تقریر جلسہ سالانہ

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

(محمد الیاس منیر۔ مربی سلسلہ انچارج شعبہ تاریخ، جرمنی)

آج کی اس نشست میں ہم نےایمان و اخلاص، صبر و استقامت اورعشق و وفا کی لازوال داستانیں سنیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمائے ہوئے اعلان ‘‘صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا’’کو پورا کرنے والی ہیں۔ یہ ایمان افروز واقعات سننے کے بعدضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان واقعات کو اپنے اعمال و کردار کا حصہ بنائیں، یہ داستانیں ماضی کے قصے نہ رہیں بلکہ ہر دور میں زندہ ہوتی رہیں

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ، وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعة 3-5)

مبارک وہ جو اب ایمان لایا

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی

فسبحان الّذی اخزی الاعادی

سامعین کرام! سیدنا حضرت مسیح موعود کا جو شعر ابھی میں نے پڑھا ہے، اس دوسرا مصرعہ

’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘

خاکسار کی گزارشات کا موضوع ہے

اس شعرمیں سیّدنا حضرت مسیح موعود نے یہ اعلان فرمایا ہے کہ جو شخص آپ پر ایمان لائے گا، اس کا شمار صحابہ رسول ﷺ میں سے ہوگا۔ یہ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے جس کے نتیجہ میں اس زمانہ میں مسیح و مہدی کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں کو چودہ سو سال پہلے گزرے ہوئے بزرگان دین کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔حضور کے اس دعویٰ کی بنیاد دراصل قرآن وحدیث پر ہے۔ سورہ جمعہ کی آیہ کریمہ جو ابھی آپ کے سامنے پڑھی گئی ہے، اس میں آنحضرت ﷺ کی روحانی بعثت ثانیہ کی پیشگوئی کی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود کے وجود میں پوری ہوئی۔

صحیح بخاری میں ذکر ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہؐ! وہ کون لوگ ہیں جو ہم میں سے ہیں لیکن ابھی ہم سے نہیں ملے تو آنحضور ﷺ نے حضرت سلمان فارسی کے شانہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریّا ستارے پر بھی چلا گیا تو ایک عظیم مرد یا بہت سے افراد ان میں سے ہوں گے جو اسے ثریّا سے واپس لاکر رلوگوں کے دلوں میں قائم کریں گے۔دیگر احادیث کی روشنی میں اس کی مزید تفصیل بھی ملتی ہے۔ مختصراً یہ کہ آنے والے موعود مسیح و مہدی کے ساتھیوں سے متعلق یہ بشارت تھی جو وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے مصداق بننے والے تھے۔ یہی وہ بات تھی جس کا ذکر اس مصرعہ میں ہے کہ

’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا ‘‘

اور اس کی مزید وضاحت اگلے شعر میں فر ما دی ؎

وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی

فسبحان الذی اخزی الاعادی

یعنی مسیح موعود کے صحابہ آنحضرت ﷺ کے صحابہ کے ہمرنگ اور مثیل ہوں گے۔ حضورؑ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں:

’’چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرض منصبی جو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بوجہ عدم وسائل اشاعت غیر ممکن تھا اس لئے قرآن شریف کی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدِثانی کا وعدہ دیا گیا ہے۔ (تحفہ گولڑویہ رح ۱۷ ص ۳۶۳ حاشیہ)

سامعین کرام! صحابہ کرام کی سیرت و سوانح پر نظر ڈالیں تو صحابہ رسول ﷺ کے واقعات کے ہمرنگ واقعات حضرت مسیح موعود کے صحابہ کی زندگیوں میں بھی ملتے ہیں اور اس کثرت سے ملتے ہیں کہ

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

تاہم وقت کی مناسبت سے صرف چند ایسے پہلو منتخب کیے ہیں جو وقت کی ضرورت بھی ہیں۔

آنحضرت ﷺ نے جونہی مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت خدیجہؓ، حضرت علی ؓکوئی دلیل یا نشان مانگے بغیر ایمان لائے۔ ان کے لیے آپ ﷺ کا وجود ہی آپ کی صداقت کی دلیل تھا،

محمدؐ ہست برہان محمدؐ

والا مضمون تھا۔ انہیں کسی خارجی دلیل کی ضرورت ہی نہ تھی۔

ایسا ہی معاملہ حضرت مسیح موعود کی زندگی میں بھی دکھائی دیا، بہت سے ایسے صحابہ تھے جو آپؑ کو دیکھتے ہی گرویدہ ہو گئے۔ حضرت الحاج حکیم نور الدین صاحب مع اپنی اہلیہ، حضرت امّاں جان سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اور دیگر سینکڑوں مخلصین بلاتوقّف ایمان لا کر اوّلین صحابہ سے جا ملے۔ حضرت الحاج حکیم نور الدین صاحب نے جب پہلی مرتبہ حضور کو دیکھا تو برجستہ فرمایا:

’’یہی مرزا ہے اور اس پر میں سارا ہی قربان ہوجاؤں‘‘(حیات نور صفحہ ۱۱۶)

حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ آف قاضی کوٹ ضلع گوجرانوالہ حضور کے دعویٰ سے بہت پہلے فروری ۱۸۸۵ء میں حضور کی زیارت سے پہلی بار مشرف ہوئے اور صرف پانچ روزہ قیام میں حضورؑ کی صحبت سے اس قدر متأثر ہوئے کہ واپس روانگی سے پہلے مسجد اقصیٰ کی دیوار پر ایک طویل تحریر لکھ گئے جس کی جان فارسی کا یہ شعر تھی ؎

حسن و خوبی و دلبری برتو تمام

صحبتے بعد از لقائے تو حرام

یعنی حسن و خوبی اور دل کشی کا خدا داد ملکہ آپ کی ذات پر مکمل ہو چکا ہے۔ اس لیے اب کوئی بھی صحبت آپ کی صحبت اور ملاقات کے بعد حرام ہے۔ (اصحاب احمد جلد ششم صفحہ ۱۱)

آپ جانتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطابؓ اپنے گھر سے آنحضور ﷺ کو (نعوذباللہ) قتل کرنے کے ارادہ سے نکلے لیکن خود آنحضور ﷺ کی محبت سے گھائل ہوکر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے، حضرت مسیح موعود کی زندگی میں بھی ایسے کئی واقعات ملتے ہیں۔ ایک دفعہ جب آپؑ لدھیانہ تشریف لے گئے تو ایک مولوی نے بڑے جوش سے تقریر کی کہ جوشخص آپ کو قتل کرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ ایک دیہاتی نے جنت میں جانے کا یہ آسان ترین نسخہ سنا تو آپؑ کی قیام گاہ تک پہنچ گیا۔ حضور وہاں خطاب فرما رہے تھے۔ یہ شخص موقع کے انتظار میں وہاں بیٹھ گیا لیکن جیسے جیسے حضور کے الفاظ اس کے کانوں میں پڑتے چلے گئے اسکے دل کا زنگ دھل کر صاف ہوتا چلا گیا اور وہ جو آپ کو قتل کرنے نکلا تھا خود سچ کی تلوار سے گھائل ہوگیااورجونہی آپ کی گفتگو ختم ہوئی اس نے آگے بڑھ کر آپ کے ہاتھ کو تھام لیا اور بیعت کرلی۔

اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کے ذکر میں فرماتا ہے:

تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا اور سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ۔ (الفتح 30)

یعنی تُو انہىں رکوع کرتے ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دىکھے گا،سجدوں کے اثر سے ان کے چہروں پر ان کى نشانى ہے۔پھر فرمایا تتجافیٰ جنوبہم عن المضاجع کہ راتوں کے وقت ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوجاتے ہیں یعنی وہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اپنی راتیں گزار تے ہیں۔ اس سے صحابہ کی عبادت سے محبت اور انہماک کا پتہ چلتا ہے جس کی گواہی خود خدا نے قرآن مجید میں دی فرمایا:’’رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ۔(النور:38)‘‘یہ ایسے عظیم مرد جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعود کے اصحاب میں بھی قیام عبادت، توجہ الیٰ اللہ اور اقامت صلوٰۃ کی بے شمار نہایت روشن اور درخشندہ مثالیں ملتی ہیں۔ ان کی باجماعت نمازوں کا التزام و اہتمام اور ان میں سوز وگداز غیر معمولی تھا۔ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے ارادہ کیا کہ آج کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا اور تنہائی میں اپنے مولیٰ سے جو چاہوں گا، مانگوں گا۔ مگر جب مسجد مبارک میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے۔ اس کے الحاح کی وجہ سے مَیں نماز بھی نہ پڑھ سکا اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہوگیا اور میں بھی دعا میں محو ہوگیا کہ یا الٰہی! یہ شخص تیرے حضور سے جو کچھ بھی مانگ رہا ہے، وہ اس کو دے دے۔ اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے مگر جب آپ نے سر اٹھایا تو دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں۔میں نے السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا اور پوچھا: میاں! آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا؟ تو آپؓ نے فرمایا: مَیں نے تو یہی مانگا ہے کہ الٰہی! مجھے میری آنکھوں سے دین کو زندہ کرکے دکھا۔(الفضل16؍فروری1968ء)

حضرت مولوی عبد الکریم صاحبؓ سیالکوٹی، حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ، حضرت منشی محمد اسماعیل صاحبؓ سیالکوٹی،حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ جو نابینا تھے اور کتنے ہی دوسرےصحابہ ہیں جنہیں آخری عمر میں بیماری و معذوری کے باوجود گھر پر نماز ادا کرنی گوارا نہ تھی، بارش ہو،آندھی ہو،کڑکڑاتا جاڑا ہویا تیز دھوپ مسجد پہنچ کر نماز باجماعت میں شامل ہوتے۔ (اصحاب احمدجلد7،صفحہ 10، اصحاب احمد جلد13صفحہ290،اصحاب احمدجلد 7صفحہ200)

اپنے ان متبعین کے حق میں حضرت مسیح موعود کی یہ تحریر ایک زبردست شہادت ہے :

’’بہتیرے اُن میں سے ایسے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیساکہ صحابہ رضی اللہ عنہم روتے تھے۔‘‘(ایّام الصلح)

حضرات! نبی پر ایمان لانے کے بعد الٰہی جماعتوں کی آزمائش شروع ہو جاتی ہے اور مصائب پر صبرکے امتحان ہوا کرتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں حضرت یاسرؓ اور ان کے بیٹے عمار ؓاور حضرت بلالؓ اور حضرت خبابؓ جیسے صحابہ نے جس طرح قبول ِ اسلام کے جرم میں مصائب پر صبر کیا، جس طرح انہوں نے اپنے مشرک والدین اور عزیزو اقارب کو اور اپنے اموال اور جائیداووں کو چھوڑا اور ہر قسم کی ایذا رسانیوں پر بے مثال صبر واستقامت کے نمونے دکھائے، اُسی طرح وَآخَرِينَ مِنْهُمْ کی جماعت میں اوّل الشہداءحضرت مولوی عبد الرحمان صاحبؓ،حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ صاحب شہید بھی اور دیگر بہت سے صحابہ نے بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کیں اور غیر معمولی قربانیاں دیں۔حضرت بھائی عبدالرحمانؓ صاحب قادیانی لڑکپن میں احمدی ہونے کی پاداش میں پابند سلاسل رہ کر اذیتوں کا نشانہ بنے۔حضرت مولوی برہان الدینؓ جہلمی کوسرِبازار مخالفوں نےزد وکوب کیا۔ حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد ماجدؓ کو اپنے گاؤں کوٹ قاضی محمد جان میں مخالفوں نے قریباً تیرہ برس تک سخت تکالیف پہنچائیں۔ مقاطعہ کئے رکھا۔ نقب زنی بھی کرا دی گئی۔ مگر آپ نے استقامت سے مقابلہ کیا۔ اور سب کام کاج چھوڑ کر اپنا سارا وقت تبلیغ میں صرف کرنا، آپ نے اپنا معمول بنا رکھا تھا۔ (اصحاب احمد جلد ششم صفحہ 35)

ان کی ان قربانیوں کی صحابہ سے مماثلت پر حضور کی شہادت اس طرح سے ہے، فرماتے ہیں:

’’ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اُٹھا رہے ہیں جیساکہ صحابہ نے اٹھایا۔‘‘(ایام الصلح)

قرآن کریم نے عربوں کی اخلاقی، روحانی اور معاشرتی حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہےوَ اِنْ کانُوا من قبل فی ضَلالٍ مُبینٍ یعنی وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے شاہ حبشہ نجاشی کے دربار میں اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی: بادشاہ سلامت! ہماری قوم نہایت جاہل تھی،ہم بت پرست تھے،مردار کھاتے تھے،الغرض ہم ایسی بدبختی میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری قوم میں ایک شخص کو ہمارے پاس اپنا رسول ﷺ بنا کر مبعوث فرمایا۔(ابن ہشام، زرقانی، طبری و بخاری )

چنانچہ دنیا کی نجاستوں میں گرے ہوئے یہ لوگ آنحضور ﷺ کی روحانی قوت قدسیہ سے سونے کی ڈلی بن گئے۔

حضرت مسیح موعود نے بیعت کے مقاصد میں یہ بات بڑی وضاحت سے بیان فرمائی ہے کہ اس بیعت کا مقصد گندی زیست سے نجات دلانا ہے۔ چنانچہ آپ کی قوت قدسیہ جو دراصل آنحضرت ﷺ کا ہی فیض ہے، کے نتیجہ میں آپؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے والوں میں دیکھتےہی دیکھتے نہایت درجہ پاک تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔ حضرت میاں محمد دین صاحب پٹواریؓ فرماتے ہیں: ’’براہین احمدیہ پڑھتے پڑھتے … معاًمیری دہریت کافور ہوگئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا…زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘(اخبارالحکم۔14؍اکتوبر،1938ء)

حضرت منشی عطا محمد صاحبؓ پٹواری بیان کرتے ہیں کہ میں سخت بے دین اور شرابی کبابی راشی مرتشی ہوتا تھا……حضور کی نصیحت کہ’’ زکریا والی توبہ کرو‘‘سُن کر میں نے شراب وغیرہ چھوڑ دی اور رشوت بھی بالکل ترک کر دی اور صلوٰۃ و صوم کا پا بند ہو گیا۔ (ماخوذازسیرت المہدی حصہ اول صفحہ220تا221روایت نمبر241)

ایسی بے شمار مثالیں ہیں، خود حضور اپنے صحابہ کے متعلق فرماتے ہیں:

’’ وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔‘‘ (ایّام الصلح)

خدا تعالیٰ کے ماموروں کو خدمات دینیہ کے لیے اموال کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔چنانچہ رسول اللہﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپؐ کے صحابہؓ نے مالی قربانیوں کا بھی حق ادا کردکھایا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان میں سر فہرست حضرت ابوبکرؓ کا نام نامی ہے۔ آپؓ کے بارہ میں رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ جب سب لوگوں نے میرا انکار کیا تو ابوبکرؓ تھا جس نے میری تصدیق کی اور اپنے مال اور جان سے میری مدد کی۔ (سیرت الحلبیہ جلد 1صفحہ295)

پھر حضرت عمر بن خطابؓ، حضرت عثمانؓ غنی اور حضرت عبد الرحمان بن عوفؓ نے بھی بڑی بڑی مالی قربانیاں پیش کیں۔ (ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عثمان بحوالہ سیرت صحابہ صفحہ 83،سیرت صحابہ رسولﷺ صفحہ154)

جب سورة آل عمران کی آیت لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبّون اُتری تو حضرت ابوطلحہ انصاریؓ نے اپنا پیارا باغ اللہ کے نام پر صدقہ کردیا۔(بخاری کتاب الزکوٰة و کتاب الوصایا)

یہی حال حضرت مسیح موعود کے اصحاب کاہے۔ حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ کے بارے میں حضورؑ کی گواہی ہے:

’’اُن کے مال سے جس قدرمجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد3صفحہ520)

حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ ہوں یا حضرت شیخ رحمت اللہ صاحبؓ یا حضرت خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ سبھی کو ان کے بے نظیر اخلاص اور مالی قربانیوں کے باعث حضور حبّی فی اللہ کے لقب سے نوازتے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہی صحابہ ہیں جنہوں نے صدیقی رنگ میں رنگین ہو کر اپنے گھروں کاسارا سامان آقا کے قدموں میں لا ڈالا۔ (تین سو تیرہ اصحاب صدق و صفا صفحہ 296)

حضرت میاں شادی خاں صاحبؓ لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ نے پہلے کسی کام کے لئے ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دیا پھر جب منارۃ المسیح کے لئے مالی تحریک ہوئی تو دوسو روپیہ چندہ پیش کر دیا اور لکھا:

چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں، اس لئے جو اپنے پاس تھا سب بھیج دیا۔

اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ’’یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب ديکھاجائے تو شايد تمام جائيداد پچاس روپیہ سے زيادہ نہ ہو … اوردرحقيقت وہ کام کيا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کيا تھا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ315)یہ سن کر انہوں نے گھر میں جو چارپائیاں رہ گئی تھیں وہ بھی بیچ کر ان کی رقم حضرت صاحبؑ کے حضور پیش کر دی۔ (ماخوذ از الحکم 21؍فروری 1923ء صفحہ 7)

حضور اپنے ایسے ہی مخلص صحابہ کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’مَیں دیکھتا ہوں کہ صدہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے۔ مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے۔ ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لا انتہاء اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو اُن سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہتی ہے یا جس کے آثار اُن کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں۔ ‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 584ایڈیشن1988ء)

آپ مزید فرماتے ہیں:

’’ بہتیرے اُن میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سِلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم خرچ کرتے تھے۔ ‘‘ (ایّام الصلح)

آنحضور ﷺ کے صحابہ کرام اپنے حبیب آقا کے ساتھ ایسی بے نظیر محبّت و فدائیت کا تعلق رکھتے تھے کہ اس کے سامنے دنیا کی ہر چیز ہیچ تھی۔ آپؐ پر اپنی جان چھڑکتے اور پروانوں کی طرح فدا ہو ہو جاتے۔ اصحاب صفہ اس کی بہت عظیم مثال ہے، ہر قسم کی دنیوی اغراض کو پس پشت ڈال کر اپنی زندگیوں کا لمحہ لمحہ اپنے آقا کی صحبت میں گزارنے والے تھےاور اس راہ میں بھوک کی شدت بھی روک نہ بنتی۔ جیسا کہ حضور نے فرمایا:

قد اٰثروک و فارقوا احبابہم

و تباعدوا من حلقۃ الاخوان

انہوں نے ہر قسم کے دنیوی مال و متاع کے مقابلہ پر تجھے ترجیح دی اور اپنی تمام دوستیوں اور رشتہ داریوں کو چھوڑ کر تیرے در پر دھونی رما لی اور تیرے ہی ہو کر رہ گئے۔

جب صحابہ مسیح موعود پر نظر ڈالتے ہیں تویہاں بھی بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں۔ دہلی جماعت سے تعلق رکھنے والے فدائی حضرت میر قاسم علی صاحب رضی اللہ عنہ قبولِ احمدیت کی وجہ سے انجمن مؤید الاسلام کی انتظامیہ کی طرف سے ملازمت چھوڑنےپر مجبور کئے جاتے ہیں تو آپ بخوشی ملازمت چھوڑ دیتے ہیں مگرامام الزمان کا دامن چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔ (بدر 8؍دسمبر 1905ء صفحہ 6)

حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑگانوی رضی اللہ عنہ نہایت مخلص اور با وفا مرید تھے، بیان کرتے ہیں:’’… میرے گاؤں میں لوگ کہتے ہیں کہ قادیانی ہو تو گئے ہو، میاں کبھی مرو گے تو (نعوذ باللہ) کتے لاش گھسیٹیں گے یہاں تو کوئی جنازہ بھی نہ پڑھائے گا تو میں ان کو یہ شعر سنا دیتا ہوں کہ

مجنوں تھا قیس جو کہ بیاباں میں رہ گیا!

ہم تو مریں گے یار کی دیوار کے تلے!‘‘

اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس ایمانی حالت اور ثبات کے بدلے اُن کی وفات سے محض تین روز پہلے انہیں قادیان پہنچا دیا اور تیسرے روز سچ مچ اُسی یار کی دیوار تلے اپنے مولیٰ کو جان سونپ کر اپنی بات پوری کرگئے۔(اصحاب احمد جلد دوم صفحہ 624)

حیدرآباد دکن سے بیعت کرنے والے سب سے پہلے خوش قسمت حضرت میر مردان علی صاحب رضی اللہ عنہ حضور کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’اگر ہماری جانیں بھی حضور کے قدموں پر نثار ہوجائیں تو ہم حقِ خدمت سے سُبکدوش نہیں ہو سکتے۔ ‘‘(الحکم 21؍جنوری 1903ء صفحہ 4)

سامعین کرام! اطاعت ہر جماعت اور نظام کا طرّہ امتیاز ہے۔ تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے صحابہ کرام اطاعت کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کرتے ہوئےنظر آتے ہیں۔ حضرت ابوطلحٰہؓ کے مکان پر مجلس شراب لگی ہوئی تھی کہ اتنے میں گلی میں کسی نے آواز دی کہ شراب حرام کی گئی ہے۔ بعض لوگوں نے کہا پتہ تو کرو کہ یہ بات درست بھی ہے؟ مگر دوسرے لوگوں نے کہا نہیں پہلے شراب کے بر تن توڑ دو پھر تصدیق کرنا۔ اگر بات غلط ہو ئی تو شراب اور آجائے گی لیکن اگر بات درست ہوئی تو ہم کہیں حکم رسولؐ کے نافرمان نہ قرار پائیں۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں میں نے ایسا ہی کیا اور سونٹا مار کر شراب کے مٹکے توڑ دیئے۔

حضرت مسیح موعود کے صحابہ نے بھی اطاعت کے وہ اعلیٰ نمونے دکھائے کہ قرون اولیٰ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ آقا کا پیغام ملتا ہے کہ دہلی پہنچو، تو حضرت مولوی نور الدین صاحب زاد راہ تو دور کی بات جوتا بھی درست طور پر نہیں پہنتے، اور اطاعت اور کامل اطاعت کے جذبہ سے سرشار اسٹیشن کی طرف چل پڑتے ہیں مباداتعمیل حکم میں تاخیر ہو جائے۔ دنیا کے عظیم ایوانوں تک پہنچنے والے صحابی مسیح موعودؑ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے ان کی کامیابیوں کا راز پوچھا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے ’’آقا کی اطاعت اور کامل اطاعت‘‘

آنحضور ﷺ کی آواز ’’بیٹھ جائیں‘‘کان میں پڑتے ہی اگردور اوّلین کے عبد اللہ بن مسعودؓ مسجد نبویؐ سے باہر گلی میں ہی بیٹھ جاتے ہیں اور گھسٹتے ہوئے مسجد میں پہنچتے ہیں تو صحابہ مسیح موعود بھی بعینہ مثال پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ قادیان میں لیکچر دے رہے تھے کہ حضرت بابا کریم بخش صاحب سیالکوٹی کسی کام سے باہر گئے۔ واپس آرہے تھے کہ حضور کے یہ الفاظ کانوں میں پڑے: بیٹھ جاؤ۔ یہ الفاظ حضور نے مسجد کے اندر موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمائے تھے۔لیکن کریم بخش صاحبؓ الفاظ سنتے ہی فوراً بازار میں ہی بیٹھ گئےاور بیٹھے بیٹھے مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں پر پہنچے اور حضورؑ کی تقریرسنی۔

الغرض صحابہ رسول ﷺ کے ساتھ صحابہ مسیح موعود کی مشابہت کے بے شمار واقعات ہیں، ان سب کے متعلق حضور کے مبارک الفاظ میں مختصراً عرض ہے کہ:

’’ اُن میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن اُن کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے۔اور آسمانی نشانوں سے اُن کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو وَآخَرِینَ مِنْهُمْکے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں۔ اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا۔!!!‘‘ (ایّام الصلح،روحانی خزائن جلد14صفحہ306تا307)

سامعین کرام! آج کی اس نشست میں ہم نےایمان و اخلاص، صبر و استقامت اورعشق و وفا کی لازوال داستانیں سنیں جو حضرت مسیح موعود کے فرمائے ہوئے اعلان ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘کو پورا کرنے والی ہیں۔ یہ ایمان افروز واقعات سننے کے بعدضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان واقعات کو اپنے اعمال و کردار کا حصہ بنائیں، یہ داستانیں ماضی کے قصے نہ رہیں بلکہ ہر دور میں زندہ ہوتی رہیں۔ کیونکہ اسی طرح سے اور ہاں اسی طرح سےآج ہم بھی ان عظیم صحابہ کے نقش قدم پر چل کر ایسی ہی داستانیں رقم کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے ہمیں نصیحت فرماتے ہیں:

’’تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کرصحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو۔اطاعت ہوتو ویسی ہو۔باہم محبّت اور اخوّت ہوتو ویسی ہو۔غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورة النساء زیر آیت 59)

سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی ہمیں ان صحابہ کے نمونوں کو اپنانے اور یاد رکھنے کی باربارتلقین فرماتے ہیں،ایک موقع پر فرمایا:

’’یہ لوگ خاموشی سے آئے اور محبت و تعلق وفا اور اطاعت کی مثالیں رقم کرتے ہوئے خاموشی سے چلے گئے …جہاں ہم ان بزرگوں پر رشک کرتے ہیں کہ کس طرح وہ قربانیاں کر کے امام الزماں کی دعاؤں کے وارث ہوئے وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ آج بھی ان دعاؤں کو سمیٹنے کے مواقع موجود ہیں۔ آئیں اور ان وفاؤں، اخلاص، اطاعت، تعلق اور محبت کی مثالیں قائم کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں۔ یاد رکھیں جب تک یہ مثالیں قائم ہوتی رہیں گی زمینی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 12؍دسمبر 2003ء صفحہ 9)

وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button