مضامین

خلفائے احمدیت حقوق نسواں کے حقیقی علمبردار(قسط دوم۔آخری)

(امۃ الباری ناصر)

عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشے کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آسکتا ہے لیکن اس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے

لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں

’’لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی رابطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں یا عورتوں سے ہونے چاہئیں۔ بعض لوگوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے رابطے ہوتے ہیں اور انٹر نیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں۔ مردوں کا جو تبلیغ کا حصہ ہے وہ مردوں کے حصے رہنے دیں کیونکہ اس میں بعض دفعہ بعض قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ کہا تویہی جا رہا ہوتا ہے کہ ہم تبلیغ کر رہے ہیں لیکن پھر عموماً دیکھنے میں آیا ہے، تجربہ میں آیا ہے کہ انٹرنیٹ کے بعض ایسے نتائج ظاہر ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی ایک احمدی بچی اور عورت کے مناسب حال نہیں ہوتے۔پھر جو بچیاں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی ہیں وہ بغیر کسی جھجک کے، شرم کے یا احساس کمتری کا شکار ہوئے، اپنے بارے میں، اسلام کے بارے میں اپنی طالبات سے بات چیت کریں۔ اپنے بار ے میں بتادیں کہ ہم کون ہیں پھر اس طرح اسلام کا تعارف ہوگا۔‘‘(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا15؍اپریل 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون 2015ء)

’’میرا کام نصیحت کرنا ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ جو نہیں مانتے ان کا گناہ اُن کے سر ہے۔ اگر facebook پر تبلیغ کرنی ہے تو پھر اس پر جائیں اور تبلیغ کریں۔ الاسلام ویب سائٹ پر یہ موجود ہے وہاں تبلیغ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔‘‘ (خطاب از مستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا15؍اپریل 2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون 2015ء)

غض بصر کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے

’’قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ ہی سکائپ(skype) اور فیس بُک(facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اپنے جذبات کی رَو میں زیادہ بہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اگست 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23؍اگست 2013ء)

غیروں سے چیٹنگ کے ذریعے اخلاق بگڑتے ہیں

’’اب انٹر نیٹ کے بارے میں بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی اسی پردہ نہ کرنے کے زمرہ میں آتا ہے کہ chatting ہو رہی ہے۔ یونہی جب آ کے openکر رہے ہوتے ہیں انٹرنیٹ اور بات چیت (chatting) شروع ہوگئی تو پھر شروع میں تو بعض دفعہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ کون بات کر رہا ہے؟یہاں ہماری لڑکیاں بیٹھی ہیں دوسری طرف پتہ نہیں لڑکا ہے یا لڑکی ہے اور بعض لڑکے خود کو چھپاتے ہیں اور بعض لڑکیوں سے لڑکی بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ لڑکیاں سمجھ کر بات چیت شروع ہوگئی جماعت کا تعارف شروع ہوگیا۔ اور لڑکی خوش ہو رہی ہوتی ہے کہ چلو دعوت الی اللہ کر رہی ہوں۔ یہ پتہ نہیں کہ اس لڑکی کی کیا نیت ہے۔ آپ کی نیت اگر صاف بھی ہے تو دوسری طرف جو لڑکاinternet پر بیٹھا ہوا ہے اس کی نیت کیا ہے؟ آپ کو کیا پتہ؟ اور آہستہ آہستہ بات اتنی آگے بڑھ جاتی ہے کہ تصویروں کے تبادلے شروع ہو جاتے ہیں۔ اب تصویر یں دکھانا تو انتہائی بےپردگی کی بات ہے۔ اور پھر بعض جگہوں پہ رشتے بھی ہوئے ہیں۔ جیسے مَیں نے کہا کہ بڑے بھیانک نتیجے سامنے آئے ہیں۔ اور ان میں سے اکثر رشتے پھرتھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکام بھی ہو جاتے ہیں۔ یا د رکھیں کہ آپ نےاگر تبلیغ ہی کرنی ہے، دعوت الی اللہ کرنی ہے تو لڑکیاں لڑکیوں کو ہی دعوت الی اللہ کریں۔ اور لڑکوں کو تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ کام لڑکوں کے لئے چھوڑ دیں۔ کیونکہ جیسے مَیں نے پہلے بھی کہا کہ یہ ایک ایسی معاشرتی برائی ہے جس کے بہت بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔‘‘(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ یوکے 19؍اکتوبر 2003ءبیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍اپریل2015ء)

خواتین کی خدا داد صلاحیتوں کی نشوو نما، اظہار کے مواقع اور تعلیم و تربیت ان کا حق ہے

بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔اس لیےانہیں تعلیم وتربیت کے زیور سے آراستہ کرنے میں خلفائے کرام نے ذاتی دلچسپی لی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓخواتین کی تعلیم کے حامی تھے خواتین کو قرآن پاک کا درس دیتے تھے۔ مسجد اقصیٰ کی توسیع کرائی جس کے نتیجے میں خواتین کوبھی جمعہ پڑھنے مسجد میں جانے کا موقع ملا۔ خواتین کے لیےایک رسالہ احمدی خاتون1912ء میں جاری ہوا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ یہ الٰہی بشارت اس طرح بھی پوری ہوئی کہ فرسودہ رسوم و قیود کی روندی ہوئی خواتین کی ترقی کے سامان کرکے اس کو معاشرے میں پر وقار مقام دیا۔ آپؓ نے تعلیم کے اتنے منصوبے بنائے کہ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ تعلیمی انقلاب برپا کردیا۔ ان کا عزم تھا: ’’جماعت کا کوئی فرد عورت ہو یا مرد باقی نہ رہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو‘‘(تقریر فرمودہ12؍اپریل1914ءتاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل صفحہ25)خاص طور پر عورتوں کی تعلیم کی اہمیت کے بارے میں فرمایا: ’’میں جانتا ہوں کہ اس وقت اسلام کے لئے سب سے زیادہ زبردست قلعہ عورتوں کے دماغوں میں بنایا جاسکتا ہے اور اس قلعہ کی تعمیر اسی صورت میں ممکن ہے کہ عورتوں کی تعلیم کی سکیم پورے طور پر اپنی دینی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر بنائی جائے۔‘‘(انوار العلوم جلد13صفحہ9)’’عورت نہایت قیمتی ہیرا ہے لیکن اگر اس کی تربیت نہ ہو تو اس کی قیمت کچے شیشے کے برابر بھی نہیں کیونکہ شیشہ تو پھر بھی کسی نہ کسی کام آسکتا ہے لیکن اس عورت کی کوئی قیمت نہیں جس کی تعلیم و تربیت اچھی نہ ہو اور وہ دین کے کسی کام نہ آسکے۔‘‘(الازہار لذوات الخمار صفحہ 375)’’عورتیں جماعت کا ایک ایسا حصہ ہیں کہ جب تک ان کی تعلیم و تربیت اس طرح نہ ہو بلکہ مَردوں سے زیادہ نہ ہو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی ترقی میں بہت روک رہے گی ان کی مثال اس ہیرے والے کی ہوگی جو ہیرارکھتا ہو مگر اس کے استعمال سے بے خبر ہو وہ اسے ایک گولی سمجھ کے پھینک دیتا ہے۔‘‘(انوار العلوم جلد 9صفحہ22)’’عورتوں کے سکول ایسے ہوں کہ لکھائی پڑھائی یا حساب کی ابتدائی باتیں سکھا کر یکدم عورتوں کو جو دینی باتیں ہیں ان کی طرف لے جایا جائے قرآن شریف پڑھایا جائے مسائل سکھائے جائیں تاکہ بچوں کی تربیت کر سکیں امورِ خانہ داری سکھائے جائیں اس کے لئے ان کے لئے کتابیں لکھی جائیں۔‘‘(رپورٹ مجلس مشاورت 1922ء صفحہ63)

آپؓ کے عہد میں 1919ء میں پہلی دفعہ مدرسۃ البنات کے لیےالگ عمارت بنی۔نصرت گرلز ہائی سکول کے ساتھ بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے دینیات کلاسز شروع کرائیں جس میں اردو انگریزی کے علاوہ قرآن کریم، احادیث، فقہ،اسلامی تاریخ اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں پڑھانے کا انتظام تھا۔(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اوّل 476صفحہ)خواتین کی تعلیم و تربیت میں اس تدریجی ترقی کا جائزہ خود حضورؓ کے الفاظ میں درج ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاص دلچسپی ہے میں نے اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراض بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن میں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں۔‘‘(الفضل29؍دسمبر1931ءصفحہ5)1914ءمیں مستورات کو پہلی دفعہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں کچھ وقت کے لیے اپنا الگ پروگرام منعقد کرنے کا موقع ملا۔ 1922ءمیں لجنہ اماء اللہ اور 1928ء میں ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا جس کے اوّلین مقاصد خواتین کی تعلیم و تربیت تھی۔دنیا میں خواتین کی واحد تنظیم ہے جو قریباً سَو سال سے بین الاقوامی طور پر فعّال ہے۔ اور کئی قسم کے تعلیمی منصوبوں پر کام کرتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 17؍مارچ 1925ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس دار میں مدرسۃ الخواتین کی بنیاد رکھی۔(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ51)یہ ایک ٹیچرز ٹریننگ سکول کی حیثیت رکھتا تھا۔ مقصدیہ تھا کہ عورتوں کو دینی و دنیاوی تعلیم دی جائے تاکہ وہ معلمات بن سکیں۔ اس موقع پر افتتاحی خطاب میں حضورؓ نے فرمایا:’’قادیان اُمُّ القریٰ ہے اس لئے جس طرح یہاں کے لوگ دین میں نمونہ ہوں گے اسی طرح یہ سکول علم میں دنیا کے لئے نمونہ ہوگا پس اس کی ابتدائی حالت سے گھبرانا نہیں چاہئے اپنے وقت پراس میں ترقی آئے گی اور اس قدر ترقی آئے گی کہ اب اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہوگا…ابلیسیت نہیں نکل سکتی جب تک علم کی طرف خاص توجہ نہ دی جائے اور وہ اسی وقت نکلے گی جب ہم عورتوں کی تعلیم کی طرف پوری پوری توجہ کریں گے …آخیر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم پر ایسی برکتیں نازل کرے جو دین و دنیا اور عاقبت کے لئے مفید ہوں۔‘‘(الفضل 21؍مارچ 1925ءصفحہ8)حضورؓ خودعورتوں کو پڑھاتے تھے۔اپنی مصروفیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میں صبح ناشتے کے بعد مدرسۃ الخواتین میں پڑھاتا ہوں یہ ایک نیا مدرسہ قائم کیا گیا ہے جس میں چند تعلیم یافتہ عورتوں کو داخل کیا گیا ہے اس میں میری تینوں بیویاں اور لڑکی بھی شامل ہیں ان کے علاوہ اور بھی ہیں چونکہ ہمیں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے معلم عورتیں نہیں ملتیں اس لئے چکیں ڈال کر مرد عورتوں کو پڑھاتے ہیں آج کل میں ان عورتوں کو عربی پڑھاتا ہوں۔ مولوی شیر علی صاحب انگریزی پڑھاتے ہیں اور ماسٹر محمد طفیل صاحب جغرافیہ۔ سوا گھنٹے تک میں انہیں پڑھاتا ہوں۔‘‘(تاریخِ احمدیت جلد4صفحہ518)’’قادیان میں ہماری جماعت کی قریباً سَو فیصدی لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد ان کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہوجائے۔‘‘(الفضل 25؍جنوری 1929ء)جماعت کے تعلیمی اداروں میں فیسیں اور اخراجات برائے نام تھے۔ طالب علم وسائل کی کمی سے تعلیم سے محروم نہیں رہتے تھے۔ مستحق بچوں کی فیسوں کا بوجھ جماعت خود اٹھا لیتی تھی۔(الفضل 31؍مارچ 1925ء)ربوہ پہنچ کر آپؓ نے مسجد، ہسپتال اور سکول ترجیحی بنیادوں پر بنوائے۔ جلسہ سالانہ کے لیے بنائی گئی بیرکوں کے گرد چاردیواری بنا کر سکول کی شکل دے کر 25؍اپریل 1949ءکو تعلیم کا سلسلہ شروع کرادیا گیا۔ ابتدا میں طالبات کی تعداداسّی تھی۔ اس میں چنیوٹ سے بھی لڑکیاں پڑھنے کے لیے آتی تھیں۔ 1955ءمیں سکول کی اپنی وسیع عمارت تیار ہو گئی۔ سکول قابل محنتی اساتذہ کی مساعی سے تیزی سے ترقی کرتا رہا۔(خلاصہ تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 122تا123)حضورؓ نے یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ سابقہ دینیات کلاسز کی بجائے ایک زنانہ کالج جامعہ نصرت کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ 14؍جون 1951ء کوآپؓ نے کالج کا افتتاح فرمایا۔ ابتدا میں کالج کے لیے کوئی عمارت میسر نہ تھی۔ تو آپؓ نے اپنی ایک کوٹھی میں ہی کالج جاری فرمادیا۔ 1952ءمیں لجنہ کے دفتر میں کلاسیں ہونے لگیں 1953ءمیں کالج کی عمارت تیار ہوگئی اس کے ساتھ ایک ہوسٹل بھی بنایا گیا جس میں نہ صرف پاکستان کے مختلف علاقوں سے بلکہ غیر ممالک سے بھی طالبات رہائش اختیار کرکے تعلیم حاصل کرنے لگیں۔

سیماب کی طرح تڑپنے والا دل

افتتاحی خطاب میں اس کے اغراض و مقاصد بیان فرماتے ہوئے آپؓ نے فرمایا’’طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے جو ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اسی طرح تمہارے اندر وہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اوراسلام کی حقیقی روح کو دنیا میں قائم نہ کردو اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں اور اخلاقِ فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں۔‘‘(الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ124)

1958ءمیں جامعہ نصرت کا حکومت کے ثانوی بورڈ سے الحاق ہوگیا۔ 1961ء میں بی اے کلاسز کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے ہوا۔پرنسپل لاہور کالج برائے خواتین ڈاکٹر علی محمد صاحب نے کالج کے معائنہ کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار بایں الفاظ کیا:’’ربوہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے۔ عجب سماں ہے۔ پڑھنے والیاں اور پڑھانے والے ایک ہی مقصد کے تحت رواں دواں ہیں ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اور طرف نہیں اس بے لَوث جذبہ کو دیکھ کر بے اختیار یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ صحیح اسلامی تعلیم کی فضا ربوہ میں ہی پائی جاتی ہے۔‘‘(تاریخِ احمدیت جلد 13صفحہ338، تاریخِ لجنہ اماء اللہ جلددوم صفحہ252)

غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی جامعہ نصرت امتیازی حیثیت رکھتا تھا۔ نتائج کی شرح کامیابی ہمیشہ ہی یونیورسٹی اور بورڈ میں نمایاں رہی۔ نمایاں کامیابی پر تمغے اور وظائف کی حقدار قرار پانے والی طالبات کی تعداد بھی قابل رشک رہتی ہے یونیورسٹی اور بورڈ میں سر فہرست رہنے کے اعزاز بھی حاصل ہوئے۔

آپؓ اپنی بیگمات کو خود پڑھاتے تھے تعلیم جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ وہ آپؓ کے مزاج اور عزائم کو سمجھ کراحمدی خواتین کی معلمات بنیں اور تربیت کا کام کریں۔حضرت سیدہ امۃ الحئی صاحبہ کےقرآن پاک کی تعلیم کے شوق نے حضرت صاحبؓ کو متاثر کیا۔ آپ ایک ذہین خاتون تھیں اورخدمتِ دین کے لیے انتھک کام کرنے کا جذبہ رکھتی تھیں۔ خواتین کی تعلیم و تربیت میں ممدو معاون تھیں۔ لجنہ اماءاللہ آپ کی تحریک پر قائم ہوئی۔ قادیان میں ایک تعلیمی انقلاب آگیا۔ جان مار کے کام کرنے کا جذبہ تھا۔ آپ کی وفات کا حضورؓ کو بہت صدمہ ہوا۔

حضرت سیدہ مریم النساء صاحبہ(ام طاہر) بھی ممدو معاون رہیں۔ حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ سے شادی کے بارے میں حضورؓ نے فرمایا:’’یہ شادی محض جماعت کے بعض کاموں کو ترقی دینے کے لیے کی جارہی ہے تو خدا تعالیٰ سے یہ بھی دعا ہے کہ وہ اس شادی کو میرے لیے بھی مبارک کرے…پھر وہ اس کمزور اور متروک صنف کے لیے بھی جو عورتوں کا صنف ہےمبارک کرے جس کے حقوق سینکڑوں سال سے تلف کیے جارہے ہیں۔‘‘(خطبات محمود جلد 3صفحہ208)

حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ کے لیے فرمایاکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواہش کا اظہار فرما یا تھا کہ مسلمانوں کی دوسری زبان عربی ہونی چاہیے۔ ان کی مادری زبان عربی تھی عربی زبان رائج کرنے کی خاطر ایک طریق یہ بھی تھا کہ بچوں میں عربی کا چرچا ہو۔ مگر ان بیگمات کا عرصۂ حیات مختصر تھا۔حضرت مصلح موعودؓ کے ا س خواب کی تعبیر حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ( اُم متین۔ چھوٹی آپا) کے حصے میں آئی اور خوب ہی آئی۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور دینی تعلیم و تربیت اس پر مستزاد۔ قرآن کریم اور عربی صرف و نحو سبقاً سبقًا حضورؓ آپ کو پڑھاتے اور امتحان بھی لیتے۔ تفسیر کے نوٹس لکھنا آپ کی ایک بہت بڑی سعادت تھی۔ آپ نےتیزی سے لکھنے پر بہت دفعہ حضورؓ کی خوشنودی حاصل کی۔ حضورؓ نے1947ء کے بعد با لعموم اپنےخطوط، مضامین اور تقاریر کے نوٹس آپ ہی سے لکھوائے۔ قرآن کریم اس جوڑے کا ہر آن ساتھی تھا۔(گلہائے محبت صفحہ 9)تعلیم نے عورتوں کی صلاحیتوں کو نکھارا آپؓ کے عہد میں مضمون نگاری، شعرو شاعری اور تقریر کے فن میں بھی خواتین نے بہت ترقی کی۔’’حضرت خلیفۃ المسیحؓ الثانی کے خلافت کے آخری ایام میں ایک موقع پر جب ربوہ کی مردم شماری کی گئی تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ اگرچہ مَردوں میں سے ایک معمولی تعداد ناخواندگان کی بھی پائی گئی لیکن عورتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے سَو فیصدی خواندہ نکلیں۔‘‘(سوانح فضل عمرجلد دوم صفحہ377)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒقرآن پاک کے حافظ آکسفورڈ سے فارغ التحصیل اور تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل تھے تعلیم کی اہمیت سے خوب واقف تھے۔جماعت کی تعلیمی ترقی کے لیےکئی منصوبوں کا آغاز فرمایا۔ لڑکیوں کے لیےلازمی تعلیم کا معیار مڈل تک مقرر کیا۔ 1979ء میں جب ڈاکٹر عبد السلام کو نوبل انعام ملا تو آپ نے اعلان فرمایا کہ کوئی بچہ خرچ کی عدم دستیابی کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہے ذہین بچوں اور بچیوں کو خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں تعلیم حاصل کرنا چاہیں جماعت کی طرف سے وظیفے دیے جائیں گے۔ ہر بچے کو اپنے نتیجے سے آگاہ کرنے کے لیےخط لکھنے کی تحریک فرمائی۔ تعلیمی نتائج پر تمغہ جات دینے کا آغاز فرمایا۔ پروفیشنلز،ڈاکٹرز،انجینئرز اور آرکیٹیکس وغیرہ کی تنظیمیں قائم فرمائیں جن میں خواتین برابر شامل ہوتی ہیں۔ طالب علموں کی ذہنی اور جسمانی صحت کی بہتری کے لیےسویابین متعارف کروائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے فرمایا کہ قیام احمدیت کی آئندہ صدی میں جو کہ غلبہ اسلام کی صدی ہے جماعت کو ایک ہزار چوٹی کے سائنسدان اور محقق چاہئیں۔ یہ صدی 1989ء سے شروع ہو چکی ہے اور اس دوران 1979ء سے 1989ء تک دس سالوں میں سو چوٹی کے سائنسدان اور محقق چاہئیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حضور نے تعلیمی منصوبہ بندی کا اعلان کیا اور فرمایا:’’آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہر ذہین مگر غریب بچے کو پرائمری سے سنبھالے گی…. جماعت کا کوئی ذہین بچہ چاہے وہ ماسکو میں ہو یا نیویارک میں یا پاکستان کے اندر یا باہر اس کا ذہن ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ نوع انسانی کے اس ذہن کو سنبھالنا ہے۔ یہ اسلام نے بتایا ہے اور اسلام کے اس حکم کو قائم کرنا ہے…. ہم ہر سال جماعت احمدیہ کی طرف سے سوا لاکھ روپے کے وظیفے ذہین طلباء کو دیں گے…. یہ انعام نہیں یہ ان طالب علموں کا حق ہے…. جماعت احمدیہ اپنی طرف سے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی یہ عزت افزائی کرتی ہے کہ ان کو اس کمیٹی کا صدر مقرر کرتی ہے…. میری دعا ہے کہ یہ سکیم جماعت اور قوم کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو۔‘‘(الفضل3جنوری1980ء)حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے دور میں جماعت کے صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں خواتین تحریر، تصنیف،اشاعت کے میدان میں سرگرم رہیں اور جماعت کے لٹریچر میں قیمتی اضافے کیے۔ آپؒ نے خواتین کے لیےتحقیق کا میدان کھولا اور اپنی نگرانی میں کئی منصوبوں پر خواتین سے کام کروایا۔ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں احمدی لڑکیاں اعلیٰ انعام لیتی ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آپ احمدی عورتیں کسی قسم کے احساس کمتری کے بجائے احساس بر تری کی سوچ پیدا کریں۔ اپنی تعلیم کو کامل اور مکمل سمجھیں۔ قرآن کریم کی تعلیم پر پوری توجہ دیں اس پر کاربند ہوں تو آپ انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی رہنما کا کردار ادا کریں گی۔ ورنہ اگر صرف اس دنیا کے پیچھے ہی دوڑتی رہیں تو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سب کچھ ختم ہوجائے گا اور ہاتھ ملتی رہ جائیں گی اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسی قومیں عطا فرمائے گا جو اس کام کو آگے بڑھائیں گی۔ لیکن مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ اعزاز ان پرانی نسلوں اور پرانے خاندانوں ان احمدی عورتوں کے ہاتھ میں ہی رہے گا جو مشکل وقت میں جن کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔ پس آپ لوگ اپنے اندر یہ احساس ذمہ داری کبھی ختم نہیں ہونے دیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ آپ کو توفیق دے۔ پس اس نعمت عظمیٰ کی قدر کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے تاکہ آپ کا ہر قدم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں آگے سے آگے بڑھتا چلاجانے والا قدم ہو اور آپ اپنے پیچھے ایسی نسل چھوڑ کر جانے والی ہوں جو اگلی نسلوں کے دلوں میں بھی اللہ کے دین کی عظمت پیدا کرنے والی ہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔‘‘(جلسہ سالانہ یوکے خطاب از مستورات فرمودہ 29؍جولائی2006ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍جون 2015ء)’’عورتوں کی ہر قسم کی تعلیم کے بارے میں دلچسپی ہو گی تو پھر بچوں میں بھی دلچسپی بڑھے گی۔ ان کوبھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم کچھ مختلف ہیں دوسرے لوگوں سے۔ ہمارے کچھ مقاصد ہیں جو اعلیٰ مقاصد ہیں۔ اور اگر یہ سب کچھ پیدا ہو گا تو تبھی ہم دنیا کی اصلاح کرنے کے دعوے میں سچے ثابت ہو سکتے ہیں۔ ورنہ دنیا کی اصلاح کیا کرنی ہے۔ اگر ہم خود توجہ نہیں کریں گے توہماری اپنی اولادیں بھی ہماری دینی تعلیم سے عاری ہوتی چلی جائیں گی۔ کیونکہ تجربہ میں یہ بات آ چکی ہے کہ کئی ایسے احمدی خاندان جن کی آگے نسلیں احمدیت سے ہٹ گئیں صرف اسی وجہ سے کہ ان کی عورتیں دینی تعلیم سے بالکل لاعلم تھیں۔ اور جب مرد فوت ہو گئے تو آہستہ آہستہ وہ خاندان یا ان کی اولادیں پرے ہٹتے چلے گئے کیونکہ عورتوں کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تھا، تو اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی اکٹھے ہو کر کوشش کرنی ہو گی تاکہ ہم اپنی اگلی نسلوں کو بچا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طور پر دین کا علم پیدا کرنے اور اگلی نسلوں میں قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ 18؍ جون 2004ء ماخوذ از خطباتِ مسرور صفحہ423)

شادی بیاہ کے معاملات میں حقوق نسواں

’’مناسب وقت پر شادی کرنا عورت کا حق ہے۔لڑکی کا حق ہے کہ اس کے ورثاء مناسب وقت پر اس کی شادی کا انتظام کریں۔سب سے پہلے تو کم عمری سے ہی بچیوں کو دعا کی عادت ڈالیں۔حضرت خلیفہ اولؓ نے فرمایا کہ ’’دیکھو اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی شرم نہیں، تم چھوٹی ضرور ہو مگر خدا سے دعا کرتی رہا کرو کہ اللہ مبارک اور نیک جوڑا دے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2009ء) نکاح کے بہتر نتائج کے لیےاستخارہ کی اہمیت بیان فرمائی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا :’’نکاح ایسا معاملہ ہے کہ جس میں انسان کا تعلق ایک وجود کے ساتھ ہوتا ہے اور انسان اپنی کم علمی کی وجہ سے نہیں جان سکتا کہ یہ تعلق مفید اور بابرکت ہوگا یا نہیں بعض اوقات بڑے بڑے مشکلات پیش آجاتے ہیں یہاں تک کہ انسان کی زندگی تلخ ہوجاتی ہےنبی کریمﷺ نے بڑا ہی احسان فرمایا ہے کہ ہم کو ایسی راہ بتائی ہے کہ ہم اگر اس پر عمل کریں تو انشاء اللہ نکاح ضرور سُکھ کا موجب ہو گا اور جو غرض اور مقصود قرآن مجید میں نکاح سے بتایا گیا ہے کہ وہ تسکین اور مودّت کا باعث ہو، وہ پیدا ہوتی ہے۔سب سے پہلی تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذَات الدِّیْن ہو۔حسن و جمال کی فریفتگی یا مال و دولت کا حصول یا محض اعلیٰ حسب ونسب اس کے محرکات نہ ہوں۔ پہلے نیت نیک ہو۔ پھر اس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرو۔‘‘(خطباتِ نور صفحہ 518-519 خطبہ فرمودہ 25 دسمبر 1911ء)پھرآپؓ نے فرمایا کہ ’’ضروری امر یہ ہے کہ بہت استخارے کئے جاویں اور خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی جاوے ہم انجام سے بے خبر ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے۔ اس لئےاوّل خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو‘‘۔(خطباتِ نور صفحہ 478 خطبہ فرمودہ 26 اگست 1910ء)

رشتے کی غرض سے لڑکی کو دیکھنے اور والدین کی موجودگی میں ملنے کی اجازت ہے

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’شریعت نے تمہیں یہ حق دیا ہے کہ شادی سے قبل تم لڑکی کو دیکھ لو اور اس کے متعلق تحقیق کرلو۔ اور عورت کو بھی شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ خاوند کو دیکھ لے اور اس کے متعلق تحقیقات کرلے۔‘‘(خطابات شوریٰ جلد3صفحہ574تا575)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اس اجازت کو بھی آج کل کے معاشرے میں بعض لوگوں نے غلط سمجھ لیا ہے۔ اور یہ مطلب لے لیا ہے کہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے ہر وقت علیحدہ بیٹھے رہیں، علیحدہ سیریں کرتے رہیں۔ دوسر ے شہروں میں چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں، گھروں میں بھی گھنٹوں علیحدہ بیٹھے رہیں تو یہ چیز بھی غلط ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آمنے سامنے آکر شکل دیکھ کر ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بعض حرکات کا باتیں کرتے ہوئے پتہ لگ جاتا ہے۔ پھر آجکل کے زمانے میں گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی بہت سی حرکات وعادات ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی بات ناپسندیدہ لگے تو بہتر ہے کہ پہلے پتہ لگ جائے اور بعد میں جھگڑے نہ ہوں۔ اور اگر اچھی باتیں ہیں تو موافقت اور الفت اس رشتے کے ساتھ اور بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ یا رشتے کے پیغام کے ساتھ۔ تو ایک تعلق شادی سے پہلے ہو جائے گا۔ دوسرے لوگ بعض دفعہ ان کا کردار یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کا رشتہ ہو گیا ہے تو اس کو تڑوانے کی کوشش کریں۔ ان کو آمنے سامنے ملنے سے موقع نہیں ملے گا۔ ایک دوسرے کی حرکات دیکھنے سے کیونکہ ایک دوسرے کو جانتے ہوں گے۔ لیکن بعض لوگ دوسری طرف بھی انتہا کو چلے گئے ہیں ان کو یہ بھی برداشت نہیں کہ لڑکا لڑکی شادی سے پہلے یا پیغام کے وقت ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ بھی سکیں اس کو غیرت کا نام دیا جاتا ہے۔ تو اسلام کی تعلیم ایک سموئی ہوئی تعلیم ہے۔ نہ افراط نہ تفریط۔ نہ ایک انتہا نہ دوسری انتہا۔ اور اسی پر عمل ہونا چاہئے۔ اسی سے معاشرہ امن میں رہے گا اور معاشرے سے فساد دور ہو گا۔‘‘(خطبہ جمعہ 24؍ دسمبر 2004ء خطبات مسرور صفحہ934)

حق مہر مناسب باندھنا،حق مہر پر خاتون کا حق ہے

مہر کی تعیین،حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا:’’مسلمان جب پہلے پہل یہاں آئے تھے ان کے پاس روپیہ بہت تھا وہ لاکھوں کا مہر باندھ دیتے تھے مگر اب یہ حالت نہیں قدر کے مطابق مہر باندھو اور دل سے ادا کرو‘‘(ضمیمہ اخبار بدر قادیان 22 جولائی 1909)حضرت مصلح موعود ؓنے فرمایا :’’میں نے مہر کی تعیین چھ ماہ سے ایک سال تک کی آمد کی ہے۔‘‘( فقہ احمدیہ عبادات صفحہ49)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’حق مہر لینے کے لئے ہوتا ہے، حق مہر معاف کرنے کے لئے نہیں ہوتا اور یہ عورت کا حق ہے کہ لے۔ جنہوں نے معاف کرنا ہے وہ پہلے یہ کہیں کہ ہمارے ہاتھ پر رکھ دو۔ پھر اگر اتنا کھلا دل ہے، حوصلہ ہے تو پھر واپس کر دیں۔

بہر حال جب حق مہر زیادہ رکھوائے جاتے ہیں تو جب خلع طلاق کے فیصلے ہوتے ہیں تو قضا کو یہ اختیارہے کہ اگر کسی شخص کی حیثیت نہیں ہے اور ناجائز طور پر حق مہر رکھوایا گیا تھا تو اس حق مہر کو خود مقرر کر دے۔‘‘(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب از مستورات فرمودہ 25؍جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍اپریل2012ء)

شادی کے بندھن کو خوش اسلوبی سے نباہنا بیویوں کا حق ہے

بیوی کے ساتھ عمدہ سلوک کرو،حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ’’پس عزیزو! تم دیکھواگر تم کو اپنی بیوی کی کوئی بات ناپسند ہو تو تم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلوک ہی کرو۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہم اس میں عمدگی اور خوبی ڈال دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک بات حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بری معلوم ہوتی ہو۔‘‘(خطباتِ نور صفحہ 255 خطبہ فرمودہ 13 ستمبر 1907ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کے دل میں عورتوں کی ہمدردی اور اصلاح کے لیےکتنا جوش تھا فرماتے ہیں: ’’میں عورتوں کو درس دے رہا تھا اور میرے درس میں یہ آیت آئی یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ (البقرہ:36)میرے دل میں اس وقت کے حسبِ حال اس کا مفہوم ڈالا گیاکہ میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ تم دونوں مل کر جنت میں رہو اور یہ جنت اس وقت تک جنت رہ سکتا ہے جب تک تم آپس میں جھگڑا نہ کرو۔ جہاں میاں بیوی میں تنازعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر وہ گھر جنت نہیں بلکہ دوزخ کا نمونہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے چاہئے کہ میاں بیوی باہم نہایت خوشی اور آرام سے مل کر رہیں جھگڑا نہ کریں ایک دوسرے کی دل شکنی نہ کریں اور مرد خصوصیت سے عورتوں کی بعض کمزوریوں پر برداشت اور حوصلہ سے کام لیں۔‘‘(ارشادات نور جلد دوم صفحہ324)

عورت بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ(النساء:35) کی روشنی میں عورتوں کو نصیحت فرمائی:’’غیب میں جن چیزوں کی حفاظت کا حکم ہے اُن میں اپنے خاوند کے بچوں کی تربیت کی نگرانی اور اُن کی دیکھ بھال بھی ہے۔ یہ نہیں کہ خاوند گھر سے باہر اپنے کام کیلئے نکلا تو عورت نے بھی اپنا بیگ اٹھایا اور بچوں کو گھر میں چھوڑا اور اپنی مجلسیں لگانے کیلئے نکل پڑی۔ یا بچوں کی تربیت کی طرف صحیح توجہ نہیں دی۔ ایک بہت بڑی ذمہ داری عورت پر بچوں کی تربیت کی ہے۔ اس کو پورا نہ کرکے وہ نہ صالحات میں شمار ہوسکتی ہیں نہ قانتات میں شمار ہوسکتی ہیں، نہ اُس نسل کی حفاظت کا حق ادا کرسکتی ہیں جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اُس پر ڈالی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اس کےبارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ 25؍جون 2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍اپریل 2012ء)

شادی کی ناکامی کی صورت میں بیوی کو خلع کا حق ہے

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مرد اور عورت کی علیحدگی کو ناپسندیدہ لیکن مجبوری کی صورت میں جائز قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں’’بعض دفعہ شادی کے بعد میاں بیوی کی نہیں بنتی، طبیعتیں نہیں ملتیں یا اور کچھ وجوہات پیدا ہوتی ہیں تو اسلام نے دونوں کو اس صورت میں علیحدگی کا حق دیا ہے اور یہ حق بعض شرائط کی پابندی کے ساتھ مردوں کو طلاق کی صورت میں ہے اور عورتوں کو خلع کی صورت میں ہے۔‘‘(جلسہ سالانہ یوکے خطاب ازمستورات فرمودہ 31؍جولائی 2004ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2015ء)

عورت کو احسان کے ساتھ علیحدہ کرو

حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا:’’جب تعلق قائم ہوجاتا ہے تو تمہیں ایک دوسرے کی ایسی باتیں برداشت کرنی پڑیں گی۔لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد بڑی آزادی کے ساتھ اس تعلق کو توڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی انصاف ہے؟ یہ تو عورت کو ذلیل کرنے کے مترادف ہے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لوگوں کو توجہ دلائی ہے کہ تم عورتوں کے ساتھ لیٹتے ہو اور پھر ان کے حقوق ادا نہیں کرتے یہ کتنی قابلِ شرم بات ہے۔ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ اگر تم مجبور ہوکر کسی عورت کو اپنے ازدواجی تعلق سے علیحدہ بھی کرنا چاہو تو اسے احسان کے ساتھ علیحدہ کرو۔‘‘(خطابات شوریٰ جلد3صفحہ574تا575)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ارشاد فرمایا:’’جو مطلقہ عورت ہے اس کے حق کے بارے میں ہے کہ اگر طلاق ہوجاتی ہے تو عورت کے لئے مقررہ عدت ہے جو متعین کردہ ہے اس کے بعد وہ آزاد ہے کہ شادی کرے۔ دوسری جگہ حکم ہے کہ تم ان کی شادی میں روک نہ بنو۔ بلکہ شادی میں مدد کرو اور اب وہ خود ہوش والی ہے اس لئے اگر وہ شادی کا فیصلہ کرے تو ٹھیک ہے۔ لیکن عورتوں کو حکم ہے کہ طلاق کے بعد اگر تمہیں پتہ چلے کہ حاملہ ہو تو اپنے خاوندکو بتا دو، چھپانا نہیں چاہئے۔ اگر شادی کے بعد کسی وجہ سے نہیں بنی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انتقام لینے لگ جاؤ اور جو اس بچے کا باپ ہے اس کو نہ بتاؤ کہ تمہارا بچہ پیدا ہونے والاہے۔ اللہ فرماتاہے کہ تمہارے بتانے سے ہوسکتاہے کہ اس کا دل نرم ہو جائے اور وہ رجوع کرے اور گھر آباد ہو جائے۔ فرمایا کہ خاوند زیادہ حق دار ہے کہ انہیں واپس لے لے اور گھر آباد ہو جائیں اور رنجشیں دور ہو جائیں۔ دوسرے قریبیوں اور رشتہ داروں کو بھی حکم ہے کہ اس میں وہ روک نہ بنیں۔ بعض دفعہ قریبی اور رشتہ دار بھی لڑکی کو خراب کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اگر خاموش بھی ہے بلکہ رجوع کرنے پر رضامند بھی ہے تو قریبی شور مچا دیتے ہیں کہ ایک دفعہ طلاق ہو گئی اب ہم لڑکی کو واپس نہیں بھیجیں گے۔ انا اور عزتوں کے معاملے اٹھ جاتے ہیں۔ کئی معاملات میرے پاس بھی آتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جب بعض دفعہ جھوٹی غیرت دکھاتے ہوئے اپنی بچیوں کے گھر برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض بچیاں پھر خط لکھتی ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی اب بسنا چاہتے ہیں لیکن دونوں طرف کے والدین کی اَناؤں نے یہ مسئلہ بنالیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ رشتہ د اروں کو اس تعلق کے دوبارہ قائم ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے۔ اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیاہے تو پھرجھوٹی غیرتوں کے نام پر لڑکی کا گھر برباد نہیں کرنا چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے فرماتاہے کہ عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر اتنا ہی حق ہے جتنا مردوں کا عورتوں پر۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ16؍نومبر 2007ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 07؍دسمبر 2007ء)

علیحدگی کی صورت میں کردار کشی نہ کریں، ذاتی الزام نہ لگائیں پردہ پوشی کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’اب میاں بیوی کے بہت سے جھگڑے ہیں جو جماعت میں آتے ہیں، قضا میں آتے ہیں، خلع کے یا طلاق کے جھگڑے ہوتے ہیں اور طلاق ناپسندیدہ فعل ہے۔ بہرحال اگر کسی وجہ سے مرد اور عورت میں نہیں بنی تو مرد کو حق ہے کہ وہ طلاق دے دے اور عورت کو حق ہے کہ وہ خلع لے لےاور بعض دفعہ بعض باتیں صلح کروانے والے کے سامنے بیان کرنی پڑتی ہیں۔ اس حد تک توموٹی موٹی باتیں بیان کرنا جائزہے لیکن بعض دفعہ ایسے ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کے علاوہ دیگر رشتہ دار بھی شامل ہو جاتے ہیں جو ایک دوسرے پر ذاتی قسم کے الزامات لگا رہے ہوتے ہیں۔ جن کو سن کر بھی شرم آتی ہے۔ اب میاں بیوی کے تعلقات تو ایسے ہیں جن میں بعض پوشیدہ باتیں بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔ تو جھگڑا ہونے کے بعد ان کو باہر یا اپنے عزیزوں میں بیان کرنا صرف اس لئے کہ دوسرے فریق کو بدنام کیاجائے تا کہ اس کا دوسری جگہ رشتہ نہ ہو۔ تو فرمایا کہ اگر ایسی حرکتیں کروگے تویہ بہت بڑی بے حیائی اور خیانت شمار ہوگی اور خائن کے بارہ میں انذار آئے ہیں کہ ایک تو خائن مومن نہیں، مسلمان نہیں اور پھر جہنمی بھی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍فروری 2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن مطبوعہ خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 111ایڈیشن2005ء)

میاں اور بیوی کے قریبی رشتہ داروں وقرابت داروں کا احترام

حضرت مصلح موعود ؓنے نصیحت فرمائی’’مرد شادی کے بعد عورت کو ایک حقیر جانور خیال کرتا ہے جو اُس کے پاس آنے کے بعد اپنے تمام تعلقات کو بھول جائے اور وہ یہ اُمید کرتا ہے کہ وہ بالکل میرے ہی اندر جذب ہو جائے اور میرے رشتہ داروں میں مل جائے۔ اگر وہ اپنے رشتہ داروں کی خدمت یا ملاقات کرنا چاہے تو یہ بات مرد پر گراں گزرتی ہے اور بعض اوقات تو وہ دیدہ دلیری سے ایسی بات یا حرکت کا مرتکب ہوتا ہے جو اُس عورت کے خاندان کے لیے ذلت کا باعث ہوتی ہے۔وہ نہیں سوچتا کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر بھی ویسا ہی دل رکھا ہے جیسا کہ اُس کے اپنے اندر۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عورت کی صحت خراب ہوجاتی ہے اور وہ بے چاری اپنے جذبات کو دبا دبا کر رکھتی ہے اور اِس کے نتیجے میں سِل اور دِق کا شکار ہوجاتی ہے اور میرے خیال میں آج کل ہسٹیریا وغیرہ کی بیماریاں ہیں اُن کا یہی سبب ہے۔ پس مرد سمجھتا ہے کہ عورت میں حِس ہی نہیں حالانکہ اُس کے پہلو میں بھی ویسا ہی دِل ہے جیسا کہ اُس کے اپنے پہلو میں اگر وہ سمجھتا ہے کہ اُس کی بیوی کے اندر ایک محبت کرنے والا دل ہے تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ماں جس نے اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں پالا تھا جبکہ اگر وہ مرد اُس کو دیکھتا تو ہرگز دیکھنا بھی پسند نہ کرتا، اسے وہ چھوڑ دے ؟ یہی حال آج کل کی ساسوں کا ہے وہ بھول جاتی ہیں اپنے زمانہ کو،وہ بھول جاتی ہیں اُس سلوک کو جو ان کے خاوندوں نے یا اُن کی ساسوں نے اُن کے ساتھ کیا تھا۔ اسی طرح عورتیں اپنی بہوؤں کے جذبات اور طبعی تقاضوں کا خیال نہیں کرتیں اور بات بات پر لڑائی شروع کردیتی ہیں حالانکہ یہ طریق غلط ہے۔دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرد عورت کے جذبات کے متعلق اتنی بد خیالی کرتا ہے گویا عورت میں دل ہی نہیں یا عورت کے جذبات ہی نہیں۔ لیکن عورتوں میں یہ بات بہت ہی کم دیکھی گئی ہے۔ بعض عورتیں ہوتی ہیں جو زبردست ہوتی ہیں جو چاہتی ہیں کہ مرد سب کچھ بھول جائیں اور صرف اُنہی میں محو ہو جائیں مگر بہت کم۔‘‘(تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو، انوار العلوم جلد 15صفحہ216)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’کئی جھگڑے گھروں میں اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے لئے عزت اور احترام نہیں ہوتا۔ میاں اور بیوی کے سب سے قریبی رشتہ دار اس کے والدین ہیں۔ جہاں اپنے والدین سے احسان کے سلوک کا حکم ہے وہاں میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کے والدین سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔ بعض دفعہ خاوند زیادتی کرکے بیوی کے والدین اور قریبیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور بعض دفعہ بیویاں زیادتی کرکے خاوندوں کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہیں۔ تو احمدی معاشرے میں جس کو اللہ اور رسولﷺ کا حکم ہے کہ سلامتی پھیلاؤ، اس میں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا، اس کے بعد کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کے طریقے بھی سکھا دئیے۔ یہ بھی بتا دیا کہ میرے سے تعلق رکھنا ہے تواُن اعلیٰ اخلاق کو اپناؤ جن کا اللہ اور اس کا رسول حکم دیتا ہے…۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون 2007ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 22 جون 2007ء)

مشترکہ خاندانی نظام

شادی کے بعد علیحدہ گھر میں رہنا عورت کا حق ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سورۃ النور آیت 62 کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ’’ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھر میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ فرماتے ہیں دیکھو اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھرالگ۔‘‘(حقائق الفرقان صفحہ233)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو نصیحت فرما تے ہیں:’’پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھر وں میں ہر وقت لڑائیا ں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ،بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے۔ لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اکٹھے رہ کر اگر مزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے۔تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے۔ تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں….

تو دیکھیں یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی۔ تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

’’بعض گھروں میں اس لئے فساد اور لڑائی جھگڑا ہوتا ہے کہ لڑکی بیاہ کر جب رخصت ہوتی ہے تو خاوند کے پاس علیحدہ گھر نہیں ہوتا اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہا ہوتا ہے۔ اس میں بعض حالات میں تو مجبوری ہوتی ہے کہ لڑکے کی اتنی آمدنہیں ہے کہ وہ علیحدہ گھر لے سکے یا لڑکا ابھی پڑھ رہا ہے تو مجبوری ہے اور لڑکی کو بھی پتا ہونا چاہئے کہ لڑکے کی آمد یا مجبوری کی وجہ سے علیحدہ گھر لینا مشکل ہے تو پھر ایسے حالات میں کچھ عرصہ وہ سسرال میں گزارہ کرے۔ لیکن بعض دفعہ لڑکی اور اس کے والدین جلدبازی کی وجہ سے رشتے ہی تڑوا دیتے ہیں۔ شادی بھی ہو گئی اور پھر خلع لے لی۔ یہ غلط طریقہ کار ہے۔ اگر سسرال میں نہیں رہ سکتے تو پہلے بتائیں اور پھر اتنی جلدی شادی نہ کریں کیونکہ لڑکے والوں کے حالات ایسے نہیں ہیں۔ لیکن بعض لڑکے اپنی غیر ذمہ دارانہ طبیعت یا ماں باپ کے کہنے پر، ان کے دباؤ پر ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں حالانکہ علیحدہ گھر لے سکتے ہیں اور بہانہ ہے کہ ماں باپ بوڑھے ہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ رہنا ضروری ہے جبکہ دوسرے بھائی بہن بھی والدین کے ساتھ ہوتے ہیں یا پھر اگر وہ نہ بھی ہوں تو والدین کی عمومی صحت اور حالت ایسی نہیں ہے کہ وہ علیحدہ نہ رہ سکتے ہوں۔ ا س میں صرف لڑکے کے ماں باپ کی ضد ہوتی ہے….

پس سوائے کسی مجبوری کے گھر الگ ہونے چاہئیں۔ گھروں کی علیحدگی سے جہاں ساس بہو اور نند بھابھی کے مسائل ختم ہوں گے وہاں لڑکے اور لڑکی کو اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہو گا۔یہاں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگ اپنی لڑکیوں کے رشتہ سے پہلے لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ اس کا اپنا گھر ہے یعنی گھر کا مالک ہے۔ اس کے پاس اس گھر کی ملکیت ہے۔ اگر نہیں تو رشتہ نہیں کرتے۔ یہ طریق بھی بڑا غلط طریقہ کار ہے۔ پس دنیاوی لالچ کی بجائے لڑکی والوں کو لڑکے کا دین دیکھنا چاہئے۔ گھر تو آہستہ آہستہ بن ہی جاتے ہیں اگر گھر میں پیار محبت ہو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍ نومبر 2007ء)

بیوہ کو شادی کرنے کا حق ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’عورت اگر بیوہ ہوجائے اور شادی کے قابل ہو اور اس کا ہم کفو مل جائے، مناسب رشتہ مل جائے، معاشرے میں جو اس عورت کا مقام ہے اس کے مطابق ہو خاندانی لحاظ سے اپنے رہن سہن کے لحاظ سے ہم مزاج ہو عورت کو پسند بھی ہو تو پھر رشتہ دار اس سلسلہ میں روکیں نہ ڈالیں بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس کو جلد از جلد بیاہ دو۔ اس سے بھی پاک معاشرے کا قیام ہوگا۔ اور عورت بھی بہت سی باتوں سے جو بیوہ ہونے کی وجہ سے اس کو معاشرے کی سہنی پڑتی ہیں بچ جائے گی۔ پھر بیوہ کو خود بھی اختیار دیا گیا ہے کہ خود بھی وہ جائز طور پر رشتہ کرسکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔ یہ بھی اس لئے ہے کہ وہ اپنے آپ کو تحفظ دے سکے….

معاشرے اور عزیز رشتے داروں کو یہ حکم ہے کہ اگر کوئی شادی کی عمر میں بیوہ ہو جاتی ہے تو تم لوگ اس کے رشتے کی بھی اسی طرح کوشش کرو جیسے باکرہ یا کنواری لڑکی نوجوان لڑکی کے رشتے کے لئے کوشش کرتے ہو۔ یہ تمہاری بے عزتی نہیں ہے بلکہ تمہاری عزت اسی میں ہے۔ دوسری بات کہ اگر کوئی عمر کی زیادتی کی وجہ سے یا بچوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے یا اپنے بعض اور حالات کی وجہ سے یا کسی بیماری کی وجہ سے شادی نہ کرنا چاہے تو یہ فیصلہ کرنا بھی اس کا اپنا کام ہے۔ تم ایک تجویز دے کے اس کے بعد پیچھے ہٹ جاؤ۔ رشتہ کروانے کے لئے، نہ کہ رشتہ روکنے کے لئے۔ رشتہ کرنا یا نہ کرنا یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا۔ اس کا اپنا حق ہے اس کو بہر حال مجبور نہ کیا جائے۔ پھر یہ کہ معاشرے کو رشتہ داروں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ زبردستی کسی بیوہ کو ساری عمر بیوہ ہی رکھیں یا اس کو کہیں کہ تم ساری عمر بیوہ رہو۔ اگر خود اپنی مرضی سے کوئی شادی کرنا چاہتی ہے تو قرآنی حکم کے مطابق اسے شادی کرنے دو۔ کسی بیوہ کو شادی سے روکنا بھی بڑی بیہودہ اور گندی رسم ہے اور اس کو اپنے اندر سے ختم کرو۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ دسمبر 2004ء خطبات مسرور صفحہ926)

بیوہ کو ایک سال تک خاوند کے گھر میں رہنے کا حق ہے

اللہ تعالیٰ نے بیوہ کا ایک مدت تک اپنے خاوند کے گھر میں رہنے کا حق قائم کر دیا۔ عورت کے بارے میں یہ تو حکم ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر میں بیوگی کی صورت میں اپنی عدت پوری کرے جو 4ماہ 10دن تک ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک سال تک رہ سکتی ہے اگر وہ چاہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا رجحان رکھتے تھے اور اس سے یہ استنباط کرتے تھے کہ عدّت کی مدت کے علاوہ جو چار ماہ دس دن ہے، ایک سال کی اجازت ہے۔ آپ کا یہ رجحان تھا کہ عورت کو جتنی زیادہ سے زیادہ سہولت دی جا سکتی ہے اس آیت کی رُو سے دینی چاہیے۔ بعض دفعہ جب جائیداد کی تقسیم ہو تو اگر مرنے والے کا مکان ہو تو جو مکان ورثے میں چھوڑ کر جاتا ہے وہ اگر کسی اور کے حصے میں آ گیا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تب بھی وہ صبر کرے اور ایک سال تک عورت کو تنگ نہ کرے، بیوہ کو تنگ نہ کرے۔ کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی یہ لکھا ہے اور آج بھی یہ اسی طرح ہو رہا ہے کہ اگر مثلاً عورت کے اولاد نہیں ہے یا کسی کے دو بیویاں ہیں یا تھیں تو پہلی بیوی کی اولاد یا اگر عورت کے اولاد نہیں تو مرد کے والدین یا اور دوسرے رشتہ دار، بیوہ، جس کے حصے میں مکا ن کی جائیداد نہ آئی ہو، اسے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک سال تک اس کا حق ہے اور کسی وارث کا حق نہیں بنتاکہ اس معاملے میں بیوہ پر دباؤ ڈالا جائے اور اسے تنگ کیاجائے۔(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 7؍دسمبر2007ء صفحہ5تا8)

بیوی کی کمائی پر اس کا حق ہے

’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی کرتے ہوئے عورتوں کا ورثہ لو۔ اور انہیں اس غرض سے تنگ نہ کرو کہ تم جو کچھ انہیں دے بیٹھے ہو اس میں سے کچھ (پھر) لے بھاگو، سوائے اس کے کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوئی ہوں۔ اور ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اور اگر تم اُنہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔‘‘(النسا:20)

پریشانیوں کا حل دعا اوراستغفار

جون2012ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوسائٹی میں، اپنے گھر میں، اپنے سسرال والوں کے ساتھ اور اپنے ماحول میں بے چینیوں اور پریشانیوں کا حل بھی بتایا کہ استغفار کرنے اور لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پڑھنے سے دور کی جاسکتی ہیں۔(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍ اگست2012ء)

حرف آخر

خلفائے کرام کے ہر خطاب میں جماعت کا ہر فرد مرد ہو یا عورت مخاطب ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین کو الگ سے خطاب کرکے ان کے حقوق و فرائض بھی سمجھاتے ہیں۔ الازہار لذوات الخمار کی جلدیں۔ حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ۔ عائلی مسائل اور ان کا حل خواتین کی راہنمائی کے لیے ہیں۔ اتنی اہمیت اس لیےدی گئی کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں خواتین بہترین کردار ادا کرسکیں۔ مستقبل احمدیت کا ہے۔ اور خواتین نے اس کے معمار تیار کرنے ہیں۔ ان شاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جامع دعا

’’اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا۔ اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقیناًتُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔‘‘(سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب التشہد حدیث 969)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button