متفرق مضامین

فرقان بٹالین(قسط دوم)

(از قلم محترم چودھری عبد السلام صاحب، واقفِ زندگی)

فرقان بٹالین کا ڈیفنس ایریا قریباً چار میل چوڑا تھا۔ دن اور ات کو میں اور محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی متعدد بار اپنے جوانوں کو چیک کرتے رہتے تھے کہ وہ ہوشیار رہیں۔اسی طرح ہر کمپنی کمانڈر اور پلاٹون کمانڈر بھی وقتاً فوقتاً ان کی چیکنگ کرتے رہتےتھے

فرقان بٹالین کی پانچ کمپنیاں بنائی گئیں

(1)نصرت کمپنی (2)برکت کمپنی (3) تنویر کمپنی (4) شوکت کمپنی(5) عظمت کمپنی(یہ ہیڈ کوارٹر کمپنی تھی)

ہر کمپنی کے کمانڈر کا عہدہ کیپٹن تھا۔

1) نصرت کمپنی کے پہلے کمانڈر مکرم کیپٹن نذیر احمد صاحب (سابق صوبیدار 16پنجاب رجمنٹ )

2) برکت کمپنی کے پہلے کمانڈر مکرم کیپٹن راجہ عبدالحمید صاحب ( پاکستان آرمی میں لیفٹیننٹ تھے)

3) تنویر کمپنی کے پہلے کمانڈر مکرم کیپٹن فقیر محمد صاحب پاکستان آرمی میں جمعدار ( نائب صوبیدار تھے)

4) شوکت کمپنی کے پہلے کمانڈر مکرم کیپٹن نعمت اللہ شریف صاحب (پاکستان آرمی میں تھے)

5) عظمت کمپنی کے پہلے کمانڈر مکرم کیپٹن عطاء اللہ صاحب (سابق صوبیدار 8/15 پنجاب رجمنٹ)

خداتعالیٰ کے فضل سے ہر فیلڈ کے احمدی انسٹرکٹر موجود تھے جن کی بدولت فوری طور پر ٹریننگ کا آغاز کردیا گیا۔ تاہم ابھی تک کسی بھی جگہ سے تھری انچ مارٹر کے لیے انسٹرکٹر کا ملنا محال تھا۔ اس سلسلے میں محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی ٹریننگ کے آغاز میں ہی محترم بریگیڈیر کے ایم شیخ صاحب سے ملے اور ان سے درخواست کی کہ تمام انسٹرکٹر تو مل گئے ہیں تاہم تھری انچ مارٹر کےلیے کوئی انسٹرکٹر نہیں ملا۔ اس کا انتظام کروادیں۔ اس وقت پاکستان آرمی میں بھی تربیتی سٹاف کی بہت کمی تھی۔ اس لیےبریگیڈ سے انتظام نہ ہوسکا۔ چنانچہ محترم میجرمحمد حیات صاحب اپنے کیمپ میں واپس آگئے۔وہ بے حد پریشان تھے۔اورپریشانی کی وجہ سے دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھارہے تھے۔ میری ان کے ساتھ بڑی بے تکلفی تھی۔ میں ان کے پاس گیا تو میجر صاحب نے بتایا کہ تھری انچ مارٹر انسٹرکٹر کا کوئی انتظام نہیں ہوا۔ اس وجہ سے پریشانی ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ کھانا کھائیں میں ابھی پتا کرتا ہوں۔ میں سیدھا مکرم صوبیدار عطاء اللہ صاحب کے پاس گیا وہ اکثر ہیڈ کوارٹر کمپنی میں سینئر افسر رہے ہیں اور خود بھی بہترین انسٹرکٹر رہے۔ اور سگنل پلاٹون کی کمانڈ کرتے رہے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ شاید ان کے علم میں کوئی تھری انچ مارٹر کا انسٹرکٹر ہو یا ممکن ہے وہ خود اس فیلڈ کے بارے میں علم رکھتے ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے تو خود اس فیلڈ کا علم نہیں اور نہ ہی میں نے اس کا کوئی کورس کیا ہے۔ تاہم میرے علم میں ایک انسٹرکٹر ہے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ وہ ہے محترم رانا محمد الدین صاحب۔ میں پہلے تو سمجھا کہ مذاق کیا ہے۔ کیونکہ اس وقت محترم رانا محمد الدین صاحب فرقان بٹالین کے جوانوں کی حجامت بنارہے تھے۔ محترم صوبیدار عطاء اللہ صاحب نے کہا میں مذاق نہیں کررہا۔ وہ اس فیلڈ کے بہترین انسٹرکٹرہیں۔ چنانچہ میں محترم رانا محمد الدین صاحب کے پاس گیا۔پہلے تو انہوں نے انکار کردیا۔جب میں نے بتایا کہ بٹالین کو تھری انچ مارٹر انسٹرکٹر کی فوری ضرورت ہے اور اس وقت بریگیڈہیڈکوارٹر نے بھی جواب دے دیا ہے تو اس پر انہوں نے کہا کہ کوشش کرکے دیکھ لیں اگر کوئی انسٹرکٹر مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ میں حاضرہوں۔ میں فوراً محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی کے پاس واپس پہنچا تو وہ کھانا کھارہے تھے ان سے میں نے ذکر کیا تووہ بھی پہلے مذاق ہی سمجھے۔جب میں نے انہیں یقین دلایا تووہ مطمئن ہوگئے۔ اور اسی شام بٹالین کے تمام افراد کو پریڈ گراؤنڈ میں طلب کرلیا گیا۔ اور اسی شام ان میں سے مضبوط جوان تھری انچ مارٹر پلاٹون کے لیے چن لیے گئے اور مارٹر پلاٹون کی نفری پوری ہونے پر باقاعدہ اس روز سے ہی ٹریننگ کا آغاز کردیا گیا۔ چونکہ یہ محنت طلب کام تھا اس لیے ان نوجوانوں کےلیے فی کس نصف سیر دودھ کے حساب سے سپلائی کے شعبہ سے انتظام کرلیا گیا اور اس ٹریننگ کے دوران یہ دودھ انہیں ملنے لگا۔ جب ٹریننگ کرتےہوئے بارہ دن ہوگئے تو محترم بریگیڈیر کے ایم شیخ صاحب بریگیڈ میجر صاحب اور سٹاف کیپٹن صاحب کے ساتھ فرقان بٹالین کے معائنہ کے لیے آئے۔ ان کے آنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ معلوم کریں کہ تھری انچ مارٹر کا انسٹرکٹر ملا بھی ہے کہ نہیں۔نیز انہوں نے بٹالین کی دیگر عملی ٹریننگ کا جائزہ بھی لینا تھا۔ محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی ان تینوں افسروں کو لے کر سیدھے پریڈ گراؤنڈ میں پہنچےتو وہ افسران ٹریننگ دیکھ کر اس قدر حیران ہوئے کہ یہ جوان تو تھری انچ مارٹر کی ٹریننگ کررہے ہیں۔ اس پر بریگیڈیر کے ایم شیخ صاحب کہنے لگے میجر صاحب آپ نے یہ ٹرینڈ آدمی کہاں سے لیے ہیں۔ اس پر میجر محمد حیات صاحب نے بتایا کہ مومنوں کے سب کام تو اللہ تعالیٰ خود ہی کردیتا ہے۔ جب میں آپ کی طرف سے تھری انچ مارٹر کا انسٹرکٹر نہ ملنے کی اطلاع لے کر اپنے کیمپ میں پہنچا تو بے حد پریشان تھا۔ مگر خداتعالیٰ نے آناً فاناً اس کا انتظام اپنے میں موجود آدمیوں میں سےہی کردیا۔اور مجھے میرے ایک ساتھی نے بتایا کہ محترم رانا محمد الدین صاحب جو بٹالین کے جوانوں کی حجامت بنارہےہیں وہ بہترین انسٹرکٹر ہیں۔اس پر انہوں نے ان نوجوانوں کی ٹریننگ شروع کروادی۔ اب آپ ان کا ٹیسٹ لے سکتے ہیں۔ وہ ٹیسٹ لےکر اَور حیران ہوئے کہ تھری انچ مارٹر ماؤنٹ کا پاکستان آرمی کا ریکارڈ 34سیکنڈ ہے۔ جب کہ فرقان بٹالین کے جوانوں نے یہ عمل خداتعالیٰ کے فضل سے 28سیکنڈ میں مکمل کرلیا۔ اس پر بریگیڈیر کے ایم شیخ صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کی بٹالین اب اپنی ٹریننگ مکمل کرچکی ہے۔اور میدان جنگ میں جانے کے لیے بالکل تیار ہے۔اسے اب محاذ جنگ پر لے جاسکتے ہیں۔اس پر محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی نے کہا کہ باقی تمام ہتھیاروں کا ہم نے اپنے جوانوں سے فائر کروالیا ہے۔اب تھری انچ مارٹر کا فائر کروانا باقی ہے۔اس پر محترم بریگیڈیر صاحب نے کہا میجر صاحب اب یہ سب ٹرینڈ جوان ہیں۔ان کا عملی ٹیسٹ بھی اب محاذ پر ہی جاکر ہوگا۔ اور ساتھ ہی کہا یہ سب تو ایسےٹرینڈ آدمی ہیں کہ انہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ دوسرا بتائیں یہ ملے کہاں سے۔اس پر محترم میجر حیات صاحب نے کہا یہ سب گاؤں کے آدمی ہیں اور ان کے استادمحترم رانا محمد الدین صاحب حجام ہیں۔لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے رانا صاحب بہترین انسٹرکٹر ہیں۔یہ سب ان کی محنت کا نتیجہ ہے کہ اتنی جلدی یہ سب ٹرینڈ ہوگئے۔ چنانچہ دو تین روز کے بعد فرقان بٹالین کے جوانوں کو ٹریننگ سنٹر سے ٹرکوں میں بٹھا کر محاذ کشمیر پر پہنچا نے کے لیے بھمبر آزادکشمیر پہنچا دیا گیا۔ شام کے وقت بھمبر پہنچے اور اگلا سفر رات کے اندھیرے میں اپنے بستروں اور سامانِ حرب اٹھا کر ایک پگڈنڈی پر پیدل مارچ کرتے ہوئے شروع کیا اور ساری رات جوان چلتے رہے ۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات پیش آئیں۔ مگر بہادر اور دلیر جوان ان مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے نماز فجر سے قبل سوکھاتالاب پہنچ گئےاور تمام دن ایک گہرے نالے میں گزارا کیونکہ بھارتی فضائیہ کے طیارے ان علاقوں میں دن کو پروازیں کرتے تھے اور نقل وحرکت محسوس ہونے کی بنا پر بمباری بھی کردیتے تھے۔ رات ہونے پر احمدی نوجوانوں نے اگلے مورچوں تک پہنچنے کے لیے پھر سفر شروع کیا اور تمام رات چلتے رہے. قریباً نصف شب کے قریب ہم سب بخیریت باغسرکیمپ پہنچ گئے۔ وہاں پر پہلے سے اعظم بٹالین موجود تھی۔ اب فرقان بٹالین نے ان سے چارج لینا تھا۔ چنانچہ اگلا دن ان سے چارج لینے میں گزر گیا۔ وہ فارغ ہوکر کسی دوسرے محاذ پر چلے گئے۔ اعظم بٹالین کے جانے کے بعد فرقان بٹالین نے اپنی ڈیفنس پوزیشن کو از سرِ نو ترتیب دیا۔ اس وقت پاکستان کے کشمیر بارڈر کی کیفیت یہ تھی کہ سویلین لوگ آزادانہ اس ایریا میں پھرتے رہتے تھے۔ فرقان بٹالین نے اپنی دفاعی پوزیشنیں سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے لوگوں کو پکڑ کر چیک کرنا شروع کردیا۔ اور پہلے ہی روز اپنے ایریا سے سترہ جاسوس پکڑ لیے۔ ان میں سے صرف ایک ہندو تھا اور باقی سولہ مسلمان تھے۔ ان سولہ جاسوسوں میں سے ایک نے وعدہ کیا کہ میں آپ کو انڈین فوجی افسر پکڑادوں گا۔ فرقان بٹالین نے اس کام کے لیے ایک آپریشن ترتیب دیا۔ اس جاسوس کو لے کر بارڈر ایریا میں گئے۔ آپریشن میں 14پنجاب رجمنٹ،شاہین بٹالین اور فرقان بٹالین کی ایک ایک پلاٹون لی گئی۔ اس طرح ایک کمپنی کی نفری پوری ہوگئی اور اس آپریشن کا کمانڈر پاکستان آرمی کے 14پنجاب رجمنٹ کے ایک کمانڈر کیپٹن ظفر اقبال صاحب کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپنی نے اس علاقے میں جاکر اپنی ڈیفنس پوزیشنیں سنبھال لیں اور اس جاسوس کے ساتھ تین آدمی مقرر کردیے گئے۔ دشمن کی پہاڑی کے نزدیک جاکر اس جاسوس نے اپنے مخصوص طریق پر رام لال، رام لال پکارنا شروع کیا۔ چند لمحوں کے بعد دشمن کی پہاڑی سے اترنے کی آہٹ سب نے محسوس کی۔ کیونکہ پتھروں پر چلنے سے آوازیں آنی شروع ہوئیں۔ مگر کافی دیر تک کوئی آدمی نہ نکلا اور نہ اترا۔ جب صبح کے قریب تک خاموشی رہی تو اس کمپنی نے واپسی شروع کردی۔ تو دشمن نے مشین گن کا فائر کھول دیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان آرمی کا ایک جوان جس کا تعلق 14پنجاب رجمنٹ سے تھا زخمی ہوگیا۔ یہ کمپنی بظاہر اپنے آپریشن کو ختم کرکے اپنے زخمی کو اٹھا کر واپس لے آئے۔اس کے بعد اس علاقے میں موجود پاکستان آرمی کی طرف سے فرقان بٹالین اور شاہین بٹالین کی مدد سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی پڑتال شروع کردی گئی۔ جس کے نتیجے میں ایک گاؤں کا نمبردار پکڑ لیا گیا۔ تحقیق کے نتیجے میں پتا چلا کہ اکثر جاسوس اس کے ذریعے آتے جاتے تھے۔ اسے فوری حراست میں لے کر مزید پوچھ گچھ کی گئی۔ ایک دن اس نمبردار نے خود کشی کرکے اپنے آپ کو ختم کرلیا۔ اس کے بعد اس آپریشن کو عارضی طور پر معطل کرکے مزید معلومات کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ اور تمام علاقہ کی مکمل ناکہ بندی کرکے پڑتال کی گئی۔

ایک شام قلعہ باغسر میں ایک کمپنی کی نفری دوبارہ اکٹھی ہوئی۔ جس میں ایک پلاٹون فرقان بٹالین سے، ایک پلاٹون شاہین بٹالین سے اور آخری پلاٹون 14پنجاب رجمنٹ سے لی گئی۔ رات کا اندھیرا چھاجانے کے بعد اس کمپنی نے دشمن کے علاقے میں ایڈوانس کیا اور وادی عبور کرکے دشمن کے علاقہ میں پہنچ گئے۔ یہ علاقہ بڑی مشکل گھاٹیوں پر مشتمل تھا۔ مگر تمام پاکستانی جوانوں نے بڑی جوانمردی سے اس اہم مہم کو کامیاب کیااور دشمن کے عین سر پر پہنچ کرہی دم لیا۔ پہلے ارادہ کیا کہ حملہ کردیا جائے۔ پھر وقت کا اندازہ کیا تو صبح ہونے میں تھوڑا وقت رہتا تھا اس لیے فوری حملہ کی سکیم سردست ملتوی کردی گئی۔ارادہ یہ تھا کہ اب راستہ تو دیکھ لیا ہے اور حالات کا بھی اندازہ ہوگیا ہے پھر بھرپور تیاری کرکے زبردست حملہ کیا جائے۔ چنانچہ یہ مہم مکمل کرنے کے بعد سب پاکستانی جوان دشمن کی پہاڑی سے بڑی مہارت کے ساتھ اتر آئے اور بخیریت اپنے علاقہ میں پہنچ کر نماز فجر باجماعت ادا کی۔

بعد میں بھی ہمارے بہادر جوان علاقے کی حفاظت کے لیے پوسٹوں پر مسلسل گشت کرتےرہے اور حالات سے باخبر رہے۔ ایک دن پاکستان آرمی کے کیپٹن ظفر اقبال صاحب کہنے لگے کہ سنا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ احمدیوں کی بہت دعائیں سنتا ہے اس روز اتفاقاً پاکستان کے جوان جن میں فرقان بٹالین کےجوان بھی شامل تھے دشمن کے علاقے میں کافی اندر تک چلے گئے تھے۔ کیپٹن ظفر اقبال صاحب نے احمدیوں سےکہا کہ آپ دعا کریں کہ ہمارا یہ دستہ بخیریت اپنے علاقہ میں واپس آجائے۔ اس دن اس دستہ میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب بھی ڈیوٹی پر تھے۔ غالباً وہ سب جوانوں میں سے سب سے کم عمر مجاہد تھے۔ اس موقع پر فرقان بٹالین کے محترم صوبیدار عبدالوہاب صاحب نے دعاکروائی اور نہایت رقت سے دعا کی۔ پھر واپسی کا سفر شروع کیا تو کافی دیر ہوچکی تھی۔ پیچھے پاکستان آرمی اور فرقان بٹالین کے ذمہ داران بھی تاخیر کی وجہ سے فکر مند تھے۔ ہمارے اس دستہ میں میں بھی شامل تھا۔ راستہ میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب سے میرے ساتھیوں نےپوچھا۔میاں صاحب تھک تو نہیں گئے۔ کیونکہ سفر کافی مشکل تھا ۔ آپ نے بڑے حوصلہ اور بہادری سے جواب دیاتھکاوٹ تو ہے لیکن ابھی میں آپ کے شانہ بشانہ اس مہم میں ساتھ دوں گا۔ دستہ کے تمام جوان دعائیں کرتے ہوئے لوٹ رہے تھےکہ خدایا آج کوئی نشان دکھا۔اس وقت مطلع بالکل صاف تھا۔ کسی قسم کا کوئی بادل نظر نہیں آرہا تھا۔ اچانک شمالی جانب سے دھواں سا نکلا اور پھر ساری وادی میں پھیل گیا۔ یہ قافلہ اس کے نیچے نیچے صحیح سلامت واپس اپنے علاقے میں پہنچ گیا۔ پھر وہ بادل تھا یا دھواں تھا یا دھند تھی یا جو کچھ تھا وہ اچانک غائب ہوگیا اور مطلع پھر پہلے کی طرح صاف ہوگیا جیسے کوئی بادل آیا ہی نہیں تھا۔

محترم کیپٹن ظفر اقبال صاحب کی فرقان بٹالین سے بڑی عقیدت تھی وہ کئی دفعہ کہا کرتے تھے کہ اگر میں کہیں زخمی ہوگیا تو میری کمپنی کے آدمی مجھے اٹھا کرواپس نہیں لائیں گے بلکہ یہ ذمہ داری فرقان بٹالین والے نبھائیں گے۔ پٹرولنگ سے واپسی پر ان کی پلاٹون تو واپس قلعہ باغسر میں چلی جاتی اور یہ فرقان بٹالین میں آکر محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی کے ساتھ ناشتہ کرکے اور کچھ دیر آرام کرکے اپنی کمپنی میں واپس جاتے۔ اسی روز جب ہمارا یہ دستہ اپنے علاقے میں بخیریت لوٹ آیا تو ایک جگہ سستانے کے لیے ٹھہر گئے اور ان پہاڑوں کی طرف دیکھ کر کیپٹن ظفرا قبال صاحب کہنے لگے کہ ان پر چڑھنا انسان کا کام نہیں۔ بہت مشکل چڑھائی ہے۔ پھر کہنے لگے شہادت کی بڑی خواہش ہے پتا نہیں کون سا گناہ ہے جو اس راہ میں روک بنا ہوا ہے۔ اور بے اختیار اس خواہش پر روپڑے۔ اس روز کے بعد وہ فرقان بٹالین کے کیمپ میں واپس نہیں آئے۔جب وہ واپس گئے تو کافی دیر ہوچکی تھی۔ تیسرے دن سابقہ سروے کے مطابق حملےکی سکیم بنائی اور اپنی کمپنی کو لے کر چلے گئے۔ اس روز انہوں نے فرقان بٹالین اور شاہین بٹالین سے کوئی جوان ساتھ نہیں لیے۔ صرف بطور گائیڈ فرقان بٹالین سے دو جوان لیے۔ پہلے لیفٹیننٹ راجہ عبدالحمید صاحب ( جو بعد میں پاکستان آرمی سے بطور میجر ریٹائرڈ ہوئے پھر زندگی خدا کی راہ میں وقف کردی حضور کے ارشاد پر پہلے جاپان پھر امریکہ مبلغ رہے۔ واپسی پر سیکرٹری کمیٹی آبادی تحریک جدید ربوہ کام کرتے ہوئے ریٹائرڈ ہوئے) اور دوسرے محترم سید نثار احمد شاہ صاحب (آف چک 116جنوبی ضلع سرگودھا۔ بعد میں پاکستان آرمی میں بھرتی ہوکر صوبیدار بن کر ریٹائرڈ ہوئے)تھے۔ وہ اس وقت دسویں جماعت کے طالبعلم تھے اور جذبہ جہاد کی وجہ سے فرقان بٹالین میں شامل ہوئے۔ وہ بطور پٹرولنگ گائیڈ ان کے ساتھ گئے۔ دشمن کے علاقے میں انہیں پہنچا کر ہمارے دونوں گائیڈ واپس آگئے۔ اور پاکستان آرمی نے دشمن کی پوسٹ پر حملہ کردیا۔ اور کیپٹن ظفر اقبال صاحب چونکہ اپنی کمپنی کو لیڈ کررہے تھے وہ دشمن کی گولی کا نشانہ بن گئے اور ان کے ساتھیوں نے بھرپور جوابی فائرنگ کی۔ اس کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے علاقہ میں واپس لوٹ گئے۔ تاہم کیپٹن ظفراقبال شہید کی لاش وہ واپس نہ لاسکے۔ان کی شہادت کے بعد جواُن کے نائب تھے وہ 14رجمنٹ پنجاب کے صوبیدار تھے۔وہ بڑی حکمت کے ساتھ اپنے باقی ساتھیوں کو واپس لے آئے۔ دونوں جانب کافی جانی نقصان بھی ہوا۔اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد وہی صوبیدار صاحب ایک روز رات کو گیارہ بجے کے قریب فرقان بٹالین کے ہیڈ کوارٹر آئے۔ ان کے ساتھ ان کی پلاٹون بھی تھی۔ اور آتے ہی کہنے لگے کہ ہم دشمن کے علاقے میں پٹرولنگ کے لیے جانا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں گائیڈ دے دیں۔ اس پر محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی نے کہا کہ کل شام سے ہماری دو پٹرولنگ ٹیمیںڈیوٹی پر ہیں۔ ان کے واپس آجانے پر آپ کل چلے جائیں آپ کو کل گائیڈ مہیا کردیے جائیں گے۔ اس پر اس صوبیدار صاحب نےکہا کہ آپ ہمیں گائیڈ دے دیں جو ہمیں اپنی پٹرولنگ ٹیم سے آگے گزار کر واپس آجائیں۔ محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی نے مجھے کہا بھائی( فرقان بٹالین والے تمام دوست مجھے بھائی عبدالسلام کے نام سے پکارتے ہیں) ان کو گائیڈ دے دو۔ میں نے سوچا کہ رات کے گیارہ بج چکے ہیں اور تمام دوست آرام کے لیے جاچکے ہیں۔ کسی کو کیا تکلیف دینی ہے خود ہی چلا جاؤں۔ جب میں نے محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی کے سامنے اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا تو وہ کہنے لگے کہ اکیلے نہیں جانا کسی اور کو بھی ساتھ لیں۔ اس پر میں نے محترم فضل احمد صاحب (جو فرقان بٹالین کے مارٹر پلاٹون کے ممبر تھے) کوساتھ لے لیا اور پاکستان آرمی کی پلاٹون کو گائیڈ کرتے ہوئے براقی گلہ سے نیچے اترے۔ فرقان بٹالین کے حفاظتی ایریا میں سے تین راستے دشمن کی طرف جاتے تھے۔ براقی گلہ، خچر گلہ، اور پوگلہ۔براقی گلہ سے اتر کر جب بنڈالہ گاؤں پہنچے ۔ بنڈالہ مکرم ملک یوسف سلیم صاحب (جو بعد میں ربوہ میں انچارچ شعبہ زود نویسی رہے) کا گاؤں تھا۔ان دنوں یہ گاؤں پاکستان آرمی اور بھارتی آرمی کے درمیان خالی پڑا تھا۔ اور وہاں کے لوگ اپنے گاؤں کو خالی کرکے پاکستانی علاقے میں پیچھے آگئے تھے۔ فرقان بٹالین نے جو دو پٹرولنگ ٹیم بھجوائی تھیں ایک کے انچارج کمانڈر محترم حوالدارنور احمد صاحب(وہ نور احمد جِن کے نام سے معروف) تھے۔ وہ سٹینڈنگ پٹرول تھی۔ دوسری پٹرولنگ ٹیم کے کمانڈر محترم محمد امین خان صاحب آف پشاور( سابق چیف پیٹی افسر نیوی) تھے جو کہ فائٹنگ پٹرول تھی۔ جس جگہ ہم نے فائٹنگ پٹرول ٹیم بھیجی تھی وہاں جاکر میں اور فضل احمد صاحب رک گئے اور میں نے آہستہ سے کوڈ کا تبادلہ کیا۔ تو جواب میں ایک گولی ہمارے اوپر سے گزر گئی۔ اس پر ہم دونوں نے پاکستان آرمی کی پلاٹون کو آگے جانے کا راستہ بتادیا۔ اور خود واپس آگئے۔ فرقان بٹالین کا ڈیفنس ایریا قریباً چار میل چوڑا تھا۔ دن اور ات کو میں اور محترم میجر سردار محمد حیات صاحب قیصرانی متعدد بار اپنے جوانوں کو چیک کرتے رہتے تھے کہ وہ ہوشیار رہیں۔اسی طرح ہر کمپنی کمانڈر اور پلاٹون کمانڈر بھی وقتاً فوقتاً ان کی چیکنگ کرتے رہتےتھے۔ فرقان بٹالین کو اس علاقے میں غیر معمولی پٹرولنگ کے نتیجے میں علاقے کے تمام خدوخال اور پہاڑیوں اور راستوں سے خوب واقفیت ہوچکی تھی۔ اور عموماً بطور گائیڈہمارے ہی جوان لیے جاتے تھے۔

محترم کیپٹن بابا شیر ولی صاحب جب قادیان سے حفاظتِ مرکز کی ڈیوٹی ادا کرکے واپس پاکستان لوٹے تو اپنے گاؤں چلے گئے۔ فرقان بٹالین کے لیے انہیں بلایا گیا تو بوجوہ وہ نہ آسکے۔ محترم میجر شریف احمد باجوہ صاحب بھی چند دوستوں کے ساتھ ان کے گاؤں گئے تاکہ انہیں ساتھ لے آئیں۔ انہوں نے کہا میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں اس لیے نہیں آسکتا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے کسی مجلس میں کیپٹن شیر ولی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے پوچھاکہ ابھی شیر ولی صاحب فرقان بٹالین میں نہیں گئے۔ اس مجلس میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ؓموجود تھے۔ اسی دن انہوں نے محترم شیر ولی صاحب کو خط لکھا اس میں تمام واقعہ تفصیل سے بیان کیا نیز لکھا کہ کسی دوست سے حضورؓ نے پوچھا کہ شیر ولی صاحب ابھی تک فرقان بٹالین میں نہیں گئے تو اس دوست نے کہا کہ حضورؓ ابھی تک نہیں گئے۔ یہ خط ملتے ہی فوراً محترم بابا شیر ولی صاحب نےریئر فورس ہیڈ کوارٹر سرائے عالمگیر پہنچ کر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی خدمت میں رپورٹ کی اور اسی روز محاذ پر جانے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر اسی روز محاذ پر پہنچ گئے۔

ایک روز شام ہونے پر دشمن کے کچھ سپاہی اپنی پہاڑی سے اتر کر ہمارے علاقےکی طرف بڑھے تو ہمارے پوسٹ نگران نے دوربین سے انہیں دیکھ کر تھری انچ مارٹر کے کمانڈر کوفوری اطلاع دی ۔ اس نے ایک گولہ فائر کروایا۔ اور وہ گولہ ٹھیک نشانہ پر لگا۔ یہ وہ پہلا گولہ تھا جو فرقان بٹالین نے محاذ جنگ پر تھری انچ مارٹر کا فائر کیا۔ بعد میں تو دن میں کئی بار گولے فائر کیے جاتے رہے۔ ہمارا دستہ وہاں پہنچا تو کوئی لاش تو نہ ملی تاہم برین گن کے بارہ میگزین کا بھرا ایک صندوق مل گیا جو ہمارے فوجی اٹھا کر اپنے کیمپ میں لے آئے۔ اس وقت پاکستان آرمی کی حالت یہ تھی کہ اس علاقے میں کوئی توپ خانہ نہ تھا اور نہ ہی بھاری مشین گنیں تھیں اور نہ ہی کبھی پاکستان ایئر فورس کے ہوائی جہاز اپنی آرمی کی مدد کو آتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف بھارتی فضائیہ کے طیارےروزانہ اپنے علاقہ کا چکر لگاتے تھے۔اور ان کا توپ خانہ تقریباً ہر روز پاکستان آرمی اور آبادی پر گولہ باری کرتا تھا۔ ہماری اور ان کی پوسٹوں کے درمیان پیدل راستہ تو بہت لمبا تھا۔ کیونکہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے کافی اونچ نیچ تھی تاہم بعض جگہوں پر چالیس بیالیس سوگز کا فاصلہ تھا۔ ان کے توپ خانہ کے اکثر فائر ہمارے جوانوں کے اوپر سے گزر جاتے تھے۔ تاہم ہمارے تھری انچ مارٹر کے گولے عموماً اٹھائیس سو گز تک کی رینج میں بآسانی پہنچتے تھے۔ عموماً 4سیکنڈری لگا کر فائر کیا جاتا تھا۔ پھر ہمارے جوانوں نے 6سیکنڈری لگا کر فائر کیا تو وہ بیالیس سو گز تک چلا گیا اور دشمن کی پوسٹوں پر جاکر گرا ۔ بھارتی فوج روزانہ ہم پر 25پونڈ والے توپ کے گولے دن میں پندرہ سے بیس مرتبہ فائر کرتے رہے۔ جس دن ان کی طرف سے کسی وجہ سے کوئی گولہ فائر نہ ہوتا تو فرقان بٹالین والے اُداس ہوجاتے کہ آج پتا نہیں کیا بات ہے۔ دشمن خاموش بیٹھا ہے۔ نماز عصر کے بعد تھری انچ مارٹر والوں سے کہتے کہ آج کوئی فائر نہیں آیا۔ مارٹر والے صرف ایک یا دو گولے فائر کرتے اور اپنی مشین گنیں اٹھا کر اپنے مورچوں میں چلے جاتے۔ پھر اس کے جواب میں بھارتی توپ خانہ اپنا فائر کھول دیتا اور بیس پچیس گولے فائر کرکے ہی چین لیتا۔ اس حکمتِ عملی سے ہمارے جوان دشمن کا زیادہ سے زیادہ اسلحہ استعمال کرواتے۔

ایک روز نماز عصر کے قریب فرقان بٹالین کے دو نوجوان مکرم بشیر احمد صاحب سندھی ( جو بعد میں معلم وقف جدید بنے) اور مکرم منظور احمد صاحب آف بہاولنگر ایک چشمہ سے پانی لینے کے لیے گئے تو دشمن نے انہیں دیکھ کر توپ خانہ کا فائر کھول دیا اور ایک گولہ اس چشمہ کے قریب آکرگرا اور پھٹ گیاجس کے نتیجے میں دونوں مجاہد زخمی ہوگئے۔انہیں اٹھا کر پیچھے ہسپتال میں لےجارہے تھے کہ مکرم منظور احمد صاحب زخموں کی تاب نہ لاکر راستہ میں شہید ہوگئے۔ اور مکرم بشیر احمد صاحب سندھی کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ۔ چند ماہ کے علاج کے بعد وہ ٹھیک ہوکر دوبارہ فرقان بٹالین کےکیمپ میں واپس آگئے۔ مکرم منظور احمد صاحب شہید کو وہیں باغسر میں دفن کردیا گیا۔ یہ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ مکرم محمد اسلم صاحب مانگٹ اونچا ضلع گوجرانوالہ،مکرم بشیر احمد صاحب آف آزاد کشمیر ان کی قبریں بھی باغسر میں ہیں۔ جبکہ مکرم نصیر احمد صاحب شہید بھمبر میں دفن ہوئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button