تاریخ احمدیت

5-6ستمبر1915ء: حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب مبلغ انگلستان کی قادیان سے روانگی

اور حضرت مصلح موعودؓ کی انگلستان کے حوالے سے زریں نصائح

’’آپ اس بات کو خوب یا درکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے۔ اس کے دعووں سے ڈریں نہیں کہ ان کے دعووں کے نیچے کوئی دلیل پوشیدہ نہیں‘‘

5؍ستمبر 1915ءکی شب تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء نے قاضی صاحب کی روانگی کا الوداعی جلسہ کیا۔ اورمعلمین اور متعلمین نے انگریزی اور اردو میں اخلاص سے بھری ہوئی تقریریں کیں۔ جلسہ کے آخر میں قاضی صاحب کی کامیابی اور سلسلہ عالیہ کی ترقی کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔

6؍ستمبر کو بعد نمازِ ظہر حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی اے بی ٹی بغرض تبلیغ ولایت کو روانہ ہوئے۔ حضرت خلیفةالمسیح الثانی ؓمع صدہا مخلص خدام کے جن میں مقامی عملوں و دفاتر کے اہلکار، بزرگانِ دین اور اکثر طلبائے مدارس بھی شامل تھے قاضی صاحب کو رخصت کرنے کے لیے ڈیڑھ دو میل تک تشریف لے گئے۔ اثنائے راہ میں حضورؓ نے قاضی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو تمام روحانی بیماریوں کا علاج قرار دے کے بھیجا ہے اسی میں اس وقت جمیع امراض دنیا کی شفا ہے اس لیے ہر موقعہ پر حضر ت مسیح موعودؑ کو ضرور پیش کریں۔

سڑک بٹالہ کے موڑ پر پہنچ کر حضرت صاحبؓ مع احباب ٹھہر گئے اور کھڑے ہو کر لمبی دعا کی اور اس کے بعد حضرت صاحبؓ نے قاضی صاحب کو رخصت فرمایا۔ بہت سے احباب نے چلتے وقت قاضی صاحب سے مصافحہ کیا اور ماسٹر عبد الرحیم صاحب و شیخ عبد الرحمٰن صاحب قادیانی امرتسر تک ساتھ گئے۔(ماخوذ از الفضل قادیان 9؍ستمبر 1915ء)

نصائح از دستِ مبارک حضرت مصلح موعودؓ

حضورؓ نے ان کو جو تفصیلی ہدایات و نصائح اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر دیں درج ذیل ہیں:

اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

میں آپ کو اس خدا کے جو ایک اور صرف ایک ہی خدا ہے نہ جس کا بیٹا نہ جورو، سپرد کرتا ہوں وہ آپ کا حافظ ہو۔ ناصر ہو۔ ہادی ہو۔ معلم ہو۔ رہبر ہو۔ اللّٰھمآمین ۔ ثم آمین۔

توحید اور عاجزی کا درس

آپ جس کام کے لئے جاتے ہیں وہ بہت بڑا کام ہے بلکہ انسان کا کام ہی نہیں۔ خدا کا کام ہے کیونکہ دلوں پر قبضہ سوائے خدا کے اور کسی کا نہیں ۔ دلوں کی اصلاح اسی کے ہاتھ میں ہے۔ پس ہروقت اس پر بھروسہ رکھیں اور کبھی نہ خیال کریں کہ میں بھی کچھ کرسکتا ہوں۔ دل محبت الٰہی سے پُر ہواور تکبراور فخرپاس بھی نہ آئے۔ جب کبھی د شمن سے مقابلہ ہو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گرادیں۔ اور دل سے اس بات کو بالکل نکال دیں کہ آپ جواب دیں گے بلکہ اس وقت یقین کرلیں کہ آپ کو کچھ نہیں آتا۔ اپنے سب علم کو بھلا دیں لیکن اس کے ساتھ ہی یقین کرلیں کہ آپ کے ساتھ خدا ہے وہ خود آپ کو سب کچھ سکھائے گا ۔ دعا کریں اور ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہ کریں کہ آپ دشمن سے زیر ہوجائیں گے۔بلکہ تسلی رکھیں کہ فتح آپ کی ہوگی ۔اور پھر ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے غنیٰ پر نظر رکھیں۔ خوب یاد رکھیں کہ وہ جو اپنے علم پر گھمنڈ کرتا ہے وہ دین الٰہی کی خدمت کرتے وقت ذلیل کیا جاتا ہے اور اس کاانجام اچھا نہیں ہوتا۔ لیکن ساتھ ہی وہ جو خدمت دین کے وقت دشمن کے رعب میں آتا ہے خداتعالیٰ اس کی بھی مدد نہیں کرتا ۔نہ تو گھمنڈ ہو۔ نہ فخر نہ گھبراہٹ ہو نہ خوف متواضع اور یقین سے پُر دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں۔پھر کوئی دشمن اللہ تعالیٰ کی نصرت کی وجہ سے آپ پر غالب نہ آسکے گا۔ اگر کسی ایسے سوال کے متعلق بھی آپ کا مخالف آپ سے دریافت کرے گا جو آپ کو نہیں معلوم تو بھی خدا کے فرشتے آپ کی زبان پر حق جاری کریں گے اور الہام کے ذریعہ سے آپ کو علم دیا جائے گا ۔یہ یقینی اورسچی بات ہے اس میں ہر گز شک نہ کریں۔آپ جس دشمن کے مقابلہ کے لئے جاتے ہیں وہ وہ دشمن ہے کہ تین سوسال سے بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ سے اسلام کی لہروں نے اس سے سر ٹکرایا ہے ۔ لیکن سوائے اس کے کہ واپس دھکیلی گئیں، کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس دشمن نے اسلام کے قلعے ایک ایک کر کے فتح کرلئے ہیں۔ پس بہت ہوشیاری کی بات ہے لیکن مایوسی کی نہیں۔ کیونکہ جس اسلام کو اس نے زیر کیا ہے وہ حقیقی اسلام نہ تھا بلکہ اس کا ایک مجسمہ تھا۔اور اس میں کیا شک ہے کہ رستم کے مجسمہ کو بھی ایک بچہ دھکیل سکتا ہے۔ آپ حقیقی اسلام کے حربہ سے ان پرحملہ آور ہوں وہ خود بخود بھاگنے لگے گا ۔

یورپ کے حالات

یورپ اس وقت مادیات میں گھرا ہوا ہے۔ دنیاوی علوم کا خزانہ ہے۔ سائنس کا دلدادہ ہے۔ اسے گھمنڈ ہے کہ جو اس کا خیال ہے وہی تہذیب ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے بدتہذیبی ہے، وحشت ہے۔اس کے عمل کو دیکھ کر لوگ اس کے اس دعویٰ سے ڈر جاتے ہیں اور اس کے رعب میں آجاتے ہیں حالانکہ یورپ کے علوم اس علم کا مقابلہ نہیں کرسکتے جوقرآن کریم میں ہے۔ اس کے علوم روزانہ بدلنے والے ہیں۔اور قرآن کریم کی پیش کردہ صداقتیں نہ بدلنے والی صداقتیں ہیں۔ پس ایک مسلم جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو۔ ایک سیکنڈ کے لئےبھی ان کے رعب میں نہیں آسکتا۔ اور جب وہ قرآن کریم کی عینک لگا کر ان کی تہذیب کا مطالعہ کرتا ہےتو وہ تہذیب در حقیقت بدتہذیبی نظر آتی ہے اور چمکنے والے موتی سیپ کی ہڈیوں سے زیادہ قیمتی ثابت نہیں ہوتے ۔

تبلیغ کا طریق

پس اس بات کو خوب یاد رکھیں۔ اور یورپ کے علوم سے گھبرائیں نہیں ۔ جب ان کی عظمت دل پر اثر کرنے لگے۔ توقرآن کریم اورکتب حضرت مسیح موعودؑ کامطالعہ کریں۔ ان میں آپ کو وہ علوم ملیں گے کہ وہ اثر جاتا رہے گا۔ آپ اس بات کو خوب یا درکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے۔ اس کے دعووں سے ڈریں نہیں کہ ان کے دعووں کے نیچے کوئی دلیل پوشیدہ نہیں۔یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں بلکہ اہلِ یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں۔مگر یادرکھیں کہ آنحضرت ﷺ کا حکم ہے بشّروا ولا تنفّروا ۔یعنی لوگوں کو بشارت دینا ، ڈرانا نہیں۔ ہر ایک بات نرمی سے ہونی چاہیئے۔ میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ صداقت کو چھپائیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو یہ اپنے کام کو تباہ کرنے کے برابر ہوگا۔ حق کے اظہار سے کبھی نہ ڈریں۔ میرااس سے یہ مطلب ہے کہ یورپ بعض کمزوریوں میں مبتلا ہے اگرعقائد صحیحہ کومان کر کوئی شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے لیکن بعض عادتوں کو چھوڑ نہیں سکتا تو یہ نہیں کہ اسے دھکا دے دیں اگر وہ اسلام کی صداقت کا اقرار کرتے ہوئے اپنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ اس کمزوری کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہے تو اس سے درشتی نہ کریں۔ خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو تنگ نہ کریں لیکن عقائد صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں۔ جو حق ہوا سے لوگوں تک ضرور پہنچائیں اور کبھی یہ خیال نہ کریں کہ اگر آپ حق بتا ئیں گے تو لوگ نہیں مانیں گے۔ اگر لوگ نہ مانیں تو نہ مانیں۔ لوگوں کو ایماندار بنانے کے لئے آپ خود بے ایمان کیوں ہوں ؟ کیسا احمق ہے وہ انسان جو ایک زہر کھانے والے انسان کو بچانے کے خیال سے خود زہر کھالے ۔ سب سے اوّل انسان پر اپنے نفس کاحق ہے پس اگر لوگ صداقت کو سن کر قبول نہ کریں توآپ نفس کے دھوکا میں نہ آئیں کہ آؤ میں قرآن کریم کو ان کے مطلب کے مطابق بناکر بتاؤں۔ ایسے مسلمانوں کا اسلام محتاج نہیں۔ یہ تو مسیحیت کی فتح ہوگی نہ کہ اسلام کی۔ جس نقطہ پر آپ کو اسلام کھڑا کرتا ہے۔ اس سے ایک قدم آگے پیچھے نہ ہوں۔ اور پھر دیکھیں کہ فوج در فوج لوگ آپ کے ساتھ ملیں گے۔ وہ شخص جو دوسرے کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے حق چھوڑتا ہے۔ دشمن بھی اصل واقعہ کی اطلاع پانے پر اس سے نفرت کرتا ہے ۔

کھانے پینے سے متعلق نصائح

کھانے پینے پہننے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں۔بے شک خلاف ِدستور بات دیکھ کر لوگ گھبراتے ہیں لیکن جب ان کو حقیقت معلوم ہو اور وہ سمجھیں کہ یہ سب اتّقا کی وجہ سے ہے ۔ نہ کہ غفلت کی وجہ سے ۔تو ان کے دل میں محبت اور عزت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا جانور جو گردن پر تلوار مار کر مارا گیا ہو جودم گھونٹ کر مارا گیا ہو کھانا جائز نہیں۔ قرآن کریم منع کرتا ہے ۔ اور حضرت مسیح موعودؑ سے جب ولایت جانے والوں نے پوچھا تو آپؑ نے منع فرمایا۔پس اسے استعمال نہ کریں۔ ہاں اگر یہودی یا عیسائی گلے کی طرف سے ذبح کریں تووہ بہرحال جائز ہے ۔ خواہ تکبیر سے کریں یا نہ کریں۔ آپ بسم اللہ کہہ کر اسے کھا لیں۔ یہودی ذبح کرنے میں نہایت محتاط ہیں۔ ان کے گوشت کو بے شک کھائیں۔ لیکن مسیحی آج کل جھٹکہ کر کے یا دم کھینچ کر مارتے ہیں۔ اس لئے بغیر تسلی ان کا گوشت نہ کھائیں۔ ان کا پکا ہوا کھانا جائز ہے۔ مچھلی کا گوشت جائز ہے۔ شکار کا جو بندوق سے ہو گوشت جائز ہے۔ کسی مسیحی کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا پڑے تب بھی جائز ہے۔ انسان ناپاک نہیں۔ ہاں ہرا یک ناپاک چیز سے ناپاک ہو جاتا ہے۔

عورتوں سے ہاتھ ملانا

عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے۔احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتادیں۔ حضرت مسیح موعودؑ سے جب ایک یوروپین عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہلا بھیجی تھی۔ رسول کریم ﷺ سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا۔ تو آپؐ نے اس سے منع فرمایا۔ یہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے۔اس میں عورتوں کی ہتک نہیں کیونکہ جس طرح مرد کے لئے عورت کو ہاتھ لگانا منع ہے اسی طرح عورت کے لئے مرد کو ہاتھ لگانا منع ہیں۔ پس اگر ایک عورت کی ہتک ہے تو دوسرے کی بھی ہتک ہے لیکن یہ ہتک نہیں بلکہ اسلام گناہ کو دور کرنے کے لئے اس کے ذرائع کو دورکرتا ہے۔ یہ نفس کی چوکیاں ہیں۔ جہاں سے اسے حملہ آور دشمن کا پتہ لگ جاتا ہے ۔

کلام کا طریق

ہمیشہ کلام نرم کریں۔ اور بات ٹھہر ٹھہر کر کریں۔ جلدی سے جواب نہ دیں۔ اور ٹالنے کی کوشش نہ کریں۔ اخلاص سے سمجھائیں۔ اور محبت سے کلام کریں۔ اگردشمن سختی بھی کرے تو نرمی سے پیش آئیں۔ ہریک انسان کی خواہ کسی مذہب کا ہو۔ خیر خواہی کریں حتی کہ اسے معلوم ہو کہ اسلام کیسا پاک مذہب ہے۔ جولوگ آپ کے ذریعہ سے ہدایت پائیں (ان شاءاللہ) ان کی خبر رکھیں۔ اور جس طرح گڈریا اپنے گلہ کی پاسبانی کرتا ہے ان کی پاسبانی کریں۔ ان کی دینی یا دنیاوی مشکلات میں مدد کریں۔ ہر ایک تکلیف میں برادرانہ محبت سے شریک ہوں۔ ان کے ایمان کی ترقی کے لئے دُعاکریں۔

زبان سیکھنے اور تحریر کا کام

انگریزی زبان سیکھنے کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور چوہدری صاحب[حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ ] کے کہنے کے مطابق عمل کریں۔ وہ آپ کے امیر ہوںگے جب تک وہاں ہیں۔ ان کی تمام باتوں کو قبول کریں۔ جہاں تک اسلام آپ کو اجازت دیتا ہے۔ محبت سے ان کا ساتھ دیں اور ان کے راستہ میں روک نہ ثابت ہوں بلکہ ان کا ہاتھ بٹائیں۔ تحریر کا کام آپ کریں تا ان کی آنکھوں کو آرام ملے آپ دو نوں کی محبت کو دیکھ کر وہاں کے لوگ حیران ہوں ۔

کثرت سے مطالعہ کریں

قرآن کریم اور احادیث کا کثرت سے مطالعہ کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب سے پوری طرح واقفیت ہو۔ مسیحی مذہب کا کامل مطالعہ ہو۔ فقہ کی بعض کتب زیر مطالعہ ر ہیں کہ وہ نہایت ضروری کام ہے۔ آخر وہاں کے لوگوں کو آپ لوگوں کو ہی مسائل بتانے پڑیں گے۔

احمدیت کا پیغام

جماعت احمدیہ کی وحدت اور اس کی ضرورت لوگوں پر آشکار کریں۔اسلام اور احمدیت کو جو اس زمانہ میں دومترادف الفاظ ہیں صفائی کے ساتھ پیش کریں۔ اور ایک مذہب کے طور پر پیش کریں اور لوگوں کے دلوں سے یہ خیال مٹائیں کہ یہ بھی ایک سوسائٹی ہے۔ خدا تعالیٰ کی مرضی کے مقابلہ میں اپنی مرضی کے چھوڑ دینے کی تعلیم اہل یورپ کو دیں۔ اب تک وہ خداتعالیٰ پربھی اعتراض کر لینا جائز سمجھتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق مذہب کو دیکھنا چاہتے ہیں ان کو بتائیں کہ سب دنیا پر حکومت کرو مگر خدا کی حکومت کو اپنے نفس پر قبول کرو۔ اس بات کی پروا نہ کریں کہ کس قدر لوگ آپ کی بات مانتے ہیں ۔ بلکہ یہ خیال رکھیں کہ کیسے لوگ آپ کو مانتے ہیں۔ اسلامی سادگی ان لوگوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرو اور لفظوں سے کھینچ کر روحانیت پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔آپ تو ایک گھوڑے پر بھی سوار نہیں ہوسکتے لیکن ایک شیر پر سوار ہونے کے لئے جاتے ہیں۔بہت ہیں جنہوں نے اس پرسوار ہونے کی کوشش کی لیکن بجائے اس کی پیٹھ پر سوار ہونے کے اس کے پیٹ میں بیٹھ گئے ہیں۔

دعا کی تلقین

آپ دُعا سے کام لیںتا یہ شیر آپ کے آگے اپنی گردن جھکا دے۔ہر مشکل کے وقت دعا کریں اور خط برابر لکھتے رہیں میرا خط جائے یا نہ جائے۔اب ہر ہفتہ مفصل خط جس میں سب حال بالتفصیل ہو لکھتے رہیں۔ اگر کوئی تکلیف ہو تو خداتعالیٰ سے دعا کریں۔ اگر کوئی بات کرنی ہو اور فوری جواب کی ضرورت ہو۔ خط لکھ کر ڈال دیںاور خاص طور پر دعا کریں۔ تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا نہ پہنچنے سے پہلے جواب مل جائے ۔

تصوف کا رنگ

خدا کی قدر تیں وسیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں ۔کم خوردن،کم گفتن، کم خفتن عمدہ نسخہ ہے ۔تہجد ایک بڑا ہتھیار ہے۔ یورپ کا اثر اس سے محروم رکھتا ہے کیونکہ لوگ ایک بجے سوتے اور آٹھ بجے اٹھتے ہیں۔ آپ عشاء کے ساتھ سوجائیں۔ تبلیغ میں حرج ہو گا لیکن یہ نقصان دوسری طرح خدا تعالیٰ پورا کر دے گا۔ ان کو سننے والے لوگ آپ تک کھینچے چلے آئیںگے۔

چھوٹے علاقوں میں تبلیغ

چھوٹے چھوٹے گاؤں میں غریبوں اور زمینداروں کو اور محنت پیشہ لوگوں کو جاکر تبلیغ کریں۔ یہ لوگ حق کو جلد قبول کریںگے اور جلد اپنے اندر روحانیت پیدا کریںگے۔ کیونکہ نسبتاً بہت سادہ ہوتے ہیں اور گاؤں کے لوگ حق کو مضبوطی سے قبول کیا کرتے ہیں۔ کسی چھوٹے گاؤں میں کسی سادہ علاقہ میں لنڈن سے دُور جا کر ایک دو ماہ رہیں اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے تبلیغ کریں۔ پھر اس کا اثر دیکھیں۔ یہ لوگ سختی بھی کریںگے لیکن جب سمجھیں گے خوب سمجھیں گے۔ان کی سختی سے گھبرائیں نہیں۔ بیمار کبھی خوش ہو کر دوا نہیں پیتا۔ہمیشہ بڑے کام مجھ سے پوچھ کر کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ اور ہر ایک شر سے اور وہاں کے بداثر سے محفوظ رکھے۔ اور اعمال صالحہ کی توفیق دے۔ زبان میں اثر پیدا کر دے۔ کامیابی کے ساتھ جائیں کامیابی سے رہیں۔اور کامیابی سے واپس آئیں۔ہاں یاد رکھیں کہ اس ملک میں آزادی بہت ہے۔ بعض خبیث الفطرت لوگ گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف منصوبے کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اثر سے خود بچیں اور جہاں تک ہو سکے دوسروں کو بچائیں۔و اخر دعوٰنا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔

چوہدری صاحب کو السلام علیکم کہہ دیں۔اور سب نومسلموں کو۔ اور سیلون[سری لنکا] کی جماعت کو بھی ۔ اور بھی جو احمدی ملے۔ کان اللّٰہ معکم این ما کنتم۔آمین

(الفضل قادیان 14؍ستمبر 1915ء)

٭ قاضی صاحب پہلے سیلون تشریف لے گئے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button