از افاضاتِ خلفائے احمدیت

نماز میں عاجزی اور خشوع

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ اپریل 2015ء)

پس نیکیاں بجا لانے والے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نیکیاں کرتے ہیں کس کس رنگ میں فائدہ اٹھانے والے ہیں یا اللہ تعالیٰ کس کس رنگ میں ان پر فضل کرتا ہے۔ یہ سب انسانی تصور سے بھی باہر ہے اور ان فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پہلا قدم اور انتہائی اہم قدم نمازوں میں خشوع پیدا کرنا رکھا ہے۔ ان باتوں کے حصول کے لئے عبادت کرنا رکھا ہے۔عاجزی تو بعض دنیادار بھی بعض دفعہ دکھا دیتے ہیں بلکہ صرف اگر گریہ و زاری کا سوال ہے تو بعض دنیادار ذرا ذرا سی بات پر ایسی گریہ و زاری کرتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر جہاں ان کے دنیاوی مفاد متاثر ہو رہے ہوں وہ ذلیل ترین ہونے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ یا عارضی طور پر جذبات کا اظہار بھی بعضوں سے ہوتا ہے۔ بعض حالات دیکھ کر، بعض لوگوں کی حالتیں دیکھ کر رحم بھی پیدا ہو جاتا ہے اور دردناک حالت دیکھ کر ان میں انتہائی جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب یا تو اپنے مفادات کے لئے یا دنیا دکھاوے کے لئے یا ایک عارضی اور وقتی جذبے کے تحت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا تو ان ظاہری باتوں سے بہت دُور ہوتا ہے۔دنیا داروں کی جذباتی حالت کے بارے میں یا ظاہری اور وقتی طور پر گریہ و زاری کا اظہار کرنے والوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ بیان فرمایا کہ:’’بہت سے ایسے فقیر مَیں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں۔‘‘(یعنی جس طرح بارش ایک دم آ جاتی ہے اس طرح ایک دم ان کے آنسو بہنے لگ جاتے ہیں۔ پھر فرمایا) ’’لیکن مَیں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص مَیں نے بڑے مکّاربلکہ دنیاداروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو مَیں نے ایسے خبیث طبع اور بد دیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے ان کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 194)

پس ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کے بعض نظارے دیکھ کر آنسو گرنے میں دیر نہیں لگتی لیکن یہ ایک وقتی جذبہ ہوتا ہے۔ جب اپنے مفادات ہوں تو پھر اس شخص میں کبھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوگی۔ اگر ایک وقت میں ایک حالت کو دیکھے جہاں جذبات نہ ہوں، اپنے اپنے مفادات نہ ہوں تو وہ کیفیت پیدا ہو سکتی ہے لیکن جب اپنے مفادات ہوں توکبھی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ ظلم بھی کر دیتا ہے اور کبھی رحم نہیں آتا۔ یا بعض اور ایسی برائیاں ہوتی ہیں جو خدا کو ناپسند ہیں یا ان کی نمازیں اور عبادتیں صرف دکھاوے کے لئے ہوتی ہیں۔ پس جب یہ صورتحال ہو تو قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ کے زمرے میں کس طرح ایسے لوگ آ سکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓبیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک بزرگ کا واقعہ سنایا کرتے تھے کہ انہوں نے کئی سال تک باقاعدہ مسجد میں نمازیں پڑھیں تا کہ لوگ ان کی تعریف کریں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کی کسی گزشتہ نیکی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق یہ بات ڈال دی کہ سب لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔ (خواہش ان کی یہ تھی کہ لوگ تعریف کریں لیکن لوگ انہیں منافق کہتے تھے۔) آخر ایک دن ان بزرگ کو خیال آیا کہ اتنی عمر ضائع ہوگئی۔ کسی نے بھی مجھے نیک نہیں کہا۔ اگر خدا کے لئے عبادت کرتا تو خدا تعالیٰ تو راضی ہو جاتا۔ یہ خیال ان کے دل میں اتنے زور سے آیا کہ وہ اسی وقت جنگل میں چلے گئے۔ روئے اور دعائیں کیں اور توبہ کی اور عہد کیا کہ خدایا اب میں صرف تیری رضا کے لئے عبادت کیا کروں گا۔ جب واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ یہ شخص ہے تو بہت ہی نیک مگر معلوم نہیں لوگوں نے اسے کیوں بدنام کر رکھا ہے اور بچے اور بوڑھے سب اس کی تعریف کرنے لگے۔ اس بزرگ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ خدایا صرف ایک دن میں نے تیری رضا کی خاطر نماز پڑھی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے میری تعریف شروع کر دی۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 705)اب دیکھیں احساس پیدا ہوتے ہی جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی عبادتوں کو ڈھالا یا خالص ہو کے عبادت کی جو اس کی خاطر کی جا رہی تھی تو اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو گیا۔ لیکن اب یہ کوئی خواہش نہیں رہی تھی کہ لوگ میری تعریف کریں مجھے بڑا بزرگ سمجھیں اور اب خواہش کے نہ ہونے کے باوجود لوگوں نے انہیں وہی کچھ کہنا شروع کر دیا جس کی وہ پہلے خواہش رکھتے تھے۔ لوگ تعریف کرنے لگ گئے۔ پہلے خواہش رکھتے تھے اور باوجود چاہنے کے کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ لیکن اب بالکل اور صورتحال ہوگئی اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا۔دوسرے اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض پرانی نیکیوں کی قدر کرتے ہوئے کسی کی اصلاح کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔ یہ جو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی پرانی نیکی پسند آ گئی تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس نیکی کی وجہ سے ان کو لوگوں کے کہنے پر یہ احساس پیدا ہوا اور لوگوں کا انہیں پہلے منافق کہنا ان کی اصلاح کا باعث بن گیا اور یہ یونہی نہیں ہو گیا بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی گزشتہ نیکی پسند آئی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ ان کی عبادت اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کیونکہ خود اصلاح کرنا چاہتا تھا اس لئے لوگوں کے کہنے پر ان کو احساس پیدا ہو گیا اور اگر دوسرے لوگوں کے دلوں میں پہلے یہی ڈالے رکھا کہ یہ منافق ہے۔ تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ ان کی تعریف کریں اور اس وجہ سے غلط طور پر ان میں خود پسندی کی عادت پیدا ہو جائے اور وہ مزید گناہوں میں ڈوبتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کسی پرانی نیکی کی وجہ سے اصلاح چاہتا تھا تو ان کی اصلاح کے سامان پیدا کر دئیے اور فلاح پانے والوں میں وہ شامل ہو گئے۔

پس کسی پہلے وقت کی کی گئی بعض نیکیاں بھی باوجود بعد کی غلطیوں اور گناہوں کے سرزد ہونے کے انسان کو بدانجام سے بچانے کا موجب بن جاتی ہیں اور انسان فلاح پانے والوں میں شمار ہونے والا بن سکتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کی اصلاح کرنا چاہے تو اس طرح بھی کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہاں ان مومنوں کو یقینی فلاح کی ضمانت دی ہے جو اس کی رحیمیت سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کی پہلی شرط نمازوں اور عبادتوں میں خشوع ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر خشوع کیا جائے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے مومن کی اس حالت کو انسان کی پیدائش کے مختلف ادوار سے تشبیہ دیتے ہوئے جو بیان فرمایا ہے اس کے صرف پہلے حصے یعنی اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ کو مَیں پیش کرتا ہوں جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کوئی نیکی اس وقت تک نیکی نہیں رہتی، نہ عبادتیں اس وقت تک مستقل بنیادوں پر عبادتیں رہتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ انسان چمٹا رہنے کی کوشش نہ کرے یا اس کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور اپنی عبادتوں کو صرف ایک ایسی کوشش سمجھے جو اسے اللہ تعالیٰ سے چمٹائے رکھنے کا اس کے فضل سے ہی ذریعہ ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button