متفرق مضامین

اُف یہ آفت نما اورکندذہن بچے

(ڈاکٹر طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)

والدین کا قصور، یا یہ کوئی بیماری ہے؟

والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایسے بچے کوعلامات کے آغاز میں ہی ڈاکٹر اور سائیکالوجسٹ کے پاس لے جائیں

شاید قارئین کرام میں سے بھی کسی کو یہ تلخ تجربہ ہوا ہوکہ کسی نئے جاننے والے کو جتنے خلوص اور چاہت سے فیملی سمیت اپنے گھر مدعو کیا ہو،بعد میں اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ اپنی اس ’’غلطی‘‘ پر افسوس اور پچھتاوا لاحق ہو گیا ہو۔ کیونکہ والدین خود تو بہت نفیس،باذوق اورمہذب ہوں لیکن ان کا ایک آدھ بچہ کسی ناگہانی آفت سےکم محسوس نہ ہوا ہو ۔

چنانچہ بظاہر پانچ چھ سال کا پیارا بچہ لیکن کسی سونامی سے کم نہیں۔ گھر میں آتے ہی قیمتی ڈیکوریشن، شیشے کے گلدان، چینی کے نازک برتن یا آپ کے آئی فون کی سکرین چکنا چور، جوتوں سمیت صوفہ سیٹ یا ڈائننگ ٹیبل کے اوپر بلند و بالاچھلانگیں، یا گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھا آپ کے بیڈروم کے اندرگھس کر الماریوں اورمیزوں کی ساری درازیں کھول ، ان میں سے آپ کی پرائیویٹ اشیاء اچھال اچھال ، قرینے سے سجے گھرکے پرسکون منظر نامے کو منٹوں سیکنڈوں میں یوں بدل ڈالے گویا ڈاکہ پڑا ہو۔

اوپر سے بچے کے والدین یا تو ایسے لاتعلق بنے ہوئے گویا کوئی بات ہی نہیں ، یا پھر شرم سے لال ہوئے چہرے کے ساتھ وہ بھی بچے کی ان حرکات پرمسلسل چیخ چیخ کراسے ڈانٹ پلا رہے ہوں، اور آپ دل ہی دل میں تہیہ کررہےہوں کہ جوکچھ بھی ہو آئندہ اس فیملی کو گھر پہ مدعو کرنے کی غلطی کبھی نہیں کرنی۔

مذکورہ بالایا اس سے کم وبیش قسم کی صورت حال کو دیکھ کر بسا اوقات لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دراصل یہ سب کچھ تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ اگروالدین نے شروع سے بچے کو تمیزسکھائی ہوتی توبچہ یہ نمونہ ہرگز نہ دکھاتا۔ لیکن یہ تاثر درست نہیں۔

ایسے بچے جونچلا نہ بیٹھ سکیں،دوسرے بچوں کی نسبت بلا کے زیادہ متحرک ہوں، ایک کام کو ختم کیے بغیر کسی اورطرف کو دوڑ پڑیں ،دوسرے کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بول پڑتے ہوں اور وہ بھی کسی اور موضوع پر، کسی ایک کام پر اپنی توجہ زیادہ دیر مرکوز نہ رکھ سکیں اور اس بنا پربھولنے کی عادت ہو، اور اسی وجہ سے پڑھائی میں بھی پیچھے رہ رہے ہوں، خواہ والدین یا اساتذہ نے پوری کوشش بھی کی ہو تو پھریہ علامات والدین کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی یا تربیت کے فقدان کی نہیں بلکہ ایک ایسے دماغی مرض کی نشاندہی کرتی ہیں جسے مختصراً ’’اےڈی ایچ ڈی‘‘ (ADHD)کہا جاتا ہے جو کہ Attention Deficit Hyperactivity Disorder کا مخفف ہے۔

اس مرض میں مبتلا بچوں کو گھر کے علاوہ سکول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دوستوں کے ساتھ بھی۔

خیال رہے کہ یہ مرض ’’ آٹزم ‘‘(Autism Spectrum Disorder) سے جدا نوعیت کی بیماری ہے۔

واضح رہے کہ اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ بچہ گھر اور اسکول دونوں جگہ یکساں علامات یا رویے کا مظاہرہ کرے۔ اگر بچہ گھر میں یا مہمانوں کے سامنے تو مہذب رویہ اپنائے لیکن اسکول جاتے ہی ٹیچریا کلاس فیلوز کے ساتھ بدتمیزی یا جارحیت کا مظاہرہ کرتا ہو،یا اس کے برعکس مثلاً اسکول اور پڑھائی میں تو ٹھیک ٹھاک ہو لیکن گھر والوں کے ساتھ باغیانہ رویہ اپناتا ہو یا صرف گھرمیں ہڑبونگ اور اودھم مچاتا ہو تو پھر معاملہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ جس کی وجوہات کا کھوج لگانا بھی اتنا ہی لازمی ہوتا ہے۔

ماہرین نفسیات (Psychologist) اورماہرین امراض اطفال (Paediatrician) یا ماہرین امراض دماغی (Psychiatrist) اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص کئی مراحل میں کرتے ہیں جو بعض والدین کے لیے صبرآزما بھی ہو سکتے ہیں،اس کے ساتھ اسکول ٹیچر،اسکول سائیکالوجسٹ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔

اگر تو بچہ آرام سے ایک جگہ ٹک کربیٹھ سکتا ہو یعنی Hyperactive نہ ہو لیکن زیادہ دیرایک جگہ اپنی توجہ مرکوز نہ رکھ سکتا ہو،اورذرا ذرا سی بات پہ اس کا دھیان بٹ جاتا ہو یعنی صرف Attention Deficit ہو تو پھر اس مرض کو مختصراً اےڈی ڈی (یعنی Attention Deficit Disorder) کہا جاتا ہے۔ اس ذہنی سقم کی بنا پر یہ بچے نہ تو ٹھیک طرح سے پڑھائی کرسکتے ہیں اور نہ ہی سبق یاد رکھ پاتے ہیں۔ نتیجۃًنارمل بچوں کی نسبت کند ذہن یا نالائق سمجھے جاتے ہیں ،حالانکہ اس میں ان کی کسی ’’نالائقی‘‘کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ نہ ہی اس میں والدین یا اساتذہ کا کوئی قصورہوتا ہے۔

اے ڈی ایچ ڈی اور اے ڈی ڈی کی شدید علامات میں مبتلا بچوں کے لیے مختلف قسم کی ادویات آج کل دستیاب ہیں جوکہ سپیشلسٹ تجویز کرتے ہیں اوریہ مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ایسے بچوں کا نفسیاتی علاج بھی کیا جاتا ہے۔ اسکول میں سپیشل بچوں کے ساتھ ان کے لیے الگ نصاب مقرر کیا جاتاہے،تاوقتیکہ وہ شفا یاب ہوکر دوبارہ نارمل بچوں کے ساتھ کلاسیں لینے کے قابل ہو جائیں اور اپنی بقیہ ساری زندگی بھی کامیابی سے گزارسکیں۔

نسبتاً ہلکی علامات کے حامل بچوں کو صرف نفسیاتی طریق علاج (Behavioural Therapy) سے ہی نمایاں افاقہ ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں والدین کو بھی ٹریننگ دی جاتی ہے کہ ایسے بچے کے ساتھ آپ نے کیسے اورکس قسم کی محنت کرنی ہے۔ یادرہے کہ یہ طریقہ علاج دنوں ،ہفتوں یا مہینوں نہیں بلکہ سالوں تک جاری رکھنا پڑ سکتاہے اور اس کے لیے صبر، حوصلہ ،دعا اور استقامت شرط ہے۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ جتنا جلد علاج شروع کیا جائے ،افاقہ بھی اتنا ہی جلد ہوتاہے۔ شاذ کے طور پر بلوغت کے بعد بھی ادویات یا نفسیاتی طریق علاج کی ضرورت رہتی ہے۔

والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ ایسے بچے کوعلامات کے آغاز میں ہی ڈاکٹر اور سائیکالوجسٹ کے پاس لے جائیں۔ تین چارسال کی عمر کے بچے توعموماً کھلنڈرے اور نٹ کھٹ ہی ہوتے ہیں،اور ان سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا،اوربچپنا اسی کا نام ہے، لیکن اسکول میں داخلے کے بعد اگر ان کا رویہ دیگر بچوں سے مختلف نظر آئےاور ٹیچر کی طرف سے تشویش کےاظہارپر مبنی خطوط یا رپورٹس موصول ہونے لگیں توماہرین سے مدد لینے میں تاخیر یا شرم سے کام نہیں لینا چاہیے۔

اس بارے میں مزیدآگہی حاصل کرنے اورعوام الناس میں شعوراجاگرکرنے کی اشد ضرورت ہے۔کیونکہ بعض والدین کم علمی کی بناپربےجا ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مارپیٹ پر بھی اتر آتے ہیں، حالانکہ یہ تو ایک ذہنی مرض ہے اور مرض کا علاج ڈانٹ ڈپٹ یا تشدد سے تو نہیں کیا جاسکتا۔

بچوں کی تو روزمرہ اصلاح کی خاطر بھی بےجا سختی کرنے کے عمل کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک قسم کا شرک قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر فرمایا:’’بات بات پر بچوں کوروکنا اورٹوکنا یہ ظاہر کرتاہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پرلے آئیں گے۔ یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے۔اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 421،ایڈیشن 2016ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button