از افاضاتِ خلفائے احمدیت

صدقہ اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کراس کی رضا کی خاطر دینا چاہیے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ خطبہ جمعہ 26؍ نومبر 2004ء)

اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے میں دعاؤں کو، صدقات کو قبول کرتا ہوں لیکن ان بندوں کی جو اس کی طرف جھکتے ہیں، اپنی کمزوریوں اور اپنی نالائقیوں سے آئندہ بچنے کی کوشش کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کو جو ایسی کوشش کر رہے ہوں، اس کی طرف آنے کی کوشش کر رہے ہوں، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ اگر ایک قدم چل کے آتا ہے تو اللہ میاں دو قدم چلتا ہے اور زیادہ تیز چلتا ہے تو دوڑ کر آتا ہے، تو بہرحال جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ بندہ اس کی طرف آ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے۔ وہ تو جب بندہ خالص ہو کر اس کی طرف جھکتا ہے فوراً اپنے رحم کو جوش میں لے آتا ہے کیونکہ وہ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ دعا اور صدقات سے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، یہ ضروری نہیں کہ خواہش کے مطابق کام ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ تو اگر فوری طور پر خواہش کے مطابق یعنی جو بندے کی خواہش ہے نتیجہ نہ بھی ظاہر فرمائے تو بھی بندے کی دعا اور صدقہ قبول کر لیتا ہے اور اَور ذرائع سے اَور وقتوں میں پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ میری دعا کا اثر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مختلف رنگوں میں فضل ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شرط کے خالص ہو کر اس کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں۔ اور جس طرح اس نے فرمایا ہے کہ صدقہ و خیرات اور توبہ کرتے رہیں۔ دعاؤں پر زور دیں۔ اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارا کام صرف یہ ہوکہ اس کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔ صدقہ و خیرات اور چندے دینے کے بعد بھی کبھی بھی کسی قسم کا تکبر، غرور یا دکھاوا ہم میں ظاہر نہیں ہونا چاہئے بلکہ عاجزی سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم ہے، سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔ (ابو داؤد ابواب الوتر باب الدعاء) تو جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دعا کرتا ہے اور صدقہ و خیرات دیتا ہے، اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے، صرف اس لئے کہ اللہ کا قرب پائے، اس کی رضا حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی بعض صفات میں رنگین ہونے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ تواپنی تمام صفات میں کامل ہے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ بندے کو اس کی خاطر کئے گئے کسی کام پر اجر نہ دے۔ اس کی دعاؤں کو قبول نہ کرے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری مرضی کے مطابق ہی وہ اجر ملے۔ اسی لئے آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ تم کبھی بھی یہ تصور نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ بندے کے ہاتھ خالی واپس لوٹائے گا۔ جب تم خالص ہوکر اس سے دعا مانگو گے تو وہ کبھی ردّ نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ خالص ہو کر اس کے حضور جھکنے والے ہوں، اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہو ں اور اس کی خاطر قربانی کرنے والے ہوں۔ اور کسی شرط کے ساتھ اپنے چندے یا اپنا صدقہ و خیرات پیش کرنے والے نہ ہوں۔ صدقہ و خیرات اور دعا کے ضمن میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔ سعید بن ابی بردہ نے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا فرض ہے۔ اس پر صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! جس کے پاس کچھ نہیں وہ کیا کرے۔ اس پررسول اللہﷺ نے فرمایا وہ شخص اپنے ہاتھ سے کام کرے، اپنی ذات کوبھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ انہوں نے عرض کیا اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ تو آنحضورﷺ نے فرمایا وہ اپنے کسی ضرورتمند قریبی عزیز کی مدد کرے۔ صحابہ ؓ نے عرض کی اگر کوئی شخص اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو۔ تو اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا اسے چاہئے کہ وہ معروف باتوں پر عمل کرے، ان پر عمل پیرا ہو اور بری باتوں سے رکے، یہی اس کے لئے صدقہ ہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب علی کل مسلم صدقۃ فمن لم یجد فلیعمل بالمعروف)

تو یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ قربانی کا جذبہ ابھرے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش ہو۔ صحابہ ؓ کا اس میں کیا رنگ ہوا کرتا تھا، ان کے بھی عجیب نظارے نظر آتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے کہا مَیں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ اپنے صدقے کا مال لے کر گھر سے نکلا اور ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا(رات کو اس کو پتہ نہیں لگا اور چور کے ہاتھ پر رکھ دیا)۔ لوگ صبح اس طرح کی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا: اے اللہ! سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے۔ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ اپنے صدقہ کا مال لے کر نکلا اور پھر اس رات بھی ایک عورت کو دیکھا جو بدکار عورت تھی، اس کو وہ صدقہ دے دیا۔ لوگوں نے صبح پھر اس طرح کی باتیں کیں۔ کہ آج رات ایک زانیہ عورت کو صدقہ دیا گیا۔ اس پر اس شخص نے کہا اے اللہ! سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے، کیا مَیں نے ایک زانیہ کو صدقہ دے دیا ہے، اب میں دوبارہ ضرور صدقہ کروں گا۔ پس وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا اور اب کی دفعہ پھر غلط آدمی تک پہنچ گیا اور ایک اچھے بھلے امیر آدمی، مالدار آدمی، کھاتے پیتے آدمی کو صدقہ دے دیا۔ لوگ پھر صبح اس طرح کی باتیں آپس میں کر رہے تھے کہ آج رات ایک مالدار شخص کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا سب تعریف کا تو ہی مستحق ہے، پہلے تو میں نے ایک چور کو صدقہ دیا، پھر ایک زانیہ کو اور پھر مالدار شخص کو۔ وہ اس بات پر بہت فکر مند تھا اور افسوس کر رہا تھا تو اس کے پاس ایک شخص آیا اور اس کو کہا گیا کہ جہاں تک تیرے چور کو صدقہ کرنے کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ وہ صدقہ لینے کے بعد چوری سے باز آ جائے اور جہاں تک زانیہ کا تعلق ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے۔ اور جہاں تک غنی کا تعلق ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ تیرے اس فعل سے عبرت حاصل کرے اور اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہے خرچ کرنے لگ جائے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اذا تصدق علی غنی وھولا یعلم)تو یہ آنحضرتﷺ کی بات سن کر کہ صدقہ ضرور دینا چاہئے، صحابہ اس کوشش میں رہا کرتے تھے اور بعض دفعہ غلط لوگوں کو بھی صدقے دے دیا کرتے تھے۔ ان کو یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ ہم نے اس سے کچھ حاصل کرنا ہے۔ فکریہ ہوتی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ رات کو بھی اس لئے نکلتے تھے تا کہ کسی کو پتہ نہ لگے اور یہ احساس نہ ہو کہ صدقہ یا مال خرچ دکھاوے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ بلکہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ تو اس کی یہ پریشانی دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے اس کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ اگر تمہارا صدقہ صحیح لوگوں تک نہیں پہنچا تو تم کو اس کا اجر نہیں ملے گا۔ بلکہ اس کا بھی اجر ہے۔ کیونکہ ہو سکتاہے اس وجہ سے جن لوگوں کے پاس تمہارا صدقہ گیا ہے ان کی اصلاح ہوجائے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی کام کو بھی بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کتا دیکھا جوشدت پیاس سے مٹی چاٹ رہا تھا، اس شخص نے اپنا موزا(جراب) اتارا اور اس سے اس کے سامنے پانی انڈیلنے لگا۔ یہاں تک کہ اس نے اس کو سیر کر دیا۔ اس کی اچھی طرح پیاس بجھا دی۔ اس پر خداتعالیٰ نے اپنے بندے کی قدردانی کی تو اس کو جنت میں داخل کر دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد دوم صفحہ 521۔ مطبوعہ بیروت)طمع اور لالچ کے بغیر ضرورت اور رحم کے جذبات کے پیش نظر جب کتے کو بھی پانی پلایا گیا تواللہ تعالیٰ نے اس کا بھی اجر دیا۔ اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے رحم کے نظارے ہیں۔ جیسا بندہ اس کی مخلوق سے کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی وہی سلوک کرتا ہے۔ پھر صدقات کے بارے میں ہی ازواج مطہرات کے بارے میں ایک بڑی پیاری روا یت آتی ہے۔ ان کو بھی کس طرح خواہش ہوتی تھی کہ آنحضرتﷺ کازیادہ سے زیادہ قرب حاصل کیا جائے اور پھر یہ بھی خواہش تھی کہ اگر آنحضرتﷺ کی وفات ان سے پہلے ہو جائے تو ہم بھی جلدی جلدی ان کو جا کے ملیں۔ اس کے لئے ایک دفعہ انہوں نے نبیﷺ سے دریافت کیا کہ ہم میں سے سب سے پہلے آپ سے کون ملے گا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سب سے لمبے ہاتھوں والی۔ پھر ان ازواج مطہرات نے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دئیے۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھوں والی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمیں اس بات کا بعد میں علم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد کیا تھی۔ اس سے مراد یہ تھی کہ کون کثرت سے زیادہ صدقہ دیتا ہے۔ کیونکہ وہی صدقہ دیا کرتی تھیں اور صدقے کو پسند کرتی تھیں۔ اور وہی ازواج میں سب سے پہلے آنحضورﷺ سے جا ملیں۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح)تو آپؐ نے کھل کے یہ نہیں بتایا کہ صدقہ و خیرات کرنے والی سب سے پہلے مجھ سے ملے گی بلکہ اشارۃ ً بتا دیا کیونکہ جو فطرتاً زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والی ہے اسی نے آگے ملنا ہے۔ یہ ہر ایک کی اپنی اپنی فطرت ہوتی ہے۔ بعض کم کرتے ہیں بعض زیادہ کرتے ہیں۔ گو کہ ازواج مطہرات بہت زیادہ صدقہ کرنے والی تھیں۔ ایک روایت میں آتا ہے حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور برائی کی موت کو دُور کرتا ہے۔ (ترمذی کتاب الزکوٰۃ باب ما جاء فی فضل الصدقۃ) تو کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ گناہوں کی پکڑ سے بچنے کے لئے بھی صدقہ و خیرات بہت ضروری ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی ہی استطاعت ہو۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ)یعنی معمولی سا صدقہ بھی ہو وہ بھی دو تا کہ اللہ میاں تمہارے گناہ بخشے۔ اور صدقہ اسی طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر خالص ہو کر اس کی رضا کی خاطر دینا چاہئے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button