خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 02؍ستمبر 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں ملک شام کے شہر دمشق کی فتح کابیان

٭… حضرت ضرار ؓنےرومیوں کے بڑے لشکر کو دیکھ کر فرمایا کہ خدا نے بہت دفعہ قلت کو کثرت پر غالب کیا ہے وہ اب بھی ہماری مدد کرے گا

٭…حضرت خولہ بنت ازورؓ نے اپنے بھائی حضرت ضرارؓ کے قید ہونے پر دشمن کی صفوں میں گھس کر ایسا حملہ کیا کہ اُن کی لاشوں کے ڈھیر لگادیے

٭… دمشق کی جنگ حضرت ابوبکر ؓکے عہد خلافت میں شروع ہوئی تھی لیکن جب فتح دمشق کی خبر مدینہ بھیجی گئی توحضرت ابوبکر ؓکی وفات ہوچکی تھی

٭… مکرم عمر ارقوب صاحب(سابق صدر جماعت جنوبی فلسطین)، مکرم شیخ ناصر احمد صاحب آف تھرپارکر، سندھ،مکرم ملک سلطان احمد صاحب (معلم وقف جدید)اورمکرم محبوب احمد راجیکی صاحب آف منڈی بہاؤ الدین پاکستان کی وفات اورنماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍ستمبر 2022ء بمطابق 02؍تبوک1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 02؍ستمبر 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کی جنگوں کا ذکر ہورہا تھا۔ اس ضمن میں13؍ہجری میں ہونے والی فتح دمشق کے بارے میں کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں۔ یہ آخری جنگ تھی جو حضرت ابوبکر ؓکے زمانے میں ہوئی ۔ دمشق شام کا دارالحکومت اور تاریخی روایات کا حامل شہر تھا۔ ابتدا میں بت پرستی کا مرکز تھالیکن جب یہاں عیسائیت آئی تو اس کے بت کدے کو کلیسا بنادیا گیا۔ یہاں عرب بھی آباد تھے اور مسلمانوں کے تجارتی قافلے بھی یہاں آیا کرتے تھے۔یہ ایک قلعہ نما فصیل بنداورمحفوظ شہر تھا جس کی وجہ سے اُسے امتیازی اہمیت حاصل تھی۔

حضرت ابوبکر ؓنے حضرت ابوعبیدہ ؓکو ایک لشکر کا امیر بنا کر حمص پہنچنے کا حکم دیا۔حضرت ابوبکر ؓکے حکم پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے دوسرے اسلامی لشکر کے ساتھ دمشق کا محاصرہ کرلیا۔بیس دن کے محاصرے کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔اہل دمشق اس محاصرے کی وجہ سے رسد بند ہونے پر سخت تنگ اور پریشان تھے۔ اسی اثنا میں مسلمانوں کو خبر ملی کہ اجنادین کے مقام پر ہرقل نےرومیوں کا بھاری لشکر جمع کرلیا ہے ۔حضرت خالدؓنے حضرت ابوعبیدہؓ کو تجویز دی کہ دمشق کا محاصرہ ختم کرکے پہلے اجنادین میں رومیوں کے لشکر سے نپٹ لیا جائے پھر بعد میں دمشق کا مسئلہ حل کرلیں گے۔حضرت ابوعبیدہ ؓنے اس تجویز سے اختلاف کیا کہ اگر دمشق کا محاصرہ ختم کیا تو اہل دمشق نئے سِرے سے اپنے آپ کو منظم کرلیں گے۔حضرت خالدؓنے حضرت ابوعبیدہؓ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے دمشق کا محاصرہ جاری رکھا اور مختلف اطراف سے دمشق کے قلعے پر حملے کرتے رہے۔اس دوران ہرقل نے ایک لشکر اہل دمشق کی مدد کے لیے بھیجا۔ حضرت خالدؓ نے حضرت ضرار بن ازور ؓکو پانچ سوسپاہیوں کا ایک لشکر دےکر ہرقل کے بھیجے ہوئے لشکر سے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔حضرت ضرار کے سپاہی دشمن کے لشکر کی بڑی تعداد کو دیکھ کر گھبراگئے اور واپس جانے کا مشورہ دیالیکن حضرت ضرار ؓنے فرمایا کہ خدا نے بہت دفعہ قلت کو کثرت پر غالب کیا ہے وہ اب بھی ہماری مدد کرے گا ۔جس نے واپس جانا ہے چلا جائے میں تو بہرحال آخر دم تک لڑوں گا۔اس پر تمام مسلمان یک زبان ہوکر جہاد کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت ضرار ؓ کے لشکر نے بہادری سے لڑائی کی۔حضرت ضرار ؓنے دشمن کے سردار وردان کے بیٹے کو قتل کردیا لیکن اُن کا نیزہ اُس کے جسم میں گھس کر ٹوٹ گیا جس پر وہ نہتّے ہوگئے ۔دشمن نے حضرت ضرار ؓکو گھیر کر قید کرلیا۔ حضرت خالد ؓکو جب حضرت ضرارؓ کے قید ہونے کی اطلاع پہنچی تو دمشق کے محاصرے کا انتظام کرکے دشمن کے لشکر پر حملہ کردیا۔

حضرت خالدؓ کے لشکر کے ایک نقاب پوش شہسوار نے دشمن کی صفوں میں گھس کر ایسا حملہ کیا کہ اُن کی لاشوں کے ڈھیر لگادیے ۔دشمن کے سپاہی اُس شہسوارکی بہادری کی وجہ سے اُس سے لڑنے سے کترارہے تھےلیکن وہ شہسوار کفار کے گھیرے میں آچکا تھا۔حضرت خالد ؓ دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرکے اُس شہسوار کو کفار کے درمیان سے نکال کر واپس مسلمانوں کے لشکر میں لے آئےاور اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ جواب میں اُس نے کہا کہ میں ضرارؓ کی بہن خولہ بنت ازورؓ ہوں ۔ بھائی کی گرفتاری کا پتا لگا تو میں نے وہی کیا جو آپؓ نے دیکھا۔حضرت خالد ؓنے فرمایا کہ ہمیں متفقہ حملہ کرنا چاہیے۔اللہ سے امید ہے کہ وہ ضرارؓ کو رہا کروادے گا۔چنانچہ حضرت خالد ؓنے بھرپور حملہ کیا۔رومیوں کے پیر اکھڑ گئے۔کفار کے کچھ سپاہی جو حمص کے رہنے والے تھے امان کے لیے حضرت خالد ؓکے پاس آئے اور صلح کی درخواست کی اور بتایا کہ اُن کے سردار نے حضرت ضرارؓ کو قید کرکے حمص روانہ کردیا ہے۔حضرت خالدؓنے حضرت ضرارؓ کو حمص پہنچنے سے پہلے دشمن کی قید سے چھڑانے کے لیے حضرت رافعؓ کو ایک سو جوانوں کے ہمراہ اُن کے پیچھے بھیجا۔حضرت خولہؓ بھی منت سماجت کرکے حضرت رافعؓ کے دستے میں شامل ہوگئیں۔حضرت رافعؓ نے راستے میں ہی رومیوں کے لشکر پرحملہ کرکےتمام سپاہیوں کو قتل کردیا اور حضرت ضرارؓ کو رہا کروالیا۔حضرت خالد ؓنے بھی رومیوں کے سردار وردان کے لشکر کو بھرپور حملہ کرکے شکست دے دی۔

دوسری طرف اسلامی لشکر نے دمشق کا محاصرہ جاری رکھا ہوا تھا۔ حضرت عباد بن سعید ؓنے رومیوں کے نوے ہزار کا لشکر اجنادین میں جمع ہونے کی حضرت خالد ؓکو اطلاع دی۔حضرت خالدؓ نے حضرت ابو عبیدہ ؓ کے مشورے سے شام کے مختلف مقامات پر مصروف مسلمانوں کے دیگر تمام لشکروں کو اجنادین میں جمع ہونے کے لیے خطوط لکھے۔اسلامی لشکر دمشق کا محاصرہ ترک کرکے اجنادین کی طرف روانہ ہوا تو اہل دمشق خوشی میں تالیاں بجانے لگے۔اہل دمشق نے ہرقل کے بااعتماد اور نہایت درجہ کے تیر انداز بولص کو اپنا امیر مقرر کرکے اُسے ہرقسم کا لالچ دےکرمسلمانوں سے جنگ پر آمادہ کرلیا۔ بولص کی بیوی نے اپنے ایک خواب کی بنا پر بولص کو مسلمانوں سے مقابلہ کرنے سے باز رہنے کا کہالیکن وہ نہ مانا اور طیش میں آکر مسلمانوں کو چرواہا بنانے کے زعم میں چھ ہزار سوار اور دس ہزار پیدل کا لشکرلےکر مسلمانوں کے پیچھے نکل آیا۔اُس نے حضرت ابوعبیدہؓ کے لشکر پر حملہ کیا اور بولص کا بھائی بطرس حضرت خولہ ؓ سمیت کچھ مسلمان عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرکے دمشق کی طرف روانہ ہوگیا۔حضرت سہلؓ نے حضرت خالد ؓکو اس کی اطلاع دی۔ حضرت خالدؓ نے حضرت رافع ؓ،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓاور حضرت ضرارؓ کو ایک ایک ہزار کا لشکر دےکر حضرت ابو عبیدہؓ کی مدد کے لیے بھیجااور بعد ازاں خود بھی حضرت ابو عبیدہ ؓ سے جاملے۔اس دوران دمشق جانے والے دیگر اسلامی دستے بھی وہاں پہنچے۔ اسلامی لشکر نے دشمن پربھرپور حملہ کرکے اُسے تہ تیغ کردیا۔ رومیوں کے چھ ہزار میں سے بمشکل سو افراد بچ سکے۔ حضرت ضرارؓ نےبولص کو زندہ پکڑلیا۔حضرت خالد ؓدو ہزار سپاہیوں کے ساتھ بطرس کے تعاقب میں نکل گئے جس نے مسلمان عورتوں اور بچوں کو قید کیا ہوا تھا۔

بطرس کی قید میں جنگ کرنے والی مسلمان تجربہ کار عورتیں بھی شامل تھیں۔ حضرت خولہ ؓنے اُن کی غیرت اور حمیت کو جگایااور ان کی عورتوں نے رومی سپاہیوں پر حملہ کرکے اُن کے تیس سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔مسلمان عورتوں کی بہادری دیکھ کر اور اپنے سپاہی قتل ہونے پر بطرس نہایت غصے میں آگیا اور اپنے سپاہیوں کو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے لگا۔اسی اثنا میں حضرت خالد ؓکا لشکر بھی وہاں پہنچ گیا اور چاروں طرف سے کفار کو گھیر لیا۔حضرت خولہؓ نے چلا کر کہا کہ اللہ کی مدد آگئی ہے۔اللہ نے مہربانی کردی ہے۔بطرس مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر گھبرا گیا اور بھاگنے لگا۔ حضرت ضرارؓ نے اُسے نیزہ مارا ، وہ گھوڑے سے گرتے گرتے بچالیکن حضرت ضرارؓ نے دوسرےہی وار سے اُس کا کام تمام کردیا۔مسلمانوں نے بہت سے رومیوں کو قتل کردیا اور جو بچ گئے وہ دمشق بھاگ گئے۔حضرت خالد ؓنے دمشق واپس پہنچ کر بولص کو اسلام کی دعوت دی لیکن اُس نے اپنے بھائی کے انجام کی خبر سُن کر اُس کے پاس پہنچنے کی خواہش کی جس پر حضرت خالدؓ نے اُسے بھی قتل کردیا۔

اجنادین کی جنگ کے بعد حضرت خالد ؓنے اسلامی لشکر کو دمشق کی جانب کُوچ کرنے کا حکم دیا۔اہل دمشق کو اجنادین میں رومیوں کی شکست کی خبر مل چکی تھی لہذا وہ غلّہ ، اشیائے صَرف جمع کرکے قلعہ میں پناہ گزین ہوگئے۔قلعہ کی دیواروں پر ہتھیار وغیرہ پہنچا دیے تاکہ مسلمانوں پر حملہ کیا جاسکے۔اسلامی لشکر نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔اہل دمشق نے اپنے حاکم توما سے ہرقل کی مدد طلب کرنےیا مسلمانوں سے مصالحت کرنے کا کہا لیکن توما نے اہل دمشق کو مسلمانوں پر حملے کا حکم دیا۔دونوں اطراف سے حملے ہوتے رہے۔محاصرہ طویل ہوتا گیا۔ بالآخر موقع پاکر مسلمان قلعہ کی دیواروں سے اندر اُترکر قلعے کے دروازے کھولنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اسلامی فوجیں دمشق میں داخل ہوگئیں ۔مغربی دروازے پرقابض حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اہل دمشق کی صلح کی درخواست قبول کرلی ۔چونکہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے اہل دمشق سے صلح منظور کرلی تھی اس لیے تمام مفتوحہ علاقوں پر صلح کی شرائط تسلیم کی گئیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دمشق کی جنگ حضرت ابوبکر ؓکے عہد خلافت میں شروع ہوئی تھی لیکن جب فتح دمشق کی خبر مدینہ بھیجی گئی توحضرت ابوبکر ؓکی وفات ہوچکی تھی۔اس طرح یہ حضرت ابوبکر ؓکے زمانے کی آخری جنگ تھی ۔آئندہ حضرت ابوبکر ؓکی زندگی کے باقی پہلو بیان کیے جائیں گے۔

حضور انور نے آخر میں مکرم عمر ارقوب صاحب سابق صدر جماعت جنوبی فلسطین،مکرم شیخ ناصر احمد صاحب مٹھی تھرپارکرسندھ پاکستان ، مکرم ملک سلطان احمد صاحب سابق معلم وقف جدید اور مکرم محبوب احمد راجیکی صاحب منڈی بہاؤالدین پاکستان کی وفات پر ان کے ذکر خیر اور ان کی جماعتی خدمات کے تذکرے کے بعد ان سب کی نماز جنازہ غائب بعد نماز جمعہ پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button