حضرت مصلح موعود ؓ

اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کا مصداق بننا چاہیے (قسط نمبر2۔ آخری)

(خطبہ جمعہ از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ17؍نومبر1933ء)

تو صحابہ میں اَور بھی کئی صدیق تھے۔ حضرت ابوبکرؓ تو ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ بعد میں شہید ہوئے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ وفات کے قریب تک محبت سے ان کا ذکر کرتے رہے۔ حتّٰی کہ جب آپ کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم کی وفات کا وقت آیا۔ تو آپ نے انہیں اپنی گود میں لیا۔ اس وقت آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ نے کہا۔ جا! اپنے بھائی عثمان کے پاس۔ (الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد 3 صفحہ 165دارالکتب العلمیة بیروت 1955ء)

مَیں بتا رہا تھا کہ مومن کے اندر ایک طرف تو اتنی شدت ہوتی ہے کہ دوسرے کا اثر اس پر ہو ہی نہیں سکتا اور دوسری طرف ایسی نرمی ہوتی ہے کہ گویا اثر پہلے ہی پڑا ہوا ہوتا ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لوگ عام طور پر کمزور طبیعت کا انسان سمجھتے تھے۔ مگر موقع پر معلوم ہوتا ہے کہ دین و مذہب کے بارہ میں آپ کے اندر کس قدر سختی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں مَیں بھی آپ کو کمزور طبیعت کا ہی سمجھتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب سارے عرب میں بغاوت پھیل گئی اور لوگوں نے زکوٰة کی ادائیگی سے انکار کردیا تو میں نے آپ سے کہا کہ بہتر ہے کہ کچھ دنوں کے لئے زکوٰة لینی چھوڑ دی جائے۔ جب لوگ ٹھنڈے ہوجائیں گے تو پھر ان کو سمجھا کر اس پر آمادہ کر لیاجائے گا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے خاص طور پر میری طرف دیکھا۔ آپ کے والد کا نام ابوقحافہ تھا۔ اور وہ اگرچہ خاندانی آدمی تھے لیکن مالی لحاظ سے ان کی حالت غربت کی تھی۔ اس لئے خاندانی ہونے کے باوجود انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہ تھی۔ اور حضرت ابوبکرؓ جب اپنی تحقیر کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو ابن ابی قحافہ کہتے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے توجہ سے میری طرف دیکھا اورکہا۔ کیا ابنِ ابی قحافہ کی طاقت اتنی ہے کہ جس چیزکو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری کیا اسےبند کر دے۔ خدا کی قسم ! جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اونٹ کی ایک رسّی بھی دیتا تھا وہ اب اگرانکار کرے گا تو مَیں اس کے لئے بھی اس کے ساتھ جنگ کروں گا۔ عمر! یہ مت خیال کرو کہ ہم تھوڑے ہیں۔ اگر دشمن مدینہ کے اندر بھی آجائیں اور کتے ہماری عورتوں کی لاشوں کو گھسیٹتے پھریں تو بھی مَیں زکوٰة نہ چھوڑوں گا۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت مَیں نے خیال کیا۔ واقعی شیخ بڑا بہادر ہے۔ (تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 70 مطبوعہ لاہور 1870ء)حضرت عمرؓ محبت کی وجہ سے آپ کو شیخ یعنی بوڑھا کہہ دیا کرتے تھے۔ اور بعد کے واقعات نے بتا دیا کہ اُس وقت کی ذرا سی کمزوری کس قدر نقصانات کا موجب ہوسکتی تھی۔ غور کرو جو شخص مومن کی ذرہ بھر کی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا وہ دوسری طرف دین و مذہب کے معاملہ میں اپنے اندر کس قدر سختی رکھتا ہے کہ تمام ملک کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا۔ بڑے بڑے بہادر گھبرا اُٹھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صلح کر لی جائے مگر وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ تو جو بات کامیاب کرتی ہےوہ یہی ہے کہ آپس میں محبت ہو۔ مگر جہاں مخالف یا منافق مقابلہ پر آجائے، مومن اس کی بات نہ سن سکے۔ بہت لوگوں کو مَیں نے دیکھا ہے کہ وہ کسی کافر یا منافق کی حمایت کریں گے اور احمدی کی مخالفت۔ جب کسی نے ان سے کہا کہ فلاں احمدی نے مجھے یہ نقصان پہنچایا تو وہ فوراًمان جائیں گے۔ اور اس کی حمایت کرتے ہوئے احمدی کی مخالفت شروع کر دیں گے۔ وہ جھٹ کہنے لگ جائیں گے کہ واقعی اس پر بڑا ظلم ہوا۔ حالانکہ مومن کو چاہیئے کہ اپنے بھائی کے متعلق حسن ظنی سے کام لے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ بات سنانے والے پر ضرور بدظنی کرو۔ لیکن وہ جو بدظنی پیدا کرتا ہے اس کی بات کو بھی بغیر تحقیقات کے نہ مان لو۔ حسن ظنی نیکی اور احسان پہلے گھر سے شروع ہونا چاہیئے۔ بدظنی سے اسلام نے روکا ہے۔ لیکن جب دو میں سے کسی ایک پر کرنی پڑے تو جسے اللہ تعالیٰ نے ایمان کی توفیق عطافرمائی ہے، اس میں کوئی نہ کوئی خوبی زیادہ ماننی پڑے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہی غلطی پر ہو لیکن پہلے تو اس پر حسن ظنی ہونی چاہیئے۔ ہاں جب معلوم ہوجائے کہ وہ واقعی زیادتی کر رہا ہے تو پھر اس کو روکنا چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اپنے بھائی کی خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم مدد کرو۔ (بخاری کتاب المظالم باب اعن اخاک ظالمًا او مظلومًا)اور صحابہ کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ظالم کو ظلم سے روکنا اس کی مدد کرنا ہے۔ لیکن جب تحقیق سے اپنے بھائی کاغلطی پر ہونا معلوم نہ ہوجائے، اس وقت تک خیال کی بنیاد لازماً حسن ظنی پر ہونی چاہیئے۔ اور اگر دوست اس اصل پر عمل شروع کر دیں تو بہت سے فتنے مٹ جائیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک شخص عبداللہ چرخی تھا۔ اس کے پاس اگر کوئی بیٹھتا تو ہمارے بعض دوست گھبراتے کہ کہیں کوئی اثر قبول نہ کر لے۔ حالانکہ اگر کسی پر ایسی باتوں کا اثر ہوتا ہے تویہ ہماری کمزوری اور ہماری تربیت کا نقص ہے کہ اس کے اندر صدِّیقیَّت کا مادہ نہیں پیدا کر سکے۔ انسان کے اندر جب ایمان کی طاقت ہو تو وہ کسی مخالف کے اثر کو قبول کر سکتا ہی نہیں۔ کئی اعتراضات ایسے ہوتے ہیں جو ہم نے کبھی سنے نہیں۔ مگر جب وہ ہم پر کئے جاتے ہیں تو جواب اللہ تعالیٰ فوراً سمجھا دیتا ہے۔ کبھی کسی بڑے سے بڑے لائق اور فاضل انسان کی طرف سے اسلام پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا گیا جسے سن کر ہم یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہوں کہ اچھا اس پر غور کریں گے، فوراً اس کا جواب سوجھ جاتا ہے۔ تو ایمان کی کھڑکیاں جب کھلی ہوئی ہوں تو کوئی مخالف طاقت اپنا اثر کر نہیں سکتی۔ مومن کا فرض ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بزرگی دی اور ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی ان کی بات کی طرف زیادہ توجہ دے۔ اور اگر ایسا کیا جائے تو سب فتنے مٹ جائیں۔ فتنے دراصل پیدا ہی اس طرح ہوتے ہیں کہ منافقوں کی باتوں پر ایمان لایا جاتا ہے۔ ہم یہ تو مان سکتے ہیں کہ کسی کو کوئی ایسا معاملہ پیش آیا جو سچا تھا۔ اور اس سے اسے ابتلاء آگیا۔ لیکن یہ کہ جو شخص صبح کو بدظن ہوا، شام کو اس کا مقصد اصلاح ہوگیا یہ خیال کرنا بیوقوفی ہوگی۔ ہر کفر کی ہوا سے دب جانا اور ایمان کی ہوا سے کھڑاہوجانا کوئی خوبی نہیں ہوسکتی۔ اور ایسے شخص کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص سؤر بیچنے کے لئے گھر سے چلا۔ راستہ میں ایک کھمبے کےساتھ اسے باندھ کر خود قضائے حاجت کے لئے گیا۔ اس کھمبے کی تختی کمزور تھی۔ سؤر نے جو زور لگایا تو وہ دوسری طرف ہوگئی اور اس کا رُخ بدل گیا۔ وہ جب آیا تو بغیر اس کے کہ وہ غور کرتا کہ مَیں کدھر سے آیا تھا اور کدھر کو جا نا ہے۔ اس نے سؤر کو کھولا اور جس طرف تختی کا رُخ تھا اسی طرف لے کر چل پڑا۔ آخر جب گھر پہنچا تو کہنے لگا۔ مَیں نے ساری دنیا کا سفر کر لیا ہے اور زمین گول ہونے کی وجہ سے پھرگھر آگیا ہوں۔ تو ایسے لوگ محض تختی کے اُلٹے جانے سے اُلٹے چل پڑتے ہیں اور آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے۔ اس قسم کی فطرت ہمیشہ نقصان کا موجب ہوتی ہے۔ جس شخص کے دل کی کھڑکیاں کفر کی طرف سے بند ہوں، اس کے اندر کفر کی بات داخل ہی کیسے ہوسکتی ہے۔ اور ایمان اس کے اندر داخل ہونے سے کس طرح رہ سکتا ہے۔ کمرہ سے باہر دری جھاڑی جائے تو کمرہ کے اندر کی ہر چیز پر گرد نظر آتی ہے۔ پھر سوچنا چاہیئے کہ ایمان ہی ایسی کمزور چیز ہے کہ کھڑکیاں کھلی ہوں اور وہ اندر نہ آسکے۔ حالانکہ ایمان نہایت لطیف چیز ہے۔ اور ہر لطیف چیز زیادہ پھیلتی ہے۔ اگر کسی نے ایمان کی طرف کی کھڑکی کھولنی ہو تو اس کا یہی طریق ہے کہ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ پر عمل کرے۔ ایساانسان خطرہ سے باہر ہوجاتا ہے۔ اسے اگر دشمنوں میں بھی پھینک دو تو وہ ان میں سے بھی بعض کو اپنے ساتھ لے آئے گا۔ اس پر کوئی اثر نہ ہوگا اور اگر مومنوں میں ہو تو اور بھی بڑھتا اور ترقی کرتا جائےگا۔ پس جو لوگ اپنے ایمان کی اصلاح چاہتے ہیں انہیں چاہیئے کہ اس آیت پر غور کریں۔ اور اپنے رشتہ داروں، بھائیوں، دوستوں، افسروں، ماتحتوں غرضیکہ کسی موقع پر جب مذہب اور تصدیق کلمات و نشانات الٰہیہ کامعاملہ ہو تو کسی کی پرواہ نہ کریں۔ اور اپنے آپ کو ان کی باتوں سے بالکل متأثر نہ ہونے دیں۔ ہاں جب کوئی دینی معاملہ ہو تو ان کے دلوں کی کھڑکیاں بالکل کھلی ہوں تا اللہ تعالیٰ کا نور ان کے اندر داخل ہوسکے۔

(الفضل23نومبر1933ء)

(خطبات محمود جلد14صفحہ 279تا 287)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button