ایڈیٹر کے نام خطوط

کیا قطورہ حضرت ہاجرہ کا ہی دوسرا نام تھا؟

ڈاکٹر عبد الرحمٰن بھٹہ صاحب جرمنی سے تحریر کرتے ہیں:مندرجہ بالا عنوان کے تحت الفضل انٹرنیشنل کے 23؍ اگست 2022ء کے شمارہ میں ایک دوست کا خط شائع کیا ہےجس میں حال ہی میں خاکسار کا حضرت ہاجرہ کے بارے مضمون کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس میں انگریزی میں بعض انگریزوںکے حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت ہاجرہ ہی وہ قطورہ تھیں جن کا ذکر بائبل میں حضرت ابراہیمؑ کی تیسری بیوی کے طور پر کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں خاکسار کچھ وضاحت کرنا چاہتاہے۔

1۔یہود کے مستند حوالے

حضرت ہاجرہ اور حضرت قطورہ دونوں یہود کی تاریخ کا حصہ ہیں ۔اور ان کے بارے میں معلومات کے لیے میں نے ’’کچھ انگریزوں‘‘کے نہیں بلکہ یہود کے ہی تیار کردہ تین مستند اور معتبر ترین ذرائع سے حوالے پیش کیے ہیں ۔ ایک حوالہ جیوئش انسائیکلوپیڈیا سے ہے۔ دوسرا ’’ویمن جیوئش انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے ہے ۔ اور تیسرا حوالہ بھی یہود کا ہی بہت معتبر ذریعے سے ہے ۔ یہ حوالے انگریزی میں ہیں اور یہ ان دونوں خواتین کے بارے میں مفصل معلومات مہیا کرتے ہیں ۔ اور یہ تینوں حوالے ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں ۔

میری کوشش یہ تھی کہ یہ تینوں حوالے احباب جماعت تک عموماً اور داعیان الی اللہ تک خصوصاً اصل زبان یعنی انگریزی میں پہنچ جائیں۔یہودی قوم میں عام طور پر حضرت ہاجرہ کے متعلق بہت سی حقارت آمیز روایات مشہور ہیں ۔ یہود کے ان حوالوں سے حضرت ہاجرہ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور ان کی زندگی کے خوبصورت پہلو سامنے آتے ہیں ۔نیز ان حوالوں میں ان کی عظمت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے ۔

2۔حضرت ہاجرہ اور قطورہ کے بارے میں اخفا

بائبل کے بارے میں بائبل کی تفاسیر تسلیم کرتی ہیں کہ یہ یہود کے علماء نے جلا وطنی کے دَور میں مرتب کی تھی اور اس میں بہت رد وبدل اور اضافے کیے گئے تھے۔حضرت ہاجرہ کے بارے میں اس میں صرف یہ لکھا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھیں۔ اس کے علاوہ حضرت ہاجرہ کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون تھیں، کہاں اور کب آئی تھیں ؟اسی طرح حضرت قطورہ کے بارے میں بھی بائبل صرف یہ کہتی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم ؑکی تیسری بیوی تھیں لیکن اور کچھ نہیں بتاتی کہ وہ کون تھیں یا کہاں سے آئی تھیں ۔ان دونوں خواتین کے پس منظر کے بارے میں بائبل میں اخفا سے کام لیا گیا ہے ۔آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

یہود کے مذکورہ بالا منصف مزاج اور معتبر ذرائع نے بائبل کے اس پردہ کو چاک کیا ہے ۔یہود کے یہ ذرائع اپنی ماں سارہ کے خلاف اور اپنی سوتیلی ماں ہاجرہ کے حق میں گواہی دیتے ہیں کہ ہاجرہ لونڈی نہیں مصری شہزادی تھیں اور حضرت ابراہیمؑ کی دوسری بیوی تھیں اور یہ کہ ہماری ماں سارہ نے حسد کی وجہ سے اپنی سوکن ہاجرہ کو گھر سے نکالا تھا۔اور سارہ کی وفات کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے اسحاق کو بھیجا تھا کہ وہ اپنی سوتیلی ماں ہاجرہ کو واپس گھر لے کر آئے ۔

یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیمؑ کے گھر میں بالآخر وہ باعزت مقام مل گیا تھا جس کی وہ حق دار تھیں ۔ اور واپسی پر ان کو’’قطورہ ‘‘ کے صفاتی نام سے پکارا جانے لگا ۔اس نام کی یہ وجہ تسمیہ بھی ان روایات میں مذکور ہے کہ ’’قطورہ‘‘ کا مطلب وہ خاتون ہے جو اپنا عہد وفا نبھائے اور جس کے اخلاق خوشبو کی طرح پسندیدہ ہوں ۔ یہود کے یہ ذرائع حضرت ہاجرہ کی اور بھی بہت سی اخلاقی اور روحانی اقدار بیان کرتے ہیں ۔

3 ۔ تفسیر کبیر میں ذکر

یہ بات درست ہے کہ تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ قطورہ حضرت ابراہیمؑ کی سارہ اور ہاجرہ کے علاوہ بیوی تھیں۔لیکن وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ ایسا ’’بائبل سے معلوم ہوتا ہے‘‘۔ اسی طرح ہماری انگریزی تفسیر میں بھی بائبل کی کتاب پیدائش باب 25کے حوالے سے لکھا ہے کہ قطورہ حضرت ابراہیمؑ کی بیوی تھیں ۔جب تک بائبل کے بیان کے خلاف کوئی شہادت نہ ہو۔ اس کے بیان کو درست ہی سمجھا جاتا ہے ۔یہ تفصیلی شواہد اس وقت سامنے نہ آئے ہوںگے۔

حضرت ہاجرہ ہمارے لیے اہم ہیں اور ان سے ہمارا خاص تعلق ہے ۔لہٰذا ہم نے ان کے بارے میں تحقیق کر لی ۔ لیکن قطورہ سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا لہٰذا ان کے بارے میں تحقیق نہ کی گئی ۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ جماعت کے ایک بزرگ محقق ہیں ۔ آپؓ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’ آپ نے تین شادیاں کیں۔ پہلی بیوی کا نام سارہ تھا ۔دوسری کا نام ہاجرہ تھا ۔اور تیسری کا نام قطورہ۔ ان میں سے مؤخر الذکر کے ذاتی حالات زیادہ معلوم نہیں ہیں۔اور نہ ہی ہمیں اس جگہ ان سے تعلق ۔ مگر اس جگہ یہ ذکر کرنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ وہ قوم مدین کی نسل سے تھی۔ ‘‘( سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ65،ایڈیشن 2001ء)

واضح رہے کہ ’’مدین‘‘حضرت قطورہ کے بطن سے حضرت ابراہیمؑ کا بیٹا تھا اور قوم ’’مدین‘‘اس کی نسل سے تھی۔ (پیدائش باب 25 آیات 2 ۔ 4) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’…مدین لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ۔ کیونکہ مدین ،قتورہ (حضرت ابراہیمؑ کی تیسری بیوی )کے پیٹ سے تھا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو جب کنویں سے نکال کر مصر کی طرف لے جایا گیا تو قتورہ کی نسل اس علاقے میں بس رہی تھی ۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 219)

یہاں یہ بیان کرنا مناسب ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جس قافلے کے پاس فروخت کیا گیا تھا وہ ’’مدین‘‘ قوم کا تھا۔ لیکن بائبل میں اس قافلے کو کئی بار ’’اسماعیلی‘‘ کہا گیا ہے۔ (پیدائش باب 37 آیات 25، 27، 28 اور باب 39 آیت 1) اس کی وجہ بائبل کی ایک تفسیر یہ بیان کرتی ہے کہ مدیانی اور اسماعیلی قبائل اپنی بود و باش ،رسم و رواج اور زبان میں بہت یگانگت رکھتے تھے ۔ اس لیے ایک کو دوسرے کا نام دے دیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ ’’مدین‘‘ قطورہ کا بیٹا تھا اور ’’اسماعیل‘‘ ہاجرہ کا ۔ اب اگر ہاجرہ ہی قطورہ تھیں تو ’’مدیانی‘‘ اور ’’اسماعیلی‘‘ قبائل دو سگے بھائیوںکی اولاد تھے ۔ پس ان کی باہمی یگانگت کی وجہ تو ظاہر ہے۔

4۔انٹر نیٹ کا غلط حوالہ

خط کے آخر میں انٹرنیٹ کے ایک حوالے کا ذکر کیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ہاجرہ کی وفات کے بعد قطورہ سے شادی کی تھی۔لیکن یاد رہے کہ یہ بیان بالکل غلط ہے۔بائبل کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے قطورہ سے شادی ہاجرہ کی وفات کے بعد نہیں بلکہ سارہ کی وفات کے بعد کی تھی۔ ہاجرہ کی وفات کا بائبل میں کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ سارہ کی وفات کا ذکر پیدائش کے باب 23کے شروع میں ہے ۔اور اسی باب میں ان کی تدفین کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔اور پھر حضرت اسحاق کی شادی کا ذکر ہے۔اور یہ بھی لکھا ہے کہ اسحاق کی یہ شادی اس کی ’’ماں کے مرنے‘‘ کا غم دور کرنے کا موجب بنی تھی ۔اس کے بعد باب 25 کے شروع میں حضرت ابراہیمؑ اور قطورہ کی شادی کا ذکر ہے۔گویا حضرت سارہ کی وفات کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے پہلے اپنے بیٹے اسحاق کی شادی کی اور پھر انہوں نے اسحاق کو بھیجا کہ جاؤ اور اپنی سوتیلی ماں ہاجرہ کو گھر لے آؤ۔اس طرح باپ اور بیٹے دونوں کے گھر آباد ہوئے۔غم دور ہوئے اور گھر کی رونق بحال ہوئی ۔

میں ان دوست کا مشکور ہوں کہ انہوں نے سوالات اٹھائے جس کی وجہ سے مزید وضاحت کا موقع مل گیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button