متفرق مضامین

خلفاء دلائل اور آدمیوں کے انتخاب سے نہیں خدا کی تائید اور نصرت سے بنتے ہیں

خلفاء کی منجانب اللہ تقرری اور برکات خلافت پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےفرمودات

زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے خلیفہ بنانا خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے ۔خلیفہ دلائل سے نہیں، آدمیوں کے انتخاب سے نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ ہی کی تائید و نصرت سے بنیں گے

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:

*…’’میں نے پہلے بتلایا ہے کہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے خلیفہ بنانے کا خداتعالیٰ کا وعدہ ہے اور وہ خلیفہ دلائل سے نہیں، آدمیوں کے انتخاب سے نہیں بلکہ خداتعالیٰ ہی کی تائید اور نصرت اور طاقت سے بنیں گے۔

(خطبات نور صفحہ12)

خدا کی قدرت نمائی

*…’’اُن (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے جانشین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہوئے۔ آپ کی قوم جاہلیت میں بھی چھوٹی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم میں سے نہ تھے۔ پھر کیونکر ثابت ہوا کہ خلیفہ حق ہیں۔ اُسامہ کے پاس بیس ہزار لشکر تھا اس کو بھی حکم دے دیا کہ شام کو چلے جاؤ۔ اگر اُسامہ کا لشکر موجود ہوتا تو لوگ کہتے کہ بیس ہزار لشکر کی بدولت کامیابیاں ہوئیں۔ نواح عرب میں ارتداد کا شور اٹھا۔ تین مسجدوں کے سوا نماز کا نام و نشان نہ رہا تھا۔ سب کچھ ہوا پر خدا نے کیسا ہاتھ پکڑا کہ رافضی بھی گواہی دے اٹھا کہ اسداللہ الغالب کو … ساتھ ہونا پڑا۔ کیسا خوف پیدا ہوا کہ عرب مرتد ہوگئے۔ مگر سب خوف جاتا رہا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنائے تھے۔ اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ جب لوگ مامور ہو کر آتے ہیں تو خداتعالیٰ کی قدرت نمائی ہے۔ اس کے ہاتھ کا تھامنا یہ دکھلا دیتا ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی حفاظت میں محفوظ ہوتا ہے‘‘۔

(خطبات نور صفحہ10)

خلیفہ کا تقرر خدا کےہاتھ میں ہے

ز…’’خلیفہ کا تقرر خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہونا ہی قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے … خداتعالیٰ کا وعدہ آپ ہی منتخب کرنے کا ہے۔ کون منتخب ہوتا ہے اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (الانعام125:) جو شخص خلافت کے لئے منتخب ہوتا ہے اس سے بڑھ کر دوسرا اس منصب کے لئے سزاوار اُس وقت ہر گز نہیں ہوتا۔‘‘

(خطبات نور صفحہ72)

یہ خدا ہی کا دست قدرت ہوتا ہے جوکہ ایک نبی کا قائمقام کسی کو بناتا ہے

*…’’یہ خدا ہی کا دست قدرت ہوتا ہے جو کہ ایک نبی کا قائمقام کسی کو بناتا ہے۔ ان پر مشکلات آتی ہیں مگر خدا بدلہ دیتاہے۔ ان لوگوں میں تعظیم لامراللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ دونوں کمالات ہوتے ہیں۔ خدا کی کاملہ صفات کے یہ لوگ گرویدہ ہوتے ہیں اور مخلوق کی بے ثباتی اور لاشے ہونا ان کو بتلاتا ہے کہ خدا کا شریک کوئی نہیں ہے۔ اگر مُزکی ہونا انسان کی اپنی طاقت کا کام ہوتا تو عقلمند اور مادی علوم کے محقق اعلیٰ درجہ کے پارسا ہوتے۔ مگر اسی قسم کے لوگ گمراہ خبث ہو کر خدا سے دور چلے جاتے ہیں۔ اس لئے مُزکّی ہونے کے لئے ضرورت ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی آدمی جس میں کشش اور جذب کی طاقت ہوآوے‘‘۔

(خطبات نور صفحہ176-175)

خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے

*…یہاں کے بعض رہنے والے باہر کے آنے والوں کے کانوں میں باتیں بھرتے ہیں کہ ہماری جماعت میں اختلاف ہے۔ کوئی موجود خلیفہ کے بعد کسی کو تجویز کرتا ہے اور کوئی کسی کو۔ ان بے حیاؤں کو شرم نہیں آتی کہ ایسی باتیں کرتے ہیں۔ ان کو کیا خبر ہے کون خلیفہ ہوگا؟ ممکن ہے کہ ہمارے بعد بہتر خلیفہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی کیسی کیسی تائید کرے۔ جب تم اس قدر بے علم ہو تو ایسی ایسی باتیں کیوں کیا کرتے ہو؟ کیا تمہارا انتخاب کردہ منتخب ہوگا؟ کیا موجودہ خلیفہ تمہارے انتخاب سے خلیفہ ہوا ہے کہ وہ تمہارے انتخاب سے ہو گا؟ یہ کام تمہارا نہیں۔ خدا کا کام خدا کے سپرد کرو… مَیں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم کو اس کا وبال نہ بھگتنا پڑے۔ تم میں ایک امام ہے اس کا نام نورالدین ہے کیا تم اس کی حیاتی کے ذمہ دار ہو؟ پیش ازمرگ واویلا کرتے ہو۔ اگر تم حیادار ہو تو ایسی باتیں کبھی نہ کرو … میرے اور میاں صاحب کے درمیان کوئی نقار نہیں۔ جو ایسا کہتا ہے وہ بھی منافق ہے۔ وہ میرے بڑے فرمانبردار ہیں۔ انہوں نے مجھ کو فرمانبرداری کا بہتر سے بہتر نمونہ دکھایا ہے۔ وہ میرے سامنے اونچی آواز بھی نہیں نکال سکتے۔ انہوں نے فرمانبرداری میں کمال کیا ہے۔ میرے اور ان کے درمیان کوئی مخالفت نہیں۔میں نے امام بننے کی کبھی خواہش تک نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے تم سب کو گردنوں سے پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا۔ دیر کی بات ہے میں نے رؤیا دیکھی تھی کہ مَیں کرشن بن گیا۔ اس کا نتیجہ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا تھا‘‘۔(خطبات نور صفحہ622)

خدا نے مجھے قوت دی

*…’’خلیفہ بن کر مجھ پر بہت بڑا بوجھ پڑا ہے اگر خداتعالیٰ ہی کا فضل نہ ہوتا اور اس کی غریب نوازی میری دستگیری نہ کرتی تو میں اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہ تھا۔ مگر اس نے اپنے فضل سے مجھے قوت دی۔ جس کا ایک بیٹا بیمار ہو اس کی حالت کا اندازہ مشکل ہوتا ہے پھر جس کے لاکھوں بیٹے ہوں اور مختلف حاجتوں اور بوجھوں سے ان کی حالت اس کے لئے درد کا باعث ہو۔ اندازہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اسے کس قدر تکلیف ہوسکتی ہے۔ مگر اللہ ہی کا فضل ہے جو مَیں دل کے باغ میں رہتا ہوں۔ پس اس قسم کی ہمدردی کا احساس کرنے والا دل پہلو میں رکھنے والا انسان دنیا کو خدا کے فضل کے بِدُوں میسر نہیں آتا‘‘۔

(خطبات نور صفحہ479,478)

خدا نے جھکا دیا

ز…’’جماعت کے بعض لوگ دعاکرانے کی درخواست میں بھی شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی تمہارا معبود نہیں۔ کوئی تمہارا کارساز نہیں۔ مَیں علم غیب نہیں جانتا۔ نہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میرے اندر فرشتہ بولتا ہے۔ اللہ ہی تمہارا معبود ہے۔ اسی کے تم ہم سب محتاج ہیں کیا مخفی اور کیا ظاہر رنگ میں۔ اس کی طاقت بہت وسیع ہے اور اس کا تصرف بہت بڑا ہے۔ وہ جو چاہتاہے کردیتاہے۔ اس کا ایک نظارہ اس امر میں دیکھو کہ تم بھی مرزا کے مرید ہو اورمیں مرزا کا مرید ہوں مگراس نے تمہیں پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا ہے۔ اس میں نہ میری خواہش تھی اور نہ مجھ پرکسی انسان کا احسان ہے۔ میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی اور نہ یہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے۔ دیکھو میں بیمار ہوا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے بچنے کی امید نہیں۔ مگر میں زندہ بولتا موجود ہوں۔ خدا ہی کا علم کامل ہے۔ اس کا تصرف کامل ہے۔ اسی کے آگے سجدہ کرو۔ اسی سے دعا مانگو‘‘۔(خطبات نور صفحہ506)

انبیاء اور ان کے خلفاء کا انتخاب ارادۂ الٰہی سے ہوتا ہے

ز…’’خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری حکومت کو یہ لوگ طوعاً اور کرہاً مانتے ہیں۔ پس جب خدا کی حکومت کا یہ حال ہے تو پھر جب انبیاء علیہم السلام کی حکومت ہوتی ہے اس وقت لوگوں کو اور بھی اعتراضات سوجھتے ہیں اور کہتے ہیں لَوْ لَا نُزِّلَ ھَذَا الْقُرْانُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ (الزخرف32:) کہ وحی کا مستحق فلاں رئیس یا عالم تھا اس سے ظاہر ہے کہ لوگ رسول کی بعثت کے لئے خود بھی کچھ صفات اور اسباب تجویز کرتے ہیں جس سے ارادۂ الٰہی بالکل لگا نہیں کھاتا۔ علیٰ ہذا القیاس جب رسول کے خلیفہ کی حکومت ہوتب تو ان کو مضائقہ پر مضائقہ اور کراہت پر کراہت ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَ ھُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَعِیْشَتَھُمْ (الزخرف33:) کہ کیا یہ لوگ الٰہی فضل کو خود تقسیم کرتے ہیں؟ حالانکہ دیکھتے ہیں کہ وجہ معاش میں ہم نے ان کو خود مختار نہیں رکھا اور خود ہم نے اس کی تقسیم کی ہے۔ پس جب ان کو علم ہے کہ خدا کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا ہے تو پھر انبیاء اور ان کے خلفاء کا انتخاب بھی اس کے ارادہ سے ہونا چاہئے…یہ اسی کا فعل ہے کہ امام بناوے، خلیفہ بناوے۔ تمہاری سمجھ وہاں کام نہیں آسکتی۔ رموز سلطنت خویش خسرواں دانند۔ اگر اللہ تعالیٰ ایک شخص کو ہمارے کہنے سے مامور کردے اور اس کے اخلاق ردّی ثابت ہوں، ظالم، خودغرض ،کینہ پرور نکل آوے تو دیکھو کس قدر مشکل پڑے۔ اسی لئے لوگوں کو انجمنوں اور سماجوں میں اپنے منتخب کردہ پریذیڈنٹوں کو منسوخ کرنا پڑتا ہے یا وہ لوگ خود الگ ہوجاتے ہیں‘‘۔(خطبات نور صفحہ170)

لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کاسچا وعدہ

ز…’’اس زمانے ہی کو دیکھو کہ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کا وعدہ کیا سچا اور صحیح ثابت ہوا۔ اس کا رحم اس کا فضل اور انعام کس کس طرح دستگیری کرتا ہے۔ مگر انسان کو بھی لازم ہے کہ خود بھی قدم اٹھاوے۔ یہ بھی ایک سنت اللہ چلی آتی ہے کہ خلفاء پر مطاعن ہوتے ہیں۔ آدم پر مطاعن کرنے والی خبیث روح کی اذیّت بھی اب تک موجود ہے۔ صحابہ کرام پر مطاعن کرنے والے روافض اب بھی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو تمکنت دیتا ہے اور خوف کو امن سے بدل دیتا ہے‘‘۔

(خطبات نور صفحہ24,23)

خدا نے مجھے مقرر کیا ہے۔تم معاہدہ کا حق پورا کرو پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کامیاب ہوتے ہو
*…’’خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے میں بڑے زور سے خداکی قسم کھاکرکہتاہوں کہ اب میں اس کرتے کوہرگز نہیں اتار سکتا۔ اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہوجاؤ تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا۔ خدا کے مامور کا وعدہ ہے اور اس کا مشاہدہ ہے کہ وہ اس جماعت کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ اس کے عجائبات قدرت بہت عجیب ہیں اور اس کی نظر بہت وسیع ہے تم معاہدہ کا حق پورا کرو پھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہو اور کیسے کامیاب ہوتے ہو‘‘۔(خطبات نور صفحہ419)

*…’’جلد بازی سے کوئی فقرہ منہ سے نکالنا بہت آسان ہے مگر اس کا نگلنا بہت مشکل ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ہم تمہاری نسبت نہیں بلکہ اگلے خلیفے کے اختیارات کی نسبت بحث کرتے ہیں مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ ابو بکر اور مرزا صاحب سے بڑھ کر آئے۔‘‘ (خطبات نور صفحہ422)

خلافت کا انتخاب عقل انسانی کا کام نہیں

*…’’چونکہ خلافت کا انتخاب عقل انسانی کاکام نہیں۔ عقل نہیں تجویز کرسکتی کہ کس کے قویٰ قوی ہیں؟ کس میں قوت انتظامیہ کامل طورپر رکھی گئی ہے؟ اس لئے جناب الٰہی نے خود فیصلہ کردیا ہے وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ امَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ (النور56:) خلیفہ بنانا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ اب واقعات صحیحہ سے دیکھ لو کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے کہ نہیں؟ یہ تو صحیح بات ہے کہ وہ خلیفہ ہوئے اور ضرور ہوئے۔ شیعہ بھی مانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی بیعت آخرکرلی تھی۔ پھر میری سمجھ میں تو یہ بات آ نہیں سکتی اور نہ اللہ تعالیٰ کو قوی عزیز حکیم خدا ماننے والا کبھی وہم بھی کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ پر بندوں کا انتخاب غالب آگیا۔ منشاء الٰہی نہ تھا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوگئے۔(خطبات نور صفحہ56)

خلیفہ کی زندگی میں کوئی اور خلیفہ نہیں بن سکتا۔نہ ہی خلیفہ معزول ہو سکتا ہے

*…’’میں باوجود اس بیماری کے جو مجھے کھڑا ہونا تکلیف دیتاہے۔ اس موقعہ کو دیکھ کر سمجھاتا ہوں کہ خلافت کیسری دکان کا سوڈا واٹر نہیں (جو سہل الحصول ہو) تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کردے گا۔

تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں۔ تم خلافت کا نام نہ لو۔ مجھے خدا نے خلیفہ بنا دیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے …دیکھو میری دعائیں عرش پر سنی جاتی ہیں۔ میرا مولیٰ میرے کام میری دعا سے بھی پہلے کر دیتا ہے۔ میرے ساتھ لڑائی کرنا خدا سے لڑائی کرنا ہے۔ تم ایسی باتوں کو چھوڑ دو اور توبہ کرلو … تھوڑے دن صبر کرو۔ پھر جو پیچھے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ جیسا چاہے گا وہ تم سے معاملہ کرے گا۔‘‘ (حیات نور صفحہ567)

اطاعت خلافت

’’ایک شہدکی مکھی سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے وہ کیسی دانائی سے گھر بناتی،شہدبناتی … بدبودارچیزپر بھی نہیں بیٹھتی پھر اپنے امیر کی مطیع ہوتی ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد2صفحہ68)

بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے
’’کہا جاتاہے کہ خلیفہ کا کام صرف نماز پڑھادینا اور یا پھر بیعت لے لینا ہے۔ یہ کام تو ایک مُلّاں بھی کرسکتا ہے اس کے لیے کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں اور میں اس قسم کی بیعت پر تھوکتا بھی نہیں۔ بیعت وہ ہے جس میں کامل اطاعت کی جائے اور خلیفہ کے کسی ایک حکم سے بھی انحراف نہ کیا جائے۔‘‘

(الفرقان خلافت نمبر مئی،جون1967ء صفحہ28)

خلیفہ کی فرمانبرداری پر جماعت میں اتفاق، اتحاد اور وحدت موقوف ہے

*…’’حضرت صاحب کے زمانے میں مَیں نے چودہ سو کارڈ چھپوائے تھے کہ چودہ سو آدمیوں کی جماعت ہوکر ہم حضرت صاحب سے بیعت کریں گے اور اس فضل سے حصہ لیں گے جو جماعت سے مختص ہے۔ خدا نے خلوص نیت کو نوازا اور چودہ سو سے کئی لاکھ اس جماعت کو بنادیا۔ اب ضرورت ہے اس جماعت میں اتفاق اتحاد اور وحدت کی اور وہ موقوف ہے خلیفہ کی فرمانبرداری پر‘‘۔

(خطبات نور صفحہ418,417)

ز…’’آخرمیں ایک بات اَور کہنا چاہتا ہوں اور یہ وصیت کرتا ہوں کہ تمہارا اعتصام حبل اللہ کے ساتھ ہو۔ قرآن تمہارا دستورالعمل ہو۔ باہم کوئی تنازع نہ ہو کیونکہ تنازع فیضان الٰہی کو روکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم جنگل میں اسی نقص کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے احتیاط کی اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اب تیسری مرتبہ تمہاری باری آئی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غَسَّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ۔ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ استغفار کثرت سے کرو اور دعاؤںمیں لگے رہو۔ وحدت کو ہاتھ سے نہ دو۔ دوسرے کے ساتھ نیکی اور خوش معاملگی میں کوتاہی نہ کرو۔ تیرہ سوبرس کے بعد یہ زمانہ ملا ہے اور آئندہ یہ زمانہ قیامت تک نہیں آسکتا۔ پس اس نعمت کا شکر کرو۔ کیونکہ شکرکرنے پر اِزْدِیَادِ نعمت ہوتاہے۔‘‘

(خطبات نور صفحہ131)

*…’’اللہ جل شانہ کی سچی فرمانبرداری اختیار کرو۔ اس کی اطاعت کرو۔ اس سے محبت کرو۔ اس کے آگے تذلّل کرو۔ اس کی عبادت کرو۔ اور اللہ کے مقابل کوئی غیر تمہارا مطاع ، محبوب ، مطلوب، امیدوں کا مرجع نہ ہو۔ اللہ کے مقابل تمہارے لئے کوئی دوسرا نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تمہیں ایک طرف بلاتا ہو اور کوئی اور چیز خواہ وہ تمہارے نفسانی ارادے اور جذبات ہوں یا قوم اور برادری(سوسائٹی) کے اصول اور دستور ہوں، سلاطین ہوں،امراء ہوں، ضرورتیں ہوں، غرض کچھ ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابل میں تم پر اثر انداز نہ ہو سکے۔پس خدا تعالیٰ کی اطاعت،عبادت،فرمانبرداری، تذلّل اور اس کی حُب کے سامنے کوئی اور شئے محبوب، مقصود و مطلوب اور مُطاع نہ ہو۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ۔25جولائی1993ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button