یادِ رفتگاں

میراپیارا بھائی حمیداللہ

(رضیہ بیگم)

اے حُبّ جاہ والو ! یہ رہنے کی جا نہیں

اس میں تو پہلے لوگو ں سے کوئی رہا نہیں

یہ بالکل حقیقت ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے ضرور واپس جانا ہے۔پتا نہیں مجھے کیا ہواہے؟ یہی خیال کرتی ہوں،ابھی میرا چاند سا بھائی آئے گا اور کہے گا باجی کیا حال ہے ؟ اپنی صحت کا خیال رکھا کریں۔حالانکہ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ میرا حمیداللہ ایسی جگہ گیا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا۔اللہ تعالیٰ میرے جان سے پیارے بھائی کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اس کے بیوی بچوں کا حافظ و ناصر ہو۔بچوں کو باپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور میری پیاری بھابھی جان کو ( جس نے ساٹھ سال بھائی کی ہمدردیاں،بہترین سلوک اور دلداریاں دیکھیں ) صبرِ جمیل عطا فرمائے۔آمین۔

دونوں میاں بیوی ایک مثالی جوڑا تھا۔بھائی کو امّی جان ( اللہ تعالیٰ اعلیٰ علیین میں جگہ دے ) سے حد سے زیادہ محبت تھی۔ان کی ہر بات پر لبّیک کہتا تھا۔ ایک دن امّی جان (شادی کے شروع دنوں میں ) حمیداللہ سے کہتیں،رضیہ خانم مجھے پسند آئی تو میں لے آئی ہوں،تمہیں بھی پسند ہے ؟ فوراً کہتا جو میری امّی کی پسند وہی میری پسند ہے۔میں آپ کی پسند کو ساری زندگی خوشیاں دوں گا انشاء اللہ تعالیٰ اور پھر ساٹھ سال یہ کرکے دکھایا۔ اگر سب لڑکے اس طرح کا سلوک اور پیار اپنی بیویوں سے کریں تو کبھی خلع اور طلاق کی نوبت نہ آئے۔اور نہ ہی لڑائی جھگڑا ہو۔اللہ تعالیٰ سب مردوں کو اپنے جیون ساتھیوں سے حسنِ سلوک کی توفیق دے آمین۔

میرا بھائی تھا تو انسان مگر فرشتہ صفت تھا۔خاموش،کم گو لیکن جو بات کرتے بڑے کام کی اور نصیحت آموز ہوتی۔

بہنوں کا اتنا خیال اور محبت کہ باوجود عدیم الفرصت ہونے کے ہر جمعرات کو مجھے ملنے آتے۔دس منٹ میں کئی کام کی اور مفید باتوں سے شناسائی ہوتی۔ میرے نواسے نواسیوں سے کئی علمی سوالات کر کے ان کی معلومات کا معیار معلوم کرتے۔میرے میاں 10؍ستمبر 1980ء کولاہور سے آتے ہوئے ایک حادثہ میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔میرا اور بچوں کا اس قدر زیادہ خیال رکھا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ واقفِ زندگی ہوتے ہوئے قلیل آمدنی میں سے میری مدد کرتے رہے۔جب پنشن منظور ہوگئی تو میں نے کہا کہ اب ماہوار رقم دینے کی ضرورت نہیں تو تب بند کی۔ جزا کم اللہ احسن الجزاء۔

میری چھوٹی بیٹی میٹرک میں تھی جب اس کے ابو کی وفات ہوئی۔ شدت غم کی وجہ سے دو ماہ تک سکول نہ جا سکی اور کلاس سے پیچھے رہ گئی۔ ایک دن مجھے کہتی امی ! ماموں جان سے مجھے کچھ وقت لے دیں،میں نے اپنی کچھ پرابلم حل کروانی ہیں۔ ان کے پاس وقت نہیں تھا پھر بھی کہا کہ فری سےکہیں سکول سے سیدھی ہمارے گھر آجائے۔کھانا کھاتے ہوئے کچھ مشکلات حل کر دیتے اورپون گھنٹہ جو کھانے کے بعد آرام کرنا ہوتا وہ اپنی یتیم بھانجی کے لیے وقف کر دیا۔

اللہ تعالیٰ کے فضل اور بھائی کی قربانی سے بچی نے ماشاء اللہ اچھی پوزیشن لی اور وظیفہ کی حقدار بنی۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔اللہ تعالیٰ عزیزم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب بہن بھائیوں کو اور بھابھی جان، بچوں کو اس پہاڑجیسے غم کو برداشت کرنے کی طاقت دے۔آمین۔

والدین کی حد سے زیادہ خدمت کی۔سب بہن بھائیوں سے حسن سلوک، بچوں کو بہت پیار دیا اور بہت ہی اچھی تربیت کی، زندہ باد زندہ باد حمیداللہ۔

میرا بھائی بڑا ہی سنجیدہ مزاج اور کم گو تھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے حمیداللہ ایم اے ریاضی کے امتحان کی تیاری کے لیے ربوہ آیا ہوا تھا۔ صبح ہی صبح ایک بزرگ عورت (جو اکثرامی کے پاس اپنی بہو کی برائیا ں بیان کرنے آیا کرتی تھی اور امی جان اسے بہت سمجھایا کرتیں کہ وہ بھی تمہاری بیٹی ہے اسے پیار سے کہا کرو کہ یہ کرو وہ نہ کرو۔) بڑی خوشی کی لہر میں امّی جان کو کہتی ہے اللہ تعالیٰ نے کڑوی بیل سے میٹھا میوہ دے دیا۔ امی جان کولڈّو دے کر جب وہ چلی گئی تو حمیداللہ امی جان کو کہتا بہو کو کڑوا درخت کہہ دیا اور اپنے چار گھنٹہ کے پوتے کو میٹھا پھل۔بہو بھی کسی کی لاڈلی اور پیاری بیٹی ہے۔ امّی آپ ا نہیں سمجھائیں کہ بہو بھی بیٹی ہوتی ہے۔

میرا بھائی چھوٹے ہوتے سےبڑا ہمدرد اور دکھ درد میں کام آنے والا تھا۔

آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا

جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئےگا

ایک دفعہ میری چھوٹی بہن (حمیداللہ سے ڈیڑھ سال بڑی تھی )بہت بیمار ہوگئی بخار اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ تین دن کے بعد رات نو بجے بخار اتر گیا، جب اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو اسے دودھ دوائی دے کر امّی جان اور خاکسار لیٹ گئیں۔ ساڑھے دس بجے میری آنکھ کھلی تو دیکھاحمیداللہ بہن کے ہاتھ دبا رہا ہے۔میں نے کہا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ کہتا باجی کے پاس کوئی نہیں تھا میں نے سوچا اگر باجی پانی مانگے گی تو میں پانی لا کر دوں گا۔ میں نے کہا میری چارپائی حفیظ کی چارپائی کے ساتھ ہے۔وہ اگر مانگے گی تو میں دے دوں گی۔ جاؤ جا کر سو جاؤ صبح اسکول بھی تو جانا ہے۔ اس وقت عزیزم کی عمر صرف بارہ سال کی تھی۔

ایک بات جو میرے بھائی کو بہت بری لگتی تھی وہ یہ تھی کہ عورتیں آتی ہیں گھنٹوں باتیں کرکے جب واپس جاتی ہیں تو دروازے کے باہر جاکر پھر باتیں شروع کر دیتی ہیں،جبکہ باہر مرد آ جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک اندر اورتین چار دروازے کے باہر کھڑی باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ آپ انہیں منع کریں کہ باہر کھڑی ہوکر باتیں نہ کیا کریں۔

حمید اللہ کی نیکیاں، ہمدردیاں سنہری حروف میں لکھنے والی باتیں ہیں۔ دین اسلام کی خاطر جان تک کی پروا نہ کرنا،شمار کروں تو ایک کتاب بن جائے گی۔ ہاتھوں میں لکھنے کی طاقت بھی نہیں۔ 90 سال سے اوپر جا رہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر کرے، چلتے پھرتے ہی لے جائے محتاجی کی زندگی سے بچائے۔آمین۔

قارئین سےدعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے پیارے بھائی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین۔

میرے مولا کرعطا اب ارفع و اعلیٰ مقام

سایہ فگن تیری رحمت خلد میں جانے کے بعد

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. بنیادی سائل کے جوابات پڑھا۔ہمیشہ کی طرح اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ جس نے خلافت کی نعمت سے نوازا۔ ہر سوال کا اتنا برمحل اور تشفی آمیز جواب پڑھ کر دل اللہ تعالی کی حمد سے بھر جاتا ہے واقعی خلافت ایک عظیم فضل خداوندی ہے۔اللہ تعالی پیارے امام کی روح القدس سے تائید و نصرت فرمائے آمین۔
    حضرت ہاجرہ کے متعلق مضمون بہت زبردست ہے۔ان کے متعلق جو معلومات دی گئی ہیں ان سے حضرت ہاجرہ کا اصل مقام و مرتبہ پتا چلتا ہے۔
    اللہ تعالی سب کام کرنے والوں کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button