خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 26؍اگست 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں ملک شام کے مرتدین باغیوں کے خلاف پیش قدمی اور جنگ کا احوال

٭… اسلامی لشکروں میں مہاجر اور انصار صحابہ کی شمولیت کی وجہ سے حضرت ابوبکر ؓ کو اللہ کی طرف سے رومیوں پر غلبہ عطا ہونے کی کامل امید تھی

٭… حضرت خالد بن ولید ؓنے جنگ کے بغیر واپس جانے کی صورت میں ہر قل کی تحفے اور تحائف دینے کی پیشکش انتہائی حقارت سے ٹھکراکر جہاد کو ترجیح دی

٭…حضرت ابوبکر ؓنے مسلمانوں کی فتح کی خبر پر فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور اس نے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کردیا

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 26؍اگست 2022ء بمطابق 26؍ظہور1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 26؍اگست 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

حضرت ابوبکر ؓکے شام کی طرف بھیجے ہوئے تین لشکروں کا ذکر گذشتہ خطبے میں ہوچکا ہے ۔چوتھا لشکر حضرت ابوبکر ؓکی خواہش پر حضرت عمرو بن عاص ؓ کی قیادت میں شام کی طرف روانہ ہوا۔ حضرت ابوبکر ؓنے لشکر کی روانگی کے وقت حضرت عمرو بن عاص ؓکو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم رائے اور تجربے کے مالک ہو اور جنگی بصیرت رکھتے ہو ۔ تمہارے ساتھ تمہاری قوم کے اشراف اور مسلم صلحاء ہیں اور تم اپنے بھائیوں سے ملو گےلہٰذا ان کی خیر خواہی میں کوتاہی نہ کرنا اور اُن کے اچھے مشورے کو نہ روکنا۔حضرت عمرو بن عاصؓ نے عرض کیاکہ کتنا بہتر ہے کہ میں آپؓ کے گمان کو سچ کردکھاؤں۔حضرت عمرو بن عاص ؓ کے لشکر کی تعداد چھ سات ہزار کے درمیان تھی جبکہ ان کی منزل مقصود فلسطین تھی۔

حضرت عمرو بن عاص ؓنے ایک ہزار مجاہدین کا لشکر حضرت عبد اللہ بن عمر ؓکی سربراہی میں روم کی طرف روانہ کیاجس نے رومیوں کی طاقت کو پارہ پارہ کرکے شکست دی اور فتح حاصل کی۔اس جنگ میں پکڑے گئے قیدیوں سے پوچھ گچھ پر حضرت عمرو بن عاص ؓ کو علم ہوا کہ رومی فوج مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے کی تیاری میں ہے۔اس پر حضرت عمرو بن عاصؓ نے اپنا لشکر منظم کیا اور جب رومیوں نے حملہ کیا تو اُن کو پسپا ہوکر واپس جانے پر مجبور کردیا۔بعد ازاں رومیوں پر جوابی حملہ کرکے اُن کی قوت کو تباہ کردیا۔رومی فوج نے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کیا۔ اسلامی فوج نے اُن کا پیچھاکیا ۔ دشمن کے ہزاروں فوجی مارے گئےجس پر یہ معرکہ ختم ہوا۔

ان لشکروں میں ایک ہزار سے زائد مہاجر اورانصار صحابہ شامل تھے جنہوں نے ابتدائے اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش لڑائیوںمیں حصہ لیا تھا۔ان میں وہ اہل بدر بھی شامل تھے جن کے لیے آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی تھی کہ آج اگر تُو نے اس چھوٹی سی جماعت کو ہلاک کردیا تو آئندہ پھر کبھی زمین پر تیری پرستش نہیں کی جائے گی۔اس وجہ سے حضرت ابوبکر ؓکو کامل امید تھی کہ اللہ تعالیٰ اُن کے بھیجے ہوئے لشکروں کو رومیوں پر غلبہ عطا فرمائے گا۔

فلسطین میں موجود شاہِ روم ہرقل کو جب مسلمانوں کی فتح کی اطلاع ملی تو اُس نے علاقے کے سرداروں کو جمع کرکے جذباتی تقریروں کے ذریعہ فتح کا یقین دلا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرلیا۔اسی طرح اُس نے دمشق، حمص اور انطاکیہ کے لوگوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑکاکر جنگ پر راضی کرلیااور انطاکیہ کو ہیڈ کوارٹر بناکر مسلمانوں سے جنگ کی تیاری کرنے لگا۔ایک روایت میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ جب ہرقل کو اسلامی لشکروں کی آمد کی اطلاع ملی تو اُس نے اپنی قوم کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے شام کی نصف پیداوار کی شرط پر مسلمانوں سے صلح کا مشورہ دیاتاکہ روم کا علاقہ بھی اُن کے پاس رہ جائے اور نصف پیداوار بھی مل جائے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ مسلمان تمام علاقے پر قابض ہوجائیں۔اہل روم نے ہرقل کی رائے سے اختلاف کیا جس پر ہرقل نے حمص اور انطاکیہ میں اپنے لشکر تیار کیے۔ہرقل کے پاس چونکہ فوج کی تعدادبہت زیادہ تھی اس لیے اُس نےحضرت عمرو بن عاصؓ، حضرت یزید بن ابو سفیانؓ،حضرت ابو عبیدہؓ اور حضرت شرحبیل بن حسنہ ؓ کے مقابلے کے لیے علیحدہ علیحدہ بڑے بڑے لشکر بھجوائے۔حضرت ابوعبیدہ ؓ، حضرت عمرو بن عاصؓ اورحضرت یزید بن ابو سفیان ؓنے اپنے اپنے خطوط میں ہرقل کے انطاکیہ میں قیام اور اُس کے لشکروں کی صورت حال سے حضرت ابوبکر ؓکو اطلاع بھجوائی اور مدد طلب کی۔جواب میں حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاکہ ہرقل کا انطاکیہ میں قیام کرنا اُس کی اوراُس کے ساتھیوں کی شکست اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری اور مسلمانوں کی فتح ہے۔ خو دبھی اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے ساتھیوں کو بھی اطاعت الٰہی کا حکم دو۔اللہ تعالیٰ تمہیں رُسوا نہیں کرے گا۔

حضرت ابوبکر ؓنے حضرت ہاشم بن عتبہ ؓکی سربراہی میں ایک ہزار مجاہدین کا لشکر ترتیب دے کر حضرت ابوعبیدہؓ کی مدد کے لیے روانہ کیا۔روانگی کے وقت حضرت ابوبکر ؓنے حضرت ہاشم ؓ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ہم بڑے بوڑھے کی رائے اور تجربہ سے استفادہ کیا کرتے تھے اور نوجوانوں کے صبر قوت اور شجاعت پر بھروسہ کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر یہ سب فضائل جمع کردیے ہیں ۔ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو تو ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور صبر کا مظاہرہ کرنا۔ اللہ کی راہ میں تم جو قدم بھی اُٹھاؤگے اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمہارے نامہ اعمال میں عمل صالحہ لکھے گا۔اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔حضرت ہاشمؓ کے چچا حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے اُن سے کہا کہ تم جو بھی نیزے چلاؤ اور جو ضرب بھی لگاؤاُس سے مقصود اللہ کی رضا ہو۔حضرت ہاشم ؓنے جواباً کہا کہ آپؓ بے فکر رہیں میرا ہر عمل اللہ کی خاطر ہی ہوگا۔

حضرت ابوبکر ؓنےسات سو افراد پر مشتمل ایک اور لشکر حضرت سعید بن عامر ؓکی قیادت میں جہاد شام کے لیے روانہ کیا۔حضرت بلال ؓنے اس لشکر میں شامل ہونے کی خواہش کا ذکر کیا تو حضرت ابوبکر ؓنے فرمایا کہ اے بلال! مَیں تمہیں صرف اذان کے لیے چاہتا ہوں اور مجھے تمہاری جدائی سے وحشت محسوس ہوتی ہے لیکن ایسی جدائی ضروری ہےجس کے بعد قیامت تک ملاقات نہ ہوگی۔تم عمل صالحہ کرتے رہنا یہ دنیا سے تمہارا زادِ راہ ہواور جب تم زندہ رہوگے اللہ تمہارا ذکر باقی رکھے گااور جب وفات پاؤگے تو اس کا بہترین ثواب عطا کرےگا۔حضرت بلالؓ نے کہا کہ اللہ آپؓ کو جزائے خیر عطا کرے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے اذان دینا نہیں چاہتا اور اس کے بعد حضرت بلال ؓ بھی حضرت سعید بن عامرؓ کے ساتھ روانہ ہوگئے۔

حضرت ابوبکر ؓنے اس کے بعد حضرت معاویہ ؓکے ساتھ بھی لوگ جمع کرکے حضرت یزید بن ابو سفیان ؓکی طرف روانہ کیے۔حضرت حمزہ بن ابوبکر ہمدانی ؓبھی اپنا ایک ہزار یا اُس سے زائد کا لشکر لےکر حضرت ابوبکر ؓکے پاس پہنچے ۔ حضرت ابوبکرؓ اُن کی تعدا داور تیاری دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مسلمانوں پر اللہ کے اس احسان پرتمام تعریفیں اُسی کے لیے ہیں۔اللہ ہمیشہ ان لوگوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کرکےاُن کی راحت کے سامان مہیا کرتا رہتا ہےاور اُن کے دشمن کی پشت کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔حضرت ابوبکر ؓنے حضرت حمزہ ؓکو اجازت دی کہ جس لشکر سے چاہوجاملو۔ چنانچہ حضرت حمزہ ؓ یہ جان کر کہ اسلامی لشکروں کے امیروں میں حضرت ابوعبیدہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ قریب تھے وہ اپنے لشکر سمیت حضرت ابوعبیدہ ؓسے جاملے ۔یہ بھی عشق رسول کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔

جہادی وفود کا مدینہ میں آنے کا سلسلہ جاری رہا اور حضرت ابوبکر ؓانہیں مہمات پر روانہ کرتے رہتے۔حضرت ابوعبیدہ ؓ کے مسلسل خطوط کی بنا پر حضرت ابوبکر ؓنے حضرت خالد بن ولید ؓکو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ اُس وقت عراق میں تھے جب حضرت ابوبکر ؓنے اُنہیں شام جاکر اسلامی افواج کی امارت سنبھالنے کا حکم دیا،حضرت خالد بن ولید ؓنے دمشق میں قیام کیا جبکہ بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے قناۃ بُصریٰ میں قیام کیا۔یہاں کے لوگوں نے مسلمانوں سے اپنی جانوں کے امان، حفاظت اور جزیہ کی ادائیگی پر صلح کرلی۔

حضرت خالدبن ولید ؓحضرت ابوعبیدہ ؓاور حضرت یزید بن ابوسفیان ؓ کو ساتھ لےکر حضرت عمرو بن عاص ؓکی مدد کےلیے فلسطین کی طرف روانہ ہوئے۔رومی مسلمانوں کی افواج کی آمد سن کر اجنادین کی طرف ہٹ گئے۔دونوں طرف کے تمام لشکر اجنادین میں جمع ہوگئے۔ ہرقل نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو واپس جانے کی صورت میں مختلف تحفے اور تحائف دینے کی پیشکش کی لیکن حضرت خالد ؓنے یہ پیشکش انتہائی حقارت سے ٹھکرادی۔حضرت خالد ؓنے اپنے لشکر کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے جہاد کی ترغیب دی اور مسلمان عورتوں کو لشکر کے پیچھے رہ کر اللہ کو پکارنے اور فریادکرنے کا حکم دیا۔دونوں طرف کی افواج میں شدید لڑائی ہوئی۔رومیوں کے سردار قتل کیے گئے۔ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔حضرت ابوبکر ؓاس فتح کی اطلاع کے وقت مرض ا لموت میں مبتلا تھے لیکن فتح کی خبر سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مسلمانوں کی مدد کی اور اس نے میری آنکھوں کو ٹھنڈا کردیا۔

حضور انور نے فرمایا کہ اجنادین کی جنگ کے بارے میں ابہام ہے کہ یہ شایدحضرت عمر ؓکے زمانےمیں ہوئی تھی لیکن ہماری تحقیق کے مطابق غالب امکان یہی ہے کہ اجنادین کی جنگ دو مرتبہ ہوئی ہو۔پہلی مرتبہ حضرت ابوبکر ؓکے دَور خلافت میں اور دوسری بار حضرت عمر ؓکے دَور خلافت میں ہوئی۔بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے ۔فتح دمشق کی تفصیلات انشاءاللہ آئندہ بیان ہوں گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button