الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارے میں معروف احمدی سائنس دان مکرمہ منصورہ شمیم صاحبہ کی ایک تقریر کا اردو ترجمہ مکرم راجا نصراللہ خان صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍اکتوبر2013ء میں شائع ہوا ہے۔

مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میں نے بچپن میں ایک چھوٹی سی کتاب ’’پہلا احمدی مسلمان سائنسدان عبدالسلام‘‘ (مرتبہ مکرم محمود مجیب اصغر صاحب) پڑھی تو لفظ ’’پہلا‘‘ میرے ذہن میں چمٹ گیا اور یہ چیز شعوری یا غیرشعوری طور پر مجھے فزکس کے میدان کی طرف لے گئی۔

مجھے ڈاکٹر صاحب سے بالمشافہ ملاقات کا کبھی موقع نہیں ملا لیکن مَیں نے اُن کے قائم کردہ ادارے ICTP (واقع ٹریسٹ۔ اٹلی)سے 2000ء میں تھیوریٹیکل ہائی انرجی کورس کا ایک سال کا ڈپلومہ مکمل کیا۔ یہاں تعلیم نے مجھے فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کا موقع بھی دیا۔ وہاں کی پُرسکون اور پُرسکوت لائبریری کا ماحول مجھے سب سے زیادہ متأثر کرتا تھا جہاں بغیر کسی خلل کے آپ اپنی توجہ مرکوز رکھ سکتے ہیں اور کھڑکیوں سے نظر آنے والے خوبصورت مناظر اُس وقت بےحد راحت افزا محسوس ہوتے جب Equations حل کرتے کرتے تھکان اور گھٹن محسوس ہونے لگتی۔ اس مرکز نے بہت سے نوجوانوں کو مستقبل سنوارنے میں مدد کی۔ ڈاکٹر مجاہد کامران (وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی لاہور) اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’سلام نسل، رنگ اور مذہب سے بےنیاز ہوکر ساری عمر لوگوں کے مددگار رہے۔ وہ ہمیشہ بڑی خاموشی سے لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ سلام کی نمایاں ترین نیکیوں اور خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ وہ نئی نسل کے لیے بہت پیار اور شفقت رکھتے تھے۔ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور اگر اُن میں کوئی چمک یا چنگاری دیکھتے تو وہ اُن کی فوری طور پر خلوصِ دل سے حوصلہ افزائی اور پذیرائی کرتے۔ یہ سب کچھ وہ بےغرضانہ اور بدلے میں کسی قسم کی توقع رکھے بغیر کرتے۔‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات کے بعد اُن کی عظیم نیکی ICTP کے ذریعے جاری ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ جب ایڈنبرا میرے خیالوں کی آماجگاہ تھا تو وہاں 1963-64ء میں پروفیسرThomas Kibbleنے مجھے برطانوی سائنسدان پروفیسر Peter Higgs کے تجویز کردہ Higgs Mechanism کے بارے میں پڑھایا جسے بعدازاں مَیں نے وین برگ کے ساتھ مل کر یونیفائیڈ الیکٹروویک نظریہ کی سیمٹری توڑنے کے لیے استعمال کیا اور نتیجۃً ہمیں نوبیل انعام ملا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ 4؍جولائی 2012ءکو سرن لیبارٹری (جنیوا۔ سوئٹزرلینڈ) میں جن سائنسدانوں نے کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد ہِگزبوسان کی دریافت کا اعلان کیا اُس ٹیم میں مضمون نگار بھی شامل تھیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میرے خیال میں مسلمان سائنسدان وہ لوگ ہیں جو سچے دل سے براہ راست قرآن کریم کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت کائنات کے بھیدوں کے متعلق غوروفکر کرتے ہیں اور دقیق مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عمل کو مسلسل جاری رکھتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’دمشق یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد اعجاز الخطیب کے مطابق اس قول سے بڑھ کر سائنس کی اہمیت پر زور نہیں دیا جاسکتا کہ قرآن کریم میں اڑہائی صد آیات قانون سازی سے متعلق ہیں جبکہ ساڑھے سات صد آیات جو قرآن کریم کا قریباً آٹھواں حصہ ہیں، مسلمانوں کو تاکید کرتی ہیں کہ وہ قدرت (Nature)کا مطالعہ کریں، اس پر تدبّر کریں، عقل اور دلیل (Reason) کا بہترین استعمال کریں اور سائنسی جدوجہد (Enterprise) کو معاشرتی زندگی کا لازمی جزو بنالیں۔‘‘پیغمبراسلامﷺنے فرمایا کہ ’’ہرمسلمان عورت اور مرد کا لازمی فریضہ ہے کہ وہ علم حاصل کرے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ’’مَیں ایک مسلمان اور باعمل مسلمان ہوں۔ مَیں مسلمان ہوں کیونکہ مَیں قرآن کریم کے روحانی پیغام پر ایمان رکھتا ہوں۔ سائنسدان کی حیثیت سے مجھ سے قرآن کریم Cosmology یعنی کائنات کی ابتدا اور اِس کی بناوٹ، علم طبیعات، علم حیوانات و نباتات اور طبّ سے متعلق تمام انسانوں کے لیے نشانیوں کی مثالیں دے دے کر قوانین قدرت پر تدبّر کرنے کے بارے میں زور دیتا ہے۔‘‘

………٭………٭………٭………

کوسٹاریکا (Costa Rica) اور مونٹی نیگرو (Montenegro)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ستمبر2013ء میں مکرم عطاءالنور صاحب کے قلم سے دو ایسے ممالک کا مختصر تعارف شامل اشاعت ہے جن میں گزشتہ سال،یعنی 2012-13ء کے دوران، اسلام احمدیت کا پودا لگا ہے۔

اگرچہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی کتاب ’’احمدیت‘‘ میں کوسٹاریکا میں جماعت احمدیہ کے قیام کا ذکر فرمایا ہے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہاں کوئی احمدی نہیں رہا۔

وسطی امریکہ کے ملک کوسٹاریکا کے دو اطراف میں سمندر ہے جبکہ نیکاراگوا اور پاناما اس کے ہمسائے ہیں۔ یہاں کا دارالحکومت San Jose (سان ہوزے) ہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ ملک کا کُل رقبہ دس ہزار پچاس مربع کلومیٹر اور آبادی پینتالیس لاکھ سے زائد ہے جن میں ننانوے فیصد ہسپانوی ہیں۔ یہاں کی سرکاری زبان بھی ہسپانوی ہے۔ کرنسی ’کولون‘ کہلاتی ہے۔

اس ملک کا نام کولمبس نے 1502ء میں رکھا تھا جو ہسپانوی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے: ’’امیر ساحل‘‘۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کہ کولمبس جب یہاں کی ایک بندرگاہ Lemon میں اُترا تو اُس نے یہاں کے لوگوں کو سونے میں لدا ہوا پایا۔ 5؍ستمبر1821ء کو جب وسطی امریکہ کو آزادی ملی تو کوسٹاریکا میکسیکو کا حصہ تھا۔ 1854ء میں ایک ہولناک زلزلے نے اس ملک کو تہ و بالا کردیا۔

جب کیوبا نے یہاں کافی کی زراعت شروع کی تو اس ملک نے زراعت میں ترقی کی اور یہاں کی معیشت بھی بہتر ہونے لگی۔ یہاں کی دیگر پیداوار میں گنّا، کیلا اور گوشت شامل ہیں۔ ملک کی آمدنی کا بڑا ذریعہ سیاحت ہے۔ اس کے خوبصورت ساحل بہت مشہور ہیں۔ یہاں تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے اور نوّے فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔

صدارتی نظام یہاں رائج ہے اور ہر چار سال بعد انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ 1949ء میں کوسٹاریکا نے اپنی فوج ختم کردی تھی۔ تب سے یہاں قومی لبریشن پارٹی برسراقتدار ہے۔ جبکہ سوشلسٹ پارٹی ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ ملک میں سات صوبے ہیں جن میں گورنر نگران ہوتا ہے۔

کوسٹاریکا کا شمار ایک ترقی یافتہ ملک میں ہوتا ہے۔ یہاں 1980ء میں یونیورسٹی آف پیس قائم کی گئی تھی اور محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 1981ء سے 1986ء تک اس یونیورسٹی کی کونسل کے نامزد رُکن رہے ہیں۔

مونٹی نیگرو کا ملک یورپ میں واقع ہے اور اس نام کا مطلب ہے: ’’کالے پہاڑ‘‘۔ اس کی سرحدیں سمندر کے علاوہ بوسنیا، سربیا، کروشیا، کوسووو اور البانیا سے ملتی ہیں۔ ملک کا رقبہ صرف تیرہ ہزار 812 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی سات لاکھ کے قریب ہے جن میں اٹھارہ فیصد مسلمان اور باقی سب عیسائی ہیں۔ یہاں کا دارالحکومت Podgorica (پوڈگوریکا) ہے۔ قومی زبان سربین ہے اور کرنسی یورو ہے۔ کسی زمانے میں یہ ملک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ایک عرصے تک یہ سرزمین Bishops کے تسلّط میں رہی۔ 1696ء سے 1918ء تک یہ ملک یوگوسلاویہ کا حصہ رہا۔ 3؍جون 2006ء کو مونٹی نیگرو آزاد ہوا اور اقوام متحدہ کا 192واں رُکن بنا۔

2010ء میں یہاں سے پہلا وفد حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لیے آیا تھا۔ پھر جلسہ سالانہ برطانیہ 2012ء کے موقع پر بھی یہاں سے ایک وفد حضورانور کی خدمت میں حاضر ہوا اور چند ماہ میں یہ ملک احمدیت کی آغوش میں آگیا۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 2؍اکتوبر 2013ء میں محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس بیگم صاحبہ کی ایک طویل آزاد نظم بعنوان ’’گھر کا مقام‘‘ شاملِ اشاعت ہے۔ اس پُراثر نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

کچھ آج بزم دوستاں میں ایک گھر کی بات ہو

چمن کے رنگ و بُو ، حسین بام و دَر کی بات ہو

خلوصِ دل کی بات ، خوبیٔ نظر کی بات ہو

وہ قصر ہو ، محل ہو یا بڑا سا اِک مکان ہو

ہے بات سب کی ایک ہی

یہ سب تو خشتِ مرمریں کا بس حسین ڈھیر ہیں

ہاں گھر کی بات اَور ہے

گو چھوٹا سا مکان ہو

پہ موسموں کے گرم و سرد سے مجھے بچاسکے

وہ میرا سائبان ہو

مری نظر میں گھر ہے وہ

مرے عزیز دوستو

جہاں محبتیں بھی ہوں ، جہاں رفاقتیں بھی ہوں

جہاں خلوصِ دل بھی ہو ، جہاں صداقتیں بھی ہوں

جہاں ہو احترام بھی ، جہاں عقیدتیں بھی ہوں

جہاں ہو کچھ لحاظ بھی ، جہاں مروّتیں بھی ہوں

جہاں نوازشیں بھی ہوں ، جہاں عنایتیں بھی ہوں

جہاں ہو ذکرِ یار بھی ، جہاں عبادتیں بھی ہوں

کسی حسین ، دلنواز کی حکایتیں بھی ہوں

جہاں نہ ہوں کدورتیں ، جہاں نہ ہوں عداوتیں

دل و نگاہ و فکر کی جہاں نہ ہوں کثافتیں

یہ ایسی اِک جگہ ہے کہ جسے مَیں اپنا کہہ سکوں

جہاں میں سُکھ سے جی سکوں جہاں سکوں سے رہ سکوں

جہاں نہ بدلحاظ ہو کوئی نہ بدزبان ہو

جہاں نہ بدسرشت ہو کوئی نہ بدگمان ہو

نہ جس جگہ دکھائی دیں اَنا کی کج ادائیاں

گو خامیاں ہزار ہوں پہ ہوں نہ جگ ہنسائیاں

مرے عزیز دوستو! یہ گھر تو وہ مقام ہے

جہاں سکون مل سکے ، جہاں قرار تو ملے

جہاں محبتیں ملیں ، جہاں سے پیار تو ملے

جہاں تحفّظ و خلوص و اختیار تو ملے

جہاں دلوں کو چین ، ذہن کو نکھار تو ملے

جہاں سے احترامِ ذات کا وقار تو ملے

کسی کی ذاتِ معتبر کا اعتبار تو ملے

یہ افتخار تو ملے

یہی تو وہ مقام ہے

کہ جو مجھے عزیز ہے

یہ گھر عجیب چیز ہے، مجھے بہت عزیز ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button