مضامین

افریقہ کی ترقی و استحکام کی جانب خلفائے احمدیت کی نظرِ التفات(قسط سوم۔آخری)

(ذیشان محمود۔ مربی سلسلہ سیرالیون)

خلفائے احمدیت کی نظرِ شفقت کاوارث، براعظم افریقہ

مستقبل میں افریقہ میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور افریقہ دنیا کو خوراک مہیا کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے

خلافتِ خامسہ

خلافتِ خامسہ میںجہاں یہ تمام کام جاری و ساری ہیںوہیں ان میں مزید وسعت اور پھیلاؤبھی آیا ہے جس کا ذکر گزشتہ اقساط میں کیا جاچکا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان امور کے لیےمتعدد بار احباب جماعت کو توجہ بھی دلائی اور دو بار مغربی افریقہ اور ایک بار مشرقی افریقہ کا دورہ فرمایا اور مقامی احمدیوں سے ملاقات کی۔ افریقہ کی تعمیر و ترقی کے لیےمزید پراجیکٹس کی بنیاد ڈالی اور دنیا میں ہونے والے تغیرات کے ساتھ ساتھ حضور کی مزید راہنمائی بھی ہمیں حاصل ہے۔

خدمات کی تحریکات

خلافتِ خامسہ کے آغاز میں ہی حضور انورنے ڈاکٹرزاوراساتذہ کو خصوصاً اور عمومی طور پر تمام احباب جماعت کو خدمت خلق کی تحریک کرتے ہوئے جلسہ سالانہ یوکے 2003ء کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے خطاب میں فرمایا:’’افریقہ میں جو ہمارے ہسپتال ہیں ان میں ڈاکٹروں کی بہت ضرورت ہے۔ یہ بھی مَیں تحریک کرنا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحبان کو کہ اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں اور کم ازکم تین سال تو ضرورہو۔ اور اگر اس سے اوپر جائیں 6سال یا 9سال تو اور بھی بہتر ہے۔اسی طرح فضل عمر ہسپتال ربوہ کے لئے بھی ڈاکٹرز کی ضرورت ہے تو ڈاکٹر صاحبان کو آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں عارضی وقف کی تحریک کرتا ہوں اپنے آپ کو خدمت خلق کے اس کام میں جو جماعت احمدیہ سرانجام دے رہی ہے پیش کریں اور یہ ایک ایسی خدمت ہے جس کے ساتھ دنیا تو آپ کما ہی لیں گے دین کی بہت بڑی خدمت ہوگی اور اس کا اجر اللہ تعالیٰ آپ کی نسلوں تک کو دیتا چلا جائے گا۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر 2003ء صفحہ3)

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’جماعتی سطح پر یہ خدمتِ انسانیت حسب توفیق ہورہی ہے۔ مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے، وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجا لا رہے ہیں۔ لیکن مَیں ہر احمدی ڈاکٹر، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کر سکتا ہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آسکتا ہے، ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آنے کی کوشش کریں۔ تو اللہ تعالیٰ آپ کے اموال و نفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔ اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھا ہے جس کوپورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ستمبر 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 07؍نومبر2003ء صفحہ8)

ڈاکٹرز کو وقف کی تحریک

پھر افریقہ میں خدمت کے لیےوقف کی تحریک کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:’’جلسے پر میں نے ڈاکٹروں کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے افریقہ کے ہسپتالوں کے لئے ڈاکٹر مستقل یا عارضی وقف کریں۔اب تواللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات بہت بہتر ہیں۔وہ دقتیں اورمشکلات بھی نہیں رہیں جو شروع کے واقفین کوپیش آئیں اوراکثر جگہ توبہت بہتر حالات ہیں اورتمام سہولیات میسر ہیں۔اوراگر کچھ تھوڑی بہت مشکلات ہوں بھی تواس عہد کو سامنے رکھیں کہ محض لِلّٰہ اپنی خداداد طاقتوں سے بنی نوع کوفائدہ پہنچاؤں گا۔آگے آئیں اورمسیح الزمان سے باندھے ہوئے اس عہد کو پورا کریں اوران کی دعاؤں کے وارث بنیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ اکتوبر 2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍دسمبر2003ء)

پھر افریقہ میں ڈاکٹروں کی ضرورت کاذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’جماعت کے ہسپتال ہیں پاکستان میں بھی ربوہ میںبھی اورافریقہ میں بھی۔وہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کو گوکہ تنخواہ بھی مل رہی ہوتی ہے ایک حصہ بھی مل رہا ہوتا ہے لیکن شاید باہر سے کم ہو۔توبہرحال خدمت خلق کے جذبے کے تحت ڈاکٹروں کوبھی اپنے آپ کو وقف کرنا چاہئے۔چاہے 3سال کے لئے کریں، چاہے 5سال کے لئے کریںیا ساری زندگی کے لئے کریں۔ لیکن وقف کرکے آگے آناچاہئے اوریہی چیزیںہیں جوان کوپھر اللہ تعالیٰ کاقرب عطا کریں گی اوران پر اتنے فضل ہوں گے جواللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ان پر جلوہ گر ہوگی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 دسمبر2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل05؍جنوری 2007ء)

مجلس نصرت جہاں کے تحت سپیشلسٹ ڈاکٹرز کو عارضی وقف کی تحریک

احمدی سپیشلسٹ ڈاکٹر صاحبان کو مجلس نصرت جہاں کے تحت عارضی وقف کی تحریک کرتے ہوئے جلسہ سالانہ یوکے 2008ء کے موقع پر اپنے دوسرے روز بعد دوپہرکے خطاب میں فرمایا:’’مَیں ڈاکٹر صاحبان کو پیغام بھی پہنچانا چاہتا ہوں بلکہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ جو سپیشلسٹ ڈاکٹرز ہیں ان کی نصرت جہاں کے ہسپتالوں میں ضرورت ہے اور مختلف ممالک سے مطالبہ آتا رہتا ہے۔ اگر امریکہ، برطانیہ، پاکستان یا دوسری جگہوں سے ڈاکٹر اس کام میں شامل ہوں، چاہے وہ عارضی وقف کے لئے جائیں، چند دن وقف کریں، ایک ماہ کے لئے یا چند ہفتے کے لئے، اس سے بھی بڑا فائدہ ہوتا ہے۔تو اس لحاظ سے بھی سپیشلسٹ ڈاکٹرز جو ہیں وہ اپنے اپنے کوائف اگرمرکز کو بھجوائیں تو اس کے مطابق ان کا پروگرام بنایا جا سکتا ہے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر2014ء )

احمدی انجینئرز اور آرکیٹیکٹس کو خدمت کی تحریک

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 9؍مئی 2004ء کو انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز کے یورپین چیپٹر کے پہلے سمپوزیم میں افریقہ میں خدمت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:’’جماعت ان ممالک میں مختلف مقاصد کے لئے عمارات تعمیر کر رہی ہے۔مثلاً مساجد، مشن ہاؤسز، سکولز، ہسپتال وغیرہ۔ اس کے لئے بھی سِول انجینئر اور آرکیٹیکٹس کو ان ممالک میں خدمت کی غرض سے جاناچاہئے۔ مجھے معلوم ہے کہ آ پ میں سے اکثر سفر کے تمام اخراجات آسانی سے خود برداشت کرسکتے ہیں۔ اور بعض ممالک میں تو ہمارے پاس کوئی انجینئر یا آرکیٹیکٹ بھی نہیں ہیں جو ہمیں یہ مشورہ دے سکیں کہ کس قسم کی عمارتیں ہمیں بنانی چاہئیں جس سے ہمارا خرچہ بھی کم ہو اور عمار ت بھی بہتر ہو۔‘‘

حضور ایدہ اللہ نے فرمایاکہ ’’مجھے امید ہے کہ آ پ میں سے کچھ انجنیئرز اورآرکیٹیکٹس اپنے آ پ کو پیش کرتے ہوئے وقف عارضی کے تحت ان ملکوں میں جائیں گے اور ہمیں یہ مشورہ دیں گے کہ ہم کس طرح کم خرچ پر یہ عمارات بناسکتے ہیں جوکہ کم خرچ کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی نظر آئیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 4؍جون2004ء صفحہ11)

واقفینِ نو کو لمبے عرصہ کے لیے وقف کی تحریک

احمدیہ مسلم میڈیکل ایسو سی ایشن یوکےکی سالانہ کانفرنس کے موقع پر امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں اختتامی خطاب فرمودہ 30؍نومبر2019ء میں واقفین نو کوتحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہمارے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی بہت کمی ہے۔مثلاً فضل عمرہسپتال ربوہ میں بچوں کے امراض کے ڈاکٹرز(Paediatricians) کی کمی کی وجہ سےاکثر ہمیں مجبوراً مریضوں کو دوسرے ہسپتالوں میں بھیجنا پڑتا ہے۔اسی طرح امراض نسواں کے ڈاکٹرز کی بھی کمی ہے۔اس لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ یوکے سےبچوں کے ماہر ڈاکٹرز اور ماہرین امراض نسواں اوردوسرے ماہرین لمبی مدت کے لیے اپنی خدمات پیش کریں تاکہ وہ اس کمی کو دور کرنے میں مدد کر سکیں۔ ہمارے ڈاکٹرز کے لیے کافی نہیں کہ وہ خدمت کے لیے صرف چند دن یا دوران سال چند ہفتوں کے لیے سفر اختیار کریں بلکہ قربانی کے لیے ایک دلی جذبہ اور اپنی زندگیوں میں سے وقت نکال کر انسانیت کی خدمت کے لیے ایک حقیقی خواہش کی ضرورت ہے۔مجھے یقین ہے کہ آپ سب وہ کام کرنےکے لیے تیار ہیں جو دُور بیٹھ کر کیاجا سکتا ہو یا جس سے آپ کی روز مرہ زندگی پر اثر نہ پڑتا ہو۔ لیکن ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز متواتر لمبے عرصے کے لیے افریقہ اور خاص طور پر پاکستان کے ہسپتالوں میں جاکرخدمت کریں…

واقفین نَو کےحوالے سے ہمیں خاص طور پر بچوں کے امراض (Paediatric)، امراض نسواں (Gynaecology)اور جنرل سر جری کے شعبوں میں مستقل واقفین کی ضرورت ہے۔جونہی ان کی میڈیکل ٹریننگ کا عرصہ مکمل ہو جائے انہیں وقف کو نبھاتے ہوئے ایک مصمم ارادےکےساتھ اپنے آپ کو جماعت کے لیے پیش کرناچاہیے اورافریقہ یا پاکستان میں جماعت کے ہسپتالوں میں خدمت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ورنہ ان کا تحریک وقف نو میں شامل ہونےکا کوئی فائدہ نہیں۔ایک بار پھر میں اس بات کی طرف تو جہ دلاتاہوں کہ یوکے میں آپ کے ممبرز اور دنیا بھر میں ڈاکٹرز کو جتنا وقت ممکن ہو وقف عارضی کے لیےنکالنا چاہیے جبکہ وقفِ نو ڈاکٹرز کو ٹریننگ مکمل کرتے ہی کُل وقت کے لیے جماعت کی خدمت کے لیےاپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل 3؍ اپریل 2020ء)

سکول کی تعمیر میں ذاتی کردار کا ذکر

دورۂ گھانا کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ٹی آئی احمدیہ سیکنڈری سکول اکمفی ایسارچر (Ekumfi Essarkyie) بھی تشریف لے گئے۔ سکول میں کمپیوٹرز کی تعداد بہت کم تھی۔ اس پر حضور انور نے ازراہ شفقت فرمایا: ’’اپنے کمپیوٹر سیکشن کو وسیع کرکے مجھے اطلاع دیں تو میں اس میں پانچ کمپیوٹرز اور ایئر کنڈیشنز لگوا دوں گا۔‘‘حضور انور نے ایک طالب علم سے جو حضور انور کو شعبہ جغرافیہ کے چارٹس دکھا رہا تھا فرمایا:’’اگر تم فائنل امتحان میں 80%نمبر لے لو تو میرا تم سے وعدہ ہے کہ گھانا سے باہر کسی بھی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم دلواؤں گا۔ ‘‘اس خوش قسمت طالب علم کا نام Enock Yaw Asamoahہے جو سکول کے شعبہ آرٹس میں فائنل ائر کا سٹوڈنٹ تھا۔حضور انور، ہیڈ ماسٹر کے دفتر تشریف لائے اور وزیٹرز بک میں تحریر فرمایا:’’یہ وہ سکول ہے جہاں میں نے قریباً 4سال خدمت کی توفیق پائی ہے۔ اس لئے میرا اس کے ساتھ جذباتی تعلق ہے۔ مجھے اس بات کی ازحد خوشی ہے کہ جس سکول کے لئے میں نے خون پسینہ ایک کیا آج حیران کن اختصار کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔‘‘(بحوالہ الفضل افریقہ نمبر 28؍دسمبر2004ء)

غانین احباب کو نصیحت

حضور انور نے غانین قوم کے بارےہمیں فرمایا:’’میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ غانین لوگ دوسروں سے زیادہ وسعت حوصلہ دکھانے والے اور بڑے باہمت ہیں۔ میں کچھ عرصہ آپ کے ساتھ رہا ہوں۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی گردن کے درپے ہوتے ہیں مگر آپ نے شاید ہی جھگڑوں میں اسلحہ استعمال کیا ہو….اگر آپ یہاں سے امریکہ اور یورپ جا کر بارہ بارہ گھنٹے کام کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں اتنی محنت کیوں نہیں کر سکتے۔ اگر آپ تمام لوگ محنت کرنا شروع کر دیں تو اس ملک میں ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی….دنیا کے معاملات میں ہمیں یورپ اور امریکہ سے آگے بڑھنا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے لوگ کوئی آفاقی مخلوق تو نہیں کہ وہ ترقی کر گئے۔ انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بے حد محنت کی ہے…. وہ مغربی اقوام جنہوں نے افریقہ اور ایشیا کو پہلے غلام بنا رکھا تھا وہ کیسے امن پیدا کر سکتی ہیں۔ البتہ تم اس دنیا میں امن پیدا کر سکتے ہو۔‘‘(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ گھانا 2004ءبحوالہ الفضل افریقہ نمبر 28؍دسمبر2004ء)

ذاتی ملاقاتوں میں مشورے اور خدمات کااعتراف

برکینا فاسو میں زراعت

صدر مملکت برکینا فاسو سے ملاقات میں زراعت کا شعبہ موضوع گفتگو رہا۔ حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ ’’چونکہ ان کا تعلق زراعت کے شعبہ سے رہا ہے اس لحاظ سے گھانا کی سرحد سے واگا ڈوگو پہنچنے تک اندازہ ہو تا ہے کہ اس شعبہ میں ترقی کے آپ کے پاس وافر مواقع اور صلاحیتیں موجود ہیں۔ جوں جوں گفتگو آگے بڑھتی جاتی صدر مملکت کے انداز میں بے تکلفی اور اپنائیت اور ایک عجیب خوشی کا احساس ہو رہا تھا….صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کے لوگ محنت اور دیانتداری سے کام لیں۔حضور انور نے فرمایا بیرون ممالک سے ماہرین کو منگوانا آپ کے لئے مفید نہیں رہے گا آپ کو مقامی ماہرین تیار کرنے ہوں گے۔‘‘

صدر مملکت نے کہا اس وقت انڈیا، چائنا، تائیوان اور دیگر ممالک زراعت کے شعبہ میں ہمارے ملک کے ساتھ تعاون کر رہے ہیںحضور انور نے فرمایا:’’یہ درست ہے تیسری دنیا کے ممالک سے اس شعبہ میں تعاون لینا آپ کے لئے مفید ہوگا بالخصوص چائنا سے کیونکہ یہ لوگ اپنے کام میں دیانتدار ہوتے ہیں۔ ‘‘ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے ملاقات کے سلسلہ میں صدر مملکت کا شکریہ ادا کیا اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر آپ لوگ محنت اور دیانتداری سے کام کریں تو بہت جلد آپ کا شمار افریقہ کی Leading Nations میں ہونے لگے گا۔‘‘(بحوالہ الفضل افریقہ نمبر 28؍دسمبر2004ء)

تعلیم، صحت اور زراعت میں خدمت کا اعتراف

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر مملکت آف گھانا جناب John Agyekum Kufuorجان ایجی کم کو فوار سے ملاقات میں انہیں بتایا کہ اگرچہ میں Courtesy Call کے لیے آیا ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میں اپنے ہی ملک میں آیا ہوں۔ حضور انور نے بتایا کہ گھانا نے مجھے بہت Inspire کیا ہے۔

صدر مملکت نے بتایا کہ آپ کی تقرری1977ء میں گھانا میں ہوئی۔ اور وسیع پیمانے پر آپ نے گھانا کاسفر کیا۔ اب ہم آپ کو گھانین شمار کرتے ہیں اور ہم جماعت کے اچھے کارناموں …پر فخر کرتے ہیں…جماعت احمدیہ گھاناملک کی ترقی کے لیے غیر معمولی خدمات بجا لا رہی ہے۔ خصوصی طور پر آپ کی جماعت ہمارے ملک میں تعلیم، صحت اور زراعت جیسے شعبوں میں بہت مدد کررہی ہے۔ آپ کے تعلیمی اداروں میں بہت نظم وضبط ہے۔ہم آپ کی جماعت کے ممبران کی خوبیوں سے آشنا ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

گندم اگانے کی طرف توجہ دیں

نائب صدر مملکت گھانا His Excellency Alhaj Aliu Mahama نے دوران ملاقات حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے اس بات کی از حد خوشی ہے کہ آپ گھانا تشریف لائے اور دوسرے ممالک پر گھانا کو ترجیح دی۔ ہم اس کے لئے بہت شکر گزار ہیں۔ آپ نے تو جوانی کے دن یہیں گزارے ہیں اور ہمارے ملک کی خدمت کی ہے۔ آپ کی جماعت بھی تعلیم، صحت ا ور زراعت کے میدان میں خاص خدمات بجا لا رہی ہے۔آپ تو خود زراعت کے ماہر ہیں جنہوں نے یہاں گندم اگانے کا نہ بھولنے والا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا:’’ملک میں گندم اگانے کی طرف توجہ دیں۔ مختلف ممالک اس میدان میں آپ کی مدد کے لئے تیار ہو سکتے ہیں۔ اس سے زرمبادلہ میں بھی بچت ہوگی۔‘‘(بحوالہ الفضل افریقہ نمبر 28؍دسمبر2004ء)

سب سے بڑے ملکی اعزاز سے نوازا گیا

سیرالیون میں جماعت احمدیہ کے قیام کو 100 سال سے زائد عرصہ ہو گیاہے۔ 2022ء کا سال سیرالیون کی آزادی کا 60 واں سال تھا۔ حکومت سیرالیون اور صدر مملکت عزت مآب ریٹائرڈ بریگیڈیئر جولیئس مادا بیو (H.E. Rtd. Brg. Julius Maada Bio) نے جماعت کی سو سالہ خدمات کے اعتراف میں اس سال نوازے گئے اعزازات میں احمدیہ مسلم جماعت سیرالیون کو ملک کے سب سے بڑے سِول اعزاز Commander of the Order of the Rokelسے نوازا۔ 27؍اپریل 2021ء کو ایوانِ صدر میں ہونے والی اس تقریب میں امیر و مشنری انچارج سیرالیون مولانا سعید الرحمٰن صاحب نے احمدیہ مسلم جماعت سیرالیون کی طرف سے یہ اعزاز وصول کیا۔

جماعت احمدیہ سیرالیون کو یہ اعزاز حاصل ہےکہ خلافت احمدیت کی منشا و ہدایت کے ماتحت 1938ء میں ملک کے پہلے مسلم پرائمری سکول روکوپر اور 1960ء میں پہلے مسلم سیکنڈری سکول بو کا اجرا کیا جس کے نتیجے میں ملک کے مسلمانوں کو رائج الوقت تعلیم کے حصول میں آسانی ہوئی۔ اب تک سیرالیون میں مجلس نصرت جہاں کے تحت 300 سے زائد سکولوں کا قیام ہو چکا ہے جو کسی بھی مسلمان جماعت کی طرف سے ملک بھر میں قائم کیے جانے والے سکولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ ایک لمبے عرصے سے مجلس نصرت جہاں کے تحت ہی جماعتی ہسپتال اور کلینک ملک میں ضرورت مند مریضوں کو معیاری اور سستے علاج کی سہولت مہیا کررہے ہیں۔ IAAAE اور ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمتِ خلق کے میدان میں جماعت احمدیہ نے ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں کنویں کھدواکر اور نلکے لگوا کر لوگوں کو بسہولت صاف پانی مہیا کرنے میں کردار ادا کیاہے۔ خانہ جنگی، مٹی کے تودے گرنے، سیلابوں، ایبولا اور اب کورونا وائرس کی وبا میں جماعت احمدیہ ضرورت مند اور مستحق لوگوں کی خوراک، کپڑوں، ادویات اور رہائش میں مدد کررہی ہے۔ اس میں ایبولا میں یتیم ہونے والے پچاس بچوں کی مکمل ذمہ داری بھی شامل ہے۔

دنیا کے حالات میں قائدانہ کردار کی ضرورت

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں IAAAE کو مستقبل کے لیےلائحہ عمل بنانے کی ہدایت دیتے ہوئے IAAAE کے سالانہ انٹرنیشنل سمپوزیم برائےسال 2022ء سے اختتامی خطاب میں فرمایا: ’’IAAAE کےہر وقت یہ پیشِ نظر ہے کہ دنیا کے حالات کے مطابق کس طرح کام کیا جائے۔ دنیا کی حالت تشویش ناک اور خطرناک ہے۔ خصوصاً آج کل جو دنیا میں ہو رہا ہے اور یوکرائن، رشیا اور یورپ کے درمیان جو ہو رہا ہے اس سے دنیا کے ایک بڑے خطے میں جنگ پھیلنےکے نتیجہ میں ہونے والا نقصان انسان کے وہم و گمان سے بالا ہے۔ اور ایسی تباہی آنے والی ہے کہ انسان نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ IAAAEکو چاہیے کہ بنی نوع انسان کے لیے اپنی کوششوں کو بڑھائے اور ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کی تیاری کرے…دنیا کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔ دنیا کے راہنما ہوش سے کام لیں مبادا دیر ہو جائے۔ اور ہمیں اس بارہ میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔ ایسی جنگ کے بعد انسانیت کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہو گا کہ دنیا از سرِ نو تعمیر کی جائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس بارہ میں بڑا کام کیا جائے۔ IAAAE اس بارہ میں ایک تفصیلی پلان بنائے۔ ان کے لیے جو بے گھر ہو جائیں گے ایک رہائشی سکیم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ احمدی آرکیٹٰکٹس کو عام حالات میں بھی سستے گھروں کے پراجیکٹس کے متعلق سوچنا چاہیے جو جماعت کے فائدہ کے ہوں۔ آپ کو ایسے پلان بنانے چاہئیں کہ ہماری مساجد، مشن ہاؤسز اور دیگر پراجیکٹس بہترین معیار، کم خرچ اور ماحول دوست ہوں۔ خدا نخواستہ اگر بڑے پیمانے پر جنگ ہو گئی تو ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کے کئی خطے شدید تباہی سےبچ جائیںگے۔ افریقہ، جزائر اور دور دراز کے علاقے براہِ راست متاثر نہ ہوں گے۔ فرمایا کہ ہمیں ایسے مستقبل کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ مغربی دنیا کا امن اور حفاظت قائم نہ رہ سکے تو وہ کام دوسرے علاقوں میں کیے جا سکیں اور ان کم ترقی یافتہ ممالک کو مضبوط بنا سکیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ان علاقوں میں کیسے کام کیا جائے تا کہ یہ پسماندہ اقوام بڑے وقار کے ساتھ کھڑی ہو سکیں اوردنیا کی ازسرِنو تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ IAAAE کو چاہیے کہ وہ ایک دور اندیش منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے۔ تا کہ اس زمانے کے حالات ٹھیک ہو بھی جائیں تو جماعت اور IAAAE ایک ادارے کے طورپر مستقبل کے لیے کام کرتی رہے۔ ہم کیا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کم وسائل کے ساتھ بہترین انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی اور وسائل ان کو مہیا ہوں۔ آپ کا پلان یہ ہو کہ یہ اقوام کیسے قرضے کے بوجھ سے اپنے آپ کو نکال سکیں اور دنیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 12؍مارچ 2022ء)

جنگ کے بعد ممکنہ صورتحال اور افریقہ کا مستقبل

عالمی تباہی کی صورت میں راشن اکٹھا کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضور ِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ’’عام طور پر مشکل حالات میں کوئی شخص کم از کم دو سے تین ماہ کے راشن سے استفادہ کر سکتا ہے تاکہ خوراک اور پانی کی ضرورت کو پورا کر سکے۔تاہم بدترین حالات یعنی ایٹمی جنگ کی صورت حال پیدا ہونے کے نتیجے میں انتہائی خوفناک نتیجہ نکلے گا۔ کیا باقی رہے گا؟ سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل و رحم فرمائے کوئی چیز باقی نہیں رہ سکتی۔ تو پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں کیا باقی رہ جائے گا، کیا کوئی نباتاتی یا حیوانی زندگی بھی زندہ رہتی ہے۔ ایک نئی زندگی کا آغاز اسی طرح کرنا پڑے گا کیونکہ ایٹمی جنگ کے نتیجے میں تابکاری اثرات کافی گہرے اور نقصان دہ ہوں گے۔ تابکاری زمین کے اوپر اور نیچے ہر جگہ پھیل جائے گی۔ عام طور پر جہاں انسان مرتے ہیں وہاں نباتات بھی مر جاتی ہیں۔ سائنسدانوں نے کہا ہے کہ تابکاری سے زمین کے اوپر کی مٹی کئی سال تک آلودہ رہ سکتی ہے۔ تابکار عناصر مٹی میں جذب ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ زیرِ زمین مٹی بھی ناقابل استعمال ہو سکتی ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی زمین پر کاشت کاری کئی سالوں کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ مٹی کو کچھ فٹ کھود کر بھی پودے لگانے کی کوشش کی جا سکتی ہے تاہم، اس وقت یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پودے اگانے کے لیے بیج بھی دستیاب ہیں کہ نہیں۔

مختصر یہ کہ حالات ایک ایسے خوفناک اور ہولناک منظر کاامکان پیش کر رہے ہیں جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کون جانتا ہے کہ ایسے حالات میں کون زندہ رہے گا اور کون ہلاک ہوجائےگا۔ جیسا کہ میں کچھ عرصے سے خبردار کر رہا ہوں دنیا کو ہوش میں آنے کی ضرورت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں ایٹم بم کے اثرات کو برداشت کرنے کے لیے بنکرز بنائے گئے ہیں جن میں سے کچھ کی قیمت ڈیڑھ سے ساڑھے چار ملین ڈالرز تک بھی ہے۔ دولت مند لوگ یہ بنکر خرید رہے ہیں۔ لیکن مٹھی بھر دولت مند لوگوں کو جبکہ معاشرے کا عام طبقہ باقی ہی نہ رہے گا زندہ رہ جانے کا بھلا کیا فائدہ ہوگا؟

جہاں تک خوراک کی رسائی کا تعلق ہے تو فی الحال بظاہر تو اس وقت افریقہ کو خوراک پہنچائی جا رہی ہے لیکن عین ممکن ہے کہ ہمیں مستقبل میں افریقہ سے خوراک حاصل کرنی پڑ ے۔

ہم افریقہ میں زراعت میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں کیونکہ امکان ہے کہ افریقہ یا دنیا کا کوئی ایسا خطہ جو براہِ راست جنگ سے متاثر نہ ہو مستقبل میں دنیا کو خوراک مہیا کرنے کے کام آئے۔

جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔‘‘تو دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں افریقہ کا ذکر نہیں فرمایا۔ تو میرا ذہن اس امکان کی طرف جاتا ہے کہ شاید افریقی براعظم کو بچایا جائے۔ یہ ایک سوچ ہے جو پیدا ہوتی ہےیا ایسا ہو سکتا ہے کہ شاید افریقہ کا ایک بڑا حصہ بچ جائے گا۔ اس لیے مستقبل میں افریقہ میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور افریقہ دنیا کو خوراک مہیا کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘

افریقہ دنیا کو کیسے سنبھال پائے گا جبکہ اس وقت افریقہ کے بعض ممالک کے حالات ایسے ہیں جن سے لگتا ہے کہ یہ کام کرنا ان کے بس میں نہیں ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’افریقہ میں بہت potentialہے۔خوراک کی کمی، ناقص منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری اور دیانتداری کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ اگر درست منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ ذاتی مفادات کو بیچ میں لائے بغیر کام کیا جائے تو افریقہ میں بہت potential اور وسائل موجود ہیں جن کو جانچ کر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 12؍اپریل 2022ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا کو امن میں رکھے۔ اور اس خطہ زمین میں مخلص، دیانت دار حاکم آئیں اور اس خطے کی دولت و خزانوں اور وسائل کو غیروں کو دینے کے بجائے اپنے اوپراستعمال کرنے والے ہوں۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ خلیفۂ وقت کے حقیقی منشا کو سمجھتے ہوئے اس خطہ ارض کی تعمیر و ترقی میں اپنا حقیقی کردار ادا کر سکیں۔ اور دجالی قوتوں کے چنگل سے اس ارضِ بلال کو مکمل آزاد کروا کراسلام کی آغوش میں لے آئیں۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button