مضامین

حضرت مسیح و مہدی علیہ السلام کی بعثت کی غرض۔احیائے دین اور قیامِ شریعت

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

تقریر جلسہ سالانہ یوکے2022ء

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اسلام کو ایک نئی زندگی عطا فرمائی۔

آپ نے زندہ خداکی زندہ اورایمان افروزتجلیات کے نشانات دکھا کر اسلام کی عظمت کو فروزاں کیا

یہ موضوع ہم سب کے لیے بہت گہرا اور علمی موضوع ہے جو بہت توجہ سے پڑھنے اور سمجھنے کے لائق ہے۔ یاد رہے کہ احیائے دین اور قیام شریعت کے حوالے سے یحی الدینَ و یقیم الشریعۃ َکے الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ کو تین بار الہاماً عطا ہوئے۔ ایک موقع پر آپ نے اس کا اردو ترجمہ اس طرح فرمایا ہے: ’’زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو۔‘‘(براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ590)یاد رہے کہ اس الہام الہٰی میں حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا جومقصد بیان کیا گیا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث میں بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آنے والے مسیح اور مہدی کے بارہ میں فرمایا:یقیم الناسَ علی مِلّتی وَ شریعتی ویدعوھم الی کتاب اللّٰہ عزوجل(بحار الانوار جلد 51صفحہ 73)کہ وہ لوگوں کو میرے دین اور میری شریعت پر قائم کرے گا۔ اور کتاب اللہ عزوجل (قرآن مجید) کی طرف دعوت دے گا۔حضرت مسیح و مہدی علیہ السلام نے اپنی بعثت کے مقاصد خود بھی بیان فرمائے ہیں۔ یہ ہماری بہت خوش قسمتی ہے کہ آپ نے خود اس بارہ میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔چند منتخب حوالے پیش کرتا ہوں جن سے اس موضوع کی وسعت، گہرائی اور اہمیت کا علم ہوتا ہے۔آپؑ نے فرمایا:’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں….سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد13صفحہ291-293)پھر فرمایا:’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا مَیں حِلم اور خُلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہ راست پر چلاؤں۔‘‘(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ 143)آپ مزید فرماتے ہیں:’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں۔‘‘(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ 180)پھر فرمایا:’’میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کے ساتھ خدا کی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں۔‘‘(ضمیمہ رسالہ جہاد صفحہ 1-8)مزید فرمایا:’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا اُن سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘(رسالہ الوصیت ،روحانی خزائن جلد20صفحہ 306-307)پھر آپؑ فرماتےہیں :’’مَیں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو۔ وہ ایک مخفی خزانے کی طرح تھا مگراب اُس نے مجھے بھیج کر ارادہ کیا کہ تمام دہریوں اور بے ایمانوں کا مُنہ بند کرے جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد 22صفحہ 619-620)آپؑ مزید فرماتے ہیں:’’مَیں وہی ہوں جو وقت پر اصلاح ِ خلق کے لئے بھیجا گیا تا دین کو تازہ طور پر دلوں میں قائم کردیا جائے۔‘‘(فتح اسلام روحانی خزائن جلد3 صفحہ7)پھر آپؑ مزید فرماتے ہیں:’’میں اخلاقی و اعتقادی و ایمانی کمزوریوں اور غلطیوں کی اصلاح کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘(اربعین روحانی خزائن جلد17صفحہ 343)مزید فرمایا:’’میں اس لئے آیا ہوں تا لوگ قوتِ یقین میں ترقی کریں۔‘‘(ملفوظات جلد اول صفحہ 1)پھر آپؑ نے فرمایا:’’خدا نے مجھے مامور کیا ہے تا کہ میں دنیا کو دکھلادوں کہ کس طرح پر انسا ن اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ52)ایک اور جگہ فرمایا:’’خدا ئےتعالیٰ نے اس غرض سے اس عاجز کو بھیجا ہے کہ تا روحانی طور پر مردے زندہ کئے جائیں۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ103)بعثت کے ان جامع اور وسیع مقاصدِ عالیہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں ایک عالمگیر اور روحانی انقلاب برپا کرنے کے لیے بھیجا۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ ان مقاصد کی خاطر وقف کردیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ اس مقدس جہاد میں کامیاب و کامران ہوئے۔احیائے دین اسلا م اور قیامِ شریعت اسلامیہ کا یہ مقدس سفر کیسے شروع ہوا اور کس طرح تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ آئیے اس ایمان افروز سفر کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

19 ویں صدی عیسوی کے آخر میں عیسائیت ساری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔بالخصوص ہندوستان میں عیسائی مَنّادوں کی یلغار اپنے عروج پر تھی۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ ایک دن وہ خانہ کعبہ پر بھی عیسائیت کا پرچم لہرادیں گے۔ نعوذباللہ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر جوش میں آئی۔ قادیان کی بستی سے ایک نفسِ پاک کا انتخاب ہوا۔ فرشتوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ ھذا رجل یحبّ رسولَ اللّٰہ کہ یہ ہے وہ مقدس وجود جو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم کا عاشق زار ہے اور یہی ہے جو اسلام کا بہترین دفاع کرتے ہوئے اسلام کو ساری دنیا میں فتح یاب کرسکتا ہے۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے پُرسوز دعاؤں سے احیائے اسلام کے مقدس جہاد کا آغاز فرمایا۔ یہ ایسی دعائیں تھیں جن میں ہم سب کے آقا رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی غارِ حراہ میں کی جانے والی دعاؤں کی جھلک پائی جاتی تھی۔ درد بھرے دو اشعار سے آپ کی اس کیفیت کا اندازہ لگائیے:

میرے آنسو اس غمِ دل سوز سے تھمتے نہیں

دیں کا گھر ویراں ہے اور دنیا کے ہیں عالی منار

دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعفِ دینِ مصطفٰے

مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار

خدائے ذو العرش نے آپ کی ان عاجزانہ دعاؤں کو قبول فرمایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا یہ محافظ اللہ تعالیٰ کی غالب نصرت کی برکت سے مذہبی دنیا پر چھا گیا۔ اسلام کے جسدِ بے جان میں زندگی پڑ گئی۔ عیسائی مَنّاد اور دیگر مذاہب کے مذہبی راہنما بھی میدان مقابلہ سے بھا گنے لگے۔ آپؑ نے سب مخالفین کو نشان نمائی کے مقابلہ کی دعوت دی لیکن نتیجہ کیا ہُوا ؟آپؑ فرماتے ہیں :

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند

ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیت کےبنیادی عقائد، ابنیّت مسیح، الوہیت مسیح، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیبی موت اور کفّارہ کے عقائد کی زوردار براہین سے تردید فرمائی۔ آپؑ نے ان موضوعات پر کتب بھی لکھیں اور عیسائیوں سے مناظرات بھی کیے۔

اس طرح کسر صلیب کی پیشگوئی کا معجزاتی ظہور آپ کے ذریعہ ہوا۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف آپ کے مخالف مسلمانوں نےبھی کیا۔ایک مثال عرض کرتا ہوں کہ نور محمد صاحب مالک اصح المطابع نے صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ وفاتِ مسیح ثابت کرنےسےمسیح موعودعلیہ السلام نے ’’ہندوستان سے لےکرولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی‘‘(دیباچہ معجزنماکلاں قرآن شریف صفحہ30)

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی دلی تڑپ اور تمنا تھی کہ ساری دُنیا میں اِسلام کا بول بالا اَورغلبہ ہو۔ یہ سوچ اَورفکرآپؑ کوہمیشہ دامن گیر رہتی۔ دن رات غلبۂ اسلام کی دعاؤں سے آپ کی زبان تر رہتی۔ آپ کے اِس بے تاب جذبے کااَندازہ اس ایمان افروز روایت سے ہوتا ہے جو حضرت مفتی محمدصادق ؓ کی بیان کردہ ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے پاس کمرہ میں بیٹھے تھے۔حضورؑ ایک کتاب کی تصنیف میں مصروف تھے۔ دَروازے پرکسی شخص نے خوب زوردَار دستک دی۔ آپؑ نے مجھے اِرشاد فرمایا کہ جاکرمعلوم کروں کہ کون ہے اور کِس غرض سے آیا ہے؟ میں نے دروازہ کھولا تودستک دینے والے نے بتایا کہ مولوی سیّد محمد احسن امروہوی نے بھجوایا ہے کہ حضورؑ کی خدمت میں یہ خوشخبری عرض کی جائے کہ آج فلاں شہرمیں اُن کا ایک غیراحمدی مولوی سے مناظرہ ہوا اور اُنہوں نے اُس مولوی کوشکستِ فاش دی۔اُس کوبہت رگیدا اَوروہ مولوی بالکل لاجواب ہوگیا ! حضرت مفتی صاحب ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں نے یہ سارا پیغام مِن وعَن حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا توحضورسُن کرمسکرائے اَورفرمایاکہ اُن کے اِس طرح زوردَار دَروازہ کھٹکھٹانے اَورفتح کااِعلان کرنے سے مَیں یہ سمجھا تھا کہ شائد وہ یہ خبرلائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہوگیا ہے! (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ289-290)

احیائے دین کا جذبہ

اس حوالے سے ایک اور واقعہ پیش کرتا ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں احیائے دین کا جذبہ بے انتہا تھا۔ حضرت مولوی فتح الدین صاحب ؓ نے ایک رات آپ کو سخت درد کی وجہ سے نہایت کربناک حالت میں دیکھا۔ صبح اس کا ذکر حضور سے کیا تو آپؑ نے فرمایا:’’ میاں فتح الدین! کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟‘‘

پھر فرمایا:’’اصل بات یہ ہے جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے اور جو جو مصیبتیں اس وقت آرہی ہیں ان کا خیال آتا ہے تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے اور یہ درد ہے جو ہمیں اس طرح بےقرار کر دیتا ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دن رات کا بھرپور جہاد احیائے اسلام اور اقامتِ شریعت کا مضمون بہت وسیع، گہرا اور دقیق ہے۔مختصر الفاظ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اسلام کو ایک نئی زندگی عطا فرمائی۔ آپ نے زندہ خداکی زندہ اورایمان افروزتجلیات کے نشانات دکھا کر اسلام کی عظمت کو فروزاں کیا۔مسلمانوں میں مروّجہ غلط عقائد کی پُرزور اور مدلّل تردید فرمائی۔ 30قرآنی آیات سے وفاتِ مسیح علیہ السلام ثابت کی۔ اور صحیح اسلامی عقائد کو ایک جلالی عظمت اور شان کے ساتھ پیش فرمایا۔ اپنے دو طرفہ مشن یعنی احیائے دینِ اسلام اور قیامِ شریعتِ اِسلامیہ کو خدائی تائید و نصرت سے ساری دنیا پر آشکار فرمایا اور حقیقی اسلام کی روشن تعلیم پر عمل کرنے والی حقیقی مومنوں کی عالمگیر جماعت احمدیہ قائم فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے سایہ میں اب تک دنیا کے 213 ملکوں میں مستحکم بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ایک شجرۂ طیبہ کی طرح ساری دنیا میں بڑی سرعت سے ترقی پذیر ہے۔ بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ آج عالَم احمدیت پر سورج کبھی بھی غروب نہیں ہوتا !

جل رہا ہے سارا عالَم دھوپ میں بے سائباں

شکرِ مولیٰ کہ ہمیں یہ سایۂ رحمت ملا

الحمد لِلّٰہ علی ذالک۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ذریعہ احیائے دین اور قیام شریعت کے حوالے سے آپ کی دن رات کی مساعی اور زندگی کے آخری مرحلہ تک بے لوث خدمات کا تذکرہ ایک ناپیدا کنار سمندر کی مانند ہے۔ چند امور اشارۃً ذکر کرتا ہوں۔

حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی فضیلت اور عظمت بیان کرتے ہوئے قریباً 90 کتابیں تحریر فرمائیں جو 23 جلدوں میں روحانی خزائن کے نام سے شائع شدہ ہیں۔ ان میں سے بہت سی کتب کے تراجم دنیا کی متعدد زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ آپ کی مبارک زبان سے جاری ہونے والے پر حکمت کلمات، ملفوظات کی دس جلدوں میں شائع شدہ ہیں اور علم و حکمت کا ایک وسیع ذخیرہ ہیں۔ یہ ذخائر مسلمان کہلانے والوں کے لیے بھی روحانی مائدہ ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی شمع ہدایت کا کام دے رہے ہیں۔ آپ کا یہ روحانی ورثہ ابد الآباد تک احیائے دین اور قیام شریعت کا زندہ جاوید ورثہ ہے جسے انصاف پسند قارئین ہمیشہ سراہتے رہے ہیں۔ اس علمی خزانے کے بارے میں خود آپ نے فرمایا:

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امید وار

جماعت احمدیہ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بَعثت کے اغراض و مقاصد کو دوام عطا کرنے کے لیے جب اذنِ الٰہی سے جماعت قائم کرنے اور اس غرض سے بیعت کا آغاز فرمایا تو اوّلین بیعت کرنے والوں کے ناموں کے اندراج کے لیے ایک رجسٹر بنوایا اور اس پر یہ الفاظ لکھوائے:

’’بیعت توبہ برائے حصولِ تقوی و طہارت‘‘

یہ الفاظ آپ کی بعثت اور جماعت کی غرض و غایت کی خوب وضاحت کرتے ہیں۔ پھر آپ نے بیعت کے لیے جو دس بنیادی شرائط مقرر فرمائی ہیں وہ تو ساری کی ساری اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور خلاصہ ہیں۔ یہی دس شرائط ہیں جو جماعتِ احمدیہ کی بنیاد ہیں۔ اور انہی شرائط کی پابندی سے مسیح ِپاک علیہ السلام کی آمد کے بنیادی مقاصد، احیائے دین اور قیامِ شریعت کی تکمیل ہوتی ہے۔

ایک اعتراف

برِ صغیرکی مشہور علمی شخصیت، علامہ نیاز فتح پوری نے حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے قائم کی جانے والی احمدیہ جماعت کے اعلیٰ مومنانہ کردار کو سراہتے ہوئے جو تبصرہ کیا وہ یاد رکھنے کے لائق ہے۔

آپ نے لکھا:’’ اس میں کلام نہیں کہ انہوں نے یقیناً اخلاقِ اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا دی جس کی زندگی کو ہم یقیناً اُسوہ نبی کا پَر تَو کہہ سکتے ہیں۔‘‘(رسالہ نگار لکھنؤ ماہ نومبر 1959)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا دوسرا مقصد قیام ِشریعت تھا۔اس سلسلے میں آپ نے احکامِ شریعت کے حوالے سے سب سے پہلے خود اپنا عملی نمونہ پیش فرمایا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آپ کےاس پاک نمونہ کو دیکھ کر آپ کے جاں نثار متبعین نے بھی اسی اسلوب کو اپنایا اور قیام ِشریعت کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔

قیامِ شریعت کے حوالہ سے حضرت مسیحِ پاک علیہ السلام کے بابرکت نمونہ پر نظر کرتے ہیں۔ نمونتاًچند مثالیں عرض کرتا ہوں :

1) سیالکوٹ میں قیام کے دوران جب آپ کچہری سے گھر واپس تشریف لاتےتو دروازے میں داخل ہونے کے بعد دروازے کو پیچھےمڑ کر بند نہیں کرتے تھےتا کہ گلی میں اچانک کسی غیر محرم پر نظر نہ پڑجائے۔بلکہ دروازے میں داخل ہوتے ہی دونوں ہاتھ پیچھےکرکے پہلے درواز ہ بند کر لیتے اور پھر پیچھے مڑ کر زنجیر لگایا کرتے تھے۔ (حیات طیبہ صفحہ 20)

2) ایک دفعہ آپ گورداسپور تشریف لے گئے۔سخت گرمی کا موسم تھا۔آپ کے لیے مکان کی چھت پر چارپائی بچھاکر بسترتیار کیاگیا۔ آپ نے بستردیکھا تو اس طرح پیچھے ہٹےجس طرح کوئی خطر ناک چیز سے ڈرکرپیچھے ہوتاہے۔فرمایا میں ہرگز ہرگزاس جگہ سو نہیں سکتا کیونکہ رسول کریم صلی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس چھت پر منڈیر نہ ہو اس پر سونا نہیں چاہیے۔چنانچہ حضور علیہ السلام غضب کی گرمی کے باوجود اندر کے کمرے میں سو گئے۔(اصحاب احمد جلد پنجم ص563)

3) نمازوں کے وقت پراداکرنےکا یہ حال تھا کہ عدالت میں مقدمات کی کارروائی کے دوران بھی کبھی کوئی نماز قضا نہیں ہونے دیتے تھے۔کچہری میں عین نماز کا وقت آجاتا تو آپ کمال محویت اور ذوق و شوق سے نمازمیں مصروف رہتے۔ سیر کے دوران نماز کا وقت ہو جاتا تو راستہ میں ہی احباب کے ساتھ وقت پر نماز باجماعت ادافرماتے۔(سیرت المہدی جلد 3صفحہ 34)

4) سوئے ہوئے آدمی کو نماز کے لیے بیدار کرتے وقت ہمیشہ آپ پانی کے ہلکے ہلکےچھینٹوں سے جگایا کرتے تھے۔وجہ پوچھی گئی تو فرمایا: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقِ مبارک تھا اور میں اسی پر عمل کرتا ہوں۔(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ120)

قیام شریعت کے حوالے سے یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی ہیں۔

اب ذرا دیکھیں کہ آپ کے متبعین نےکس وفاداری سے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا اور اپنی زندگیوں میں قیامِ شریعت اور پاک تبدیلیوں کے شاندار نمونےپیش کیے۔اپنے اعمال سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ مسیح ِزماں کے سچے مطیع اور جاں نثار ہیں۔

1) حضرت مسیح موعود علیہ السام ایک دفعہ مسجد اقصیٰ قادیان میں لیکچر دے رہے تھے کہ بابا کریم بخش صاحب سیالکوٹی کسی کام کے لیے باہر گئے۔ واپس آرہے تھے کہ حضورؑ کے یہ الفاظ ان کے کانوں میں پڑے کہ بیٹھ جاؤ۔ یہ الفاظ حضورؑ نے مسجد کے اندر موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر فرما ئے تھے۔لیکن کریم بخش صاحب الفاظ سنتے ہی فوراً بازار میں بیٹھ گئےاور بیٹھے بیٹھے مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں پر پہنچے اور حضورؑ کی تقریرسنی۔

اتباع ِشریعت کی دو اور مثالیں پیش کرتا ہوں :

2) ایک دفعہ نماز کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مسجد سے باہر تشریف لے جانے لگے تو دروازے کے قریب ایک صاحب نماز ادا کر رہے تھے حضورؓ فوراً وہاں کھڑے ہو گئےاور جب تک وہ صاحب نماز پڑھتے رہےآپ وہیں کھڑے رہےاور نمازی کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد تشریف لے گئے۔

3) سیر الیون کے علی روجرز صاحب نے احمدیت قبول کی تو اُس وقت وہ نوجوان تھےاور ان کی بارہ بیویاں تھیں۔ جماعت کے مربی مولانا نذیر احمد علی صاحب نے انہیں فرمایا کہ اب آپ احمدی ہو چکے ہیں اس لیےقرآنی تعلیم کے مطابق صرف چار بیویاں رکھ سکتے ہیں۔باقی کو طلاق اور نان نفقہ دے کر رخصت کر دیں۔انہوں نے نہ صرف اس ہدایت پر فوراًعمل کیابلکہ مربی سلسلہ کے کہنے پرادھیڑعمر کی چار بیویاں اپنے پاس رکھیں اور نوجوان بیویوں کو رخصت کر دیا۔

یہ چند مثالیں کس خوبصورتی سے واضح کرتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اور آپ کے وفاشعار متبعین نے احیائے دین اور اقامتِ شریعت کے لیےکیسے کیسے ایمان افروز نمونے قائم فرمائے ہیں۔اور یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی جاری و ساری ہے۔

خدمات کا اعتراف

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری زندگی احیائے دین اور قیام شریعت کی خاطر فقید المثال مسلسل جہاد فرمایا۔اس کا ایک مختصرخاکہ آپ کے سامنے رکھا ہے۔ یقیناًاس مختصر ذکر سے اِس کا پورا حق تو ادا نہیں ہوسکتا۔ ہاں اس کاکچھ اندازہ ان بے لوث بیانات سے بھی ہو سکتا ہے جن کا اظہار آپ کی رحلت پر غیر از جماعت انصاف پسند لوگوں کی طرف سے ہوا۔کسی نے کیا خوب کہا ہے:والفضل ما شھدت به الاعداء۔کہ خوبی وہی ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کریں۔

اس اعتراف ِحق کے چند حوالے پیش کرتا ہوں:

٭…براہین احمدیہ کی اشاعت پر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے ہمیشہ مخالفت کر نےکے باوجود لکھا:’’میری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی‘‘

٭…اسلامی اصول کی فلاسفی کے مشہور لیکچر کے بعد اخبار جنرل و گوہر آصفی نے لکھا:’’حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے اس میدان مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پورا حق ادا فرمایا… یہ مضمون سب پر بالا رہا‘‘

٭…اخبار وکیل امرتسر نے آپ کی وفات پر لکھا: ’’بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو‘‘

اخبار نے آپ کو فتح نصیب جرنیل کا خطاب بھی دیا۔ نیز لکھا:’’مرزا صاحب کی خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبارِ احسان رکھے گی‘‘

٭…اخبار البشیر نے لکھا:’’اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت اقدس اس زمانہ کے نامور مشاہیر میں سے تھے‘‘

٭…کرزن گزٹ دہلی نے لکھا:’’کسی بڑےسے بڑے آریہ اور بڑےسے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا‘‘

٭…پائونیر الہ آباد نے لکھا:’’ قادیان کا نبی ایک ایسا انسان تھا جو ہر روز دنیا میں نہیں آیا کرتے‘‘

٭…تہذیب نسواں رسالہ نے لکھا:’’وہ نہایت با خبر عالِم،بلند ہمت، مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھا‘‘

٭…صادق الاخبار نے لکھا:’’ واقعی مرزا صاحب نے حق حمایتِ اسلام کا کما حقّہ ادا کر کے خدمتِ دینِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا‘‘

یہ چند اعترافات بطور نمونہ پیش کیے ہیں جن سے غیروں کی زبان سے مسیحِ پاک علیہ السلام کی عظمتِ شان اور خدماتِ دینیہ کا برملا اعتراف خوب کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

مضمون کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت اور پُر حکمت ارشادات میں سے ایک ارشاد پیش کرتا ہوں جو ہم سب کو بیدار کرنے کے لیے بہت کافی ہونا چاہیے۔

بہت توجہ سے پڑھنے والا اور ہمیشہ یاد رکھنے والاارشاد ہے ۔آپؑ فرماتے ہیں:’’یاد رکھو ہماری جماعت اس بات کے لیے نہیں ہے جیسے عام دنیا دار زندگی بسر کرتے ہیں۔نِرا زبان سے کہہ دیا کہ ہم اس سلسلہ میں داخل ہیں اور عمل کی ضرورت نہ سمجھی۔ میں تم سے یہ نہیں چاہتا کہ صرف زبان سے ہی اقرار کرو اور عمل سے کچھ نہ دکھاؤ۔ یہ نکمی حالت ہے۔خدا تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا۔اور دنیا کی اس حالت نے ہی تقاضا کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اصلاح کے لیے کھڑا کیا ہے۔پس اب اگر کوئی میرے ساتھ تعلق رکھ کر بھی اپنی حالت کی اصلاح نہیں کرتا اور عملی قوتوں کو ترقی نہیں دیتا بلکہ زبانی اقرار ہی کو کافی سمجھتا ہے۔وہ گویا اپنے عمل سے میری عدمِ ضرورت پر زور دیتاہے۔پھر تم اگر اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میرا آنا بے سود ہے،تو پھر میرے ساتھ تعلق کرنے کے کیا معنے ہیں؟میرے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہو تو میری اغراض و مقاصد کو پورا کرو۔یاد رکھو کہ وہ جماعت جو خدا تعالیٰ قائم کرنی چاہتا ہے۔وہ عمل کے بدوں زندہ نہیں رہ سکتی۔ پس اس کی قدر کرو اور اس کی قدر یہی ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ اہلِ حق کا گروہ تم ہی ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 370تا371)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان ارشادات پر واقعی طور پر عمل کرنے کی توفیق اور سعادت عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button