الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ستمبر2013ء میں مکرم عبدالباسط بٹ صاحب کے قلم سے محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں مرحوم کے بارے میں 10؍اگست 2001ء، 7؍دسمبر 2012ء اور 16؍اپریل 2021ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں مضامین شامل کیے جاچکے ہیں۔

محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب کے والد محترم خواجہ عبدالرحمٰن صاحب ایک فدائی اور مخلص احمدی تھے۔ اور ایک ہمدرد، غمگسار اور نافع الناس وجود تھے۔ انہی خوبیوں کو انہوں نے اپنی اولاد میں بھی منتقل کیا۔ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ اُن کا ایک مشفقانہ تعلق تھا۔ اسی تعلق کی وجہ سے حضورؓ نے محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب کے نکاح کا اعلان محترم چودھری اسداللہ خان صاحب (برادر حضرت چودھری سرمحمد ظفراللہ خان صاحبؓ)کی دختر کے ہمراہ جلسہ سالانہ ربوہ 1955ء کے موقع پر خود فرمایا۔

محترم خواجہ سرفراز احمد صاحب بزرگان دین کا انتہائی ادب کرتے۔ دفتر وقف جدید میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتے تو اگر حضورؒ آپ سے گھر پر آنے کو فرماتے تو آپ جواب دیتے کہ دفتری اور خانگی مصروفیات کی وجہ سے آپ کو آرام کا وقت بھی ملنا چاہیے، مَیں تو ثواب کی خاطر دفتر میں حاضر ہوجاتا ہوں۔حضورؒ کے خلیفہ بننے کے بعد آپ ایک عرصے بعد اجتماعی ملاقات میں شامل ہوئے اور حضورؒ کے پوچھنے پر کہ ملاقات کے لیے کیوں نہیں آئے؟ آپ نے جواب دیا کہ خلیفہ وقت کی مصروفیات کی وجہ سے مناسب نہ سمجھا۔

خلیفہ وقت کی اطاعت کا یہ حال تھا کہ 1984ء میں ایک بار جب آپ عدالت میں پیش تھے تو آپ کو حضورؒ کی طرف سے حضورؒ کو ملنے کا پیغام پہنچا۔ اس پر آپ نے فوری طور پر عدالت میں معذرت کی اور ربوہ روانہ ہوگئے جہاں دربار خلافت میں حاضری دی۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جماعتی مقدمات میں بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ حضورانور نے دستی قلمی خطوط میں بھی آپ کے اخلاص و وفا سے بھری کارکردگی کو سراہا ہے۔ یہ خط دکھاتے ہوئے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔
ایک روز خاکسار کو ناظراعلیٰ حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کا یہ پیغام ملا کہ فوری طور پر خواجہ صاحب کے پاس لاہور چلاجاؤں اور اُن سے گزارش کروں کہ وہ علاج کے لیے مان جائیں۔ چنانچہ خاکسار لاہور پہنچا۔ اُس دن سپریم کورٹ لاہور بینچ میں خواجہ صاحب کے ایک ذاتی مقدمہ کی تاریخ تھی۔ لیکن اُس روز آپ اپنی پیپر بُک بھول آئے چنانچہ ججز کو درخواست دی کہ آج میرا معاون نہیں تھا اس لیے یہ بھول ہوگئی ہے۔ بینچ کے تمام ججز نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ وقت کے پابند اور اپنے شعبے سے وفا رکھتے ہیں اس لیے آپ جو ریلیف چاہتے ہیں وہ ہم دے دیتے ہیں۔
اس کارروائی کے بعد آپ سپریم کورٹ کے کیفے ٹیریا میں پہنچے تو وہاں خواتین وکلاء کا ایک گروپ بھی آگیا جو عدالتی کارروائی دیکھنے آیا ہوا تھا۔ وہ آپ سے کہنے لگیں کہ کیا وجہ ہے کہ تمام ججز آپ کا بہت ہی احترام کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ مَیں قانون کا احترام کرتا ہوں اور وہ میرا احترام کرتے ہیں۔ پھر وہ کہنے لگیں کہ ہمارے گھر والے ہمیں وکالت کی پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ نے کہا کہ آپ اپنے والدین کا فون نمبر مجھے دے دیں تو مَیں خود اُن سے بات کروں گا۔پھر بولے کہ میری عمر ستّر برس ہوگئی ہے اس لیے شاید مَیں آپ کو جج بنتا ہوا نہ دیکھ سکوں۔

واپسی پر ہم لاہور ہائی کورٹ کے بار روم سے گزر رہے تھے تو وہاں پر دو احمدی وکلاءمکرم مبشر لطیف صاحب اور مکرم مرزا نصیر احمد صاحب موجود تھے۔ انہوں نے ایک اخبار دکھایا جس میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ ایک دہشت گرد سے ہِٹ لسٹ ملی ہے جس میں دوسرے لوگوں کے علاوہ خواجہ سرفراز احمد قادیانی کا نام بھی شامل ہے۔ آپ نے جواباً کہا کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے، مجھے کوئی خطرہ نہیں، مجھ پر تو مولوی اسلم قریشی کا حملہ بھی کارگر نہ ہوسکا۔

جب خاکسار نے حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کا پیغام دیا کہ آپ آج ڈاکٹر کے پاس چیک اَپ کے لیے ضرور جائیں تو آپ مسکرائے۔ پھر گھر جاکر اپنے بھائی کو بلوایا اور چار بجے اُن کے ساتھ ہسپتال چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کرکے بتایا کہ دل کے تین والو بند ہیں اس لیے فوری آپریشن کرنا پڑے گا۔ چنانچہ آپ کو آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا۔ لیکن ابھی ابتدائی ادویات ہی دی جارہی تھیں کہ آپ کی وفات ہوگئی۔ آپ کا جسد خاکی تدفین کے لیے ربوہ لے جایا گیا۔ جب ہم دارالضیافت پہنچے تو وہاں حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب بھی جنازے کے انتظار میں کھڑے تھے۔ تابوت کو ایک کمرے میں رکھنے کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے مرحوم کی پیشانی پر بوسہ دے کر ان کی خدمات کو سلام پیش کیا جو ایک منفرد اعزاز تھا۔

جماعتی مقدمات میں خاکسار کو محترم خواجہ صاحب کی ہم رکابی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ ایک متوکّل قسم کے انسان تھے۔ اتنی قابلیت اور تجربے کے باوجود تکبّر سے بالکل مبرا تھے۔ خداتعالیٰ کی خوشنودی کو ہمیشہ مدّنظر رکھتے۔ جج صاحبان سے اچھے تعلقات کے باوجود خداتعالیٰ کے تصرف پر یقین رکھتے۔ برجستہ اور مؤثر جواب میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مدبّرانہ اور دانشمندانہ انداز میں ججز کو اپنے مؤقف کی تائید پر قائل کرتے۔ جماعتی خدمات بلامعاوضہ کرتے اور اس قدر بےلَوث ہوکر کرتے کہ اپنی ذاتی پریکٹس کو بھی پسِ پشت ڈال دیتے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی کینیڈا کی امیگریشن کے آغاز پر ہی حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کا مقدمہ شروع ہوگیا۔ حضورانور کے مقدمے کی سماعت سے اگلے روز آپ کینیڈا روانہ ہوئے لیکن قریباً ایک ہفتے بعد ہی اگلی سماعت سے پہلے واپس پہنچ گئے تاکہ اپنی ذاتی نگرانی میں معاملہ طے کریں۔

آپ اپنے دلائل کے ساتھ بارعب طرز تخاطب بھی رکھتے تھے۔ بعض اوقات خاکسار عرض کرتا کہ احتیاط سے اپنا مؤقف پیش کیا کریں کیونکہ اس معاملے میں favour بھی لینی ہے۔ لیکن آپ کا کہنا تھا کہ ہمارا قادرمطلق خدا ہے جو دلوں کو پھیر کر ججز کے دلوں میں ہمارے لیے ہمدردیاں پیدا کرتا ہے، اس میں میرا کوئی کمال ہے نہ میرا طرز تکلّم۔ درخواست صرف اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہی ہوتی ہے اور نتیجہ خداتعالیٰ پر چھوڑ کر اُس کے تمام فیصلوں پر ہم راضی ہوجاتے ہیں اور اُس کا شکر ادا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی خواجہ صاحب سے اس طرح ہوتا تھا کہ واضح تائید و نصرت دکھائی دیتی تھی اور ناممکن معاملہ کو ممکن بنتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہوتے تھے۔ بعض مخالف اور متعصّب ججز بھی آپ کے طرز کلام اور مدبّرانہ گفتگو سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے۔ یا تو وہ موافق ہوجاتے یا پھر اس معاملے کو کسی اَور کے پاس بھجواکر اس مقدمے سے علیحدہ ہوجاتے۔ بارہا مقدمات کے دوران عدالت میں فریقین کی موجودگی میں جج صاحبان آپ کی رائے دریافت کرتے۔ آپ کی رائے فریقین اور ججز کو مطمئن کردیتی۔

آپ کی وفات پر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ان کے کارنامے تاریخ احمدیت میں آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔‘‘یہ تحریر آپ کے کتبے پر بھی کندہ ہے۔حضورؒ اپنے خطوط میں پُرستائش رنگ میں آپ کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے اور مستقبل کے لیے راہنمائی بھی فرماتے۔ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ساتھ بھی جب آپ کی ملاقات ہوتی تو گفتگو اکثر عدالتی امور پر ہی ہوتی اور حضرت چودھری صاحبؓ اپنے تجربات سے آپ کو آگاہ فرماتے۔

آپ کو بجا طور پر عدالتی دنیا میں احمدی شاہسوار کہا جاسکتا ہے۔ آپ کی عدالتی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے جو اطاعتِ خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا سے جڑا ہوا ہے۔

………٭………٭………٭………

دانتوں کی صفائی اور احتیاط

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 15؍جولائی 2013ء میں مکرم ڈاکٹر نذیر احمد ریحان صاحب نے دانتوں کی صحت اور ان کی صفائی کے حوالے سے ایک مفید مضمون تحریر کیا ہے۔

دانتوں کا مرض اکثر مصنوعی غذاؤں کا نتیجہ ہے جنہیں لذیذ بنانے کے لیے نرم اور میٹھا بناکر قدرتی خوبیوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔ پہلے دانتوں کو ٹھنڈی یا گرم چیزوں کا احساس ہوتا ہے پھر رفتہ رفتہ جڑوں میں تکلیف ہونے لگتی ہے جس کی پرواہ اگر نہ کی جائے تو دانت ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔مشروبات، بیکری، چینی سے بنی ہوئی چیزیں اور غذا میں عدم توازن اس مرض کا باعث ہیں۔ چنانچہ ایسے علاقوں میں یہ تکلیف زیادہ ہے جہاں غذاؤں کو ڈبّوں میں بند کرکے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح غذا میں فلورین کی کم مقدار ہونے سے بھی دانتوں کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ نیز کھانے کے بعد منہ میں رہ جانے والے ذرّات بیکٹیریا کی بڑھوتری کے لیے بہت سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے ہر کھانے کے بعد دانتوں کی صفائی کرنا بےحد ضروری ہے۔

برش یا مسواک کو اوپر سے نیچے کی طرف کرنا چاہیے۔ سنّت رسولﷺ بھی یہی ہے۔ دانتوں کو جلدی جلدی صاف کرنے کی بجائے، اچھے پیسٹ، منجن یا مسواک کی مدد سے اتنی دیر تک صاف کرنا چاہیے کہ مسوڑھوں سے زہریلا اور متعفّن پانی خوب خارج ہوجائے۔ یہی پانی دانتوںکی جڑ کو بیمار کرتا ہے اور اس کا اخراج دانتوں کے علاج کی طرف پہلا قدم ہے۔ سہاگہ سفید کو پیس کر منجن کے طور پر استعمال کرنا بھی مفید ہے۔ پھٹکڑی سفید کو توے پر کھِل کرکے پیس کر ملنا بھی مفید ہے۔ عام نمک کو سرسوں کے تیل کے ساتھ مسوڑھوں پر ملنا بھی زہریلا پانی خارج کرتا ہے۔

مضبوط دانتوں اور مسوڑھوں کے لیے اپنی غذا میں کچی سبزیوں اور بغیر چھنے ہوئے آٹے سے بنی اشیاء کا تناسب زیادہ کریں۔ کچا پیاز بھی دانتوں کے جراثیم کو ہلاک کردیتا ہے اور دانت درد میں بھی مفید دیکھا گیا ہے۔ سیب بھی دانتوں کا فطری محافظ ہے۔ کھانے کے بعد سیب کے استعمال سے دانت اسی طرح صاف ہوجاتے ہیں جیسے برش کیا گیا ہو۔ لیموں بھی مسوڑھوں کی سوجن کو دُور کرنے میں بہت مفید ہے۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 18؍دسمبر 2013ء میں مکرم مبارک احمد صدیقی صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب پیش ہے:

دل کسی کے پیار میں سرشار تھا ایسا کہ بس

اور پھر وہ بھی گل و گلزار تھا ایسا کہ بس

ایک تو دل ڈھونڈتا رہتا تھا کوئی غم شناس

دوسرے وہ شخص بھی غمخوار تھا ایسا کہ بس

ہم کہ آئے تھے خزاں کے شہر سے اُجڑے ہوئے

وہ کہ اِک شاداب برگ و بار تھا ایسا کہ بس

ایک تو اُس قافلے میں لوگ تھے مہتاب سے

دوسرے وہ قافلہ سالار تھا ایسا کہ بس

پوچھتے ہو دوست کیا احوال وصلِ یار کا

ایک منظر خواب کے اُس پار تھا ایسا کہ بس

کیا نظارہ تھا مبارکؔ آنکھ جگمگ ہو گئی

رُوبرو میرے رُخِ انوار تھا ایسا کہ بس

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button