتے تھے اشرفیوں کا بگھار لگاتے تھے،یہ معلوم نہیں کس طرح لگاتے تھے۔ لکڑ ہارے نے پوچھا،یہ کتنا قیمتی ہے؟ اُسے بتایا گیا کہ تمہاری چھ ماہ کی لکڑیوں کی قیمت کے مساوی ہے،اِس پر وہ لکڑیاں ڈالنے لگا۔ پہلے روزانہ ایک بوجھ لایا کرتا تھا پھر دولانے لگا۔ ایک بوجھ کھانے کی قیمت میں دیتااور ایک بوجھ کی قیمت سے گزارہ چلاتا۔ آخر چھ ماہ کے بعد اُسے وہ کھانا دیا گیا۔ جب وہ اُسے لے کر گھر گیاتو کسی فقیر نے اُس کے دروازہ پر جا کر کھانا مانگا۔لکڑہارے کی بیوی نے کہا، یہی کھانا اُسے دیدو کیونکہ ہم تو چھ ماہ لکڑیاں ڈال کر یہ پھر بھی لے سکتے ہیں لیکن یہ اِس طرح بھی نہیں لے سکتا۔لکڑ ہارے نے وہ کھانا فقیر کو دے دیا۔ اِسی طرح ہمایوں کو جس سقہ نے دریا میں ڈوبتے ہوئے بچایا تھا اُسے جب کہا گیا کہ جو کچھ چاہو مانگو تو اُس نے چار پہر کےلئے بادشاہت مانگی،یہ تھی ایک سقہ کے دل کی خواہش۔ تو خداتعالیٰ دلوں کو پڑھتا ہے فلسفی کو اِن باتوں کی کیا خبر ہو سکتی ہے۔ پس دلوں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلام نے یہ حکم دیا کہ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (بقرة:4)کہ جو کچھ خدانے دیا ہو اُ س میں سے خرچ کرو۔ روپیہ ہی صدقہ میں نہیں دینا چاہئے، کبھی اچھا کپڑا بھی دو۔اچھا کھانا بھی دو۔ بلکہ جو کچھ تمہیں دیا جائے، اُس میں سے بانٹتے رہو۔ (انوار العلوم جلد 11صفحہ583،582)

قمیص اتار کر دے دی

ایک واقعہ ہے ایک احمدی حضرت نور محمد صاحب کا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ اور آپ کے پاس نہ کوٹ تھا نہ کمبل۔ صرف اوپر نیچے دو قمیصیں پہن رکھی تھیں کہ گاڑی میں سوار تھے۔ ایک معذور بوڑھا ننگے بدن کانپتا ہوا نظر آیا۔اسی وقت اپنی ایک قمیص اتار کر اسے پہنادی۔ایک سکھ دوست بھی ساتھ سفر کر رہاتھا وہ یہ دیکھ کر کہنے لگا’’بھائیاجی ہُن تہاڈاتے بیڑا پار ہوجائے گا، آپاں داپتہ نئیں کی بنے؟۔‘‘پھر چند دن بعد یوں ہوا کہ یہی نور محمد صاحب ایک نیا کمبل اوڑھ کر بیت الذکر مغلپورہ میں نماز فجر کے لئے آئے تو دیکھا کہ فتح دین نامی ایک شخص جو کسی وقت بہت امیر تھا بیماری اور افلاس کے مارے ہوئے سردی سے کانپ رہے تھے۔تو نور محمد صاحب نے فوراً اپنا نیا کمبل اتارا اور اسے اوڑھا دیا۔(روح پرور یادیں صفحہ687)

ایک پیالہ دودھ۔آٹھ پینے والے

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں:حضرت ابوہریرہ ؓ ہمیشہ مسجد میں رہتے تھے تا رسول کریم ﷺ جب بھی کوئی بات کریں وہ اُس کے سننے سے محروم نہ رہیں۔چونکہ آپؓ کوئی کمائی نہیں کرتے تھے اس لئے کچھ دیر تو اُن کا بھائی کھا نا پہنچاتا رہا لیکن جب اُس نے دیکھاکہ اب تو ملاں ہی بن گیا ہے کوئی کام نہیں کرتا تو اُس نے کھانا دینا بند کر دیا۔ اِس وجہ سے بعض دفعہ آپؓ کو کئی کئی وقت کا فاقہ ہو جاتا اور بھوک کی وجہ سے آپ کی بری حالت ہو جاتی تھی۔ ایک دن جب آپ کو شدت کی بھوک لگی ہوئی تھی، آپ مسجد کی ایک کھڑکی میںکھڑ ے ہو گئے اور خیال کیا کہ راستہ سے جو صحابی گزرے گا اُس سے میں اُس آیت کا مطلب پوچھوں گا جس میں غریبوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے،شاید اُسے میرا خیا ل آجائے اور مجھے کھانا کھلا دے۔اتفاقاً سب سے پہلے حضرت ابو بکرؓ گزرے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓنے آپؓ سے پوچھا، قرآ ن کریم میں جو یہ آیت ہے وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ ( سورۃحشر) اس کاکیا مطلب ہے ؟ حضرت ابو بکر ؓنے فرمایا،اِس کا یہی مطلب ہے کہ وہ دوسروں کابہت خیال رکھتے ہیں اور خود بھوکے رہتے ہیں اور اپنا کھانا دوسروں کودے دیتے ہیں۔آپؓ نے یہ جواب دیا او ر چلے گئے۔

پھر حضرت عمرؓگزرے، حضرت ابو ہریرہؓ نے اُن سے بھی یہی سوال کیا۔اُنہوں نے بھی وہی جواب دیا جو ابو بکرؓ نے دیا تھااور پھر آگے چلے گئے۔حضرت ابو ہریرہ غصّہ میں آگئے اور کہنے لگے،یہ کوئی مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو خیال کیاتھاکہ شاید میری شکل دیکھ کر اُنہیں میرا خیال آجائے اور کھا نا کھلادیں گے مگر یہ معنے بتاتے ہوئے آگے چلے جاتے ہیں۔وہ غصّہ میں کھڑے ہی تھے کہ پیچھے سے ایک پیار کی آواز آئی، ابوہریر ہ تم بھوکے ہو؟ یہ رسول کریم ﷺ کی آواز تھی۔گویا ابوبکرؓ اورعمرؓ ابو ہریرہ کا چہرہ دیکھ کر بھی نہ پہچان سکے کہ وہ بھوکے ہیں اور رسول کریم ﷺ نے صرف اُن کی آواز سے پہچان لیاکہ وہ بھوکے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ پیچھے مڑے اور اُنہوں نے عر ض کیا،ہاں یا رسول اللہ سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا،ابو ہریرہ ہم بھی بھوکے تھے مگر ایک دوست نے دودھ کاایک پیالہ بھیج دیا ہے،آؤ ہم وہ دودھ پیئیں۔ حضرت ابو ہریرہ بہت خوش ہوئے اورآپ کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ آپؐ نے فرما یا،ابو ہریرہ مسجد میں جاؤ اور دیکھو شاید کچھ اَور لوگ بھی بھوکے ہوں اور اگر ایسا ہو تو اُن کو بھی ساتھ لے آؤ۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں،مجھے یہ سن کر سخت افسوس ہوا کہ ایک پیالہ بھر دودھ ہے، اُسے بھلا کون کون پئے گا لیکن چونکہ رسول کریم ﷺ کا حکم تھا اس لئے میں چلا گیا۔میں نے دیکھا تو مسجد میں میر ے جیسے چھ آدمی اور تھے اُن کوبھی میں نے ساتھ لیا اور چل پڑا۔مجھے رہ رہ کر افسوس ہو رہاتھا کہ اب کیا بنے گا،میں نے خیال کیا تھا کہ ایک پیالہ دودھ کا ہے میں خوب پیٹ بھرکر پی لوںگامگر اب تو چھ اَور بھی حاجتمند مل گئے ہیں،دو دو گھونٹ ہی حصّہ میں آئیں گے۔ خیر ہم آپ کے پاس چلے گئے مگر میں نے خیال کیا کہ میں چونکہ بہت بھوکا ہوںاس لئے رسول کریم ﷺ شاید مجھے پہلے پیالہ دیں گے، مگر آپ ﷺنے پیالہ اُٹھایا اور اُن چھ میں سے ایک کو دے دیا۔جس سے میری رہی سہی اُمید بھی جاتی رہی۔ جب وہ آدمی پی چکا تو آپ ﷺنے فرمایا، کیا پیٹ بھر گیا ہے ؟اَور پیو۔اُس نے پھر پیا اور کہا،حضور! اب تو پیٹ بھر گیا ہے میں اور نہیں پی سکتا۔رسول کریمﷺ نے وہ پیالہ اُس سے لے کر دوسرے کو دے دیا، پھر تیسرے کو،پھر چوتھے کو۔میں نے خیال کیا اب تو میری خیر نہیں،میرے لئے کیا بچے گامگر اُن چھ آدمیوں کے پی لینے کے بعد بھی جب دودھ کا پیالہ میرے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ ویسا ہی بھرا ہوا ہے۔کچھ تو ویسے ہی وہ پیا لہ بڑا تھا اور پھر انبیاءکی چیزوں میں خدا تعالیٰ برکت بھی دے دیتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا،ابو ہریرہ اب تم پیو۔ میں نے دودھ پیا اور میرا پیٹ خوب بھر گیا۔جب میں پی چکا تو آپﷺ نے فرمایا،ابو ہریرہ پھر پیو۔میں نے پھر پیا۔ آپ ﷺنے فرمایا، ابو ہریرہ پھر پیو۔ میں نے عرض کیا،یا رسول اللہ!ﷺ اب تو میری انگلیوں میں سے بھی دودھ نکلنے لگا ہے۔پھر آپﷺنے ہم ساتوں آدمیوں کاجھوٹا خود پیا۔اِس واقعہ سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے صحابہ کی دلجوئی اور خدمت کاکتنا احساس تھا۔ (تفسیر کبیر جلد نمبر 10صفحہ 349)

حسین معاشرے کا قیام

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں ،عزیزوں ، رشتہ داروں ،اپنے جاننے والوں ،ہمسایوں سے حسن سلوک کرو،ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہو فائدہ پہنچاؤ بلکہ ایسے لوگ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے، تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طورپر ملے ہو ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتاہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ۔اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا۔‘‘(خطبات مسرور جلد 1صفحہ309مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍نومبر2003ء)

دس درہم کی برکت

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺکے پاس کہیں سے دس درہم آئے۔اتنے میں ایک سودا گر آگیا، رسول کریم ﷺنے اس سے چاردرہم میں ایک قمیص خریدلیا۔اسے پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک انصاری نے عرض کیا حضورآپ ﷺیہ مجھے عطاکردیں اللہ آپﷺکو جنت کے لباس عطافرمائے۔ آپ ﷺنے وہ قمیص اسے دیدیا۔ پھر آپ دکاندار کے پاس گئے اور اس سے چار درہم میں ایک اور قمیص خریدا۔ اب آپ ﷺکے پاس دو درہم بچ رہے تھے۔ راستہ میں آپ ﷺکو ایک لونڈی ملی جو رورہی تھی۔ آپﷺ نے سبب پوچھا تو وہ بولی کہ گھر والوں نے مجھے دو درہم کا آٹا خریدنے بھیجا تھا وہ درہم گم ہوگئے ہیں۔رسول کریم ﷺ نے فوراً اپنے دو درہم اس کو دے دیے۔جانے لگے تو وہ پھر رو پڑی۔آپﷺنے پوچھا کہ اب کیوں روتی ہو؟ وہ کہنے لگی مجھے ڈر ہے کہ گھر والے مجھے تاخیرہوجانے کے سبب ماریں گے۔ رسول کریم ﷺاس کے ساتھ ہولیے اور اس کے مالکوں کو جاکر کہا کہ اس لونڈی کو ڈر تھا کہ تم لوگ اسے مارو گے۔

اس کامالک کہنے لگا یا رسول اللہﷺ! آپﷺکے قدم رنجہ فرمانے کی وجہ سے میں آج اسے آزاد کرتا ہوں۔ رسول کریمﷺ نے اُسے نیک انجام کی بشارت دی اور فرمایا!اللہ نے ہمارے دس درہموں میں کتنی برکت ڈالی کہ ایک قمیص انصاری کو ملا۔ایک قمیص خدا کے نبی ﷺکو عطا ہوا اور ایک غلام بھی اس میں آزاد ہوگیا۔ میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس نے اپنی قدرت سے ہمیں یہ سب کچھ عطا فرمایا۔(مجمع الزوائد جلد 9صفحہ14مطبوعہ بیروت)

سو اونٹوں پرلدا غلہ صدقہ کر دیا

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ بارش نہیں ہوئی۔ لوگ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا آسمان بارش نہیں برسا رہا اور زمین فصلیں نہیں اگا رہی۔ لوگ شدید مصیبت کا شکار ہیں۔

حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تم لوگ جاؤ اورشام تک صبر سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری پریشانی کو دور فرما دے گا۔ اتنے میں حضرت عثمانؓ کا سواونٹوں کا تجارتی قافلہ گندم یا کھانے کا سامان لادے شام سے مدینہ پہنچ گیا۔ اس کی خبر سن کر لوگ حضرت عثمانؓ کے دروازے پر گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔

حضرت عثمان ؓ لوگوں میں نکلے اور پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟لوگوں نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ قحط سالی کا زمانہ ہے۔آسمان بارش نہیں برسا رہا اور زمین فصلیں نہیں اگارہی۔ لوگ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس غلّہ ہے ۔آپ اسے ہمارے پاس فروخت کر دیں ۔ تاکہ ہم اسے فقراءاور مساکین تک پہنچا دیں۔

حضرت عثمان ؓنے فرمایا بہت اچھا ! اندر آجاؤ۔تاجر لوگ آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور غلے کو حضرت عثمانؓ کے گھر میں پڑا ہواپایا۔حضرت عثمان ؓنے تاجروں سے کہاجو سامان میں نے ملک شام سے خریدا ہے میری قیمت خرید پر آپ مجھے کتنا منافع دیں گے؟انہوں نے کہا ہم دس کے بارہ دے دیں گے۔یعنی اگر اس کی قیمت دس درہم ہے تو ہم بارہ دے دیتے ہیں۔حضرت عثمان ؓ نے کہا مجھے اس سے زیادہ مل رہے ہیں۔تاجروں نے کہا ہم دس کے پندرہ دینے کو تیار ہیں۔حضرت عثمان نے کہا مجھے اس سے بھی زیادہ مل رہا ہے۔تاجروں نے کہا اے ابو عمرو! مدینہ میں توہمارے علاوہ اور کوئی تاجر نہیں ہے۔ تو کون آپ کو اس سے زیادہ دے رہا ہے۔

حضرت عثمان ؓنے فرمایا !اللہ تعالیٰ مجھے ہر درہم کے بدلے دس گنا زیادہ دے رہا ہے۔کیا آپ لوگ مجھے اس سے زیادہ دے سکتے ہیں؟تاجروں نے جواب دیا نہیں ہم تو اس سے زیادہ نہیں دے سکتے ۔اس پر حضرت عثمان ؓ نے فرمایا !میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہوئے سارے کا سارا غلّہ صدقہ کرتے ہوئے مسلمان غریبوں اور مسکینوں کو دیتا ہوں اور اس کی کوئی قیمت نہیں لوں گا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍فروری2021ء)

سالہاسال بلاناغہ مفت دودھ

مکرم منظور احمد سعیداپریل 1966ءمیں دفتر وقف جدیدربوہ خدمت کےلیے آئے۔اس وقت حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ ناظم ارشاد وقف جدید تھے۔آپ بیان کرتے ہیں: ایک دن شام کو آپ حضور رحمہ اللہ دفتر تشریف لائے۔میں بازار سے دودھ لے کر آرہا تھا۔پوچھا کہاں سے آرہے ہو؟میں نے عرض کی کہ دودھ لے کر آرہا ہوں ۔فرمایا بازار سے اچھا دودھ مل جاتا ہے؟میں نے عرض کی بس جیسا بھی ہو ضرورت کے مطابق لینا ہی ہے۔فرمانے لگے کتنا دودھ لائے ہو؟میں نے کہا ایک کلو۔یہ پوچھ کر آپ خاموش ہو گئے۔اگلے دن صبح دروازہ پر دستک ہوئی۔میں نے جا کر دروازہ کھولا تو حضورؒ کا باورچی دودھ لے کر کھڑا تھا۔اس نے کہا میاں صاحب نے دودھ بھیجا ہے۔چنانچہ میں نے رکھ لیا اور پھر باقاعدگی کے ساتھ روازنہ دودھ آنا شروع ہو گیا اور جب ایک مہینہ مکمل ہواتو میں بلِ بنا کر لے گیا اور دودھ کی رقم حضور رحمہ اللہ کو پیش کی۔حضوررحمہ اللہ نے فرمایا :یہ کیا ہے؟میں نے کہا :دودھ کے پیسے ۔تو بڑے پیار سے فرمانے لگے :ہم کوئی دودھ بیچتے ہیں؟پیسے نہ لئے اور مسلسل دودھ بجھواتے رہے ۔

ایک دن باروچی نے کہا کہ کل میں کہیں جا رہا ہوں اس لئے آپ خود ہی جا کر دودھ لے آئیں۔اگلا دن جمعہ کا تھا اس لئے میں نے سوچا کہ دوپہر کو لے آئیں گے۔لیکن دس بجے کے قریب دروازہ کھٹکا۔میں نے جا کر دیکھا تو حضورؒ کھڑے ہیں اور ہاتھ میں دودھ پکڑا ہوا ہے۔میں دیکھ کر حیران ہو گیا کہ کیسا عظیم آقا ہے کہ غلاموں کی خدمت کرتا پھرتا ہے۔ مجھے دیکھ کر فرمانے لگے باورچی چھٹی پر تھا اس لئے میں نے کہا چلو خود ہی دے آتا ہوں۔

یقیناً آپ کا وجود سَیِّدُالقَوْمِ خَادِمُھَمْ کی منہ بولتی تصویر تھا۔آپ کی اس شفقت ،جس کا ساری عمر بھی شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا،کا سلسلہ بد ستور جاری تھا کہ ایک دن بیگم صاحبہ نے پیغام بھیجا کہ منظور صاحب گرمی کی وجہ سے دودھ بہت کم ہو گیا ہے اس لئے کل سے آپ اپنا انتظام کر لیں۔

اگلے دن باورچی پھر دودھ لے آیا۔میں نے کہا یہ کیا؟کل تو تم نے خود ہی کہا تھا کہ اپنا انتظام کر لیں اور آج پھر لے آئے ہو؟ باروچی نے کہا کل اسی وجہ سے گھر میں بحث چلی کہ دودھ کم ہے اس لئے تم اپنا انتظام خود کر لو لیکن میاں صاحب نے فرمایا کہ منظور کو دودھ ضرور بھیجنا ہے خود بے شک بازار سے منگوانا پڑے۔

چنانچہ یہ لطف و احسان کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بلا ناغہ جاری ہے اور مزید لطف یہ کہ حضورؒ کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور روزانہ اسی طریق کے مطابق ایک کلو دودھ اس عاجز کو نصیب ہو رہا ہے۔(ماہانہ خالد سیدنا طاہر نمبر 2004ءصفحہ178)

نابینا حافظ کے لیے بلاناغہ دودھ

قادیان میں ایک نابینا حافظ حضرت مسیح موعودؑ کے پرانے رفقاءمیں سے تھے ایک روز ایک حکیم صاحب کے پاس گئے اور یہ شکایت کی کہ میرے کانوں میں شائیں شائیں کی آواز سنائی دیتی ہے اور سنائی بھی کم دیتا ہے کوئی علاج بتائیں۔حکیم صاحب نے بتایا کہ آپ کے کانوں میں خشکی ہے دودھ پیا کریں۔اس پر انہوں نے کہا روٹی تو مجھے حضور علیہ السلام کے لنگر سے مل جاتی ہے دودھ کہاں سے پیوں۔اسی دوران حضرت مولوی شیر علی ؓصاحب وہاں سے گزرے انہوں نے یہ ساری گفتگو سن لی اور خاموشی سے چلے گئے۔ اسی روز رات کے وقت ایک شخص حافظ صاحب کے پاس آیا اور قریباً ڈیڑھ سیر دودھ دے کر چلا گیا۔اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا وہ شخص خاموشی سے آتا اور دودھ دے کر چلا جاتا حافظ صاحب نے یہ قصہ شیخ عبدالعزیزکو سنایاشیخ عبد العزیزکہتے ہیں میرے دل میں خیال آیا کہ دیکھوں کہ یہ کون شخص ہے جو مسلسل ڈیڑھ سال سے دودھ لے کر آتا ہے اور کبھی ناغہ بھی نہیں کرتا نہ ہی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔

چنانچہ اس خیال کے تحت میں ایک روز اس شخص کے آنے سے پہلے ہی حافظ صاحب کے دروزاے کے آس پاس گھومنے لگا اتنے میں ایک شخص ہاتھ میں برتن لئے ان کے گھر کے اندر چلا گیا چونکہ سردیوں کے دن تھے حافظ صاحب اندر چار پائی پر بیٹھے تھے اس شخص نے حسب معمول دودھ دیا میں اسے دیکھنے کےلئے جب اندر داخل ہوا وہ آہٹ سُن کر کونے میں کھڑا ہو گیااندھیرے کی وجہ سے میں پہچان نہ سکا میں نے پاس جا کر پوچھا کہ بھائی تم کون ہو؟ مجھے دھیمی آواز آئی شیر علی۔(الفضل28جون2003ء)

خدمت خلق کے ذریعہ خداتعالیٰ پر یقین

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’(کورونا وائرس کی وباکے دوران ) کینیڈا کی ….ایک عورت نے رات دو بجے خدام کی جو ہمسایوں کی ہیلپ لائن ہے اس کو ہر جگہ سے مایوس ہو کر فون کیا کہ یہ میری مجبوری ہے، میرا لڑکا بیمار ہے اور دوائی حاصل کرنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں، ہر جگہ سے انکار ہو گیا ہے۔ وہ کہتی تھی سب نے یہی کہا ہے کہ صبح سے پہلے نہیں مل سکتی اور اس کی بہت بری حالت ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں خدا ہے۔ گو میں خدا کو نہیں مانتی چلو آج آزماتے ہیں۔ کہتی ہے میں نے انتہائی کرب اور اضطرار کی حالت میں کہا کہ اے خدا ! اگر تُو ہے تو میرا بیٹا اس بری حالت میں ہے اس کی دوائی کا انتظام کر دے اور ساتھ ہی کہتی ہے کہ مجھے خدام کی ہیلپ لائن (helpline) کا بھی خیال آیا۔ فون کیا تو کسی آدمی نے فون اٹھایا۔ اسے اپنی ضرورت بتائی تو اس نے کہا کوشش کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر اسی شخص کا فون آیا کہ اس وقت رات کے دو بجے ہیں انتظام مشکل ہے۔ اس شخص نے کہا کہ تمہارے لڑکے کی حالت کیا ہے؟ میں نے پھر ساری صورتِ حال بتائی اور بڑی بے چینی کا اظہار کیا تو اس نے کہا اچھا مَیں خود جاکے دیکھتا ہوں، کسی جگہ جا کے دیکھتا ہوں۔ ایک فارمیسی فلاں جگہ پہ کھلی ہوتی ہے۔ اگر کھلی ہوئی تو دوائی لے آتا ہوں۔ وہ رات کو اٹھ کے گیا۔ کہتی ہے اس کو جب میں نے جگایا تھا تو وہ نیند کی حالت میں تھا لیکن پھر بھی وہ پچاس کلومیٹر کا سفر کر کے گیا اور مجھے دوائی لا کر دی۔ اس بات سے مجھے خدا کے ہونے کا یقین آ گیا اور یہ یقین احمدی خادم کی وجہ سے مجھے ملا اور میں اس کے لیے شکرگزار ہوں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ22مئی2020بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 12جون 2020صفحہ7)

رضائے الٰہی کا ذریعہ

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’نوعِ انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ438)

’’جو لوگ نافع الناس ہیں اور ایمان، صدق و وفا میں کامل ہیں، وہ یقیناً بچا لئے جائیں گے۔ پس تم اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کرو۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ184)

بھلائی کر بدی سے باز آ پرہیز گاری کر

جو تجھ سے ہو سکے تو خلق کی خدمت گزاری کر

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button