تقریر جلسہ سالانہ

پاکستان کے احمدیوں پر مظالم کی داستان

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔ نیشنل سیکریٹری امور خارجیہ جرمنی)

تقریر جلسہ سالانہ جرمنی2022ء

جہاں بھی جماعت ترقی کرے گی، اور جب بھی کسی جگہ یہ بات واضح ہو گی کہ احمدیت غالب آنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس کے خلاف رد عمل ہو گا

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ۔ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (العنکبوت ۳۔۴) أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُواْ حَتّٰى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ اٰمَنُواْ مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللّٰهِ ۗ(البقرۃ: ۲۱۵)

سامعین کرام! اللہ تعالیٰ کی یہ غیر مبدل سنت ہے کہ جب بھی وہ کسی نبی کو بھیجتا اور اس کے ذریعہ ایمان لانے والوں کی ایک جماعت قائم کرتا ہے، تو اس جماعت میں شامل ہونے والوں کو مختلف قسم کے امتحانات میں سے گزارتا ہے۔ انہی امتحانات میں کامیابی پر عظیم اجر مرتب ہوتا ہے اور مومنین کے درجات بلند کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتا ہے: کیا لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ وہ صرف منہ یہ کہہ دیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کی یہ بات کافی ہو جائے گی اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟ حالانکہ ان سے پہلے جو اقوام گزری ہیں ان کو ہم نے آزمایا تھا اور اس طریق پر اللہ نے یہ ظاہر کر دیا تھا کہ ان میں سے سچے مومن کون ہیں اور جھوٹے، محض منہ سے اقرار کرنے والے کون۔

پھر فرمایا: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے بغیر اس کے کہ تمہارے ساتھ وہی کچھ ہو جو تم سے پہلے گزرنے والوں کے ساتھ ہوا؟ ان پر تو اتنی تنگیاں آئی اور انہیں اتنی تکالیف اٹھانی پڑیں اور ایسے ایسے شدید زلزلے ان پر وارد ہوئے کہ ان کے رسول اور اس پر ایمان لانے والے بھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟

پس آنحضورﷺ کی آمد اور مومنین کی جماعت کے قیام پر ابتدائی مسلمانوں پر بھی مشرکین مکہ کی جانب سے لرزہ خیز مظالم کئے گئے، کبھی انہیں ظالمانہ طریقوں سے قتل کیا گیا، کبھی ان کے بیوی بچے ان سے چھینے گئے، کبھی ان کو گھروں سے نکالا گیا تو کبھی انہیں خود ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور کیا گیا۔

اسی دائمی سنت ِالٰہیہ کہ مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی آمد پر آپؑ کے ماننے والوں پر بھی اسی طرح حوادث و مصائب کی آندھیاں چلنا تھیں۔ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيلًا ۖ (فاطر ۴۴) چنانچہ آپؑ کی جماعت کو بھی اسی طرح مخالفین نے ڈرانا، ان سے قطع تعلق کرنا، ان کو گھروں سے نکالنا، ان کی جائیدادیں ہتھیانا، ان کے اموال کو لوٹنا، ان کو قتل کرنا، ان کو ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنانا تھا جیسا کہ اس سے پہلے انبیاء کے ماننے والوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔

احمدیوں پر ان مظالم کی بنیاد کیا ہے؟ احمدی بھی اسی خدا کو مانتے، اسی رسولﷺ پر ایمان لاتے وہی قرآن پڑھتے انہی پانچ ارکان اسلام پر عمل کرتے اور انہی چھ ارکان ایمان پر یقین رکھتے ہیں جن پر دیگر مسلمان۔ پس احمدیوں پر مظالم کی واحد وجہ ان کا حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانا اور آپؑ کو اللہ تعالیٰ کے حکم اور آنحضورؐ کے فرمودات کے مطابق امتی نبی ماننا ہے۔ یہ بات ملاؤں کے نزدیک اپنی ذات میں مبینہ طور پر توہین ِرسالت ہے جس کی سزا ان کے خیال میں قتل ہے۔ چنانچہ کسی احمدی کا کوئی عمل نہیں بلکہ اس کا عقیدہ ہی ملاؤں کے نزدیک اس کے قتل کا کافی جواز ہے۔

قیام ِ پاکستان کے جلد بعد ہی ملائیت نے پاکستان میں رسوخ حاصل کرنےمیں کامیاب ہوگئی اور اس کے بعد سے مسلسل احمدیوں پر مظالم میں اضافہ جاری ہے۔ اس دوران تین مواقع ایسے ہیں جن کو سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے کیونکہ ان مواقع پر پاکستان میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ لیکن ان کا ذکر کرنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت شاید مفید ہو گی کیونکہ بسا اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جب پاکستان میں جماعت پر اتنے مظالم ہونے تھے اور ہر ذی عقل کو پتہ تھا کہ ایسا ہونا ہی ہے، تو پھر جماعت نے پاکستان بننے کی اتنی حمایت کیوں کی؟ اور کیوں تحریک ِ پاکستان کی اتنی سرگرمی سے تائید کی؟ جناح صاحب کو لندن سے واپس ہندوستان بلانے، مسلم لیگ کی اعلیٰ ترین سطح پر کام کرنے، پاکستان کی بیوروکریسی اور افواج وغیرہ کی تشکیل میں احمدی اتنے سرگرم عمل کیوں رہے؟

یہ بات اس وقت بھی کہی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ابھی تو تم لوگ پاکستان کی حمایت کر رہے ہو لیکن جب پاکستان بن جائے گا تو پھر ملاؤں نے تمہارے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے جو افغانستان میں کیا ہے۔ یعنی جس طرح حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحبؓ اور حضرت مولوی عبد الرحمان صاحبؓ اور حضرت مولوی نعمت اللہ صاحبؓ کو انتہائی ظلم کے ساتھ کابل میں شہید کیا گیا تھا اسی طرح کا سلوک پاکستان میں ہو گا۔ اس کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:

’’دلّی کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ احمدی اِس وقت تو پاکستان کی حمایت کرتے ہیں مگر ان کو وہ وقت بھول گیا ہے جبکہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں نے بُرے سلوک کئے تھے۔ جب پاکستان بن جائے گا تو ان کے ساتھ مسلمان پھر وہی سلوک کریں گے جو کابل میں ان کے ساتھ ہوا تھا۔۔۔ فرض کرو ایسا ہی ہو جائے پاکستان بھی بن جائے اور ہمارے ساتھ وہی سلوک روا بھی رکھا جائے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایک دیندار جماعت جس کی بنیاد ہی مذہب، اخلاق اور انصاف پر ہے کیا وہ اس کے متعلق اِس نقطۂ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ میرا اس میں فائدہ ہے یا وہ اس نقطۂ نگاہ سے فیصلہ کرے گی کہ اس امر میں دوسرے کا حق کیا ہے؟ یقیناً وہ ایسے معاملہ میں مؤخر الذ کر نقطۂ نگاہ سے ہی فیصلہ کرے گی۔۔۔ پس قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے وہ ہمارے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اِس سے بھی بدتر معاملہ کریں گے اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے ؟‘‘(۱۶ مئی ۱۹۴۷ء)

اس وقت بھی اور آج بھی، ہر معاملہ میں جماعت احمدیہ کا یہی طریق ہے اور ہر احمدی کا انفرادی طور پر بھی یہی طریق ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مفاد سے بلند ہو کر، اپنے ساتھ ہونے والے گزشتہ یا آئندہ سلوک کو نظر انداز کرتے ہوئے محض انصاف پر قائم رہے اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو خواہ مظلوم کیسا ہی مخالف کیوں نہ ہو۔

قیام پاکستان کے بعد جن تین مواقع پر احمدیوں کے ساتھ خاص طور پر ظلم کیا گیا ان میں سے پہلا موقع ۱۹۵۳ء کا ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان میں احمدیوں پر مظالم ہوتے رہے مثلاً ۱۹۴۹ءمیں کوئٹہ میں ایک احمدی میجر محمود صاحب کو مخالفین احمدیت کے ایک ہجوم نے چھریاں مار کر شہید کر دیا۔ تاہم پہلی مرتبہ منظم طور پر ۱۹۵۳ء میں صوبہ پنجاب میں جماعت کے خلاف ختم نبوت کے نام پر ایک تحریک چلائی گئی۔ مذہبی جماعتوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام اہم حکومتی عہدوں سے احمدیوں کو فارغ کیا جائے، خصوصاً حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ کو، اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ ساتھ یہ دھمکی دی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو راست اقدام کیا جائے گا۔ اس وقت کی حکومت جانتی تھی کہ مولویوں کے مطالبات کے خطرناک نتائج نکلیں گے چنانچہ یہ مطالبات مسترد کر دیے گے۔ اس پر مولویوں نے صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ہنگامے شروع کئے احمدیوں کے مکانوں اور دکانوں کو آگ لگائی گئی۔ حکومتی دفاتر پر بھی حملے کئے گئے۔ ریلوے کے ٹریک توڑ دئے گئے۔ ٹرینیں روک دی گئیں۔ اس پر پولیس نے سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا مگر فساد بڑھتا ہی چلا گیا۔

اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ دولتانہ صاحب کی حکومت اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر مولویوں کی تائید کر رہی تھی۔ لیکن سرکاری میٹنگز میں وفاقی حکومت کو کہہ رہی تھی کہ مولویوں کو سختی سے کچل دینا چاہئے۔ اس پر گورنر خواجہ ناظم الدین صاحب نے صوبوں کو ایک خفیہ مراسلہ بھیجا کہ نہ تو کسی کو اس کی خواہش کے برخلاف غیر مسلم قرار دیا جا سکتا ہے نہ ہی کسی کو اس کے مذہبی عقیدہ کی بناپر عہدہ سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انہیں یہ بات کھلے عام کہنے کی جرئت نہیں ہوئی کیونکہ وہ مولویوں سے براہ راست ٹکر نہیں لینا چاہتے تھے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے محض چھ سال بعد ہی مولویوں کی عوام کو بھڑکانے کی طاقت کس قدر بڑھ چکی تھی۔ جب فساد ہر طرف پھیل گیا اور احمدیوں پر ہر روز حملے ہو رہے تھے، حضرت مصلح موعودؓ کا یہ پیغام ۴مارچ کو شائع ہوا:

کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے۔ وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں۔ مگر اس کی مدد سے سب دور ہو جائیں گے۔(تاریخ احمدیت، جلد ۱۴، صفحہ ۴۹۳)

دو دن بعد یعنی ۶مارچ ۱۹۵۳ءکو صوبہ پنجاب میں مارشل لانافذ کر دیا۔ اور یوں یہ فساد ختم ہوا۔ تاہم اس دوران چھ احمدی شہید کئے گئے۔ ایک احمدی کی غیر احمدی والدہ کو بھی شہید کیا گیا۔ اسی طرح متعدد سرکاری اہلکار بھی شہید ہوئے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔ دلچسب بات یہ ہے کہ بعض غیر مسلموں نے بھی اس موقع پر جماعت کی مخالفت کی۔ چنانچہ ایک مسیحی لیڈر، ظفر اقبال صاحب، نے لکھا :

میں برادران ملت سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو زور شور سے جاری رکھیں۔ مرزائی اسلام، پاکستان کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں ہم اس تحریک میں برادران ملت کے ساتھ ہیں اور ہم دو قدم آگے بڑھ کر ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دے کر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے۔(تاریخ احمدیت جلد ۱۴، صفحہ ۴۸۸)

دوسری مرتبہ ۱۹۷۴ء میں پھر مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ایک تحریک چلائی گئی۔ چار ماہ تک مسلسل احمدیوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ احمدیوں کی دکانوں، کھیتوں، مساجد اور گھروں کو آگ لگائی گئی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے تمام احمدیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ رحیم یار خان کے تمام احمدیوں کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ سرگودھا اور ڈسکہ میں تمام احمدی دکانوں کو بند کر دیا گیا۔ بھیرہ میں بائیکاٹ اتنا سخت تھا کہ احمدیوں کو فاقے کرنے پڑے۔ سرگودھا کے تمام احمدی مردوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بورے والا کے تمام احمدیوں کو شہر سے نکال دیا گیا۔

گجرانوالہ میں باپ بیٹا محمد افضل کھوکھر صاحب اور محمد اشرف کھوکھر صاحب کو یکم جون ۱۹۷۴ءکو شہید کیا گیا۔ فسادیوں کے ہجوم نے ان کے گھر پر حملہ کیا۔ پہلے بیٹے کو پکڑ کے چھریاں ماری گئیں۔ اس سے ان کی آنتیں باہر نکل آئیں۔ پھر اینٹیں مار کر سر توڑ دیا گیا۔ مرتے وقت بچے نے پانی مانگا تو ظالموں نے اس کے منہ میں ریت ڈال دی۔ اس کے بعد یہ لوگ باپ کی طرف متوجہ ہوئے اور احمدیت سے توبہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے جواب دیا کہ کیا تم مجھے اپنے بیٹے سے بھی ایمان میں کمتر سمجھتے ہو۔ اس پر اسی طریق پر باپ کو بھی شہید کر دیا گیا۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون۔

صوبیدار غلام سرور صاحب اور ان کے بھتیجے اسرار احمد خان صاحب کو ٹوپی میں ۹ جون ۱۹۷۴ءکو شہید کیا گیا۔ فسادیوں کے ہجوم نے ان کے مکان پر حملہ کر کے گولیاں مار دیں۔ لیکن اس طرح ان کی حیوانیت کو پوری تسکین نہیں مل سکی۔ چنانچہ صوبیدار صاحب کی لاش پر گولیاں چلاتے رہے۔ پھر اس پر پتھر مارتے اور گلیوں میں گھسیٹتے رہے۔ ان کے بھتیجے اسرار احمد صاحب کی لاش پر خنجروں سے وار کرتے رہے۔ پھر ان کی دونوں ٹانگوں کو مخالف سمتوں میں کھینچ کر لاش کے دو ٹکڑے کر دئے۔ یہ ان نام نہاد ختم نبوت کے محافظ اور اسلام کے علمبرداروں کا کردار ہے! یہ ظالم لوگ منسوب اپنے آپ کو آنحضورؐ کی طرف کرتے ہیں اور حرکتیں ساری کفار مکہ والی ہیں۔

اس بات پر کافی بحث ہوئی ہے کہ۱۹۵۳ءمیں ناکام ہونے والا مطالبہ ۱۹۷۴ءمیں کیوں کامیاب ہوا؟ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ مولوی سیاسی طور پر طاقتور ہو چکے تھے اور اب پارلیمنٹ میں موجود تھے۔ مفتی محمود صاحب کا یہی خیال تھا۔ دوسرے عرب ممالک کا تیل کی بے پناہ دولت کے بل بوتے پر اثر و رسوخ بہت بڑھ گیا تھا اور ان کے علماء کا پاکستان کے علماء سے قریبی رابطہ بھی تھا۔ چنانچہ ربوہ ریلوے سٹیشن کے واقعہ کے چند ہفتے بعد پاکستانی علماء کا ایک وفد سعودی عرب پہنچا اور وہاں کے علماء سے حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کو کہا۔ اس پر سعودی علماء نے بھٹو صاحب کو خط لکھا جس میں جماعت کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔ بھٹو صاحب کے قدیمی ساتھی مبشر حسن صاحب کے مطابق یہ آئینی ترمیم سعودیہ عرب کے دباؤ پر کی گئی تھی۔ چنانچہ رابطہ عالم اسلامی نے اپریل ۱۹۷۴ء میں ہی، جبکہ ابھی ربوہ ریلوے سٹیشن کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا، مکہ میں اپنی کانفرنس میں احمدیوں کو خارج از اسلام قرار دے دیا تھا۔ مولویوں کے فساد کے نتیجہ میں حالات قابو سے نکل رہے تھے چنانچہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان کر کے گویا دباؤ سے بچنے کی کوشش کی گئی۔ یوں ۷ستمبر۱۹۷۴ءکو آئینِ پاکستان میں دوسری ترمیم کی گئی اور ’’غیر مسلم ‘‘کی تعریف میں احمدیوں اور لاہوریوں کو بھی شامل کر دیا گیا۔

اسمبلی کی کاروائی سے پہلے حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ کو الہام ہوا :وَسِّعْ مَکَانَکَ، اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِیْنَ۔ا پنے مکان کو وسیع کر، ہم استہزاء کرنے والوں کے لیے کافی ہیں۔ اس کے بعد ان استہزا کرنے والوں کا جو انجام ہوا اور بطور وزیر اعظم ان کے سرکردہ بھٹو صاحب کو جس طرح پھانسی دی گئی اور ان کے دو بیٹے اور ان کی سیاسی جانشین بیٹی قتل کئے گئے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی طرح آپؒ کو الہام ہوا فَدَمْدَمَ عَلَیْھِمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِھِمْ فَسَوَّاھَا۔(تب ان کے گناہ کے سبب ان کے رب نے ان پر پَے در پَے ضربیں لگائیں اور اس بستی کو ہموار کر دیا۔) یہ الہام بھی آج تک بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے۔ جس طرح پے در پے ضربیں لگ رہی ہیں وہ ایک دنیا دیکھ رہی ہے۔

اس جگہ ایک اور بات کا ذکر بہت ضروری ہے کیونکہ اس میں ہمارے لئے ایک اہم سبق ہے۔ ۱۹۷۴ءکے واقعات کا ایک فوری سبب تھا۔ وہ یہ کہ ملتان نشتر میڈیکل کالج کے غیر احمدی سٹوڈنٹ کسی سفر پر جاتے ہوئے جب ربوہ کے ریلوے سٹیشن سے گزرے تو انہوں نے شدید بدتمیزی اور دشنام دہی کی۔ چند دن بعد جب واپسی پر وہ سٹوڈنٹ پھر ربوہ سٹیشن پہنچے تو وہاں پر موجود بعض احمدی نوجوانوں کے ساتھ ان کی لڑائی ہو گئی۔ یہ نہیں کہ خدا نہ خواستہ کوئی چھریاں چاقو چلے ہوں۔ ایک بھی غیر احمدی نہ قتل ہوا نہ اس کا کوئی عضو ناکارہ ہوا۔ لیکن اس معمولی لڑائی کے واقعہ کو بنیاد بنا کر مولویوں نے ملک بھر میں پراپگنڈہ شروع کر دیا کہ گویا سینکڑوں سٹوڈنٹ قتل ہو گئے ہیں اور ان کی زبانیں کاٹ اور آنکھیں نکال دی گئی ہیں وغیرہ۔ یوں پورے ملک میں فساد کی آگ لگا دی۔ اس پر حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ نے فرمایا:

’’پچھلے جمعہ کے موقع پر بھی مَیں نے ایک رنگ میں جماعت کو خصوصاً جماعت کے نوجوانوں کو یہ نصیحت کی تھی کہ یہ تمہارا مقام ہے اسے سمجھو اور کسی کے لئے دکھ کا باعث نہ بنو اور دنگا فساد میں شامل نہ ہو۔۔۔ صبر اور دعا کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحات گزارو مگر اہلِ ربوہ میں سے چند ایک نے اس نصیحت کو غور سے سنا نہیں اور اس پر عمل نہیں کیا اور جو فساد کے حالات جان بوجھ کر اور جیسا کہ قرائن بتاتے ہیں بڑی سوچی سمجھی سکیم اور منصوبہ کے ماتحت بنائے گئے تھے اس کو سمجھے بغیر جوش میں آ کر وہ فساد کی کیفیت جس کے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی مخالفت کی اس تدبیر کو کامیاب بنانے میں حصہ دار بن گئے اور فساد کا موجب ہوئے۔۔۔ جنہوں نے بھی غلطی کی، غلطی کی ہے اور ہمیں اس چیز کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ دوسرے یہ کہ صرف انہوں نے غلطی نہیں کی بلکہ انہوں نے اپنی ناسمجھی کے نتیجہ میں دشمن کے ایک سوچے سمجھے منصوبہ میں شمولیت کی اور جماعت کے لئے بھی پریشانی کے سامان پیدا کرنے کے موجب بنے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۳۱ مئی ۱۹۷۴ )

پس کبھی بھی جماعت کے خلاف کوئی تحریک ہو، کوئی زیادتی ہو، کسی قسم کا ظلم کیا جائے کبھی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا جائز نہیں۔ اس جگہ بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب بھٹو صاحب نے آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کو کافر قرار دینا تھا تو جماعت نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ان کی انتہائی پر جوش حمایت کیوں کی؟ حضرت خلیفہ المسیح الثالثؒ اس بارہ میں فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے مجھ پر اپنا یہ منشاء ظاہر فرمایا کہ اگر مغربی پاکستان میں کوئی ایک سیاسی جماعت مضبوط اور طاقتور بن کر نہ ابھری تو استحکام پاکستان کو بڑا ہی شدید صدمہ پہنچنے کا خطرہ ہے۔۔۔ یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کسی تفصیل میں جائے بغیر کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کیا کیا منشاء ظاہر فرمایا تھا تاہم صرف اتنا بتا دینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء خواب کے ذریعہ یا پر شوکت الفاظ میں ظاہر ہوا تھا کہ پیپلز پارٹی ہی ایک ایسی جماعت ہے جسے کامیاب کرنا الٰہی منشاء کے عین مطابق ہے۔(شوری ۱۹۷۳)

پس اس وقت بھٹو صاحب کی تائید بھی اذن الٰہی سے اور محض پاکستان کے مفاد میں کی گئی تھی نہ کہ اپنے کسی مفاد کی خاطر۔

تیسری مرتبہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ءمیں امتناع قادیانیت آرڈینینس کے ذریعہ ناانصافی اور ظلم کا ایک نیا دور شروع کیا جو کہ تاریخ عالم میں اپنی مثال نہیں رکھتا۔ ۱۹۷۴ءمیں احمدیوں کو آئین کی نظر میں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا، اب اس پر یہ اضافہ کیا گیا کہ احمدی چونکہ ہماری نظر میں مسلمان نہیں ہیں اس لئے ان کو مسلمانوں کی طرح نظر آنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ نہ تو براہ راست اور نہ ہی بالواسطہ طور پر۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ پہلے آپ یہ فیصلہ کریں کہ فلاں شخص انسان نہیں ہے بلکہ بکرا ہے۔ پھر یہ کہیں کہ چونکہ وہ میرے نزدیک انسان نہیں بلکہ بکرا ہے اس لئے اب وہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چل نہیں سکتا اور انسانوں کی طرح کھانا پکا کر نہیں کھا سکتا اسے گھاس کھانی چاہئے اور بکرے کی آوازیں نکالنی چاہئیں۔ چنانچہ احمدیوں کے لئے سلام کرنا، قرآنی آیات لکھنا، مساجد کو مساجد کہنا وغیرہ ایک لامتناہی سلسلہ ممنوعہ امور کا قرار دیا گیا جس کا دائرہ شادی کے کارڈوں پر بسم اللہ لکھنے اور عید کے موقع پر قربانی کرنے تک ممتد ہو چکا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں یہ سلسلہ اس لئے انوکھا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق آج تک ہر قوم نے یہ کہا کہ جن چیزوں پر ہم ایمان لاتے ہیں انبیاء کے ماننے والے بھی انہی چیزوں پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ الٹا اس بات پر غصہ کیا جا رہا ہے کہ احمدی ہماری طرح عبادت کیوں کرتے ہیں، وہی قرآن کیوں پڑھتے ہیں۔ اسی طریق پر مساجد کیوں تعمیر کرتے ہیں وغیرہ۔ عذر اس بات کا کیا ہے؟ کوکا کولا! اب آپ سوچیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی؟ تو بات یہ ہوئی کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ۱۹۸۸ء میں یہ قرار دیا ہے کہ جس طرح کوکا کولا کے نام کے ساتھ کوئی اور کمپنی اپنا مشروب فروخت نہیں کر سکتی اسی طرح ہم کسی کو، جسے ہم مسلمان نہیں سمجھتے، یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ مسلمانوں کی طرح شکل و صورت اختیار کرے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے۔ یعنی مذہب ان کے نزدیک ایک کمرشل پراڈکٹ ہے جس کے کاپی رائٹ ان کے پاس ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں نے کہا کہ جس حد تک ہو سکے ہماری نقل کرو۔ کسی ایک نبی نے بھی یہ نہیں کہا کہ جو دین میں لایا ہوں اس پر کوئی دوسرا عمل نہیں کر سکتا۔ لیکن پاکستان کی سپریم کورٹ کا خیال اس سے مختلف ہے۔

بہرحال ۱۹۸۴ءکے اس آرڈیننس کے بعد سے تو مسلسل مظالم اور سختیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔۱۹۸۴ءسے اب تک ۲۷۵ احمدیوں کو شہید کیا گیا ہے! ۲۰۰۰ءمیں گھٹیالیاں میں مسجد میں ۵ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا، اسی سال تخت ہزارہ میں بھی مسجد میں ۵ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ۲۰۰۸ء میں مونگ میں مسجد میں ۸ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔ اور ۲۰۱۰ء کا لاہور کی دو مساجد میں ۸۰ سے زائد احمدیوں کی شہادت کا واقعہ تو دنیا بھر کی خبروں میں رپورٹ ہوا۔ بداخلاقی اور ذہنی پستی کی یہ حالت ہے کہ اس دردناک واقعہ پر جب ایک سیاستدان نے احمدیوں کو ’’ہمارے بھائی‘‘کہا تو الٹا ان پر یہ تنقید شروع ہو گئی کہ احمدیوں کو بھائی کیوں کہا ہے! ۲۰۱۴ءمیں گجرانوالہ میں تین احمدی خواتین کو گھروں میں بند کر کے باہر سے آگ لگا دی گئی جس وہ شہید ہو گئیں۔ سینکڑوں لوگ باہر جمع تھے مگر کسی نے بچانے کی کوشش نہ کی۔ اکثر واقعات میں پولیس اطلاع کے باوجود کچھ نہیں کرتی۔پولیس والے یا تو خود اسی ہیجان میں مبتلا ہوتے ہیں یا پھر اپنی جان بچانے کی خاطر لاتعلق بن جاتے ہیں۔

۳۲۱سے زائد احمدیوں پر توہین رسالت کے مقدمات قائم کئے گئے جس کی سزا موت ہو سکتی ہے۔ کئی ہزار احمدیوں پر دیگر مقدمات بنائے گے۔ ۱۰۶مساجد شہید کی گئیں یا ان پر قبضہ کر لیا گیا یا بند کر دی گئیں۔ جماعت کی کتب پر پابندی ہے۔ جماعتی ویب سائٹس تک رسائی بند ہے۔ قبرستانوں میں ۲۵سال پرانی قبریں اکھیڑ دی گئی ہیں۔ گھروں میں، کلینک پر، بس سٹاپ پر، بازار میں، مساجد میں، غرض ہر ممکنہ جگہ پر احمدیوں کو شہید کیا گیا ہے یہاں تک کہ عدالتوں کے اندر بلکہ جیل کے اندر بھی احمدی محفوظ نہیں۔ وہاں بھی ختم نبوت کے نام پر ان کو شہید کیا گیا۔

کیا اس سے احمدیوں کے حوصلے پست ہوئے ؟ نہیں بلکہ بڑھے۔ چنانچہ واقعہ لاہور کے متعلق خطبہ میں حضور ایدہ اللہ نے بیان فرمایا کہ :

ہم نے تو یہ نظارے دیکھے ہیں کہ باپ کے شہید ہونے پر اس کے نو دس سالہ بیٹے کو ماں نے اگلے جمعہ مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا اور کہا کہ وہیں کھڑے ہو کر جمعہ پڑھنا ہے جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا تاکہ تمہارے ذہن میں یہ رہے کہ میرا باپ ایک عظیم مقصد کے لئے شہید ہوا تھا۔ تاکہ تمہیں یہ احساس رہے کہ موت ہمیں اپنے عظیم مقصد کے حصول سے کبھی خوفزدہ نہیں کر سکتی۔ جہاں ایسے بچے پیدا ہوں گے، جہاں ایسی مائیں اپنے بچوں کی تربیت کر رہی ہوں گی وہ قومیں کبھی موت سے ڈرا نہیں کرتیں۔ اور کوئی دشمن، کوئی دنیاوی طاقت ان کی ترقی کو روک نہیں سکتا۔(شہدائے لاہور، صفحہ ۲۰۳۔۲۰۴)

وہ جنونیت، جو کہ مذہب کے نام پر ملا نے احمدیوں کے خلاف پھیلائی تھی، اب اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ اس سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ پاکستانی ہوں یا غیر ملکی سری لنکن، مسیحی، ہندو ہوں یا مسلمان ہر ایک اب اس جنون کا نشانہ بن رہا ہے۔ احمدی تو روزانہ اس کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ کہیں احمدی طلباء کو یونیورسٹیوں اور کالجوں سے نکال دیا جاتا ہے، کہیں احمدی اساتذہ کو تعلیم دینے سے روک دیا جاتا ہے، کسی جگہ احمدی دکانداروں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، کہیں احمدی ڈاکٹروں کو شہید کیا جا رہا ہے، کہیں احمدیوں کو نوکری سے نکالا گیا ہے۔ ختم نبوت کا حلف اور حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق مخاصمانہ بیان پر دستخط کے بغیر نہ شناختی کارڈ بن سکتا ہے نہ پاسپورٹ نہ ہی ووٹ۔ بلکہ حال ہی میں نکاح ناموں میں بھی ختم نبوت کا حلف شامل کر لیا گیا ہے۔ گلی بازاروں میں جماعت کے خلاف کھلے عام بینز آویزاں ہیں۔ بے شمار دکانوں میں احمدیوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ دیواروں پر احمدیوں کو اسلام اور پاکستان کا غدار قرار دینے کے نعرے لکھے ہیں۔ اور یہ سب کچھ مقامی آبادی، مقامی انتظامیہ اور صوبائی یا وفاقی حکومت کی تائید سے کیا جاتا ہے۔

۱۹۸۴ءمیں مظالم کے اس نئے زمانہ کی بنیاد ضیاء الحق صاحب نے اپنے آرڈینینس XX سے رکھی تھی۔ بھٹو صاحب ہی کی طرح ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ حد سے زیادہ مظالم کے نتیجہ میں حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ نے انہیں دعوتِ مباہلہ دی اور اس کے نتیجہ میں مقرر مدت کے اندر ضیاء الحق صاحب ۱۹۸۸ءمیں بہاولپور میں نامعلوم طریق پر دوران پرواز ہلاک ہو گئے اور یوں حضورؒ کی اس دعا کی قبولیت کے مظہر بن گئے کہ:

تمہیں مٹانے کا زعم لے کر اٹھے ہیں جو خاک کے بگولے

خدا اڑا دے گا خاک ان کی کرے گا رسوائے عام کہنا

یہاں ضمناً یہ عرض کر دوں کہ ۱۹۹۰ءمیں مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں لکھا کہ بہاولپور سے یہ فتنہ اٹھا تھا کیونکہ سب سے پہلے احمدیوں کو ریاست بہاولپور نے غیر مسلم قرار دیا تھا، اور بہاورپور ہی میں اپنے انجام کو پہنچا۔ اذا ہلک کسریٰ فلا کسریٰ بعدہ۔ انشاء اللہ اب ضیاء الحق جیسا پھر نہیں آئے گا۔ حضورؒ نے اس پر تحریر فرمایا کہ یہ اچھا نکتہ ہے اسے پھیلانا چاہئے۔ چنانچہ تعمیل ارشاد میں آپ کے سامنے بھی پیش ہے۔

بیوقوف سیاستدان سمجھتے ہیں کہ احمدی تھوڑی سی تعداد میں ہیں ان کی قربانی دے کر وہ اپنی سیاست چمکا لیں تو کیا برا ہے۔ چنانچہ مذہب کارڈ کھیلا جاتا ہے اور اپنے آپ کو ختم نبوت کا سپاہی کہا جاتا ہے، بلا وجہ ہی احمدیوں کے خلاف بیانات دئے جاتے ہیں۔ گویا ہر کوئی ہم پر اپنی چھری تیز کرتا ہے۔ لیکن یہ رویے پھر سارے معاشرے کو دکھ سے بھر دیتے ہیں۔ حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

جس چھری کو تم آج ہماری گردن پر چلنے کی اجازت دو گے خدا کی قسم وہ چھری ضرور تمہاری گردن پہ چلائی جائے گی۔ یہ وہ تقدیر ہے جسے تم تبدیل نہیں کر سکتے اور کبھی کسی نے تبدیل نہیں کیا۔ لیکن ہماری گردن کی حفاظت کی خدا نے ضمانت دی ہے۔۔۔ہزاروں مرتبہ یہ چھریاں چلائی گئی ہیں اور آزمائش پہ آزمائش ہم پر گزر چکی ہے مگر تیز سے تیز چھری نے بھی جماعت کے سر کو جماعت کے تن سے جدا نہیں کیا۔ نہ پہلے کر سکے تھے نہ آج کر سکتے ہو نہ کل کر سکو گے۔ مگر جن چھریوں کو تم نے اجازت دی اور اگر تم نے اجازت دی تو وہ جب تمہارے اُوپر چلائی جائیں گی تو گہرے وار کریں گی اور گہرے زخم چھوڑیں گی اور ہو سکتا ہے تمہارے وجود کی بقا کو ہی خطرے میں ڈال دے (خطبہ ۲۰ جنوری ۱۹۸۹ء)

دیکھ لیں اب یہی ہو رہا ہے۔ ایسی مذہبی تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں اور اتنی طاقت پکڑ چکی ہیں کہ کسی حکومت میں ان کا سامنا کرنے کی جرئت نہیں۔ ملا کھلے عام حکومتوں کو الٹی میٹم دیتے ہیں اور حکومتیں ان سے پر امن طور پر واپس جانے کی درخواستیں کرتی پھرتی ہیں۔ کسی شدت پسند تنظیم کو کلعدم قرار دیا جاتا ہے اور وہ اگلے دن سر ِعام انتخابات میں حصہ لے رہی ہوتی ہے۔ مجال ہے جو کوئی ان کو کچھ کہہ سکے۔

پاکستان میں مظالم کی یہ تاریخ سن کر یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہ باتیں صرف پاکستان تک یا انڈونیشیا اور الجزائر تک ہی محدود ہیں اور ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ایسا نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کہاں کیا ہو گا لیکن وہ دائمی سنت جس کا آغاز میں ذکر کیا گیا تھا سب دنیا پر حاوی ہے۔ جہاں بھی جماعت ترقی کرے گی، اور جب بھی کسی جگہ یہ بات واضح ہو گی کہ احمدیت غالب آنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس کے خلاف رد عمل ہو گا۔ ایسے وقت میں پھر کسی تہذیب کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ یہودیوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، جس طرح ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں اور عورتوں اور بوڑھوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جانوروں کی طرح ہانک کر انتہائی انسانیت سوز حالت میں زہریلی گیس سے قتل کیا گیا وہ کوئی صدیوں پرانا واقعہ نہیں ہے۔ سیاہ فام لوگوں سے ظالمانہ سلوک ابھی کل کی بات ہے بلکہ بعض صورتوں میں اب تک جاری ہے۔ مشرق میں بھی ترقی یافتہ قوموں نے سخت انسانیت سوز مظالم کئے اور بعض اس وقت بھی جاری ہیں اور مغرب میں بھی۔ ہمارے لئے جائے پناہ صرف ایک ہی ہے:

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

پس ہمارے لئے عافیت کا حصار مہیا کر دیا گیا ہے۔ جو کہ اس وقت قدرت اولیٰ یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے جانے کے بعد قدرت ثانیہ یعنی خلافت احمدیہ کی صورت میں ہمارے درمیان موجود ہے۔ لیکن وہ، جو ظلم کرتے ہیں یا آئندہ کریں گے، ان کے لئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے الفاظ میں یہ جواب ہے:

’’ میری رُوح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے۔ کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا۔ مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں۔ مَیں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں۔۔۔ [ملا کہتے ہیں ناں کہ یہ انگریزوں کا لگایا ہوا پودا ہے، انگریزوں کو گئے ۷۵ سال ہو گئے اور ملاؤں نے اپنا سارا زور لگا لیا، لیکن کیا حاصل ہوا؟]۔۔۔ آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو۔ وہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو۔ ناخنوں تک زور لگاؤ۔ اتنی بد دعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ ‘‘(اربعین، ر خ جلد ۱۷، صفحہ ۴۷۲/۴۷۳)

پھر فرمایا: ’’اے لوگو! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو کاذبوں کے اور مُنہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور۔۔۔ وہ خدمت جو عین وقت پر خداوند قدیر نے میرے سپرد کی ہے اور اسی کے لئے مجھے پیدا کیا ہے ہرگز ممکن نہیں کہ میں اس میں سُستی کروں اگرچہ آفتاب ایک طرف سے اور زمین ایک طرف سے باہم مل کر کچلنا چاہیں۔۔۔ جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اِسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا۔۔۔ خدا سے مت لڑو! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو‘‘(تحفہ گولڑویہ، ر خ جلد ۱۷، صفحہ ۵۰)

مظالم کا یہ دور انشاء اللہ بہت جلد ختم ہو جانے والا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی دائمی اور غیر محرف و غیر مبدل سنت كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلہ ۲۲) کے موافق بہرحال احمدیت نے غالب آنا ہے۔ چنانچہ ۱۹۰۳ءمیں حضورؑ نے فرمایا:

اے تمام لوگو سُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی۔۔۔ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا (تذکرۃ الشہادتین، ر خ جلد ۲۰، صفحہ ۶۶۔۶۷)

اس پیشگوئی پر۲۰۵۳ءمیں نصف زمانہ یعنی ۱۵۰ سال گزر جائیں گے۔ پس مظلومیت کے تھوڑے دن باقی رہ گئے ہیں جن میں صدق و وفا دکھانے کا موقع ہے۔ پاکستان کے احمدیوں نے، اور ملیشیاء اور الجزائر اور بنگلا دیش اور انڈونیشیا اور ہندوستان اور افغانستان کے احمدیوں نے بھی، ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے اس عہد میں جو انہوں نے مسیح موعودؑ کے ساتھ باندھا ہے سچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی یہ قربانیاں قبول فرمائے اور جلد احمدیت کے غلبہ کے دن ہمیں دکھائے۔ آمین۔ وأخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button