تاریخ احمدیت

مکرم مولانا مبارک علي بنگالي صاحب کے حالاتِ زندگی۔ جرمني ميں احمديّت کا آغاز اور پہلے مبلغ سلسلہ کي آمد

(محمد الیاس منیر۔ مربی سلسلہ انچارج شعبہ تاریخ، جرمنی)

اسلام و احمديت کا پيغام اگرچہ حضرت مسيح موعودؑ کے حِين حيات ہي دنيا کے ديگر ممالک کي طرح جرمني ميں بھي پہنچ چکا تھا مگر باقاعدہ احمدي مبلّغِ اسلام ابھي نہيں پہنچے تھے۔ اوّلين مبلّغِ سلسلہ کي حيثيت سے سرزمين جرمني پر قدم رکھنے کي سعادت خلافتِ ثانيہ کے عہدِمبارک ميں مکرم مولانا مبارک علي بنگالي صاحب مرحوم کے حصّہ آئي۔ موصوف حضرت خليفة المسيح الثاني ؓکے ارشاد پر ستمبر 1922ء ميں لندن سے جرمني کے پايۂ تخت برلن پہنچے اور يہاں قريباً تين سال تک نہايت بنيادي نوعيت کي اہم خدماتِ دين بجالانے کے بعد واپس تشريف لے گئے۔(الفضل قاديان 20 نومبر 1922ء)

حالاتِ زندگي

صوبہ بنگال ميں حضرت اقدس مسيح موعودؑ کي زندگي ميں ہي پيغام حق پہنچ گيا تھا اورپانچويں خوش نصيب بزرگ جو اہل بنگال ميں سے احمديت کي نعمت سے مالامال ہوئے وہ حضرت مولوي مبارک علي خان صاحب بنگاليؒ ہيں۔ آپ بنگال کے ضلع بوگرا کے دِگداير(Digdair) گاؤں ميں جنوري 1881ء ميں پيدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام عرض الدين صاحب تھا۔ ابتدائي تعليم اپنے گاؤں کے ’’پاٹھ سالہ‘‘ ميں حاصل کي اور اس کے بعد بوگرا کے ضلع سکول ميں داخل ہوگئے پھر 1905ء ميں کلکتہ کے مشہور Presidencey Collegeسے بي۔اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد تدريس کا پيشہ اختيار کيا اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے وکالت بھي پڑھنا شروع کر دي تاہم اسے مکمل نہ کرسکے اور اپني محکمہ تعليم والي ملازمت جاري رکھي۔ اسي دوران سعيد فطرت مولوي مبارک علي صاحب کو 1905ء ميں ايک دوست کے ذريعہ Review of Religions کا ايک شمارہ ملا جسے پڑھنے کے بعد آپ کے اندر حقيقي اسلام کي تلاش کي جستجو شدت اختيار کرگئي۔ اس طرح سے آپ کو حضرت مسيح موعودؑ اور جماعت کا تعارف ہوا۔ آپ کو ديکھنے والے آپ کا مذاق اُڑانے لگے کہ نعوذباللہ آپ کسي جادوگر کي کتابوں کا مطالعہ کرتے ہيں۔ جس پر آپ پہلے سے بھي زيادہ تحقيق کرنے لگ پڑے تاکہ آپ حضور کے بارہ ميں مزيد معلومات حاصل کرسکيں۔

اِسي دوران آپ نے خواب ديکھا کہ ايک چوک ميں آپ کھڑے ہيں تو وہاں برّصغير پاک وہند کا نقشہ نمودار ہوتا ہے اور ايک پھيلتي ہوئي روشني آسمان سے اُترتي ہے اور آہستہ آہستہ ايک نقطہ پر مرکوز ہوتي ہوئي ہندوستان کے شمال مغربي علاقہ ميں ايک جگہ جا کر پڑتي ہے۔ پھر اس نقطہ سے گرامو فون کي طرح کي گول گول لہريں پيدا ہوکر آہستہ آہستہ پھيلنا شروع ہو جاتي ہيں اور پھر يہ لہريں سارے ہندوستان پر محيط ہو جاتي ہيں پھر کيا ديکھتے ہيں کہ يہ لہريں بنگال تک جا پہنچتي ہيں اس کے بعد يہ لہريں ساري دنيا کو اپني لپيٹ ميں لے ليتي ہيں۔علاوہ ازيں آپ نے کشفي نظارے ميں پگڑي پہنے ايک بزرگ کو متعدد بار ديکھا جن کے گرد کچھ لوگ بيٹھے فيض اٹھا رہے ہوتے۔ آپ اس بزرگ کےاتنے قريب ہوجاتے ہيں کہ ان کے جسم ميں سما جاتے ہيں۔

اس کے بعد ايسے حالات پيش آتے رہے کہ حقيقي سچائي اور نيکي کي تلاش کي طرف مسلسل توجہ رہي۔ اسي نيکي کي تلاش ميں بالآخر آپ 1909ء ميں قاديان جا پہنچے۔ جہاں آپ نے ديکھا کہ ايک پگڑي والے بزرگ بيٹھے ہيں اور ان کے سامنے مختلف عمروں کے مختلف لوگ بيٹھے ہيں اور وہ بزرگ ان کو قرآن کريم پڑھا رہے ہيں۔ يہ وہي نظارہ تھا جسے آپ کشف ميں ديکھتے رہے تھے۔ يہاں آپ نے چند دن قيام کيا اور اس دوران ميں آپ نے حضرت مسيح موعودؑ کے کردار اور سيرت کے بارہ ميں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں سے اور صحابہؓ سے خوب اچھي طرح تحقيق کي۔ آپ نے ديکھا کہ قاديان کي زندگي بہت سادہ اور قرآني تعليم کے عين مطابق ہے۔ لوگوں کا رہن سہن اسلام کے عين مطابق ہے جس پر آپ بےاختيار کہہ اُٹھے کہ ميں نے دنيا ميں ہي جنت کو ديکھ ليا ہے۔ آپ کو يقين ہوگيا کہ يہ وہي آدمي ہے جسے آپ نے خواب ميں ديکھا تھا چنانچہ آپ بيعت کے لئے تيار ہوگئے۔

بيعت کرنے کے بعدآپ اپني گذشتہ زندگي کے بارہ ميں بےانتہاء روئے۔ ايک دن خليفةالمسيح الاولؓ کي خدمت ميں حاضر ہوئے اورعرض کي کہ حضور بيعت تو کرلي ہے مگرگزشتہ زندگي کے باعث بہت دل گرفتہ ہوں، حضور اگر اجازت ديں توميں اپني جان اسلام کي راہ ميں قربان کر دينا چاہتا ہوں۔ بيعت کرنے کے بعدآپ نے حضرت خليفةالمسيح الاوّلؓ کي صحبت ميں لمبے عرصہ تک رہنے کي سعادت حاصل کي۔ 1910ء ميں حضرت خليفةالمسيح الاولؓ نے 12 افراد پر مشتمل ايک کميٹي تشکيل دي جس کا نام بھائي چارہ کميٹي تھا اور آپ کو بھي اس کميٹي کا ممبر مقرر فرمايا۔

قاديان سے جب گھر واپس آئے تو مخالفت کا سلسلہ شروع ہوگيا۔ ہر طرف سے قادياني ہوگيا کافر ہوگيا کي مخالفانہ صدائيں بلند ہوني شروع ہوگئيں۔ آپ سے بدسلوکياں ہوتي رہيں ليکن آپ نے پوري استقامت دکھائي اور نتيجةً مخالفت کي آندھي تھوڑے عرصہ ميں ہي دھوئيں کي طرح غائب ہوگئي۔

آپ کو قاديان کا ماحول اور خليفہ وقت کي صحبت اس قدر پسند آئي کہ دسمبر 1913ء ميں ايک سال کے لئے ملازمت سے بلا اُجرت چھٹي لے کر قاديان پہنچ گئے۔ آپ نے يہ رخصت قاديان دارالامان ميں صحبت صالحين حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا شير علي صاحبؓ کے ہمراہ قرآن کريم کے ترجمہ کا کام سرانجام دينے ميں گزار دي۔ 1915ء کے آغاز ميں حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ کي طرف سے قائم کردہ انگريزي ترجمہ قرآن بورڈ کے ممبر مقرر ہوئے۔ آپ صوبہ بنگال ميں قائم کي جانے والي پہلي انجمن احمديہ کے بھي ممبرمقرر ہوئے۔ 1917ء ميں حضرت مصلحِ موعودؓ نے وقف زندگي کي تحريک فرمائي تو جن 63 نوجوانوں نے اپنے نام پيش کئے اُن ميں مولوي صاحب موصوف بھي تھے۔ حضورؓ نے آپ کو نائيجيريا جانے کا ارشاد فرمايا۔ اپنے پيارے امام کے ارشاد پر لبيک کہتے ہوئے آپ جنوري 1920ء ميں اپنے خرچ پر لندن پہنچے۔ آپ ابھي لندن ميں ہي تھے کہ 1922ء ميں جرمني ميں مشن کے قيام کا فيصلہ ہوا تو حضورؓ نے ارشاد فرمايا کہ جرمني کے پايہ تخت برلن پہنچ کروہاں جماعت کے مشن کا آغاز کريں۔ چنانچہ مولوي صاحب موصوف نے فوراً رَختِ سفر باندھا اور ستمبر 1922ء ميں برلن پہنچ کر اپني تبليغي مساعي کا آغاز کرديا۔ (الفضل قاديان 20 نومبر 1922ء) آپ کي کوششوں کوخداتعاليٰ کے فضل سے اِبتداء ميں ہي اِس قدر پھل لگا کہ حضرت خليفةالمسيح الثانيؓ نے جرمني ميں فوري طور پر مسجد تعمير کرنے کا اعلان فرما ديا اور ايک سال کے اندر زمين کي خريد، نقشہ کي تياري اور منظوري کے بعد سنگِ بنياد کي شاندار تقريب کا بھي انعقاد ممکن ہوگيا۔ آپ نے جرمني ميں کام کرنے والي مختلف تنظيموں سے بھي روابط قائم کئے اور مخالفت کا سامنا بھي کيا۔ جس کي تفصيل عليحدہ مضمون ميں دي جا رہي ہے۔ الغرض اس طرح سے 1920ء سے 1924ء کا عرصہ آپ نے يورپ ميں احمديت کي تبليغ اور توسيع کے کام ميں صرف کيا۔ آپ کے ساتھ خداتعاليٰ کے غيرمعمولي سلوک کے ضمن ميں يہ امر قابل ذکر ہے کہ جب آپ جرمني آئے تو ٹي بي جيسا موذي مرض لاحق ہوگيا جس سے سب پريشان ہوگئے مگر اللہ تعاليٰ نے حيرت انگيز طور پر شفا عطا فرمائي۔

جرمني سے آپ لندن تشريف لے گئے جہاں سے 1925ء ميں آپ بمبئي کے راستہ قاديان واپس پہنچے۔ اس کے بعد آپ نےبنگال جا کر محکمہ تعليم ميں ملازمت جاري رکھي۔ اب آپ کي تقرري مغربي بنگال کے ضلع ’مالدہ‘ ميں واقع سکول ميں بطور ہيڈماسٹر ہوئي۔ اسي دوران ميں برطانوي حکومت نے آپ کي گراں قدر خدمات کو سراہتے ہوئے آپ کو ’خان صاحب‘ کے لقب سے نوازا۔ آپ 1935ء ميں اپنے وطن بوگرا واپس آئے اور ضلع ہائي سکول ميں بطور ہيڈماسٹر مقرر ہوئے۔ جب آپ اپنے علاقہ کے ہائي سکول ميں بطور ہيڈماسٹر خدمات سرانجام دے رہے تھے، آپ کي نيکي اور بلندئ کردار کے بارہ ميں ايک غير ازجماعت دوست جناب تجميل الرحمان صاحب بيان کرتے ہيں:

’’بوگرا ضلع سکول کے سابق ہيڈماسٹر بھاري شخصيت کے حامل مکرم خان صاحب مبارک علي صاحب… قادياني مسلک سے تعلّق رکھتے تھے۔ آپ نہايت درجہ کے خدا ترس، وسعتِ قلبي کے حامل اور انسانيت کے وفادار خادم تھے‘‘۔

(Souvenir, Bogra Zilla school on the celebration of 150 of the school,January 27,28 2005)

1938ء ميں آپ نے فريضۂ حج ادا کرنے کي سعادت حاصل کي اور 1940ء ميں اپني ملازمت سے ريٹائرمنٹ حاصل کي اور اسي سال آپ صوبہ بنگال کے امير جماعت مقرر ہوئے۔ ديني خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے سماجي بہبود کا بھي بہت کام کيا ہے۔ بوگرا شہر ميں گونگوں اور بہروں کے لئے ايک انسٹيٹيوٹ بنايا ہوا ہے۔ اس کے باني مباني آپ ہي ہيں۔ آپ يکم نومبر 1969ء کو اپنے مولائے حقيقي سے جا ملے اور بوگرا ميں مدفون ہوئے۔(حالات زندگي مولوي مبارک علي صاحب مرتبہ مکرم عبدالاوّل صاحب مبلّغِ انچارج بنگلہ ديش)

مکرم مولوي مبارک علي صاحبؒ کي مصروفيات اور مساعي کا ذکر اخبار الفضل قاديان ميں نماياں طور پرشائع ہوتا رہا۔ چنانچہ بلادِغربيہ ميں تبليغ اسلام برلن و لنڈن کے زيرِعنوان اپنے طويل نوشتہ ميں مولوي عبدالرحيم صاحب نيّر نے لکھا:

مولوي مبارک علي

مسيح کي آمد ثاني پر کہا گيا تھا کہ وہ اپنے برگزيدوں کو جمع کرے گا۔ چنانچہ ہم ديکھتے ہيں کہ سعادت مند لوگ اللہ تعاليٰ کے فرستادہ احمد قادياني کے عَلم کے گرد بہ شوق تمام جمع ہو رہے ہيں۔ اور جس غرض کے لئے مسيح موعودؑ کي آمد مقدر تھي۔ اس ميں حصہ لے رہے ہيں۔ ان سعيد لوگوں ميں سے مولوي مبارک علي صاحب ايک ہيں۔ يہ بہت پيچھے آئے اور ميں کسي اور کي نسبت تو نہيں کہہ سکتا۔ مگر اپني نسبت کہتا ہوں کہ بہت آگے نکل گئے ہيں۔ اورسراسر اخلاص و محبت ہيں۔ انہوں نے لندن ميں جو کچھ کيا بہت قابل تعريف ہے۔ اور اب برلن ميں جو کچھ کررہے ہيں وہ خراج تحسين وصول کرنے کا مستحق ہے۔ جزاہ اللہ تعاليٰ احسن الجزاء

مولوي مبارک علي صاحب کي نسبت ايک انگريز نومسلم نے مجھے کہا ’’وہ اسلام کا نمونہ ہے اور ايک انسان جو کچھ ہونا چاہيے وہ ہے‘‘۔ خود برادرم مبارک علي صاحب ايک خط ميں کسي غير مبائع کے اثر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہيں۔ ’’(فلاں) فاضل پر محمود کے غلام کا لاہور کے آزاد کي نسبت زيادہ اثر ہوا‘‘۔

احباب کرام اس مخلص کارکن دوست کے لئے بہت بہت دعا فرماويں۔

(الفضل قاديان دارالامان مؤرخہ 6 جولائي 1923ء)

(بشکریہ اخبار احمدیہ جرمنی، ستمبر2022ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button