متفرق مضامین

کووڈ- 19 ا ورایک بے وقتی جپھی کی سزا

(بشریٰ نذیر آفتاب بنت نذیر احمد خادم، سسکا ٹون، کینیڈا)

عہد اس بات کا کریں کہ ہم من حیث الجماعت ہمیشہ اپنے آقا کی تمام ہدایات پر دل و جان سے عمل کر یں گے اور ہر حال میں میر کارواں، سالار احمدیت خلیفۃالمسیح کے لبوں سے نکلنے والے ہر ہر انمول موتی اور ارشاد پر سمعنا و اطعنا کو اپنا شعار بنا لیں گے

Covid-19 کا آغاز جیسا کہ اس خطرناک وائرس کے نام ہی سے عیاں ہے 2019ء میں ہوا۔ اس موذی اور جان لیوا وائرس کی وجہ سے اب تک ساٹھ لاکھ سے زائد لوگ لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ شروع شروع میں تو کیا پرنٹ اور کیا سوشل میڈیا، ریڈیو اور ٹیلی ویژن سب کی شہ سرخیاں اس ننگی آنکھ سے نظر نہ آنے والے وائرس سے متعلق ہوتی تھیں۔اس کے مہلک اثرات سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر، لوگوں کے سوالات کے جوابات، کام کرنے والے طبقہ کے لیے قیمتی نصائح، بوڑھوں اور دیرینہ امراض کے شکار لوگوں کو حفظ ما تقدم کے طور پر حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی خصوصی ہدایات دنیا بھر میں ہر روز ہر چینل پر ماہرین صحت کے ذریعے سے تقریباً دو سال تک مسلسل دی جاتی رہیں۔اس وائرس سے جہاں بہت سی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا وہاں دنیا بھر میں معیشت پر بھی بہت بُرے اثرات مرتب ہوئے۔ لوگوں کے کاروبار تباہ ہو گئے، بہت سارے نوکریوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ شاپنگ مالز، فوڈ کورٹس اور گروسری سٹورز پر انسانوں کی جگہ ٹیکنالوجی نے لے لی۔ابھی بھی جبکہ کورونا وائرس کی شدت میں کافی حد تک کمی آچکی ہے اور اس بہت حد تک اس کے مضر اثرات پر قابو بھی پا لیا گیا ہےآپ مارکیٹ میں جائیں تو ایک آدھ کاؤنٹر کھلا ملتا ہے جس پر کوئی ورکرآپ کو خیر مقدم کر تا ہے۔ جبکہ ان کی جگہ درجنوں سیلف چیک آؤٹ کاؤنٹرز نے لے لی ہے۔ Covid-19کے پھیلاؤ سے انسانی زندگی کافی حد تک متاثر ہوئی۔بڑے پیمانے پر ہونے والے اجتماعات، کھیلوں کے مقابلے، شادیوں کی تقریبات وغیرہ سب پر پابندی لگا دی گئی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی۔الغرض جو کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، جنہوں نے اپنی زمین اور اپنا آسمان بنا ر کھا تھا،جو گو تھے تو اربابِ اختیار مگر اختیارات کا استعمال اپنی من مانی سے کرتے تھے اور خالقِ ارض و سما کو بھول بیٹھے تھے ایک چھوٹے سے جراثیم کے ڈر سے اپنے ہی گھروں میں مقید ہو کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے لگے۔

مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مسلمان ساری دنیا سے اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس خلافتِ حقہ جیسی نعمت عظمیٰ ہے۔ ہمارے امام امیر المومنین، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس وائرس کے عالمگیر ہونے سے پہلے ہی اس خطرے کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے نہ صرف اس سے بچاؤ کا ہومیوپیتھک نسخہ عطا فرمایا بلکہ تمام دنیا میں بسنے والے احمدیوں کو بار بار ہدایت دی کہ اپنے اپنے ممالک میں انتظامیہ کی جانب سے دی جانے والی تما م ہدایات پر عمل کیا جائے۔حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز5؍مارچ2021ء کے خطبہ جمعہ میں وائرس سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر بیان کر تے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دوسری اہم بات یہ بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کورونا کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس میں احمدی بھی احتیاط کا جو حق ہے وہ نہیں ادا کر رہے۔ نہ یوکے میں نہ امریکہ میں نہ پاکستان میں نہ کسی اَور ملک میں۔ پوری طرح احتیاط کرنی چاہیے۔ ماسک وغیرہ پہننا چاہیے۔ ماسک پہنا ہوتا ہے تو ناک ننگاہوتا ہے حالانکہ ناک ڈھکا ہونا چاہیے۔ یا گردن کے اوپر ماسک رکھا ہوتا ہے تو اس ماسک پہننے کا فائدہ کیا؟ پھر آپس میں قریب ہو کے ملنا، سوشل ڈسٹینسنگ(social distancing) نہیں رکھتے اور جو قواعد گورنمنٹ نے مقرر کیے ہوئے ہیں حکومت نے باتیں بتائی ہوئی ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔ تو ان ساری باتوں پہ ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ نہیں تو یہ وبا اسی طرح پھر ایک دوسرے سے پھیلتی چلی جائے گی۔ اور یہ بھی کوشش کرنی چاہیے کہ آج کل کم سے کم سفر کریں۔ بلا وجہ غیر ضروری سفر کو avoid کریں۔ یورپ سے پاکستان جانے والے بھی احتیاط کریں، آج کل نہ ہی جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ اس وبا کو جلد دور کرے اور جو احمدی بیمار ہیں ان کو بھی اور جو احمدی نہیں ہیں دوسرے لوگ بھی جو بیمار ہیں ان کو بھی شفا عطا فرمائے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل 5؍مارچ2021ءصفحہ10)

الحمد للہ! اب دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر اجتماعات و پروگرامز دوبارہ شروع ہوچکے ہیں۔ ہم احمد ی مسلمان بھی ایک لمبے وقفہ کے بعد اپنے اپنے ملک کے قوانین کے مطابق حفاظتی تدابیر کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اپنے آقا کی ہدایت و راہنمائی میں وسیع پیمانے پر اجلا سات اور جلسہ جات کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان پروگرامز کے دوران حفاظتی تدابیر پر عمل نہیں کرتے یعنی بار بار ہاتھ نہیں دھوتے، اگر بیمار ہیں تو ان اجتماعات اور جلسہ جات پر جانے سے گریز نہیں کرتے، ماسک نہیں پہنتے، بغل گیر ہونے اور ہاتھ ملانے سے اجتناب نہیں کرتے یا سماجی فاصلہ نہیں رکھتے تو اس حالت میں ہم نہ صرف اپنی صحت کو جو خداتعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہے خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ دوسروں میں بھی یہ وبا پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بعض اوقات اگر یہ کہہ کر احتیاط برتنے کی تلقین کی جائے کہ ہمیں ابھی کچھ عرصہ تک گلے ملنے اور ہاتھ ملانے سے اجتناب کرنا چاہیے تو جھٹ سے جواب ملتا ہے کہ وہ عید ہی کیا جس میں گلے نہ ملا جائے،آپ اتنا اس وائرس سے ڈرتی کیوں ہیں۔ جب موت آنی ہے تو آہی جانی ہے، میں نے تو گلے ملنا ہے آپ ملیں یا نہ ملیں، شادی کا سماں ہے گلے ملے بغیر مبارک باد کیسے دیں وغیرہ وغیرہ ۔حالانکہ بحیثیت احمدی مسلمان ہم نے تو وہ کرنا اور کہنا ہے جو ہمارے پیارے امام کا اسوہ ہے۔حضرت صاحب کے واضح ارشادات ہمیں ملتے رہے ہیں۔ ہر جمعے حضرت صاحب خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہیں۔ مسجد میں بیٹھے ہوئے تمام نمازی ماسک پہنے نہایت اہتمام سے خطبہ جمعہ سن رہے ہوتے ہیں۔ گذشتہ سال جلسہ سالانہ یوکے کا انعقاد ہو ا جسے دنیابھر میں بسنے والے شمع احمدیت کے پر وانوں نے براہ راست مسلم ٹیلی ویژن کے توسط سے دیکھا اور سنا اور اس سال بھی جلسہ سالانہ یوکے، جو گذشتہ سال کی نسبت اللہ کے فضل سے بڑے پیمانے پر ہوا تھااور ہمیں ایمان و ایقان میں بڑھانے والا تھا۔ اس جلسے میں کیا شاملین اور کیا شاملات، کارکنان و کارکنات سب نے اپنے آقا کی ہدایت میں ماسک پہن رکھے تھے۔اور تو اور حضرت صاحب نے جلسہ سالانہ یوکے 2022ء کے موقع پر اختتامی خطاب کی اختتامی دعا کے بعدبعض ترانہ پڑھنے والے خدام اور انصار بھائیوں کو جنہوں نے ماسک نیچے کیے ہوئے تھے فرمایا کہ آوازیں اتنی اونچی ہیں کہ ماسک پہن کر بھی رکھیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اور پھرایک دوسرے ترانہ پڑھنے والے گروپ سے فرما یا :آپ بھی ماسک پہن لیں سارے۔

الحمد للہ ثم الحمد للہ ! برکاتِ خلافت اور ہمارے پیارے امام کی ہم سب کے لیے محبت اور پیار کا یہ حسین نظارہ مستورات کے پنڈال میں بھی دیکھا گیا اور مردانہ جلسہ گاہ میں بھی اور پھر مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ کے ذریعہ کیمرے کی آنکھ سے ہم سب نے اس کا مشاہدہ بھی کیا۔پیارے حضور نے جو ماسک پہننے کا ارشاد فرمایا اس کی کیا وجہ تھی؟ یہی کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں اس وائرس کے بد اثرات سے بچانا چاہتے ہیں۔ ہم سے پیار کرتے ہیں اور آپ کو ہماری صحت کی فکر ہے۔ اور اگر کسی بہن بھائی کو وائرس لگ چکا ہے اور وہ ابھی اس سے لاعلم ہے اور جلسے میں شامل ہے تو ماسک پہننے کی صورت میں دوسرے اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اللہ اللہ یہ ہیں برکاتِ خلافت جن سے آج دوسرے محروم ہیں!

ہمارا جلسہ سالانہ ویسٹرن کینیڈا جینیسس سینٹر (Genesis Centre) کیلگری میں مورخہ 30؍جولائی 2022ء کو اپنی پوری آن بان اور شان کے ساتھ شروع ہو کر 31؍ جولائی بروز اتوار بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔ کیلگری شہرمغربی کینیڈا کا آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے اور البرٹا (Alberta)صوبے میں واقع ہے۔قدرتی ذخائر سے مالا مال ساڑھےتین لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل اس شہر اور اس کے صوبے میں تیل اور گیس کی ریل پیل ہے جس سے نہ صرف کینیڈا بلکہ دوسرے ممالک بھی استفادہ کر رہے ہیں۔ اس کی مشہور مصنوعات میں گندم، جَو، کنولا آئل،دالیں اور بینز ہیں جن میں نہ صرف یہ صوبہ خود کفیل ہے بلکہ دوسرے صوبوں کو بھی مہیا کرتا ہے۔ہم جمعے کے دن 29؍جولائی کو بذریعہ وین سسکاٹون سے روانہ ہوئے اور 374 میل کی مسافت مسلسل 6 گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد طے کی۔ نمازِ عصر مسجد بیت النور کیلگری میں باجماعت ادا کی اور پھر جلسہ گاہ کا رخ کیا۔ وہاں محترم امیر جماعت کینیڈا ملک لال خان صاحب کے جلسہ کے تمام رضا کاروں سے جلسے سے متعلق ہدایات پر مشتمل خطاب سے استفادہ کیا۔مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر سے سیر ہونے کے بعد نمازیں ادا کیں اور پھر ہوٹل اپنی قیام گاہ پہنچے۔ جب سے کورونا کا آغاز ہو ا ہے ہم سب گھر والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ چاہے شادی بیاہ کی تقریب ہو یا مسجد میں پروگرامز، جب بھی گھر سے باہر جایا جائے احتیاطی تدابیر پر عمل ہو جس میں ماسک پہننا خصوصی طور پر شامل ہے۔ جلسہ سالانہ ویسٹرن کینیڈا پر بھی ہم نے سب کو یاد دہانی کروائی کہ ماسک نہیں اترنے چاہئیں۔ اگرچہ حکومتی احتیاطی تدابیر کی مطابقت میں انتظامیہ کی طرف سے ماسک پہن کر رکھنے کی ایسی کوئی خصوصی ہدایت نہیں تھی۔ جلسے کے روحانی ماحول نے طبیعتوں پر نہایت خوش کن اثر ڈالا۔جلسے کے تمام اجلاسات کی کارروائی دلجمعی سے سنی۔محترم امیر صاحب کینیڈا اور محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ کینیڈا کی تقاریر سے مستفید ہوئے ۔

زنانہ اور مردانہ ہر دو جلسہ گاہ میں آراستہ و پیراستہ اسٹیج کے ساتھ ساتھ پس منظر میں کلمۂ طیبہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ منظوم کلام میں سے یہ مصرعہ

’’آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے‘‘

اور ساتھ ہی منارۃ المسیح کی کرنیں بکھیرتی ہوئی تصویر ہر آنے جانے والے کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔ کرسیاں نہایت سلیقے سے بچھائی گئی تھیں۔جلسہ سالانہ اتوار کے روز مقامی وقت کے مطابق تقریباً سوا دو بجے اختتام پذیر ہو چکا تھا اس لیے ہم نے نمازِ ظہر اور عصرباجماعت ادا کر نے کے ساتھ ہی واپسی کے لیے رختِ سفر باندھا اور سسکاٹون کے وقت کے مطابق رات دس بجے اپنے گھر بخیرو عافیت پہنچ گئے۔ اگلے ہی روز میرے میاں نے سر درد اور بخار کی شکایت کرنی شروع کر دی جیسے ہی میری بیٹی نے ان کا ٹیسٹ کیا تو مثبت آیا۔ الحمدللہ اب تک ہم سب اس وائرس سے بچے ہوئے تھے۔بچوں کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں نے جلسے پر ماسک نہیں لگایا تھا۔ پہلے دن جب میں ماسک پہن کر گیا تو دیکھا اور کسی نے ماسک نہیں پہنا اس لیےمجھے بھی معیوب لگا کہ میں اکیلا ماسک پہنوں تو میں نے بھی اتار دیا۔مزید بتایا کہ جلسے پر سب ایک دوسرے کو گلے مل رہے تھے مصافحہ کر رہے تھے اور میرے ساتھ بھی بغل گیر ہو رہے تھے۔ایک صاحب جو شکل سے بھی بیمار لگ رہے تھے ماسک کے بغیر تھے اور مسلسل کھانس بھی رہے تھے انہوں نے تو دونوں دن مجھے جپھی ڈالی۔

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

اب اس بے وقتی جپھی کے بد اثرات سسکاٹون پہنچتے ہی ظاہر ہونے شروع ہوگئےاور چند ہی دنوں کے اندر اندر ہمارے سارے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایک ہفتہ میرے میاں شدید بخار، سر درد، جسم میں خوفناک حد تک توڑپھوڑ، گلا خراب اورشدید کھانسی کا شکار رہے۔ نوکری سے چھٹی کے ساتھ ساتھ روزمرہ اہم امور کی بجا آوری سے بھی قاصر رہے۔ہماری بڑی بیٹی جس کے کلینیکلزClinicals چل رہے تھے اس بیماری کے باعث اس کی صحت اور تعلیم دونوں کا ہرج ہوا، باقی بچوں کی بھی دینی و سماجی اور معاشرتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ خاکسار ہفتے میں کبھی دو مرتبہ اور کبھی چار مرتبہ حضرت مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام اور آپ کے خلفائے کرام کے تراجم اور تفاسیر سے استفادہ کر کے ترجمۃ القرآن کلاس لینے کی توفیق پاتی ہے۔ اس کلاس سے اب تک ایک سو بہنیں ترجمہ سیکھ چکی ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں سیکھ بھی رہی ہیں۔اسی طرح اور بھی بہت اہم کلاسز اس وائرس کی وجہ سے التوا میں پڑگئیں۔

اس وبا کا شکار احتیاط کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں مگر بے احتیاطی کے نتیجے میں بیماری کو پھیلانا ہر گز دانشمندی نہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس وبا سےساری دنیا کو نجات دے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا نے جلسہ سالانہ یو کے 2022ء کے اختتامی خطاب کے آخر پر اختتامی دعا سے قبل دعاؤں کی تحریک کرتے ہو ئے فرمایاکہ یہ وبا جو دنیا میں پھیلی ہو ئی ہے اس کے جلد دُور ہونے کے لیے دعا کریں۔ مریضوں کے لیے دعا کریں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ اُن تمام برکات سے اپنی جھولیاں بھر لیں جو آج صرف اور صرف خلافت احمدیہ سے وابستہ ہیں تو آئیے! پھر عہد اس بات کا کریں کہ ہم من حیث الجماعت ہمیشہ اپنے آقا کی تمام ہدایات پر دل و جان سے عمل کر یں گے۔ اور ہر حال میں میرِ کارواں، سالارِ احمدیت خلیفۃ المسیح کے لبوں سے نکلنے والے ہر ہر انمول موتی اور ارشاد پر سمعنا و اطعنا کو اپنا شعار بنا لیں گے۔ اسی طرح لبیک سیّدی !لبیک یا امامنا کا نعرہ نہ صرف بلند کریں گے بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے اسے حرزِ جان بنائیں گے۔ ان شاءاللہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button