متفرق مضامین

فرقان بٹالین (قسط چہارم۔ آخری)

(از قلم محترم چودھری عبد السلام صاحب، واقفِ زندگی)

’’لوگ فوجی خدمت سرانجام دے رہے ہیں ان میں سے سوا سو کے قریب تو ایسے ہیں جن کو ہم گزارہ دیتے ہیں۔لیکن بہت کم۔ درحقیقت یہ لوگ بڑے نیک ہیں۔ بڑی قربانی کرنے والے ہیں اور سالہا سال سے اس فرض کو ادا کررہے ہیں۔ اور پھر اپنے عہدوں کے لحاظ سے بعض پانچواں، بعض چھٹا اور بعض ساتواں حصہ گزارہ لے رہے ہیں۔‘‘

(گذشتہ سے پیوستہ)انہی دنوں مشہور اخبار ’’زمیندار‘‘ لاہور میں ایک مضمون چھپا کہ جماعت احمدیہ کے چندوں میں کمی آگئی ہے اور احمدی زیادہ چندہ نہیں دے رہے۔ ایک رنگ میں جماعت احمدیہ کے ساتھ مذاق کیا۔ اس پر میں نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خط لکھا جو روزنامہ الفضل لاہور میں شائع ہوا۔استفادہ عام کے لیے یہاں محفوظ کررہا ہوں۔

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ

کی خدمت میں ایک مخلص کا خط

’’اخبار زمیندار‘‘کے مذاق کا عملی جواب

سیدی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کل مؤرخہ 15.10.1949 کو کسی آدمی نے بتایا کہ اخبار’’زمیندار‘‘ نے ایک مضمون لکھا ہے کہ امام صاحب جماعت احمدیہ کے چندہ میں کمی ہوگئی ہے۔ میرے آقا یہ سنتے ہی عاجز کے دل پر چوٹ سی لگی اور دعاؤں میں مشغول ہوگیا۔ کہ اے قادر مطلق خدا تو ہماری جماعت کے لوگوں کو ہدایت دے۔ ہم میں یہ کمزوری تھی تو دشمنوں کو ایسا کہنے کا موقعہ ملا۔ رات کو نماز عشاء میں فرضوں کی تیسری رکعت میں اس عاجز کے دل میں خیال آیا کہ میں اپنا چندہ جو پہلے 25فیصدی ادا کرتا ہوں اب 33فیصدی کردوں۔ مگر پھر چوتھی رکعت میں خیال گزرا کہ عبدالسلام ابھی تک تم میں حرص اور لالچ باقی ہے۔ ابھی یہ خیال دل میں آیا ہی تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے دل میں ڈالا گیا کہ تو اپنا سارا الاؤنس جو مبلغ 50روپے ہے سب کا سب خدمتِ دین کے لئے وقف کردے۔

سو حضور کی خدمت عالیہ میں عرض ہے کہ میرا سارا الاؤنس خدمتِ سلسلہ احمدیہ کےلئے وقف ہے۔ حضور سے گزارش ہے کہ اس عاجز کے لئے دعا فرمائی جائے کہ اللہ تعالیٰ میری اس ادنیٰ سی قربانی کو قبول فرمائے اور اس سے بڑھ چڑھ کر قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے۔

والسلام ۔ خاکسار

حضور کا فرمانبردار

عبدالسلام واقفِ زندگی جہلم

(روزنامہ الفضل لاہور مؤرخہ 26؍نومبر 1949ء صفحہ نمبر6)

حضرت مصلح موعودؓ نے میری اس قربانی کو قبول فرمایا اور میرا الاؤنس چندہ میں جمع ہونے لگا۔ دو ماہ تک یہ الاؤنس جمع ہونے کے بعد دفتر کی طرف سے مجھے محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے توسط سے اطلاع ملی کہ اب اپنا الاؤنس وصول کرلیا کریں۔ میں نے انکارکیا تو محترم صاحبزادہ صاحب نے کہا آپ نے خداتعالیٰ کے حضور اپنی قربانی پیش کردی اور اسے خلیفہ وقت نے قبول بھی کرلیا۔ اب مجھے یہ ہدایت موصول ہوئی کہ آپ کو اطلاع کردوں کہ اب آپ اپنا ماہوار الاؤنس وصول کرلیا کریں اور اپنا مقررہ چندہ جو پہلے دے رہے ہیں وہی دیتے رہیں۔ دوسرا اصل نیکی وہ ہے جو خلافت کی اطاعت ہے۔ اب حضور کا یہی حکم ہے کہ آپ کو پھر سے وظیفہ دیا جائے۔ ا س لئے اب یہ لے لو۔ کیونکہ حضور کے حکم کی اطاعت میں ہی سب برکت ہے۔ تب سے میں نے پھر اپنا ماہوار الاؤنس لینا شروع کردیا۔

1949ء میں میرے والد محترم چودھری محمد عثمان خاں صاحب اپنے گاؤں چک نمبر 88ج ب ہسیانہ تحصیل وضلع لائل پور میں 85پچاسی سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

ان دِنوں میں فرقان بٹالین کے ریئر ہیڈ کوارٹر سرائے عالمگیر ضلع جہلم میں ڈیوٹی پر تھا۔ گاؤں میں موجود بھائیوں نے محترم صوبیدار حبیب الرحمٰن صاحب کو حیدر آباد ٹیلیگرام کے ذریعہ وفات کی اطلاع دےدی مگر وہ پہنچ نہ سکے۔تاہم مجھے سرائے عالمگیر میں فوری اطلاع نہ دی بعد میں وفات کی اطلاع کا خط لکھ دیا۔ میرا اپنا خیال ہے کہ اگر مجھے تار کے ذریعہ اطلاع کرتے تو میں جنازہ کے موقع پر پہنچ سکتا تھا۔ اس کا مجھے اب تک بڑا احساس ہے کہ قریب ہونے کے باوجود اس موقع پر حاضر نہ ہوسکا۔ بہر حال خط ملنے پر میں چند ایام کے لیے چک نمبر 88ج ب ہسیانہ ضلع لائلپور گیا اور محترم والد صاحب کی قبر پر جاکر دعا کرنے کا موقع ملا۔ چند دن گاؤں میں گزارے وہاں ہر روز ہی بڑی تعداد میں احباب ،رشتہ دار تعزیت کےلیے آتے رہے۔ میں جب واپس سرائے عالمگیر ڈیوٹی پر پہنچا تو محاذ جنگ پر ضرورت ہونے کی وجہ سے مجھے فوراً بارڈر ایریا میں ڈیوٹی پر بھجوادیاگیا۔

کم عمر مجاہد کی آمد

میرے محاذ پر جانے کے بعد میرا بھانجا عزیزم رانا ناصر احمد خاں جو ان دنوں چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ وہ بھی تین ماہ کے لیے وقف کرکے سرائے عالمگیر حاضر ہوگیا۔ چھوٹا ہونے کی وجہ سے مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اسے محاذ جنگ پر نہ بھیجا۔بلکہ سرائے عالمگیر میں ہی روک لیا۔ مگر وہ روزانہ ہی کھانا کھانے کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجاتا اور اصرار کرتا کہ مجھے بھی محاذ پر جانے کا موقع دیا جائے۔ آخر تنگ آکر محترم صاحبزادہ صاحب نے مجھے محاذ پر خط لکھا کہ مجھے عزیز ناصر احمد محاذ پر جانے کے لیے مجبو رکرتا ہے۔ آپ سرائے عالمگیر آئیں یا اسے گھر واپس بھیج دیں یا اپنے ساتھ محاذ پر لے جائیں۔ چنانچہ اگلے روز ہی میں سرائے عالمگیر آیا اور عزیزم رانا ناصر احمدکو سمجھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تم چھوٹے ہو اس لیے واپس چلے جاؤ مگر اس کی ایک ہی ضد تھی کہ میں نے محاذ پر ضرور جانا ہے۔ مجبوراً محترم صاحبزادہ صاحب نے اسے محاذ پر میرے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔ اس روز محاذ پر جانے والوں میں مکرم صوبیدار عطاء اللہ صاحب بھی تھے۔ چنانچہ سرائے عالمگیر سے ٹرکوں میں بیٹھ کر سب بھمبر پہنچے۔ اب وہاں سے محاذ تک پیدل ہی مارچ کرنا تھا۔ چنانچہ سب بھمبر سے پیدل روانہ ہوئے۔ سوکھا تالاب والی چڑھائی پر مکرم صوبیدار عطاء اللہ صاحب عزیزم ناصر احمد کو سہارا دے کر چڑھائی پر چلاتے رہے۔ جب ہاتھ روکتے تو وہ بھی رک جاتا۔ سوکھا تالاب پہنچ کر ناشتہ کیا۔ اور چائے پی۔ کچھ تھکان دور ہوئی تو اب اگلے مرحلہ کا سفر شرع ہوا اور باغسر جا کر ہی دم لیا۔

محترم بابا شیر ولی صاحب نے آنے والے جوانوں کی تقسیم کی تو عزیزم ناصر احمد کو بٹالین ہیڈکوارٹر میں رکھ لیا۔ اس وقت عزیزم ناصر احمد کو پوری نماز یاد نہ تھی۔ اسے محترم بابا شیر ولی صاحب نے کہا ناصر احمد نماز یاد کرلو تو تمہیں مکھن کھلائیں گے۔ چنانچہ چند دنوں میں ہی اس نے نماز یاد کرلی اور مکھن کھانے کا حقدار ہوگیا۔ پھر محترم بابا صاحب نے نماز کا ترجمہ یاد کرنے کا کہا پھر وہ بھی یاد کرنے لگا۔ محترم باباشیر ولی صاحب کی خواہش تھی کہ جب خدام فوجی ٹریننگ لے کر تیار ہوں تو اس وقت انہیں نماز باترجمہ ضروری آنی چاہیے۔محترم باباشیرولی صاحب نے اپنی آمد کے بعد محترم محبوب احمد صاحب کو بٹالین کوارٹر ماسٹر اور مجھے بٹالین حوالدار میجر مقرر کیا اور چند دن بٹالین کی پی ٹی کا پروگرام بنایا اور روزانہ آدھ سے پون گھنٹہ ورزش شروع کروائی۔ پھر آہستہ آہستہ اسے بڑھاتے رہے۔ پھر ڈرل، رائفل ایکسرسائز شروع کروادی۔ پھر ہر قسم کی ٹریننگ شروع ہوگئی۔ اس طرح فرقان بٹالین میں ایک نیا جوش پیدا کرتے ہوئے تمام جوانوں کو بڑا مستعد اور چوکس بنادیا تاکہ فوری حملہ کی صورت میں سب بھرپور کردار اداکرسکیں۔

پاکستان اوربھارت کے درمیان فائر بندی کے بعد ہارون بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر محترم کرنل افضل صاحب نے ایک ضروری میٹنگ بلوائی۔ جس میں ہر یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر ،ایجوٹنٹ اور بٹالین حوالدار میجر یا جمعدار کو شامل ہونے کا کہا۔وہاں میٹنگ میں انہوں نے بتایا کہ GHQ سے ایک آرڈر آیا ہے کہ آزاد کشمیر کی فوجوں کو مزید ٹریننگ دو۔ آپ بتائیں کہ آپ کو کس کس فیلڈ میں انسٹرکٹر کی ضرورت ہے۔ اس میٹنگ میں فرقان بٹالین کی طرف کمانڈنگ آفیسر محترم کرنل بابا شیر ولی صاحب ،مکرم میجر اسلم حیات صاحب ایجوٹنٹ اور خاکسار عبدالسلام بطور بٹالین حوالدار میجر شامل ہوا۔ محترم شیر ولی صاحب نے کہا کہ مجھے فرقان بٹالین کے لیے کسی انسٹرکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس سب موجود ہیں۔ محترم کرنل افضل صاحب پوچھنے لگے کہ آپ کا فوج کا کیا تجربہ ہے۔ اس پر محترم شیر ولی صاحب نے کہا میں خود انسٹرکٹر ہوں۔آپ بتائیں آپ کا فوج کا کیا تجربہ ہے وہ کہنے لگے میں پاکستان آرمی کا کرنل ہوں اور بیس سال میری سروس ہے۔ اس پر محترم شیر ولی صاحب نے کہا میں انڈین آرمی کا کیپٹن ہوں اور 34سال کا تجربہ ہے اور اس وقت فرقان بٹالین کا کمانڈنگ آفیسر ہوں۔ چنانچہ پروگرام کے تحت ٹریننگ کے لیے پانچ کیڈر قائم کیے گئے۔ تھری انچ مارٹر کے لیے کیڈر انسٹرکٹر مکرم غلام محمد صاحب جو سابق 8/15 پنجاب رجمنٹ سے تھے۔ ٹو انچ مارٹر کے لیے کیڈر انسٹرکٹر مکرم محمد اسماعیل خالد صاحب مقرر ہوئے( یہ بعد میں مغربی جرمنی چلے گئے) رائفل ٹریننگ کے انسٹرکٹر حوالدار نور احمد صاحب سابق 8/15 پنجاب رجمنٹ حال کیپٹن نور احمد ،برین گن کیڈر کے انسٹرکٹر حوالدار میجر نورالدین صاحب سابق8/15 پنجاب رجمنٹ اور فیلڈ کرافٹ کے لیے انسٹرکٹر خاکسار عبدالسلام کو مقرر کیا گیا۔ یہ پندرہ دن کا پروگرام تھا۔

ایک دفعہ بریگیڈ کی ایک سکیم تھی اس کے لیے فرقان بٹالین سے پاکستان آرمی نے امپائر مانگے۔ اس کام کے لیے مندرجہ ذیل کو مقرر کیا گیا۔

1) محترم جمعدار شیر احمد خان صاحب

2) محترم صوبیدار عطاء اللہ صاحب

3) محترم صوبیدار عبدالمنان صاحب

4) محترم جمعدار عجائب خاں صاحب

5) خاکسار عبدالسلام

یہ سب عہدیدار جب بھمبر پہنچے تو محترم کرنل محمد نواز صاحب سے ملے جو 2/8پنجاب رجمنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ امپائرز کے کمانڈر مقرر ہوئے۔ سب کو احکامات سنا کر مختلف یونٹوں میں بھجوادیا گیا۔ مکرم صوبیدار عبدالمنان صاحب کو 2/8پنجاب رجمنٹ کی اس کمپنی میں بھجوایا جس کی کمان میرے بڑے بھائی محترم صوبیدار حبیب الرحمان صاحب کررہے تھے۔ مجھے ایک بلوچ رجمنٹ کی ہیڈ کوارٹر کمپنی میں بھجوایاگیا۔ اور باقی ساتھیوں کو متفرق یونٹوں میں بھجوایاگیا۔یہ سکیم تین چار دن کی تھی۔ سکیم مکمل ہونے پر پھر سب امپائرزبھمبر میں اکٹھے ہوئے اور اپنی اپنی رپورٹ دےکر فرقان بٹالین میں واپس آگئے۔ اس وقت فرقان بٹالین کی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے پاکستان آرمی نے معائنہ کے لیے فرقان بٹالین کو امپائرنگ کا موقع دیا ۔

محترم بابا شیر ولی صاحب کے جانے کے بعد مکرم میجر مشتاق احمد صاحب ظہیر فرقان بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر مقرر ہوئے۔ محترم جنرل محمد ایوب خان صاحب چیف آف دی سٹاف ایک دفعہ فرقان بٹالین میں معائنہ کے لیے تشریف لائے۔ بعد میں فرقان بٹالین تخفیف میں آگئی اور فرقان بٹالین کو محاذ سے واپس آنے کا حکم مل گیا۔ فرقان بٹالین کانمبر 21آزاد کشمیر بٹالین تھا۔ جب فرقان بٹالین کو محاذ پر لے جایا گیا تھا وہ پگڈنڈیوں پر چل کر گئے تھے اور اب جب واپس بلایاگیاتو بذریعہ سڑک ٹرکوں میں سوار ہوکر واپس لوٹے۔ سرائے عالمگیر پہنچ کر فرقان بٹالین سے چارج لیا گیا۔ چارج دینے کے لیے فرقان بٹالین کی طرف سے مکرم کیپٹن فقیر محمد صاحب نگران اور خاکسار عبدالسلام نائب نگران مقرر ہوئے۔ اور چارج لینے کے لیے حکومت کی طرف سے محترم میجر محمد شفیع صاحب تھے۔ جوکہ احمدی تھے۔ پاکستان آرمی کے کمانڈنگ انچیف جنرل ڈگلس گریسی صاحب نے ایک چٹھی فرقان بٹالین کو دی۔ کمانڈر انچیف پاکستان کا پیغام جوانگریزی میں تھا اس کا اردو ترجمہ پیش ہے:’’آپ کی بٹالین خالص رضا کار بٹالین تھی جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ ان میں کسان بھی تھے اور مزدور پیشہ بھی ، کاروباری لوگ بھی تھے اور نوجوان طلباء واساتذہ بھی۔ وہ سب کے سب خدمت پاکستان کے جذبہ میں سرشار تھے ۔آپ نے اس قربانی کے بدلے میں جس کے لیے آپ میں سے ہر ایک نے اپنے آپ کو بخوشی پیش کیا کسی قسم کے معاوضہ اور شہرت ونمود کی توقع نہ کی۔آپ جس جوش اور ولولے کے ساتھ آئے اور اپنے فرائض کی بجاآوری کے لئے تربیت حاصل کرنےمیں جس ہمہ گیر اشتیاق کا اظہار کیا اس سے ہم سب متاثر ہوئے۔ ان تمام مشکل مراحل پر جو نئی پلٹن کو پیش آتے ہیں آپ کے افسروں نے بہت عبور حاصل کرلیا۔

کشمیر میں محاذ کا ایک اہم حصہ آپ کے سپرد کیا گیا اور آپ نے ان تمام توقعات کو پورا کردکھایا جو اس ضمن میں آپ سے کی گئی تھیں۔ دشمن نے ہوا پر سے اور زمین پر سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آ پ نے ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے اس کا مقابلہ کیا اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی آپ کے انفرادی اور مجموعی اخلاق کا معیار بہت بلند تھا۔ اور تنظیم کا جذبہ بھی انتہائی قابل تعریف!!

اب جبکہ آپ کا مشن مکمل ہوچکا ہے آپ کی بٹالین تخفیف میں لائی جارہی ہے۔ میں اس قابل قدر خدمت کی بنا پر جو آپ نے اپنے وطن کی انجام دی ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کرتاہوں۔ خداحافظ‘‘(تاریخ احمدیت جلد نمبر 5 صفحہ706جدید ایڈیشن مصنفہ محترم مولوی دوست محمد شاہد)

چارج دینے کے بعد محترم بریگیڈیر کے ایم شیخ صاحب نے آرمی چیف کا مذکورہ بالا پیغام پڑھ کر سنایا اور آخری پریڈ کی سلامی لے کر 17؍جون 1950ء کو فرقان بٹالین کو رخصت کیا۔ اور تمام سرکاری چیزیں گن کر واپس کردی گئیں اور فرقان بٹالین کی ربوہ واپسی کے لیے حکومت نے 20؍جون 1950ء کو ایک سپیشل ٹرین جہلم سے ربوہ تک مہیا کی۔ جس میں فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس ،انٹر کلاس اور تھرڈ کلاس کی بوگیاں تھیں۔ پانی کے لیے برف کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ اس گاڑی کے ربوہ پہنچنے کے لیے پہلے سے اطلاع کردی گئی تھی۔ گاڑی کے ربوہ پہنچنے پر ریلوے اسٹیشن پر محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب امیر مقامی ربوہ( ان دنوں حضرت مصلح موعودؓ کوئٹہ تشریف لے گئے تھے) ،محترم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ،ناظران صدر انجمن احمدیہ،وکلاء تحریک جدید انجمن احمدیہ اور ربوہ کے احباب نے فرقان بٹالین کے سب جوانوں کا استقبال کیا اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ حضور کی خدمت میں کوئٹہ فرقان بٹالین کی ربوہ واپسی کی اطلاع دی گئی تو حضور نے فرمایا تمام فرقان بٹالین تین دن تک میری مہمان ہوگی۔ تین دن حضورِ انور کی طرف سےتمام فرقان بٹالین کو کھانا کھلایا گیا۔ تین دن کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے لنگر خانے کے مہمان بنے۔ فرقان بٹالین کے لیے حضور نے مزید یہ ہدایت فرمائی کہ میرے ربوہ واپس آنے تک ان کو فارغ نہ کریں۔ میں خودآکر انہیں فارغ کروں گا۔ بعد میں صدر انجمن احمدیہ نے حضور کی اجازت سے ہمارے کھانے کے لیے کچھ رقم بطور الاؤنس مقرر کردی۔ آغاز میں توجامعۃ المبشرین میں ٹھہرے۔ بعد میں جامعہ کھل جانے پر فرقان بٹالین کے لیے بیرکس بنالی گئیں جن میں جوان رہنے لگے۔ یہ موجودہ مسجد قمر محلہ دارالصدر غربی والی جگہ تھی۔ ربوہ کے قیام کے دوران میری ڈیوٹی کوارٹر ماسٹر کی تھی۔اور کھانے کی ذمہ داری میرے سپرد ہی تھی۔ میں نے دودھ کے لیے اردگرد کے دیہات میں جوان بھجواکر انتظام کرلیا اور چک نمبر 54 جنوبی ضلع سرگودھا جاکر وہاں سے گندم خریدی اور انہیں ربوہ پہنچانے کا کہہ دیا اور وہاں سے لالیاں آکر سبزی اور گوشت لے لیا اور آئندہ کے لیے انہیں کہہ دیا کہ ہمارا آدمی ربوہ کے لاری اڈہ پر آپ سے روزانہ لے لیا کرے گا۔ اسی دن شام کو ڈاور گیا۔ وہاں محترم خان محمد صاحب (مہاجر چک لوہٹ ضلع لودھیانہ) سے جو کہ لکڑی کا کاروبار کرتے تھے سوکھی لکڑی کا ایک گڈا لے لیا اور اسے ربوہ بھجوانے کا کہہ کر ربوہ واپس آگیا۔دوسرے دن تمام چیزیں ربوہ پہنچ گئیں اور باقاعدہ فرقان بٹالین کا اپنا لنگر خانہ جاری ہوگیا۔

حضورؓ ابھی کوئٹہ میں ہی مقیم تھے کہ دریائے چناب میں ایک بہت بڑا سیلاب کا ریلہ آیا جو تین چار دن میں یہاں ربوہ سے گزرا۔اس کے نتیجے میں ربوہ کے غربی جانب ریلوے لائن اور سرگودھا لائل پور مین روڈ دونوں ٹوٹ گئے۔اور ربوہ کا زمینی رابطہ سرگودھا سے ختم ہوگیا۔ سیلاب کے ان دنوں میں فرقان بٹالین کے جوانوں نے ربوہ کے خدام کے ساتھ مل کر سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا اورا ن لوگوں کے کھانے کے لیے لنگر خانہ حضرت مسیح موعود ؑسے انتظام کردیا گیا۔ اس وقت حضور ؓکے کوئٹہ جانے کی وجہ سے امیر مقامی ربوہ محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تھے۔ PWD والوں ( حکومت کا وہ محکمہ جو شاہرات(سڑکوں) کا انتظام کرتا ہے) نے محترم امیر صاحب مقامی ربوہ سے درخواست کی کہ اگر ہماری مدد وقارعمل کے ذریعہ سے کردیں تو ہم ربوہ سرگودھا روڈ عام ٹریفک کے لیے کھول سکتے ہیں۔ چنانچہ اس دن ربوہ میں عام تعطیل کردی گئی۔ تمام دفاتر، سکول اور دکانیں بند کردی گئیں۔ او رتمام ربوہ کے لوگ ان کی مدد کے لیے مین سرگودھا روڈ پر جمع ہوگئے۔ اس وقت ربوہ کے تین محلے الف بلاک ۔ ب بلاک اور ج بلاک تھے۔ اور چوتھا محلہ فرقان بٹالین کے جوانوں اور جامعۃ المبشرین کے طلباء پر مشتمل تھا۔ سب سے زیادہ مٹی ڈالنے والی جگہ فرقان بٹالین کے سپرد ہوئی ۔ کیونکہ وہ سب جوان تھے۔ تمام دن کام ہوتا رہا اور ان کام کرنے والوں کو لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوپہر کا کھانا ملا۔ اورسڑک مکمل ہونے پر اسے عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔

اس کے بعد محکمہ ریلوے کا ایک وفد محترم امیر صاحب مقامی ربوہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے درخواست کی کہ ریلوے پٹڑی کی مرمت کے لیے مدد دی جائےتاکہ ریلوے بھی بحال کردی جائے۔چنانچہ محترم امیر صاحب مقامی ربوہ کی ہدایت پر ایک مرتبہ پھر عام تعطیل کا اعلان کردیا گیااور تمام ربوہ میں کاروبار زندگی معطل ہوگیا۔ ربوہ کے تمام افراد ریلوے لائن پر مٹی ڈالنے والی جگہ پر جمع ہوگئے۔ اس عظیم الشان وقارعمل میں بھی زیادہ مٹی ڈالنے والی جگہ فرقان بٹالین کے حصہ میں آئی۔ تمام دن کام ہوتا رہا۔ حسب معمول تمام کام کرنے والے لوگوں کو دوپہر کا کھانا لنگر خانہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے ملا۔ نماز عصر کے قریب کچھ آدمی تھکنے لگے۔ چند منٹ وقفہ کیا گیا۔ اس کے بعدپھر مٹی بھرنی شروع کی۔ اس طرح کام میں ایک بار پھر تیزی آگئی۔ ریلوے کے انجینئرز صاحبان وہاں موجود تھے۔ انہوں نے مٹی کی پیمائش کرکے بتایا کہ الف بلاک کے احباب نے اڑھائی لاکھ مکعب فٹ مٹی ڈالی ہے اور ب بلاک کے احباب نے تین لاکھ مکعب فٹ مٹی ڈالی اور ج بلاک کے احباب نے تین لاکھ پچاسی ہزار مکعب فٹ مٹی ڈالی ہے اور فرقان بٹالین اور جامعۃ المبشرین والے محلہ نے چارلاکھ پینسٹھ ہزار مکعب فٹ مٹی ڈالی ہے۔ کام مکمل ہونے پر چنیوٹ سرگودھا ریلوے لائن پر ٹرین سروس بحال ہوگئی۔ ہر دو روز میں فرقان بٹالین کو پندرہ پندرہ روپے انعام ملا۔ اب فرقان بٹالین کے دوست سوچ رہے تھےکہ یہ رقم کیسے خرچ کی جائے۔ مشورہ کے بعد طے پایا کہ حضورِ انور کی ربوہ واپسی پر فرقان بٹالین کی طرف حضور کی چائے کی دعوت کی جائے اس میں یہ رقم بھی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حضور کی ربوہ آمد کے بعد حضور کی خدمت میں چائے کی دعوت کے لیے عرض کیا گیا تو حضورؓ نے ازراہِ شفقت قبول فرمالیا۔ اس وقت ربوہ کی یہ حالت تھی کہ دعوت کے لیے یہاں سے مٹھائی نہ مل سکتی تھی۔ مجبوراً مٹھائی کے لیے آدمی کو لائل پور بھجوایا گیا۔ جب دعوت کے تمام انتظامات مکمل ہوگئے تو حضور کی طبیعت خراب ہوگئی۔اور پیغام آیا کہ میں نہیں آسکتا جس سے سب جوانوں کو سخت پریشانی ہوئی۔ تمام نوجوانوں نے خداتعالیٰ کے حضور دعاجاری رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن لی اور کچھ دیر کے بعد اچانک حضور کی کار آتی دکھائی دی۔ سب جوانوں کی جان میں جان آئی۔ سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا۔ حضورؓ کے ساتھ محترم صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظراعلیٰ،محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تشریف لائے۔ کار ڈرائیونگ کی سعادت محترم قریشی نذیر احمد صاحب کے حصہ میں آئی۔ حضور کی آمد سے قبل تمام ناظران صدرانجمن احمدیہ،وکلاء تحریک جدید انجمن احمدیہ بھی آچکے تھے۔ حضور نے آتے ہی فرمایا طبیعت تو خراب تھی۔ میں نےسوچا بچوں کی دلجوئی کے لیے تھوڑی دیر کے لیے چلا جاؤں۔ اس لیے میں آگیا ہوں۔ چائے سے فارغ ہونے کے بعد ایک نوجوان نے قرآن کریم کی تلاوت کی۔ اس کے بعد مکرم محمد اسماعیل خالد صاحب نے حضوؓر کی نظم

تعریف کے قابل ہیں یارب تیرے دیوانے

آباد ہوئے جن سے دنیا کے ہیں ویرانے

خوش الحانی کے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد حضور رضی اللہ عنہ نے مختصر خطاب فرمایا:’’یہ میری 1942ء کی نظم ہے۔ اس وقت کسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ پاکستان بن جانا ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے منہ سے وہ بات نکلوادیتاہے جس کا اس کے بندے کو بھی علم نہیں ہوتا۔ اور بعد میں وہ بات اللہ تعالیٰ پوری کردیتا ہے۔ تم فرقان بٹالین والے سب میرے گواہ ہو کہ میں نے اسلام کی جنگوں کا آغاز کردیا ہے۔ اور آپ لوگ جو آج اپنے گھروں کوو اپس جارہے ہو یہ مت سمجھو کہ ہم واپس جارہے ہیں۔ بہت جلد تمہیں واپس بلایا جائے گا۔ اب تو ایک فرقان (بٹالین) ہو۔ جب تم دوبارہ آؤ گے تو کئی فرقان (بٹالین) ہوگے۔ تم وعدہ کرو کہ اکیلے نہیں آؤ گے بلکہ پندرہ پندرہ آدمی ساتھ لے کر آؤ گے۔‘‘ پھر حضور نے دعا کروائی او رچند آدمی روک کر باقی سب کو گھروں میں جانے کی اجازت مل گئی۔

مجھے بھی اراضی سندھ جانے کا حکم مل گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر حضور سے عرض کیا کہ حضور اگر پسند فرمائیں تو دو ماہ کی رخصت دے دیں۔ اسی طرح محترم چودھری عبدالمالک صاحب،محترم سید جواد علی شاہ صاحب، محترم عبداللطیف صاحب پریمی اور محترم مولوی عبدالقدیر صاحب یہ سب جامعۃالمبشرین کے طلباء تھے نے بھی حضورؓ سے عرض کی کہ ہمیں ایک ماہ کی رخصت دی جائے۔ اس پر حضور نے فرمایا یہ سب رخصت مانگنے والوں کو دو دو ماہ کی رخصت دی جاتی ہے۔ میں نے رخصت اس لیے مانگی تھی کہ جلسہ سالانہ 1950ء میں شرکت کرسکوں۔ اس کے بعدیکم جنوری 1951ء کو تو اپنی ڈیوٹی پر اراضی سندھ چلے جانا تھا۔ یہاں سے فارغ ہوکر میں کچھ دنوں کےلیے اپنےچک 88ج ب ہسیانہ ضلع لائلپور چلا گیا۔ جلسہ سالانہ 1950ء میں شرکت کی اور حضورِ انور سے ملاقات کی۔

میری زندگی کے وہ لمحات جو میں نے حفاظت ِمرکز قادیان کی ڈیوٹی کرتے ہوئے گزارے اور وہ لمحات جو میں نے وطنِ عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے فرقان بٹالین میں گزارے بے حد یاد گار لمحات ہیں۔ میں نے قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار نشان دیکھے جن سے ایمان تازہ ہوتا ہے اور اخلاص بھی بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری یہ دونوں خدمات قبول فرمائے اور میرے لیے اور میرے تمام ساتھیوں کے لیے اپنے فضل نازل فرماتا رہے۔

فرقان بٹالین کے چند معروف ساتھی :محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب۔ محترم بابا شیر ولی صاحب۔ محترم میجر عبدالوہاب صاحب۔ محترم میجر اسلم حیات صاحب۔ محترم قریشی فیروز محی الدین صاحب۔محترم مولوی محمد صدیق صاحب۔ محترم چودھری فیروزالدین صاحب امرتسری۔ محترم شیر احمد خان صاحب ۔محترم صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی۔ محترم چودھری اعجاز احمدصاحب۔ محترم عبدالواحد صاحب۔ محترم محمد اشرف صاحب۔ محترم عبداللطیف صاحب پریمی ۔ محترم نور احمد صاحب۔ محترم چودھری عبدالمالک صاحب۔ محترم مشتاق احمد ظہیر صاحب۔ محترم مولوی عبدالقدیر صاحب۔ محترم صوبیدار چودھری محمد عبداللہ صاحب۔ محترم عطاء اللہ صاحب۔ محترم مولوی سردار احمد صاحب۔ محترم فقیر محمد خان صاحب۔ محترم محمد اقبال صاحب۔ محترم چودھری عنایت اللہ صاحب۔ محترم چودھری محبوب احمد صاحب۔ محترم محمد خاں صاحب۔ محترم مولوی خلیل الرحمان خان صاحب پشاوری۔ محترم برکات احمدصاحب آف منٹگمری۔ محترم بشیرا حمد صاحب گجراتی۔ محترم محمد شفیع صاحب زبیر۔ محترم مولوی محمد یوسف صاحب راجوری۔ محترم مولوی محمد اسماعیل صاحب دیالگڑھی۔ محترم مولوی محمد احمد صاحب جلیل۔ محترم حافظ شفیق احمد صاحب۔ محترم رانا ناصر احمد صاحب کاٹھ گڑھی۔ محترم چودھری صالح محمد صاحب سندھی۔ محترم حوالدار رانا ناصر احمد صاحب ۔ محترم بشیرا حمد سندھی صاحب محترم رانا محمد دین صاحب۔ محترم فضل احمد صاحب۔ محترم محمد رمضان صاحب خادم۔ محترم گلزار احمد صاحب۔

اب میں حضرت مصلح موعودؓ کے اس اہم خطاب پر فرقان بٹالین کے حوالے سے اپنے اس مضمون کو ختم کررہا ہوں جس میں حضور نے فرقان بٹالین کی تاریخ پر مختصر جائزہ پیش کرکے جماعت کو اس میں شامل ہونے کی تحریک فرمائی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس مشاورت ربوہ منعقدہ 7تا9؍اپریل 1950ء میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’میں نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جماعت میں تحریک کی تھی کہ ہمیں خداتعالیٰ نے کشمیر کے معاملہ میں لڑائی کا فن سیکھنے کا ایک نہایت اعلیٰ درجے کا موقع عطا فرمایا ہے۔ اگر پاکستانی احمدی وہاں کثرت سے جائیں تو آئندہ انہیں اپنی طاقتوں کے صحیح استعمال کا بہترین موقعہ مل سکتا ہے۔ میری اس تحریک پر بہت سے دوست گئے۔ انہوں نےفوجی ٹریننگ میں حصہ لیا۔ نیک نامیاں حاصل کیں۔ دوسروں کے لئے اچھا نمونہ قائم کیا۔ اورہمیں امید پیدا ہوئی کہ آئندہ پیش آنے والے خطرات میں وہ اپنے ملک اور قوم کی اعلیٰ درجہ کی خدمت سرانجام دے سکیں گے۔ اور یہ بات ایسی نہیں تھی کہ میں نے تم کو کہا ہو اور خود اس پر عمل نہ کیا ہو۔ میرے قریباً سارے لڑکے سوائے اس لڑکے کے جو ہندوستان میں ہے کیونکہ وہ ہندوستان کا باشندہ ہے او ر اس کے لئے اس تحریک میں حصہ لیناہمارے مسلک اور طریق کے مطابق ناجائز ہے۔ اسے بہر حال ہندوستان حکومت کا وفادار رہنا چاہئے۔ یا سوائے ایک چھوٹے بیٹے کے جو بالغ نہیں ہے۔ باقی سب کے سب وہاں سے ہو کرآئے ہیں۔ پس یہ نہیں کہ دوستوں کو میں نے کوئی ایسی بات کہی ہو جس سے میں نے اپنوں کو بچایا ہو۔ بلکہ میرے بعض بچے وہاں اُس وقت کام کرکے آئے ہیں جبکہ صرف رات کے وقت وہ سفر کرسکتےتھے دن کو گولہ باری ہوتی رہتی تھی۔رستے دشوار گزارتھے۔ اور سامان وغیرہ بھی اپنی پیٹھوں پر لاد کر لےجانا پڑتا تھا۔ اب تو ٹرک آنے جانے لگ گئے ہیں۔ اور انتظام زیادہ عمدہ ہوگیا ہے…اب ہمارے ملک کے حالات نہایت ہی نازک مرحلہ پر پہنچ چکےہیں۔ حکومت ان باتوں کو چھپاتی ہے۔ اور اس کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ ان باتوں کو چھپائے۔ ورنہ دوسری قوم شور مچادے کہ مسلمانوں کو لڑائی کے لئے برانگیختہ کیا جاتاہے۔ لیکن حالات کی نزاکت ہےکوئی شخص انکار نہیں کرسکتا… قادیان میں رہتے ہوئے ہمارے لئے ایک مشکل تھی ورنہ ان دنوں میں بھی ہم پسند کرتے کہ دشمن سے لڑکر مرجائیں۔ اور وہ مشکل یہ تھی کہ ہمیں حکومت سے لڑنا پڑتا تھا۔ اور حکومت سے لڑنا ہمارے مذہب میں جائز نہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے ہمارا پیچھے ہٹنا حرام اور قطعی حرام ہوتا۔ اگر حکومت سے مقابلہ نہ ہوتا۔ مگر چونکہ وہاں ہماری جنگ لوگوں سے نہیں ہوتی تھی بلکہ حکومت کے نمائندوں سے ہوتی تھی۔ اور یہ چیز شرعاً ہمارے لئے جائز نہ تھی۔ اس لئے ہم نے مقابلہ نہ کیا ورنہ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو ہر شخص جو قادیان سے بھاگ کر آتا خواہ میں ہوتا یا کوئی اور ہوتا بھگوڑا اور باغی ہوتا۔ مگر چونکہ خدا کا حکم تھا کہ حکومت سے نہیں لڑنا۔ اس لئے ہم پیچھے ہٹ گئے… اب حالات مختلف ہیں۔ اب اگر پاکستان سے کسی ملک کی لڑائی ہوگی تو حکومت کے ساتھ ہوکر ہمیں لڑنا پڑے گا۔اور حکومت کی تائید میں ہمیں جنگ کرنی پڑے گی۔ اس لئےاب پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔

بہترین طریق یہی تھا کہ محاذِ کشمیر پر تین تین ماہ کے لئے ہماری جماعت کے جوان جاتے اور فوجی ٹریننگ حاصل کرکے آجاتے… جو لوگ فوجی خدمت سرانجام دے رہے ہیں ان میں سے سوا سو کے قریب تو ایسے ہیں جن کو ہم گزارہ دیتے ہیں۔لیکن بہت کم۔ درحقیقت یہ لوگ بڑے نیک ہیں۔ بڑی قربانی کرنے والے ہیں اور سالہا سال سے اس فرض کو ادا کررہے ہیں۔ اور پھر اپنے عہدوں کے لحاظ سے بعض پانچواں، بعض چھٹا اور بعض ساتواں حصہ گزارہ لے رہے ہیں۔ میں نے خود گورنمنٹ کی ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی لوگ جو یہاں پر کام کررہے ہیں وہ صرف نام کا گزارہ لے رہے ہیں۔ اسی طرح مثلاً سپاہی ہیں۔ ان میں سے بعض کو بیس بیس روپے مل رہے ہیں۔ آفیسر جو کمانڈکرتا ہے اسے سو روپے مل رہے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ فوج میں ہوتا تو اسے ہزار روپیہ ملتا۔ غرض انتہائی قربانی کے ساتھ یہ لوگ کام کررہے ہیں۔ اور پھر فوجی ٹریننگ میں بھی یہ لوگ کسی سے پیچھے نہیں۔ چنانچہ فوجی افسروں کی رپورٹ ہے کہ ان لوگوں کو عام سپاہیوں سے کسی طرح کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے لئے فخر کا بھی موجب ہیں…لازماً اپنے ملک کی عزت کی حفاظت کے لئے اس وقت موقع پیدا ہوا ہے۔ اس میں تمہیں حصہ لینا پڑے گا۔ کیونکہ یہ تغیّر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اسلام کی آئندہ ترقی کے لئے زیادہ قربانیاں ہم کو ہندوستان میں دینی ہوں گی یا افریقہ میں۔ لیکن فرض کرو افریقہ میں پیش آتی ہیں تووہاں کے احمدی ہمارا نمونہ دیکھیں گے۔ اگر ہم اِس وقت اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے تو ہم اُن سے کہہ سکیں گے کہ پاکستان میں ہم کو دینی جہاد کا موقعہ تو ملا۔لیکن ہماری دنیوی حکومت پر یا ہمارے ملک اور قوم پر جب حملہ ہوا تو ہم نے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کو قربان کردیا یہ نمونہ ہے۔جس سے سبق سیکھیں گے اور اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے آگے بڑھیں گے…ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ قربانی ہمیں سب سےپہلے کس ملک میں پیش کرنی پڑے گی۔ ممکن ہے ایشیاء میں پیش کرنی پڑے یا ایشیاء سے باہر پیش کرنی پڑے۔ بہر حال ہمیں اس وقت اچھانمونہ دکھانا پڑے گا۔ اگرہم اچھا نمونہ نہیں دکھائیں گے تو کبھی بھی ہم دوسرے ملکوں کےلئے نیک روایات قائم نہیں کرسکیں گے۔‘‘(رپورٹ مجلس مشاورت ربوہ 1950ء صفحہ10تا20)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button